نبیل
تکنیکی معاون
گزشتہ کچھ سالوں میں مصنوعی ذہانت میں ہونے والی پیشرفت کی بدولت سائنس فکشن کے افسانے اب حقیقت کا روپ دھار رہے ہیں اور اب سوال یہ نہیں رہا کہ آیا مصنوعی ذہانت کبھی انسانی ذہانت پر حاوی ہو سکے گی یا نہیں بلکہ اب سوال یہ پوچھا جاتا کہ یہ کب ہونے والا ہے۔ دنیا کے بہترین ذہن اب اس سوال کا جواب تلاش کر رہے ہیں کہ مصنوعی ذہانت کے استعمال کی اخلاقی اور قانونی حدود کا تعین کیسے کیا جائے۔ سال 2010 میں آئی بی ایم کے کمپیوٹر واٹسن نے ٹی وی کے کھیل jeapordy کے چیمپین کو شکست دے دی تھی۔ اگرچہ اس سے پہلے بھی آئی بی ایم کا کمپیوٹر ڈیپ بلیو شطرنج کے عالمی چیمپین کو ہرا چکا تھا لیکن اس وقت اس خبر کی اہمیت کا ادراک نہیں کیا جا سکا تھا۔ لیکن واٹسن کی jeapordy میں جیت نے دنیا بھر کے محققین کو اٹھ بیٹھنے اور سنجیدگی سے سوچ بچا کرنے پر مجبور کر دیا۔ واٹسن کی کہانی ایک علیحدہ مضمون کا تقاضا کرتی ہے۔ مصنوعی ذہانت کا نیا سنگ میل بورڈ گیم گو (go) میں دنیا کے بہترین کھلاڑی کے خلاف جیت ہے۔ گو شطرنج کے مقابلے میں کہیں زیادہ پیچیدگی کی حامل ہے اور اندازہ یہ کیا جاتا تھا کہ مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence) ابھی انسان کے خلاف گو میں جیتنے کی سطح تک پہنچنے میں کم از کم ایک عشرے کا وقت لے گی۔ لیکن بظاہر مصنوعی ذہانت محققین کے اندازے سے کہیں زیادہ تیزی سے ترقی کر چکی ہے۔ الفاگو کمپیوٹر پروگرام کے پیچھے گوگل کی ایک کمپنی ڈیپ مائنڈ کی ٹیکنالوجی کارفرما ہے۔ ڈیپ مائنڈ کو گوگل نے کچھ عرصہ قبل خریدا تھا اور اس کے بانی خود بھی عالمی سطح کے شطرنج کے کھلاڑی رہے ہوئے ہیں، وہ بھی 13 سال کی عمر میں۔
ماخذ
ماخذ