تاسف معروف اداکار ، کمپئیر ، ادیب اور شاعر طارق عزیز دنیائے فانی سے انتقال کر گئے

محمد وارث

لائبریرین
گناہ کیہ اے، ثواب کیہ اے
ایہہ فیصلے دا عذاب کیہ اے

میں سوچناں واں چونہوں دِناں لئی
ایہہ خواہشاں دا حباب کیہ اے

جے حرف اوکھے میں پڑھ نئیں سکدا
تے فیر جگ دی کتاب کیہ اے

ایہہ سارے دھوکے یقین دے نے
نئیں تے شاخ گلاب کیہ اے

ایہہ ساری بستی عذاب وچ اے
تے حکم عالی جناب کیہ اے

(طارق عزیز ۔ ہمزاد دا دُکھ)
 
مُدّت کے بعد دیکھا عجب اُس کا حال ہے
چہرے پہ گہرے غم کی لکیروں کا جال ہے

میں بھی تمہارے ساتھ چلوں گا مسافرو!
اِس دکھ بھرے دیار میں جینا محال ہے

طارق عزیز
 
ہم سب جانتے ہیں کہ سب کے آنے کا ایک دن ہے ویسے ہی جانے کا ایک دن مقرر ہے۔ کل ہم نے بھی چلے جانا ہے سدا کون یہاں رہ سکا ہے۔

زندگی ہے اپنے قبضے میں نہ اپنے بس میں موت
آدمی مجبور ہے اور کس قدر مجبور ہے

آج سب سے افسردہ کر دینے والی خبر طارق عزیز صاحب کی وفات کی خبر ہے۔ ہمارا بچپن سے کچھ نام ایسے جڑے ہیں وہ بچپن کا حصہ ہی معلوم ہوتے ہیں۔ان میں ایک نام طارق عزیز کا بھی ہے۔ یادوں کی کھڑکیاں کھولیں تو دیکھتی آنکھوں سنتے کانوں آپ کو طارق عزیز کا سلام پہنچے کے الفاظ بہت شد مد سے زندہ ہے ۔۔۔عزیزان من کا شیریں انداز۔۔۔
نیلام گھر پاکستان میں پہلا گیم شو تھا مگر آج کل کی اچھل کود جیسا نا تھا۔ سوالات بہت دلچسپ ہوتے اور معلومات میں اضافہ کرنے والے ہوتے تھے۔تاریخ اسلام اور تاریخ پاکستان سے متعلق ہوتے تھے۔ جب نو بیاہتا جوڑے آتے تو جو پاس منظر میں میوزک چلایا جاتا اس کے ساتھ ہی سب کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آ جاتی۔ واشنگ مشین/ٹی وی / فریج کی قیمت 1 سے 10 تک ہے کے اعلان کے ساتھ ہم بھی تکے لگاتے اور جس کا نمبر درست ثابت ہوتا وہ تو خوشی سے اچھل ہی پڑتا تھا۔
بیت بازی ہم سب کا پسندیدہ سیگمنٹ تھا ۔ میں کاغذ قلم لے کر بیٹھتی تھی اور شعر نوٹ کرنے کی کوشش کرتی۔ اور جب وہ خود شعر پڑھ کر مقابلے کا آغاز کرتے تو وہ شعر سب سے ہی اعلی ہوتا تھا اور ان کا شعر پڑھنے کا انداز گویا آپ اس کو محسوس کر رہے ہوں۔ ہم بھی اپنی ٹیمیں منتخب کر لیتے تھے اور ان کی جیت ہماری جیت ہوتی تھی۔ *ی* ایک دو تین کے ساتھ دل کی دھڑکن بڑھتی رہتی ۔
ہال میں کم سے کم بجلی کا بل یا چمچ ،ٹوتھ برش وغیرہ برآمد کرنا بھی بہت مزہ دیتا تھا۔
پروگرام کے آخر میں سب کا کھڑے ہو جانا اور *پاکستان زندہ باد* کا نعرہ ۔۔۔۔۔جذبہ حب الوطنی سے پھر پور ہوتا تھا۔ مجھے لگتا ہے سارا پاکستان ان کے ساتھ نعرے میں شریک ہوتا تھا۔
ہم بڑے ہوتے گئے، نیلام گھر طارق عزیز شو میں بدل گیا اور پھر ٹی وی چینل کی بھرمار ہو گئی اور وہ پس پردہ چلے گئے۔
بہت سال بعد ان کو ٹیویٹر کے ذریعے دوبارہ پڑھنے کا موقع ملا۔ کسی نے ایک تصویر لگائی تو دل بہت اداس ہوا ہر عروج کو زوال ہے کے مصدق کافی کمزور اور بوڑھے ہو گئے تھے( ہم بھی تو اب ویسے نہیں رہے نا)۔
ہمارے عہد کی جو نسلیں ان سے واقف ہیں جن کا بچپن نیلام گھر یا طارق عزیز شو دیکھتے جوانی کو پہنچا ہے، آج بےحد اداس ہوں گے۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ ان سے بہترین معاملہ فرمائیں آمین

جنہیں اب گردش افلاک پیدا کر نہیں سکتی
کچھ ایسی ہستیاں بھی دفن ہیں گور غریباں میں

️ حمیرا حیدر
 
ہم سب جانتے ہیں کہ سب کے آنے کا ایک دن ہے ویسے ہی جانے کا ایک دن مقرر ہے۔ کل ہم نے بھی چلے جانا ہے سدا کون یہاں رہ سکا ہے۔

زندگی ہے اپنے قبضے میں نہ اپنے بس میں موت
آدمی مجبور ہے اور کس قدر مجبور ہے

آج سب سے افسردہ کر دینے والی خبر طارق عزیز صاحب کی وفات کی خبر ہے۔ ہمارا بچپن سے کچھ نام ایسے جڑے ہیں وہ بچپن کا حصہ ہی معلوم ہوتے ہیں۔ان میں ایک نام طارق عزیز کا بھی ہے۔ یادوں کی کھڑکیاں کھولیں تو دیکھتی آنکھوں سنتے کانوں آپ کو طارق عزیز کا سلام پہنچے کے الفاظ بہت شد مد سے زندہ ہے ۔۔۔عزیزان من کا شیریں انداز۔۔۔
نیلام گھر پاکستان میں پہلا گیم شو تھا مگر آج کل کی اچھل کود جیسا نا تھا۔ سوالات بہت دلچسپ ہوتے اور معلومات میں اضافہ کرنے والے ہوتے تھے۔تاریخ اسلام اور تاریخ پاکستان سے متعلق ہوتے تھے۔ جب نو بیاہتا جوڑے آتے تو جو پاس منظر میں میوزک چلایا جاتا اس کے ساتھ ہی سب کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آ جاتی۔ واشنگ مشین/ٹی وی / فریج کی قیمت 1 سے 10 تک ہے کے اعلان کے ساتھ ہم بھی تکے لگاتے اور جس کا نمبر درست ثابت ہوتا وہ تو خوشی سے اچھل ہی پڑتا تھا۔
بیت بازی ہم سب کا پسندیدہ سیگمنٹ تھا ۔ میں کاغذ قلم لے کر بیٹھتی تھی اور شعر نوٹ کرنے کی کوشش کرتی۔ اور جب وہ خود شعر پڑھ کر مقابلے کا آغاز کرتے تو وہ شعر سب سے ہی اعلی ہوتا تھا اور ان کا شعر پڑھنے کا انداز گویا آپ اس کو محسوس کر رہے ہوں۔ ہم بھی اپنی ٹیمیں منتخب کر لیتے تھے اور ان کی جیت ہماری جیت ہوتی تھی۔ *ی* ایک دو تین کے ساتھ دل کی دھڑکن بڑھتی رہتی ۔
ہال میں کم سے کم بجلی کا بل یا چمچ ،ٹوتھ برش وغیرہ برآمد کرنا بھی بہت مزہ دیتا تھا۔
پروگرام کے آخر میں سب کا کھڑے ہو جانا اور *پاکستان زندہ باد* کا نعرہ ۔۔۔۔۔جذبہ حب الوطنی سے پھر پور ہوتا تھا۔ مجھے لگتا ہے سارا پاکستان ان کے ساتھ نعرے میں شریک ہوتا تھا۔
ہم بڑے ہوتے گئے، نیلام گھر طارق عزیز شو میں بدل گیا اور پھر ٹی وی چینل کی بھرمار ہو گئی اور وہ پس پردہ چلے گئے۔
بہت سال بعد ان کو ٹیویٹر کے ذریعے دوبارہ پڑھنے کا موقع ملا۔ کسی نے ایک تصویر لگائی تو دل بہت اداس ہوا ہر عروج کو زوال ہے کے مصدق کافی کمزور اور بوڑھے ہو گئے تھے( ہم بھی تو اب ویسے نہیں رہے نا)۔
ہمارے عہد کی جو نسلیں ان سے واقف ہیں جن کا بچپن نیلام گھر یا طارق عزیز شو دیکھتے جوانی کو پہنچا ہے، آج بےحد اداس ہوں گے۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ ان سے بہترین معاملہ فرمائیں آمین

جنہیں اب گردش افلاک پیدا کر نہیں سکتی
کچھ ایسی ہستیاں بھی دفن ہیں گور غریباں میں

️ حمیرا حیدر
آمین ثم آمین
بہت عمدہ اور زبردست خراج عقیدت
 
گیم شوز میں نہ دیکھنے والی آنکھیں رہی تھیں، نہ سننے والے کان رہ گئے تھے۔
بس اب تو صرف مانگنے والے ہاتھ ہی رہ گئے تھے۔
طارق عزیز بھی مایوس ہو کر چل دیے۔
 

سین خے

محفلین
انا للہ و انا الیہ راجعون

اللہ پاک مرحوم کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں بلند مقام عطا فرمائے آمین
 

وجی

لائبریرین
انا للہ و انا الیہ راجعون۔

بچپن کی یادوں میں بسے ایک استاد کی حیثیت رکھنے والی شخصیت ہم سے رخصت ہوگئی ۔
وہ پاکستان زندہ باد کا نعرہ میں ہمارا شامل ہونا ۔
اللہ انکی مغفرت و بخشش فرمائے آمین ثم آمین۔
 
طارق عزیز مرحوم کا 80، 90 کی دہائی میں نوجوانوں کو ادب کی طرف راغب کرنے اور خاص طور پر شعر و شاعری کا شغف پیدا کرنے میں بہت اہم کردار رہا۔
مجھے آج بھی یاد ہے کہ 90 کی دہائی میں ہم سیکنڈری سکول میں بھی اکثر اوقات کلاس کے فارغ اوقات میں 2 ٹیمز بنا کر بیت بازی کرنے بیٹھ جاتے تھے، اور مشہور شعراء کے علاوہ کوئی شعر قبول نہیں کیا جاتا تھا۔ یعنی یہ وہ ذوق کا عالم تھا جو طارق عزیز صاحب کی مرہونِ منت پروان چڑھا۔
 

شکیب

محفلین
انا للہ و انا الیہ رجعون۔
ان کا بیت بازی والا پروگرام یہاں بھی بہت مشہور تھا۔
 
Top