مقدس
لائبریرین
بابا کو گئے ساڑھے چار سال ہونے کو ہیں پر کبھی کبھی لگتا ہے کہ ابھی کل ہی کی بات ہو۔۔ بابا کو یقین دلانا کہ کچھ نہیں ہونا۔۔ ایک چھوٹا سا آپریشن ہی تو ہے۔۔ صبح تک آپ نے بالکل ٹھیک ہو جانا۔۔ پھر کتنی دیر ان کا ہاتھ تھام کر ان سے ڈھیر ساری باتیں کرنا۔۔۔ بابا کا سر دبانا۔۔۔ ان کے ماتھے پر بار بار پیار کرنا۔۔ ان کے ہاتھوں کو انجانے میں بار بار اپنی آنکھوں سے لگانا۔۔ اور پھر ان پر پیار کرنا۔۔ تب بابا کا ایک ایسی فرمائش کا اظہار کرنا جو ہم میں سے کسی کے وہم وگمان میں بھی نہ تھی۔۔ اور امی پریشان کہ شاید میں اس کے لیے تیار نہ ہوں لیکن اپنے بابا سے زیادہ تو عزیز تو کچھ نہ تھا۔۔ بابا کی آنکھوں میں تیرتی وہ خوشی کی لہر۔۔ ابھی بھی جب سوچوں تو مجھے ایک بھرپور خوشی کا احساس ہوتا ہے۔۔ میری ذات میرے بابا کے لیے اس وقت اطمینان کا باعث بنی جب ان کو اس کی سب سے زیادہ ضرورت تھی۔۔۔ اور میرے لیے، میری زندگی کا سب سے بہترین فیصلہ جس میں میرے بابا کی رضا شامل تھی۔۔
بابا! آج بھی وہ لمحے شدت سے یاد آتے ہیں۔۔ جو ہاسپٹل کے کاریڈور میں ہم نے گزارے۔۔ آپ کو پتا تھا ناں کہ اب آپ نے واپس نہیں آنا تبھی اپنے حصے کی ساری ذمہ داریاں نمٹانے کی کوشش کرتے رہے۔۔ میرے بار بار تسلی دینے پر وہ مسکراہٹ مجھے ابھی بھی یاد آتی ہے تو آنسو رکنے کا نام نہیں لیتے۔۔ اتنی بھی کیا جلدی تھی جانے کی بھلا؟ ابھی تو ڈھیروں خوشیاں شئیر کرنی تھیں آپ سے۔۔ اتنی ساری باتیں کرنی تھیں۔۔ اتنا کچھ سننا تھا۔۔ سنانا تھا بابا جانی۔۔
آپ ہمیشہ کہتے تھے امی سے کہ بھئی ابھی سے بتا رہا ہوں کہ اپنے گرینڈ چلڈرن کو میں نے خوب بگاڑنا ہے۔ تو پھر کیوں اتنی جلدی کری جانے میں بابا؟ طلحہ کو آپ کی تصویر دکھا کر کہتی ہوں کہ بولو کون ہیں؟ تو وہ کہتا ہے ببا ببا۔۔ پتا ہے آپ کو کہ کتنا کچھ مس کرے گا وہ؟ اسے کندھے پر بٹھا کر ویسے سیر کون کروائے گا جیسے ہم نے کی تھی۔۔ نیو ائیر لائٹس دیکھنے کون لے جائے گا۔۔۔ اور وہ ڈھیروں فائر ورکس۔۔
پتا ہے آپ کو۔۔ آپ کے جانے کے بعد کوئی لائٹس دیکھنے نہیں جاتا۔۔ کوئی فائر ورکس نہیں خریدتا۔۔ نیو ائیر ایسے ہی گزر جاتا ہے۔۔ سالگرہ پر کوئی فیری کیکس نہیں بناتا کہ ان میں بابا کا پیار شامل کہاں سے کریں۔ اور ہمیں عیدی بھی کوئی نہیں دیتا اب۔۔ اور پتا ہے آپ کو امی نے اب ڈانٹنا بھی چھوڑ دیا ہے۔۔ اور کھانا نہ کھانے پر غصہ بھی نہیں کرتیں۔ خاموش سی ہو گئی ہیں بالکل۔۔ پر مجھے پتا ہے کہ آپ ادھر اوپر سے سب دیکھ رہے ہیں۔۔ اور خوش ہو رہے ہیں کہ ہم بالکل ویسے ہیں۔۔ جیسا آپ نے ہمیں بنانا چاہا تھا۔۔ لو یو آلویز بابا جانی۔۔
سب کچھ بدل گیا ہے بس ایک آپ کے جانے سے۔۔
بابا! آج بھی وہ لمحے شدت سے یاد آتے ہیں۔۔ جو ہاسپٹل کے کاریڈور میں ہم نے گزارے۔۔ آپ کو پتا تھا ناں کہ اب آپ نے واپس نہیں آنا تبھی اپنے حصے کی ساری ذمہ داریاں نمٹانے کی کوشش کرتے رہے۔۔ میرے بار بار تسلی دینے پر وہ مسکراہٹ مجھے ابھی بھی یاد آتی ہے تو آنسو رکنے کا نام نہیں لیتے۔۔ اتنی بھی کیا جلدی تھی جانے کی بھلا؟ ابھی تو ڈھیروں خوشیاں شئیر کرنی تھیں آپ سے۔۔ اتنی ساری باتیں کرنی تھیں۔۔ اتنا کچھ سننا تھا۔۔ سنانا تھا بابا جانی۔۔
آپ ہمیشہ کہتے تھے امی سے کہ بھئی ابھی سے بتا رہا ہوں کہ اپنے گرینڈ چلڈرن کو میں نے خوب بگاڑنا ہے۔ تو پھر کیوں اتنی جلدی کری جانے میں بابا؟ طلحہ کو آپ کی تصویر دکھا کر کہتی ہوں کہ بولو کون ہیں؟ تو وہ کہتا ہے ببا ببا۔۔ پتا ہے آپ کو کہ کتنا کچھ مس کرے گا وہ؟ اسے کندھے پر بٹھا کر ویسے سیر کون کروائے گا جیسے ہم نے کی تھی۔۔ نیو ائیر لائٹس دیکھنے کون لے جائے گا۔۔۔ اور وہ ڈھیروں فائر ورکس۔۔
پتا ہے آپ کو۔۔ آپ کے جانے کے بعد کوئی لائٹس دیکھنے نہیں جاتا۔۔ کوئی فائر ورکس نہیں خریدتا۔۔ نیو ائیر ایسے ہی گزر جاتا ہے۔۔ سالگرہ پر کوئی فیری کیکس نہیں بناتا کہ ان میں بابا کا پیار شامل کہاں سے کریں۔ اور ہمیں عیدی بھی کوئی نہیں دیتا اب۔۔ اور پتا ہے آپ کو امی نے اب ڈانٹنا بھی چھوڑ دیا ہے۔۔ اور کھانا نہ کھانے پر غصہ بھی نہیں کرتیں۔ خاموش سی ہو گئی ہیں بالکل۔۔ پر مجھے پتا ہے کہ آپ ادھر اوپر سے سب دیکھ رہے ہیں۔۔ اور خوش ہو رہے ہیں کہ ہم بالکل ویسے ہیں۔۔ جیسا آپ نے ہمیں بنانا چاہا تھا۔۔ لو یو آلویز بابا جانی۔۔
سب کچھ بدل گیا ہے بس ایک آپ کے جانے سے۔۔