آثار قدیمہ اور ترپتی کا تیسرا رنگ (میوزک)
صحافیو ں کے لئے یہ دنیا ایک سیپ کی طرح ہے۔ یہ بات کس نے کہی تھی، یاد نہیں۔ لیکن فرصت کے اوقات اس بارے میں سوچتا ہوں تو اپنی ذات سیپ کی ’ڈگی‘ میں بند ’گھونگھے‘ سے زیادہ نہیں لگتی۔ ۔ بس بھاگتے رہو۔ ۔ بھاگتے بھاگتے تھک جاؤ تو اپنی چھوٹی سی دنیا میں بند ہو جاؤ اور آپ جانئے۔ ۔ فری لانس جرنلسٹ کو کیسے کیسے محاذ پر لڑنا ہوتا ہے۔ ۔ اس دن طبیعت ناساز تھی لیکن میگزین کی طرف سے بھارت سنگاپور اتسو، میں شامل ہو کر اس کی رپورٹ تیار کرنی تھی۔ بانسری کا مجھے کبھی شوق نہیں رہا۔ بچپن کے دنوں میں ہونٹوں سے لگایا ہو، اب یاد نہیں۔ لیکن ہری پرساد چورسیامیں میری دلچسپی ضرور تھی۔ ۔ اور یہی دلچسپی مجھے اس اُتسو میں کھینچ کر لے گئی تھی۔ ۔ فکّی آڈیوٹوریم کا مین ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ کسی نے مجھے ذرا سا دھکا دیا اور تیز تیز اندر کی طرف قدم بڑھائے۔ میں غصہ میں کچھ بولنا چاہتا تھا کہ ٹھہر گیا۔
’ترپتی۔‘
***
یہ ترپتی سے میری تیسری ملاقات تھی۔ شو شروع بھی ہوا اور ختم بھی ہو گیا۔ میں برابر اس پر نظر رکھے ہوا تھا۔ وہ ہال میں ہو کر بھی ہال میں نہیں تھی۔ کسی چور جیسی، اپنی سیٹ پر دُبکی ہوئی تھی۔ ۔ بلی کی طرح سہمی ہوئی۔ آہٹ سے ڈر ڈر جانے والی۔ شو ختم ہونے کے بعد میری نظروں نے اس کا تعاقب کیا۔ گیٹ کے پاس ہی میں نے اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا۔
’آہ ترپتی۔ یہاں بھی تم۔‘
’ہاتھ چھوڑو۔ ۔ ‘ اس کے لہجہ میں سختی تھی۔ ۔ میں نے تمہیں دیکھ لیا تھا۔ میں خود تم سے ملنے والی تھی۔
میں نے ہاتھ ہٹا لیا۔ ۔ ’شوکیسا لگا تمہیں؟‘
وہ ابھی بھی کہیں اور تھی۔ بھیڑ سے الگ ہم باہری گیٹ سے دوسری طرف کھڑے ہو گئے۔ نکلنے والی گاڑیوں کا شور انسانی شور سے کہیں زیادہ تھا۔
’بہلانے آئی تھی خود کو۔ مگر بور۔ ۔ انڈین اوشن کے اس ’بینڈ‘ کو دیکھا تم نے۔ ۔ ‘ اس کے لہجے میں کڑواہٹ تھی۔ ۔ فن مر گیا ہے۔ ہم دو سنسکرتیوں کو ملا دینا چاہتے ہیں۔ یہ سب کیا ہے؟ ایک جھوٹا تماشہ۔ تمہیں لکھنا چاہئے۔ بھارتیہ سروں کا یہ کیسا میل ہے۔ جاز، ریگے، راک، پاپ اور بھارتیہ سنسکرتی کا بریک فاسٹ ملا دیا۔ مکسچر تیار۔ کلچرل موٹف کو نئے ماڈرن ڈھانچہ میں ڈال دیا اور نیو جنریشن کے سامنے پروس دیا۔ یہی ’فیوزن ہے۔ ۔ سکڑتی سمٹتی دنیا کو، پاگل بنا دینے والی میوزک کمپنیوں کا دیا ہوا ودیشی تحفہ____
’تمہیں فیوزن سے چڑھ کیوں ہے؟‘
آپ اسے ویسے کا ویسا رہنے کیوں نہیں دیتے، جیسا کہ وہ ہے۔ لیکن نہیں۔بات پروفیشنل منافع کی ہے____ کنزیومر ورلڈ کی ہے____ بازار کی ہے____ آپ وہی تہذیب فروخت کریں گے، جس کی ودیشوں میں مانگ ہے۔‘
اس کی ہرنی جیسی آنکھیں اب بھی سہم سہم کر اِدھر اُدھر دیکھ لیتی تھیں۔ ۔ سنو۔‘
اس نے آہستہ سے میرا ہاتھ تھاما۔ ۔
’مینن ایک ہفتہ کے لئے باہر گئے ہیں____ ساؤتھ____ کل آسکتے ہو۔‘
’کس وقت؟‘
’شام کے وقت۔‘
تیزی سے آتے ہوئے آٹو کو اس نے ہاتھ دے کر روک لیا تھا۔ ۔ مینن غلطی سے گاڑی کی چابی اپنے ساتھ لے گئے۔ آؤ گے نا؟‘
اس نے آہستہ سے میرا ہاتھ دبایا۔ آٹو پر بیٹھی اور آٹو روانہ ہو گیا۔ میرے ہاتھ میں ایک چھوٹے سے کاغذ کی پرچی تھی۔ جس پر اس کا ایڈریس لکھا ہوا تھا۔ لیکن یہ ایڈریس اس نے کب لکھا۔ جب وہ ہال میں تھی۔ یا۔ مجھے دیکھ کر وہ پہلے سے ہی مجھ سے ملنے کامن بنا چکی تھی۔
’ناری گھوررہسیہ مے وستو ہے‘۔ ۔ مسکراتے ہوئے میں نے کاغذ جیب کے حوالے کر دیا۔
***
کال بیل کی پہلی آواز پر ہی دروازہ کھل گیا۔ شاید وہ میرے انتظار میں تھی۔ میرے اندر آتے ہی اس نے ’کھٹاک‘ سے دروازہ بند کر دیا۔
میں نے اِدھر اُدھر دیکھا۔ ترپتی کے چہرے پر اب بھی ہوائیاں اُڑ رہی تھیں۔
’’مینن صاحب کب آئیں گے؟‘‘
’’پتہ نہیں‘‘
میں نے گھر کی سجاوٹ پر ایک نظر ڈالتے ہوئے پوچھا۔ ۔ ’مینن صاحب کرتے کیا ہیں؟
ترپتی بجھ گئی تھی۔ آہستہ سے بولی۔ ان کا تعلق محکمۂ آثار قدیمہ سے ہے۔
ترپتی مینن کی آواز اس بار برف کی طرح سرد تھی۔ ۔ ’وہ ہر بار کچھ نہ کچھ برآمد کر لیتے ہیں۔ محنتی اور سخت____ صرف اور صرف اپنے کام پر یقین رکھنے والے____ لیکن ہر بار۔ ۔ مجھے تعجب ہوتا ہے۔ کچھ نہ کچھ۔ ۔ ‘
’جیسے؟‘
’کوئی۔ ۔ قدیم تہذیب____ قدیم شہر۔ ۔ ‘ ترپتی مینن نے اپنی زلفوں کو جھٹکا دیا____ آنچل اُس کے سیاہ جمپر سے پھسل کر گود میں آ گرا تھا____ لیکن ترپتی نے آنچل کو اٹھانے کی زحمت نہیں کی۔ اُس کی عریاں بانہیں نمایاں تھیں۔ ’صندلی‘ برہنہ بازؤں کے گوشت آہستہ آہستہ چنگاریاں دینے لگے تھے۔ ترپتی کسی سوچ میں ڈوب گئی تھی۔
***
’’وہ ہر بار کچھ نہ کچھ برآمد کر لیتا ہے۔ لیکن مجھے تعجب ہے۔ وہ آج تک مجھے برآمد نہیں کر پایا۔اپنی بیوی کو۔ ۔ ‘
ترپتی نے جیسے اپنے آنسوپوچھے ہوں! دوسرے ہی لمحے اس نے اپنے جذباتی لہجے پر قابو پا لیا تھا۔ ارے میں تو بھول ہی گئی۔
’کیا؟‘
’آپ پہلی بار آئے ہیں۔ اور شاید۔ ۔ ‘ اس کا لہجہ داس تھا۔
’مینن صاحب ہوتے تو۔ ۔ ‘
’میں ہمت تو کُجا، سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔‘
’کیوں؟‘
پتہ نہیں۔ وہ مسکرائی۔ ۔ ’پہلے چائے۔ آپ چائے لیں گے یا کافی۔‘
’کچھ بھی چلے گا۔‘
***
ترپتی کیبن میں گئی تو میں نے اس کے کمرے کا جائزہ لیا۔ دیوار پر دو خوبصورت بچوں کی تصویریں آویزاں تھیں۔ کمرے میں ایسا بہت کچھ تھا، جو ترپتی کے ذوق و شوق کی کہانیاں بیان کر رہا تھا____ دیوار پر ٹنگی تصویروں میں ایک بچہ کم از کم تیرہ سال کا ہوگا۔ دوسرا دس کے آس پاس۔ ترپتی تو اتنی عمر کی نہیں لگتی۔ کیا پتہ۔ساؤتھ کے رتی رواج اور کلچر کے بارے میں ہم ابھی بھی کتنے انجان ہیں۔
ترپتی کافی لے کر آئی تو میں نے دیوار کی تصویر کی طرف اشارہ کیا____
’میرے بچے ہیں۔‘ ترپتی نے سرجھکا لیا۔
تمہارے یا مینن کے؟‘ میری آنکھیں اس کی آنکھوں میں سما گئی تھیں۔
مینن کے۔ میں ان کی دوسری بیوی ہوں۔ پہلی بیوی اتفاقیہ طور پر۔ ۔
اس کا گلا بھر آیا تھا۔ ۔
’تم نے کہا تھا، مینن سے تمہاری لو میرج ہوئی تھی۔‘
وہ سامنے بیٹھ گئی۔ کافی آہستہ آہستہ سڑکتی رہی۔ ۔ ہاں لومیرج کی تھی۔ کسی کسی لمحے کا بوجھ ساری زندگی ڈھونا پڑتا ہے۔ انہی دنوں مینن کی پتنی کا دیہانت ہوا تھا۔ وہ گھر آئے تھے۔بابوجی سے ملنے۔ اُن دنوں۔ ۔ بزنس میں مسلسل گھاٹے کی وجہ سے سارا گھر پریشان چل رہا تھا۔بابو جی نے مینن کے بارے میں بتایا۔ یہ بھی، کہ وہ آثار قدیمہ میں ہیں۔ سامنے بیٹھا ہوا آدمی مجھے ایسا ہی کچھ لگ رہا تھا۔ ۔ کسی کھنڈر یا قدیم تہذیب سے نکلا ہوا۔ ۔ بس میں آہستہ سے مسکرادی۔‘
’پھر سودا ہو گیا۔ ۔ ؟‘
’ہاں۔ تم اسے سودا بھی کہہ سکتے ہو۔ ۔ گھر والوں کو صرف میری فکر تھی۔ میرا کیا ہوگا۔ میں دودھ سے بالائی کی طرح ہٹا دی گئی تو سارا نقصان پورا ہو گیا۔ میں مینن کے ساتھ خوش تھی مگر۔ ۔ ‘
کافی کا پیالہ اس نے میز پر رکھ دیا۔ میں نے اسے بغور دیکھا۔ اس نے ہلکے نیلے رنگ کی نائیٹی پہن نہیں رکھی تھی۔ ۔ نائیٹی کے ’وی‘شیپ سے گولائیوں کی پہاڑی جیسی ڈھلانیں ایک بے حد خوبصورت منظر کی عکاسی کر رہی تھیں۔ نیلے پربتوں کے درمیان ایک ہلکی سی کھائی برانگیختہ کرنے والی تھی۔ ۔ اس نے نظر جھکا لیا تھا۔
’تحفہ میں دو بچے ملے تھے۔ ان بچوں کی اپنی زندگی تھی۔ ۔ اس زندگی میں، میں نہیں تھی۔ میں ایک نقلی عورت بن کر اس زندگی میں داخل ہونے کی کوشش تو کرتی رہی____ شاید مینن کو خوش کرنے کے لئے۔ مگر۔ ۔ بچوں نے صاف کہہ دیا۔
’’ماں بننے کی جستجو میں دوسری عورت ایک فاحشہ بن جاتی ہے۔ فاحشہ۔ ۔ ‘‘
مجھے وہ لمحہ یاد ہے۔ دن تاریخ یاد ہے۔ ۔ چودہ فروری ویلنٹائن ڈے____ رات سات بج کر بیس منٹ۔ ۔ فاحشہ۔ ۔ بچوں کے لفظ چہرے پر آ کر جھّریاں بن گئے____ پل میں خوشیوں کے انگور سوکھ کر کشمش ہو گئے____ مجھے لگا، بچوں نے ریوالور کی تمام گولیاں میرے بدن میں اتار دی ہیں۔ میں چیختی ہوئی غصّے سے پلٹی تو وہیں کنارے میز پر____ جلتے ہوئے لیمپ کی روشنی میں مینن بہت سے کوڑے کباڑ کو تحسین آمیز نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ ۔
’تم نے سنا۔‘ میں روتی چیختی ہوئی زور سے گرجی تھی۔
’ہاں سنا۔ مگر یہ دیکھو۔ ۔ یہ۔ ۔ ، اس کے چہرے پر ذرا بھی شکن نہیں تھی۔ ۔ میں سانسوں کے رتھ پر سوار تھی۔ ۔ جیسے لکڑی کے ’سانکچے‘ سے____ لحاف میں روئی بھرنے والے____ روئی دُھنکتے ہیں۔ میں سانسیں ’دھنک‘ رہی تھی۔ ۔ مینن کہہ رہا تھا۔ یہ دیکھو۔ ۔ ‘
میں دیکھ رہی تھی۔ میز پر کباڑ پڑا تھا۔ ۔ ہاں کباڑ۔ جیسے کیچڑ یا گندہ نالا صاف کرنے والے پرانی ٹوٹی پھوٹی اشیاء کو دھو پوچھ کر رکھ لیتے ہیں۔ ۔
میں سانسیں ’دھن‘ رہی تھی۔ ۔ ’’ان بچوں نے مجھے۔ ۔ ‘‘
’رنڈی کہنے سے کوئی رنڈی نہیں ہو جاتا۔ ۔ سنا ہے۔ ۔ ‘ اس کا چہرہ تاثر سے عاری تھا۔ میں نے ایک تیز چیخ ماری۔ ۔ غصّے میں میز الٹ دی۔ دوسرے ہی لمحے مینن کے لات جوتوں کی زد میں تھی۔ وہ مجھے ویسے ہی دُھن رہا تھا جیسے لحاف میں پرانی روئی بھرنے والے۔ ۔ وہ مجھ پر سڑی گلی گالیوں کی بوچھار کر رہا تھا۔ بچے مشینی انداز میں، پڑھائی کرنے میں لگے تھے۔
مینن چیخ رہا تھا۔ ۔ ’جاہل عورت۔ پتہ ہے تم نے کیا کر دیا____ تہذیب۔ قدیم تہذیب۔ ۔ ارے آرکیالوجیکل سروے سے ملی تھی یہ نادر چیزیں____ بدقسمت عورت۔ برسوں کی کھوج کے بعد تو یہ خزانہ ملا تھا۔ ہم جس کے لئے مدتوں بھٹکتے رہے ہیں۔ تال سے پاتال تک۔ ۔ اسٹوپڈ۔ ۔ ڈاٹر آف سوائن۔ بچ۔ ۔ اس نے مجھے دیوار کی طرف ڈھکیلا۔ ۔ شکل دیکھی ہے۔ ۔ بچے ٹھیک کہتے ہیں۔ بچے کوئی غلط نہیں کہتے۔ ۔ ‘‘
’میں فاحشہ ہوں‘۔ ۔ ترپتی، اچانک میرے سامنے آ کر تن گئی تھی____ اتنے قریب کہ میں سانسوں کی سرگم سننے لگا تھا۔ ۔ میں فاحشہ ہوں۔ ۔ میرے بدن کے ’تاروں‘ سے روئی کے گولے بکھرتے چلے گئے۔ اس نے نائیٹی ہوا میں اڑا دی۔ ۔ میں نے اسے مضبوط بانہوں کے شکنجے میں لے لیا۔
’روئی دھننے والے‘ کی آواز آہستہ آہستہ مدھم مدھم ہوتی ہوئی ایک دم سے کھو گئی____ وہ اٹھی۔ نائیٹی پہنی۔ دل کھول کر مسکرائی۔ میرے گالوں کو پکڑ کر زور سے بوسہ لیا۔ آہستہ سے بولی____ تھینک یو۔ واش بیسن پر پانی کے دو چار چھینٹے چہرے پر مارے۔ پھر مسکراتی ہوئی سامنے آ کر بیٹھ گئی۔ ۔
میں نے آہستہ سے پوچھا۔
’وہ بچوں کو بھی لے گیا۔ ۔ ‘؟
’ہاں۔ میرے پاس اکیلے رہنے سے وہ اور بچے دونوں ہی خود کو ان سیکورفیل کرتے ہیں۔‘
’شاید اسی لئے تمہاری آتما بھٹکتی رہتی ہے۔کبھی میگزین کا دفتر۔ کبھی آرٹ گیلری، کبھی میوزک ورکشاپ____‘
میں ایک آترپت آتما ہوں۔ وہ ہنس رہی تھی۔ ۔ شاید اسی لئے ماں باپ نے مذاق کے طور پر میرا نام ترپتی رکھ دیا۔
میں نے کپڑے پہن نہیں لئے تھے____ وہ اچانک اٹھی۔ بے اختیار ہو کر ایک بار پھر میرے جسم سے لگ گئی۔ وہ رو رہی تھی۔
’ترپتی۔ ۔ ترپتی‘۔ ۔ میرے ہاتھ بارش بن گئے تھے۔ ۔ اُس کے جسم کے لئے۔ ۔ اس کے تھر تھراتے مچلتے جسم کے لئے۔ وہ ہر جگہ برس رہے تھے۔بوسوں کی بارش کر رہے تھے۔ ۔ پھر جیسے بجلی تیزی سے گرجی۔ اسے جیسے غلطی کا احساس ہوا ہو۔ وہ تیزی سے پیچھے ہٹی۔ میری طرف دیکھ کر ہنسی۔ ۔ پھر بولی۔ ۔
’’آخر اسے ایک تہذیب مل گئی۔ جس کی کھوج میں وہ برسوں سے لگا تھا۔ ایک قدیم تہذیب۔ ۔ یہ اس ڈراونے ویلٹائن ڈے کے چوتھے دن بعد کا قصہ ہے۔ مسوری، ہماچل وغیرہ میں برف گری تھی شاید۔ سردی اچانک تیز ہو گئی تھی۔ ۔ وہ رات کے 3بجے آیا۔ میں سو گئی تھی۔ عام طور پر جب میں اکیلے ہوتی ہوں۔ بیڈروم میں ____تو برائے نام لباس پہنتی ہوں۔ ۔ وہ مجھے اٹھا رہا تھا۔ جانوروں کی طرح۔ ۔
’’ہو ہو.. اٹھو..اٹھو۔‘‘
میں نے سمجھا، ایک جانور پیاسا ہے۔ عام طور پر وہ اسی طرح، ایک بے حس جانور کی طرح اپنی بھوک مٹاتا تھا۔ رات کے تین بجے اُٹھا کر اس نے مجھے صوفہ پر بیٹھا دیا۔ وہ خوشی سے جھوم رہا تھا۔ ’جھومر‘ کی طرح مسکراہٹ اس کے پور پور سے روشنی دے رہی تھی۔
’بولو۔ اُٹھایا کیوں۔ میں گہری نیند میں تھی۔‘‘
’مل گیا۔ یوریکا۔ ’’اسے میرے لفظوں کی، نیند کی فکر نہیں تھی۔ ۔ ’’تمہیں یاد ہے۔ ۔ وہ کمرے میں ٹہل رہا تھا____ میں نے بتایا تھا نا، 1991ء کے آس پاس جرمن سیاحوں کو آلپس کی پہاڑیوں پر ٹہلتے ہوئے انسانی اعضاء ملے تھے۔ یاد ہے؟ وہ بیسویں صدی کی سب سے عظیم دریافت تھی____ سب سے عظیم دریافت۔ گیا رہ برس بعد____ اس کے ٹھیک گیا رہ برس بعد۔ آہ تم یقین نہیں کرو گی۔ مگر ہم دنیا بدل دیں گے۔ تاریخ نئے سرے سے لکھی جائے گی۔ میں ان کچھ لوگوں میں سے ایک تھا____ گجرات کے ساحل سے 30کلو میٹر دور کھمباٹ کی کھاڑی میں ایک عظیم خزانہ ہاتھ آگیا ہے۔ سونوفوٹو گرافی۔ تمہیں یاد ہے نا، چار دن پہلے۔ ۔
’جلتے ہوئے گجرات میں ،عظیم خزانہ۔ ۔ ‘
’ہاں‘ مجھے یاد ہے‘۔ ۔ میرے لہجہ میں ناگواری تھی۔ ۔ چار دن پہلے، ویلنٹائن ڈے کے دن جو کچھ ہوا میں اسے کبھی بھول نہیں سکتی۔‘
’بھولنا بھی نہیں چاہئے۔ ۔ ‘مینن کے لہجہ میں کہیں بھی دکھ یا اداسی کی جھلک نہیں تھی۔ ’جھومر‘ جیسے اندھیرے میں سوئچ کی حرکت سے روشنی کی طرح بکھر گیا تھا۔ ۔ ’سونو فوٹوگرافی سے نکلی تصویریں جب لیب سے باہر آئیں تو ہمیں اچانک احساس ہوا____ سمندر میں 40میٹر نیچے دفن قدیم ترین تہذیب اچانک رنگین ستاروں کی طرح ہماری قسمت سے جوڑ دی گئی ہو۔ ۔ ایک قدیم شہر، موہن جداڑو کی طرح رہائشی مکانات____ سیڑھیوں کی طرح نیچے اترتے پوکھر___ تالاب۔
’’اور سب کچھ اُسی گجرات کے ساحلی علاقے میں۔ ۔ ‘‘
میری آنکھیں نیند سے بوجھل ہو رہی تھیں۔میں دیواروں کا خیال رکھتے ہوئے چیخی۔ ’’میں بھی ایک عظیم پوکھر ہوں۔ ایک عظیم تالاب ہوں اور انتہائی قدیم۔تمہیں اس عظیم پوکھر میں بہتے پانیوں کے اشارے کیوں نہیں ملتے۔‘؟
اس نے میری آواز کو نظرانداز کیا۔ ۔ وہ بتا رہا تھا۔ تہذیبیں کہیں جاتی نہیں ہیں۔ وقت کے ڈائنا سور انتہائی خاموشی سے انہیں نگل جاتے ہیں____ تہذیبیں ’ممی‘ سے باہر نکلنے کا انتظار کرتی رہتی ہیں۔ آہ، تم نہیں جانتی۔ ۔ میں کس قدر خوش ہوں۔ سمندر کے گہرے پانی میں 90کلو میٹر کے دائرے تک، اس قدیم تہذیب کی نشانیاں پھیلی ہوئی ہیں____ قدیم شہر____ ایک پورا شہر ندی میں سما گیا____ سندھو گھاٹی کی تہذیب کی طرح۔ یہ شہر اسی طرح کا ہے۔ جیسے ہڑپا کے برامدات میں پایا گیا تھا____مٹی کی بنی ہوئی نالیاں۔کچی سڑکیں۔ چھوٹے چھوٹے مٹی کے گھر۔ پتھر کے تراشے اوزار۔ گہنے____ مٹی کے ٹوٹے پھوٹے برتن____ جواہرات____ ہاتھی کے دانت اور۔ ۔ وہ مسکرا رہا تھا۔ سب کچھ یعنی 7500 ق۔م۔ یعنی قبل مسیح کا۔
’یہ سب مجھے کیوں سنا رہے ہو‘؟
وہ آگے بڑھا۔ میرے جسم پر یوں بھی کپڑے اس وقت برائے نام تھے۔ ۔ ’اس نے باقی بچے کپڑے بھی جسم سے الگ کر دیئے۔ ۔ اس لئے کہ۔ ۔ ’’میری آثار قدیمہ۔ ۔ تمہیں اب انہیں کھنڈروں میں بیٹھانا چاہتا ہوں۔ ۔ لیکن اس سے پہلے تمہارے ان کھنڈروں پر ریسرچ کرنا چاہتا ہوں۔ ۔ اس نے ایک بھدّی گالی دی۔ مجھے بستر تک کھینچنا چاہا اور شاید۔ ۔ ‘‘
وہ ہانپ رہی تھی۔ ۔ یہ اس کے ساتھ مسلسل، گزر رہے لمحوں کا جبر تھا کہ میں نے الٹا ہاتھ اس کے گال پر جڑ دیا۔
’کتیا۔ ۔ ‘ وہ ہانپ رہا تھا۔ ۔ ’’ایک بہت قدیم تہذیب برآمد کرنے کے بعد مجھے تمہارے ٹوٹے پھوٹے کھنڈر کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘
اس نے مجھے دھکا دیا اور خود کو بستر پر سونے کے لئے ڈال دیا____ میں زمین کے تنہا گوشہ میں دیر تک اپنے آنسوؤں کا شکار ہوتی رہی۔ ۔
***
’’پھر کیا ہوا، اس نے تمہیں ڈیورس دے دیا؟‘‘
’نہیں۔‘ وہ مسکرانے کی کوشش کر رہی تھی۔ ۔ ایسے لوگوں کو جانتی ہوں۔ جان گئی ہوں۔ ایسے لوگ، ڈرپوک ہوتے ہیں۔ زندگی کے بارے میں بہت دور تک دھوپ اور سایہ دیکھنے والے۔ ۔ ایسے لوگ قدم قدم پر ان سیکوریٹی کے مارے ہوتے ہیں____ مینن بھی ایسے ہی جذبہ سے دو چار تھا____ میرے بعد۔ ۔ ؟ اپنی، جسمانی اور بچوں کی۔ ۔ ترپتی مینن میری طرف مڑ گئی تھی۔ تمہیں کیا لگتا ہے ایسے لوگ جیت سکتے ہیں؟ نہیں۔ ۔ کسی ایک لمحے کا____ بولا گیا سچ ان کی اپنی ذات پر بھاری پڑتا ہے۔ دوسرے دن وہ ایک سدھا، ہوا بلڈاگ بن گیا تھا____ میرے قدموں پر لوٹتا ہوا۔ بچے اسکول جا چکے تھے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے۔
ترپتی آگے بڑھ کر کھڑکی کے پٹ کھول رہی تھی۔ باہر رات کی سیاہی مکمل طور پر چھا چکی تھی۔ ٹھنڈ بڑھ گئی تھی۔ تیز ہوا کے جھونکے کھڑکی کھولتے ہی اندر ہمارے جسموں میں داخل ہو گئے۔
’’ہوا تیز چل رہی ہے، نہیں؟‘‘
’ہاں۔‘
باہر کہرے کے ’آبشار‘ گر رہے تھے۔ وہ کھڑکی کے پاس اپنے منہ کو لے گئی۔ پھر میری طرف پلٹی۔ ہلکی سانس چھوڑی۔ چہرے کو اپنی ہتھیلیوں سے خشک کیا۔
’’کہرے کا احساس چہرے پر کیسا لگتا ہے۔ آں؟ جیسے ایک نم سی ٹھنڈی، روئی آپ کے چہرے پر رکھ دی گئی ہے۔ ۔ ہے نا؟‘‘
وہ پھر مسکرائی____ میں کہاں تھی۔ ہاں، یاد آیا۔ وہ ایک سدھے ہوئے بلڈاگ کی طرح اپنے نتھنے، میرے جسم پر رگڑ رہا تھا۔ کتّا____ مجھے ابکائی آ رہی تھی۔ تیز نفرت محسوس ہو رہی تھی۔ وہ سیکس کے بخار میں جل رہا تھا۔
’’پتہ نہیں کیا ہو جاتا ہے مجھے۔ کل رات۔ ۔ معاف کر دو ترپتی‘۔ ۔ اس کے رکھڑے، بن ماس جیسے ہاتھ میرے جسم پر مچل رہے تھے۔ وہ میرے کپڑے کھول رہا تھا۔ میں نے کوئی احتجاج نہیں کیا۔ میمنے، کی طرح معصومیت سے، اپنے غصّے کو دبائے اس کے جانور نما، پنجوں کا کھیل دیکھتی رہی۔ ۔ جب وہ میرے کپڑے اتار چکا اور کسی جنگلی بھیڑیے کی طرح اپنی ہوس پوری کرنے کے لئے تیار تھا____ ایک دم اسی وقت، میں کسی جنگلی بلی کی طرح غرائی____ دھب سے زمین پر کودی____ غصّے میں اسے پرے ڈھکیلا____ کپڑے پہنے اور چلائی۔
یو،سن آف بلڈی سوائن۔تمہاری ہمت کیسے ہوئی۔ ۔ ؟
وہ جل رہا تھا۔ وہ اپنے بدن کی آگ میں جل رہا تھا۔ وہ گڑگڑا رہا تھا۔وہ اپنے بھوکے بدن کی دہائیاں دے رہا تھا۔ میں کسی فاتح کی طرح مسکرائی۔ اس بار اسے سیراب کرنے کے لئے، میں نے سکندر بادشاہ کی طرح فتح کا سہرا اپنے سر لکھ لیا تھا۔ ۔
ترپتی نے کھڑکی بند کر دی۔ ۔ ’چلو، اس حادثے کو بھی بھول گئی میں۔ ۔ بھولنا پڑتا ہے۔ وہ چلتی ہوئی میرے قریب آئی۔ میری جانگوں پر بیٹھ گئی۔
’سنو۔ تمہارے یہاں کون کون ہیں؟‘‘
’ملو گی؟‘
’ہاں۔ ملنا چاہوں گی۔‘
’مینن آ گئے تو؟‘
’اب میں اسے ڈرانا چاہتی ہوں____ وہ میرے شرٹ کے بٹن سے کھیل رہی تھی۔ کھیلتے کھیلتے خود بولی۔ ۔
’ایک بیوی ہوگی!؟‘
’ہاں‘
’اسے بتاؤ گے کہ تم سے ایک ندی کی لہر ٹکرائی تھی____‘
’نہیں‘
’ڈرتے ہو۔‘
’ڈرنا پڑتا ہے۔ بیویاں صرف ایک سمندر۔ ۔ سمندر کی صرف ایک لہر سے واقف ہوتی ہیں____ دوسرے لفظوں میں کہوں تو وہ ساری لہروں پر خود ہی حکومت کرنا چاہتی ہیں۔‘
وہ ہنس رہی تھی۔ ۔ اور کون ہے۔
’ایک بیٹا‘
’کتنے برس کا؟‘
’آٹھ برس کا‘
اور۔ ۔ ‘
میں نے اسے جانگھوں سے پرے کیا۔ شریانوں میں گرم گرم طوفان کی آمد سے خود کو بچانا چاہتا تھا۔
’تم نے بتایا نہیں۔ اور کون ہے۔ ۔ ‘
’ایک بیٹی ہے۔ مگر۔ ۔ ‘
’مگر۔ ۔ ؟‘
’نہیں۔ وہ ہے نہیں۔ میرا مطلب ہے، وہ بن رہی ہے۔ ۔ بس وہ بن رہی ہے اور ایک دن یقین جانو وہ پوری طرح بن جائے گی۔‘
’اس نے چونک کر تعجب سے مجھے دیکھا‘
’پہلیاں مت بجھاؤ‘
’دراصل۔ ۔ میں نے اپنا جملہ مکمل کیا۔ ۔ وہ انکیوبیٹر میں ہے اور مسلسل بننے کے عمل میں ہے۔ ۔ ‘
’کیا مجھے ملواؤ گے؟‘
ترپتی نے اپنا بدن ایک بار پھر میرے بدن پر ڈال دیا تھا____
***
لفٹ پانچویں فلور پر رک گئی تھی۔ یہ اسپتال کا نرسری وارڈ تھا۔ فل ائیرکنڈیشنڈ____ باہر ایک لمبی راہداری چلی گئی تھی۔ ترپتی نے آہستہ سے میرا ہاتھ تھام لیا____ شیشے کے بنے دروازوں سے گزرتے ہوئے ہم ’ماترتوسدن‘ کے بورڈ کے آگے ٹھہر گئے____
’یہاں جوتے اتارنے ہوں گے۔‘
ترپتی کے پاؤں جاپانیوں اور چینی عورتوں کی طرح چھوٹے اور ملائم تھے۔ گیٹ کیپر نے دروازہ کھول دیا۔ دروازے کے اندر شیشے کی ایک عجیب سی دنیا تھی۔ ترپتی حیرت سے شیشے کے اس پار دیکھ رہی تھی۔ شیشے کے اس پار بھی، شیشے کے کتنے ہی چھوٹے چھوٹے گھروندے بنے ہوئے تھے____ ایسے ہر گھروندے میں نیلے بلب جل رہے تھے۔
’نیل کہاں ہے؟ ترپتی کی آنکھوں میں تجسس تھا۔‘
وہاں ان گنت انکیوبیٹرس تھے۔ ترپتی کی انگلیاں تیر رہی تھیں۔ وہاں۔ ۔
’نہیں‘،’نہیں؟‘
’وہ۔ ۔ ‘
’وہ بھی نہیں۔ ۔ ‘
’اچھا وہ۔ ۔ دائیں طرف۔ ۔ ‘
’نہیں۔ ۔ ‘
’پھر نیل کہاں ہے؟‘
’نیل وہ رہی‘
’مگر۔ وہ انکیوبیٹر تو خالی ہے۔ ۔ ترپتی چونک گئی تھی۔
’خالی نہیں ہے۔ غور سے دیکھو۔‘
’خالی ہے!، ترپتی کا لہجہ اُداسی سے پُر تھا۔
’ہے نا۔ ۔ میں نے کہا تھا۔ وہ بن رہی ہے____‘ میں نے ترپتی کا ہاتھ زور سے تھام لیا تھا۔ ۔ یاد ہے ترپتی۔ میں نے کہا تھا، عورت ہر بار بننے کے عمل میں ہوتی ہے۔ ایک بے چین آتما۔ ۔ ایک یونانی دنت کتھا میں پڑھا تھا____ عورت کی جون میں پرویش سے پہلے، آتما دھرتی کی سوپریکر مائیں پوری کرتی ہے۔ تمہاری آتما بھی بے چین تھی۔ کبھی ساہتیہ۔ کبھی آرٹ اور کبھی۔ ۔ ‘
ترپتی میری طرف تیزی سے مڑی۔ ہنستے ہوئی بولی۔ ۔
’سنو۔ اس انکیوبیٹر میں مینن کو ڈال دوں؟‘
’نہیں۔‘
میرا لہجہ نپا تُلا تھا۔ ۔ ’سب سے پہلے ابھی تمہیں اس انکیوبیٹر سے باہر نکلنا ہے‘
میں نے اس کی طرف نہیں دیکھا۔ ۔ اس کا ہاتھ تھام کر باہر آگیا۔ ۔ لفٹ کے بٹن پر انگلیاں رکھتے ہوئے بھی میں نے اس کی طرف پلٹ کر نہیں دیکھا____
ممکن ہے وہ انکیوبیٹر میں رہ گئی ہو۔ ۔ یا ممکن ہے، شوہر کے آثارقدیمہ میں بھٹک رہی ہو!
***