فلک شیر
محفلین
مشرق ہار گیا
کپلنگ نے کہا تھا
"مشرق مشرق ہے
اور مغرب مغرب ہے
اور دونوں کا ملنا نا ممکن ہے"
لیکن مغرب ، مشرق کے گھر آنگن میں آ پہونچا ہے
میرے بچوں کے کپڑے لندن سے آتے ہیں
میرا نوکر بی بی سی سے خبریں سنتا ہے
میں بیدل اور حافظ کی بجائے
شیکسپیئر اور رلکے کی باتیں کرتا ہوں
اخباروں میں
مغرب کے چکلوں کی خبریں اور تصویریں چھَپتی ہیں
مجھ کو چگی ڈاڑھی والے اکبرَ کی کھسیانی ہنسی پر
۔ ۔ ۔ ۔ رحم آتا ہے
(اقبال کی باتیں (گستاخی ہوتی ہیں
۔ ۔ ۔ ۔ مجذوب کی بڑ ہیں
وارث شاہ اور بُلھےَ شاہ اور بابا فرید ؟
چلئے جانے دیجیئے ان باتوں میں کیا رکھا ہے!
مشرق ہار گیا ہے
یہ بکسر اور پلاسی کی ہار نہیں ہے
ٹیپو اور جھانسی کی رانی کی ہار نہیں ہے
سن ستاون کی جنگِ آزادی کی ہار نہیں ہے
ایسی ہار تو جیتی بھی جا سکتی ہے (شاید ہم نے جیت بھی لی ہے)
لیکن مشرق اپنی روح کے اندر ہار گیا ہے!
قبلا خان تم ہار گئے ہو
اور تمہارے ٹکڑوں پر پلنے والا لالچی مارکوپولو
۔ ۔ ۔ ۔ جیت گیا ہے
اکبرِ اعظم ! تم کو مغرب کی جس عیارہ نے تحفے بھیجے تھے
اور بڑا بھائی لکھا تھا
اس کے کتے بھی ان لوگوں سے افضل ہیں
جو تمہیں مہابلی اور ظل اللہ کہا کرتے تھے
مشرق کیا تھا؟
جسم سے اوپر اٹھنے کی اک خواہش تھی
شہوت اور جبلت کی تاریکی میں
اک دیا جلانے کی کوشش تھی
میں سوچ رہا ہوں ، سورج مشرق سے نکلا تھا
(مشرق سے جانے کتنے سورج نکلے تھے)
لیکن مغرب ہر سورج کو نگل گیا ہے
" میں ہار گیا ہوں "
۔ ۔ ۔ ۔ میں نے اپنے گھر کی دیواروں پر لکھا ہے
" میں ہار گیا ہوں "
میں نے اپنے آئینے پر کالک مَل دی ہے
اور تصویروں پر تھوکا ہے
ہارنے والے چہرے ایسے ہوتے ہیں
میری روح کے اندر اک ایسا گہرا زخم لگا ہے
جس کے بھرنے کےلیے صدیاں بھی ناکافی ہیں
میں اپنے بچے اور کتے دونوں کو ٹیپو کہتا ہوں
مجھ سے میرا سب کچھ لے لو
اور مجھے اک نفرت دے دو
مجھ سے میرا سب کچھ لے لو
اور مجھے اک غصہ دے دو
ایسی نفرت ، ایسا غصہ
جس کی آگ میں سب جل جائیں!
۔ ۔ ۔ ۔ میں بھی
سلیم احمد
کپلنگ نے کہا تھا
"مشرق مشرق ہے
اور مغرب مغرب ہے
اور دونوں کا ملنا نا ممکن ہے"
لیکن مغرب ، مشرق کے گھر آنگن میں آ پہونچا ہے
میرے بچوں کے کپڑے لندن سے آتے ہیں
میرا نوکر بی بی سی سے خبریں سنتا ہے
میں بیدل اور حافظ کی بجائے
شیکسپیئر اور رلکے کی باتیں کرتا ہوں
اخباروں میں
مغرب کے چکلوں کی خبریں اور تصویریں چھَپتی ہیں
مجھ کو چگی ڈاڑھی والے اکبرَ کی کھسیانی ہنسی پر
۔ ۔ ۔ ۔ رحم آتا ہے
(اقبال کی باتیں (گستاخی ہوتی ہیں
۔ ۔ ۔ ۔ مجذوب کی بڑ ہیں
وارث شاہ اور بُلھےَ شاہ اور بابا فرید ؟
چلئے جانے دیجیئے ان باتوں میں کیا رکھا ہے!
مشرق ہار گیا ہے
یہ بکسر اور پلاسی کی ہار نہیں ہے
ٹیپو اور جھانسی کی رانی کی ہار نہیں ہے
سن ستاون کی جنگِ آزادی کی ہار نہیں ہے
ایسی ہار تو جیتی بھی جا سکتی ہے (شاید ہم نے جیت بھی لی ہے)
لیکن مشرق اپنی روح کے اندر ہار گیا ہے!
قبلا خان تم ہار گئے ہو
اور تمہارے ٹکڑوں پر پلنے والا لالچی مارکوپولو
۔ ۔ ۔ ۔ جیت گیا ہے
اکبرِ اعظم ! تم کو مغرب کی جس عیارہ نے تحفے بھیجے تھے
اور بڑا بھائی لکھا تھا
اس کے کتے بھی ان لوگوں سے افضل ہیں
جو تمہیں مہابلی اور ظل اللہ کہا کرتے تھے
مشرق کیا تھا؟
جسم سے اوپر اٹھنے کی اک خواہش تھی
شہوت اور جبلت کی تاریکی میں
اک دیا جلانے کی کوشش تھی
میں سوچ رہا ہوں ، سورج مشرق سے نکلا تھا
(مشرق سے جانے کتنے سورج نکلے تھے)
لیکن مغرب ہر سورج کو نگل گیا ہے
" میں ہار گیا ہوں "
۔ ۔ ۔ ۔ میں نے اپنے گھر کی دیواروں پر لکھا ہے
" میں ہار گیا ہوں "
میں نے اپنے آئینے پر کالک مَل دی ہے
اور تصویروں پر تھوکا ہے
ہارنے والے چہرے ایسے ہوتے ہیں
میری روح کے اندر اک ایسا گہرا زخم لگا ہے
جس کے بھرنے کےلیے صدیاں بھی ناکافی ہیں
میں اپنے بچے اور کتے دونوں کو ٹیپو کہتا ہوں
مجھ سے میرا سب کچھ لے لو
اور مجھے اک نفرت دے دو
مجھ سے میرا سب کچھ لے لو
اور مجھے اک غصہ دے دو
ایسی نفرت ، ایسا غصہ
جس کی آگ میں سب جل جائیں!
۔ ۔ ۔ ۔ میں بھی
سلیم احمد