الف عین
لائبریرین
(1)
’نہیں انجلی۔ یہاں نہیں۔ یہاں میں پڑھ رہا ہوں، نا۔ یہاں سے جاؤ____‘
’لیکن کیوں پاپا۔‘
’بس۔ میں نے کہہ دیا نا۔ جاؤ۔ کبھی کبھی سن بھی لیا کرو____‘
’پاپا۔ مجھے یہاں اچھا لگ رہا ہے۔‘
’نہیں۔ میں نے کہہ دیا نا۔ میں کچھ ضروری کام کر رہا ہوں۔ سنا نہیں تم نے۔‘
’پاssپاss‘ آواز میں ہلکی سی خفگی تھی____ تمہارے پاس اچھا لگتا ہے مجھے۔‘
***
ہّمت جٹاتا ہوں۔ آہستہ آہستہ چلتے ہوئے اس کے قریب آتا ہوں۔ بن ماں کی بچی۔ دل میں بہت سارا پیار امڈتا ہے____اندر کے غصّے کو اس کے معصوم چہرے پر ہولے، سے رکھ دیتا ہوں____ جیسے ’دیا سلائی‘ کے ننھے سے شعلے پر موم کو۔ ۔ پتہ نہیں کتنا پگھلا ہوں____؟ یا شاید پگھل گیا ہوں____ اس کے سر پر آہستہ آہستہ انگلیاں پھیرتا ہوں۔
’میں تمہارے سامنے پڑھتی ہوں تو اس طرح ناراض کیوں ہوتے ہو؟‘
انجلی ’ہپّا‘ ہے۔ ۔ ’جاؤ نہیں بولتی۔‘
’اچھا۔ ناراض نہیں ہو،نا____‘ میں ہنس دیتا ہوں۔
’ہپّا‘ انجلی خوش ہو کر بچوں کی طرح مجھ پر بچھنا چاہتی ہے۔ میں پیچھے ہٹتا ہوں۔ اس کے ہاتھوں کو____ نہیں۔ اس کے جسم کو____ خود سے دور رکھنا چاہتا ہوں۔
’نہیں۔ نہیں انجلی۔ ٹھیک ہے۔ ۔ بچپنا نہیں۔ اب بڑی ہو رہی ہو تم۔ ۔ سمجھ گئی۔ ۔ بڑی ہو رہی ہو۔‘
’’ہونہہ۔ پپاّ کے سامنے بڑے، بچے ہی رہتے ہیں۔‘
’لیکن تم۔ ۔ ‘، بچی ہو____کہتے کہتے ٹھہر جاتا ہوں۔انجلی حیرانی سے میرا منہ تکتی ہے۔
’تم کیا پاپا۔ ۔ ‘
مسکرانے کی کوشش کرتا ہوں____ ’تم نہیں سمجھو گی، انجلی۔
انجلی منہ بچکاتی ہے____ ’میں اب بڑی ہو گئی ہوں۔ میں اب سب سمجھتی ہوں پاپا۔ کبھی کبھی تم سمجھ میں نہیں آتے پاپا۔ لو، میں تمہارے پاس سے جا رہی ہوں۔ لیکن سنو، اکیلے کمرے میں مجھے ڈر لگتا ہے۔ اب میں تمہارے پاس ہی سویا کروں گی، پاپا____ تمہارے ہی کمرے میں۔‘
’میرے کمرے میں؟‘
’کیوں، سب بچے سوتے ہیں۔‘
’نہیں۔ میں نے اس لئے پوچھا کہ میں رات بھر لائٹ جلا کر کچھ نہ کچھ آفس کا کام کرتا رہتا ہوں۔‘
’مجھے لائٹ ڈسٹرب نہیں کرے گی پاپا____‘ انجلی مسکرائی ہے۔‘ کل سے یہیں سوجاؤں؟‘
’نہیں۔ بس کہہ دیا نا۔ اب تم بڑی ہو رہی ہو۔ اس سے زیادہ سوال نہیں۔‘
انجلی کے معصوم چہرے پر سوالوں کی سلوٹیں بکھر جاتی ہیں۔ میں جاتے جاتے اس کے الفاظ میں دکھ محسوس کر لیتا ہوں۔
’کوئی بات نہیں پاپا‘
انجلی اپنے کمرے میں واپس لوٹ گئی ہے۔ اس کی سلوٹوں بھری سوالیہ آنکھیں اب بھی کمرے میں موجود ہیں۔ یہ آنکھیں مجھے گھور رہی ہیں۔
’انجلی کو کیوں بھیج دیا؟
میز پر آفس کی کچھ بے حد ضروری فائلیں بکھری پڑی ہیں۔ لیکن ابھی، اس لمحے مجھے ان فائیلوں کی قطعی ضرورت نہیں ہے۔
’انجلی کیوں گئی؟ میں نے اسے اپنے کمرے میں کیوں بھیج دیا۔؟
پتہ نہیں____ لیکن شاید یہ میرے اندر کا سناٹا ہے، جو مجھ سے لڑ رہا ہے۔ کیا ہو جاتا ہے تمہیں۔ کیا ہو جاتا ہے تمہیں۔ اچھے خاصے آدمی سے اچانک ’لڑکی‘ کے باپ کیوں بن جاتے ہو۔ بن جاتے ہو____ چلو کوئی بات نہیں۔ لیکن اپنی ہی لڑکی سے ڈرنے کیوں لگتے ہو۔ ۔
ایک بزدل آدمی جرح کرتا ہے____ ’نہیں۔ جھوٹ ہے۔ ڈروں گا کیوں؟‘
سناٹا ہنستا ہے____ ’دیکھو‘ اپنے آپ کو غور سے دیکھو۔ تم ڈر گئے تھے۔ کیونکہ۔ ۔ ‘ اندر کا سناٹا ایک انتہائی فحش سا جملہ اچھا لتا ہے____ تم اسے عموماً ایسے لباسوں میں نہیں دیکھ پاتے۔ ہے نا sss یار، وہ کانونٹ میں پڑھتی ہے۔‘ سناٹا قہقہہ لگاتا ہے۔ کانونٹ یا نئے زمانہ کی لڑکیاں اب آنچل یا اوڑھنی کا استعمال نہیں کرتیں۔ وہ اپنے بدن پر کپڑوں کا بہت زیادہ بوجھ ڈالنا نہیں چاہتیں۔ تو کیا ہوا۔ وہ تمہاری بیٹی ہے۔‘
’بس ڈر جاتا ہوں۔‘
’لیکن کیوں؟‘
لمبی لمبی سانس لیتا ہوں۔ کہہ نہیں سکتا۔
’بیٹی میں لڑکی تو نہیں دیکھنے لگتے؟‘
اندر کا سناٹا دیر تک ہنستا رہتا ہے۔
’نہیں انجلی۔ یہاں نہیں۔ یہاں میں پڑھ رہا ہوں، نا۔ یہاں سے جاؤ____‘
’لیکن کیوں پاپا۔‘
’بس۔ میں نے کہہ دیا نا۔ جاؤ۔ کبھی کبھی سن بھی لیا کرو____‘
’پاپا۔ مجھے یہاں اچھا لگ رہا ہے۔‘
’نہیں۔ میں نے کہہ دیا نا۔ میں کچھ ضروری کام کر رہا ہوں۔ سنا نہیں تم نے۔‘
’پاssپاss‘ آواز میں ہلکی سی خفگی تھی____ تمہارے پاس اچھا لگتا ہے مجھے۔‘
***
ہّمت جٹاتا ہوں۔ آہستہ آہستہ چلتے ہوئے اس کے قریب آتا ہوں۔ بن ماں کی بچی۔ دل میں بہت سارا پیار امڈتا ہے____اندر کے غصّے کو اس کے معصوم چہرے پر ہولے، سے رکھ دیتا ہوں____ جیسے ’دیا سلائی‘ کے ننھے سے شعلے پر موم کو۔ ۔ پتہ نہیں کتنا پگھلا ہوں____؟ یا شاید پگھل گیا ہوں____ اس کے سر پر آہستہ آہستہ انگلیاں پھیرتا ہوں۔
’میں تمہارے سامنے پڑھتی ہوں تو اس طرح ناراض کیوں ہوتے ہو؟‘
انجلی ’ہپّا‘ ہے۔ ۔ ’جاؤ نہیں بولتی۔‘
’اچھا۔ ناراض نہیں ہو،نا____‘ میں ہنس دیتا ہوں۔
’ہپّا‘ انجلی خوش ہو کر بچوں کی طرح مجھ پر بچھنا چاہتی ہے۔ میں پیچھے ہٹتا ہوں۔ اس کے ہاتھوں کو____ نہیں۔ اس کے جسم کو____ خود سے دور رکھنا چاہتا ہوں۔
’نہیں۔ نہیں انجلی۔ ٹھیک ہے۔ ۔ بچپنا نہیں۔ اب بڑی ہو رہی ہو تم۔ ۔ سمجھ گئی۔ ۔ بڑی ہو رہی ہو۔‘
’’ہونہہ۔ پپاّ کے سامنے بڑے، بچے ہی رہتے ہیں۔‘
’لیکن تم۔ ۔ ‘، بچی ہو____کہتے کہتے ٹھہر جاتا ہوں۔انجلی حیرانی سے میرا منہ تکتی ہے۔
’تم کیا پاپا۔ ۔ ‘
مسکرانے کی کوشش کرتا ہوں____ ’تم نہیں سمجھو گی، انجلی۔
انجلی منہ بچکاتی ہے____ ’میں اب بڑی ہو گئی ہوں۔ میں اب سب سمجھتی ہوں پاپا۔ کبھی کبھی تم سمجھ میں نہیں آتے پاپا۔ لو، میں تمہارے پاس سے جا رہی ہوں۔ لیکن سنو، اکیلے کمرے میں مجھے ڈر لگتا ہے۔ اب میں تمہارے پاس ہی سویا کروں گی، پاپا____ تمہارے ہی کمرے میں۔‘
’میرے کمرے میں؟‘
’کیوں، سب بچے سوتے ہیں۔‘
’نہیں۔ میں نے اس لئے پوچھا کہ میں رات بھر لائٹ جلا کر کچھ نہ کچھ آفس کا کام کرتا رہتا ہوں۔‘
’مجھے لائٹ ڈسٹرب نہیں کرے گی پاپا____‘ انجلی مسکرائی ہے۔‘ کل سے یہیں سوجاؤں؟‘
’نہیں۔ بس کہہ دیا نا۔ اب تم بڑی ہو رہی ہو۔ اس سے زیادہ سوال نہیں۔‘
انجلی کے معصوم چہرے پر سوالوں کی سلوٹیں بکھر جاتی ہیں۔ میں جاتے جاتے اس کے الفاظ میں دکھ محسوس کر لیتا ہوں۔
’کوئی بات نہیں پاپا‘
انجلی اپنے کمرے میں واپس لوٹ گئی ہے۔ اس کی سلوٹوں بھری سوالیہ آنکھیں اب بھی کمرے میں موجود ہیں۔ یہ آنکھیں مجھے گھور رہی ہیں۔
’انجلی کو کیوں بھیج دیا؟
میز پر آفس کی کچھ بے حد ضروری فائلیں بکھری پڑی ہیں۔ لیکن ابھی، اس لمحے مجھے ان فائیلوں کی قطعی ضرورت نہیں ہے۔
’انجلی کیوں گئی؟ میں نے اسے اپنے کمرے میں کیوں بھیج دیا۔؟
پتہ نہیں____ لیکن شاید یہ میرے اندر کا سناٹا ہے، جو مجھ سے لڑ رہا ہے۔ کیا ہو جاتا ہے تمہیں۔ کیا ہو جاتا ہے تمہیں۔ اچھے خاصے آدمی سے اچانک ’لڑکی‘ کے باپ کیوں بن جاتے ہو۔ بن جاتے ہو____ چلو کوئی بات نہیں۔ لیکن اپنی ہی لڑکی سے ڈرنے کیوں لگتے ہو۔ ۔
ایک بزدل آدمی جرح کرتا ہے____ ’نہیں۔ جھوٹ ہے۔ ڈروں گا کیوں؟‘
سناٹا ہنستا ہے____ ’دیکھو‘ اپنے آپ کو غور سے دیکھو۔ تم ڈر گئے تھے۔ کیونکہ۔ ۔ ‘ اندر کا سناٹا ایک انتہائی فحش سا جملہ اچھا لتا ہے____ تم اسے عموماً ایسے لباسوں میں نہیں دیکھ پاتے۔ ہے نا sss یار، وہ کانونٹ میں پڑھتی ہے۔‘ سناٹا قہقہہ لگاتا ہے۔ کانونٹ یا نئے زمانہ کی لڑکیاں اب آنچل یا اوڑھنی کا استعمال نہیں کرتیں۔ وہ اپنے بدن پر کپڑوں کا بہت زیادہ بوجھ ڈالنا نہیں چاہتیں۔ تو کیا ہوا۔ وہ تمہاری بیٹی ہے۔‘
’بس ڈر جاتا ہوں۔‘
’لیکن کیوں؟‘
لمبی لمبی سانس لیتا ہوں۔ کہہ نہیں سکتا۔
’بیٹی میں لڑکی تو نہیں دیکھنے لگتے؟‘
اندر کا سناٹا دیر تک ہنستا رہتا ہے۔