عبقری ریڈر
محفلین
دین اسلام دین فطرت ہے‘ اس کے اندر انسانی طبیعت اور فطرت کی بھرپور رعایت رکھی گئی ہے‘ اسلام کے شرعی اور اخلاقی تمام احکام عقل و فطرت کے عین مطابق ہیں‘ آج کی نئی دنیا تو ہر آن اسلام کے خلاف کوئی نہ کوئی فتنہ برپا کرنے‘ اس کے دامن کو داغدار کرنے اور اس کی صاف و شفاف شریعت و قوانین کو بدنام اور ازکار رفتہ ثابت کرنے میں لگی ہوئی ہے لیکن یہ بھی اسی حکیم وعلیم رب ذوالجلال کا معجزہ ہے کہ وہ ان ہی میں ایسے لوگوں کو پیدا کرتا ہے جو اپنے ہم مذہب و ہم فکر قوم کی تکذیب اور اسلامی احکام و شرائع کی تصدیق و تائید کرتے ہیں۔
دین فطرت کے مصالح میں ایک طلاق بھی ہے یعنی اگر میاں بیوی میں ہم آہنگی نہ ہو پائے یا کوئی ایسی شرعی اور فقہی مجبوری پائی جائے جس کی بنیاد پر دونوں ساتھ نہ رہ سکتے ہوں تو دونوں خوبصورتی کے ساتھ الگ ہوجائیں‘ اس کے بعد وہ مطلقہ عورت دوسرے مرد سے اس وقت تک شادی نہیں کرسکتی جب تک کہ تین ماہ کی عدت نہ گزار لے‘ اس کی مصلحت شریعت مطہرہ میں یہ ہے کہ اگر مطلقہ کے رحم میں اس شوہر کی کوئی علامت ہوگی تو واضح ہوجائے گی تاکہ حمل کی صورت میں نسب کا تعین آسان ہوجائے ورنہ اگر اس کے بغیر اجازت دیدی جائے تو سابق اور موجودہ شوہروں کے مابین نسب کا تعین بہت مشکل ہوجائے گا۔ تین حیض آجانے کی صورت میں یہ واضح ہوجاتا ہے کہ سابق شوہر کا کوئی حصہ اب مطلقہ کے رحم میں نہیں ہے۔
قرآن مجید اور احادیث شریفہ اورفقہ کی کتابوں میں اس کی مکمل تفصیل موجود ہے۔ یہ بات جب ایک یہودی سائنس دان کےسامنے لمبی تحقیق کے بعد کھل کر آئی تو وہ فوراً دائرہ اسلام میں داخل ہوگیا اور قرآن مجید کو کتاب الٰہی اور معجزۂ ربانی تسلیم کرلیا۔
رحم مادر میں جنین کی پرورش و پرداخت کے متعلق تحقیق کے بعد سائنس داں رابرٹ کیلہم نے اس وقت اسلام قبول کرلیا جب قرآنی آیتوں نے طلاق شدہ عورت کی عدت کے تعلق سے اس کے ذہن و دماغ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا نومسلم سائنسدان جس نے اپنی ساری عمر ایسی تحقیقات میں گزار دی جو میاں بیوی کے جسمانی تعلق قائم ہونے کے بعد حمل قرار پانے سے متعلق ہوتے ہیں اور بڑی محنت‘ طلب و جستجو اور تحقیق کے بعد اس نتیجے تک پہنچا کہ مرد کے سپرمز کا اثر عورت کے رحم سے تین مہینے کے بعد زائل ہوجاتا ہے۔
مصر کے ڈاکٹر عبدالباسط محمد نے کہا کہ سائنسدان نے جنین کےسلسلے میں بڑی تحقیق کی اور سائنسی حقیقت کو جاننے کے بعد قرآنی آیات کے اعجاز کا قائل ہوگیا جس میں مطلقہ کی عدت تین مہینے رکھی گئی ہے انہوں نے یہ بھی کہا کہ سائنسدان سائنسی اور مادی دلائل کی بنیاد پر مطمئن ہوئے ہیں جس کا خلاصہ یہ ہے کہ میاں بیوی کے باہم ملنے کے بعد عورت کے رحم میں مرد کا اثر رہتا ہے اور ہر مہینے جماع نہ ہونے کی صورت میں اس کا خاص حصہ ختم ہوتا رہتا ہے اورتین مہینے کے بعد مرد کے سپرمز کا اثر مکمل طور پر ختم ہوجاتا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ تین مہینے کے بعد مطلقہ عورت دوسرے مرد سے شادی کے لائق ہوجاتی ہے۔
اس حقیقت کو جاننے کے بعد یہودی سائنسدان نے امریکہ میں رہنے والی مسلم خواتین اور آزاد زندگی گزارنے والی امریکی عورتوں کا جائزہ لیا جس سے ان کو معلوم ہوا کہ مسلم عورتوں کے رحم میں صرف ان کے شوہروں کا ہی اثر ہے جبکہ امریکی عورتیں دو سے تین شوہروں کی علامت رکھتی ہیں جس کا واضح اشارہ اس طرف ہے کہ امریکی خواتین شوہروں کے علاوہ غیرمردوں سے بھی تعلق رکھتی ہیں۔ سائنسدان اس حقیقت کو جاننے کے بعد اس وقت حیران رہ گیا جب اس نے اپنی بیوی کا جائزہ لیا اور پتہ چلا کہ اس کے رحم میں تین مردوں کا اثر ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ خود اس کی بیوی بھی اس کے ساتھ خیانت کرتی رہی ہے اس تحقیق کے بعد اس کو اطمینان ہوگیا کہ دین اسلام ہی وہ اکیلا مذہب ہے جو خواتین اور معاشرے کے تحفظ کا ضامن ہے اور یہ کہ اس روئے زمین پر مسلم خواتین ہی ہر طرح سے پاک دامن رہتی ہیں۔ (دارالسلام‘ انڈیا) (بشکریہ ماہنامہ قاسم)
دین فطرت کے مصالح میں ایک طلاق بھی ہے یعنی اگر میاں بیوی میں ہم آہنگی نہ ہو پائے یا کوئی ایسی شرعی اور فقہی مجبوری پائی جائے جس کی بنیاد پر دونوں ساتھ نہ رہ سکتے ہوں تو دونوں خوبصورتی کے ساتھ الگ ہوجائیں‘ اس کے بعد وہ مطلقہ عورت دوسرے مرد سے اس وقت تک شادی نہیں کرسکتی جب تک کہ تین ماہ کی عدت نہ گزار لے‘ اس کی مصلحت شریعت مطہرہ میں یہ ہے کہ اگر مطلقہ کے رحم میں اس شوہر کی کوئی علامت ہوگی تو واضح ہوجائے گی تاکہ حمل کی صورت میں نسب کا تعین آسان ہوجائے ورنہ اگر اس کے بغیر اجازت دیدی جائے تو سابق اور موجودہ شوہروں کے مابین نسب کا تعین بہت مشکل ہوجائے گا۔ تین حیض آجانے کی صورت میں یہ واضح ہوجاتا ہے کہ سابق شوہر کا کوئی حصہ اب مطلقہ کے رحم میں نہیں ہے۔
قرآن مجید اور احادیث شریفہ اورفقہ کی کتابوں میں اس کی مکمل تفصیل موجود ہے۔ یہ بات جب ایک یہودی سائنس دان کےسامنے لمبی تحقیق کے بعد کھل کر آئی تو وہ فوراً دائرہ اسلام میں داخل ہوگیا اور قرآن مجید کو کتاب الٰہی اور معجزۂ ربانی تسلیم کرلیا۔
رحم مادر میں جنین کی پرورش و پرداخت کے متعلق تحقیق کے بعد سائنس داں رابرٹ کیلہم نے اس وقت اسلام قبول کرلیا جب قرآنی آیتوں نے طلاق شدہ عورت کی عدت کے تعلق سے اس کے ذہن و دماغ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا نومسلم سائنسدان جس نے اپنی ساری عمر ایسی تحقیقات میں گزار دی جو میاں بیوی کے جسمانی تعلق قائم ہونے کے بعد حمل قرار پانے سے متعلق ہوتے ہیں اور بڑی محنت‘ طلب و جستجو اور تحقیق کے بعد اس نتیجے تک پہنچا کہ مرد کے سپرمز کا اثر عورت کے رحم سے تین مہینے کے بعد زائل ہوجاتا ہے۔
مصر کے ڈاکٹر عبدالباسط محمد نے کہا کہ سائنسدان نے جنین کےسلسلے میں بڑی تحقیق کی اور سائنسی حقیقت کو جاننے کے بعد قرآنی آیات کے اعجاز کا قائل ہوگیا جس میں مطلقہ کی عدت تین مہینے رکھی گئی ہے انہوں نے یہ بھی کہا کہ سائنسدان سائنسی اور مادی دلائل کی بنیاد پر مطمئن ہوئے ہیں جس کا خلاصہ یہ ہے کہ میاں بیوی کے باہم ملنے کے بعد عورت کے رحم میں مرد کا اثر رہتا ہے اور ہر مہینے جماع نہ ہونے کی صورت میں اس کا خاص حصہ ختم ہوتا رہتا ہے اورتین مہینے کے بعد مرد کے سپرمز کا اثر مکمل طور پر ختم ہوجاتا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ تین مہینے کے بعد مطلقہ عورت دوسرے مرد سے شادی کے لائق ہوجاتی ہے۔
اس حقیقت کو جاننے کے بعد یہودی سائنسدان نے امریکہ میں رہنے والی مسلم خواتین اور آزاد زندگی گزارنے والی امریکی عورتوں کا جائزہ لیا جس سے ان کو معلوم ہوا کہ مسلم عورتوں کے رحم میں صرف ان کے شوہروں کا ہی اثر ہے جبکہ امریکی عورتیں دو سے تین شوہروں کی علامت رکھتی ہیں جس کا واضح اشارہ اس طرف ہے کہ امریکی خواتین شوہروں کے علاوہ غیرمردوں سے بھی تعلق رکھتی ہیں۔ سائنسدان اس حقیقت کو جاننے کے بعد اس وقت حیران رہ گیا جب اس نے اپنی بیوی کا جائزہ لیا اور پتہ چلا کہ اس کے رحم میں تین مردوں کا اثر ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ خود اس کی بیوی بھی اس کے ساتھ خیانت کرتی رہی ہے اس تحقیق کے بعد اس کو اطمینان ہوگیا کہ دین اسلام ہی وہ اکیلا مذہب ہے جو خواتین اور معاشرے کے تحفظ کا ضامن ہے اور یہ کہ اس روئے زمین پر مسلم خواتین ہی ہر طرح سے پاک دامن رہتی ہیں۔ (دارالسلام‘ انڈیا) (بشکریہ ماہنامہ قاسم)