مصطفی جاگ گیا ہے - گپ شپ

سید رافع

محفلین
مصطفی جاگ گیا ہے توحید پر ایک فکشن لکھنے کا ارادہ تھا۔ اسکے بجائے توحید کے دقیق موضوعات پر ایک لڑی مصطفی جاگ گیا ہے - تبصرے چل نکلی جو اصلا تو فکشن پر تبصرے کے لیے بنائی گئی تھی۔ وہ لڑی محفل کے کھیل ہی کھیل میں سیکھ لینے کی عمومی فضا سے میل نہیں کھاتی۔ نہ ہی اس دور میں انسان بہت زیادہ دیر سوچ و بچار اور سنجیدگی کی حالت میں رہ سکتا ہے۔ ہاشمی میاں صاحب کے چٹکلے ہوں یا مفتی طارق مسعود کے لطیفے، موجودہ دور کی طبعیتوں کے رجحانات کا پتہ دیتے ہیں۔ پھر سنجیدگی کی رہی سہی کسر سوشل میڈیا کی چھوٹی چھوٹی ریلیز اور ویڈیوز نے نکال دی ہے۔اب سنجیدہ باتیں اگر زیادہ دیر کی جائیں تو رنجیدہ باتیں بن جاتی ہیں اور اس سے بھی زیادہ دیر کی جائیں تو خود کش حملے میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔ :) اسکی وجہ یہ ہے کہ توحید اصلا قلب کی صنعت ہے، لیکن سود کے زنگ نے ہر عام و خاص کے قلب پر ایسی زنگ چڑھا دی ہے کہ ہر سو خزاں کا موسم ہے۔ حلال مال کی کمی ہی نہیں بلکہ تقریبا ناپید ہے۔ جو جسم سود پر پلتے بڑھتے ہیں، ان میں توحید کی ایک کمزور سی رمق ہی پیدا ہو پاتی ہے۔ چنانچہ لوگ توحید دماغ سے بیان کرنے لگے۔ قلبی توحید میٹھی اور دماغی توحید بس سنجیدہ ہوتی ہے۔ یہ بلائے عام ہے جس میں ہر خاص و عام مبتلا ہے۔

بہرحال اللہ نے نرمی میں جو رکھا ہے وہ سختی میں نہیں رکھا، سو دھیرے دھیرے جو معروف باتیں محتاط علماء و مستند کتب بتاتی جائیں اسکے سائے میں اپنی زندگی کا سفر تمام کریں۔ دعا ہے کہ کل مسلمین اور خاص کر محفلین، انکے اعزاء و اقرابا، دوست احباب، گھر والے اور تمام رشتے دار ایمان کے ساتھ اس دنیا سے رخصت ہوں اور بلا حساب اللہ کی وسیع و عریض جنتوں میں آرام پائیں۔

یہ لڑی اس لیے کھولی گئی ہے کہ اگر شائقین توحید ہلکے پھلکے انداز میں، قصے کہانیوں سے، شعر و ادب سے، مسکراتی تحریروں سے اور ادبی چٹکلوں سے کچھ اس عظیم علم سے پردہ اٹھانا چاہیں تو کھیل ہی کھیل میں سب کو کچھ سیکھنے کا موقع مل جائے گا۔ لوگ مسکراتے بھی رہیں گے، کچھ جملے بازی، استعارات، اشارے، رمز کو بھی جگہ مل جائے گی اور سنجیدگی رنجیدگی میں تبدیل ہونے سے بچ جائے گی۔ :)

چلیں میں ہی کچھ پہل کر دیتا ہوں ۔

ایک دن ایک فقیر کسی بزرگ کے پاس آیا اور ان سے سوال کیا: "اے امیر المومنین! میں نے سنا ہے کہ اللہ کا کوئی شریک نہیں، تو پھر اللہ کا ہمسایہ کون ہے؟"

وہ بزرگ مسکرا کر بولے: "اللہ کا ہمسایہ کوئی نہیں، کیونکہ اللہ کا کوئی شریک نہیں، اور جو اللہ کے قریب ہے، وہ صرف وہ خود ہے۔"

فقیر نے حیرانی سے پوچھا: "تو پھر ہمیں کس طرح اللہ کے قریب جانا چاہیے؟"

وہ بزرگ مسکرا کر بولے: "جو تمہاری ضرورتوں کو پورا کرے، جو تمہیں ہدایت دے، جو تمہیں راستہ دکھائے، وہ اللہ کا نشان ہے۔ اور جب تم اس کے راستے پر چل کر اُس کی رضا کی کوشش کرو، تو تم اللہ کے قریب ہو جاتے ہو۔"
 
آخری تدوین:

ظفری

لائبریرین
توحید پر ایک فکشن ۔۔۔ ماشاءاللہ کیا بات ہے ۔ فکشن ، اردو کا لفظ ہے یا انگلش کا ۔ اس کی وضاحت فرمادیں کہ انگلش میں تو اس کا مفہوم ، توحید پر کچھ لکھنے کے لیئے فٹ ہی نہیں ہوتا ۔
 

ظفری

لائبریرین
آپ نے جب کسی بھی سنجیدہ موضوع پر لکھنے کی کوشش کی ہے ۔ اس میں الفاظوں کا چناؤ موضوع کی اصل روح کا ختم کردیتا ہے ۔ آپ براہِ راست کسی محفلین سے گفتگو کریں یا پھر اجتماعی طور پر ۔ آپ کی تحریر میں الفاظوں کا انتخاب انتہائی عامیانہ سطح کا ہوتا ہے ۔ توحید پر ہلکے پھلکے انداز پر لکھنے کی جو آئیڈیالوجی آپ نے اپنائی ہے ۔ وہ بہت ہی پست درجے کی ہے ۔ فیس بک ، ریلز ، مفتی طارق مسعود کے لطیفوں کو موجودہ دو ر کی طببیتوں سے منسلک کرکے آپ نے بھی توحید کو ایک فکشن بنانے کی کوشش کی ہے ۔ آپ سمجھ رہے ہیں یہ ایک نیا انداز ہے مگر جس بات کی آپ مخالفت کرر ہے ہیں۔ دراصل وہی انداز آپ نے بھی اپنایا ہوا ہے ۔ توحید ایک خالص سنجیدہ موضوع ہے ۔ اس کو صرف قرآن اور سنت کی روشنی میں ہی دیکھا جاسکتا ہے ۔ ورنہ صوفیاء کی توحید کی تشریح اتنی تنقید کا باعث نہیں بنتی ۔ لہذ ا جو موضوع جس شعور کا حقدار ہے ۔ اسے اُسی انداز سے دیکھنا چاہیئے ۔ اور توحید تو انتہائی سنجیدہ موضوع ہے ۔ انسان کی آزمائش اصل میں توحید کی پرکھ ہی توہے ۔ اور یہ توحید صرف کتاب وسنت کے علاوہ کہیں مل ہی نہیں سکتی ۔
کوشش کریں کہ قرآن و سنت سے مدد لیکر توحید کی تشریح بیان کریں ۔ کہانی ، قصوں سے مدد لی تو توحید کہیں سےکہیں نکل جائے گی ۔
 

ظفری

لائبریرین
ایک دن ایک فقیر کسی بزرگ کے پاس آیا اور ان سے سوال کیا: "اے امیر المومنین! میں نے سنا ہے کہ اللہ کا کوئی شریک نہیں، تو پھر اللہ کا ہمسایہ کون ہے؟"

وہ بزرگ مسکرا کر بولے: "اللہ کا ہمسایہ کوئی نہیں، کیونکہ اللہ کا کوئی شریک نہیں، اور جو اللہ کے قریب ہے، وہ صرف وہ خود ہے۔"

فقیر نے حیرانی سے پوچھا: "تو پھر ہمیں کس طرح اللہ کے قریب جانا چاہیے؟"

وہ بزرگ مسکرا کر بولے: "جو تمہاری ضرورتوں کو پورا کرے، جو تمہیں ہدایت دے، جو تمہیں راستہ دکھائے، وہ اللہ کا نشان ہے۔ اور جب تم اس کے راستے پر چل کر اُس کی رضا کی کوشش کرو، تو تم اللہ کے قریب ہو جاتے ہو۔"
مثال کے طور پر آپ اپنی پہلی کوشش کو ہی دیکھ لیں ۔ کتنی متضاد باتیں اس اقتباس میں موجود ہیں ۔
1-ایک دن ایک فقیر کسی بزرگ کے پاس آیا اور ان سے سوال کیا: "اے امیر المومنین! میں نے سنا ہے کہ اللہ کا کوئی شریک نہیں، تو پھر اللہ کا ہمسایہ کون ہے؟"
عموما ً عام آدمی کسی فقیر کے پاس جاتا ہے ۔ مگر یہاں فقیر کسی بزرگ کے پاس گیا ۔پھر وہ بزرگ ، امیر المومنین بھی بن گیا ۔ (ہر کوئی جانتا ہے کہ ہر امیر المو منین کی اپنی ایک تاریخ ہے ۔ وہ گمنام نہیں ہوتا ) ۔ پھر ایمان کااہم حصہ جس کا نام توحید ہے ۔ اس میں اپنی طرف سے ایک بے ضرورت فقرہ ایڈ کرکے ۔ سوال کو زبردستی پیچیدہ بنانے کی کوشش کی ہے ۔ کیونکہ اللہ کا ہمسایہ ، اللہ کا کوئی شریک نہیں سے کوئی مطابقت نہیں رکھتا ۔

2-وہ بزرگ مسکرا کر بولے: "اللہ کا ہمسایہ کوئی نہیں، کیونکہ اللہ کا کوئی شریک نہیں، اور جو اللہ کے قریب ہے، وہ صرف وہ خود ہے۔"
اس سطر میں واضع ہوگیا کہ سوال ویلڈ نہیں تھا
۔
3-فقیر نے حیرانی سے پوچھا: "تو پھر ہمیں کس طرح اللہ کے قریب جانا چاہیے؟"
پھر وہی لامعنی سوال ۔۔۔ جس کا پہلے سوال سے کوئی تعلق نہیں ۔ مگر پہلے سوال کی تکرار یہاں بھی موجود ہے ۔

4- وہ بزرگ مسکرا کر بولے: "جو تمہاری ضرورتوں کو پورا کرے، جو تمہیں ہدایت دے، جو تمہیں راستہ دکھائے، وہ اللہ کا نشان ہے۔ اور جب تم اس کے راستے پر چل کر اُس کی رضا کی کوشش کرو، تو تم اللہ کے قریب ہو جاتے ہو۔"
سوال کچھ تھا اور جواب کچھ اور دیا جارہا ہے ۔
سوال تھا کہ وہ کون سا عمل ہے ، جس سے اللہ کی قربت حاصل ہوسکے ۔ جبکہ جواب میں "جو "، "جو " کی تکرار بتا رہی ہے کہ کوئی ایسا عمل ہے جس سے ایسا ممکن ہو سکتا ہے ۔ مگر اس کا تذکرہ نہیں کیا گیا ۔ بلکہ " اللہ کانشان" کا کہہ کر اس پر چلنے کی تاکید کی گئی ہے ۔ یعنی جواب بلکل مہبم اور نامکمل ہے ۔ کہ اللہ کا وہ نشان کیا ہے ۔ اور جو ، جو اصل میں ہے کیا ۔ کوئی تفصیل یا توجیہہ سرے سے بیان ہی نہیں کی گئی ۔
جب شائقین ہلکے پھلکے انداز میں توحید کو اپنی عقل و فہم کے مطابق بیان کریں گے تو پھر اس قسم کے تضادات دیکھنے کو ملیں گے ۔ کوشش کریں دین کی جو چیز جہاں سے بیان ہوسکتی ہے ۔ اُسے وہیں سے بیان کریں ۔
 
آخری تدوین:

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
مثال کے طور پر آپ اپنی پہلی کوشش کو ہی دیکھ لیں ۔ کتنی متضاد باتیں اس اقتباس میں موجود ہیں ۔
1-ایک دن ایک فقیر کسی بزرگ کے پاس آیا اور ان سے سوال کیا: "اے امیر المومنین! میں نے سنا ہے کہ اللہ کا کوئی شریک نہیں، تو پھر اللہ کا ہمسایہ کون ہے؟"
عموما ً عام آدمی کسی فقیر کے پاس جاتا ہے ۔ مگر یہاں فقیر کسی بزرگ کے پاس گیا ۔پھر وہ بزرگ ، امیر المومنین بھی بن گیا ۔ (ہر کوئی جانتا ہے کہ ہر امیر المو منین کی اپنی ایک تاریخ ہے ۔ وہ گمنام نہیں ہوتا ) ۔ پھر ایمان کااہم حصہ جس کا نام توحید ہے ۔ اس میں اپنی طرف سے ایک بے ضرورت فقرہ ایڈ کرکے ۔ سوال کو زبردستی پیچیدہ بنانے کی کوشش کی ہے ۔ کیونکہ اللہ کا ہمسایہ ، اللہ کا کوئی شریک نہیں سے کوئی مطابقت نہیں رکھتا ۔

2-وہ بزرگ مسکرا کر بولے: "اللہ کا ہمسایہ کوئی نہیں، کیونکہ اللہ کا کوئی شریک نہیں، اور جو اللہ کے قریب ہے، وہ صرف وہ خود ہے۔"
اس سطر میں واضع ہوگیا کہ سوال ویلڈ نہیں تھا
۔
3-فقیر نے حیرانی سے پوچھا: "تو پھر ہمیں کس طرح اللہ کے قریب جانا چاہیے؟"
پھر وہی لامعنی سوال ۔۔۔ جس کا پہلے سوال سے کوئی تعلق نہیں ۔ مگر پہلے سوال کی تکرار یہاں بھی موجود ہے ۔

4- وہ بزرگ مسکرا کر بولے: "جو تمہاری ضرورتوں کو پورا کرے، جو تمہیں ہدایت دے، جو تمہیں راستہ دکھائے، وہ اللہ کا نشان ہے۔ اور جب تم اس کے راستے پر چل کر اُس کی رضا کی کوشش کرو، تو تم اللہ کے قریب ہو جاتے ہو۔"
سوال کچھ تھا اور جواب کچھ اور دیا جارہا ہے ۔
سوال تھا کہ وہ کون سا عمل ہے ، جس سے اللہ کے قربت حاصل ہوسکے ۔ جبکہ جواب میں "جو "، "جو " کی تکرار بتا رہی ہے کہ کوئی ایسا عمل ہے جس سے ایسا ممکن ہو سکتا ہے ۔ مگر اس کا تذکرہ نہیں کیا گیا ۔ بلکہ " اللہ کانشان" کا کہہ کر اس پر چلنے کی تاکید کی گئی ہے ۔ یعنی جواب بلکل مہبم اور نامکمل ہے ۔ کہ اللہ کا وہ نشان کیا ہے ۔ اور جو ، جو اصل میں ہے کیا ۔ کوئی تفصیل یا توجیہہ سر سے بیان ہی نہیں کی گئی ۔
جب شائقین ہلکے پھلکے انداز میں توحید کو اپنی عقل و فہم کے مطابق بیان کریں گے تو پھر اس قسم کے تضادات دیکھنے کو ملیں گے ۔ کوشش کریں دین کی جو چیز جہاں سے بیان ہوسکتی ہے ۔ اُسے وہیں سے بیان کریں ۔
میں تو صرف اتنا ہی جان پایا ہوں کہ یہ آدمی اسلام کی ہر بات کو ایسا مبہم کرنا چاہتا ہے کہ لوگوں کے دماغوں میں اصل بات باقی نہ رہے۔
یہ کہیں شیخ محمد کراچی والے کا مرید تو نہیں۔ اُس کی باتیں بھی اسی کے جیسی ہیں۔
وہ آدمی نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو بنی اسرائیل میں سے شمار کرتا ہے۔ اور کہتا ہے کہ قرآن ہمیشہ نازل ہوتا رہتا ہے۔ اور اس کا کہنا ہے کہ محمد رسول اللّٰہ اور محمد بن عبداللّٰہ دو مختلف شخصیات ہیں۔ اور بھی اسی قسم کی لغویات وہ صاحب بھی کرتے رہتے ہیں۔
 

ظفری

لائبریرین
میں تو صرف اتنا ہی جان پایا ہوں کہ یہ آدمی اسلام کی ہر بات کو ایسا مبہم کرنا چاہتا ہے کہ لوگوں کے دماغوں میں اصل بات باقی نہ رہے۔
یہ کہیں شیخ محمد کراچی والے کا مرید تو نہیں۔ اُس کی باتیں بھی اسی کے جیسی ہیں۔
وہ آدمی نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو بنی اسرائیل میں سے شمار کرتا ہے۔ اور کہتا ہے کہ قرآن ہمیشہ نازل ہوتا رہتا ہے۔ اور اس کا کہنا ہے کہ محمد رسول اللّٰہ اور محمد بن عبداللّٰہ دو مختلف شخصیات ہیں۔ اور بھی اسی قسم کی لغویات وہ صاحب بھی کرتے رہتے ہیں۔
میں نے اس کی کئی وڈیو دیکھیں ہیں ۔ مجھے تو قادیانیت کا اپ گریڈ ورژن لگا ہے ۔ اور باقی کئی نئی باتیں بھی ہیں۔ جس میں سے کچھ کا آپ نے تذکرہ کیا ہے ۔ اس کا اصل نام محمد شیخ ہے ۔
 

سید رافع

محفلین
توحید پر ایک فکشن ۔۔۔ ماشاءاللہ کیا بات ہے ۔ فکشن ، اردو کا لفظ ہے یا انگلش کا ۔ اس کی وضاحت فرمادیں کہ انگلش میں تو اس کا مفہوم ، توحید پر کچھ لکھنے کے لیئے فٹ ہی نہیں ہوتا ۔
صحیح فرمایا آپ نے ظفری بھائی۔ خیر میں تو دونوں طرح کے فکشن لکھنے میں فٹ نہیں بیٹھتا۔ :)

البتہ ذہن میں سچ اور تخیل کے ملاپ سے کچھ لکھنے کا ارادہ تھا۔
 

سید رافع

محفلین
آپ نے جب کسی بھی سنجیدہ موضوع پر لکھنے کی کوشش کی ہے ۔ اس میں الفاظوں کا چناؤ موضوع کی اصل روح کا ختم کردیتا ہے ۔ آپ براہِ راست کسی محفلین سے گفتگو کریں یا پھر اجتماعی طور پر ۔ آپ کی تحریر میں الفاظوں کا انتخاب انتہائی عامیانہ سطح کا ہوتا ہے ۔ توحید پر ہلکے پھلکے انداز پر لکھنے کی جو آئیڈیالوجی آپ نے اپنائی ہے ۔ وہ بہت ہی پست درجے کی ہے ۔ فیس بک ، ریلز ، مفتی طارق مسعود کے لطیفوں کو موجودہ دو ر کی طببیتوں سے منسلک کرکے آپ نے بھی توحید کو ایک فکشن بنانے کی کوشش کی ہے ۔ آپ سمجھ رہے ہیں یہ ایک نیا انداز ہے مگر جس بات کی آپ مخالفت کرر ہے ہیں۔ دراصل وہی انداز آپ نے بھی اپنایا ہوا ہے ۔ توحید ایک خالص سنجیدہ موضوع ہے ۔ اس کو صرف قرآن اور سنت کی روشنی میں ہی دیکھا جاسکتا ہے ۔ ورنہ صوفیاء کی توحید کی تشریح اتنی تنقید کا باعث نہیں بنتی ۔ لہذ ا جو موضوع جس شعور کا حقدار ہے ۔ اسے اُسی انداز سے دیکھنا چاہیئے ۔ اور توحید تو انتہائی سنجیدہ موضوع ہے ۔ انسان کی آزمائش اصل میں توحید کی پرکھ ہی توہے ۔ اور یہ توحید صرف کتاب وسنت کے علاوہ کہیں مل ہی نہیں سکتی ۔
کوشش کریں کہ قرآن و سنت سے مدد لیکر توحید کی تشریح بیان کریں ۔ کہانی ، قصوں سے مدد لی تو توحید کہیں سےکہیں نکل جائے گی ۔

ظفری بھائی جو الفاظ آتے ہیں انہی کو تو لکھوں گا! ہلکے پھلکے انداز سے مراد تھی کہ ہلکا نہ ہو ہلکا پھلکا ہو۔ :)
 

سید رافع

محفلین
۔ کیونکہ اللہ کا ہمسایہ ، اللہ کا کوئی شریک نہیں سے کوئی مطابقت نہیں رکھتا ۔

اس سطر میں واضع ہوگیا کہ سوال ویلڈ نہیں تھا

پھر وہی لامعنی سوال ۔۔۔ جس کا پہلے سوال سے کوئی تعلق نہیں ۔ مگر پہلے سوال کی تکرار یہاں بھی موجود ہے ۔
فقیر تھا۔ آپ کی مانند عالم شاید نہیں تھا۔

کوشش کریں دین کی جو چیز جہاں سے بیان ہوسکتی ہے ۔ اُسے وہیں سے بیان کریں ۔
اصلاحی کہانیاں اور حکایات تو ہماری تاریخ کا حصہ رہی ہیں۔
 

سید رافع

محفلین
میں تو صرف اتنا ہی جان پایا ہوں کہ یہ آدمی اسلام کی ہر بات کو ایسا مبہم کرنا چاہتا ہے کہ لوگوں کے دماغوں میں اصل بات باقی نہ رہے۔
یہ کہیں شیخ محمد کراچی والے کا مرید تو نہیں۔ اُس کی باتیں بھی اسی کے جیسی ہیں۔
وہ آدمی نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو بنی اسرائیل میں سے شمار کرتا ہے۔ اور کہتا ہے کہ قرآن ہمیشہ نازل ہوتا رہتا ہے۔ اور اس کا کہنا ہے کہ محمد رسول اللّٰہ اور محمد بن عبداللّٰہ دو مختلف شخصیات ہیں۔ اور بھی اسی قسم کی لغویات وہ صاحب بھی کرتے رہتے ہیں۔
پکڑ لیا :ROFLMAO:
 

سید رافع

محفلین
جب شائقین ہلکے پھلکے انداز میں توحید کو اپنی عقل و فہم کے مطابق بیان کریں گے تو پھر اس قسم کے تضادات دیکھنے کو ملیں گے ۔
وہ تو علماء بھی بیان کریں گے تو ایسے ہی تضادات دیکھنے کو ملیں گے۔ :)

تضاد ہی حسن زندگی ہے۔ نہیں؟ :)
 

اربش علی

محفلین
اربش علی آپ بھی تشریف لائیں اور میر انیس صاحب یا دیگر شعراء کے اشعار عطا فرمائیں۔ :)
گلشن میں پھِروں کہ سیرِ صحرا دیکھوں
یا معدن و کوہ و دشت و دریا دیکھوں
ہر جا تری قدرت کے ہیں لاکھوں جلوے
حیران ہوں دو آنکھوں سے کیا کیا دیکھوں

(میر انیس)
 

ظفری

لائبریرین
صحیح فرمایا آپ نے ظفری بھائی۔ خیر میں تو دونوں طرح کے فکشن لکھنے میں فٹ نہیں بیٹھتا۔ :)

البتہ ذہن میں سچ اور تخیل کے ملاپ سے کچھ لکھنے کا ارادہ تھا۔
میں پہلے فکشن کی حمایت تو نہیں کروں گا ۔ مگر دوسرے طرح کے فکشن آپ لکھ سکتے ہیں ۔
پھر وہی تضاد ۔۔۔۔ سچ اور تخیل اکھٹے نہیں ہوسکتے ۔ سچ ، حقیقت ہے ۔ اور تخیل ، خیال ہے ، گمان ہے ، ان کے ملاپ سے جو چیز بھی وجود میں آئے گی ۔ اس کا انجام آپ کے اس لڑی کے پہلے مراسلے کی کہانی جیسا ہوگا۔
 

ظفری

لائبریرین
ظفری بھائی جو الفاظ آتے ہیں انہی کو تو لکھوں گا! ہلکے پھلکے انداز سے مراد تھی کہ ہلکا نہ ہو ہلکا پھلکا ہو۔ :)
آپ کو کسی نے منع نہیں کیا کہ آپ اپنے ویکیلبری کے حساب سے نہیں لکھیں ۔ لکھیں اور ضرور لکھیں ۔ مگر اس کا میدان کیا ہوگا ۔ بس یہ پیشِ نظر ہونا چاہیئے ۔
 
Top