مسلک اہلحدیث اورتصوف واحسان

ابن محمد جی

محفلین
مسلک اہلحدیث اورتصوف واحسان
علم تصوف وسلوک ایک حقیت ہے ،اور کسی بھی حقیقت سے کوئی بھی منصف مزاج اور سلیم الفطرت شحص انکار نہیں کر سکتا۔علم سلوک کی اہمیت وافادیت اس قدر مسلمہ ہے کہ امت میں بڑے بڑے نامور لوگوں نے اسکو احتیار کیا ہے،اور اس دور سے پہلے امت میں کوئی ایسا گروہ پیدا نہیں ہوا ،جو مطلق تصوف کا انکاری ہو،مگر اس قحط الرجال کے دور میں ایسے ناعاقبت اندیش لوگ موجود ہیں جو نہ صرف علم سلوک سےانکاری ہیں بلکہ ان مقدس ہستیوں کوبرا بھلا کہنے سے بھی نہیں چونکتے۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جس چیز کی جتنی زیادہ اہمیت ہوتی ہے،وہ شئے اتنی ہی نایاب ،اور اسکی نقل بھی اتنی ہی عام ہوتی ہے،تصوف وسلوک کے معاملہ میں بھی یہی کچھ ہو۔ یہ جتنی نایاب اور عظیم دو لت تھی،اتنی ہی اسکی نقل بھی تیار ہوئی،اس لیے ہر عہد میں جہاں علماء نے تصوف وسلوک کی اہمیت و افادیت کو واضح کیا،وہاں پر تصوف و سلوک کے نام پر پیدا ہونے والی بدعات وخرافات کا بھی سختی سے رد کیا۔
تصوف اسلامی کی اصل دشمن غیر مسلم قوتیں ہیں جو کہ اس بات کو اچھی طرح جانتی ہیں،کہ اگر تصوف اسلامی عالم اسلام میں رائج ہو گیا تو پھر یہ سویا ہوا شیر بیدار ہو جائے گا،اس لیے باقاعدہ جس طرح نقلی علماء تیار ہوئے،بالکل اسی طرح نقلی صوفیاء بھی تیار ہوئے،اور پھر انکےمقابلے میں ایسے لوگ کھڑے ہوئے ، جو اصل اور نقل میں فرق نہیں کر سکتے تھے،پھر ایسے نا معقول لوگ بلا دھڑک تصوف اسلامی پر بھی لعن طعن کرتے ہیں،اور یوں تصوف اسلامی کو عوام ں پنپنے سے روکنے کی لاحاصل سعی کرتے ہیں۔
مسلک اہلحدیث اپنے مخصوص انداز کی وجہ سے اس پراوپگنڈے کا سب سے زیادہ شکار ہوا،اور اس عہد کی نئی پود تونہ صرف تصوف سلوک سے نابلد ہے،بلکہ تصوف اسلامی کی سخت مخالف بھی ہے،اور افسوس یہ ہے کہ یہ مخالفت کوئی علمی بنیادوں پر نہیں بلکہ کھلی جہالت اور ضد پر ہے،ورنہ اس عہد میں جسے ہم مسلک اہلحدیث کہتے ہیں،اگر اس مسلک کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو اکابرین اہلحدیثؒ کی ایک طویل فہرست نظر آتی ہے،جو اپنے وقت کے صاحب کشف وکرامات اور صاحب نسبت صوفی بزرگ تھے۔
پروفیسر محی الدین (روز نامہ اوصاف) کی ر ائے:۔ معروف کالم نگارپروفیسر محی الدین(روزنامہ اوصاف) میں لکھتے ہیں:۔
’’ عام طور پر اہلحدیث جن کو غیر مقلد کہا جاتا ہے ،اور جو وہا بی کے نام سے بھی پکارے جاتے ہیں ،انکو تصوف اور روحانیت سے نابلد کہہ کر روحانیت اور تصوف کے مخالف بتائے جاتے ہیں ،مگر یہ بات ان پر تہمت ہے،عملاً حقیقت اس سے بالکل مختلف ہے۔غزنو ی علماء اکرام تصوف اور روحانیت سے گہرا شغف رکھتے تھے،روحانی سلسلہ کے آخری مدارج طے کرنے والے پروفیسر ابوبکر غزنوی تھے،جو داتادربار کیساتھ بالکل ساتھ ہی اہلحدیث مدرسہ کے منتظم بھی تھے ،اور شیش محل روڈ پر واقع مدرسے کے حال میں خطبہ جمعہ دیا کرتے تھے،آپ کے خطبہ میں اکثر اہل علم ،دانشور اورو کلاء آتے تھے۔پینٹ کوٹ پہنے والا یہ پروفیسر بہت بڑا صوفی اور روحانیت کی دنیا کا واضح کردار تھا،انکے آباؤ اجداد اسی تصوف پر کاربند تھا،جو شریعت کا پابند تھا۔مشرقی پنجاب میں لکھوی خاندان کو بڑی شہرت حاصل تھی ،مولانا حافظ محمد لکھوی نے پنجابی زبان میں تفسیرقران لکھی،اور انکی دوسری کتاب ’’حوالِ آخرت ‘‘ہے،اور بھی کچھ تصنیفات ہیں ،اور یہ سب روحانی ور دینی مفہوم کی پنجابی زبان میں ہیں ،یہ خاندان تصوف اور روحانیت پر کار بند رہا ہے‘‘۔
اکابرین اہلحدیثؒ کے ساتھ ایک بڑی زیادتی یہ ہوئی کہ اولاً تو انکی سوانحیات مرتب نہیں ہوئی ہیں ،اور جو مرتب کی گئی ہیں ،ان میں اکابرین اہلحدیثؒ کا جو تعلق تصوف وسلوک کیساتھ تھا ،اسے نہ صرف مبہم کر کے پیش کیا گیا،بلکہ ایک حد تک تو اسے پس پردہ کردیاگیاہے،اور یوں نئی پود کے پاس افراط وتفریط پر مبنی مولانا کیلانی صاحب کی’’ شریعت وطریقت ‘‘ تو آ گئی،مگر اکابرین ؒ کا تصوف اسلامی نہ آسکا۔
مولانا ابوالکلام احمد دہلوی کا اہم مکتوب اور مولانا محمد اسحاق بھٹی کا تبصرہ:۔عموماً علمی حلقوں میں یہ بات کہیں جاتی ہے کہ اکا برین اہلحدیث کا جو تعلق تصوف سلوک کیساتھ تھا ،وہ آج کے سلفی حضرات سے مخدوش ہو چکا ہے،گو کہ اس بات میں حقیقت ضرور ہے مگر پوری طرح اس بات سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا،کیونکہ روحانیت کا یہ سلسلہ اہل حدیث حضرات میں آج بھی کہیں ٹمٹماتا ہوا نظر آتا ہے معروف سوانح نگار مولا نا محمد اسحاق بھٹی نے ’’ تذکرہ مولاناغلام رسول قلعویؒ ‘‘ میں مولانا ابو الکلام احمد دہلوی کے ایک مکتوب کا ذکر کیا ہے،مولانا ابو الکلام احمد دہلوی صاحب دہلی میں رہتے ہیں ،استاذ الاساتذہ ہیں ،اور پرانے لوگوں میں سے ہیں ،اس خط میں تصوف کے متعلق مولانا ابو الکلام احمد دہلو ی صاحب لکھتے ہیں

’’سلفیوں کی بابت دشمنوں کی اڑائی ہوئی ہوائی ہے،کہ انھیں علمِ باطنی میسر نہیں ،وہ اہل ظواہر ہیں،طریقت نہیں جانتے ،صرف شریعت سے واقف ہیں ۔واشگافانہ الفاظ میں کہوں تو انکے نزدیک یہ لوگ تصوف سے نابلد ہیں ،میرا ارادہ ہے کہ ان خطوط کو شائع کر دوں(مولانا غلام رسول قلعویؒ کے مکتوبات کی طرف اشارہ ہے) اور اس پر ایک مبسوط مقدمہ لکھوں تا کہ دنیا با خبر ہو جائے کہ اہلحدیث کے یہاں علم طریقت و تصوف ہے،مگر وہ مبنی بر کتاب وسنت ہے ،اور اہل حدیث کو مطعون کرنے والوں کو بتایا جائے کہ
لذتِ بادہ ناصح کیا جانے
ہائے کم بخت تو نے پی ہی نہیں
ہمارے علم طریقت کی چاشنی کتاب وسنت کے مخلوطہ سے وجود میں آئی ، اوروں کے یہاں انحراف ہے اور زیع وضلالت۔ہداہم اللہ للصراط امستقیم۔(تذکرہ غلام رسول قلعوی صفحہ ۴۸)
اسی مکتوب پر تبصرہ کرتے ہوئے مولانا محمد اسحاق بھٹی لکھتے ہیں
’’مولانا ابولکلام احمد نے اہل حدیث کے علم تصوف اور علم طریقت کا جس انداز میں ذکر فرمایا ہے،وہ بالکل صیح ہے،اس باب میں مولانا کے جذبات قابل قدر ہیں ،انھیں اس موضعوں پر کھل کر لکھنا چاہئے،اور اہل حدیث علماء کی کرامات اور انکی قبولیت دعا کے واقعات کی تفصیل بیان کرنی چاہئے، اس سلسلے میں بہت عرصہ ہوا مولانا عبدالمجید سوہدریؒ مرحوم مغفور نے کچھ کام کیا تھا،( بھٹی صاحب کا یہ اشارہ کرامات اہلحدیث کی طرف ہے )اور بڑی عمدگی سے بعض اہلحدیث علمائے کرام کی کرامتوں کاتذکرہ فرمایاتھا،اصحابِ کرامات علمائےاہلحدیث کی اس فہرست میں انھوں نے حضرت سید عبد اللہ غزنویؒ ،مولاناغلام رسول قلعویؒ اور قاضی سیلمان منصورپوری رحہم اللہ کے اسمائے گرامی درج فر مائے ہیں‘‘۔
’’مولانا محمد اسحاق بھٹی صاحب’’برصغیرمیں علمائے اہلحدیث کی آمد‘‘میں فرماتے ہیں:۔
قدیم علمائے برصغیر میں سے شیخ فرید الدین پاک پتنؒ ،شیخ نظام الدین اولیاء ؒ ،شیخ حسین بن احمد ؒ بخاری جہاں گشت اوچ شریف ،حضرت مجدد الف ثانی ؒ شیخ احمد سرہندی،شیخ عبد الحق محدث دہلویؒ ،شیخ علی متقیؒ ،شیخ عبد الوہاب متقی ؒ ،حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ اور انکے فرزند گرامی ،مرزا مظہر جانجناں ؒ ،حضرت شاہ محمد اسحاق ؒ دہلوی،میاں سید نذیر حسین دہلویؒ ،امرتسر کے خاندان غزنویہ کے علمائے اکرام ،لکھوی خاندان کے علمائے عالی قدر ،روپڑی اصحاب علم،حضرت حافظ عبد المنان وزیر آبادی ؒ مولنا غلام رسول قلعویؒ قلعہ میہاں سنگھ والے وغیرہ بے شمار علمائے اہلحدیث نے علوم کی تشریح وا شاعت کیلئے بڑھ چڑھ کر خدمات حاصل کی۔رحم اللہ تعالیٰ‘‘۔(ص۳۶۶)
یوں تو فرقہ احمدیہ سے لیکر روافض تک سب اپنا تعلق صوفیاء عظام سے ظاہر کرتے ہیں ،مگر حقیقت یہ ہے کہ تصوف اسلامی صرف اور صرف اہلسنت ولجماعت میں ہے اور پاک وہند میں اکثر صوفیاء کا تعلق دو ہی مسالک( حنفی و اہلحدیث) سے ہے۔روا فض و قادیانی اور دیگر گمراہ بدعتی فرقوں میں نہ کوئی صوفی گزراہے،اور نہ ہی پیدا ہو سکتا ہے،کیونکہ اہل بدعت کے سینے اس نور کو قبول نہیں کر سکتے ،اس معاملہ اکثر لوگ (با وجہ لاعلمی) دھوکا کھا جاتے ہیں۔
اور یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ مسلک اہلحدیث اور اہل حناف جہاں علوم ظاہر وباطنی میں ایک ہی استاد ( شاہ ولی اللہؒ ) کے شاگرد کے ہونے کے ناطے سے ( فروعات کے اختلافات کے علاوہ)کوئی بڑا اختلاف نہیں رکھتے تھے،وہاں تصوف وسلوک کے مسلۂ پر دونوں مکتبہ فکر میں کسی قسم کا کوئی اختلاف نہیں تھا ،بلکہ دونون مکتبہ فکر کے اکابرینؒ کا تصوف سلوک سے گہرا تعلق وشغف تھا،اور یہ شخصیات کوئی معمولی درجہ کے لوگ نہ تھے،بلکہ انکا شمار آئمہ و اساتذہ میں ہوتا ہے۔اہل حناف کی اس موضعوع پر بڑی جامع اور مدلل تصنیفات موجود ہیں ،اور اکا برین اہلحدیث کی بے شمار تقریریں اور تحریریں نہ صرف اس لگاؤ کو ظاہر کرتی ہیں ،بلکہ باوجود مسلکی اختلاف کہ تصوف کے معاملے میں ایک دوسرے کے شاگرد بھی ہیں آلبتہ اہل حناف کو اس معاملہ میں بر تری ضرور حاصل ہے،کیونکہ بلند ترین مناصب اولیاءِ کاملین کا تعلق زیادہ تر فقہ حنفی سے ہے۔ جس طرح جہالت کی تند وتیز آندھیوں نے جہاں ان دونوں مکتبہ فکر کے درمیان باقی معملات میں ایک دیوار کھڑی کی،وہاں بدقسمتی سے تصوف وسلوک کے مسلئے پر بھی انکا اختلاف وجود میں آ گیا ،اور ایک ظلم یہ بھی ہوا کہ دونوں مکتبہ فکر کے درمیان شدید انتشار پیدا ہوا اور کئی گرووں میں تقسیم ہوگئے،اور یہ اختلاف فروعات سے لیکر عقائد تک کا ہے،اہل حناف نے تو اس موضعوع پر زور قلم بھی صرف کیا ہے ۔اس سلسلہ میں مفتی سعید احمد خان صاحب کی تصنیف ’’ دیوبند کی تین دھراڑیں ‘‘ لائق تحسین ہے۔عہد حاضر کے اکثریت اہل حدیث حضرات تو اس کار خیر سے مرحوم ہی نظر آتے ہیں البتہ البتہ گاہے گاہے تقریر وتحریر میں اہل دانش و بینش کی مذمت ضرور ملتی ہے مولانا محمد اسحاق بھٹی صاحب اپنے ہم مسلک احباب کو اپنے اکا برین سے بے رخی وناقدری برتنے پر بطورِ تنبیہ لکھتے ہیں:۔

’’افسوس اہلحدیث حضرات اس اہم نقطے کو لائق التفات نہیں گردانتے ،ان میں سے بعض حضرات اس قسم کے کام چھوڑ آجکل صوفیاء کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں ،انکا کہنا ہے کہ انھوں نے اسلام کی کوئی خدمت نہیں کی اور یہ غلط کردار لوگ ہیں ۔
ممکن ہے کہ انکا واسطہ ایسے ہی لوگوں سے پڑا ہو،جنھیں صوفی کہا جاتا ہو،اور وہ غلط کردار ہیں ،حلانکہ غلط کرداری کسی صوفی کیساتھ مختص نہیں ،اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے ، ہمارا واسطہ کسی غلط کردار صوفی سے نہیں پڑا،ہمارا تعلق ہمیشہ نیک سیرت صوفیاء اور عالی مرتبت اہل علم سے رہا ہے۔‘‘( بزم ارجمند ص۲۸)
یہ نیک سیرت اور عالی مرتبت صوفیاء کون ہیں انشاء اللہ آپ اس کتاب میں ایسے ہی عالی مرتبت صوفیاء اہل حدیث کا تذکرہ ملے گا۔
پروفیسر ڈاکٹر سید ابوبکر غزنوی کی تحصیل السلوک کیلئے دعوتِ فکر:۔ بھٹی صاحب کی طرح پروفیسر ڈاکٹر سید سید داؤد غزنویؒ بھی اپنے ہم مسلک حضرات کو تصوف وسلوک کی طرف یوں رہنمائی دیتے ہیں:۔
مولانا سید داؤد غزنوی ؒ مسلک اہلحدیث کی قد آور شخصیات میں سے تھے ۔اس بحث کو آپ کے ان افکار وخیالات پر ختم کرتے ہیں جو مولانا حنیف ندوی ؒ نے بیان فرمائی ہیں۔آپ فرماتے ہیں:۔
’’ تضاد کی تیسری صورت جس سے مولانا ( سید داؤد غزنویؒ )از حد شاکی اور پریشان تھے۔جماعت اہلحدیث کے مزاج کی موجودہ کفیت ہے،مولانا کے نقطہ نظر سے اسلام چونکہ تعلق باللہ اور اسکے ان انعکات کا نام ہے،جو معاشرہ اور اور فرد کی زندگی میں لطائف اخلاق کی تخلیق کرتے ہیں۔اسلئے تحریک اہلحدیث کا اولین مقصد یہ ہونا چاہئے کہ جماعت میں محبت الہی کے جذبوں کو عا م کرے۔تعلق باللہ کی برکات جو پھیلائے،اور اطاعت زہد واتقاوخشیت اور ذکر وفکر کو روا ج دے،لیکن ہماری محرومی و تیرہ بخشی ملاحظہ ہو کہ عوام تو عوام خواص تک تصوف وا حسان کی لذتوں سے نا آشنا ہیں۔حلانکہ کچھ زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ خواص تو خواص ہمارے عوام تک زہد و ورع کا بہترین نمونہ سمجھے جاتے تھے۔آپ پوچھے گے مولانا مرحوم کے نزدیک ان تضادات سے چھٹکارا پانے کا طریق کیا تھا۔؟ بارہا یہ مسئلہ مولانا کے ہاں زیر بحث آیا ۔انکی اس سلسلہ میں جچی تلی رائے یہ تھی کہ ہمیں تعلیم وتربیت کے پورے نظام کو بدلنا چاہئے،کہ جو جماعت اہلحدیث کی تعمیر کے لئے زیادہ ساز گار ثابت ہو سکے۔اور اسکے فکر وعقیدہ کو ایسی استوار بنیادوں پہ قائم کر سکے، جن میں تضاد اور الجھاؤ کی خلل اندازیاں نہ پائی جائیں ۔جو ان میں زندگی کی نئی روح دوڑا سکے‘‘۔( حضرت مولانا داؤد غزنوی ص ۳۳۶ )
آپکے فرزندارجمند سید ابوبکر غزنوی ؒ فرماتے ہیں:۔
’’بعض لوگو ں نے حضرت شاہ صاحبؒ ( شاہ اسماعیل شہیدؒ )کی کتاب ’’ تقویۃ االایمان ‘‘ ہی پڑھی ہے،کبھی صراط مستقیم بھی دیکھو،کبھی عبقات بھی پڑھو،وہ بہت لطیف آدمی تھے،تجلیات سے آگاہ،وہ انوارسے آگاہ،سلوک کے مقامات سے آگاہ،اللہ کی محبت اورمعرفت کے تمام رموز سے آگاہ۔‘‘
اورکبھی یوں دعوتِ فکردیتے ہوئے فرماتے ہیں:۔
’ایک اور نصیحت تمھیں اور کرتاہوں ،روزانہ کچھ وقت اللہ بھی کیا کرو،میں نے بعض لوگوں کو دیکھا ہے،کہ ہر وقت جدل وبحث میں لگے رہتے ہیں ،اور اللہ کے ذکر سے یکسر غافل ہیں،ہمارے اسلاف تو ایسے نہ تھے،وہ سب ذاکر تھے،انکی زبانیں ذکر سے رکتی نہ تھی۔‘‘
( جماعت اہل حدیث سے خطاب)
یہ بات ذہن میں رہے پروفیسر غزنویؒ کا یہ خطاب ماموں کانجن کے مقام پر جماعت اہلحدیث کانفرس سے فرمایا گیا ہے ۔جس میں اس وقت کے مسلک اہلحدیث کے رہنما موجود تھے،اور یہ دعوت فکر آج بھی مسلک اہلحدیث کیلئے مشعل راہ ہے۔
 
بعض علماء و اولیاء اللہ کو صوفی بتایا جاتا ہے حالانکہ ایسا نہیں ۔۔کیونکہ صوفیا کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں بنتا ، البتہ کسی کو ضد سے روکنے پر اختیار نہیں
ویسے یہ صوفیاز آجکل ہوتے کہاں ہیں؟ الیکٹرانک میڈیا کے آنے کے بعد تو یہ ایک دم سے غائب ہی ہوگئے ہیں ۔۔۔
پرانے دور میں الیکٹرانک میڈیا کی بجائے پرنٹ میڈیا کا دور تھا ، لوگ پڑھتے تھے دلچسپی کے لیے ، تحقیق کون کرتا جب کہانی چٹ پٹی اور مصالحہ دار ہو
بعض صوفیا تو کافی مشہور کئے گئے(ان میں وہ نامور بزرگ ہستی نہیں جو اولیاء اللہ تھے ، اور نکی ان کرامات سے انکار نہیں جن کا ظہور اللہ تعالیٰ نے انکے ہاتھوں سے کرایا) ، دبنگ اسٹائل، شاہ رخ اور سلمان خان کی طرح
یہ پرانے دور کے سیلیبریٹی تھے ، اور صوفیانہ دیو مالائی قصے ، آجکل کے الیکٹرانک میڈیا کے ٹاپ ہٹ ڈرامے و فلموں کی طرح ہؤا کرتی تھی ۔۔۔ یہ اس دور کے جیو ، اے آر وائی ،اسٹار ٹی وی وغیرہ تھے
اب اگر کوئی بغیر ظاہری اسباب کے ہوا میں اڑے یا پانی پر چلے تو بھی اتنی حیرت نہیں ہوتی کیونکہ لوگوں کی ترجیحات اب دوسری ہوچکی ہے
وہ اب جادوگری میں اتنی دلچسپی نہیں رکھتے ۔۔۔
 
آخری تدوین:

ابن محمد جی

محفلین
="سرپھرا, post: 1401688, member: 6972"]بعض علماء و اولیاء اللہ کو صوفی بتایا جاتا ہے حالانکہ ایسا نہیں ۔۔کیونکہ صوفیا کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں بنتا ، البتہ کسی کو ضد سے روکنے پر اختیار نہیں
محترم یہ فقرہ لکھ کر کہ صوفیاء کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ،ھقیتااآپ نے اپنے نام (سر پھرا) کا بھرم رکھ لیا ہے
ویسے یہ صوفیاز آجکل ہوتے کہاں ہیں؟ الیکٹرانک میڈیا کے آنے کے بعد تو یہ ایک دم سے غائب ہی ہوگئے ہیں ۔۔۔
پرانے دور میں الیکٹرانک میڈیا کی بجائے پرنٹ میڈیا کا دور تھا ، لوگ پڑھتے تھے دلچسپی کے لیے ، تحقیق کون کرتا جب کہانی چٹ پٹی اور مصالحہ دار ہو
بعض صوفیا تو کافی مشہور کئے گئے(ان میں وہ نامور بزرگ ہستی نہیں جو اولیاء اللہ تھے ، اور نکی ان کرامات سے انکار نہیں جن کا ظہور اللہ تعالیٰ نے انکے ہاتھوں سے کرایا) ، دبنگ اسٹائل، شاہ رخ اور سلمان خان کی طرح
یہ پرانے دور کے سیلیبریٹی تھے ، اور صوفیانہ دیو مالائی قصے ، آجکل کے الیکٹرانک میڈیا کے ٹاپ ہٹ ڈرامے و فلموں کی طرح ہؤا کرتی تھی ۔۔۔ یہ اس دور کے جیو ، اے آر وائی ،اسٹار ٹی وی وغیرہ تھے
وہ دوکون ہیں انکے نام اور تعلق تصوف بتا دے،باقی رہے قصے تو شریعت کے ہوتے ہوئے قصوں کی کوئی اہمیت نہیں۔
اب اگر کوئی بغیر ظاہری اسباب کے ہوا میں اڑے یا پانی پر چلے تو بھی اتنی حیرت نہیں ہوتی کیونکہ لوگوں کی ترجیحات اب دوسری ہوچکی ہے
وہ اب جادوگری میں اتنی دلچسپی نہیں رکھتے ۔۔۔
بھائی تصوف شعبدہ بازی کا نم نہیں بلکہ ان برکات کا نام ہے جن کا ھصول کثرت ذکر ہے اور حاصل اطاعت اللہ و رسول ﷺ ہے۔
محترم !آپ کو رہنمائی کی ضرورت ہے۔
 
بعض علماء و اولیاء اللہ کو صوفی بتایا جاتا ہے حالانکہ ایسا نہیں ۔۔کیونکہ صوفیا کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں بنتا ، البتہ کسی کو ضد سے روکنے پر اختیار نہیں
ویسے یہ صوفیاز آجکل ہوتے کہاں ہیں؟ الیکٹرانک میڈیا کے آنے کے بعد تو یہ ایک دم سے غائب ہی ہوگئے ہیں ۔۔۔
پرانے دور میں الیکٹرانک میڈیا کی بجائے پرنٹ میڈیا کا دور تھا ، لوگ پڑھتے تھے دلچسپی کے لیے ، تحقیق کون کرتا جب کہانی چٹ پٹی اور مصالحہ دار ہو
بعض صوفیا تو کافی مشہور کئے گئے(ان میں وہ نامور بزرگ ہستی نہیں جو اولیاء اللہ تھے ، اور نکی ان کرامات سے انکار نہیں جن کا ظہور اللہ تعالیٰ نے انکے ہاتھوں سے کرایا) ، دبنگ اسٹائل، شاہ رخ اور سلمان خان کی طرح
یہ پرانے دور کے سیلیبریٹی تھے ، اور صوفیانہ دیو مالائی قصے ، آجکل کے الیکٹرانک میڈیا کے ٹاپ ہٹ ڈرامے و فلموں کی طرح ہؤا کرتی تھی ۔۔۔ یہ اس دور کے جیو ، اے آر وائی ،اسٹار ٹی وی وغیرہ تھے
اب اگر کوئی بغیر ظاہری اسباب کے ہوا میں اڑے یا پانی پر چلے تو بھی اتنی حیرت نہیں ہوتی کیونکہ لوگوں کی ترجیحات اب دوسری ہوچکی ہے
وہ اب جادوگری میں اتنی دلچسپی نہیں رکھتے ۔۔۔
جناب اسی لئے تصوف کاسب سے اہم قاعدہ یہ بھی ہے کہ بچوں کے اچھے نام رکھو۔ مگرآپ نے اپنے والدین کی جانب سے رکھے گئے نام کوبدل سرپھرا رکھااور نام کابھرم بھی رکھا۔
قصے دیومالائی نہیں ہوتے ہرقصے کو اس نقطہ نظرسے نہیں دیکھاجاسکتا۔ قصے توقرآن میں بھی ہیں۔ رہی بات تصوف کی تصوف کی اہمیت ہمیشہ سے رہی ہے اور رہے گی۔تصوف کرشمہ دیکھانے کانام نہیں خودکی اور اوروں کی اصلاح، دستگیری، خدمت خلق۔ حقوق العبادوحقوق اللہ کو نیک جذبات وخشوع وخضوع سے اداکرنے کاہے
 
بعض علماء و اولیاء اللہ کو صوفی بتایا جاتا ہے حالانکہ ایسا نہیں ۔۔کیونکہ صوفیا کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں بنتا ، البتہ کسی کو ضد سے روکنے پر اختیار نہیں
ویسے یہ صوفیاز آجکل ہوتے کہاں ہیں؟ الیکٹرانک میڈیا کے آنے کے بعد تو یہ ایک دم سے غائب ہی ہوگئے ہیں ۔۔۔
پرانے دور میں الیکٹرانک میڈیا کی بجائے پرنٹ میڈیا کا دور تھا ، لوگ پڑھتے تھے دلچسپی کے لیے ، تحقیق کون کرتا جب کہانی چٹ پٹی اور مصالحہ دار ہو
بعض صوفیا تو کافی مشہور کئے گئے(ان میں وہ نامور بزرگ ہستی نہیں جو اولیاء اللہ تھے ، اور نکی ان کرامات سے انکار نہیں جن کا ظہور اللہ تعالیٰ نے انکے ہاتھوں سے کرایا) ، دبنگ اسٹائل، شاہ رخ اور سلمان خان کی طرح
یہ پرانے دور کے سیلیبریٹی تھے ، اور صوفیانہ دیو مالائی قصے ، آجکل کے الیکٹرانک میڈیا کے ٹاپ ہٹ ڈرامے و فلموں کی طرح ہؤا کرتی تھی ۔۔۔ یہ اس دور کے جیو ، اے آر وائی ،اسٹار ٹی وی وغیرہ تھے
اب اگر کوئی بغیر ظاہری اسباب کے ہوا میں اڑے یا پانی پر چلے تو بھی اتنی حیرت نہیں ہوتی کیونکہ لوگوں کی ترجیحات اب دوسری ہوچکی ہے
وہ اب جادوگری میں اتنی دلچسپی نہیں رکھتے ۔۔۔
جناب اسی لئے تصوف کاسب سے اہم قاعدہ یہ بھی ہے کہ بچوں کے اچھے نام رکھو۔ مگرآپ نے اپنے والدین کی جانب سے رکھے گئے نام کوبدل سرپھرا رکھااور نام کابھرم بھی رکھا۔
قصے دیومالائی نہیں ہوتے ہرقصے کو اس نقطہ نظرسے نہیں دیکھاجاسکتا۔ قصے توقرآن میں بھی ہیں۔ رہی بات تصوف کی تصوف کی اہمیت ہمیشہ سے رہی ہے اور رہے گی۔تصوف کرشمہ دیکھانے کانام نہیں خودکی اور اوروں کی اصلاح، دستگیری، خدمت خلق۔ حقوق العبادوحقوق اللہ کو نیک جذبات وخشوع وخضوع سے اداکرنے کاہے
 
بعض علماء و اولیاء اللہ کو صوفی بتایا جاتا ہے حالانکہ ایسا نہیں ۔۔کیونکہ صوفیا کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں بنتا ، البتہ کسی کو ضد سے روکنے پر اختیار نہیں
ویسے یہ صوفیاز آجکل ہوتے کہاں ہیں؟ الیکٹرانک میڈیا کے آنے کے بعد تو یہ ایک دم سے غائب ہی ہوگئے ہیں ۔۔۔
پرانے دور میں الیکٹرانک میڈیا کی بجائے پرنٹ میڈیا کا دور تھا ، لوگ پڑھتے تھے دلچسپی کے لیے ، تحقیق کون کرتا جب کہانی چٹ پٹی اور مصالحہ دار ہو
بعض صوفیا تو کافی مشہور کئے گئے(ان میں وہ نامور بزرگ ہستی نہیں جو اولیاء اللہ تھے ، اور نکی ان کرامات سے انکار نہیں جن کا ظہور اللہ تعالیٰ نے انکے ہاتھوں سے کرایا) ، دبنگ اسٹائل، شاہ رخ اور سلمان خان کی طرح
یہ پرانے دور کے سیلیبریٹی تھے ، اور صوفیانہ دیو مالائی قصے ، آجکل کے الیکٹرانک میڈیا کے ٹاپ ہٹ ڈرامے و فلموں کی طرح ہؤا کرتی تھی ۔۔۔ یہ اس دور کے جیو ، اے آر وائی ،اسٹار ٹی وی وغیرہ تھے
اب اگر کوئی بغیر ظاہری اسباب کے ہوا میں اڑے یا پانی پر چلے تو بھی اتنی حیرت نہیں ہوتی کیونکہ لوگوں کی ترجیحات اب دوسری ہوچکی ہے
وہ اب جادوگری میں اتنی دلچسپی نہیں رکھتے ۔۔۔
جناب اسی لئے تصوف کاسب سے اہم قاعدہ یہ بھی ہے کہ بچوں کے اچھے نام رکھو۔ مگرآپ نے اپنے والدین کی جانب سے رکھے گئے نام کوبدل سرپھرا رکھااور نام کابھرم بھی رکھا۔
قصے دیومالائی نہیں ہوتے ہرقصے کو اس نقطہ نظرسے نہیں دیکھاجاسکتا۔ قصے توقرآن میں بھی ہیں۔ رہی بات تصوف کی تصوف کی اہمیت ہمیشہ سے رہی ہے اور رہے گی۔تصوف کرشمہ دیکھانے کانام نہیں خودکی اور اوروں کی اصلاح، دستگیری، خدمت خلق۔ حقوق العبادوحقوق اللہ کو نیک جذبات وخشوع وخضوع سے اداکرنے کاہے
 
بعض علماء و اولیاء اللہ کو صوفی بتایا جاتا ہے حالانکہ ایسا نہیں ۔۔کیونکہ صوفیا کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں بنتا ، البتہ کسی کو ضد سے روکنے پر اختیار نہیں
ویسے یہ صوفیاز آجکل ہوتے کہاں ہیں؟ الیکٹرانک میڈیا کے آنے کے بعد تو یہ ایک دم سے غائب ہی ہوگئے ہیں ۔۔۔
پرانے دور میں الیکٹرانک میڈیا کی بجائے پرنٹ میڈیا کا دور تھا ، لوگ پڑھتے تھے دلچسپی کے لیے ، تحقیق کون کرتا جب کہانی چٹ پٹی اور مصالحہ دار ہو
بعض صوفیا تو کافی مشہور کئے گئے(ان میں وہ نامور بزرگ ہستی نہیں جو اولیاء اللہ تھے ، اور نکی ان کرامات سے انکار نہیں جن کا ظہور اللہ تعالیٰ نے انکے ہاتھوں سے کرایا) ، دبنگ اسٹائل، شاہ رخ اور سلمان خان کی طرح
یہ پرانے دور کے سیلیبریٹی تھے ، اور صوفیانہ دیو مالائی قصے ، آجکل کے الیکٹرانک میڈیا کے ٹاپ ہٹ ڈرامے و فلموں کی طرح ہؤا کرتی تھی ۔۔۔ یہ اس دور کے جیو ، اے آر وائی ،اسٹار ٹی وی وغیرہ تھے
اب اگر کوئی بغیر ظاہری اسباب کے ہوا میں اڑے یا پانی پر چلے تو بھی اتنی حیرت نہیں ہوتی کیونکہ لوگوں کی ترجیحات اب دوسری ہوچکی ہے
وہ اب جادوگری میں اتنی دلچسپی نہیں رکھتے ۔۔۔
جناب اسی لئے تصوف کاسب سے اہم قاعدہ یہ بھی ہے کہ بچوں کے اچھے نام رکھو۔ مگرآپ نے اپنے والدین کی جانب سے رکھے گئے نام کوبدل سرپھرا رکھااور نام کابھرم بھی رکھا۔
قصے دیومالائی نہیں ہوتے ہرقصے کو اس نقطہ نظرسے نہیں دیکھاجاسکتا۔ قصے توقرآن میں بھی ہیں۔ رہی بات تصوف کی تصوف کی اہمیت ہمیشہ سے رہی ہے اور رہے گی۔تصوف کرشمہ دیکھانے کانام نہیں خودکی اور اوروں کی اصلاح، دستگیری، خدمت خلق۔ حقوق العبادوحقوق اللہ کو نیک جذبات وخشوع وخضوع سے اداکرنے کاہے
 
محترم یہ فقرہ لکھ کر کہ صوفیاء کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ،ھقیتااآپ نے اپنے نام (سر پھرا) کا بھرم رکھ لیا ہے
نام میں نے رکھا پر اثر آپ کو ہؤا ۔۔۔
ویسے سرپھرے مجذوب ہی صوفی کہلاتے تھے ، ورنہ قرآن و سنت میں صوفی کا کوئی ذکر نہیں ، یہ الگ بات ہے کہ اپنی من مانی تاویل کرکے آپ اسکو قرآن و سنت میں فٹ کرنے کی ناکام کوشش کرہی لینگے ۔۔۔

بھائی تصوف شعبدہ بازی کا نم نہیں بلکہ ان برکات کا نام ہے جن کا ھصول کثرت ذکر ہے اور حاصل اطاعت اللہ و رسول ہے۔
یہ آپ کا کہنا ہے ، جمہور کا نہیں

محترم !آپ کو رہنمائی کی ضرورت ہے
چلے پھر بسم اللہ کرے ۔۔۔
 
جناب اسی لئے تصوف کاسب سے اہم قاعدہ یہ بھی ہے کہ بچوں کے اچھے نام رکھو۔ مگرآپ نے اپنے والدین کی جانب سے رکھے گئے نام کوبدل سرپھرا رکھااور نام کابھرم بھی رکھا۔
جناب یہ میرا نام نہیں ، ضروری نہیں فورم میں اپنا اصلی نام لکھے ، بے تحاشہ یوزر ایک جیسے نام ہونی کی سبب بس ایسے ہی یہ نام رکھ لیا ۔۔۔
آپ نے تصوف میں صرف بچوں کا قاعدہ پڑھا ہے ؟
اتنا نہیں معلوم کے بغیر تحقیق کہ بات نہیں کرنی چاہیئے یا اسکو والدین سے منسوب نہیں کرنا چاہیئے ۔۔۔
۔۔
تصوف میں شائد غصہ ہینے کا بھی کہا ہوگا ، اس پر عمل کرے ۔۔۔افاقہ ہوگا ۔۔۔

قصے دیومالائی نہیں ہوتے ہرقصے کو اس نقطہ نظرسے نہیں دیکھاجاسکتا
۔
دلیل طلب بات ہے ، کیا سندباد کے قصے اور اسی طرح الہ ٰ دین کا چراغ دیومالائی قصے نہیں؟ ۔۔۔

قصے توقرآن میں بھی ہیں
جی ہاں پر اس میں صداقت ہے ، اور یہی ان دونوں میں زمین آسمان جتنا فرق ہے

رہی بات تصوف کی تصوف کی اہمیت ہمیشہ سے رہی ہے اور رہے گی
اب کہاں ہے تصوف ؟ کہاں ہے ہوا میں اڑنے ، پانی میں چلنے والے صوفی ؟؟ کہاں ہے وہ "مرد حق" جو ایک ہی جلالی نگاہ سے دوسرے کو ولایت بخشتے تھے ؟؟
میرے مطابق یہ ایک ، فینٹسی کریٹ کی گئی تھی اس دور میں ، جس کے دو اہم مقاصد تھے ،
ایک یہ کہ اس دور میں یہی قصے کہانیاں انٹرٹینمنٹ ہؤا کرتے تھے ۔۔۔
دوسرا ان صوفیوں کی دھاگ لوگوں کے دل میں بٹھائی جائے تاکہ دربار مزار کا خرچہ پانی چلتا رہے ۔۔۔

تصوف کرشمہ دیکھانے کانام نہیں خودکی اور اوروں کی اصلاح، دستگیری، خدمت خلق۔ حقوق العبادوحقوق اللہ کو نیک جذبات وخشوع وخضوع سے اداکرنے کاہے
تو پھر اسکو "تقویٰ" کیوں نہیں کہتے ، ضرور ہے کہ اسکا نام صوفی ازم رکھا جائے ؟؟
 
متوازن تحریر۔ دھاگے کے بانی کو ہم سلام پیش کرتے ہیں۔ اور ساتھ میں صبر اور تحمل کا مشورہ بھی پیش کرتے ہیں۔ :)

اینٹی صوفی گروپ سے ہماری درخواست ہے کہ وہ کچھ جوابات عنایت فرمائیں۔ اسلام میں بخاری و مسلم جیسی کتابیں، صحیح و ضعیف حدیث، ثقہ و منکر راویان اور علمِ جرح و تعدیل، صرف و نحو وغیرہ کے فنون کب وجود میں آئے؟
کیا اللہ کے نبی نے کسی حدیث کو ضعیف کہا؟ اگر نہیں تو بعد میں کس صدی میں یہ فنون کام میں لائے گئے؟
کیا بخاری و مسلم اللہ کے رسول کی کتابیں ہیں؟ اور نہیں تو انہیں اصح الکتاب کیوں کہا جاتا ہے؟ کیا کرہِ ارض پر کوئی ”ایک“ ”حدیث“ کی کتاب پائی جاتی ہے جس کا نام بخاری و مسلم، ابو داؤد، ابن ماجہ وغیرہ نہ ہو؟ وہ صرف حدیث کی کتاب ہو؟
اسلام کلیات، بتاتا ہے یا فنون کی اصطلاحات بھی بتاتا ہے؟ اسلام میں مرسل روایت کے قبول کے بارے میں کوئی اللہ یا رسولﷺ کا ارشاد نقل فرمائیں۔ زید کہتا ہے کہ میں نے ایک مسئلہ بخاری شریف میں سے لیا ہے، عامر نے کہا کہ زید بدعتی ہے کیونکہ وہ اپنے مسئلے حدیث کی جگہ ”بخاری شریف“ سے لیتا ہے۔ زید اور عامر کی اصلاح فرمائیں کہ کون غلط کون صحیح؟
عامر نے مولوی صاحب کا بتایا ہوا ایک مسئلہ زید کو بتایا جس پر زید نے کہا کہ وہ ضعیف روایت پیش کر رہا ہے، عامر نے جواباً کہا کہ اسلام میں ضعیف اور صحیح حدیث کے قوانین جیسی کوئی چیز نہیں ہے۔ زید اور عامر کا جھگڑا ختم کروائیں۔

نوٹ: جوابات موضوع کے مطابق ہوں، بصورتِ دیگر جواب کی زحمت نہ فرمائیں۔
والسلام
 
متوازن تحریر۔ دھاگے کے بانی کو ہم سلام پیش کرتے ہیں۔ اور ساتھ میں صبر اور تحمل کا مشورہ بھی پیش کرتے ہیں۔ :)

اینٹی صوفی گروپ سے ہماری درخواست ہے کہ وہ کچھ جوابات عنایت فرمائیں۔ اسلام میں بخاری و مسلم جیسی کتابیں، صحیح و ضعیف حدیث، ثقہ و منکر راویان اور علمِ جرح و تعدیل، صرف و نحو وغیرہ کے فنون کب وجود میں آئے؟
کیا اللہ کے نبی نے کسی حدیث کو ضعیف کہا؟ اگر نہیں تو بعد میں کس صدی میں یہ فنون کام میں لائے گئے؟
کیا بخاری و مسلم اللہ کے رسول کی کتابیں ہیں؟ اور نہیں تو انہیں اصح الکتاب کیوں کہا جاتا ہے؟ کیا کرہِ ارض پر کوئی ”ایک“ ”حدیث“ کی کتاب پائی جاتی ہے جس کا نام بخاری و مسلم، ابو داؤد، ابن ماجہ وغیرہ نہ ہو؟ وہ صرف حدیث کی کتاب ہو؟
اسلام کلیات، بتاتا ہے یا فنون کی اصطلاحات بھی بتاتا ہے؟ اسلام میں مرسل روایت کے قبول کے بارے میں کوئی اللہ یا رسولﷺ کا ارشاد نقل فرمائیں۔ زید کہتا ہے کہ میں نے ایک مسئلہ بخاری شریف میں سے لیا ہے، عامر نے کہا کہ زید بدعتی ہے کیونکہ وہ اپنے مسئلے حدیث کی جگہ ”بخاری شریف“ سے لیتا ہے۔ زید اور عامر کی اصلاح فرمائیں کہ کون غلط کون صحیح؟
عامر نے مولوی صاحب کا بتایا ہوا ایک مسئلہ زید کو بتایا جس پر زید نے کہا کہ وہ ضعیف روایت پیش کر رہا ہے، عامر نے جواباً کہا کہ اسلام میں ضعیف اور صحیح حدیث کے قوانین جیسی کوئی چیز نہیں ہے۔ زید اور عامر کا جھگڑا ختم کروائیں۔

نوٹ: جوابات موضوع کے مطابق ہوں، بصورتِ دیگر جواب کی زحمت نہ فرمائیں۔
والسلام
ارے ہاں ، واقعی یہ تو میں نے سوچا نہ تھا ، بتائے بھلا میری نادانی دیکھے ، کہ جن علماء محدثین فقہاء یہ کتابیں مرتب کی تھی ، یہ لوگ تو صوفی تھے ؟؟؟
اب میں کہاں سے لاؤں آپ کے سوال کے جوابات میں تو لاجواب ہوکر رہ گیا ۔۔۔
بڑا شرمندہ ہؤا ۔۔۔۔کیا ہی زبردست سوال کیا آپ نے ۔۔۔۔
ہا ہا ہا ۔۔۔۔۔

گھسے پٹے پرانے فورم سے کاپی پیسٹ کرکے یہ غیر منطقی سوال کرکے آپ سمجھ رہے ہیں کہ بڑا توپ مارلیا ؟


اس بات کا بخوبی اندازہ تھا کہ صوفی ازم کی حقیقت کھل جانے کے بعد اس قسم کے بے تکے سوالات کی بھرمار ہوگئ ۔۔۔
کیا بخاری و مسلم اللہ کے رسول کی کتابیں ہیں؟ صرف و نحو کب وجود میں آئے ؟؟؟
وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔بہت پرانا اور گھسا پٹا سوال ہے ۔۔
بلکہ اب تو یہ عام چلن ہے ، جہاں کوئی بات کہو کہ فلانے چیز بدعت ہے ، طفلان مکتب ہاتھ اٹھا اٹھا کر سوال کرتے ہیں ۔۔۔
کیا حدیث کی کتاب پہلے تھی ، کیا یہ پہلے تھا ، کیا وہ پہلےتھا ۔۔۔وغیرہ وغیرہ ۔۔
سوال گندم جواب چنا ۔۔۔

حضرت ، حدیث سے پہلے آپ کی قرآن کی بات کرتے ، قرآن بھی پہلے بغیر اعراب کے ہؤا کرتا تھا ،
اسکی تدوین کا دور صحابہ کے دور میں ہوچکا تھا ، ٹھیک اسی طرح تدوین حدیث بھی صحابہ کے دور میں شروع ہوچکی تھی
اور اصول یہ ہے کہ صحابہ کا عمل بدعت نہیں ہوتا ، چنانچہ یہ عمل آج تک جاری و ساری ہے،
لیکن صوفی ازم صحابہ تو کیا تابعین و تبع تابعین تک نہ تھا ۔۔۔۔اس کی اصل کو آپ کہا سے کہا جوڑ لائے ۔۔۔

اور صحیں بخاری و حدیث سے دین کا کوئی نیا اصول نہیں نکلتا ، اتنا تو سمجھ ہوگی آپ کو ۔۔۔۔؟؟؟
لیکن صوفی ازم نے تو دین کو ہی بدل کر رکھ دیا ۔۔۔۔
پھر زید ، بکری مرغا جیسے بے تکے سوال سے صوفی ازم کا دفاع کیسے ہوگیا ؟؟
 
آخری تدوین:
ارے ہاں ، واقعی یہ تو میں نے سوچا نہ تھا ، بتائے بھلا میری نادانی دیکھے ، کہ جن علماء محدثین فقہاء یہ کتابیں مرتب کی تھی ، یہ لوگ تو صوفی تھے ؟؟؟
اب میں کہاں سے لاؤں آپ کے سوال کے جوابات میں تو لاجواب ہوکر رہ گیا ۔۔۔
بڑا شرمندہ ہؤا ۔۔۔ ۔کیا ہی زبردست سوال کیا آپ نے ۔۔۔ ۔
ہا ہا ہا ۔۔۔ ۔۔

گھسے پٹے پرانے فورم سے کاپی پیسٹ کرکے یہ غیر منطقی سوال کرکے آپ سمجھ رہے ہیں کہ بڑا توپ مارلیا ؟


اس بات کا بخوبی اندازہ تھا کہ صوفی ازم کی حقیقت کھل جانے کے بعد اس قسم کے بے تکے سوالات کی بھرمار ہوگئ ۔۔۔
کیا بخاری و مسلم اللہ کے رسول کی کتابیں ہیں؟ صرف و نحو کب وجود میں آئے ؟؟؟
وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ ۔بہت پرانا اور گھسا پٹا سوال ہے ۔۔
بلکہ اب تو یہ عام چلن ہے ، جہاں کوئی بات کہو کہ فلانے چیز بدعت ہے ، طفلان مکتب ہاتھ اٹھا اٹھا کر سوال کرتے ہیں ۔۔۔
کیا حدیث کی کتاب پہلے تھی ، کیا یہ پہلے تھا ، کیا وہ پہلےتھا ۔۔۔ وغیرہ وغیرہ ۔۔
سوال گندم جواب چنا ۔۔۔

حضرت ، حدیث سے پہلے آپ کی قرآن کی بات کرتے ، قرآن بھی پہلے بغیر اعراب کے ہؤا کرتا تھا ،
اسکی تدوین کا دور صحابہ کے دور میں ہوچکا تھا ، ٹھیک اسی طرح تدوین حدیث بھی صحابہ کے دور میں شروع ہوچکی تھی
اور اصول یہ ہے کہ صحابہ کا عمل بدعت نہیں ہوتا ، چنانچہ یہ عمل آج تک جاری و ساری ہے،
لیکن صوفی ازم صحابہ تو کیا تابعین و تبع تابعین تک نہ تھا ۔۔۔ ۔اس کی اصل کو آپ کہا سے کہا جوڑ لائے ۔۔۔

اور صحیں بخاری و حدیث سے دین کا کوئی نیا اصول نہیں نکلتا ، اتنا تو سمجھ ہوگی آپ کو ۔۔۔ ۔؟؟؟
لیکن صوفی ازم نے تو دین کو ہی بدل کر رکھ دیا ۔۔۔ ۔
پھر زید ، بکری مرغا جیسے بے تکے سوال سے صوفی ازم کا دفاع کیسے ہوگیا ؟؟

لولززز!!!
:ROFLMAO::ROFLMAO::ROFLMAO:
میں نے پہلے ہی کہا تھا ادھر ادھر کی نہیں ہانکنی۔ صرف جوابات دینے ہیں۔ :chatterbox::chatterbox::chatterbox::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor:
میرا جواب میرے سوالات میں ہی موجود تھا۔ جب کہ آپ نے محض ادھر ادھر کی ہانکی ہیں جو آپ کی ہمیشہ کی عادت ہے۔ :)
میں نے آپ سے پوچھا تھا کہ کیا اسلام صرف کلیات بتاتا ہے یا فنون کی اصطلاحات بھی بتاتا ہے؟؟ اس کا آپ نے کوئی جواب نہیں دیا۔ اور یہی حقیقت ہے کہ کسی فن کی کوئی اصطلاح اسلام میں بدعت نہیں ہے۔ سوائے اس کے کہ اس سے بذاتِ خود دین یا کسی سنت میں کوئی کمی یا زیادتی ہوتی ہو۔ جس طرح جرح و تعدیل کا فن صحابہ اور ما بعد قرن اولی میں نہیں تھا، سب کے سب عادل تھے، سب تابعین رحمہم اللہ ثقہ تھے اور مرسل روایات جنہیں آج کل کے جاہل محدثین نے لوگوں کو منکر اور موضوع باور کروا رکھا ہے اسے بھی صحیح کے درجے میں شمار کیا جاتا تھا، اور یہ معاملہ قریب 150 صدی ہجری تک چلتا رہا ہے جس میں فنِ جرح و تعدیل اس درجۂ کمال پر نہیں پہنچا تھا کیونکہ اس کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ اسی طرح جب تمام تابعین، اور صحابہ اہلِ ذوق ہوں، اللہ کے مقرب ہوں، عدل، جہد اور تقوی گلی گلی کوچے کوچے میں موجود ہو تو صوفی ازم جیسے فن کی کیا ضرورت رہی؟ پھر آہستہ آہستہ جو لوگوں کی نیت میں کھوٹ آگئی، اور نفس پر قابو نہ رہا، اور دل کا ضبط جاتا رہا تو ولی اللہ اور مقربین نے ایسے طریقے نکالے جس سے اللہ تک رسائی حاصل کرنا آسان تھا، اسی کو صوفی ازم کہتے ہیں، اور یقین مانئے کہ طریقتِ اسلامی ہی نے مکمل شریعتِ اسلامی کو بچایا ہے۔ کیونکہ عالم گھر میں فرج اور ریفریجریٹر رکھ کر اور اس میں ایک مہینے کا کھانا اسٹور کر کے منبر پر توکل کی دعوت دیتا ہے، جب کہ صوفی جو قمیض پہنتا ہے اسی کو بچھا کر سو جاتا ہے۔ عالم فتوی دیکھتا ہے، اور صوفی تقوی دیکھتا ہے۔ لیکن اینٹی صوفی دنیا پرست اور نفس پرست لوگ اس حقیقت کو حاصل تو کیا کرتے، لگ گئے گالیاں دینے۔ :rolleyes: اب جو انسان جانتا ہی نہ ہو کہ طریقت کیا ہے اس سے کیسی بحث کی جائے۔؟
آخری بات یہ کہ اسے صوفی ازم کیوں کہتے ہیں؟ تقوی کیوں نہیں کہتے؟ اس کا جواب بھی پہلے ہو چکا ہے۔ اصطلاحات اسلام میں بدعت نہیں ہیں۔ چاہے آپ بخاری شریف سے مسئلے کا حل لیں، یا حدیث سے مسئلے کا حل لیں، بات ایک ہی ہے۔ صرف نام کا فرق ہے، کام اللہ اور رسول کی بات کا اتباع ہے، وہاں بھی کام اللہ تک رسائی ہے۔

والسلام۔
 
آخری تدوین:
اور اصول یہ ہے کہ صحابہ کا عمل بدعت نہیں ہوتا ، چنانچہ یہ عمل آج تک جاری و ساری ہے،
اجی سرپھرے اس کاحوالہ دیجئے،
شاید آپ جیسے مخالف صوفی ازم نے ہی دہشت گردی کو فروغ دیا۔ دین میں بھی دنیامیں۔
دین میں دہشت گردی یہ کہ خداورسول اور قرآن کے نام پر صوفی ازم کے مخالفت میں دوسروں کو جاہل اور بدعت سمجھتے ہیں۔
آپ یہ بتائیں کہ آپ کے آباواجداد کیا تھے؟ بدعتی یامسلمان؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
 
اور اصول یہ ہے کہ صحابہ کا عمل بدعت نہیں ہوتا ، چنانچہ یہ عمل آج تک جاری و ساری ہے،
اجی سرپھرے اس کاحوالہ دیجئے،
شاید آپ جیسے مخالف صوفی ازم نے ہی دہشت گردی کو فروغ دیا۔ دین میں بھی دنیامیں۔
دین میں دہشت گردی یہ کہ خداورسول اور قرآن کے نام پر صوفی ازم کے مخالفت میں دوسروں کو جاہل اور بدعت سمجھتے ہیں۔
آپ یہ بتائیں کہ آپ کے آباواجداد کیا تھے؟ بدعتی یامسلمان؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

محترم یہ بھول گئے ہیں کہ فرقہ اہلحدیث یا سلفیہ و وہابیہ میں صحابہ کا عمل حجت ہے ہی نہیں۔ حضرت عمر اور حضرت عثمان رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین بھی بدعت ایجاد کرتے ہیں جس کی روک تھام کا ذمہ ان حضرات نے لے رکھا ہے۔ :rolleyes:
 

x boy

محفلین
اب تک کتنے صوفی بزرگ پائے گئے مکہ معظمہ اور مدینے میں ان 1400 سالوں میں ، میں یہ جاننا چاہتا ہوں
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور سے لے کر اب تک۔
 

ابن محمد جی

محفلین
اب تک کتنے صوفی بزرگ پائے گئے مکہ معظمہ اور مدینے میں ان 1400 سالوں میں ، میں یہ جاننا چاہتا ہوں
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور سے لے کر اب تک۔
محترم تصوف کو نقصان پہچانے والے دو طبقے ہیں ایک نام نہاد جھوٹے صوفی۔اور دوسرے منکرین تصوف۔آپ سوال یہ کریں کہ تصوف ہے کیا۔اگر آپ سنجیدہ ہیں اس موضوع پر بات کرنے کے لئے تو بندہ حاضر خدمت ہے۔مقصد ایک دوسرے کی اصلاح ہو گا۔
 

نایاب

لائبریرین
آپ سب محترم دوستوں سے اک سوال ۔
قلب سلیم کا حامل اک انسان فتنہ و فساد سے بھرپور لہو و لعب کی کثرت سے شرابور معاشرے میں " فضول لذات دنیا " سے کنارہ کرتے بکریاں اونٹ چراتے کسب حلال میں مصروف رہتے آبادیوں سے دور اک غار میں اپنے " گیان دھیان " میں مصروف رہتا ہے ۔ جب کبھی آبادیوں کا رخ کرتا ہے تو بھلائی کا پرچار کرتا ہے ۔ لوگوں کے درمیان پیدا شدہ جھگڑوں میں ثالث بنتا ہے ۔۔۔۔۔
اس شخص کا یہ عمل کیا کہلائے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ اور اس شخص کو کس لقب سے پکارا جائے گا ۔؟
 

محمداحمد

لائبریرین
ابن محمد جی صاحب نے فورم پر آتے ہی پہلی پوسٹ بعنوان "علماء اہلحدیث اور تصوف" پوسٹ کی تھی۔ اُس میں بھی کچھ اسی قسم کی باتیں تھیں۔ اور یہ سب "کاپی پیسٹ دانائی" یہاں سے وہاں اور وہاں سے یہاں انٹرنیٹ پر جگہ جگہ پھیلانے کا کام محترم بڑی تن دہی سے کرتے رہتے ہیں۔

اس پوسٹ پر ایک نظر ڈالنے سے اندازہ ہو جائے گا۔
 
Top