مصرعوں کا ملک شیک

خالد مسعود صاحب کا بنایا مصرعاتی شیک

ایک ہی صف میں پڑھی دونوں نے یوں عید نماز

کرتا پہنے ہوئے محمود تھا ، جیکٹ میں ایاز
دور تک سب نے سنی زور سے اک ’’ٹھاہ‘‘ کی آواز
پھر کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز
 
قتیل شفائی اور علامہ اقبال صاحب

یہ بھی کیا بات کہ چھپ چھپ کے تجھے پیار کروں

حیا نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ زمانے کی آنکھ میں باقی
 

الف عین

لائبریرین
ایسا سلسلہ ایک زمانے میں میں نے شروع کیا تھا اس شعر کے ساتھ
دل سے تری نگاہ جگر تک اتر گئی
حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں
 

ماہی احمد

لائبریرین
ایسا سلسلہ ایک زمانے میں میں نے شروع کیا تھا اس شعر کے ساتھ
دل سے تری نگاہ جگر تک اتر گئی
حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں
یہ تو تین مصرعوں کا شعر ہونا چاہئیے

دل سے تری نگاہ جگر تک اتر گئی
حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں

اور پھر یہ شعر کسی دکھی شوہر کے منہ سے نکلے تو سونے پہ سہاگہ ہوجائے :rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor:
 

جاسمن

لائبریرین
آج یُوسفی صاحب کی ایک شگفتہ تحریر نظر سے گذری جس میں اُنہوں نے کمال خوبصُورتی سے دو شعرا کے کلام کو یکجا کر کے مزاح کا نیا رنگ تخلیق کیا کہ پڑھ کر لطف آ گیا اور بے اختیار ھنسی۔

آپ کی بصارتوں کی نذر ھے۔

پانی پانی کر گئی ، مجھ کو قلندر کی یہ بات
پھر بنیں گے آشنا ، کتنی ملاقاتوں کے بعد؟؟
اقبال/ فیض

جان تم پر نثار کرتا ہوں
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
غالب/ مومن

وہ کہیں بھی گیا ، لوٹا تو میرے پاس آیا
جانے کس جُرم کی پائی ھے ، سزا یاد نہیں

پروین/ ساغر

جَھپٹنا ، پلٹنا ، پلٹ کر جَھپٹنا
ساری مستی شراب کی سی ھے
اقبال/ میر

اُس کے پہلو سے لگ کر چلتے ہیں
شرم تم کو مگر نہیں آتی

غالب/جون

نہیں تیرا نشیمن ، قصرِ سُلطانی کے گنبد پر
تُو کسی روز میرے گھر میں اُتر ، شام کے بعد

علامہ اقبال/ فرحت عباس

موت آئے تو دن پھریں غالب
قرض ھے تم پر چار پھولوں کا
ساغر/غالب

وہ کہتی ھے سنو جاناں ، محبت موم کا گھر ھے
کاش اُس زباں دراز کا ، منہ نوچ لے کوئی
آتش/ جون

"مشتاق احمّد یوسفی"
 
Top