ابن محمد جی
محفلین
مسلک اہلحدیث اورتصوف واحسان
علم تصوف وسلوک ایک حقیت ہے ،اور کسی بھی حقیقت سے کوئی بھی منصف مزاج اور سلیم الفطرت شحص انکار نہیں کر سکتا۔علم سلوک کی اہمیت وافادیت اس قدر مسلمہ ہے کہ امت میں بڑے بڑے نامور لوگوں نے اسکو احتیار کیا ہے،اور اس دور سے پہلے امت میں کوئی ایسا گروہ پیدا نہیں ہوا ،جو مطلق تصوف کا انکاری ہو،مگر اس قحط الرجال کے دور میں ایسے ناعاقبت اندیش لوگ موجود ہیں جو نہ صرف علم سلوک سےانکاری ہیں بلکہ ان مقدس ہستیوں کوبرا بھلا کہنے سے بھی نہیں چونکتے۔یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جس چیز کی جتنی زیادہ اہمیت ہوتی ہے،وہ شئے اتنی ہی نایاب ،اور اسکی نقل بھی اتنی ہی عام ہوتی ہے،تصوف وسلوک کے معاملہ میں بھی یہی کچھ ہو۔ یہ جتنی نایاب اور عظیم دو لت تھی،اتنی ہی اسکی نقل بھی تیار ہوئی،اس لیے ہر عہد میں جہاں علماء نے تصوف وسلوک کی اہمیت و افادیت کو واضح کیا،وہاں پر تصوف و سلوک کے نام پر پیدا ہونے والی بدعات وخرافات کا بھی سختی سے رد کیا۔
تصوف اسلامی کی اصل دشمن غیر مسلم قوتیں ہیں جو کہ اس بات کو اچھی طرح جانتی ہیں،کہ اگر تصوف اسلامی عالم اسلام میں رائج ہو گیا تو پھر یہ سویا ہوا شیر بیدار ہو جائے گا،اس لیے باقاعدہ جس طرح نقلی علماء تیار ہوئے،بالکل اسی طرح نقلی صوفیاء بھی تیار ہوئے،اور پھر انکےمقابلے میں ایسے لوگ کھڑے ہوئے ، جو اصل اور نقل میں فرق نہیں کر سکتے تھے،پھر ایسے نا معقول لوگ بلا دھڑک تصوف اسلامی پر بھی لعن طعن کرتے ہیں،اور یوں تصوف اسلامی کو عوام ں پنپنے سے روکنے کی لاحاصل سعی کرتے ہیں۔
مسلک اہلحدیث اپنے مخصوص انداز کی وجہ سے اس پراوپگنڈے کا سب سے زیادہ شکار ہوا،اور اس عہد کی نئی پود تونہ صرف تصوف سلوک سے نابلد ہے،بلکہ تصوف اسلامی کی سخت مخالف بھی ہے،اور افسوس یہ ہے کہ یہ مخالفت کوئی علمی بنیادوں پر نہیں بلکہ کھلی جہالت اور ضد پر ہے،ورنہ اس عہد میں جسے ہم مسلک اہلحدیث کہتے ہیں،اگر اس مسلک کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو اکابرین اہلحدیثؒ کی ایک طویل فہرست نظر آتی ہے،جو اپنے وقت کے صاحب کشف وکرامات اور صاحب نسبت صوفی بزرگ تھے۔
پروفیسر محی الدین (روز نامہ اوصاف) کی ر ائے:۔ معروف کالم نگارپروفیسر محی الدین(روزنامہ اوصاف) میں لکھتے ہیں:۔
’’ عام طور پر اہلحدیث جن کو غیر مقلد کہا جاتا ہے ،اور جو وہا بی کے نام سے بھی پکارے جاتے ہیں ،انکو تصوف اور روحانیت سے نابلد کہہ کر روحانیت اور تصوف کے مخالف بتائے جاتے ہیں ،مگر یہ بات ان پر تہمت ہے،عملاً حقیقت اس سے بالکل مختلف ہے۔غزنو ی علماء اکرام تصوف اور روحانیت سے گہرا شغف رکھتے تھے،روحانی سلسلہ کے آخری مدارج طے کرنے والے پروفیسر ابوبکر غزنوی تھے،جو داتادربار کیساتھ بالکل ساتھ ہی اہلحدیث مدرسہ کے منتظم بھی تھے ،اور شیش محل روڈ پر واقع مدرسے کے حال میں خطبہ جمعہ دیا کرتے تھے،آپ کے خطبہ میں اکثر اہل علم ،دانشور اورو کلاء آتے تھے۔پینٹ کوٹ پہنے والا یہ پروفیسر بہت بڑا صوفی اور روحانیت کی دنیا کا واضح کردار تھا،انکے آباؤ اجداد اسی تصوف پر کاربند تھا،جو شریعت کا پابند تھا۔مشرقی پنجاب میں لکھوی خاندان کو بڑی شہرت حاصل تھی ،مولانا حافظ محمد لکھوی نے پنجابی زبان میں تفسیرقران لکھی،اور انکی دوسری کتاب ’’حوالِ آخرت ‘‘ہے،اور بھی کچھ تصنیفات ہیں ،اور یہ سب روحانی ور دینی مفہوم کی پنجابی زبان میں ہیں ،یہ خاندان تصوف اور روحانیت پر کار بند رہا ہے‘‘۔
اکابرین اہلحدیثؒ کے ساتھ ایک بڑی زیادتی یہ ہوئی کہ اولاً تو انکی سوانحیات مرتب نہیں ہوئی ہیں ،اور جو مرتب کی گئی ہیں ،ان میں اکابرین اہلحدیثؒ کا جو تعلق تصوف وسلوک کیساتھ تھا ،اسے نہ صرف مبہم کر کے پیش کیا گیا،بلکہ ایک حد تک تو اسے پس پردہ کردیاگیاہے،اور یوں نئی پود کے پاس افراط وتفریط پر مبنی مولانا کیلانی صاحب کی’’ شریعت وطریقت ‘‘ تو آ گئی،مگر اکابرین ؒ کا تصوف اسلامی نہ آسکا۔
مولانا ابوالکلام احمد دہلوی کا اہم مکتوب اور مولانا محمد اسحاق بھٹی کا تبصرہ:۔عموماً علمی حلقوں میں یہ بات کہیں جاتی ہے کہ اکا برین اہلحدیث کا جو تعلق تصوف سلوک کیساتھ تھا ،وہ آج کے سلفی حضرات سے مخدوش ہو چکا ہے،گو کہ اس بات میں حقیقت ضرور ہے مگر پوری طرح اس بات سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا،کیونکہ روحانیت کا یہ سلسلہ اہل حدیث حضرات میں آج بھی کہیں ٹمٹماتا ہوا نظر آتا ہے معروف سوانح نگار مولا نا محمد اسحاق بھٹی نے ’’ تذکرہ مولاناغلام رسول قلعویؒ ‘‘ میں مولانا ابو الکلام احمد دہلوی کے ایک مکتوب کا ذکر کیا ہے،مولانا ابو الکلام احمد دہلوی صاحب دہلی میں رہتے ہیں ،استاذ الاساتذہ ہیں ،اور پرانے لوگوں میں سے ہیں ،اس خط میں تصوف کے متعلق مولانا ابو الکلام احمد دہلو ی صاحب لکھتے ہیں
’’سلفیوں کی بابت دشمنوں کی اڑائی ہوئی ہوائی ہے،کہ انھیں علمِ باطنی میسر نہیں ،وہ اہل ظواہر ہیں،طریقت نہیں جانتے ،صرف شریعت سے واقف ہیں ۔واشگافانہ الفاظ میں کہوں تو انکے نزدیک یہ لوگ تصوف سے نابلد ہیں ،میرا ارادہ ہے کہ ان خطوط کو شائع کر دوں(مولانا غلام رسول قلعویؒ کے مکتوبات کی طرف اشارہ ہے) اور اس پر ایک مبسوط مقدمہ لکھوں تا کہ دنیا با خبر ہو جائے کہ اہلحدیث کے یہاں علم طریقت و تصوف ہے،مگر وہ مبنی بر کتاب وسنت ہے ،اور اہل حدیث کو مطعون کرنے والوں کو بتایا جائے کہ
لذتِ بادہ ناصح کیا جانے
ہائے کم بخت تو نے پی ہی نہیں
ہمارے علم طریقت کی چاشنی کتاب وسنت کے مخلوطہ سے وجود میں آئی ، اوروں کے یہاں انحراف ہے اور زیع وضلالت۔ہداہم اللہ للصراط امستقیم۔(تذکرہ غلام رسول قلعوی صفحہ ۴۸)ہائے کم بخت تو نے پی ہی نہیں
اسی مکتوب پر تبصرہ کرتے ہوئے مولانا محمد اسحاق بھٹی لکھتے ہیں
’’مولانا ابولکلام احمد نے اہل حدیث کے علم تصوف اور علم طریقت کا جس انداز میں ذکر فرمایا ہے،وہ بالکل صیح ہے،اس باب میں مولانا کے جذبات قابل قدر ہیں ،انھیں اس موضعوں پر کھل کر لکھنا چاہئے،اور اہل حدیث علماء کی کرامات اور انکی قبولیت دعا کے واقعات کی تفصیل بیان کرنی چاہئے، اس سلسلے میں بہت عرصہ ہوا مولانا عبدالمجید سوہدریؒ مرحوم مغفور نے کچھ کام کیا تھا،( بھٹی صاحب کا یہ اشارہ کرامات اہلحدیث کی طرف ہے )اور بڑی عمدگی سے بعض اہلحدیث علمائے کرام کی کرامتوں کاتذکرہ فرمایاتھا،اصحابِ کرامات علمائےاہلحدیث کی اس فہرست میں انھوں نے حضرت سید عبد اللہ غزنویؒ ،مولاناغلام رسول قلعویؒ اور قاضی سیلمان منصورپوری رحہم اللہ کے اسمائے گرامی درج فر مائے ہیں‘‘۔
’’مولانا محمد اسحاق بھٹی صاحب’’برصغیرمیں علمائے اہلحدیث کی آمد‘‘میں فرماتے ہیں:۔
قدیم علمائے برصغیر میں سے شیخ فرید الدین پاک پتنؒ ،شیخ نظام الدین اولیاء ؒ ،شیخ حسین بن احمد ؒ بخاری جہاں گشت اوچ شریف ،حضرت مجدد الف ثانی ؒ شیخ احمد سرہندی،شیخ عبد الحق محدث دہلویؒ ،شیخ علی متقیؒ ،شیخ عبد الوہاب متقی ؒ ،حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ اور انکے فرزند گرامی ،مرزا مظہر جانجناں ؒ ،حضرت شاہ محمد اسحاق ؒ دہلوی،میاں سید نذیر حسین دہلویؒ ،امرتسر کے خاندان غزنویہ کے علمائے اکرام ،لکھوی خاندان کے علمائے عالی قدر ،روپڑی اصحاب علم،حضرت حافظ عبد المنان وزیر آبادی ؒ مولنا غلام رسول قلعویؒ قلعہ میہاں سنگھ والے وغیرہ بے شمار علمائے اہلحدیث نے علوم کی تشریح وا شاعت کیلئے بڑھ چڑھ کر خدمات حاصل کی۔رحم اللہ تعالیٰ‘‘۔(ص۳۶۶)
یوں تو فرقہ احمدیہ سے لیکر روافض تک سب اپنا تعلق صوفیاء عظام سے ظاہر کرتے ہیں ،مگر حقیقت یہ ہے کہ تصوف اسلامی صرف اور صرف اہلسنت ولجماعت میں ہے اور پاک وہند میں اکثر صوفیاء کا تعلق دو ہی مسالک( حنفی و اہلحدیث) سے ہے۔روا فض و قادیانی اور دیگر گمراہ بدعتی فرقوں میں نہ کوئی صوفی گزراہے،اور نہ ہی پیدا ہو سکتا ہے،کیونکہ اہل بدعت کے سینے اس نور کو قبول نہیں کر سکتے ،اس معاملہ اکثر لوگ (با وجہ لاعلمی) دھوکا کھا جاتے ہیں۔
اور یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ مسلک اہلحدیث اور اہل حناف جہاں علوم ظاہر وباطنی میں ایک ہی استاد ( شاہ ولی اللہؒ ) کے شاگرد کے ہونے کے ناطے سے ( فروعات کے اختلافات کے علاوہ)کوئی بڑا اختلاف نہیں رکھتے تھے،وہاں تصوف وسلوک کے مسلۂ پر دونوں مکتبہ فکر میں کسی قسم کا کوئی اختلاف نہیں تھا ،بلکہ دونون مکتبہ فکر کے اکابرینؒ کا تصوف سلوک سے گہرا تعلق وشغف تھا،اور یہ شخصیات کوئی معمولی درجہ کے لوگ نہ تھے،بلکہ انکا شمار آئمہ و اساتذہ میں ہوتا ہے۔اہل حناف کی اس موضعوع پر بڑی جامع اور مدلل تصنیفات موجود ہیں ،اور اکا برین اہلحدیث کی بے شمار تقریریں اور تحریریں نہ صرف اس لگاؤ کو ظاہر کرتی ہیں ،بلکہ باوجود مسلکی اختلاف کہ تصوف کے معاملے میں ایک دوسرے کے شاگرد بھی ہیں آلبتہ اہل حناف کو اس معاملہ میں بر تری ضرور حاصل ہے،کیونکہ بلند ترین مناصب اولیاءِ کاملین کا تعلق زیادہ تر فقہ حنفی سے ہے۔ جس طرح جہالت کی تند وتیز آندھیوں نے جہاں ان دونوں مکتبہ فکر کے درمیان باقی معملات میں ایک دیوار کھڑی کی،وہاں بدقسمتی سے تصوف وسلوک کے مسلئے پر بھی انکا اختلاف وجود میں آ گیا ،اور ایک ظلم یہ بھی ہوا کہ دونوں مکتبہ فکر کے درمیان شدید انتشار پیدا ہوا اور کئی گرووں میں تقسیم ہوگئے،اور یہ اختلاف فروعات سے لیکر عقائد تک کا ہے،اہل حناف نے تو اس موضعوع پر زور قلم بھی صرف کیا ہے ۔اس سلسلہ میں مفتی سعید احمد خان صاحب کی تصنیف ’’ دیوبند کی تین دھراڑیں ‘‘ لائق تحسین ہے۔عہد حاضر کے اکثریت اہل حدیث حضرات تو اس کار خیر سے مرحوم ہی نظر آتے ہیں البتہ البتہ گاہے گاہے تقریر وتحریر میں اہل دانش و بینش کی مذمت ضرور ملتی ہے مولانا محمد اسحاق بھٹی صاحب اپنے ہم مسلک احباب کو اپنے اکا برین سے بے رخی وناقدری برتنے پر بطورِ تنبیہ لکھتے ہیں:۔
’’افسوس اہلحدیث حضرات اس اہم نقطے کو لائق التفات نہیں گردانتے ،ان میں سے بعض حضرات اس قسم کے کام چھوڑ آجکل صوفیاء کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں ،انکا کہنا ہے کہ انھوں نے اسلام کی کوئی خدمت نہیں کی اور یہ غلط کردار لوگ ہیں ۔
ممکن ہے کہ انکا واسطہ ایسے ہی لوگوں سے پڑا ہو،جنھیں صوفی کہا جاتا ہو،اور وہ غلط کردار ہیں ،حلانکہ غلط کرداری کسی صوفی کیساتھ مختص نہیں ،اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے ، ہمارا واسطہ کسی غلط کردار صوفی سے نہیں پڑا،ہمارا تعلق ہمیشہ نیک سیرت صوفیاء اور عالی مرتبت اہل علم سے رہا ہے۔‘‘( بزم ارجمند ص۲۸)
یہ نیک سیرت اور عالی مرتبت صوفیاء کون ہیں انشاء اللہ آپ اس کتاب میں ایسے ہی عالی مرتبت صوفیاء اہل حدیث کا تذکرہ ملے گا۔
پروفیسر ڈاکٹر سید ابوبکر غزنوی کی تحصیل السلوک کیلئے دعوتِ فکر:۔ بھٹی صاحب کی طرح پروفیسر ڈاکٹر سید سید داؤد غزنویؒ بھی اپنے ہم مسلک حضرات کو تصوف وسلوک کی طرف یوں رہنمائی دیتے ہیں:۔
مولانا سید داؤد غزنوی ؒ مسلک اہلحدیث کی قد آور شخصیات میں سے تھے ۔اس بحث کو آپ کے ان افکار وخیالات پر ختم کرتے ہیں جو مولانا حنیف ندوی ؒ نے بیان فرمائی ہیں۔آپ فرماتے ہیں:۔
’’ تضاد کی تیسری صورت جس سے مولانا ( سید داؤد غزنویؒ )از حد شاکی اور پریشان تھے۔جماعت اہلحدیث کے مزاج کی موجودہ کفیت ہے،مولانا کے نقطہ نظر سے اسلام چونکہ تعلق باللہ اور اسکے ان انعکات کا نام ہے،جو معاشرہ اور اور فرد کی زندگی میں لطائف اخلاق کی تخلیق کرتے ہیں۔اسلئے تحریک اہلحدیث کا اولین مقصد یہ ہونا چاہئے کہ جماعت میں محبت الہی کے جذبوں کو عا م کرے۔تعلق باللہ کی برکات جو پھیلائے،اور اطاعت زہد واتقاوخشیت اور ذکر وفکر کو روا ج دے،لیکن ہماری محرومی و تیرہ بخشی ملاحظہ ہو کہ عوام تو عوام خواص تک تصوف وا حسان کی لذتوں سے نا آشنا ہیں۔حلانکہ کچھ زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ خواص تو خواص ہمارے عوام تک زہد و ورع کا بہترین نمونہ سمجھے جاتے تھے۔آپ پوچھے گے مولانا مرحوم کے نزدیک ان تضادات سے چھٹکارا پانے کا طریق کیا تھا۔؟ بارہا یہ مسئلہ مولانا کے ہاں زیر بحث آیا ۔انکی اس سلسلہ میں جچی تلی رائے یہ تھی کہ ہمیں تعلیم وتربیت کے پورے نظام کو بدلنا چاہئے،کہ جو جماعت اہلحدیث کی تعمیر کے لئے زیادہ ساز گار ثابت ہو سکے۔اور اسکے فکر وعقیدہ کو ایسی استوار بنیادوں پہ قائم کر سکے، جن میں تضاد اور الجھاؤ کی خلل اندازیاں نہ پائی جائیں ۔جو ان میں زندگی کی نئی روح دوڑا سکے‘‘۔( حضرت مولانا داؤد غزنوی ص ۳۳۶ )
آپکے فرزندارجمند سید ابوبکر غزنوی ؒ فرماتے ہیں:۔
’’بعض لوگو ں نے حضرت شاہ صاحبؒ ( شاہ اسماعیل شہیدؒ )کی کتاب ’’ تقویۃ االایمان ‘‘ ہی پڑھی ہے،کبھی صراط مستقیم بھی دیکھو،کبھی عبقات بھی پڑھو،وہ بہت لطیف آدمی تھے،تجلیات سے آگاہ،وہ انوارسے آگاہ،سلوک کے مقامات سے آگاہ،اللہ کی محبت اورمعرفت کے تمام رموز سے آگاہ۔‘‘
اورکبھی یوں دعوتِ فکردیتے ہوئے فرماتے ہیں:۔
’’ایک اور نصیحت تمھیں اور کرتاہوں ،روزانہ کچھ وقت اللہ بھی کیا کرو،میں نے بعض لوگوں کو دیکھا ہے،کہ ہر وقت جدل وبحث میں لگے رہتے ہیں ،اور اللہ کے ذکر سے یکسر غافل ہیں،ہمارے اسلاف تو ایسے نہ تھے،وہ سب ذاکر تھے،انکی زبانیں ذکر سے رکتی نہ تھی۔‘‘
( جماعت اہل حدیث سے خطاب)
یہ بات ذہن میں رہے پروفیسر غزنویؒ کا یہ خطاب ماموں کانجن کے مقام پر جماعت اہلحدیث کانفرس سے فرمایا گیا ہے ۔جس میں اس وقت کے مسلک اہلحدیث کے رہنما موجود تھے،اور یہ دعوت فکر آج بھی مسلک اہلحدیث کیلئے مشعل راہ ہے۔