مصنوعی ذہانت اور عہد جدید کے آدمی کا المیہ! ۔۔۔محمد خرم یاسین

مصنوعی ذہانت اور عہد جدید کے آدمی کا المیہ!

ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
احساسِ مروّت کو کُچل دیتے ہیں آلات (اقبال)

آرٹی فیشل انٹیلی جنس کی سب سے بڑی بدصورتی، اس کی انتہائی خوبصورتی اور پرفیکشن ہے۔ اگر آپ مڈ جرنی کا چکر لگا چکے ہیں یا لیونارڈو گردی کرتے ہیں تو آپ تخلیق اور تصور کے میدان میں یقیناً ہوش گنوا چکے ہوں گے۔ اور اگر آپ لیونارڈو کا رئیل ٹائم کینوس استعمال کرچکے ہیں، جہاں ایک حرف لکھنے سے اور ایک درجہ تخلیق کی شدت کو کم یا زیادہ کرنے سے ایک دو نہیں سینکرڑوں نہیں، ہزاروں نئے امیج بنتے ہیں، تو آپ میری طرح اپنے وجود کی معنویت پر سوال اٹھا رہے ہوں گے۔
کسی سے بغل گیر ہونے پیار کرنے، باتیں کرنے، رقصاں دیکھنے اور دکھانے کے لیے آپ کو کیا چاہیے ؟ محض ایک تصویر؟ اور آپ اس سے کیا کچھ کرواسکتے ہیں۔۔۔اس کا تصور جتنا حسین ہے، اتنا ہی وحشت ناک اور خوف میں مبتلا کردینے والا بھی ہے۔
انسانوں میں کوئی کسی علم کا کتنا ماہر ہوسکتا ہے؟ کوئی فنکار کتنی قسم کی آرٹس میں یدِ طولیٰ رکھ سکتا ہے ؟ پیسٹل آرٹ؟ لائن آرٹ؟، آئل پینٹنگ؟ ایکریلک پینٹنگ؟ واٹر کلر پینٹنگ؟پینسل پینٹنگ؟ڈیجیٹل پینٹنگ؟
پھر اس کے بعد پتوں، کاغذوں، پتھروں اور مٹی سے تخلیق؟ آپ زیادہ سے زیادہ کیا سوچ سکتے ہیں اور اسے کتنی دیر میں تخلیق کر سکتے ہیں؟ اے آئی یہ سب سیکنڈوں میں کرسکتی ہے۔ میں اس پر بلا مبالغہ ہزاروں تجربات کرچکا ہوں اور ہر تجربہ مجھے جہاں خوشی دیتا ہے، تجسس بڑھتا ہے، وہیں افسردہ بھی کرتا ہے۔ میں چیزوں کو کمی کوتاہی کے ساتھ قبول کرنا چاہتا ہوں۔ ان کی تخلیق پر وقت بیتانا چاہتا ہوں اور اور اور۔۔۔۔ پینٹگز کو، پتوں کو، پہاڑوں کو، ان کے رنگوں کو چھونا چاہتا ہوں۔۔۔ اے آئی مجھے انسانی تصورات سے بہت بڑھ کر سب کچھ مہیا کر رہی ہے، بنا وقت ضایع کیے، بنا تھکے، بنا رکے۔۔۔لیکن میں نجانے کیوں افسردہ ہوتا جارہا ہوں۔۔۔
مجھے لگتا ہے، اے آئی کا ساتھ مجھے عادی کر رہا ہے، مجھ سے تخلیق کا جذبہ چھین رہا ہے، میرے وجود پر سوال اٹھا رہا ہے، احساسِ زیاں کو بڑھا رہا ہے اور مجھے دنیا میں تنہا کر رہا ہے، جس میں پہلے ہی ایک دوسرے کے لیے وقت کم بچا ہے۔

ڈاکٹر محمد خرم یاسین

 

سیما علی

لائبریرین
مصنوعی ذہانت اور عہد جدید کے آدمی کا المیہ!

ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
احساسِ مروّت کو کُچل دیتے ہیں آلات (اقبال)
درست کہا آپ نے جہاں آسانیاں ہیں وہاں جستجو کا مزا ختم ہوتا جارہا ہے اور جسقدر مزا آتا تھا لغت میں معنی ڈھونڈھنے میں اور چار اور نئے الفاظ سے آشنائی ہوتی ۔۔وہ مزا اب مصنوعی ذہانت عہدِ جدید کے آدمی کا بنتی جارہی ہے۔۔۔آہستہ آہستہ ۔۔۔اصل تخلیق کہیں گم ہوتی جائے گی اور جگہ مصنوعی ذہانت لیتی جائے گی۔۔۔
پھر بھی انسانی تخیل کی اپنی ہی دنیا ہے اور اسکی جگہ کوئی نہیں لے سکے گا ۔۔
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
نئے دور دیاں نویاں گلاں
عہدِ جدید میں قدیم آدمی کے لئے تو واقعی یہ سب ایک بھاری بوجھ سا ہے کہ جن ہاتھوں کو مشقت کی عادت پڑی ہو، وہ مشقت کئے بنا رہ ہی نہیں سکتے۔ لیکن اس عہد کے جدید آدمی کو یہ سہولت شاید اتنا بوجھ نہیں لگتی۔ بہت سارا وقت بچ جاتا ہے۔
مجھے دنیا میں تنہا کر رہا ہے، جس میں پہلے ہی ایک دوسرے کے لیے وقت کم بچا ہے۔
اس کا ذمہ دار تو سب سے پہلے موبائل اور انٹر نیٹ ہے جن کی وجہ سے گھر کے ہر فرد نے اپنی الگ دنیا بسائی ہوئی ہے۔لیکن دوسری طرف دیکھا جائےتو انھی سہولتوں نے دنیا میں دور دراز کے لوگوں کو آسان رابطے میں کر دیا ہے۔ جب آسانی آتی ہے، کام جلدی سے ہوتے ہیں تو وقت تو بچتا ہے نا۔ بس اس بچے ہوئے وقت کا صحیح استعمال کرنا اگر ہم سیکھ لیں تو بہت بہتر ہو سکتا ہے۔
کام بھلے اے آئی کرے، تخیل انسان ہی کا ہے۔ تو وہ آپ ہی کی تخلیق ہوئی۔
 
نئے دور دیاں نویاں گلاں
عہدِ جدید میں قدیم آدمی کے لئے تو واقعی یہ سب ایک بھاری بوجھ سا ہے کہ جن ہاتھوں کو مشقت کی عادت پڑی ہو، وہ مشقت کئے بنا رہ ہی نہیں سکتے۔ لیکن اس عہد کے جدید آدمی کو یہ سہولت شاید اتنا بوجھ نہیں لگتی۔ بہت سارا وقت بچ جاتا ہے۔

اس کا ذمہ دار تو سب سے پہلے موبائل اور انٹر نیٹ ہے جن کی وجہ سے گھر کے ہر فرد نے اپنی الگ دنیا بسائی ہوئی ہے۔لیکن دوسری طرف دیکھا جائےتو انھی سہولتوں نے دنیا میں دور دراز کے لوگوں کو آسان رابطے میں کر دیا ہے۔ جب آسانی آتی ہے، کام جلدی سے ہوتے ہیں تو وقت تو بچتا ہے نا۔ بس اس بچے ہوئے وقت کا صحیح استعمال کرنا اگر ہم سیکھ لیں تو بہت بہتر ہو سکتا ہے۔
کام بھلے اے آئی کرے، تخیل انسان ہی کا ہے۔ تو وہ آپ ہی کی تخلیق ہوئی۔
بس مجھے محسوس ہوتا ہے کہ ہم اس سے جتنا جڑتے جائیں گے، انسانی رشتوں سے اتنا ہی دور جائیں گے۔ پتہ نہیں کیوں۔
 
درست کہا آپ نے جہاں آسانیاں ہیں وہاں جستجو کا مزا ختم ہوتا جارہا ہے اور جسقدر مزا آتا تھا لغت میں معنی ڈھونڈھنے میں اور چار اور نئے الفاظ سے آشنائی ہوتی ۔۔وہ مزا اب مصنوعی ذہانت عہدِ جدید کے آدمی کا بنتی جارہی ہے۔۔۔آہستہ آہستہ ۔۔۔اصل تخلیق کہیں گم ہوتی جائے گی اور جگہ مصنوعی ذہانت لیتی جائے گی۔۔۔
پھر بھی انسانی تخیل کی اپنی ہی دنیا ہے اور اسکی جگہ کوئی نہیں لے سکے گا ۔۔
بے شک آپ نے درست فرمایا ہے۔ لیکن ادب میں بھی میرے سینکڑوں تجربات نے مجھے اس جانب مائل کیا ہے کہ ہم اسے درست انداز میں استعمال نہیں کررہے،و رنہ اس کا تخیل یقیناً اس سے بہت گہرا ہے ، جو ہم ابھی تک سمجھ پائے ہیں۔ میں یہاں تخیلات اور تحریکات کی وہ کمانڈز لکھنا نہیں چاہتا جو یک دم آپ کی بے شما ر نئے جہانوں میں لے جاتے ہیں۔اس سے مجھے لگتا ہے کہ پڑھنے والے انسانی تخیل سے مزید دور ہوں گے۔ مجھے اس سے کئی بار خوف محسوس ہوتا ہے، یہ اتنی درست بات اتنے کم وقت میں کردیتا ہے کہ حیرانی بھی ہوتی ہے۔ میں نے اسے کئی تجریدی (ایبسٹریکٹ ) خیالات دے کر آزمایا ہے، جس مقصد کے تحت وہ تخلیق کیے گئے ہوتے ہیں اور عموماً عام انسانی ذہن ان تک پہنچ نہیں پاتا، یہ فوراً انھیں سمجھ لیتا ہے۔
 

علی وقار

محفلین
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
مصنوعی ذہانت اور عہد جدید کے آدمی کا المیہ!

ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
احساسِ مروّت کو کُچل دیتے ہیں آلات (اقبال)

آرٹی فیشل انٹیلی جنس کی سب سے بڑی بدصورتی، اس کی انتہائی خوبصورتی اور پرفیکشن ہے۔ اگر آپ مڈ جرنی کا چکر لگا چکے ہیں یا لیونارڈو گردی کرتے ہیں تو آپ تخلیق اور تصور کے میدان میں یقیناً ہوش گنوا چکے ہوں گے۔ اور اگر آپ لیونارڈو کا رئیل ٹائم کینوس استعمال کرچکے ہیں، جہاں ایک حرف لکھنے سے اور ایک درجہ تخلیق کی شدت کو کم یا زیادہ کرنے سے ایک دو نہیں سینکرڑوں نہیں، ہزاروں نئے امیج بنتے ہیں، تو آپ میری طرح اپنے وجود کی معنویت پر سوال اٹھا رہے ہوں گے۔
کسی سے بغل گیر ہونے پیار کرنے، باتیں کرنے، رقصاں دیکھنے اور دکھانے کے لیے آپ کو کیا چاہیے ؟ محض ایک تصویر؟ اور آپ اس سے کیا کچھ کرواسکتے ہیں۔۔۔اس کا تصور جتنا حسین ہے، اتنا ہی وحشت ناک اور خوف میں مبتلا کردینے والا بھی ہے۔
انسانوں میں کوئی کسی علم کا کتنا ماہر ہوسکتا ہے؟ کوئی فنکار کتنی قسم کی آرٹس میں یدِ طولیٰ رکھ سکتا ہے ؟ پیسٹل آرٹ؟ لائن آرٹ؟، آئل پینٹنگ؟ ایکریلک پینٹنگ؟ واٹر کلر پینٹنگ؟پینسل پینٹنگ؟ڈیجیٹل پینٹنگ؟
پھر اس کے بعد پتوں، کاغذوں، پتھروں اور مٹی سے تخلیق؟ آپ زیادہ سے زیادہ کیا سوچ سکتے ہیں اور اسے کتنی دیر میں تخلیق کر سکتے ہیں؟ اے آئی یہ سب سیکنڈوں میں کرسکتی ہے۔ میں اس پر بلا مبالغہ ہزاروں تجربات کرچکا ہوں اور ہر تجربہ مجھے جہاں خوشی دیتا ہے، تجسس بڑھتا ہے، وہیں افسردہ بھی کرتا ہے۔ میں چیزوں کو کمی کوتاہی کے ساتھ قبول کرنا چاہتا ہوں۔ ان کی تخلیق پر وقت بیتانا چاہتا ہوں اور اور اور۔۔۔۔ پینٹگز کو، پتوں کو، پہاڑوں کو، ان کے رنگوں کو چھونا چاہتا ہوں۔۔۔ اے آئی مجھے انسانی تصورات سے بہت بڑھ کر سب کچھ مہیا کر رہی ہے، بنا وقت ضایع کیے، بنا تھکے، بنا رکے۔۔۔لیکن میں نجانے کیوں افسردہ ہوتا جارہا ہوں۔۔۔
مجھے لگتا ہے، اے آئی کا ساتھ مجھے عادی کر رہا ہے، مجھ سے تخلیق کا جذبہ چھین رہا ہے، میرے وجود پر سوال اٹھا رہا ہے، احساسِ زیاں کو بڑھا رہا ہے اور مجھے دنیا میں تنہا کر رہا ہے، جس میں پہلے ہی ایک دوسرے کے لیے وقت کم بچا ہے۔

ڈاکٹر محمد خرم یاسین



بے شک آپ نے درست فرمایا ہے۔ لیکن ادب میں بھی میرے سینکڑوں تجربات نے مجھے اس جانب مائل کیا ہے کہ ہم اسے درست انداز میں استعمال نہیں کررہے،و رنہ اس کا تخیل یقیناً اس سے بہت گہرا ہے ، جو ہم ابھی تک سمجھ پائے ہیں۔ میں یہاں تخیلات اور تحریکات کی وہ کمانڈز لکھنا نہیں چاہتا جو یک دم آپ کی بے شما ر نئے جہانوں میں لے جاتے ہیں۔اس سے مجھے لگتا ہے کہ پڑھنے والے انسانی تخیل سے مزید دور ہوں گے۔ مجھے اس سے کئی بار خوف محسوس ہوتا ہے، یہ اتنی درست بات اتنے کم وقت میں کردیتا ہے کہ حیرانی بھی ہوتی ہے۔ میں نے اسے کئی تجریدی (ایبسٹریکٹ ) خیالات دے کر آزمایا ہے، جس مقصد کے تحت وہ تخلیق کیے گئے ہوتے ہیں اور عموماً عام انسانی ذہن ان تک پہنچ نہیں پاتا، یہ فوراً انھیں سمجھ لیتا ہے۔
آپ تخیلات و تحریکات کی کمانڈ لکھ دیجیے .....
آپ اگر وہ تجرید شہکار شئیر کردیتے تو آپ کے دکھ میں شراکت ممکن ہو پاتی مجھ سے.....

میرا اپنا نظریہ مختلف ہے

AI انسان کی طرح بار بار دہرائے جانے والے پیٹنز کو فیڈ کیے آپ کو ایسے مناظر تشکیل کیے دیتی ہے. جو اس میں آلریڈی فیڈ ہوتے ہیں ...مجھے رنگوں کی دنیا اور کینوس اور پینٹ کی شد بد ہوگی تو میں تھوڑی سی انفارمیشن کو لیتے تخلیق کی جہات بنا لوں گی مگر ایسی مشینز یا ایپس وہ پیش نہیں کرسکتی، جو انسان اسے کہے نا...اگر یہ آٹومیٹک ورک کرنا شروع کردے بنا کمانڈز کے، تب بھی وجدان کے جہان میں اس کا جانا نا ممکن ہے...ایک نہایت اوریجنل فنکار اب یہ دنیا ہمارے سامنے لائے گی اور باقی عام درجے کے فنکار کو AI ری پیلس کردیگی....مثال کے طور پر AI غالب کیطرح اشعار کہنے سے قاصر ہے مگر میں اس میں غالبیات فیڈ کردوں تو یہ شعر اسی طرز کے کہنا شروع کردیگی ...یعنی نقالی ... جبکہ غالب نے نئی جہات تخلیق کیں ..... وہ جہات جن کا تصور ممکن بعد میں ہوا اور شعر پہلے ادا ہوا ...
 

علی وقار

محفلین
آپ تخیلات و تحریکات کی کمانڈ لکھ دیجیے .....
آپ اگر وہ تجرید شہکار شئیر کردیتے تو آپ کے دکھ میں شراکت ممکن ہو پاتی مجھ سے.....

میرا اپنا نظریہ مختلف ہے

AI انسان کی طرح بار بار دہرائے جانے والے پیٹنز کو فیڈ کیے آپ کو ایسے مناظر تشکیل کیے دیتی ہے. جو اس میں آلریڈی فیڈ ہوتے ہیں ...مجھے رنگوں کی دنیا اور کینوس اور پینٹ کی شد بد ہوگی تو میں تھوڑی سی انفارمیشن کو لیتے تخلیق کی جہات بنا لوں گی مگر ایسی مشینز یا ایپس وہ پیش نہیں کرسکتی، جو انسان اسے کہے نا...اگر یہ آٹومیٹک ورک کرنا شروع کردے بنا کمانڈز کے، تب بھی وجدان کے جہان میں اس کا جانا نا ممکن ہے...ایک نہایت اوریجنل فنکار اب یہ دنیا ہمارے سامنے لائے گی اور باقی عام درجے کے فنکار کو AI ری پیلس کردیگی....مثال کے طور پر AI غالب کیطرح اشعار کہنے سے قاصر ہے مگر میں اس میں غالبیات فیڈ کردوں تو یہ شعر اسی طرز کے کہنا شروع کردیگی ...یعنی نقالی ... جبکہ غالب نے نئی جہات تخلیق کیں ..... وہ جہات جن کا تصور ممکن بعد میں ہوا اور شعر پہلے ادا ہوا ...
آپ نے اہم نکات اٹھائے ہیں، نُور۔ ویل ڈن۔

اب یہ بھی سمجھا دیجیے کہ جب غالبیات فیڈ ہوا، اقبالیات فیڈ ہوا، مزید بڑے شعراء کا کلام فیڈ ہوا تو کیا کوئی جوہری فرق پڑ سکتا ہے یا کوئی نئی شعری جہات سامنے آ سکتی ہیں؟ کیا اے آئی کی نقالی کا ہنر اسے اوریجنل فنکار کے فن کے قریب لے کر جا سکتا ہے؟

اوریجنل فنکار بھی تو کہیں نہ کہیں، کسی نہ کسی صورت میں نقال ہو سکتا ہے، یا آپ کے نزدیک ایسانہیں ہے؟
 

نور وجدان

لائبریرین
آپ نے اہم نکات اٹھائے ہیں، نُور۔ ویل ڈن۔

اب یہ بھی سمجھا دیجیے کہ جب غالبیات فیڈ ہوا، اقبالیات فیڈ ہوا، مزید بڑے شعراء کا کلام فیڈ ہوا تو کیا کوئی جوہری فرق پڑ سکتا ہے یا کوئی نئی شعری جہات سامنے آ سکتی ہیں؟ کیا اے آئی کی نقالی کا ہنر اسے اوریجنل فنکار کے فن کے قریب لے کر جا سکتا ہے؟

اوریجنل فنکار بھی تو کہیں نہ کہیں، کسی نہ کسی صورت میں نقال ہو سکتا ہے، یا آپ کے نزدیک ایسانہیں ہے؟
میں نے چیٹ جی پی ٹی پر ادریس آزاد صاحب کے آزاد، نثری اور پابند منظوم کلام کی کاوشیں اور مقابلے دیکھے. بلآخر چیٹ جی پی ٹی ایسے منظوم کلام نکال لائی، جو کہ بحر کی قید میں تھے....

انسان کی سوچ، سوال اور تجسس کا طریقہ، اسکا علم، نیورانز کا طریقہ اک مشین یا ایپ کو شاعر بنا سکتا ہے... اوریجنل فنکار وجدان سے بنتا ہے یعنی تخلیق کا ہنر ...اسکی تخلیق اسکی سوچ کا طریقہ اسکے نیورانز کا پیٹن تک تبدیل کرتی رہتی ہے...جبکہ یہ ایپس الگورتھمک پیٹنز پر مبنی نقال ہیں، یہ انسان کی طرح سوچ سکتی ہیں مگر وجدان کے رستے تخلیق نہیں کرسکتیں ... اوریجنل فنکار تجربے کی بھٹی میں جلتا ہے اور وجدان سے تخلیق کرتا ہے


غالب نے غالب بننا تھا اور جگر مراد آبادی نے غالب بننے کی خواہش نہ کی ... اک فنکار اور نقال میں فرق یہی ہے کہ فنکار موضوعی جہت و باریک بینی سے وہ سوچ اجاگر کرتا ہے جو متروک ہوتی ہے. وہ سوچ جو گمان میں نہیں ہوتی ..نقال کسی بھی شخصیت کی نقالی کرتا ہے وہ فنکار نہیں ہوتا
 

زیک

مسافر
ایک نہایت اوریجنل فنکار اب یہ دنیا ہمارے سامنے لائے گی اور باقی عام درجے کے فنکار کو AI ری پیلس کردیگی....مثال کے طور پر AI غالب کیطرح اشعار کہنے سے قاصر ہے مگر میں اس میں غالبیات فیڈ کردوں تو یہ شعر اسی طرز کے کہنا شروع کردیگی ...یعنی نقالی ... جبکہ غالب نے نئی جہات تخلیق کیں ..... وہ جہات جن کا تصور ممکن بعد میں ہوا اور شعر پہلے ادا ہوا ...
یعنی اے آئی اصلاح سخن کے زمرے کو بند کرا دے گی!
 

رانا

محفلین
میرا خیال ہے کہ اے آئی سے ڈرنے کی یا اس پر حیران ہونے کی کوئی ایسی ٹھوس وجہ نہیں ہے۔ اے آئی میں اور ہم میں دو بنیادی فرق ہیں۔
پہلا فرق ڈیٹا کا ہے کہ ہمارے دماغ میں اے آئی کی نسبت سے بہت کم ڈیٹا ہے۔ دوسرا فرق سوچنے کا ہے کہ انسان ڈیٹا کے ساتھ ساتھ جذبات، تجربات اور تخیل کی مدد سے سوچتا ہے جبکہ اے آئی صرف ڈیٹا اور الگورتھمز کی مدد سے کام کرتی ہے جو اس کے فیصلوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔انسان تخلیقی صلاحیت رکھتا ہے یعنی نئی چیزیں ایجاد کرسکتا ہے جبکہ اے آئی اپنے پاس موجود ڈیٹا سے ہی نئی چیزیں بنا سکتی ہے۔ انسان کے پاس شعور اور احساس ہے جبکہ اے آئی اس سے محروم ہے۔

اور پرفیکشن تو اس میں نہیں ہے کیونکہ کل کائنات اس کی فیڈ کی گئی معلومات ہیں جس میں غلطیاں بھی ہوسکتی ہیں۔ اس لئے جو اس کے تھیلے میں ہے وہی نکال کر سامنے رکھ دیتی ہے اور بعض اوقات وہ غلط بھی ہوتا ہے کیونکہ اس کے الگورتھمز بہرحال پرفیکٹ نہیں ہیں اور جو ڈیٹا فیڈ کیا جاتا ہے اس کے مستند اور جانبدار ہونے جیسے مسائل پر قابو پانا بہرحال ایک چیلنج ہے۔

اس کی پرفارمنس ہمیں بہت حیران کرتی ہے۔ لیکن اس میں صرف اتنی بات ہے کہ اس کے پیچھے کام کرنے کے الگورتھمز سے جو جتنا واقف ہے اس کے لئے یہ اتنی ہی نارمل چیز ہے۔ ایک کھیت میں کام کرنے والا مزدور اس پر بہت حیران ہوتا ہے لیکن ایک گریجویٹ بھی حیران ہوتا ہے لیکن اس مزدور سے کم۔ پھر ایک کمپیوٹر سائنس گریجویٹ کو اتنی بھی حیرت نہیں ہوتی اور جن کی فیلڈ خاص اے آئی اور مشین لرننگ ہے تو ان کے لئے حیرانی کا عنصر اس میں بہت لطیف رہ جاتا ہے۔

آخری بات یہ کہ اے آئی وقت کی ضرورت تھی۔ خداتعالیٰ کی ایک صفت رحمان ہے۔ رحمانیت یہ ہے کہ انسان کی ضرورت کے مطابق نعمتیں اپنے وقت پر نازل کرتا ہے۔ اس وقت ہر فیلڈ میں اس قدر ریسرچ ہورہی ہے کہ ساری سائنس تو ایک طرف رکھیں، سائنس کی کسی ایک فیلڈ میں بھی جتنے ریسرچ پیپر روز شائع ہورہے ہوتے ہیں اکثر وہ اس فیلڈ کے ماہر کے لئے بھی ممکن نہیں ہوتا کہ سب پر روز نظر ہی ڈال سکے۔ تو ڈیٹا کی اس قدر شدید بارش میں اب وقت تھا کہ اس ڈیٹا کے سمندر سے فائدہ اٹھانے کے لئے انسانی دماغ کے ساتھ کوئی مددگار ہوتا۔ تو وہ اب اے آئی کی صورت میں رحمان نے ایک نعمت عطا کردی ہے تو نعمتوں سے ڈرنا کیسا۔ اس سے فائدہ اٹھانے کے لئے اپنے آپ کو اس کے لئے تیار کرنا اب وقت کی ضرورت ہے ورنہ زمانہ تو تیزرفتاری سے آگے نکل جاتا ہے کسی کا انتظار نہیں کرتا۔
 

رانا

محفلین
درست کہا آپ نے جہاں آسانیاں ہیں وہاں جستجو کا مزا ختم ہوتا جارہا ہے اور جسقدر مزا آتا تھا لغت میں معنی ڈھونڈھنے میں اور چار اور نئے الفاظ سے آشنائی ہوتی ۔۔وہ مزا اب مصنوعی ذہانت عہدِ جدید کے آدمی کا بنتی جارہی ہے۔۔۔آہستہ آہستہ ۔۔۔اصل تخلیق کہیں گم ہوتی جائے گی اور جگہ مصنوعی ذہانت لیتی جائے گی۔۔۔
پھر بھی انسانی تخیل کی اپنی ہی دنیا ہے اور اسکی جگہ کوئی نہیں لے سکے گا ۔۔
مصنوعی ذہانت کی مدد سے تو اب انسان کو تخلیق کے لئے زیادہ وقت ملا کرے گا۔ لغت کی کتاب اٹھا کر صفحات پلٹنے میں جو وقت لگتا ہے وہ بچے گا اور تخلیق میں خرچ ہوگا اور کچھ ان دوست احباب اور رشتہ داروں کے گلے شکوے مٹانے پر جنہیں گلہ ہوتا ہے کہ ہمارے لئے تو آپ کے پاس وقت ہی نہیں ہوتا۔ :)
 
آخری تدوین:
آپ سے ایک سوال ہے ڈاکٹر صاحب،

کیا مشینی رشتے کبھی انسانی رشتوں کی جگہ لے سکتے ہیں؟

قبل از وقت تو کچھ کہنا مشکل ہے لیکن مجھے لگتا ہے کہ ایسا تیزی سے ہورہا ہے۔ ایک ہی گھر میں ، ماں باپ الگ الگ موبائلوں میں مصروف ہیں، بچے والدین کو زیادہ شدت سے آؤٹ ڈیڈٹ سمجھنے لگے ہیں۔ رہی سہی کسر talk with annie ایسی عام اور مفت ایپلی کیشنز پوری کر رہی ہیں جن سے آپ دل کھول کر جتنی چاہے، جیسی چاہے باتیں کرسکتے ہیں۔ wifelike فلم دیکھتے ہوئے ایک بار تو یہ خیال آیا تھا کہ اسی دنیا میں اپنی پسند کے کسی بھی چہرے کو جیتی جاگتی بیگم کا روپ دیا جاسکتا ہے اور وہ بیگم بھی بنا کسی خاص خرچے کے ، رکے ، تھکے، کسی بھی قسم کے طعن و تشنیع سے مبرا ہوکے خوشی خوشی زندگی گزار سکتی ہے، آپ کے مزاج کے مطابق ہنس سکتی ہے، رو سکتی ہے، بول سکتی ہے، تسلی دے سکتی ہے۔ ۔۔۔ یہ کہانی بظاہر تو بہت سحر انگیز ہے لیکن اس کے مضمرات اور ممکنہ خطرات بہت گھمبیر ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ مستقبل میں ایسے روبوٹس بھی عام ہوجائیں گے۔ گو کہ پاکستان ایسے ملک میں ایسا جلد ممکن نہ ہوگا لیکن ماڈرن دنیا کے اثرات ہم تک پہنچیں گے۔ فائیو اور سیون ڈی ٹیکنالوجیز ہم جیسے ممالک تک بھی آسانی سے پہنچیں گی اور ہم ان سے ہولو گرام قسم کے ورچوئل روبوٹس سے اپنی پسند کا وقت گزاریں گے۔یہ ہمارے لیے شاید ایسا وقت ہو جب ہمارے حقیقی رشتوں کی جگہ ورچوئل رشتے جنم لے لیں۔ ایسے انکیوبیٹر ٹائپ چیزیں ہوں جہاں عینک لگائیں اور سائبر سپیس میں اپنے من پسند لوگوں کے ساتھ زیادہ اور مرضی کا وقت گزاریں۔ سائبر سپیس میں تو چند دن پہلے سنا تھا کہ کسی بڑے موسیقار کا کنسرٹ بھی ہوچکا ہے۔ لوگ سائبر سپیس میں جگہیں خرید رہے ہیں۔ تین چار ماہ قبل ایک شخص سے سائبر سپیس میں مسجد کے لیے چندہ مانگتے ہوئے بھی سنا تھا۔ ۔۔۔ سمجھ نہیں آرہا ہم اپنی خواہشات کے حصول کے اس قدر تیزی سے قریب کیوں ہوتے جارہے ہیں۔ یہ امر یقینا اس جانب اشارہ کرتا ہے کہ یہ ٹیکنالوجی مستقبل میں ہمارے رشتوں پر بھی اثر انداز ہوگی۔ ۔۔ایسے رشتے جو پہلے ہی آہستگی سے ایک دوسرے سے دور جارہے ہیں۔ فیصل آباد میں 2021 میں 20 ہزار رجسٹرڈ طلاقوں کی خبر بہت تکلیف دہ تھی۔ یہ شاید اسی جانب اشارہ کر رہی تھی کہ ہم اپنی خواہشات کے حصول کے جس قدر قریب جارہے ہیں، اتنا ہی ہم رشتوں سے دور جارہے ہیں۔ واللہ اعلم
 
آپ تخیلات و تحریکات کی کمانڈ لکھ دیجیے .....
آپ اگر وہ تجرید شہکار شئیر کردیتے تو آپ کے دکھ میں شراکت ممکن ہو پاتی مجھ سے.....

میرا اپنا نظریہ مختلف ہے

AI انسان کی طرح بار بار دہرائے جانے والے پیٹنز کو فیڈ کیے آپ کو ایسے مناظر تشکیل کیے دیتی ہے. جو اس میں آلریڈی فیڈ ہوتے ہیں ...مجھے رنگوں کی دنیا اور کینوس اور پینٹ کی شد بد ہوگی تو میں تھوڑی سی انفارمیشن کو لیتے تخلیق کی جہات بنا لوں گی مگر ایسی مشینز یا ایپس وہ پیش نہیں کرسکتی، جو انسان اسے کہے نا...اگر یہ آٹومیٹک ورک کرنا شروع کردے بنا کمانڈز کے، تب بھی وجدان کے جہان میں اس کا جانا نا ممکن ہے...ایک نہایت اوریجنل فنکار اب یہ دنیا ہمارے سامنے لائے گی اور باقی عام درجے کے فنکار کو AI ری پیلس کردیگی....مثال کے طور پر AI غالب کیطرح اشعار کہنے سے قاصر ہے مگر میں اس میں غالبیات فیڈ کردوں تو یہ شعر اسی طرز کے کہنا شروع کردیگی ...یعنی نقالی ... جبکہ غالب نے نئی جہات تخلیق کیں ..... وہ جہات جن کا تصور ممکن بعد میں ہوا اور شعر پہلے ادا ہوا ...
آپ کی بات کا ایک حصہ میں اپنے مضمون میں لکھ چکا ہوں لیکن اگر اصل فنکار بھی اسی کی مدد سے آگے بڑھنے لگیں یا مستقبل قریب میں اس پر مںنحصر ہونے لگیں تو سوچیے کیا ہوگا؟
دوسرا یہ کہ اس بار سمت میں محترم اعجاز عبید صاحب نے میری ایک پوسٹ کو اے آئی کے سیکشن میں شامل کیا ہے جس میں تجریدی نظم کی وضاحت چیٹ جی پی ٹی کے پرانے ورژن نے کی تھی۔ اب تو اس کا 4 ورژن مفت میسر ہے اور بہت بہتر کام کر رہا ہے۔ چند نظمیں جو تجریدی ہیں وہ میں فی الحال یہاں شامل نہیں کرنا چاہتا ۔ آپ سمت کا حالیہ شمارہ دیکھ سکتی ہیں۔ انسان کا نعم البدل تو کچھ بھی نہیں ہے، میں اس سے اتفاق کرتا ہوں۔
 
ہوسکتا ہے. ..اے آئی ٹیچرز کراچی شھر میں آگئے ہیں
.
آپ یہ سنیے

یہ پوسٹ پہلے نظر سے گزری تھی۔ اس سے متعلق ایک اور پوسٹ دیکھی تھی جس میں اے آئی نے جان بوجھ کر جھوٹ بولا تھا۔ یہ بانیان کی اپنی فکر کے تعصبات سے بھی دور نہیں ہے۔ آپ اسے اس کے بانیان کے مذہب کے بارے میں کوئی الٹ کہہ کر دیکھیے یہ کمیونٹی ایشو کا کہہ کر جواب دینے سے قاصر رہے گی یا کمانڈ فالو نہیں کرے گی، یہ تجربات تو میں نے خود اس پر کیے ہیں اس لیے پورا وثوق ہے۔
 

علی وقار

محفلین
قبل از وقت تو کچھ کہنا مشکل ہے لیکن مجھے لگتا ہے کہ ایسا تیزی سے ہورہا ہے۔ ایک ہی گھر میں ، ماں باپ الگ الگ موبائلوں میں مصروف ہیں، بچے والدین کو زیادہ شدت سے آؤٹ ڈیڈٹ سمجھنے لگے ہیں۔ رہی سہی کسر talk with annie ایسی عام اور مفت ایپلی کیشنز پوری کر رہی ہیں جن سے آپ دل کھول کر جتنی چاہے، جیسی چاہے باتیں کرسکتے ہیں۔ wifelike فلم دیکھتے ہوئے ایک بار تو یہ خیال آیا تھا کہ اسی دنیا میں اپنی پسند کے کسی بھی چہرے کو جیتی جاگتی بیگم کا روپ دیا جاسکتا ہے اور وہ بیگم بھی بنا کسی خاص خرچے کے ، رکے ، تھکے، کسی بھی قسم کے طعن و تشنیع سے مبرا ہوکے خوشی خوشی زندگی گزار سکتی ہے، آپ کے مزاج کے مطابق ہنس سکتی ہے، رو سکتی ہے، بول سکتی ہے، تسلی دے سکتی ہے۔ ۔۔۔ یہ کہانی بظاہر تو بہت سحر انگیز ہے لیکن اس کے مضمرات اور ممکنہ خطرات بہت گھمبیر ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ مستقبل میں ایسے روبوٹس بھی عام ہوجائیں گے۔ گو کہ پاکستان ایسے ملک میں ایسا جلد ممکن نہ ہوگا لیکن ماڈرن دنیا کے اثرات ہم تک پہنچیں گے۔ فائیو اور سیون ڈی ٹیکنالوجیز ہم جیسے ممالک تک بھی آسانی سے پہنچیں گی اور ہم ان سے ہولو گرام قسم کے ورچوئل روبوٹس سے اپنی پسند کا وقت گزاریں گے۔یہ ہمارے لیے شاید ایسا وقت ہو جب ہمارے حقیقی رشتوں کی جگہ ورچوئل رشتے جنم لے لیں۔ ایسے انکیوبیٹر ٹائپ چیزیں ہوں جہاں عینک لگائیں اور سائبر سپیس میں اپنے من پسند لوگوں کے ساتھ زیادہ اور مرضی کا وقت گزاریں۔ سائبر سپیس میں تو چند دن پہلے سنا تھا کہ کسی بڑے موسیقار کا کنسرٹ بھی ہوچکا ہے۔ لوگ سائبر سپیس میں جگہیں خرید رہے ہیں۔ تین چار ماہ قبل ایک شخص سے سائبر سپیس میں مسجد کے لیے چندہ مانگتے ہوئے بھی سنا تھا۔ ۔۔۔ سمجھ نہیں آرہا ہم اپنی خواہشات کے حصول کے اس قدر تیزی سے قریب کیوں ہوتے جارہے ہیں۔ یہ امر یقینا اس جانب اشارہ کرتا ہے کہ یہ ٹیکنالوجی مستقبل میں ہمارے رشتوں پر بھی اثر انداز ہوگی۔ ۔۔ایسے رشتے جو پہلے ہی آہستگی سے ایک دوسرے سے دور جارہے ہیں۔ فیصل آباد میں 2021 میں 20 ہزار رجسٹرڈ طلاقوں کی خبر بہت تکلیف دہ تھی۔ یہ شاید اسی جانب اشارہ کر رہی تھی کہ ہم اپنی خواہشات کے حصول کے جس قدر قریب جارہے ہیں، اتنا ہی ہم رشتوں سے دور جارہے ہیں۔ واللہ اعلم
کمال!

ویسے، یہ مشینی زندگی بھی تو اچھی خاصی دلچسپ ہے بالخصوص مردم گزیدہ افراد کے لیے۔ یہ بھی اپنے اندر بلا کی کشش رکھتی ہے۔
 
Top