پاکستان کا موازنہ بھارت یا اسرائیل سے کرنا سراسر غلط ہے۔ پاکستان نے کسی دوسرے مذہب کے ماننے والے ملک میں کوئی مداخلت نہیں کی جبکہ بھارت اور اسرائیل نے ایسا مذہبی بنیاد پر کیا ہے۔
بھارت اور اسرائیل دونوں آئینی طور پر سیکولر ممالک ہیں۔ ریاست کا اپنا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ بلکہ ریاست میں رہنے والے ہر آزاد شہری کا انفرادی مذہب ہوتا ہے۔ جس کا تحفظ کرنا ریاست کی آئینی ذمہ داری ہے۔
البتہ ہر آزاد ریاست کے اپنی سلامتی سے متعلق مفادات ضرور ہوتے ہیں۔ جن کے دفاع میں بعض اوقات اپنے ہمسایہ ممالک میں مداخلت کرنا ناگزیر ہوتا ہے۔
زیادہ دور نہ جائیں۔ اس حوالہ سے اپنی ریاست پاکستان کے ہی کرتوت دیکھ لیں۔ ان کے مفاد پرست "سازشی" یا "جہادی" کبھی بھارتی مقبوضہ کشمیر میں پکڑے جاتے ہیں تو کبھی افغانستان میں۔ اسی طرح برادر اسلامی ملک ایران اور ازلی ابدی دشمن بھارت اور امریکہ کے ایجنٹس پاکستان میں کئی بار پکڑے گئے ہیں۔
اسرائیل بھی اپنی سلامتی اور بقا کی خاطر ہمسایہ دشمن ممالک میں اس قسم کی کاروائیاں ڈالتا رہتا ہے۔ اس میں مذہبی طور پر اتنا جذباتی ہونے والی کونسی بات ہے؟
اگر پاکستان کی سالمیت کو اول دن سے اغیار کی سازشوں کا سامنا رہا ہے۔ تو اسرائیل کوبھی 1948، 1967، 1973، 1982، 2006، 2008 اور 2014 میں ہمسایہ ممالک کے ساتھ بڑی جھڑپوں اور جنگوں کا سامنا رہا ہے۔
۱۹۷۳ میں جب مصر نے یہودیوں کی عید یوم کپور والے دن اچانک حملہ کر کے اسرائیل کو ابھی نندن (سرپرائز) دیا تھا۔ تو اس وقت کی اسرائیلی وزیر اعظم نے عالمی قوتوں کو باور کروا دیا تھا کہ اسرائیلی یہودی ایک اور ہالوکاسٹ برداشت نہیں کریں گے۔ بلکہ اپنے ساتھ تمام ہمسایہ ممالک کو لے کر مریں گے۔ یعنی ایٹمی ہتھیاروں کا بے دریغ استعمال کریں گے۔ اس دھمکی کے ساتھ امریکہ اور اسکے اتحادیوں کو اسلحہ اور دیگر جنگی سامان اسرائیل کو فراہم کرنا پڑا تھا۔ کیونکہ اس وقت اسرائیل کا مکمل خاتمہ محض چند دنوں کی دوری پر تھا۔ جس کے ساتھ ہی تمام بڑے عرب مراکز جیسے دمشق، بغداد، قاہرہ، بیروت وغیرہ اسرائیلی ایٹمی ہتھیاروں کی زد میں تھے۔
یوں عالمی طاقتوں نے بیچ میں پڑ کر جنگ رفع دفع کر وا دی۔ اسرائیل کو مقبوضہ مصری علاقہ واپس کرنا پڑا۔ اس کے بدلہ مصر نے اسرائیل کو ایک آزاد خودمختارمملکت تسلیم کرتے ہوئے ۱۹۷۹ میں امن معاہدہ کر لیا۔ جسے مصری صدر محمد مرسی ختم کرنا چاہتے تھے۔ جو امن معاہدہ کی خلاف ورزی اور اسرائیلی سالمیت کے لئے شدید خطرہ تھا۔ اسی لیے انہیں منظرعام سے ہٹا دیا گیا۔
اگر آج اسرائیل کا وجود ہے تو وہ بھی صرف اس لئے کہ اسرائیلیوں نے اپنے تمام تر دشمن عرب ہمسایوں پر عسکری، اقتصادی، علمی اور سماجی فتح حاصل کی ہے۔ جہاں کروڑ ہا آبادی والے ہمسایہ عرب ممالک ابھی تک جمہوریت، ملوکیت، آمریت، خلافت، سنی، شیعہ، کیپٹل ازم، سوشل ازم جیسے بنیادی مسائل میں الجھے پڑے ہیں۔ وہیں تھوڑے سے یعنی صرف 87 لاکھ اسرائیلی (جن میں سے ۲۰ فیصد اسرائیلی عرب ہیں) چاند کی سیریں کر رہے ہیں۔
چاند کی یہ تصویر یہودی سازشیوں کے خلائی جہاز "بیرشیٹ" نے کل یعنی 4 اپریل 2019 کو اتاری تھیں۔ اور چند دنوں بعد اسرائیل چاند پر اترنے والا چوتھا تاریخی ملک بن جائے گا۔ کیا اس معرکہ کو محفلین خلائی مخلوق کے خلاف یہودی سازش قرار دیں گے؟
اسرائیل نے چاند کی جانب خلائی مشن روانہ کر دیا۔