مشرف عالم ذوقی کے منتخب افسانے۔ حصہ اول

الف عین

لائبریرین
(۳)
بڈھے کے دیکھتے ہی دیکھتے پوتے میں جوانی کے پر نکل آئے۔ تیزی سے بدلتی فاسٹ فوڈ(Fast food) کی اس دنیا میں اب وہ ایک آزاد مرد جوان کی حیثیت سے تھا اور یہ سب، کہ اس میں کیسے کیسے اور کتنے پر نکلے، یا یہ کہ خالی وقت میں وہ کیا کیا کرتا رہا ہے، ان مہملات کے لئے بیٹے کے پاس وقت نہیں تھا۔ مگر بڈھے کی گدھ نگاہیں ہر دم اس کے آگے پیچھے گھومتی رہتی تھیں اور حقیقت یہ ہے کہ صرف گھومتی ہی نہیں رہتی تھی بلکہ قدم قدم پر چونکتی اور پریشان بھی ہوتی رہتی تھیں۔ ۔
مثلاً یہ کہ وہ۔ ۔ بہت زیادہ دوڑ رہا ہے، اڑ رہا ہے___
مثلاً یہ کہ وہ۔ ۔ نئے پن کی تلاش میں، خواہ وہ نیا پن کیسا بھی ہو، بلا خوف، بے جھجھک ’جنون‘ میں مبتلا ہو رہا ہے___
مثلاً یہ۔ ۔ کہ اب اسے دیکھ پانا، ہاں دیکھ پانا روز بروز ایک مشکل امر ہوا جا رہا ہے۔
بڈھا ہمت جٹا کر اپنے مصروف بیٹے کے پاس آتا___
’___اس نے اول جلول کپڑے، پہنے ہیں۔ ۔ ‘
’اس کے دوست بھی پہنتے ہوں گے‘۔ ۔ بیٹے کی نگاہیں اپنے کام میں مصروف ہوتیں۔
’___اس کے کانوں میں چھلے ہیں۔ ۔ ‘
’نیا فیشن ہوگا۔ ۔ ‘
’___وہ راتوں کو دیر سے آتا ہے۔ ۔ ‘
’کلب اور دوستوں میں دیر ہو جاتی ہوگی‘
’___وہ۔ ۔ ‘
بیٹے کے پاس ہر بات کا جواب موجود تھا۔لیکن ویر یور اٹی چیوڈ (Wear your attitude) والا لہجہ بڈھے کو ہضم نہیں ہوتا تھا اور پوتے کے We are like this only یعنی ہم تو ایسے ہی ہیں،جیسے ریمارک پر اس کانک چڑھاپن اور بھی بڑھ جاتا تھا___
***
پوتا جوشیلا تھا، تیز طرار تھا۔ نگاہیں ملا کر بات کرتا تھا۔ وہ ہر لمحہ خود کو نئے Attitude میں ڈھال رہا تھا۔ رنگ برنگے بال، کانوں میں چھلے، پھٹی ہوئی جینس___ کبھی کبھی تیز تیز آواز میں گانے لگتا۔ بڈھے کی ہر بات کا پوتے کے پاس ایک ہی جواب تھا۔
’ہم اپنی مرضی کے مالک ہیں۔‘
’___چاہے تم جتنی بھی تیز آواز میں ناچو، گاؤ۔‘
’ہاں‘
’___کسی کی موجودگی کا خیال بھی نہ کرو۔‘
’ہاں۔ ۔ ‘
’___کسی کے دکھ، پریشانی کا۔‘
’ہاں۔ ۔ ہم صرف اپنے بارے میں سوچتے ہیں___ اس لئے کہ we are like this only۔ ۔ ‘
’___ہم اپنے زمانے میں۔ ۔ ، بڈھے کا لہجہ کھوکھلا تھا۔
’تم لوگ آخر اتنے دبو کیوں تھے۔ اس لئے کہ تم لوگ ڈر ڈر کر جی رہے تھے۔ ۔ ‘
یہ ایک بھیانک حقیقت تھی۔ یا یہ ایک ایسا کنفیشن تھا جسے کرتے ہوئے بوڑھے نے ہمیشہ ہی خوف محسوس کیا تھا۔ ۔ بڈھے کو اپنا زمانہ معلوم تھا۔ بڈھے کی غلطی یہ تھی کہ اس کے بیٹے کو بھی یہی زمانہ وراثت میں ملا___ بڈھا اپنے زمانے میں کسی لڑکی سے بات کرتے ہوئے بھی گھبراتا تھا___ فرق اتنا تھا کہ بیٹے کی زندگی میں ایک لڑکی آئی تھی۔ ۔ لیکن ایک خاموش رومانی کہانی، شروع ہونے سے پہلے ہی بھیانک طوفان میں بکھر گئی۔ ۔ بڈھے کو سب کچھ یاد تھا۔ ۔ وہ پاگلوں کی طرح اپنی خاندانی عزت کو بچانے کے لئے ساری ساری رات کمرے میں ٹہلتا رہا تھا۔ ۔ ایسا تو اس کی سات پشتوں میں سے کسی نے نہیں کیا۔ ۔ صبح کا دھند لکا ہونے سے پہلے ہی بیٹے کو نیند سے جگا کر اس نے اپنا فیصلہ سنا دیا۔ ۔
’ایسا کرنا میرے لئے ممکن نہیں___ تم چاہو تو بغاوت کرسکتے ہو؟‘
بیٹے کا چہرہ ایک لمحے کو کانپا۔ پھر جھک گیا۔
بڈھے کو یقین سا ہے، کہ اس موقع پر بغاوت کے خاتمے کے اعلان پر اس کے ہونٹوں پر ایک ہلکی سی مسکان ضرور نمودار ہوئی تھی۔ پھر بیٹے نے وہی کچھ کیا جو کچھ اس بڈھے نے چاہا۔ ۔ یا جیسا کہ اس کے پہلے والی نسل کے لوگ کرتے آئے تھے۔ ۔
 

الف عین

لائبریرین
(۴)
لیکن پوتا، اپنی اس دنیا سے کتنا خوش تھا، یہ وہی بتا سکتا تھا۔ وہ ایک ایسے کامیاب آدمی کا بیٹا تھا جن کے پاس بیکار کی باتوں کے لئے وقت نہیں رہتا۔ پوتے کے پاس اپنی ایک اسپورٹس کار تھی جس میں وہ اپنی دوست لڑکیوں کے ساتھ سیر سپاٹا کرسکتا تھا۔ ایک پلاسٹک کارڈ یا کریڈٹ کارڈ تھا۔ ایک موبائل، جس میں زیادہ تر اس کی دوست لڑکیوں کے فون آیا کرتے تھے۔ وہ الٹی بیس بال ٹوپی پہنتا تھا۔ ڈھیلی ڈھالی باکسر شرٹس اس کی پہلی پسند تھی۔ وہ فاسٹ فوڈ کا شیدائی تھا اور ریڈی میڈرومانس میں ہی اس کی دلچسپی تھی۔ یعنی کچھ دن ہنسے، بولے پھر کپڑے بدل دیئے۔ جس دن پوتے نے پہلی بار اپنے ننگے بدن پر ’’گودنے‘‘ گدوائے تھے، اس دن بڈھا بری طرح اچھلا تھا۔
’___یہ سب کیا ہے؟‘
’آپ دیکھتے نہیں، یہ سانپ ہے۔ ۔ یہ مچھلی ہے۔ ۔ یہ سیڑھیاں ہیں۔ ۔ ‘
’’___لیکن یہ سب کیوں ہے؟‘
’کیوں کہ ہمیں یہی اچھا لگتا ہے۔‘
’___لیکن اس کے بعد۔ ۔ ‘
’سوچا نہیں ہے۔‘
***
بڈھا ایک بار پھر اپنے مصروف بیٹے کے پاس تھا۔ ۔
’___اسے روکو۔ ۔ ‘
بیٹا خاموش رہا۔ ۔
’___اسے سمجھنے کی کوشش کرو‘
’بیٹے نے اس بار بھی اپنی نظریں جھکائے رکھیں۔ ۔ ‘
بڈھے کے چہرے پر تناؤ تھا۔ ۔
’میں تمہارا باپ ہوں۔ تم سے ایک نسل بڑا۔ ۔ پھر مت کہنا کہ مجھے خبر نہ ہوئی۔ ۔ اس نے آزادی چاہی۔ اسے آزادی ملی۔ ۔ وہ آزادی جو مجھے اور تمہیں نہیں ملی تھی۔ تم اسے روکتے، وہ تب بھی نہیں رکتا، تم اسے بندشوں میں جکڑنے کی کوشش کرتے، تو وہ یہ زنجیریں توڑ دیتا۔کیونکہ وہ بہر صورت تمہاری طرح بزدل نہیں ہے۔ ایک معمولی محبت کے لئے بھی بغاوت نہیں کرنے والا۔ ۔ سن رہے ہو،نا۔‘
بات ویسے ہی سرجھکائے فائلوں میں مصروف رہا۔ ۔
بڈھے نے کہنا جاری رکھا۔ ’اس نے سب سے پہلے اپنی حدیں توڑیں۔ سمجھ رہے ہونا، حدیں۔ ۔ وہ گھر سے باہر رہا۔ ساری ساری راتیں باہر۔ ۔ شراب، جوئے اور لڑکیوں میں۔ ۔ لیکن یہ سب وہ باتیں تھیں جو بہت آؤٹ ڈیٹیڈ تھیں۔ ۔ یعنی جن کے بارے میں زیادہ باتیں کرنا تمہارے جیسے لوگوں کے لئے تضیع اوقات ہے۔ اس نے اپنی اڑان جاری رکھی۔ ۔ بال منڈوائے، گودنے گدوائے، الٹی ٹوپی پہنی اور زمانے بھر سے الٹا ہو گیا۔ ۔ تم سمجھ رہے ہو میں کیا کہہ رہا ہوں۔ ۔ ‘
بیٹا ویسے ہی مصروف رہا، جیسے بڈھے کی باتیں اس کے سمجھ میں نہیں آ رہی ہو___
’’میں نے سمجھا ہے انہیں۔ تم سے زیادہ۔اس لئے کہ پل پل میں تم سے زیادہ ان کے قریب رہا ہوں۔ سنو۔ ۔ غور سے سنو۔ ۔ یہ بہت تیز طرار ہیں۔ غضب کے اڑان والے___ انہیں زندگی اور وقت پر بھروسہ نہیں ہے۔ یہ سب کچھ وقت سے پہلے کر لینا چاہتے ہیں___ ہم اور تم تھوڑا تھوڑا کر کے سفر آگے بڑھاتے تھے۔ اس لئے عمر کا ایک بڑا حصہ ڈھل جانے کے بعد بھی ہمارے پاس بہت وقت رہ جاتا تھا۔ مگر ان کے پاس۔‘‘
بڈھے کا لہجہ ڈراونا تھا۔ ۔ ’جب یہ سب کچھ کر لیں گے تو؟ یعنی اس چھوٹی سے عمر میں ہی___ تو باقی عمر کا کیا کریں گے یہ۔ ۔ ؟ بڈھا کھانس رہا تھا۔ ۔ غم اسی بات کا ہے کہ یہ باقی عمر کی پرواہ نہیں کریں گے۔ مت سنوتم۔ ۔ جہنم میں جاؤ۔ ۔ ‘
***
پوتے کے اندر آنے والی یہ وہ تبدیلیاں تھیں، جس کے بعد بڈھے نے خود سے سوال کرنا چھوڑ دیا۔ ۔ کہ آخر اس میں (پوتے) ایسا کیا ہے جو اس کے پاس نہیں ہے۔ بڈھا کے پاس اپنے پوتے کی ذہنی سطح کے لئے بس ایک ہی جملہ تھا___ یعنی ہیجان کی آخری سطح۔ ۔ !
اس کے بعد۔ ۔ ؟
بڈھے کو سوچ سوچ کر خوف آتا تھا۔ ۔ بڈھے کے اندر پوتے کے لئے اب رقابت نہیں بلکہ ترحم کا جذبہ جاگ اٹھا تھا۔ اسے رہ رہ کر پوتے پر افسوس آتا تھا۔ ۔ اس دن پوتے کے ساتھ ایک نئی لڑکی تھی۔ پوتا لڑکی کے ساتھ کمرے میں بند ہو گیا۔ ۔ بڈھے کی آنکھوں میں ایک پل کو شعلہ سا چمکا۔ ۔ پھر پتہ نہیں کیا سوچ کر یہ شعلہ بجھ سا گیا۔
لڑکی کے جانے کے بعد وہ پوتے کے پا س آیا۔
’___کون تھی یہ لڑکی؟‘
’نہیں معلوم‘
’___تمہارے ساتھ پڑھتی ہے؟‘
’نہیں۔‘
’___دوست ہے؟‘
’شاید۔ ۔ نہیں۔‘
’___کنفیوزڈ ہو تم۔ ورنہ اتنی چھوٹی سی بات کے لئے ’شاید‘ اور ’نہیں‘ کا سہارا نہیں لیتے۔
’تم نے کیا سمجھا، کون ہے یہ ؟‘ پوتے نے پلٹ کر پوچھا۔
’___میں نے سمجھا، شاید تمہاری سپاٹ زندگی میں ایک کرن چمکی ہے۔‘
’تم بڈھے ہو گئے ہو۔‘
’___نہیں۔مجھے تم پر ترس آتا ہے۔ ۔ ‘
’مجھ پر ترس کھانے کی ضرورت نہیں۔‘
’___ضرورت ہے___ بڈھے کو مزہ مل رہا تھا۔ اس لئے کہ اگر وہ لڑکی وہی ہوتی، جیسا میں نے سوچا تھا۔ ۔ تو۔ ۔ ‘
’تو کیا۔ ۔ ؟‘
’___اب سوچتاہوں۔ تمہارے باپ کے زمانے میں، میں کتنا غلط تھا۔ بہت ممکن تھا، وہ محض ایک پیسہ کمانے والی مشین ثابت نہیں ہوتا۔ آدمی، ایک متوازن آدمی ہونا بہت مشکل کام ہے اور یقیناً محبت یہ کرسکتی ہے۔ ۔ ‘
’محبت۔ شٹ___‘ پوتے کے ہونٹوں میں مضحکہ خیز ہنسی تھی۔
’___نہیں۔تم نہیں جانتے کہ ابھی ابھی جو لڑکی تمہارے کمرے سے نکل کر گئی ہے۔ تم اس کے نزدیک کیا تھے۔ سنو، تم لوگوں نے مجھے اتنا ایڈوانس تو بنا ہی دیا ہے کہ میں یہ کہہ سکتا ہوں، تم اس لڑکی کے لئے صرف ایک اسٹریپر تھے۔ ایک میل اسٹریپر۔‘
بڈھا ہنسا۔ ۔ ’مجھ پر غصہ نہیں ہو۔ اپنے آپ کو سمجھو۔ ورنہ اندر کا یہ اندھیرا تمہیں تباہ کر دے گا۔ ۔۔ ‘
پھر وہ ٹھہرا نہیں۔ تیزی سے باہر نکل گیا۔
اور اس کے ٹھیک دو ایک روز بعد ہی رات کے اندھیرے میں بڈھے نے محسوس کیا، پوتے کے کمرے سے تیز تیز سسکیوں کی آوازیں گونج رہی ہیں۔ ۔
 

الف عین

لائبریرین
(۵)
اس واقعہ کے کچھ دنوں بعد___بڈھا ایک بار پھر اپنے مصروف بیٹے کے سامنے کھڑا تھا۔
’سنو، وہ چپ ہو گیا ہے۔‘
بیٹا شانت تھا۔
’___وہ کچھ بولتا نہیں۔‘
بیٹا بے اثر رہا۔
’___وہ کھویا کھویا رہنے لگا ہے، وہ راتوں کو روتا ہے۔ ساری ساری رات جاگتا رہتا ہے۔
بیٹے نے ذرا سی نگاہ اوپر اٹھائی۔
’آپ ذرا سی بات کو طول دے رہے ہیں۔ اس میں نیا کیا ہے؟‘
’___نیا ہے آہ!تم ابھی بھی نہیں سمجھے___ بڈھا فرط حیرت سے چلّایا۔ وہ سب کچھ کر گزرا ہے اپنی اس چھوٹی سی عمر میں۔ ۔ جو ہم تم اتنی عمر گزار کر بھی نہیں سوچ سکتے تھے۔
’یہ نئی نسل ہے۔ جیٹ رفتار۔ ۔ یہ ایسی ہی ہے۔ ۔ ‘بیٹے کی آواز بوجھل تھی___ ’نہیں۔ ۔ ‘ بڈھا غصے سے اُچھلا۔ ۔ اس نسل کے پاس سے فنتاسی ختم ہو گئی ہے اور فنتاسی کو پانے کے لئے یہ نسل کچھ بھی کرسکتی ہے۔
’’مثلاً‘‘
’یہ نسل آتنک وادی بن سکتی ہے۔‘
’یہ بھی نہ ہو، تو۔ ۔ ؟‘
’___سنو،ہیجان کی آخری منزلوں میں، یہ نسل کسی کی جان بھی لے سکتی ہے۔ تمہاری بھی۔
’اور اگر یہ دونوں ممکن نہیں ہوا تو‘
’___آخری فنتاسی کے طور پر یہ اپنی جان لینا چاہے گی یعنی خودکشی؟‘
بڈھا کمرے سے نکل گیا تھا۔ ۔
بیٹا پہلی بار حیران سا اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا تھا___
 

الف عین

لائبریرین
(۶)
پوتے کے ہاتھوں میں چرمی بیگ تھا۔ جس میں اس نے ضروری کپڑے، سامان وغیرہ رکھ لئے تھے، جو آگے کے سفر میں اس کے کام آسکتے تھے۔ ۔ اس نے ایک ڈھیلا ڈھالا ’پیڈل پشر‘ پہن رکھا تھا۔ ۔ فل جینس کی جگہ ایک آدھی پھٹی ہوئی ہاف جینس تھی۔ آنکھوں میں ایسی انوکھی چمک تھی جسے بڈھا اور بیٹا پہلی بار دیکھ رہے تھے۔
’___تو تم نے ارادہ کر لیا ہے، بیٹے کا لہجہ اداسی سے پر تھا۔
’ہاں،یہ ہم تمام دوستوں کا ارادہ ہے۔‘
’___تم کتنے لوگ جا رہے ہو۔‘
’ہم پانچ چھ دوست ہیں۔‘
’___صرف لڑکے۔‘
’___نہیں ایک لڑکی بھی ہے۔‘
’___وہاں برف کے گلیشیر بھی ہوں گے۔‘ باپ کے لہجہ میں تھرتھراہٹ تھی۔
’ہم گلیشیر کی نچلی سطح پر پانی جمع ہوتا ہے۔ یخ پانی،کبھی بھی وہاں اچھے بھلے آدمیوں کی بھی قبر بن جاتی ہے۔‘ بڈھے کا لہجہ پوتے کو سفر کے ارادے سے روکنے کا تھا۔
پوتے کی آنکھوں میں عجیب سی چمک تھی___ ’ہم کبھی گلیشئر کو پگھلتے نہیں دیکھا۔‘‘
’___تم لوگ سب سے پہلے کہاں جاؤ گے،۔ ۔ باپ کے لئے یہ جاننا ضروری تھا۔
یہ ایک اسیکی رسارٹ (Ski-Resort) ہے۔ ہم برف کی کسی ایک اونچی چٹان پر کھڑے ہو جائیں گے___ وہاں سے رسی کا ایک سرا مضبوطی سے ان چٹانوں میں باندھ دیں گے۔ آپ سمجھ رہے ہیں نا۔ ۔ ‘ پوتا دلچسپی سے اپنے کھیل کے بارے میں بتا رہا تھا۔ آئس ہاکی یا اسکٹینگ جیسے کھیلوں سے بھی لوگ اکتا چکے ہیں۔ رسی کا دوسرا سراہم اپنے جسم میں باندھیں گے اور اونچائی سے برف کی آغوش میں لیں گے۔ ایک لمبی اندھی چھلانگ___‘
بڈھے نے خوف سے آنکھیں بند کر لیں۔ بیٹے کے بدن میں تھرتھری ہوئی۔ ۔
’___لیکن اس میں خطرہ تو ہے۔ اس میں تو بہت سے لوگ مر بھی جاتے ہوں گے۔‘
’ہاں ایسا بہت ہوتا ہے۔‘ پوتے کے ہونٹوں پر ہنسی تھی۔ ۔ اس نے بہت عام انداز میں اپنا جملہ پورا کیا___ مرنا جینا تو لگا رہی رہتا ہے۔ لیکن ہے یہ ایک دلچسپ کھیل، ایک لاجواب فنتاسی۔‘
بڈھے نے بس اتنا پوچھا۔
’___کب جاؤ گے۔؟‘
’کل صبح ہونے سے پہلے ہی ہم لوگ نکل جائیں گے۔‘
’___یعنی ایک دن ہمارے پاس ہے۔ بڈھا دھیرے سے بڑبڑایا ___ایک دن۔ بس ایک دن۔ پھر۔ ایک اندھی چھلانگ۔ موت کی چھلانگ۔ ۔ پوتا اگر واپس نہیں لوٹتا ہے تو۔ ۔ ‘
بڈھے نے اپنے آپ سے پوچھا۔
’اس کے (بڈھے) کے پاس ایسا کیا ہے جو پوتے کے پاس نہیں تھا۔ ۔ ‘
 

الف عین

لائبریرین
(۷)
رات ہوئی۔ بڈھا چپ چاپ چلتا ہوا پوتے کے کمرے میں آیا۔
’___چلو،کالونی کی چھت پر چلتے ہیں۔‘
’کیوں؟‘
’وہیں سوئیں گے، بات کریں گے۔‘
’لیکن بات یہاں بھی تو ہوسکتی ہے۔‘
’___نہیں وہاں چھت ہوگی، کھلی کھلی چھت ___سرپر آسمان ہوگا۔ کھلا آسمان، تم نے برسوں سے آسمان دیکھا ہے؟‘
’نہیں۔ ۔ ‘
’___میں نے بھی نہیں دیکھا۔ ۔ یہ سب شہر کی ہجرت کے راستے کھو گئے۔ نیلا آسمان۔ ستاروں کی چادر،چمکتا ہوا دودھیا چاند، بہتی ہوئی تیز ہوا اور۔ ۔
’فولڈنگ لے چلوں؟‘
’نہیں چادر بچھا لیں گے۔‘
***
بڈھے نے چادر بچھا لی۔ ۔ بڈھا اور پوتا کالونی کی چھت سے کچھ دیر تک شہر کا نظارہ کرتے رہے۔ یہاں سے شہر کیسا نظر آتا ہے۔ دور تک چمکتی ہوئی روشنیوں کی قطار۔ ۔ کالونی کے بند فلیٹ میں یہ چمک ایک دم سے دفن کیوں ہو جاتی ہے!
’پوتے نے ٹوکا___ یہاں کیوں لائے؟‘
’___تمہیں کیا لگا؟‘
’مجھے لگا، اپدیش دو گے۔ روکو گے۔ زندگی، موت اور گھر کا واسطہ دو گے___‘
’ایساکرنے سے کیا تم رک جاتے؟‘
’نہیں۔‘
’اس لئے بس تم سے باتیں کرنے کے لئے ہی ہم چھت پر آئے ہیں۔ کیونکہ یہ باتیں ہم کمرے کے اندر نہیں کرسکتے تھے۔‘
پوتے کو الجھن تھی۔ کون سی باتیں؟‘
’کل تو تم چلے ہی جاؤ گے۔ ۔ اور ایک وہ تمہارا مصروف باپ ہے___ کسی سے کچھ بھی بات کرنے کے لئے مجھے بس آج کی ہی رات ملی ہے۔ ۔ تم چلے گئے تو پھر باتیں کرنے کے لئے میرے پاس کون ہوگا۔ ۔ ؟
پوتا لیٹ گیا۔ ۔
بڈھے کو کچھ یاد آ رہا تھا۔ چھت پر ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ ۔ بڈھا کسی خیال میں گم تھا۔ ۔ اس نے آہستہ آہستہ کچھ یاد کرنا شروع کیا۔ ۔
’۔ ۔ جب ہم چھوٹے تھے تب دنیا اس قدر نہیں پھیلی تھی۔ تب ہمارے پاس وقت ہی وقت تھا۔ دیکھنے، محسوس کرنے اور گزارنے کے لئے وقت ہی وقت۔ ۔ اور سچ تو یہ ہے کہ ہم میں سے بہتوں کو وقت کا استعمال کرنے بھی نہیں آتا تھا کہ اتنا ڈھیر سارا وقت۔ ۔ آگے دور تک پھیلی عمر کی سیڑھیاں۔ ۔ اتنا بڑا خاندان۔ ۔ اتنے سارے رشتے دار۔ ۔ آتے جاتے لوگ۔ ۔ نصیحتیں، ڈانٹ پھٹکار۔ ۔ اور بس بات ہی بات۔ ۔ نہ بات ختم ہوتی تھی نہ مکالمے کم پڑتے تھے۔ ۔ تب دن بھی لمبے تھے۔ ۔ راتیں بھی۔ ۔ مہینے اور سال تو بہت لمبے ہوتے تھے۔ ۔ یہاں تک کہ ہر روز گننے کے بعد بھی ختم نہیں ہوتے تھے۔ ۔ ‘‘
پوتے نے پہلو بدلا۔ ۔
’۔ ۔ ایک ابا تھے۔ ۔ ذرا ذرا سی بات پر ڈانٹ دیتے تھے۔ ذرا ذرا سی بات پر غصہ ہو کر پیٹ دیتے تھے۔ میں روتا ہوا اماں کے پاس آنچل میں سمٹ جاتا تھا۔ کچھ دیر بعد ابا مجھے نہ پاکر مجھے ڈھونڈھتے ہوئے اماں کے پاس پہنچ جاتے۔ ۔ کہیں دیکھا ہے اپنے منے کو۔ ۔ اماں کی یہی غلطی تھی۔ اماں کے اندر کوئی بات نہیں پچتی تھی۔ ۔ اماں ہنس دیتی تھیں۔ ابا مجھے سینے سے لپٹا لپٹا کر پیار کرتے۔ مارنے کے عوض مجھے ٹافیاں انعام میں ملتیں۔‘‘
پوتے نے اس بار دادا پر اپنی نگاہیں پیوست کر دیں___
’___ایک دن میں کھیل رہا تھا۔ ۔ گاؤں، قصبے اور چھوٹے شہروں میں ان دنوں کھیل ہی کیا تھے۔ ۔ گلی ڈنڈا۔ ۔ گلی زور کا جھٹکا کھاتی میری آنکھوں کے پاس لگی تھی۔ ڈھیر سا خون نکلا تھا۔ ۔ مجھے یاد ہے۔ اس رات___ ساری رات، سارا گھر مجھے گھیر کر بیٹھا تھا۔ ابا کو اتنا گھبرائے ہوئے میں نے پہلی بار دیکھا تھا۔ ۔ ‘
***
’چپ کیوں ہو گئے؟‘ یہ پوتے کی آواز تھی۔
’یاد کر رہا ہوں‘___ بڈھے کا لہجہ بھاری تھا۔
’اس وقت کے لوگ کتنے جذباتی تھے۔ جذباتی___ پوتے کے لہجے میں آہ تھی۔
’بہت کچھ یاد آ رہا ہے اور سناتے ہوئے اچھا بھی لگ رہا ہے۔ ۔ آج تمہیں سب کچھ سناؤں گا۔ ۔ مگر تمہیں نیند آ گئی تو۔ ۔ ؟‘
’نہیں تم سناؤ۔ نیند نہیں آئے گی۔ ۔ ‘
’___اچھا سنو،کیسی کیسی شرارتیں یاد آ رہی ہیں۔ پرانا گھر۔ دنیا بھر کے لوگ۔ معصوم شرارتیں۔ ۔ پٹنے کے واقعات۔ ۔ اسکول کے قصے۔ ۔ اچھا، پہلے تم بتاؤ۔ ۔ ‘
بڈھے نے گھور کر پوتے کو دیکھا۔
’یہ سب قصے جو میں نے تم کو بتائے، کس دور کے ہیں۔‘
’مطلب؟‘ پوتا چونک کر بولا۔ ۔
’میں نے پوچھا ہے۔ یہ سب قصے میرے کس زمانے کے ہیں۔‘
’میں نے سمجھا نہیں___‘
’میرا مطلب ہے، یہ قصے کب کے ہوسکتے ہیں؟‘
پوتے نے جلدی سے کہا۔ ۔ ’بچپن کے۔‘
دوسرے ہی لمحے اس کے ہونٹوں پر ایک افسردہ سی مسکان تھی۔ ۔ ’میں نے بچپن نہیں دیکھا۔‘
بڈھے نے چونک کر پوتے کو دیکھا، جو مسلسل ایک ٹک آسمان کو گھورے جا رہا تھا۔
 

الف عین

لائبریرین
(۸)
دوسرے دن پوتا چلا گیا۔
اس کے جانے کے بعد بڈھا خاموشی سے چلتا ہوا، بیٹے کے پاس آ کر ٹھہر گیا۔ بیٹے کا سر ابھی بھی جھکا ہوا تھا۔
’___وہ چلا گیا۔‘بڈھے کی آواز بھاری تھی۔ ۔ تم اسے روک سکتے تھے۔‘
’کیا وہ رک جاتا؟‘
بڈھا اچانک چونک پڑا، اسے ایک لمحے کو بیٹے پر ترس آیا___
’___وہ رک جاتا، کیا تمہارے ذہن میں پہلے کبھی یہ خیال آیا تھا؟‘
’کہہ نہیں سکتا۔ لیکن کیا ساری غلطی۔ ۔ ؟‘بیٹا کہتے کہتے ٹھہر گیا۔ اس نے عجیب نظر سے بڈھے کو دیکھا۔
بڈھے کے چہرے پر ایک خوشگوار حیرت تھی۔
’___نہیں غلطی کسی کی نہیں ہے۔ شاید وہ تمہارے کہنے سے بھی نہیں رکتا۔ اس لئے کہ بہت دیر ہو چکی تھی۔‘
’دیر ہو چکی تھی۔ ۔ ؟ بیٹا کسی لمبے، ’محاسبے‘ کے پل سے ایک لمحے کو گزر گیا___
’ہاں، کیونکہ تم دیکھنے میں تو خاموش لگ رہے تھے۔ لیکن تم ہر بار ہمارے، پوتے کے اور اپنے تجزیے میں مصروف تھے___ اور یہی تم غلطی کر رہے تھے۔ ۔ جبکہ ہم آسان سی زندگی گزار رہے تھے۔‘
بیٹا نے اور زیادہ سرجھکالیا___
ذرا توقف کے بعد وہ بولا۔ ’کیا وہ واپس آئے گا___؟‘
’___پتہ نہیں۔‘
بڈھے کے چہرے پر گہری سنجیدگی تھی۔ وہ چپکے سے کمرے سے نکل گیا___ لیکن اس کا دماغ ابھی بھی پوتے میں الجھا ہوا تھا۔ جیسے ابھی، اس وقت وہ کیا کر رہا ہوگا۔
 

الف عین

لائبریرین
(۹)
وہ پانچ چھ نوجوان تھے۔ سرتا پا گرم کپڑوں سے ڈھکے ہوئے۔ پاؤں میں ان فیلش، کے نئے اور ایسے ماڈرن جوتے تھے جو آج کل کے بچے ایسی تفریح گاہوں کے لئے استعمال کرتے تھے۔ برف پر چلنے یا برفیلی چٹانوں پر چڑھنے میں اس سے آسانی ہوتی تھی___ ان میں پوتا بھی تھا___ ان کے چہروں سے ان کا جوش اور ارادہ ٹپکتا تھا۔ آگے کی منزل کچھ بھی ہوسکتی تھی۔ بہت ممکن ہے، موت کی منزل۔ مگر یہ خوف زدہ نہیں تھے۔ ان میں سے کوئی بھی موت کی بات نہیں کر رہا تھا۔ اس کے برخلاف ان کا چہرہ کسی ایسے شگفتہ پھول کی مانند ہو رہا تھا جو موسم سرمایا بہار کی آمد یا دھوپ کی پہلی کرن سے اچانک کھل اٹھا ہو___
پوتے کے چہرے پر جنگلی پودوں جیسی شادابی تھی۔ ۔ ’وہ لمحہ کب آئے گا___؟‘
قافلے میں موجود وہ واحد لڑکی تھی۔ لڑکی کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔ ۔ ’وہ لمحہ آ چکا ہے۔ وہ دیکھو۔‘
***
برف کی اونچی چوٹیوں سے انہوں نے نیچے کی طرف جھانکا۔ ہزارو ں فٹ نیچے کی گہرائی میں برفانی ندی، موجوں کے الہڑ رقص میں محو حیراں تھی۔ دور تک برف سے ڈھکی ہوئی چوٹیاں اب پُراسرار معلوم نہیں ہو رہی تھیں۔ نوجوانوں نے گننا شروع کیا___ جہاں وہ کھڑے تھے، اس کے اطراف پہاڑوں کی اٹھ1 رہ بیس چوٹیاں ہوں گی۔ پوتا اور ساتھی ان سرکاری اشتہاروں کو بھی نظرانداز کرتے ہوئے آئے تھے جو ان کے قدموں کو آگے کے خطرات سے روکنے کے لیے لگائے گئے تھے۔
انہوں نے اپنے اپنے چرمی بیگ اتارے، کپڑوں کا بھاری بھرکم وزن کم کیا۔ برفیلی چٹانوں سے گزرتی۔یخ ہوائیں سنسناتی ہوئی بدن سے ہو کر گزر رہی تھیں۔ انہوں نے جوتے اتارے___ چرمی بیگ سے ہزاروں فٹ گہرائی تک لے جانے والی رسیاں کھولی گئیں۔ ان کے چہرے ایسے چمک رہے تھے جیسے برفانی پہاڑیاں دھوپ کی کرن سے جگمگا اٹھتی ہیں۔
’ہم یہاں پہلے کیوں نہیں آئے؟‘
گھانسوں پر اُگے ہوئے خود رو پھول ہنس رہے تھے۔ کائی دار پہاڑیوں کے کنارے سرخ اسٹابیری کی جھاڑیاں پھیلی ہوئی تھیں۔ ۔ پہاڑ کے اس پار سے برفیلی ہوائیں پگھلے گلیشیرس اور پتھروں سے گزر کر نیچے بہتی ہوئی ندی میں پہنچ رہی تھیں۔ برف گلیشیر میں پتلی پتلی دھاروں میں تبدیل ہو رہے تھے۔ ۔
’اب بہت دیر ہو رہی ہے۔ مجھے رہا نہیں جاتا۔ ۔ ‘ پوتے کے چہرے پر ایک سفاک مسکراہٹ تھی۔
’___نیچے پہلے کون جائے گا___؟‘
’پہلے میں۔‘
لڑکی نے بے دھڑک رسّی کا ایک سرا اپنے کمرے سے بندھی ہوئی آئرن بیلٹ سے جوڑ لیا تھا۔
’___نہیں تم نہیں۔‘ دوسرے ساتھی نے لڑکی کا ہاتھ تھام لیا۔
’کیوں؟ لڑکی کے چہرے پر خفگی تھی۔
’کیوں کہ اس ایڈونچر پر سب سے پہلا اختیار میرا ہے۔‘
رسّی کا سرا اب پوتے کے ہاتھ میں تھا۔ ۔ ’’کیوں کہ یہ آئیڈیا بھی میرا تھا۔ تم لوگوں کو یہ آئیڈیا سب سے پہلے میں نے ہی بتایا تھا۔‘
ایک برفیلی لہر بدن کو چیرتی گزر گئی۔ ہزاروں فٹ نیچے کھائی ہیں، پگھلتے ہوئے، گلیشیر ندی کے پانی میں گھل رہے تھے۔
***
لڑکی کا چہرہ بجھ گیا تھا۔ اپنی اپنی باری کے انتظار میں سب امید بھری نظروں سے پوتے کو دیکھ رہے تھے، جس نے رسی کا ایک سرا پہاڑی کے ایسٹ پول میں پھنسا کر، دوسرا سرا اپنے آئرن بیلٹ سے جوڑ لیا تھا۔ اب وہ چمکتی نگاہوں سے، چمکتی برفیلی چٹانوں اور اپنے دوستوں کا چہرہ پڑھ رہا تھا۔
’اچھا مان لو، تم واپس نہیں آئے تو؟‘ ایک ساتھی نے مسکراکر دریافت کیا۔
’___کیاواپس آنا ضروری ہے؟‘ پوتے کے لہجے میں ہنسی تھی۔
’نہیں‘ دوست شرمندہ تھا۔
’___پھر ہم کہاں ملیں گے؟‘
’کیا پھر ملنا ضروری ہے___؟ پوتا اس بار زور سے ہنسا۔
’نہیں‘
’___لیکن! اس کے باوجود ہم ملیں گے۔ اگر واپس نہیں آئے تو؟‘
’کہاں؟‘
پوتے نے اشارہ کیا۔ ۔ ’’وہاں___ گلیشیرس میں___ ٹھنڈی موجوں میں___ بہتے پانی میں۔ ۔ اور چمکیلی برف میں۔ ۔ ‘‘
پوتے نے اس بار ہنسنے سے پہلے ہی چھلانگ لگا دی۔
نیچے ہزاروں فٹ کھائی میں، گلیشیر ابھی بھی پگھل پگھل کر ندی میں گھل رہا تھا۔
***
 

الف عین

لائبریرین
(اپنی بٹیا صحیفہ کے لئے____ جو دو برس کے سفر میں اتنا کچھ دے گئی، جو پوری زندگی پر بھاری ہے)
 

الف عین

لائبریرین
نرسری​
سیمون دبووار(Simone De Beauvoir) نے کہا تھا۔
’عورت پیدا نہیں ہوتی، بنائی جاتی ہے۔‘
لیکن، نیل پیدا کہاں ہوئی تھی۔ نیل تو بن رہی تھی۔ نیل تو ہر بار بننے کے عمل میں تھی۔ شاید اسی لئے، پیدا ہوتے ہی وہ ایک اسپتال سے دوسرے اسپتال بھیج دی گئی تھی۔ اُسے میں نے نہیں دیکھا تھا۔ ماں نے نہیں دیکھا تھا۔ بلکہ کہنا چاہئے ڈاکٹروں کو چھوڑ کر، جو آپریشن کے وقت یقینا پاس پاس لیبرروم میں موجود ہوں گے، یا جیسے ڈاکٹروں نے بھی ہنستے ہوئے کہا ہوگا۔ ۔ ’’وشواس کیجئے____ ہم نے بھی نہیں دیکھا۔ لیکن وہ ہے۔ اور سانس چل رہی ہے۔‘
اور۔ ۔ ڈاکٹروں کے مطابق نیل پیدا ہو چکی تھی اور سانس بھی چل رہی تھی۔ ۔ اور اب صرف اس کے بچائے جانے یعنی زندہ رکھنے کی کارروائی باقی تھی۔ جس اسپتال میں نیل پیدا ہوئی، وہاں نرسری کا کوئی اچھا انتظام نہیں تھا۔ اس لئے ڈاکٹروں نے ایک چھوٹی سی ایمرجنسی میٹنگ کے بعد نیل کو ایک دوسرے اسپتال شفٹ کر دیا تھا۔
نیل اسپتال سے گھر نہیں آئی۔ نیل ایک اسپتال سے دوسرے اسپتال چلی گئی۔ ۔ جس ایمبولنس میں اسے دوسرے اسپتال شفٹ کیا گیا، اس میں نیل کے ساتھ رشتے کے ایک بھائی کو بٹھایا گیا۔ واپسی میں اس بھائی سے پوچھا گیا۔ ۔
تم نے اسے دیکھا؟
۔ ۔ نہیں
کیوں ؟ تم تو ایمبولنس میں اس کے پاس ہی بیٹھے ہوگے نا؟
۔ ۔ ہاں بیٹھا تو پاس ہی تھا، مگر!
۔ ۔ مگر کیا؟
وہ نہیں تھی۔ میرا مطلب ہے۔ ۔
بھائی سرکھج1 رہا تھا۔ آنکھیں چرانے کی کوشش کر رہا تھا۔ ۔
***
مدرنرسری میں سب کو جانے کی اجازت نہیں تھی۔اسپتال کی پانچویں منزل پر یہ نرسری آباد تھی۔ نومولود، ابھی ابھی پیدا ہوئے بچے کی آرام گاہ۔ ۔ یہ پورا ہال ہی ائیرکنڈیشنڈ تھا۔ ۔ اندر شیشے کی بنی ہوئی ایک چھوٹی سی دنیا۔ ۔ شیشے کے اس عجیب وغریب ڈزنی لینڈ میں چھوٹے چھوٹے لاتعداد انکیوبیٹر پڑے تھے۔ ۔ چھوٹے چھوٹے شیشے کے گھروندے۔ ۔ ان گھروندوں میں ایسے نومولود بچوں کے لئے ایک نقلی دنیا آباد تھی۔ یعنی جیسی دنیا وہ آنکھیں جھپکاتے ماں کی کوکھ میں دیکھتے یا محسوس کرتے ہوں گے۔ شیشہ کی اس چھوٹی سی دنیا کے اندر کاٹمپریچر بھی وہی تھا جو ماں کی کوکھ میں بچہ محسوس کرتا تھا۔ ۔ انکیوبیٹر میں آکسیجن کی ٹیوب بھی لگی تھی۔ مگر دور سے، شیشے کے بڑے دروازے سے جھانکنے پر، یہ ڈھیر سارے چھوٹے چھوٹے گھروندے ہی لگتے تھے۔ ۔
’نیل کہاں ہے؟‘
مدرنرسری دکھانے والا، ڈاکٹر جوش میں ہاتھ کے اشارے سے کچھ دکھانے کی کوشش کر رہا تھا۔ ۔
’وہ۔ ۔ وہ رہی نا۔ ۔ ‘
۔ ۔ وہ ۔ ۔ موٹا سا بچہ۔ ۔
’نہیں اس کے پاس والا۔ ۔ ‘
۔ ۔ اچھا۔ وہ، جو بے بی الٹی پڑی ہے۔ ۔
’نہیں، اس کے دائیں طرف دیکھئے۔‘
۔ ۔ وہ۔ مگر وہ انکیوبیٹر تو۔ ۔
’خالی ہے‘۔ ۔ ڈاکٹر مسکرا رہا تھا۔ وہ بن رہی ہے۔ وہ ہے اور آپ کو فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔‘
***
واپس اسپتال آ کر میں نے اس کی ماں کو یہ مژدہ سنادیا۔ ماں کو اب ہوش آ چکا تھا۔ بیٹی ہونے کی اطلاع ڈاکٹر اسے دے چکے تھے۔ یہ بھی بتایا جاچکا تھا، کہ وہ مدر نرسری بھیج دی گئی ہے۔ مجھے دیکھ کر ماں کی آنکھوں میں تجسس کے دیئے ٹمٹااُٹھے۔
۔ ۔ تم نے دیکھا۔
ہاں
۔ ۔ کیی ہے، وہ۔ ۔ ؟
وہ۔ ۔ ہے۔ ۔ یعنی کہ۔ ۔
کس پر گئی ہے۔ ۔
۔ ۔ گئی نہیں ہے۔ بن رہی ہے۔ گھبراؤ نہیں، جب تک تمہیں مکمل طور پر گھر جانے کی اجازت مل جائے گی، وہ بن چکی ہوگی۔ ۔
’’مطلب۔؟‘‘
۔ ۔ فکر مت کرو۔ وہ بن رہی ہے اور دیکھتے دیکھتے۔ ہاں تمہیں پتہ بھی نہیں چلے گا، وہ تمہارے سامنے آ کر کھڑی ہو جائے گی۔ وہ خوب زور سے چیخے گی اور تم چہرے کو انتہائی سنجیدہ بناکر کہو گی۔ ۔ نیل ۔بی ہیویور سیلف۔
لیکن، ماں شاید اب کچھ بھی سن نہیں رہی تھی۔
ماں ایک لمبی خاموشی میں ڈوب گئی تھی۔
ترپتی مینن کے دورنگ(ادب اور آرٹ)
ترپتی مینن۔ ۔ ایک ایسی خاتون جن کے بارے میں، میں بار بار الگ الگ نظریے گڑھتا تھا اور نظریے کچّی مٹی کے گھڑے کی طرح ٹوٹ جاتے تھے۔ ۔ نہیں، مجھے اچھی طرح یاد نہیں کہ ہماری پہلی ملاقات کہاں ہوئی تھی۔ یاترپتی مینن میں یاد رکھی جانے والی کون سی ادایابات تھی کہ میں نے پہلے پہل اپنی نوٹ بک میں۔ ۔ پھر آہستہ آہستہ اس کی ’اول جلول‘ اداؤں کو دل کی گرہ میں باندھ لیا۔ ۔
’چلو خالی وقت کا ایک سامان تو ہوا‘۔ ۔
پہلی بار میں ہم بہت کم بولے تھے۔ ۔ مجھے یاد ہے، اس وقت بھی ہمارے مکالمہ کا عنوان عورت تھی۔ وہ ایک ہندی میگزین میں اپنی کہانی چھپوانے آئی تھی۔ میگزین کے ایڈیٹر میرے بزرگ دوست تھے۔ ۔ آنکھوں پر کالا چشمہ۔ بڑھی ہوئی داڑھی۔ ۔ نام تھا، رادھیکا رمن۔ رادھیکا جی درویش صفت منش ہیں۔ مگر کچھ ایسی عورتیں بھی ہوتی ہیں۔ بقول رادھیکا جی، کہ ’چٹکی‘ لینے کی خواہش زور پکڑنے لگتی ہے۔ ۔ چائے آ گئی تھی۔ ترپتی مینن آہستہ آہستہ چائے کی سپ لے رہی تھی۔ دھیان کہیں اور تھا۔ آنچل ذرا سا ہٹ گیا تھا۔ سانولی بانہیں۔ ۔ نیم عریاں، آدھی سوئی ہوئی بہار کے قصّے سنا رہی تھی۔ چہرے پر ایک تیکھی مگر بچوں جیسی مسکراہٹ تھی۔ ترپتی بار بار رادھیکا جی کے مذاق کی عادت پر پسری جا رہی تھی۔
عورت میں ہر بار ایک نئی عورت آ جاتی ہے۔ ۔ یہ رادھیکا جی تھے۔
عورت میں ہر بار ایک عورت گُم ہو جاتی ہے۔ ۔ یہ میں تھا۔
عورت۔ ۔ آپ لوگ اسے عورت کیوں نہیں رہنے دیتے۔ ۔ یہ ترپتی تھی۔
***
میں نے پہلی بار اداؤں میں ڈوبے اُس کے جسم کا جائزہ لیا۔ اس جسم میں کتنی بہاریں قید ہوں گی۔ چالیس۔ ۔ چالیس بہاریں۔ مگر ترپتی جانتی تھی، خزاں سے پہلے اس بہار کی کیسے حفاظت کرنی ہے۔ مگر ہر بار نوخیز اداؤں کی گرفت میں اس کا پورا وجود ایک ’جوکر‘ میں تبدیل ہوا جا رہا تھا۔
تم اپنی عمر کو نہیں بھولی ہو۔ ۔ رادھیکا جی نے پھر چٹکی لی۔
’’عمر کو۔ ۔ ‘‘
میں آہستہ آہستہ مسکرا رہا تھا۔ ۔
’میں سمجھی نہیں۔ ۔ ‘ ترپتی کے سانولے چہرے پر بجلی دوڑ گئی تھی۔
’’سب سمجھتی ہو تم۔ گھر سے چلتے ہوئے عمر کو کسی لاک اَپ میں بند کر کے آتی ہو۔ ۔ پھرو اپس آ کر جب عمر کو لاک اَپ سے نکالنے کی کوشش کرتی ہو تو۔ ۔ ‘‘ رادھیکا رمن مسکرائے۔ ۔ یہ صرف تمہارا مسئلہ نہیں ہے ترپتی۔ تمہاری جیسی تمام عورتوں کا مسئلہ ہے۔
’نہیں۔سر، میرا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔‘
’اور مینن؟‘
’ہم نے لو میرج کی ہے۔ ۔ ‘
’لو(Love)تم نے کیا تھا یا مینن نے کیا تھا۔ ۔ ‘‘، رادھیکا رمن زور سے قہقہہ لگاتے ہوئے بولے۔ ۔
نیم عریاں شانے پر اس نے آنچل پھر سے باربار کر دیا تھا۔ ۔ ’’اب۔ ۔ اب میں چلوں گی سر۔کہانی دیکھ لیجئے گا‘
چہرے پر ناراضگی تھی۔
’ارے بیٹھو۔ ۔ ‘
’نہیں سر۔ آج آپ کچھ زیادہ ہی مذاق کر رہے ہیں۔‘
’اس نے کرسی خالی کر دی۔ گولڈن کلر کا بیگ شانہ سے لٹکایا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے دروازے سے اوجھل ہو گئی۔ ۔
’ترپتی ناراض ہو گئیں۔ ۔ ‘ میرے لئے یہ پہلا اتفاق تھا۔
رادھیکا رمن ہنس رہے تھے۔ ۔ ’’پاگل مت بنو۔ ترپتی کو تم نہیں سمجھو گے..ہو ہو..وہ یہی کرتی ہے۔ عادت ہے اس کی ..ہو ہو.. دراصل وہ چاہتی بھی یہی ہے۔‘‘
’کیا۔‘
’جو میں نے کیا۔ ۔ ‘ وہ مسکرا رہے تھے۔
’مطلب؟‘
’ارے۔ اس میں حیرانی کی بات کیا ہے۔ اپنشدوں میں کہا گیا ہے۔ ناری کو نہ سمجھو تو بہتر ہے۔ ۔ ناری سمجھنے کی وستو نہیں ہے۔ رہسیہ ہے۔ گھوررہسیہ۔ ۔ ترپتی اسی رہسیہ کا حصہ ہے۔ ۔ ایسا نہیں کرو تو وہ ناراض ہو جاتی ہے۔ ناراضگی پر کیوں جاتے ہو۔ اس میں پراکرتک سوندریہ، کیوں نہیں، دیکھتے۔۔ ۔ اس آیو میں بھی۔ ۔ تم نے دیکھا۔ ۔ سانولے جسم میں سارے سمندر کی ’سنہلی‘، مچھلیاں ایک ساتھ کہاں جمع ہوتی ہیں۔ ۔ ان ساری ’سنہلی‘ مچھلیوں کو جوڑ کر ترپتی ایک بہت لمبی ’سنہلی‘ مچھلی بن گئی ہے۔‘‘
وہ ہنس رہے تھے۔ ۔ اس مچھلی کے پیچھے دوڑو گے۔ ۔ بولو۔ ۔ ؟‘
***
لیکن مجھے زیادہ دور تک دوڑنے کی ضرورت نہیں پڑی۔ ۔
یہ ترپتی سے میری دوسری ملاقات تھی۔
وہ کارلٹن آرٹ گیلری میں کھڑی تھی۔ ۔ ایک لمحے کو میں نے اس سے چھپنے کی کوشش کی____ وہ کسی کو اپنے بارے میں بتا رہی تھی۔
’انسٹی ٹیوٹ آف آرٹ اینڈ کرافٹس سے کمرشیل ڈیزائن کا کورس کیا ہے۔ آرٹ میرا شوق نہیں ہے۔ زندگی ہے۔ سانسیں ہیں۔ آئل ان کینوس کے علاوہ آئل آن پلائی وڈ، واٹرکلر پیسٹل، پین اینڈ انک، پلاسٹر آف پیرس، سیمنٹ آن گلاس وغیرہ میڈیمز میں کام کر چکی ہوں۔‘
درمیان میں اس کی کھنکدارہنسی گونجی____
’پچھلی بار فیسٹیول آف ویمن سیریز میں، میں نے بھی اپنی کچھ تصویروں کی نمائش لگائی تھی۔‘
میں ایک دم سے چونک گیا تھا۔ ۔
موٹے بھدّے جسم والی خاتون نے حیرت سے دریافت کیا۔ ۔ ’آپ۔ ۔ یعنی آپ بھی۔‘
’کیوں‘ ترپتی مسکرائی ہے۔ ۔ ’’آئل ان کینوس۔ کبھی کبھی کینوس پر صرف آئیل بیچتا ہے اور عورت آئیل کی طرح پوچھ ڈالی جاتی ہے۔ ۔ نہیں؟ ایک کورا کینوس۔ ۔ ۔ میں نے عورت کے ’رحم‘ کو دکھانے کی کوشش کی تھی۔
’رحم‘۔ ۔ ؟‘
رحمِ مادر یعنی ’Womb‘۔ ۔ جہاں نو مہینہ تک بچے کے روپ میں ایک مرد سڑتا ہے۔ پتہ ہے۔میرے شوہر تک جب اس نمائش کی بات پہنچی تو وہ پانچ مہینے تک مجھ سے غصہ رہے تھے۔ بات چیت کمپلیٹلی بند۔ میں نے بھی کوشش نہیں کی۔ ۔ عورت کا ننگا بدن۔ آپ دکھانا ہی چاہتے ہیں تو وہ جگہ کیوں نہیں دکھاتے جہاں سے سرشٹی،یعنی ایک عورت Creator بنتی ہے۔ رچیتا۔ مرد کو جننے والی۔ خالق۔ اب یہاں دیکھئے نا۔ ۔
وہ آرٹ کے عریاں فن پاروں کو دکھا رہی تھی۔
’دکھانا ہے تو عورت کو پورا پورا ننگا کرنے سے کیا حاصل۔ بس وہ جگہ دکھا دو، جو مرد دیکھنا چاہتا ہے۔‘
’مائی گاڈ۔ ترپتی۔ تم میں کتنا دکھ بھرا ہے۔ Leave it یار۔ پینٹنگس دیکھتے ہیں۔‘
ترپتی اچانک مڑی تھی۔ ۔ مڑی اور چونک گئی۔ میری طرف دیکھا۔ مسکرائی۔ ہاتھ نہیں بڑھایا۔
’آپ‘؟
’مجھے نہیں ہونا چاہئے تھا۔ ۔ !‘
’نہیں۔ ہونا کیوں نہیں چاہئے تھا۔‘ وہ جھینپ رہی تھی۔ ۔ کب آئے؟
شاید وہ پوچھنا چاہ رہی تھی کہ آپ دیر سے تو نہیں ہیں۔ ہماری بات تو نہیں سن رہے تھے۔ میں نے جھوٹ بولنے ہی میں عافیت سمجھی۔ ۔
’بس۔ابھی آیا۔‘
’اوہ۔ ’ترپتی کوتسلی ملی تھی۔ ۔ موٹے جسم والی عورت سے پیچھا چھڑاتے ہوئے اب وہ میرے ساتھ پینٹنگس پر اپنی تنقیدی نظر ڈال رہی تھی۔
’اچھی ہیں نا۔ ۔ ‘
’ہاں‘
’دراصل۔‘ وہ کہتے کہتے ٹھہری۔ ۔ ’مجھے موڈس والی پینٹنگس کچھ زیادہ ہی پسند ہیں۔ ایچنگ ورک، فیگریٹو ورک اور رئیلسٹک ایپروچ مجھے پسند ہیں۔ ان تصویروں میں امپریشن ازم کے پہلو کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
’کیوں‘۔ ۔ میں تعجب سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ پھر وہ ایک سانس میں اپنی معلومات کی توپ چھوڑتی چلی گئی۔ وہ کمپوزیشن اچھا ہے۔ فلاں غلط۔ وہاں کینواس کی سطح کم گاڑھی ہونی چاہئے تھی۔ فلاں تصویر میں Baseبناتے ہوئے ٹیکسچر دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ ناہموار سطح پر پاورفل اسٹروکس کے ذریعہ رنگوں کا خوبصورت استعمال کیا جانا چاہئے تھا۔ ۔ ‘
’رنگ۔ ۔ ‘ میں نے ایک لمبی آہ کھینچی تو وہ چونک گئی۔
’زندگی سے رنگ جھڑ جائیں تو۔ ۔ ؟‘
’’آرٹ گیلری سے باہر بھی ملاقات کا ایک راستہ جاتا ہے۔‘
وہ اداس ہو گئی تھی۔ ۔ Sorry‘
’Sorryکیوں؟‘
تمہارا نمبر ہے؟‘’
’نمبر۔‘
’میں فون کر لوں گی۔‘
اس کے جسم میں تھرتھراہٹ تھی۔ ۔ پرانی ترپتی غائب تھی۔ ۔ میں ایک نئی ترپتی کو دیکھ رہا تھا۔ جو ڈر رہی تھی۔ ۔ یا ڈرنے کی ایکٹنگ کر رہی تھی۔
رادھیکا جی کے لفظ کانوں میں گونج رہے تھے۔ ناری گھور رہسیہ ہے۔ ترپتی اسی رہسیہ کا حصہ ہے۔ ۔ ‘
میں نے ترپتی کو نمبر لکھوا دیا۔ ۔
آرٹ گیلری سے سڑک دو الگ الگ دشاؤں میں مڑ گئی تھی۔
 

الف عین

لائبریرین
آثار قدیمہ اور ترپتی کا تیسرا رنگ (میوزک)
صحافیو ں کے لئے یہ دنیا ایک سیپ کی طرح ہے۔ یہ بات کس نے کہی تھی، یاد نہیں۔ لیکن فرصت کے اوقات اس بارے میں سوچتا ہوں تو اپنی ذات سیپ کی ’ڈگی‘ میں بند ’گھونگھے‘ سے زیادہ نہیں لگتی۔ ۔ بس بھاگتے رہو۔ ۔ بھاگتے بھاگتے تھک جاؤ تو اپنی چھوٹی سی دنیا میں بند ہو جاؤ اور آپ جانئے۔ ۔ فری لانس جرنلسٹ کو کیسے کیسے محاذ پر لڑنا ہوتا ہے۔ ۔ اس دن طبیعت ناساز تھی لیکن میگزین کی طرف سے بھارت سنگاپور اتسو، میں شامل ہو کر اس کی رپورٹ تیار کرنی تھی۔ بانسری کا مجھے کبھی شوق نہیں رہا۔ بچپن کے دنوں میں ہونٹوں سے لگایا ہو، اب یاد نہیں۔ لیکن ہری پرساد چورسیامیں میری دلچسپی ضرور تھی۔ ۔ اور یہی دلچسپی مجھے اس اُتسو میں کھینچ کر لے گئی تھی۔ ۔ فکّی آڈیوٹوریم کا مین ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ کسی نے مجھے ذرا سا دھکا دیا اور تیز تیز اندر کی طرف قدم بڑھائے۔ میں غصہ میں کچھ بولنا چاہتا تھا کہ ٹھہر گیا۔
’ترپتی۔‘
***
یہ ترپتی سے میری تیسری ملاقات تھی۔ شو شروع بھی ہوا اور ختم بھی ہو گیا۔ میں برابر اس پر نظر رکھے ہوا تھا۔ وہ ہال میں ہو کر بھی ہال میں نہیں تھی۔ کسی چور جیسی، اپنی سیٹ پر دُبکی ہوئی تھی۔ ۔ بلی کی طرح سہمی ہوئی۔ آہٹ سے ڈر ڈر جانے والی۔ شو ختم ہونے کے بعد میری نظروں نے اس کا تعاقب کیا۔ گیٹ کے پاس ہی میں نے اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا۔
’آہ ترپتی۔ یہاں بھی تم۔‘
’ہاتھ چھوڑو۔ ۔ ‘ اس کے لہجہ میں سختی تھی۔ ۔ میں نے تمہیں دیکھ لیا تھا۔ میں خود تم سے ملنے والی تھی۔
میں نے ہاتھ ہٹا لیا۔ ۔ ’شوکیسا لگا تمہیں؟‘
وہ ابھی بھی کہیں اور تھی۔ بھیڑ سے الگ ہم باہری گیٹ سے دوسری طرف کھڑے ہو گئے۔ نکلنے والی گاڑیوں کا شور انسانی شور سے کہیں زیادہ تھا۔
’بہلانے آئی تھی خود کو۔ مگر بور۔ ۔ انڈین اوشن کے اس ’بینڈ‘ کو دیکھا تم نے۔ ۔ ‘ اس کے لہجے میں کڑواہٹ تھی۔ ۔ فن مر گیا ہے۔ ہم دو سنسکرتیوں کو ملا دینا چاہتے ہیں۔ یہ سب کیا ہے؟ ایک جھوٹا تماشہ۔ تمہیں لکھنا چاہئے۔ بھارتیہ سروں کا یہ کیسا میل ہے۔ جاز، ریگے، راک، پاپ اور بھارتیہ سنسکرتی کا بریک فاسٹ ملا دیا۔ مکسچر تیار۔ کلچرل موٹف کو نئے ماڈرن ڈھانچہ میں ڈال دیا اور نیو جنریشن کے سامنے پروس دیا۔ یہی ’فیوزن ہے۔ ۔ سکڑتی سمٹتی دنیا کو، پاگل بنا دینے والی میوزک کمپنیوں کا دیا ہوا ودیشی تحفہ____
’تمہیں فیوزن سے چڑھ کیوں ہے؟‘
آپ اسے ویسے کا ویسا رہنے کیوں نہیں دیتے، جیسا کہ وہ ہے۔ لیکن نہیں۔بات پروفیشنل منافع کی ہے____ کنزیومر ورلڈ کی ہے____ بازار کی ہے____ آپ وہی تہذیب فروخت کریں گے، جس کی ودیشوں میں مانگ ہے۔‘
اس کی ہرنی جیسی آنکھیں اب بھی سہم سہم کر اِدھر اُدھر دیکھ لیتی تھیں۔ ۔ سنو۔‘
اس نے آہستہ سے میرا ہاتھ تھاما۔ ۔
’مینن ایک ہفتہ کے لئے باہر گئے ہیں____ ساؤتھ____ کل آسکتے ہو۔‘
’کس وقت؟‘
’شام کے وقت۔‘
تیزی سے آتے ہوئے آٹو کو اس نے ہاتھ دے کر روک لیا تھا۔ ۔ مینن غلطی سے گاڑی کی چابی اپنے ساتھ لے گئے۔ آؤ گے نا؟‘
اس نے آہستہ سے میرا ہاتھ دبایا۔ آٹو پر بیٹھی اور آٹو روانہ ہو گیا۔ میرے ہاتھ میں ایک چھوٹے سے کاغذ کی پرچی تھی۔ جس پر اس کا ایڈریس لکھا ہوا تھا۔ لیکن یہ ایڈریس اس نے کب لکھا۔ جب وہ ہال میں تھی۔ یا۔ مجھے دیکھ کر وہ پہلے سے ہی مجھ سے ملنے کامن بنا چکی تھی۔
’ناری گھوررہسیہ مے وستو ہے‘۔ ۔ مسکراتے ہوئے میں نے کاغذ جیب کے حوالے کر دیا۔
***
کال بیل کی پہلی آواز پر ہی دروازہ کھل گیا۔ شاید وہ میرے انتظار میں تھی۔ میرے اندر آتے ہی اس نے ’کھٹاک‘ سے دروازہ بند کر دیا۔
میں نے اِدھر اُدھر دیکھا۔ ترپتی کے چہرے پر اب بھی ہوائیاں اُڑ رہی تھیں۔
’’مینن صاحب کب آئیں گے؟‘‘
’’پتہ نہیں‘‘
میں نے گھر کی سجاوٹ پر ایک نظر ڈالتے ہوئے پوچھا۔ ۔ ’مینن صاحب کرتے کیا ہیں؟
ترپتی بجھ گئی تھی۔ آہستہ سے بولی۔ ان کا تعلق محکمۂ آثار قدیمہ سے ہے۔
ترپتی مینن کی آواز اس بار برف کی طرح سرد تھی۔ ۔ ’وہ ہر بار کچھ نہ کچھ برآمد کر لیتے ہیں۔ محنتی اور سخت____ صرف اور صرف اپنے کام پر یقین رکھنے والے____ لیکن ہر بار۔ ۔ مجھے تعجب ہوتا ہے۔ کچھ نہ کچھ۔ ۔ ‘
’جیسے؟‘
’کوئی۔ ۔ قدیم تہذیب____ قدیم شہر۔ ۔ ‘ ترپتی مینن نے اپنی زلفوں کو جھٹکا دیا____ آنچل اُس کے سیاہ جمپر سے پھسل کر گود میں آ گرا تھا____ لیکن ترپتی نے آنچل کو اٹھانے کی زحمت نہیں کی۔ اُس کی عریاں بانہیں نمایاں تھیں۔ ’صندلی‘ برہنہ بازؤں کے گوشت آہستہ آہستہ چنگاریاں دینے لگے تھے۔ ترپتی کسی سوچ میں ڈوب گئی تھی۔
***
’’وہ ہر بار کچھ نہ کچھ برآمد کر لیتا ہے۔ لیکن مجھے تعجب ہے۔ وہ آج تک مجھے برآمد نہیں کر پایا۔اپنی بیوی کو۔ ۔ ‘
ترپتی نے جیسے اپنے آنسوپوچھے ہوں! دوسرے ہی لمحے اس نے اپنے جذباتی لہجے پر قابو پا لیا تھا۔ ارے میں تو بھول ہی گئی۔
’کیا؟‘
’آپ پہلی بار آئے ہیں۔ اور شاید۔ ۔ ‘ اس کا لہجہ داس تھا۔
’مینن صاحب ہوتے تو۔ ۔ ‘
’میں ہمت تو کُجا، سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔‘
’کیوں؟‘
پتہ نہیں۔ وہ مسکرائی۔ ۔ ’پہلے چائے۔ آپ چائے لیں گے یا کافی۔‘
’کچھ بھی چلے گا۔‘
***
ترپتی کیبن میں گئی تو میں نے اس کے کمرے کا جائزہ لیا۔ دیوار پر دو خوبصورت بچوں کی تصویریں آویزاں تھیں۔ کمرے میں ایسا بہت کچھ تھا، جو ترپتی کے ذوق و شوق کی کہانیاں بیان کر رہا تھا____ دیوار پر ٹنگی تصویروں میں ایک بچہ کم از کم تیرہ سال کا ہوگا۔ دوسرا دس کے آس پاس۔ ترپتی تو اتنی عمر کی نہیں لگتی۔ کیا پتہ۔ساؤتھ کے رتی رواج اور کلچر کے بارے میں ہم ابھی بھی کتنے انجان ہیں۔
ترپتی کافی لے کر آئی تو میں نے دیوار کی تصویر کی طرف اشارہ کیا____
’میرے بچے ہیں۔‘ ترپتی نے سرجھکا لیا۔
تمہارے یا مینن کے؟‘ میری آنکھیں اس کی آنکھوں میں سما گئی تھیں۔
مینن کے۔ میں ان کی دوسری بیوی ہوں۔ پہلی بیوی اتفاقیہ طور پر۔ ۔
اس کا گلا بھر آیا تھا۔ ۔
’تم نے کہا تھا، مینن سے تمہاری لو میرج ہوئی تھی۔‘
وہ سامنے بیٹھ گئی۔ کافی آہستہ آہستہ سڑکتی رہی۔ ۔ ہاں لومیرج کی تھی۔ کسی کسی لمحے کا بوجھ ساری زندگی ڈھونا پڑتا ہے۔ انہی دنوں مینن کی پتنی کا دیہانت ہوا تھا۔ وہ گھر آئے تھے۔بابوجی سے ملنے۔ اُن دنوں۔ ۔ بزنس میں مسلسل گھاٹے کی وجہ سے سارا گھر پریشان چل رہا تھا۔بابو جی نے مینن کے بارے میں بتایا۔ یہ بھی، کہ وہ آثار قدیمہ میں ہیں۔ سامنے بیٹھا ہوا آدمی مجھے ایسا ہی کچھ لگ رہا تھا۔ ۔ کسی کھنڈر یا قدیم تہذیب سے نکلا ہوا۔ ۔ بس میں آہستہ سے مسکرادی۔‘
’پھر سودا ہو گیا۔ ۔ ؟‘
’ہاں۔ تم اسے سودا بھی کہہ سکتے ہو۔ ۔ گھر والوں کو صرف میری فکر تھی۔ میرا کیا ہوگا۔ میں دودھ سے بالائی کی طرح ہٹا دی گئی تو سارا نقصان پورا ہو گیا۔ میں مینن کے ساتھ خوش تھی مگر۔ ۔ ‘
کافی کا پیالہ اس نے میز پر رکھ دیا۔ میں نے اسے بغور دیکھا۔ اس نے ہلکے نیلے رنگ کی نائیٹی پہن نہیں رکھی تھی۔ ۔ نائیٹی کے ’وی‘شیپ سے گولائیوں کی پہاڑی جیسی ڈھلانیں ایک بے حد خوبصورت منظر کی عکاسی کر رہی تھیں۔ نیلے پربتوں کے درمیان ایک ہلکی سی کھائی برانگیختہ کرنے والی تھی۔ ۔ اس نے نظر جھکا لیا تھا۔
’تحفہ میں دو بچے ملے تھے۔ ان بچوں کی اپنی زندگی تھی۔ ۔ اس زندگی میں، میں نہیں تھی۔ میں ایک نقلی عورت بن کر اس زندگی میں داخل ہونے کی کوشش تو کرتی رہی____ شاید مینن کو خوش کرنے کے لئے۔ مگر۔ ۔ بچوں نے صاف کہہ دیا۔
’’ماں بننے کی جستجو میں دوسری عورت ایک فاحشہ بن جاتی ہے۔ فاحشہ۔ ۔ ‘‘
مجھے وہ لمحہ یاد ہے۔ دن تاریخ یاد ہے۔ ۔ چودہ فروری ویلنٹائن ڈے____ رات سات بج کر بیس منٹ۔ ۔ فاحشہ۔ ۔ بچوں کے لفظ چہرے پر آ کر جھّریاں بن گئے____ پل میں خوشیوں کے انگور سوکھ کر کشمش ہو گئے____ مجھے لگا، بچوں نے ریوالور کی تمام گولیاں میرے بدن میں اتار دی ہیں۔ میں چیختی ہوئی غصّے سے پلٹی تو وہیں کنارے میز پر____ جلتے ہوئے لیمپ کی روشنی میں مینن بہت سے کوڑے کباڑ کو تحسین آمیز نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ ۔
’تم نے سنا۔‘ میں روتی چیختی ہوئی زور سے گرجی تھی۔
’ہاں سنا۔ مگر یہ دیکھو۔ ۔ یہ۔ ۔ ، اس کے چہرے پر ذرا بھی شکن نہیں تھی۔ ۔ میں سانسوں کے رتھ پر سوار تھی۔ ۔ جیسے لکڑی کے ’سانکچے‘ سے____ لحاف میں روئی بھرنے والے____ روئی دُھنکتے ہیں۔ میں سانسیں ’دھنک‘ رہی تھی۔ ۔ مینن کہہ رہا تھا۔ یہ دیکھو۔ ۔ ‘
میں دیکھ رہی تھی۔ میز پر کباڑ پڑا تھا۔ ۔ ہاں کباڑ۔ جیسے کیچڑ یا گندہ نالا صاف کرنے والے پرانی ٹوٹی پھوٹی اشیاء کو دھو پوچھ کر رکھ لیتے ہیں۔ ۔
میں سانسیں ’دھن‘ رہی تھی۔ ۔ ’’ان بچوں نے مجھے۔ ۔ ‘‘
’رنڈی کہنے سے کوئی رنڈی نہیں ہو جاتا۔ ۔ سنا ہے۔ ۔ ‘ اس کا چہرہ تاثر سے عاری تھا۔ میں نے ایک تیز چیخ ماری۔ ۔ غصّے میں میز الٹ دی۔ دوسرے ہی لمحے مینن کے لات جوتوں کی زد میں تھی۔ وہ مجھے ویسے ہی دُھن رہا تھا جیسے لحاف میں پرانی روئی بھرنے والے۔ ۔ وہ مجھ پر سڑی گلی گالیوں کی بوچھار کر رہا تھا۔ بچے مشینی انداز میں، پڑھائی کرنے میں لگے تھے۔
مینن چیخ رہا تھا۔ ۔ ’جاہل عورت۔ پتہ ہے تم نے کیا کر دیا____ تہذیب۔ قدیم تہذیب۔ ۔ ارے آرکیالوجیکل سروے سے ملی تھی یہ نادر چیزیں____ بدقسمت عورت۔ برسوں کی کھوج کے بعد تو یہ خزانہ ملا تھا۔ ہم جس کے لئے مدتوں بھٹکتے رہے ہیں۔ تال سے پاتال تک۔ ۔ اسٹوپڈ۔ ۔ ڈاٹر آف سوائن۔ بچ۔ ۔ اس نے مجھے دیوار کی طرف ڈھکیلا۔ ۔ شکل دیکھی ہے۔ ۔ بچے ٹھیک کہتے ہیں۔ بچے کوئی غلط نہیں کہتے۔ ۔ ‘‘

’میں فاحشہ ہوں‘۔ ۔ ترپتی، اچانک میرے سامنے آ کر تن گئی تھی____ اتنے قریب کہ میں سانسوں کی سرگم سننے لگا تھا۔ ۔ میں فاحشہ ہوں۔ ۔ میرے بدن کے ’تاروں‘ سے روئی کے گولے بکھرتے چلے گئے۔ اس نے نائیٹی ہوا میں اڑا دی۔ ۔ میں نے اسے مضبوط بانہوں کے شکنجے میں لے لیا۔
’روئی دھننے والے‘ کی آواز آہستہ آہستہ مدھم مدھم ہوتی ہوئی ایک دم سے کھو گئی____ وہ اٹھی۔ نائیٹی پہنی۔ دل کھول کر مسکرائی۔ میرے گالوں کو پکڑ کر زور سے بوسہ لیا۔ آہستہ سے بولی____ تھینک یو۔ واش بیسن پر پانی کے دو چار چھینٹے چہرے پر مارے۔ پھر مسکراتی ہوئی سامنے آ کر بیٹھ گئی۔ ۔
میں نے آہستہ سے پوچھا۔
’وہ بچوں کو بھی لے گیا۔ ۔ ‘؟
’ہاں۔ میرے پاس اکیلے رہنے سے وہ اور بچے دونوں ہی خود کو ان سیکورفیل کرتے ہیں۔‘
’شاید اسی لئے تمہاری آتما بھٹکتی رہتی ہے۔کبھی میگزین کا دفتر۔ کبھی آرٹ گیلری، کبھی میوزک ورکشاپ____‘
میں ایک آترپت آتما ہوں۔ وہ ہنس رہی تھی۔ ۔ شاید اسی لئے ماں باپ نے مذاق کے طور پر میرا نام ترپتی رکھ دیا۔
میں نے کپڑے پہن نہیں لئے تھے____ وہ اچانک اٹھی۔ بے اختیار ہو کر ایک بار پھر میرے جسم سے لگ گئی۔ وہ رو رہی تھی۔
’ترپتی۔ ۔ ترپتی‘۔ ۔ میرے ہاتھ بارش بن گئے تھے۔ ۔ اُس کے جسم کے لئے۔ ۔ اس کے تھر تھراتے مچلتے جسم کے لئے۔ وہ ہر جگہ برس رہے تھے۔بوسوں کی بارش کر رہے تھے۔ ۔ پھر جیسے بجلی تیزی سے گرجی۔ اسے جیسے غلطی کا احساس ہوا ہو۔ وہ تیزی سے پیچھے ہٹی۔ میری طرف دیکھ کر ہنسی۔ ۔ پھر بولی۔ ۔
’’آخر اسے ایک تہذیب مل گئی۔ جس کی کھوج میں وہ برسوں سے لگا تھا۔ ایک قدیم تہذیب۔ ۔ یہ اس ڈراونے ویلٹائن ڈے کے چوتھے دن بعد کا قصہ ہے۔ مسوری، ہماچل وغیرہ میں برف گری تھی شاید۔ سردی اچانک تیز ہو گئی تھی۔ ۔ وہ رات کے 3بجے آیا۔ میں سو گئی تھی۔ عام طور پر جب میں اکیلے ہوتی ہوں۔ بیڈروم میں ____تو برائے نام لباس پہنتی ہوں۔ ۔ وہ مجھے اٹھا رہا تھا۔ جانوروں کی طرح۔ ۔
’’ہو ہو.. اٹھو..اٹھو۔‘‘
میں نے سمجھا، ایک جانور پیاسا ہے۔ عام طور پر وہ اسی طرح، ایک بے حس جانور کی طرح اپنی بھوک مٹاتا تھا۔ رات کے تین بجے اُٹھا کر اس نے مجھے صوفہ پر بیٹھا دیا۔ وہ خوشی سے جھوم رہا تھا۔ ’جھومر‘ کی طرح مسکراہٹ اس کے پور پور سے روشنی دے رہی تھی۔
’بولو۔ اُٹھایا کیوں۔ میں گہری نیند میں تھی۔‘‘
’مل گیا۔ یوریکا۔ ’’اسے میرے لفظوں کی، نیند کی فکر نہیں تھی۔ ۔ ’’تمہیں یاد ہے۔ ۔ وہ کمرے میں ٹہل رہا تھا____ میں نے بتایا تھا نا، 1991ء کے آس پاس جرمن سیاحوں کو آلپس کی پہاڑیوں پر ٹہلتے ہوئے انسانی اعضاء ملے تھے۔ یاد ہے؟ وہ بیسویں صدی کی سب سے عظیم دریافت تھی____ سب سے عظیم دریافت۔ گیا رہ برس بعد____ اس کے ٹھیک گیا رہ برس بعد۔ آہ تم یقین نہیں کرو گی۔ مگر ہم دنیا بدل دیں گے۔ تاریخ نئے سرے سے لکھی جائے گی۔ میں ان کچھ لوگوں میں سے ایک تھا____ گجرات کے ساحل سے 30کلو میٹر دور کھمباٹ کی کھاڑی میں ایک عظیم خزانہ ہاتھ آگیا ہے۔ سونوفوٹو گرافی۔ تمہیں یاد ہے نا، چار دن پہلے۔ ۔
’جلتے ہوئے گجرات میں ،عظیم خزانہ۔ ۔ ‘
’ہاں‘ مجھے یاد ہے‘۔ ۔ میرے لہجہ میں ناگواری تھی۔ ۔ چار دن پہلے، ویلنٹائن ڈے کے دن جو کچھ ہوا میں اسے کبھی بھول نہیں سکتی۔‘
’بھولنا بھی نہیں چاہئے۔ ۔ ‘مینن کے لہجہ میں کہیں بھی دکھ یا اداسی کی جھلک نہیں تھی۔ ’جھومر‘ جیسے اندھیرے میں سوئچ کی حرکت سے روشنی کی طرح بکھر گیا تھا۔ ۔ ’سونو فوٹوگرافی سے نکلی تصویریں جب لیب سے باہر آئیں تو ہمیں اچانک احساس ہوا____ سمندر میں 40میٹر نیچے دفن قدیم ترین تہذیب اچانک رنگین ستاروں کی طرح ہماری قسمت سے جوڑ دی گئی ہو۔ ۔ ایک قدیم شہر، موہن جداڑو کی طرح رہائشی مکانات____ سیڑھیوں کی طرح نیچے اترتے پوکھر___ تالاب۔
’’اور سب کچھ اُسی گجرات کے ساحلی علاقے میں۔ ۔ ‘‘
میری آنکھیں نیند سے بوجھل ہو رہی تھیں۔میں دیواروں کا خیال رکھتے ہوئے چیخی۔ ’’میں بھی ایک عظیم پوکھر ہوں۔ ایک عظیم تالاب ہوں اور انتہائی قدیم۔تمہیں اس عظیم پوکھر میں بہتے پانیوں کے اشارے کیوں نہیں ملتے۔‘؟
اس نے میری آواز کو نظرانداز کیا۔ ۔ وہ بتا رہا تھا۔ تہذیبیں کہیں جاتی نہیں ہیں۔ وقت کے ڈائنا سور انتہائی خاموشی سے انہیں نگل جاتے ہیں____ تہذیبیں ’ممی‘ سے باہر نکلنے کا انتظار کرتی رہتی ہیں۔ آہ، تم نہیں جانتی۔ ۔ میں کس قدر خوش ہوں۔ سمندر کے گہرے پانی میں 90کلو میٹر کے دائرے تک، اس قدیم تہذیب کی نشانیاں پھیلی ہوئی ہیں____ قدیم شہر____ ایک پورا شہر ندی میں سما گیا____ سندھو گھاٹی کی تہذیب کی طرح۔ یہ شہر اسی طرح کا ہے۔ جیسے ہڑپا کے برامدات میں پایا گیا تھا____مٹی کی بنی ہوئی نالیاں۔کچی سڑکیں۔ چھوٹے چھوٹے مٹی کے گھر۔ پتھر کے تراشے اوزار۔ گہنے____ مٹی کے ٹوٹے پھوٹے برتن____ جواہرات____ ہاتھی کے دانت اور۔ ۔ وہ مسکرا رہا تھا۔ سب کچھ یعنی 7500 ق۔م۔ یعنی قبل مسیح کا۔
’یہ سب مجھے کیوں سنا رہے ہو‘؟
وہ آگے بڑھا۔ میرے جسم پر یوں بھی کپڑے اس وقت برائے نام تھے۔ ۔ ’اس نے باقی بچے کپڑے بھی جسم سے الگ کر دیئے۔ ۔ اس لئے کہ۔ ۔ ’’میری آثار قدیمہ۔ ۔ تمہیں اب انہیں کھنڈروں میں بیٹھانا چاہتا ہوں۔ ۔ لیکن اس سے پہلے تمہارے ان کھنڈروں پر ریسرچ کرنا چاہتا ہوں۔ ۔ اس نے ایک بھدّی گالی دی۔ مجھے بستر تک کھینچنا چاہا اور شاید۔ ۔ ‘‘
وہ ہانپ رہی تھی۔ ۔ یہ اس کے ساتھ مسلسل، گزر رہے لمحوں کا جبر تھا کہ میں نے الٹا ہاتھ اس کے گال پر جڑ دیا۔
’کتیا۔ ۔ ‘ وہ ہانپ رہا تھا۔ ۔ ’’ایک بہت قدیم تہذیب برآمد کرنے کے بعد مجھے تمہارے ٹوٹے پھوٹے کھنڈر کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘
اس نے مجھے دھکا دیا اور خود کو بستر پر سونے کے لئے ڈال دیا____ میں زمین کے تنہا گوشہ میں دیر تک اپنے آنسوؤں کا شکار ہوتی رہی۔ ۔
***
’’پھر کیا ہوا، اس نے تمہیں ڈیورس دے دیا؟‘‘
’نہیں۔‘ وہ مسکرانے کی کوشش کر رہی تھی۔ ۔ ایسے لوگوں کو جانتی ہوں۔ جان گئی ہوں۔ ایسے لوگ، ڈرپوک ہوتے ہیں۔ زندگی کے بارے میں بہت دور تک دھوپ اور سایہ دیکھنے والے۔ ۔ ایسے لوگ قدم قدم پر ان سیکوریٹی کے مارے ہوتے ہیں____ مینن بھی ایسے ہی جذبہ سے دو چار تھا____ میرے بعد۔ ۔ ؟ اپنی، جسمانی اور بچوں کی۔ ۔ ترپتی مینن میری طرف مڑ گئی تھی۔ تمہیں کیا لگتا ہے ایسے لوگ جیت سکتے ہیں؟ نہیں۔ ۔ کسی ایک لمحے کا____ بولا گیا سچ ان کی اپنی ذات پر بھاری پڑتا ہے۔ دوسرے دن وہ ایک سدھا، ہوا بلڈاگ بن گیا تھا____ میرے قدموں پر لوٹتا ہوا۔ بچے اسکول جا چکے تھے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے۔

ترپتی آگے بڑھ کر کھڑکی کے پٹ کھول رہی تھی۔ باہر رات کی سیاہی مکمل طور پر چھا چکی تھی۔ ٹھنڈ بڑھ گئی تھی۔ تیز ہوا کے جھونکے کھڑکی کھولتے ہی اندر ہمارے جسموں میں داخل ہو گئے۔
’’ہوا تیز چل رہی ہے، نہیں؟‘‘
’ہاں۔‘
باہر کہرے کے ’آبشار‘ گر رہے تھے۔ وہ کھڑکی کے پاس اپنے منہ کو لے گئی۔ پھر میری طرف پلٹی۔ ہلکی سانس چھوڑی۔ چہرے کو اپنی ہتھیلیوں سے خشک کیا۔
’’کہرے کا احساس چہرے پر کیسا لگتا ہے۔ آں؟ جیسے ایک نم سی ٹھنڈی، روئی آپ کے چہرے پر رکھ دی گئی ہے۔ ۔ ہے نا؟‘‘
وہ پھر مسکرائی____ میں کہاں تھی۔ ہاں، یاد آیا۔ وہ ایک سدھے ہوئے بلڈاگ کی طرح اپنے نتھنے، میرے جسم پر رگڑ رہا تھا۔ کتّا____ مجھے ابکائی آ رہی تھی۔ تیز نفرت محسوس ہو رہی تھی۔ وہ سیکس کے بخار میں جل رہا تھا۔
’’پتہ نہیں کیا ہو جاتا ہے مجھے۔ کل رات۔ ۔ معاف کر دو ترپتی‘۔ ۔ اس کے رکھڑے، بن ماس جیسے ہاتھ میرے جسم پر مچل رہے تھے۔ وہ میرے کپڑے کھول رہا تھا۔ میں نے کوئی احتجاج نہیں کیا۔ میمنے، کی طرح معصومیت سے، اپنے غصّے کو دبائے اس کے جانور نما، پنجوں کا کھیل دیکھتی رہی۔ ۔ جب وہ میرے کپڑے اتار چکا اور کسی جنگلی بھیڑیے کی طرح اپنی ہوس پوری کرنے کے لئے تیار تھا____ ایک دم اسی وقت، میں کسی جنگلی بلی کی طرح غرائی____ دھب سے زمین پر کودی____ غصّے میں اسے پرے ڈھکیلا____ کپڑے پہنے اور چلائی۔
یو،سن آف بلڈی سوائن۔تمہاری ہمت کیسے ہوئی۔ ۔ ؟
وہ جل رہا تھا۔ وہ اپنے بدن کی آگ میں جل رہا تھا۔ وہ گڑگڑا رہا تھا۔وہ اپنے بھوکے بدن کی دہائیاں دے رہا تھا۔ میں کسی فاتح کی طرح مسکرائی۔ اس بار اسے سیراب کرنے کے لئے، میں نے سکندر بادشاہ کی طرح فتح کا سہرا اپنے سر لکھ لیا تھا۔ ۔

ترپتی نے کھڑکی بند کر دی۔ ۔ ’چلو، اس حادثے کو بھی بھول گئی میں۔ ۔ بھولنا پڑتا ہے۔ وہ چلتی ہوئی میرے قریب آئی۔ میری جانگوں پر بیٹھ گئی۔
’سنو۔ تمہارے یہاں کون کون ہیں؟‘‘
’ملو گی؟‘
’ہاں۔ ملنا چاہوں گی۔‘
’مینن آ گئے تو؟‘
’اب میں اسے ڈرانا چاہتی ہوں____ وہ میرے شرٹ کے بٹن سے کھیل رہی تھی۔ کھیلتے کھیلتے خود بولی۔ ۔
’ایک بیوی ہوگی!؟‘
’ہاں‘
’اسے بتاؤ گے کہ تم سے ایک ندی کی لہر ٹکرائی تھی____‘
’نہیں‘
’ڈرتے ہو۔‘
’ڈرنا پڑتا ہے۔ بیویاں صرف ایک سمندر۔ ۔ سمندر کی صرف ایک لہر سے واقف ہوتی ہیں____ دوسرے لفظوں میں کہوں تو وہ ساری لہروں پر خود ہی حکومت کرنا چاہتی ہیں۔‘
وہ ہنس رہی تھی۔ ۔ اور کون ہے۔
’ایک بیٹا‘
’کتنے برس کا؟‘
’آٹھ برس کا‘
اور۔ ۔ ‘
میں نے اسے جانگھوں سے پرے کیا۔ شریانوں میں گرم گرم طوفان کی آمد سے خود کو بچانا چاہتا تھا۔
’تم نے بتایا نہیں۔ اور کون ہے۔ ۔ ‘
’ایک بیٹی ہے۔ مگر۔ ۔ ‘
’مگر۔ ۔ ؟‘
’نہیں۔ وہ ہے نہیں۔ میرا مطلب ہے، وہ بن رہی ہے۔ ۔ بس وہ بن رہی ہے اور ایک دن یقین جانو وہ پوری طرح بن جائے گی۔‘
’اس نے چونک کر تعجب سے مجھے دیکھا‘
’پہلیاں مت بجھاؤ‘
’دراصل۔ ۔ میں نے اپنا جملہ مکمل کیا۔ ۔ وہ انکیوبیٹر میں ہے اور مسلسل بننے کے عمل میں ہے۔ ۔ ‘
’کیا مجھے ملواؤ گے؟‘
ترپتی نے اپنا بدن ایک بار پھر میرے بدن پر ڈال دیا تھا____
***
لفٹ پانچویں فلور پر رک گئی تھی۔ یہ اسپتال کا نرسری وارڈ تھا۔ فل ائیرکنڈیشنڈ____ باہر ایک لمبی راہداری چلی گئی تھی۔ ترپتی نے آہستہ سے میرا ہاتھ تھام لیا____ شیشے کے بنے دروازوں سے گزرتے ہوئے ہم ’ماترتوسدن‘ کے بورڈ کے آگے ٹھہر گئے____
’یہاں جوتے اتارنے ہوں گے۔‘

ترپتی کے پاؤں جاپانیوں اور چینی عورتوں کی طرح چھوٹے اور ملائم تھے۔ گیٹ کیپر نے دروازہ کھول دیا۔ دروازے کے اندر شیشے کی ایک عجیب سی دنیا تھی۔ ترپتی حیرت سے شیشے کے اس پار دیکھ رہی تھی۔ شیشے کے اس پار بھی، شیشے کے کتنے ہی چھوٹے چھوٹے گھروندے بنے ہوئے تھے____ ایسے ہر گھروندے میں نیلے بلب جل رہے تھے۔
’نیل کہاں ہے؟ ترپتی کی آنکھوں میں تجسس تھا۔‘
وہاں ان گنت انکیوبیٹرس تھے۔ ترپتی کی انگلیاں تیر رہی تھیں۔ وہاں۔ ۔
’نہیں‘،’نہیں؟‘
’وہ۔ ۔ ‘
’وہ بھی نہیں۔ ۔ ‘
’اچھا وہ۔ ۔ دائیں طرف۔ ۔ ‘
’نہیں۔ ۔ ‘
’پھر نیل کہاں ہے؟‘
’نیل وہ رہی‘
’مگر۔ وہ انکیوبیٹر تو خالی ہے۔ ۔ ترپتی چونک گئی تھی۔
’خالی نہیں ہے۔ غور سے دیکھو۔‘
’خالی ہے!، ترپتی کا لہجہ اُداسی سے پُر تھا۔
’ہے نا۔ ۔ میں نے کہا تھا۔ وہ بن رہی ہے____‘ میں نے ترپتی کا ہاتھ زور سے تھام لیا تھا۔ ۔ یاد ہے ترپتی۔ میں نے کہا تھا، عورت ہر بار بننے کے عمل میں ہوتی ہے۔ ایک بے چین آتما۔ ۔ ایک یونانی دنت کتھا میں پڑھا تھا____ عورت کی جون میں پرویش سے پہلے، آتما دھرتی کی سوپریکر مائیں پوری کرتی ہے۔ تمہاری آتما بھی بے چین تھی۔ کبھی ساہتیہ۔ کبھی آرٹ اور کبھی۔ ۔ ‘
ترپتی میری طرف تیزی سے مڑی۔ ہنستے ہوئی بولی۔ ۔
’سنو۔ اس انکیوبیٹر میں مینن کو ڈال دوں؟‘
’نہیں۔‘
میرا لہجہ نپا تُلا تھا۔ ۔ ’سب سے پہلے ابھی تمہیں اس انکیوبیٹر سے باہر نکلنا ہے‘

میں نے اس کی طرف نہیں دیکھا۔ ۔ اس کا ہاتھ تھام کر باہر آگیا۔ ۔ لفٹ کے بٹن پر انگلیاں رکھتے ہوئے بھی میں نے اس کی طرف پلٹ کر نہیں دیکھا____
ممکن ہے وہ انکیوبیٹر میں رہ گئی ہو۔ ۔ یا ممکن ہے، شوہر کے آثارقدیمہ میں بھٹک رہی ہو!
***
 

الف عین

لائبریرین
سب سے بُری خبر

’’نہیں، اس گھوڑے کے بارے میں نہیں پوچھئے۔ برائے مہربانی‘‘۔ وہ زور زور سے ہنس رہا تھا۔ برائے مہربانی اور جیسا کہ میں نے کہا ،آپ یقین کیجئے۔ وہ گھوڑا۔با۔ ۔ بابا۔ ۔ ایک بے حد دلچسپ کہانی اور جیسا کہ میں ہوں۔ کیا آپ مجھ پر یقین کریں گے۔ ہاں آپ کو کرنا چاہئے۔ ۔ اور وہ گھوڑا چانک کورے کینواس سے چھلانگ لگا کر میرے سامنے آ کھڑا ہوا تھا۔ ۔ ‘‘

کالے چشمہ کے اندر حسین کی پتلیاں تیزی سے حرکت کر رہی تھیں۔ نہیں۔ مجھے مغالطہ ہوا تھا۔ کسی بھی انسانی آنکھ کی پتلیوں میں یہ جوش میں نے کم دیکھا تھا۔ ۔ حسین کی پتلیاں ٹھہرتی نہیں تھیں۔ ۔ وہ شرارتی کنچے، کی گولیوں کی مانند تھیں۔ ادھر سے ادھر چمکیلے فرش پر تیرنے والی۔ ۔ اور مجھے لگتا ہے باتیں کرتے ہوئے بھی حسین ان پتلیوں کو وقفے وقفے آپ کی نظر بچا کر اپنی ہتھیلیوں میں تھام لیتا ہے۔۔ ۔ گو، ایسا کرتے ہوئے وہ پریشان بھی ہو اٹھتا ہے کہ پتہ نہیں سامنے بیٹھا ہوا آدمی اس کے اس عمل کو کیا نام دے؟ مگر۔ ۔ کنچے کی گولیوں کی طرح اس کی آنکھوں کی شرارتی پتلیاں۔ ۔ اور گھوڑے۔
شراب کے دو ایک گھونٹ کے بعد ہی ہو وہ جذباتی حد تک فلسفی بن جاتا____
’دوست، سب سے بُری خبر ابھی لکھی جانی باقی ہے۔‘ وہ اٹھ کر کمرے میں ٹہل رہا ہے۔ مجھے معلوم ہے۔ حسین کو چڑھ گئی ہے۔ چڑھنے کے بعد حسین کے اندر سنبھال کر رکھا ہوا، بوجھل آدمی مر جاتا ہے اور ایک حساس، جذباتی اور پاگل آدمی زندہ ہو کر سامنے آ جاتا ہے۔
’’دوست، ابھی سب سے بُری خبر لکھی جانی باقی ہے۔ لیکن یہ بُری خبر آہستہ آہستہ لکھی جائے گی اور ممکن ہے۔ ممکن ہے۔ ۔ اس کے لکھے جانے کا سلسلہ شروع ہو چکا ہو۔‘‘
حسین پھر اپنی کرسی پر واپس آ کر بیٹھ گیا ہے۔
’کیا یہ خبر تم سے جڑی ہے؟، میں ہنسنا چاہتا ہوں۔ حسین کو چھیڑنے کا منشا ہے۔ مگر۔ حسین کے اندر کا آدمی دکھ گیا ہے۔
’’سب سے بُری خبر۔ ۔ سب سے بُری خبر کا تعلق محبت سے ہوگا دوست۔ سب سے بُری خبر ہوگی کہ محبت کرنے والے نہیں رہیں گے۔ سب سے بُری خبر ہوگی کہ محبت پر کچھ بھی تحریر نہیں کیا جائے گا۔ سب سے بُری خبر ہوگی۔ ۔ ‘‘
حسین بہک رہا ہے۔
میں اپنے دل کو سمجھاتا ہوں۔ حسین، جیسے بہت دیکھے ہیں۔ ۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ سارے پینے والے ہی حسین ہوتے ہیں۔ پی کر، خود پر قابو نہیں رکھنے والے۔ ۔ اپنے آپ کو بھول جانے والے۔ پھر۔ اندر کا فرسٹریشن مزے لے لے کر آپ کو ایک بیوقوف قسم کے جو کر میں بدل دیتا ہے۔ ۔ یعنی جیسے آپ آئینہ کے سامنے کھڑے ہوں اور اپنے عکس کو دیکھ کر عجیب عجیب حرکتیں کر رہے ہوں۔ فرق اتنا ہے کہ پینے کے بعد آپ اپنی عجیب عجیب حرکتوں کے لئے تو بچ جاتے ہیں لیکن اپنے آپ کو نہیں دیکھ پاتے۔ پھر بے سرپیر کی کہانیاں اور فلسفے شروع ہو جاتے ہیں اور شراب کا نشہ ہرن ہونے تک، فلسفے بھی شیمپئن کے جھاگ کی طرح بہہ جاتے ہیں۔
لیکن۔ سب سے بُری خبر۔
***
مجھے اس خبر نے چونکایا تھا تو کیا اس آدمی نے، اس پچاس باون سالہ جذباتی خبطی آدمی نے محبت کا روگ بھی لگایا ہوگا۔ ۔ نہیں۔ مجھے یقین نہیں آ رہا تھا۔ اس پچاس باون سالہ آدمی نے۔ ۔ ایک انتہائی تجربہ کار، حساس اور جذباتی آدمی نے____ سوچنے کے آخری لمحے میں میں نے حسین سے اپنے دل کی بات پوچھ لی تھی۔
’’آپ کی سب سے حسین پینٹنگ کون ہے؟‘‘
’’جو میں نے اب تک نہیں بنائی‘‘۔ ۔
اس کی آنکھوں کی پتلیاں، پھر سے کنچے کی گولیاں بن گئی تھیں۔
 

الف عین

لائبریرین
اور جو کچھ حسین نے بتایا

یہ کہانی یوں بھی شروع ہوسکتی تھی کہ ایک تیس سال کا پینٹر تھا اور ایک دبئی یا کسی بھی عرب ممالک میں رہنے والی لڑکی تھی۔ لیکن حسین کے لئے صرف لڑکی ہونا، محبت کے لئے کافی نہیں تھا۔اور وہ بھی تب۔ جب ایک عمر نکل جانے کے بعد بھی ایک عمر آپ میں چھپی بیٹھی رہ جاتی ہے۔ یہ پوچھنے کے لئے کہ میں ہوں تو مجھے جیتے کیوں نہیں ہو۔
’وہ کیسے ملی۔ ۔ ؟‘
حسین کے لفظوں میں۔ ۔ پہلی بار لگا، وہ لڑکی دیکھتے دیکھتے میرے سامنے ایک پینٹنگ میں بدل گئی ہو۔ ایزل، کینواس، برش، رنگ۔ ۔ اس پینٹنگ میں سب کچھ تھا۔ لیکن لڑکی غائب ہو گئی تھی۔ لڑکی کی جگہ۔ ۔ ‘
’گھوڑے نے لے لئے تھے۔ ’میں مسکرایا۔ دلّی کی نمائش گاہ میں اس کی جس پینٹنگ کی، میں نے سب سے زیادہ داد دی تھی، وہ وہی دو گھوڑے تھے۔ دو وجیہہ گھوڑے۔ حسین ایرانی گھوڑے۔ ۔ آپس میں گلے ملتے ہوئے۔ ۔ کاغذ کے کینواس پر پنسل کی باریک لکیروں سے، ان دو گھوڑوں نے جنم لیا تھا۔
’کیا یہ تم ہو، حسین؟‘
’’آہ نہیں۔ لیکن تم قریب قریب پہنچ رہے ہو۔‘‘
’کیا ان میں سے ایک گھوڑا ہندستانی ہے اور ایک۔ ۔ ‘
’نہیں ۔ ۔ حسین پر اس بار پینٹنگ والی لڑکی حاوی ہو گئی تھی۔ ۔ ’’اس سے پہلے میں نہیں جانتا تھا۔ عورتیں، مردوں کی کمزوری سے کس حد تک واقف رہتی ہیں۔ ۔ اور شاید وہ اس کی کمزوری سے فائدہ اٹھانے کی بھی کوشش کرتی ہیں۔ لیکن شاید اپنی ان کمزوریوں کو مرد بھی پہچانتا ہے۔ مرد ان کمزوریوں سے واقف رہتا ہے۔ ۔ اس وقت بھی جب عورت اس کی کمزوری کا فائدہ اٹھا رہی ہوتی ہے۔ ۔ لیکن آہ، عورت کبھی مرد کی اس طاقت کو نہیں پہچان پائی۔ ۔ جس کے بارے میں وہ جان لے تو شاید عورتوں کا کوئی مسئلہ ہی نہیں رہے۔ کیونکہ ان کی پہچان کا ایک راستہ مرد کی طاقت سے بھی ہو کر گزرتا ہے۔ حسین کہتے کہتے ٹھہر گئے تھے۔
’’وہ میرے دوست کی بہن تھی اور اس دن، میرا دل بار بار کہہ رہا تھا، حسین کچھ ہونے والا ہے۔ ۔ یہ اندر کے گھوڑے کی بے چینی تھی، جس نے اپنے علاج کے لئے ڈاکٹر دوست کا گھر دیکھ لیا تھا۔
’’میں اپنے اسی لباس میں تھا۔ کرتا پانجامہ اور جیسا کہ میں عام طور پر پہنتا ہوں۔ کرتے پر کالے رنگ کی ایک صدری یا بنڈی۔ آپ جو بھی نام دے دیں۔ کال بیل پر انگلی رکھتے ہوئے بھی میرے ہاتھ لرز رہے تھے۔‘‘
اور وہ آئی۔ ۔ وہ سامنے کھڑی تھی۔ تصویر ساکت تھی۔ وہ مجسم، میری اس پینٹنگ میں بدل گئی تھی، جو میں نے اب تک نہیں بنائی تھی۔ کیا یہ کیوپڈ کا تیر تھا؟ لمحہ رک گیا تھا اور پینٹنگ ساکت تھی۔
ایک بہت ہی عام چہرہ جیساکہ میں ہوں۔ ۔
اور ایک بے حد خاص چہرہ جیسا کہ وہ تھی۔ ۔
ایک بے حد عام سامرد ۔ ۔ اور بے حد خاص سی لڑکی۔ ۔
ہم دونوں دروازے پر تھے۔ ایک دروازے پر ہاتھ رکھے ۔ ۔ اور دوسرا دروازے کے باہر۔
خاموش ان لمحوں کا جادو ایسا تھا کہ کسی حسین پینٹنگ کی طرح میں اسے آنکھوں کے کینواس پر قید کر رہا تھا۔ بکھری ہوئی زلفیں۔ آسمانی رنگ کی شلوار، قمیض۔ ۔ اسی رنگ سے میچ کرتا ہوا دوپٹہ۔ ۔ دوپٹّہ ہڑبڑاہٹ میں، اس کے کندھے سے ہوتا ہوا سینے پر جھول گیا تھا۔ وینس دی میلو۔ خوبصورت آدھے کٹے ہاتھوں والی عورت اور اس کا بّراق حسین سینہ۔ وہ سینہ مصفّی وہ دوقبہ نور۔ ۔ یقیناً وہ حسین تھے اور بھرے بھرے۔ اس کے ہونٹ موٹے تھے۔ موٹے ہونٹ میری کمزوری ہیں۔ موٹے اور رسیلے۔ وہ تو وینس دی میلوتھی۔ لیکن میں کیا تھا۔ ۔ ؟
وہ مجھ میں کیا دیکھ رہی تھی۔
میں اس پر نثار ہو رہا تھا اور چاہتا تھا، وہ اپنے لئے میری اس کمزوری کو محسوس کرے۔
’’عمر۔ عمر کیا ہوگی اس کی؟‘‘
ان جادوئی خاموش لمحوں میں، میں اس کی عمر کی، رواں سڑک سے گزر رہا تھا۔ سولہ، اٹھا رہ یا زیادہ سے زیادہ بیس۔ ۔ یا عمر کہیں کسی سرکش گھوڑے کی طرح ٹھہر گئی تھی۔ ۔ ندی بہہ رہی تھی۔
پھر ندی ایک دم سے ٹھہر گئی۔
وینس کو اپنے ہونے کا احساس ہو گیا تھا۔ ۔
’دیکھئے۔‘
میں نے ٹھہرٹھہر کر کہا۔ ’’میری طبیعت خراب ہے۔ اس وقت بھی بخار سے جل رہا ہوں۔ فرقان میرے دوست ہیں اور آپ کے ملک میں میرا ساتواں دن ہے۔ ۔ آنے سے قبل، پاکستان سے فرقان سے میری فون پر بات ہوئی تھی‘‘
اس کی آنکھوں میں نشہ تھا۔ وہ ہرن کی طرح لہرائی۔ ۔ ندی کی لہروں کی طرح گھومی۔ ۔ دوپٹہ کو ریشم کی ڈوری کی طرح نچایا۔ ۔ اپنی ’لانبی‘‘ گردن کو جنبش دی۔
مجھے اندر آنے کے لئے جگہ دیا۔ مسکرائی۔
’’آ جائیے۔ فرقان میرے بڑے بھائی ہیں‘‘۔
 

الف عین

لائبریرین
ڈاکٹر فرقان، پینٹنگ اور وہ

وہ بات بات پر ہنس پڑتا تھا۔ یا یوں کہئے، اسے ہنسنے کی بیماری تھی۔ یا یوں کہئے، ہنسنا اس کے لئے مریضوں کو ’رُجھانے‘ کا ایک شغل بن چکا تھا۔ مجھے یقین تھا وہ رات میں سوتے سوتے بھی بلاواسطہ ہنستا ضرور ہنستا ہوگا۔ تو یہ ڈاکٹر فرقان تھا۔ (نہیں، آپ اس آدمی یا اُس کی کہانی پر تعجب مت کیجئے، جس کے بارے میں، بعد میں معلوم ہوا کہ فرضی اور جعلی ڈگریوں کے حوالے سے اس نے نہ صرف میڈیکل کی ڈگری حاصل کی۔ بلکہ دبئی تک کا سفر بھی کر آیا۔ بہر کیف ان باتوں کا کہانی سے کوئی زیادہ تعلق نہیں ہے) مجھے تعجب تھا،اتنی حسین لڑکی ڈاکٹر فرقان کی بہن کیسے ہوسکتی ہے اور اس سے مسلسل، باتیں کرنے کے دوران مجھے یہ خیال بھی پیدا ہو رہا تھا کہ اس جیسے کسی ڈاکٹر کو یعنی جس کا ٹارچر کرنے والا پیشہ اس کے چہرے پر بھی لکھا ہوتا ہے، کی کوئی بہن نہیں ہونی چاہئے۔ ۔ بہن اور وہ بھی اتنی خوبصورت ۔
’ہو..ہو..۔ ڈاکٹر فرقان پھر ہنسا۔ ۔ تو اب بھی تمہاری وہی عادت ہے، یعنی آڑی ترچھی لکیریں..ہو ہو..
وہ ہنس رہا تھا۔
وہ سامنے آ کر کھڑی ہو گئی تھی۔ مسکرا رہی تھی۔
’’تو آپ پینٹنگ بناتے ہیں؟‘‘
ہو ..ہو۔ڈاکٹر فرقان کو اپنی بے کار کی ہنسی پر قابو پانا مشکل ہو رہا تھا۔
’آئیے۔ آپ سے کچھ پینٹنگ کے بارے میں باتیں کرتے ہیں۔ ۔ کھڑے کھڑے اس نے اپنا دایاں ہاتھ آگے بڑھایا۔ انتہائی شفاف۔ لانبی مخروطی انگلیاں۔ ۔ کیا یہ وینس دی میلو کی انگلیاں ہیں۔ آج اس کا دوپٹہ غائب تھا۔ کھلے گلے سے ’قبہ نور‘ کے دیدار کے لئے آج اس نے میری مسحور نظروں کو روکا یا ٹوکا نہیں تھا۔ جی بھر کر دیکھنے دیا تھا۔ اس کی انگلیاں گرم تھیں۔ ہتھیلیاں، آگ کا گرم انگارہ بن گئی تھیں۔
ڈاکٹر فرقان ہنس رہا تھا۔ ۔ پینٹنگ۔ہو ہو..جاؤ میری بہن اس موضوع پر تم سے کچھ زیادہ اچھی باتیں کرسکتی ہے۔ ۔ ہو ہو..
اس نے ہاتھ تھامے ہوئے اپنی بہن کو کچھ ایسی نظروں سے دیکھا، جیسے عام طور پر وہ اپنے مریضوں کو دیکھتا ہوگا۔
اس کی آواز سرد تھی۔ جیسے کسی گہرے کنویں سے آ رہی ہو۔
’بھیا ایسے ہی ہیں۔ ۔ ہمیشہ سے۔ یعنی پورے ڈاکٹر۔ ۔ ‘
ہم بالکونی میں تھے۔ پلاسٹک کی کرسیوں کے پاس کی جگہ ایک چھوٹے سے گارڈن کا نمونہ پیش کر رہی تھی۔ جہاں ہم بیٹھے تھے، وہاں سے آسمان پتوں کی قطار سے جگمگا تا ہوا، کچھ زیادہ ہی گہرا نیلا ہو گیا تھا۔ اس نے نظر جھکائی۔بائیں ہاتھ کی انگلیوں کو دائیں ہاتھ کی انگلیوں سے تھام لیا۔ وہ اپنے ناخنوں پر لگی پالش سے کھیل رہی تھی۔
’’تہذیب نے آرٹ کو جم دیا اور آرٹ نے تہذیب کے لئے راستے پیدا کئے۔ ۔ پہلے تہذیب پیدا ہوئی یا پہلے آرٹ؟ پہلے بیج پیدا ہوا یا پہلے درخت؟ ۔ ۔ مجھے لگتا ہے، پہلے پہلے ایموشنس، رہے ہوں گے۔ جذبات۔ ۔ دو آنکھوں، دو دریا اور دو دلوں کے بیچ۔ ۔ جیسے ندی میں کنکری پھینکو۔ پہلے پہلے کسی نے اس کنکری کی چیخ سنی ہوگی۔ ۔ اور اس چیخ کو ’پاشان‘ والوں نے کسی درخت کے کھوکھل یا زمین کے ماتھے پر لکھ دیا ہوگا۔ آرٹ پہلے آیا اور تہذیب۔ ۔ ؟‘‘
اس نے کنچوں والے جھولتے گل دستے سے ایک پتہ توڑ لیا۔ ۔ ’’تہذیبیں کتنی آگے نکل گئیں۔ اسٹون، کوپر اور آئرن ایج کے انسان نے اپنے ہر کرشمہ کے لئے آرٹ کو آواز دی ہوگی۔ ۔ ؟ ہے نا؟‘‘ وہ میری طرف گھومی تھی۔
’’تم پینٹر، عورت میں کیا دیکھتے ہو۔ ۔ ؟‘‘
وہ جھکی تو اس کے قبہ نور کے شعلے انگاروں کی بارش کرنے لگے۔ اس نے مجھے اپنے جادو میں تیرنے دیا۔ ذرا توقف کے بعد وہ پھر بولی۔
’’تم نے جواب نہیں دیا۔ تم لوگ عورت میں کیا ڈھونڈھتے ہو۔؟‘ ایک ننگا جسم؟ وہ میری آنکھوں میں جھانک رہی تھی۔ ۔ گداز بانہیں، حسین چکنے پاؤں، جیسے ایک چکنی سڑک اور۔ ۔ وہ مسکرا رہی تھی۔
پھر اس کی مسکراہٹ کچھ زیادہ ہی گہری ہو گئی۔ ۔
’کیا تم مجھے دیکھنا چاہو گے۔ ۔ ؟‘
اس نے میرا ہاتھ تھام لیا۔ وہ اٹھی۔ میرا بدن لرز رہا تھا۔ ۔ اٹھتے اٹھتے میں نے دیکھا اس نے جھولتے گلدستہ سے جو پتہ توڑا تھا۔ اس کے ٹکڑے زمین پر بکھر گئے تھے۔
ڈاکٹر فرقان! میرے لب تھرتھرائے۔
’نہیں۔ وہ مریضوں کو دیکھنے جا چکے ہیں اور شام کے 8بجے سے قبل لوٹیں گے بھی نہیں۔‘
وہ مجھے اپنے بیڈروم میں لے آئی تھی۔ آگے بڑھ کر پچھم کی طرف کھلنے والی کھڑکی اس نے بند کر دی۔ پردہ کھینچ دیا۔ بلب روشن کر دیا۔ مجھے صوفہ پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ پھر میز پر، کتابوں کے درمیان سے کچھ تلاش کرنے کی کوشش کرتی رہی۔ ۔ پھر تیز تیز میرے قریب آ کر، البم سے ایک تصویر نکال کر ہنس پڑی۔
’’پہچانو۔‘‘
تصویر میں ایک سال کی بچی، نہانے والی بالٹی کے پاس کھڑی رو رہی تھی۔ ایک عورت ہاتھ میں پانی کا مگ لئے کھڑی مسکرا رہی تھی۔ ۔
’’یہ میں ہوں، اس نے بچی کی طرف اشارہ کیا۔ ۔ ‘‘ اور یہ ماں ہے۔‘‘ اس کے چہرے پہ معصوم شرارت تھی۔
’دیکھ لیا مجھے۔اس بچی کو ایک پینٹنگ میں کتنا بڑا کرسکتے ہو؟۔ ۔ میرے برابر؟۔ ۔ پھر وہ یہ رہی۔ یا یہ میں بن گئی۔ ۔ ؟‘‘
’’اس بچی نے کچھ بھی نہیں پہنا ہوا ہے۔‘
’اور میں لباس سے ہوں‘۔
وہ ہنس رہی تھی۔ ۔ کمال تو تب ہے جب تم اس بچی کو ربر کی طرح کھینچ کر پینٹنگ میں ڈال دو۔ ڈال سکتے ہو۔ ۔ ؟
مجھے گھبراہٹ ہو رہی تھی
’تو کیا یہ میں ہوں گی حسین۔ ۔ ؟ یعنی، میں جو ابھی ہوں۔ یا وہ بچی ہوگی، جو اس تصویر میں ہے اور جو نہانے کے نام پر رو رہی ہے۔ برہنہ‘‘
’تم یہ بات کس طرح جاننا چاہتی ہو؟‘
’پتہ نہیں۔‘
’اس بچی کو اگر ربر کی طرح کھینچا جائے تو۔ ۔ ’میں بچی اور اس کے چہرے کو تول رہا تھا ’’بچی میں تم نہیں ہو اور تم میں بچی نہیں ہے‘‘۔
____’یہ میری بات کا جواب نہیں ہوا‘
اس بار میرا لہجہ سخت تھا____ سنو، پریم پجاری۔ ۔ امتحان مت لو میرا۔ پینٹنگ کی زبان میں یہ دونوں الگ چہرے اور جسم رکھتے ہیں۔ تمہیں چھوٹا کروں تو اب کی تم کل والی اس بچی میں داخل نہیں ہوسکتی۔ ۔ اور بچی کو ربر کی طرح کھینچوں تو، یہ تمہاری طرح آگ نہیں بن سکتی۔‘
’’پینٹنگ کی زبان چھوڑ کر زندگی کی زبان میں بات کرو تو۔ ۔ ‘‘ وہ مسکرا رہی تھی۔
’’بچی کے ساتھ سیکس کا خیال نہیں ابھرتا اور تمہارے ساتھ‘‘
اس نے گرم ہتھیلیاں میرے ہونٹوں پر رکھ دیں____
قبّہ نور ،کو اب لباس کی ضرورت نہیں تھی____
وہ ناچی، اچھلی، تڑپی اور میرے جسم میں سما گئی۔ ۔
یہ پہلے گھوڑے سے میری ملاقات تھی۔ ۔
***
کمرے میں ٹپ ٹپ بارش رک چکی تھی۔
’’برسوں پہلے موہن جوداڑو کی کھدائی سے____ تمہیں یاد ہے۔ ۔ ’سفید چادر میں اس کے ہلتے پاؤں نے میرے ننگے پاؤں پر اپنا گداز بوجھ ڈال دیا تھا____ تمہیں یاد ہے حسین، وہ آرکائیو والوں کے لئے یقیناً ایک انوکھی، قیمتی اور مہنگی چیز تھی۔ مجھے یاد کرنے دو۔ ۔ ایک عظیم بھینسا، رالچھس جیسا۔ ۔ بڑی بڑی سینگیں۔ ۔ لیکن چھوٹا سر۔ ۔ دو نوکیلی سینگیں آسمان سے باتیں کر رہی تھیں۔ ۔ میں نے یہ تصویر کسی امریکن میگزین میں دیکھی تھی۔ ۔ لیکن، مجھے یاد رہ گئی۔ پتہ ہے، وہ عظیم بھینسا کون تھا۔وہ تم تھے حسین!‘‘
وہ اچھلی۔ ۔ سفید چادر اس کے اجلے نرم ملائم بدن سے پھسل کر اس کی جانگھوں تک چلی گئی تھی____
’’تم اس وقت بھی تھے۔ موہن جودڑو کی تہذیب میں۔ ایک عظیم بھینسے کی صورت میں۔ لیکن اس وقت میں کہاں تھی حسین۔ ۔ ؟‘‘
وہ تارکول کی طرح میرے بدن پر پھسل رہی تھی۔ ۔ ’’میں بن رہی تھی شاید۔ ۔ ہر بار بننے کے عمل میں تھی۔ عیسیٰ قبل کئی صدیاں پہلے یونان میں۔ ۔ کبھی ’پارتھنیان‘، کے آدھے گھوڑے آدھے انسانی مجسمے کی صورت۔ ۔ کبھی وینس اور ’اپالو‘ کی پینٹنگ میں۔ ۔ کبھی لیونارڈو دی ونچی کی مونالزا اور جن آف راکس، دی میڈونا اینڈ چائلڈ اور باچیوز میں۔ ۔ اور کبھی رافل، رمبراں اور جان اور میر کی تصویروں میں۔ ۔ ‘‘
وہ کچھوے کی طرح پھدکی۔ میرے پاؤں کے انگوٹھے کو اپنے ہونٹوں میں بھرا۔ ۔ پھر اچھل کر میرے پاؤں کے بیچوں بیچ آ کر بیٹھ گئی۔ ۔
’’سچ کہنا، مونالزا کا صرف چہرہ مسکراتا تھا اور میرا جسم۔ ۔ ‘‘
’’لیونارڈو دی ونچی نے تمہیں نہیں دیکھا تھا۔ اس لئے وہ جسم کی ایسی کسی مسکراہٹ سے واقف نہیں تھا۔‘‘
’’کیا میں مائیکل اینجلو کا تصور ہوں؟‘‘
’’تم ایک حسین بدن کا تصور ہو‘‘
’’کیا میں۔ ۔ ‘‘
میں نے اپنے چیختے بدن کو ایک بار پھر اس کے حوالے کر دیا تھا۔ ۔
’’تم ایک گھوڑا ہو اور یقیناً یہ گھوڑا پارتھینان کے گھوڑے سے مختلف ہے۔ ۔ ‘‘
اور اسی کے ساتھ میں نے اس کے جسم کے دریا میں چھلانگ لگا دیا تھا۔ ۔
 

الف عین

لائبریرین
خالی کینواس، ننگا بدن اور چھلاوہ

اس رات، بلکہ یوں کہئے ساری رات میں خود سے لڑتا رہا۔ ۔ ’ایزل‘ کسی ایرانی گھوڑے کی طرح تنا ہوا، کورے کینواس کا بوجھ اٹھائے تھا۔ ۔ اور کینواس کا ’کورا بدن‘ میرے ہاتھوں کی انگلیوں کے تعاقب میں تھا۔ رنگ بھرے جانے تھے۔ لیکن رنگ کون بھرتا۔ پینسل کا پورا ڈبہ بلیڈ کی حیوانیت کی نذر ہو چکا تھا۔ سفید کاغذ پر دھبے جمع ہو رہے تھے۔ پارتھینان کا آدھا گھوڑا، آدھا انسان۔ ایک سرکش ندی کا بدن۔ ۔ خیال آ رہے تھے۔ مچل رہے تھے۔ ۔ اور اس کے مخملی بدن سے پھسلتے ہوئے لوٹ ج رہے تھے۔ آدھی جل مچھلی، آدھا گھوڑا۔ ۔ یہ بھی نہیں۔ مکمل گھوڑا۔ یہ بھی نہیں۔ اس کا بولتا بدن۔ ۔ چیختا بدن۔ ۔ اس کے موٹے، پھل کے رس سے بھرے ہونٹ۔ میں بار بار اس کی زندہ پینٹنگ میں دفن ہوا جا رہا تھا۔ پھر میں نے سوچ لیا۔
’’کیا؟‘‘
میں یہاں رہا۔ تو میں مر جاؤں گا۔ ٹھیک اپنے کینواس کی طرح____کورا۔ ۔ میں اس کا جسم بن جاؤں گا۔ کیونکہ سمندر کو، ندیوں کو ضم کرنے کا حق حاصل ہے۔ ۔ وہ سمندر تھی اور
’تم ندی تھے؟۔ ۔ ‘
’’میں ندی بھی نہیں تھا۔ میں ندی کی معمولی لہر بھی نہیں تھا۔ ۔ اور وہ۔ ۔ بلاخیز طوفان تھی۔ اس نے مجھے۔ ۔ آسمان سے باتیں کرنے والا ، دو عظیم سینگوں والا بھینسا غلط کہا تھا۔ دراصل‘‘۔
’’مطلب۔ ۔ ؟‘‘
’’موہن جوداڑو کی تہذیب سے نکلے جس مجسمے کی تصویر کو اس نے امریکن میگزین میں دیکھا تھا‘‘ وہ۔ ۔ وہ خود تھی۔ وہ مجھے خوش کر رہی تھی۔ سمندر ندیوں کو پی کر مہان بننے کا ہنر جانتا ہے۔ یہ ایک طرح سے ایگو پرابلم تھا۔ میں ایسی کوئی ندی نہیں بننا چاہتا تھا جسے سمندر آسانی سے ہضم کر ڈالے۔ ندی سہی، لیکن میں ندی بن کر ہی اپنے آرٹ کو زندہ رکھنا چاہتا تھا۔‘‘
’’پھر۔؟‘‘
’’اس سنسنسی خیز حادثے کے بعد میں وہاں دو دن اور رہا۔ دو دنوں میں، میں نے اپنی واپسی کی پوری تیاری کر لی۔ اس درمیان ڈاکٹر فرقان کے کئی فون میری تلاش میں آئے۔ لیکن میں کسی بھی طرح اپنی واپسی کی اطلاع کو اس سے چھپا کر رکھنا چاہتا تھا۔‘
’’تو کیا یہ ممکن ہوا۔؟‘‘
’’آہ۔ نہیں۔فلائیٹ میں چار گھنٹے باقی رہ گئے تھے۔ دو بڑے بڑے سامان پیک ہو کر دروازے کے پاس رکھے تھے۔ بیل بجی۔ میں نے دروازہ کھولا۔ ۔ سامنے، سمندر کی شانت لہریں میری طرف دیکھ رہی تھیں۔ ۔ اسے میرے واپس جانے کی خبر مل گئی تھی۔ ۔
’’جاؤ‘‘۔ ۔
وہ ایک بے حد ’’اچھالدار‘‘ لہر تھی۔ ۔ ’’مگر یاد رکھو، میرا بدن تمہارے بدن میں رہ گیا ہے۔ کیا اس بدن کو بھول سکو گے؟۔‘‘
جانے سے پہلے وہ پلٹی۔ ۔ ’’اور یاد رکھو۔ یہ پارتھینان کے آدھے انسان کا بدن یا وینس دی میلو نہیں ہے۔‘‘
’’سنو۔‘‘
جانے سے پہلے، اسے آخری بار دیکھ کر، میں نے اپنے آنسو چھپا لئے تھے____ ’’برسوں پہلے تمہارے جنم میں میں نے اپنا جنم رکھ دیا تھا۔ ۔ آواگون کو مانتی ہو تو ہم پہلے بھی ملے تھے اور ہم۔ ۔ پھر ملیں گے۔ ۔ ‘‘
دروازے پر کوئی نہیں تھا۔
میری فلائیٹ کا وقت قریب آ چکا تھا۔
 

الف عین

لائبریرین
دو گھوڑے

قارئین!
سب سے پہلے میں آپ کی توجہ ایک بے حد خاص موقع کے لئے، بنائی گئی اس بے حد خاص پینٹنگ کی طرف مبذول کرانا چاہوں گا۔ ۔ اس پینٹنگ میں دو گھوڑے ہیں۔ دو حسین گھوڑے۔ یہ گھوڑے جوناتھن سوئفٹ، کے خیالی گھوڑوں کی طرح خوبصورت بھی ہیں اور وجیہہ بھی۔ ۔ یعنی دو بے حد حسین ایرانی نسل کے شاندار گھوڑے۔ ۔ ان کے دو پاؤں دھرتی پر اور دو ہوا میں معلق ہیں۔ ۔ اس طرح جیسے یہ کوئی بہت اہم پیغام لے کر ایک دوسرے کے گلے مل رہے ہوں۔ یہ پینٹنگ میری ڈرائنگ روم کی زینت ہے۔ یعنی ایک بے حد خاص موقع کے لئے بنائی گئی۔ ۔ پینٹنگ۔ ۔ اور ایک بے حد خاص دوست کی طرف سے____ اور جیسا کہ پہلی بار دلّی کی نمائش گاہ میں جیتے جاگتے ان دو گھوڑوں کے ملاپ پر، شیشے کے اوپر سے ہاتھ پھیرتے ہوئے میں نے حسین سے پوچھا تھا۔ ۔
’’کیا ان میں سے ایک ہندستان ہے؟‘‘
حسین کی آنکھوں میں چمک تھی۔ ۔
’’اور دوسرا پاکستان۔ ۔ ؟‘‘
اور جواب کے طور پر حسین نے کہا تھا۔ ۔ ’’آہ نہیں، لیکن اب تم قریب قریب صبح جگہ پہنچنے کی کوشش کر رہے ہو۔‘‘
پاکستان جانے سے پہلے حسین کا ایک مختصر دستی خط مجھے ملا تھا۔ ’’آپ کی پینٹنگ چھوڑے جا رہا ہوں۔ آپ کی اطلاع کے لئے عرض ہے، یہ پینٹنگ آپ کو وہیں رفیع مارگ، اسی بلڈنگ میں مل جائے گی جہاں میری تصویروں کی نمائش لگی تھی۔‘‘
اور اس طرح، قارئین، بے حد خاص موقع پر بنائی ئگی وہ پینٹنگ میرے گھر، میرے ڈرائنگ روم کی زینت بن گئی۔ ۔ لیکن یہ کہانی چونکہ انہی وہ گھوڑوں کی مدد سے شروع ہوئی ہے اور اس کے خالق حسین ہیں، اس لئے حسین کے بارے میں کچھ اہم اطلاعات آپ تک پہچانا ضروری ہے۔
تقسیم وطن کے دو ایک سال بعد، جب مار کاٹ میں کچھ کمی آ گئی تھی، ہندستان، پاکستان دو آزاد ملکوں کے طور پر اپنے قدم مضبوطی سے جمانے کی تیاریاں کر رہے تھے۔ ۔ یہ وہی وقت تھا جب نوابوں کے شہر لکھنؤ کی ویران بستیوں میں حسین کا جنم ہوا تھا۔ ویران بستیاں۔ ۔ مجھے اپنے الفاظ پر شرمندگی ہے۔ لٹا تو پورا ملک تھا، بلکہ بٹوارے میں تو دل اور دماغ بھی بٹ گئے تھے۔ ۔ لیکن لکھنؤ کی تہذیب کا خون کچھ زیادہ ہی ہوا تھا____ یہ ایک الگ کہانی ہے کہ لکھنؤ چھوڑ کر حسین کا خاندان پاکستان کیوں آباد ہو گیا____ ظاہر ہے، کچھ تو وجہ رہی ہوگی۔ امین آباد کی انہی سونی گلیوں میں سے ایک میں ڈاکٹر فرقان کے والد، والدہ کا گھر آباد تھا، جن سے بچپن میں حسین کے مراسم تھے۔ ۔ ہاں’پاکستان جانے تک وہ لڑکی، جس کا ذکر کہانی کے شروع میں بار بار آیا ہے، کا دور دور تک وجود نہیں تھا____ فرقان پانچ ساتھ برس، حسین سے بڑے ہوں گے____ اور پاکستان سے دبئی جاتے ہوئے حسین کو اتفاقیہ طور پر ان کا پتہ ملا تھا۔ ۔ لیکن حسین کو کیا خبر تھی کہ اس غیر ملک میں ایک بہت عجیب خبر، ایک بے حد خاص خبر میں بدلنے کے لئے ان کا انتظار کر رہی ہے۔
تو میں اس پینٹنگ کی بات کر رہا تھا، جو میرے ڈرائنگ روم میں آویزاں ہے۔ (اور پینٹنگ کے پہلے گھوڑے کی کہانی آپ حسین کی زبانی آپ سن چکے ہیں۔)
’’دوسرا گھوڑا۔ ۔ ‘‘
ہم ہوٹل جن پتھ کے ’بار‘ میں تھے۔ یہ حسین کے واپس جانے سے دو دن قبل کا واقعہ ہے۔ حسین تین پیک لے چکے تھے اور حقیقتاً، کہنا چاہئے آنکھوں کی تھرکتی پتلیاں، ایک بار پھر کانچ کی گولیاں بن گئی تھیں۔
’’قصوں سے کہیں زیادہ پُراسرار ہوتی ہیں سچی کہانیاں‘‘
’’بچپن میں لکھنؤ چھوڑا۔ پاکستان آباد ہو گیا۔ 80ء کے آس پاس دبئی گیا۔یعنی اچھے کام کی تلاش میں۔ تب عمر ہو گئی یہی کوئی تیس کے آس پاس۔ ۔ ڈاکٹر فرقان کی بہن ٹکرائی۔ ۔ اور میں واپس پاکستان لوٹ گیا‘‘
’’پھر۔ ۔ ‘‘
حسین نے ایک بڑا ساپیگ بنایا۔ اس کی آنکھوں میں نشہ اتر رہا تھا۔
***
یعنی یہ پچھلے سال گرمیوں کا ذکر ہے۔ ۔ سن 2001ء کے اگست ستمبر کا مہینہ۔ ۔ اس خوبصورت حادثہ کے 20-22برس بعد ’پیس مشن‘ سلسلہ میں حسین کو ہندستان کے دوسرے فنکاروں کے ساتھ ویزا ملا تھا۔ ویزا کے مطابق وہ دلّی کے علاوہ اپنے وطن لکھنؤ جاسکتے تھے۔ سیاسی سطح پر ہند و پاک کے تعلقات اس حد تک خراب ہو چکے تھے کہ فنکار اور دانش وروں کا طبقہ ان دنوں لگاتار پاکستان سے پیس مشن پر ہندستان آ رہا تھا____
لیکن۔ کیسا پیس مشن۔ ۔ ؟ جہاں دلوں کو سیاسی دیواروں نے بانٹ رکھا ہو، وہاں شانتی اور امن کے پیغام بھی بے معنی لگنے لگتے ہیں۔ ۔ شاید اسی لئے ان دو گھوڑوں کی محبت بھری ادا کو دیکھ کر میں نے پوچھا تھا۔ ان میں سے ایک ہندستان ہے اور دوسرا۔ ۔ ‘

نمائش گاہ سے باہر نکل کر حسین نے مجھے چونکا دیا تھا۔ ’’یقین کرو گے یہ میری تازہ پینٹنگ ہے۔‘‘
’’یعنی۔ ۔ ‘‘
’’دوبئی میں اس رات جو کینواس ادھورا رہ گیا تھا، وہ لکھنؤ مسعودنیّر کے شہر سے واپسی پر کل رات میں نے پورا کیا۔
’’مسعود نیر؟‘‘
’فرقان کو مذاق مذاق میں، ہم لوگ مسعود نیّر بھی کہتے ہیں۔ (اور جس کے، میڈیکل کی جعلی ڈگری لے کر دبئی آنے کا تذکرہ آپ پہلے سن چکے ہیں)
’’ممکن تھا، میں اس رات جانے کا ارادہ ترک کر چکا ہوتا۔ ممکن تھا، میں نے پینٹنگ بنا لی ہوتی۔ لیکن میرا یقین ہے۔‘‘
حسین نے زور سے میز پر ایک مکّا مارا۔ بار میں بیٹھے دوسرے لوگوں نے پلٹ کر حسین کی طرف دیکھا۔ حسین کی آنکھوں میں دھرے دھیرے مدہوشی چھانے لگی تھی۔
’’شاید میرا پیس مشن پر آنا کامیاب ہو گیا تھا۔ تمہیں یاد ہے نا؟ وہ ہماری آدھی ملاقات تھی جب اس نے کہا تھا، کیا تم اس بدن کو بھول سکو گے۔ ہاں، مجھے اس کی ایک ایک بات یاد رہی اور پورے بیس بائیس برسوں تک____ پاکستان کی آمرانہ فوجی حکومت۔ ۔ سیاسی اتھل پتھل اور زندگی کے ہنگاموں کے دوران کا ہر لمحہ۔ ۔ وہ چہرہ میری آنکھوں کے سامنے رہا۔ ۔ وہ لفظ میرے کانوں میں گونجتے رہے۔ ۔ ‘ یہ پارتھنیان کے آدھے انسان کا بدن یا وینس دی میلو نہیں ہے۔ ۔ میں جینے کی کوشش کرتا تھا اور سمندر کی لہریں اچانک اچھلتی، گرجتی چاروں طرف سے۔ مجھے اپنے قبضہ میں کر لیتی تھیں۔ ۔ میں نے سوچا تھا، اس سے دور جا کر میں جیت جاؤں گا۔ ۔ مگر نہیں۔ شاید 20-22برسوں تک ۔ ۔ اس سے الگ کی ایک لمبی زندگی____ شاید میں سچ مچ ندی تھا اور سمندر کو یہ حق حاصل تھا کہ وہ مجھے اپنے میں ضم کر لے۔ ۔ وہ دور رہ کر بھی سمندر رہی۔ ۔ اور میں اتنے طویل برس لگاتار اسی سمندر میں تیرتا ابھرتا رہا۔ ۔ ہاں پارتھینان کے آدھے گھوڑے والے حصے کو اپنی ناکامی کے طور پر کاغذ کے کینواس پر رنگ دے چکا تھا مگر۔ ۔
’’دوسرا گھوڑا۔ ۔ ؟‘‘
حسین مسکرائے۔ ۔ بوتل خالی پڑی تھی۔ گلاس بھی خالی تھا۔ نیپکن سے ہاتھ پوچھتے ہوئے حسین نے گلاس پلٹ کر ٹیبل کر رکھ دیا۔
’’لکھنؤ گیا تو معلوم ہوا مسعودنیّر دبئی کی پریکٹس چھوڑ کر واپس آگیا ہے۔ (واپس آنے کی وجہ وہی جعلی ڈگری تھی۔ یعنی مسعود نیّر نے زندگی بھر جو کچھ کمایا وہ سب جعلی ڈگری کے عوض تھا)۔ مجھے یہ بھی معلوم ہوا، وہ بیمار رہ رہا ہے۔ میں اس کی عیادت کے لئے گیا اور۔ ۔ لکھنؤ میں امین آباد کی، انہی ویران گلیوں میں سے ایک میں، ذرا سا پوچھ تاچھ کرنے پر اس کا مکان مل گیا۔ میں نے دروازہ پردستک دی اور مسعود نیّر کے دروازہ کھولنے کے انتظار میں کھڑا رہا۔ ۔
کیا آپ۔ ۔ ؟
حسین کے چہرے پر نشہ کا دور تک نام نہیں تھا۔ ۔ کیا آپ جنم جنمانتر کا بندھن یا آواگون پر یقین رکھتے ہیں؟ مجھے میرے لفظ یاد آئے، جو میں نے آخری بار اس کے واپس جاتے قدموں کو روک کر ادا کئے تھے۔ ’’برسوں پہلے تمہارے جنم میں، میں نے اپنا جنم رکھ دیا تھا۔ ۔ ‘‘ دروازہ کھولنے والی وہی تھی۔ ۔ وہ ذرا سی بجھ گئی تھی۔ لیکن 20-22برس کے فاصلے کو بہت زیادہ اس میں محسوس نہیں کیا جاسکتا تھا۔ ۔ اس نے ’ول پال‘ کی پینٹنگ کی طرح بہتے ہوئے پانی اور بہتی ہوئی ہوا کو ہاتھ کے اشارے سے،آدھے میں ہی روک رکھا تھا____ مجھے دیکھ رک اسے ذرا بھی تعجب نہیں تھا۔ یہ سب کچھ ایسا تھا، جیسے میں اپنے ہی گھر میں، صبح آفس سے گیا گیا شام کو واپس گھر لوٹ آیا تھا۔ ہاں، اس کی آنکھیں تھکی تھکی تھیں۔ لیکن ان آنکھوں میں اس نے ایک لمبا انتظار رکھ دیا تھا____ تو اس نے دروازہ کھولا۔ میری طرف دیکھا اور میرا، آخری ملاقات میں بولا گیا، میرا ہی جملہ میرے سامنے رکھ دیا۔ ۔
’’آواگون کو مانتی ہوں۔ ہم پہلے بھی ملے تھے اور ہم پھر مل رہے ہیں۔‘‘
’’کون ہے؟‘‘ اندر سے ڈاکٹر کی آواز آئی تھی۔
’’ہو ہو..ہو..آڑی ترچھی لکیریں. .ہو ہو۔ ۔ آدھی ہنسی کے راستے میں دمہ کے مرض نے اسے بے چین کر دیا تھا۔ ۔ کم بخت کھانسی۔
’’تم لوگ باتیں کرو’۔ ۔ اندر جاتے ہوئے میں نے ڈاکٹر فرقان کا غور سے جائزہ لیا۔ ان برسوں نے اسے ایک بدنما شخصیت میں تبدیل کر دیا تھا۔ پھولا پیٹ۔ بدن پر چڑھی ہوئی کچھ زیادہ چربی۔ آنکھوں پر کالا چشما اور پیشانی پر سجدے کا داغ۔
سامنے آ کر اس نے اپنی ہتھیلیاں میری طرف بڑھائیں۔
’یہ میرے دوسرے گھوڑے کا چہرہ تھا۔‘
***
اور اس کے ٹھیک دو دن بعد ہی، میرے لئے ایک دستی خط اور ایک، دو گھوڑوں کا پورٹریٹ چھوڑ کر حسین پاکستان واپس لوٹ گئے تھے____ خط میں ایک جملہ اور بھی تھا، جسے میں نے جان بوجھ کر کہانی کے حسین اختتام کے لئے آپ سے چھپا کر رکھا تھا____ اصل میں حسین کے آناً فاناً پاکستان بھاگنے کے پیچھے بھی ایک راز تھا اور اسی لئے خط کے آخر میں حسین نے تحریر کیا تھا۔ ۔ ’’مائی ڈیر، وہ لڑکی مجھ سے شادی کے لئے راضی ہو چکی ہے۔ ۔ پاکستان جا کر بہت سے کام مکمل کرنے ہیں۔ میں بہت جلد واپس آؤں گا۔ عقد مسنونہ کے لئے۔ میرے لئے اپنے انتظار کو سنبھال کر رکھنا۔ بس الٹی گنتی شروع کر دو۔ میں پہنچنے ہی والا ہوں۔ تمہارے ملک۔ ۔ اپنے ملک۔ ۔ ‘‘
 

الف عین

لائبریرین
دہشت گردی بنام جنگ اور حسین کی آمد

یہ وہ اُنہی دنوں کا واقعہ ہے جب ای میل سے مجھے حسین کا پیغام ملا تھا۔ میں آ رہا ہوں۔ میں بہت جلد تم سے ملوں گا۔ بائیس برسوں کی مسافت کم نہیں ہوتی یار۔ ۔ اور جب آپ نے محسوس کیا ہو کہ وہ برس تو آپ نے خرچ ہی نہیں کئے۔ دراصل ہم دونوں نے وہ 22برس اپنی اپنی ذات کی تحویل میں رکھ کر، کنجی وقت کے والے کر دی تھی۔ ۔ وقت نے اب جا کر یہ کنجی ہمیں واپس کی ہے۔ یقین جانو، یہ ایک انوکھی شادی ہوگی۔‘‘
***
اور آپ جانئے، یہ انہی دنوں کا واقعہ ہے، جب دنیا کی تقدیر میں دہشت کے نئے باب لکھے جا رہے تھے۔ قارئین ! یہ کہانی کی مجبوری ہے کہ یہ اپنے وقت اور حالت کے تجزیے کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی۔ ۔ ’پرانے ہزارہ‘ کے تاریخی دھماکے ابھی کم بھی نہیں ہوئے تھے کہ نئے ہزارہ کی چیخوں نے انسانیت کی کتاب میں کتنے ہی لہو لہو باب کا اضافہ کر دیا۔ ۔ 11!ستمبر ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور پنٹاگن پر دہشت گردوں کے ہنگامے کے بعد ہندو پاک کے درمیان کشیدگی بڑھتی چلی گئی۔ ۔ پھر 13!دسمبر ہندستانی پارلیامنٹ پر دہشت پسندوں کے حملے کے بعد صورت حال آہستہ آہستہ جنگ میں تبدیل ہوتی چلی گئی۔ ۔ نتیجہ کے طور پر اپنی اپنی سطح پر دونوں ہی ملکوں نے کئی بھیانک قدم اٹھائے____ ہندستان نے نہ صرف اپنا سفارت خانہ بند کیا بلکہ اپنے ہائی کمشنر بھی واپس بلا لئے۔ ۔ فضائیہ اڑانوں پر بھی پابندی لگا دی گئی۔ ۔ ابھی تعلقات کی سرحدوں پر آخری کیل ٹھوکنے کی کارروائی باقی تھی۔
اور وہ کارروائی تھی۔ ۔ ہندستان سے پاکستان جانے والی سمجھوتہ ایکسپریس اور بسوں کو بند کرنے کی کارروائی۔ ۔
قارئین! ان پابندیوں کا وقت وہی تھا، جب حسین، اپنی بائیس برسوں کی گمشدہ محبت کو نیا عنوان دینے کے لئے ہندستان آنے والے تھے۔ ۔ یعنی سمجھوتہ ایکسپریس سے باراتیوں کا قافلہ آنے والا تھا۔
سرحدیں بارود اُگل رہی تھیں۔ واگہہ بارڈر سے دلّی بس اڈے تک گھنا کہرا چھایا ہوا تھا۔ باہر سرد لہر چل رہی تھی۔ میں اپنے ڈرائنگ روم میں تھا۔

اچانک یوں ہوا۔ ۔ پورٹریٹ سے حسین کے دونوں گھوڑے کودے اور میرے سامنے آ کر کھڑے ہو گئے۔ ۔ میں نے غور سے دیکھا۔ یقیناً یہ پارتھینان کے آدھے حصے والے گھوڑے نہیں تھے۔ یہ گھوڑے اپنے حسن میں مکمل تھے۔ لیکن یہ گھوڑے ٹھہرے نہیں، بلکہ پلک جھپکتے ہی ڈرائنگ روم سے اوجھل ہو گئے۔ میں نے ڈرائنگ روم میں، دیوار پر آویزاں پورٹریٹ کی طرف دیکھا۔ ۔ وہاں ایک خالی کینواس پڑا تھا۔ مجھے حسین کے الفاظ شدت سے یاد آ رہے تھے۔
’’سب سے بُری خبر لکھی جانی ابھی باقی ہے۔ سب سے بُری خبر یہ ہوگی کہ محبت کرنے والے نہیں رہیں گے۔ سب سے بُری خبر کا تعلق محبت سے ہوگا دوست۔‘‘
اور میں نے جوابی کارروائی کے طور پر کہا تھا۔ ۔ ’’سب سے بُری خبر آہستہ آہستہ لکھی جائے گی۔ جنگ اور دہشت کے ماحول میں‘‘۔ ۔
***
 

الف عین

لائبریرین



(اپنی بیٹی صحیفہ کے نام____ کوئی نہ جانے____تم کو کیسے کیسے سوچا
میں نے____کیسے کیسے جانا میں نے____!)
 
Top