آج یُوسفی صاحب کی ایک شگفتہ تحریر نظر سے گذری جس میں اُنہوں نے کمال خوبصُورتی سے دو شعرا کے کلام کو یکجا کر کے مزاح کا نیا رنگ تخلیق کیا کہ پڑھ کر لطف آ گیا اور بے اختیار ھنسی۔
آپ کی بصارتوں کی نذر ھے۔
پانی پانی کر گئی ، مجھ کو قلندر کی یہ بات
پھر بنیں گے آشنا ، کتنی ملاقاتوں کے بعد؟؟
اقبال/ فیض
جان تم پر نثار کرتا ہوں
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
غالب/ مومن
وہ کہیں بھی گیا ، لوٹا تو میرے پاس آیا
جانے کس جُرم کی پائی ھے ، سزا یاد نہیں
پروین/ ساغر
جَھپٹنا ، پلٹنا ، پلٹ کر جَھپٹنا
ساری مستی شراب کی سی ھے
اقبال/ میر
اُس کے پہلو سے لگ کر چلتے ہیں
شرم تم کو مگر نہیں آتی
غالب/جون
نہیں تیرا نشیمن ، قصرِ سُلطانی کے گنبد پر
تُو کسی روز میرے گھر میں اُتر ، شام کے بعد
علامہ اقبال/ فرحت عباس
موت آئے تو دن پھریں غالب
قرض ھے تم پر چار پھولوں کا
ساغر/غالب
وہ کہتی ھے سنو جاناں ، محبت موم کا گھر ھے
کاش اُس زباں دراز کا ، منہ نوچ لے کوئی
آتش/ جون
"مشتاق احمّد یوسفی"