معاشرہ اور عدم برداشت - ضیاء الرحمٰن ضیاء

محمداحمد

لائبریرین
ہر گروپ نے خود کو دھوکے میں رکھنے کے لیے کچھ تجزیہ نگار اور صحافیوں کو مختص کیا اور پھر خوابِ خرگوش کے مزے لینے لگے۔ کسی نیوٹرل (یہ "وہ" والا نیوٹرل نہیں ہے) کی بات سننے کے روادار نہیں ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ خوابِ خرگوش کا خون ہو جائے گا۔
بقول غالب:

قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
 

محمداحمد

لائبریرین
مجاہد بننے کو جی تو چاہتا ہے۔ لیکن منہ ماری سے ڈر نہیں لگتا صاحب گالیوں سے لگتا ہے

اس کا طریقہ یہ ہے کہ بحث برائے بحث میں الجھنے کے بجائے درست موقف پیش کیا جائے اور مزید سوال و جواب میں الجھنے کے بجائے سلام کرکے نکل جائیں۔ :)
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
کبھی کبھی مجاہدانہ روح بیدار ہوتی ہے تو سوشل ورلڈ کی بجائے ریئل ورلڈ میں کتھارسس کر لیتا ہوں۔ ایک مرتبہ اسی موضوع پر ایک ماموں سے بات ہو رہی تھی جو کہ خان صاحب کے ڈائی ہارڈ فین/ڈائی ہارٹ فین ہیں۔ بس پھر کیا تھا خان سے محض ذرا سے اختلاف سے مجھ پر اپنے "پٹواری" ہونے کا انکشاف ہوا۔
پھر مخالف تو ہوتا ہی مخالف ہے اس کی بات کون سنے بھلا۔ حالانکہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی لاکھ برائی کی۔ وہ تو بھئی برے ہیں تو ان کی برائی بنتی ہے لیکن خان کی کیوں؟؟؟؟؟
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
یہ تو کافی مشکل کام ہے۔
ہڈی پسلی بھی بچانی ہوتی ہے اور رشتے بھی۔ :)

پھر یہ کہ لاگ آف ہونا بھی آسان نہیں ہوتا۔ :)
ہاہاہاہاہاہاہاہا
ریئل ورلڈ میں آپ لوگوں کو اچھی طرح سے جانتے ہیں۔ پھر آپ یہ دیکھ بھال کے بات کرتے ہیں کہ سامنے والے کی قوتِ برداشت اور قوتِ بازو کا کیا لیول ہے 🤓
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
یہ تو کافی مشکل کام ہے۔
ہڈی پسلی بھی بچانی ہوتی ہے اور رشتے بھی۔ :)

پھر یہ کہ لاگ آف ہونا بھی آسان نہیں ہوتا۔ :)
اور ویسے بھی یہ ماموں میری امی سے بہت چھوٹے ہیں اگر کچھ ایسا ویسا ہوتا تو سیدھا اماں کو شکایت نہ لگا دیتا میں 😜
 

محمداحمد

لائبریرین
اور ویسے بھی یہ ماموں میری امی سے بہت چھوٹے ہیں اگر کچھ ایسا ویسا ہوتا تو سیدھا اماں کو شکایت نہ لگا دیتا میں 😜
اب جب ماموں اتنے چھوٹے ہیں تو پھر انہیں تو کوئی بھی ماموں بنا سکتا ہے۔ سیاست دان تو پھر بڑی چیز ہوتے ہیں۔ :)
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
آج کل تو یوں لگتا ہے کہ تحمل مزاجی کو کسی صندوق میں بند کر کے تالا لگا کر چابی سمیت دریا میں پھینک دیا گیا ہے۔ تبھی تو یوں سر چڑھ کر بولتی ہے عدم برداشت۔
 

محمداحمد

لائبریرین
آج کل تو یوں لگتا ہے کہ تحمل مزاجی کو کسی صندوق میں بند کر کے تالا لگا کر چابی سمیت دریا میں پھینک دیا گیا ہے۔ تبھی تو یوں سر چڑھ کر بولتی ہے عدم برداشت۔
آپ کے مراسلہ میٹر کو ہی لے لیں۔ ذرا جو رکنے کا متحمل ہو۔ :) :)
 

جاسمن

لائبریرین
یہی بات میں بھی اکثر سوچتی ہوں کہ پہلے ہمارے خاندانوں میں تحمل، برداشت، صبر اور رواداری کی تربیت دی جاتی تھی۔ کسی کو ٹوکنا اور روکنا بھی آسان تھا۔ ٹوکیں تو سن بھی لیتے تھے اور روکیں تو رک بھی جاتے تھے۔ بڑی بڑی باتیں پی جاتے تھے۔
لیکن اب جب بڑوں میں ہی برداشت نہیں تو پھر نوجوانوں میں ، بچوں میں کیسے ہو گی!
ہمارے سیاہ ست دانوں سے ہم کیا امید لگائیں! انھوں نے جیسی تربیت اپنے ماننے والوں کی کی ہے، اس کے اثرات بہت برے ہیں۔ اور ایک (دلچسپ تو نہیں کہہ سکتی) بات کہ نتائج انھیں بھی بھگتنے پڑتے ہیں۔ لیکن سبق کوئی نہیں سیکھتا۔ حیرت ہوتی ہے۔
بہرحال ہمیں خود کو اور اپنی بات سننے والوں خاص کر اپنے شاگردوں اور بچوں وغیرہ کو یہ اسباق/تربیت دینے کی ضرورت ہے۔
ہمیں توڑنے والا نہیں، جوڑنے والا بننا چاہیے۔ جدا کرنے والا نہیں، ملانے والا بننا چاہیے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
دیکھیے کہ فرعون جیسے شخص کو نصیحت کرنے کے لیے موسی علیہ السلام کو اللہ تعالی نے کیا فرمایا:
فَقُوْلَا لَهٗ قَوْلًا لَّیِّنًا لَّعَلَّهٗ یَتَذَكَّرُ اَوْ یَخْشٰى(44)
تو اُس سے نرم بات کہنا اس امید پر کہ وہ دھیان کرے یا کچھ ڈرے
{فَقُوْلَا لَهٗ قَوْلًا لَّیِّنًا:توتم اس سے نرم بات کہنا ۔} یعنی جب تم فرعون کے پاس جاؤ تو اسے نرمی کے ساتھ نصیحت فرمانا

سیاست دانوں کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ان کا مخالف اگر فرعون بھی ہو تو اسے سمجھانے کے لیے نرم زبان استعمال کی جائے نہ کہ ۔۔۔
 
آخری تدوین:
Top