مشرف پر سکتہ طاری ہوگیا

ش

شہزاد احمد

مہمان
مشرف صاحب "غیر متعلق" ہو چکے! عدلیہ جو بھی فیصلہ کرے، سب کو قبول کر لینا چاہیے۔ اُن کا پاکستان واپس آنے کا فیصلہ مبنی بر حکمت نہ تھا۔ معلوم نہیں، وہ کس کا امتحان لینا چاہتے ہیں؟
 

Fawad -

محفلین
مشرف نے امریکہ کی نام نہاد دہشت گردی کیخلاف جنگ میں ملک کو بیچا،


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

اگر آپ کی تاويل درست تسليم کر لی جائے تو پھر تو يہ کہا جا سکتا ہے کہ دنيا کی 40 سے زائد حکومتوں نے اپنی قوموں کو خطے ميں امريکی مقاصد کے تحفظ کے ليے بيچ ڈالا۔ يقينی طور پر کسی بھی ذی شعور شخص کے ليے اس قسم کی دليل قابل قبول نہيں ہو سکتی ہے۔

ياد رہے کہ اقوام متحدہ سميت تمام عالمی براداری نے عموی طور پر عالمی دہشت گردی کے سدباب کے ليے ہمارے موقف کی تائيد اور حمايت کے ساتھ ساتھ ہميں ہر طرح کی مدد اور تعاون کا عنديہ ديا تھا۔

تمام تر واضح شواہد کے باوجود اب بھی ايسے رائے دہندگان موجود ہيں جو اس دليل کو بنياد بنا کر جذباتی بحث ميں الجھتے ہيں کہ دہشت گردی کا وہ عفريت جس نے گزشتہ ايک دہائ ميں پاکستان ميں بربريت کی نئ مثاليں قائم کی ہے، وہ يکايک منظر سے غائب ہو جائے گا اگر موت کے ان سوداگروں کو کھلی چھٹی دے دی جائے اور ان کے خلاف کوئ تاديبی کاروائ نا کی جائے۔

يہ بات تاريخ سے ثابت ہے کہ اگر معاشرہ جرائم پيشہ عناصر کی مناسب سرکوبی نہ کرے تو اس سے جرم کے پھيلنے کے عمل کو مزيد تقويت ملتی ہے۔

اس بارے ميں بحث کی کيا گنجائش رہ جاتی ہے کہ يہ جدوجہد کس کی ہے – يہ جانتے ہوئے کہ اس عفريت کی زد ميں تو ہر وہ ذی روح آيا ہے جس نے ان ظالموں کی محضوص بے رحم سوچ سے اختلاف کيا ہے۔ يہی وجہ ہے کہ عالمی برادری بشمول اہم اسلامی ممالک نے مشترکہ طور پر اسے "ہماری جنگ" قرار ديا ہے۔ ہر وہ معاشرہ جو رواداری اور برداشت کا پرچار چاہتا ہے اور اپنے شہريوں کی دائمی حفاظت کو مقدم سمجھتا ہے وہ اس مشترکہ عالمی کوشش ميں باقاعدہ فريق ہے جسے کچھ مبصرين غلط انداز ميں "امريکی جنگ" قرار ديتے ہيں۔

آپ نے سابق صدر مشرف کے حوالے سے گفتگو کی ہے اور ان کے خلاف جذبات کے اظہار کے ليے انھيں امريکی کٹھ پتلی قرار ديا ہے۔ ميں صدر مشرف سميت کسی بھی پاکستانی ليڈر کے خلاف يا اس کے حق ميں کوئ بات نہيں کروں گا۔ ليکن ميں يہ نشاندہی ضرور کرنا چاہوں گا کہ امريکہ کو سياسی نقطہ چينی کے لیے "ہتھيار" اور نعرے کے طور پر استعمال کرنا پرانا وطيرہ ہے اور کسی تعميری بحث کا موجب نہيں بن سکتا ہے۔

کيا صدر مشرف پاکستان کی تاريخ کے واحد ليڈر تھے جنھيں "امريکی غلام" قرار دے کر امريکہ مخالف جذبات کو استعمال کيا گيا؟

حقائق ثابت کرتے ہيں کہ پاکستان کی تاريخ کی قريب تمام حکومتوں کو "امريکی کٹھ پتلی" قرار دے کر ان کی سياسی مخالفت کی گئ۔ سياسی مخالفين کی جانب سے اپنی حکومتوں کو امريکہ نواز قرار دے کر سياست کرنے کی حکمت عملی سادہ اور ثابت شدہ ہے۔ کيا آپ نے ان سياسی مخالفين کو تعليم، صحت اور دفاع کے ضمن ميں اپنی پاليسيوں کی تشہير کرتے ديکھا ہے؟

سياسی مخالفت کا تو بنيادی اصول ہی يہ ہے کہ اگر آپ حکومت کی پاليسيوں سے اختلاف رکھتے ہيں تو انھيں اعداد وشمار اور دلائل سے غلط ثابت کريں اور ايسے متبادل منصوبے عوام کے سامنے پيش کريں جو آپ کے نزديک زيادہ بہتر مقاصد حاصل کر سکتے ہيں، بجائے اس کے کہ آپ محض جذباتی نعرہ بازی کو اپنی سياست کا محور بنا ليں۔ اس ميں کوئ شک نہيں کہ خارجہ پاليسی کے حوالے سے کيے گئے فيصلے کسی بھی حکومت کے مستقبل يا اسکی تاريخ پر اثر انداز ہوتے ہيں ليکن بعض سياسی قوتيں ان تمام عوامل کو پس پشت ڈال کر محض "امريکہ نواز" يا "امريکہ کے کٹھ پتلی" جيسے نعروں تک ہی محدود رہتی ہيں۔ اس ميں کوئ شک نہيں کہ دوررس، جديد اور موثر اقتصادی اور تعليمی منصوبوں کے بارے ميں تفصيلی گفتگو کرنے کے مقابلے ميں يہ طريقہ زيادہ آسان ہے جو کچھ سياست دان استعمال کرتے ہيں۔

جہاں تک صدر مشرف کا تعلق ہے تو پاکستان ميں اکثر سياسی ليڈروں کی جانب سے متفقہ طور پر يہ تاثر ديا جاتا رہا کہ امريکہ پاکستان ميں 18 کروڑ عوام کی خواہشات کے برعکس ايک آمر کی پشت پناہی کرتا رہا ہے اور دہشت گردی سميت ملک ميں تمام تر مسائل کا ذمہ دار صرف امريکہ ہے۔ اگر امريکہ اپنے مذموم ارادوں کی تکميل کے ليےملک کے جمہوری اداروں اور سياسی قوتوں کی بجائے ايک آمر کو سپورٹ نہيں کرتا تو ملک آج ان بے شمار مسائل ميں گھرا ہوا نہيں ہوتا۔
سياسی جماعتوں کا يہ موقف پچھلے کئ سالوں سے ميڈيا کے ذريعے عوام تک پہنچتا رہا ہے۔

عوام کے سامنے بہتر منصوبوں اور پاليسيوں کے ذريعے حکومت پر تنقيد کرنے کی بجائے تمام تر زور اس بات پر ديا جاتا رہا کہ امريکہ مشرف اور اس کے "حواريوں" کی حمايت کر کے پاکستان کے اندرونی معاملات ميں مداخلت کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ يہ بات بھی بڑے زور و شور سے کی جاتی رہی کہ پاکستان کے تمام تر مسائل کی وجہ امريکہ ہے جس کی پشت پناہی کے سبب ايک آمر ايسے قوانين بنا رہا ہے جس سے ملک کا مستقبل داؤ پر لگ گيا ہے۔

پاکستان ميں يہ تاثر اتنا مقبول ہو گيا کہ ميڈيا يا اخبارات ميں اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کسی دليل يا توجيہ کی ضرورت بھی محسوس نہيں کی گئ گويا کہ يہ مفروضہ بحث ومب۔احثے کے مراحل سے گزر کر ايک تصديق شدہ حقيقت بن چکا تھا کہ صدر مشرف کا دور اقتدار (اس بات سے قطعہ نظر کہ وہ پاکستان کے ليے فائدہ مند ہے يا نقصان دہ) صرف اور صرف امريکہ کی مرہون منت ہے۔

آپ کے ليے يہ بات دلچسپی کا باعث ہوگی کہ امريکی حکومتی حلقوں ميں اس تاثر پر انتہاہی حيرت کا اظہار کيا جاتا ہے۔ اس کی وجہ يہ ہے کہ نہ ہی پرويز مشرف کو آرمی چيف کے عہدے پر ترقی ميں امريکہ کا کوئ کردار تھا، نہ ہی انھيں ملک کا صدر امريکہ نے بنايا اور نہ ہی ان کے دور اقتدار ميں توسيع امريکہ نے کروائ۔

صدر مشرف کو امريکی کٹھ پتلی قرار دينے کے ضمن ميں يہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ ان کے دور اقتدار کے بعد پاکستان کی جمہوری منتخب حکومت نے بھی پاکستان کے عام شہريوں کی زندگيوں کو محفوظ بنانے کے ليے دہشت گردی کے ٹھکانوں کے سدباب کی ضرورت کو تسليم کيا۔ صرف يہی نہيں بلکہ پاکستان کے نو منتخب وزير اعظم نواز شريف نے ابھی سے يہ عنديہ ديا ہے کہ دہشت گردی کی جس لہر کے سبب روزانہ عام پاکستانيوں کی جانيں ضائع ہو رہی ہيں، اس کو روکنے کے ليے وہ خطے ميں پاکستان کے اتحاديوں کے ساتھ مل کر کام کريں گے۔

گزشتہ چند برسوں کے دوران پاکستان کی منتخب حکومتوں اور افواج پاکستان امريکی پاليسيوں کی وجہ سے ان قوتوں کے خلاف نبرد آزما نہيں ہیں۔ القائدہ اور اس سے منسلک ان دہشت گرد قوتوں کے خلاف جنگ کی وجہ يہ ہے کہ يہ مجرم پاکستانی شہريوں، اعلی حکومتی عہديداروں، فوجی جوانوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کو روزانہ قتل کر رہے ہیں۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
http://vidpk.com/83767/US-aid-in-Dairy-Projects/
 
Top