معرکہ مذہب وسائنس

سید عاطف علی

لائبریرین
آپ بھی میرے محترم ہیں۔ :)
اختلاف کے ساتھ کہوں گا کہ مذہب اسلام ایمانیات پر بنیاد رکھتا ہے۔ استدلال پر اصرار کرتا ہے۔ لیکن سائٹفیک طریقہ کار کے تابع نہیں کرتا۔ کہ سائنس کی بنیاد ایمان(مذہب کی بنیاد) کے برعکس تشکیک ہے۔ جو مذہب میں ممنوع ہے۔
میرے ذاتی خیال میں ایسا صرف اس صورت میں ممکن ہے جب سائنس دان اپنی حدود سے تجاوز کرے۔اور سائنس کو مذہب کے مقابلے میں لاکر کھڑاکر کے اسے ایک مذہب بنا دے(ایسا لگتا ہے آپ کی فکر کی سوئی کسی نا معلوم وجہ سے اسی جگہ اٹک گئی ہے اسی لئے استدلال کا راستہ اختیار نہیں کررہے ۔ مجھے آپ سے کوئی پرخاش نہیں معافی چاہتا ہوں۔ ) ۔
بہر حال اپنی حدود کے اندر رہے تو ہر چیز اچھی رہتی ہے۔:laughing:۔اور حدود متعین کرنا مذہب کا کام ہے نہ کہ سائنس کا۔ایسی صورت میں سائنس مذہب کے لئے اوزار اور مشینری کے طور پر معاون ہو سکتی ہے۔لیکن یہ تمام اقدار آپ کاتعین آپ کے زاویہ ءفکر اور سطحِ فکر اور ساید لچک ِ فکر سے ہوتا ہے۔
 

سید ذیشان

محفلین
کافی دلچسپ موضوع ہے۔ اسلام اور سائنس۔ ایسے بھائی جو اسلام اور سائنس میں کوئی تضاد نہیں دیکھتے وہ ڈارون کے نظریۂ ارتقا کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ کیونکہ یہ نظریہ تو سائنس کے مسلمات میں سے ہے۔
 
مدیر کی آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
کافی دلچسپ موضوع ہے۔ اسلام اور سائنس۔ ایسے بھائی جو اسلام اور سائنس میں کوئی تضاد نہیں دیکھتے وہ ڈارون کے نظریۂ ارتقا کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ کیونکہ یہ نظریہ تو سائنس کے مسلمات میں سے ہے۔
ذیشان صاحب کی خدمت میں عرض ہے کہ چالس ڑابرٹ ڈارون کے جو نتائج موصوف نے بیگل نامی بحری جہاز پہ سوار ہو کر گولاپگس جزائر میں مکوڑے(بیٹلز) ،چڑیاں(فنچز) اور چھوٹی لمبی گردن والے کچھووں کو دیکھ کر اخذ کئے ۔وہ واقعی میری نظر میں بھی قابل قدراور دلچسپ ہیں ۔لیکن ان کا خدائی انکار تک پہنچایا جانا ایک متنازعہ نظریہ ہے۔ اسی لئے یہ نظریہ ایک نظریہ ہی رہا کسی سائنسی قانون کی حیثیت کبھی اختیار نہ کر سکا۔ جیسے کہ نیوٹن کا قانون تجاذب ۔
اگر جناب نے سائنس پڑھی ہو تو تھیوری اور لا ء کا فرق بھی امید ہے سمجھتے ہوں گے ۔ بوہر اٹامک تھیوری ۔ بوائلز لاء ۔وغیرہم۔۔ ۔اس طرح اور بھی بہت سی تھیوریز ہیں بایو جینسیز ۔ابایو جینسز ۔ماڈرن تھیوری وغیرہ۔
 

آصف اثر

معطل
کافی دلچسپ موضوع ہے۔ اسلام اور سائنس۔ ایسے بھائی جو اسلام اور سائنس میں کوئی تضاد نہیں دیکھتے وہ ڈارون کے نظریۂ ارتقا کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ کیونکہ یہ نظریہ تو سائنس کے مسلمات میں سے ہے۔
ذیشان بھائی، ڈارون کا نظریۂ ارتقا ایک "نظریہ" ہے "قانون" نہیں۔ جب کوئی نظریہ ہر لحاظ سے درست ثابت ہوجاتا ہےتب وہ"قانون" یعنی سائنس بن جاتا ہے۔ڈارون کا نظریۂ ارتقا ایک ایسا مضحکہ خیز افسانہ ہے جسے کوئی عقل کا بندہ بھی قبول کرنے پر تیار نہیں۔ ذرا تفصیل سے پڑھتے ہیں تاکہ بات سمجھ میں آسانی سے آجائے۔

"اس نظریئے کے مطابق انواع کا ارتقاء، تغیرات (Mutations) اور ان کے جین (Genes) میں معمولی تبدیلیوں سے ہوا۔ مزید یہ کہ (ارتقاء پذیر ہونے والی ان نئی انواع میں سے ) صرف وہی انواع باقی بچیں جو فطری انتخاب کے نظام کے تحت موزوں ترین (Fittest) تھیں۔ مگر جب یہ ثابت کیا گیا کہ جدید ڈارونزم کے مجوزہ نظامات درست نہیں ، اور یہ کہ نئی انواع کی تشکیل کے لئے معمولی جینیاتی تبدیلیاں کافی نہیں ہیں ، تو ارتقاء کے حمایتی ایک بار پھر نئے ماڈلوں کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔

اب کی بار وہ ایک نیا دعویٰ لے کر آئے جسے ’’نشان زد توازن‘‘(Punctuated Equilibrium) کہا جاتا ہے ، اور اس کی بھی کوئی معقول سائنسی بنیاد نہیں ہے۔ اس ماڈل کی رُو سے جاندار کوئی ’’درمیانی شکل‘‘ اختیار کئے بغیر، اچانک ہی ایک سے دوسری انواع میں ارتقاء پذیر ہو گئے۔ با الفاظِ دیگر یہ کہ کوئی نوع اپنے ’’ارتقائی آباء و اجداد‘‘ کے بغیر ہی وجود میں آ گئی۔ اگر ہم یہ کہیں کہ انواع کو ’’تخلیق‘‘ کیا گیا ہے (یعنی ان کا کوئی خالق ضرور ہے ) تو ہم بھی وہی کہہ رہے ہوں گے جو نشان زد توازن میں کہا گیا ہے۔ لیکن ارتقاء پرست، نشان زد توازن کے اس پہلو کو قبول نہیں کرتے (جو خالق کی طرف اشارہ کر رہا ہے )۔ اس کے بجائے وہ حقیقت کو ناقابلِ فہم منظر ناموں سے ڈھانپنے کی کوشش کرنے لگے۔ مثلاً یہ کہ دنیا کا پہلا پرندہ اچانک ہی، ناقابلِ تشریح انداز میں ، رینگنے والے کسی جانور یعنی ہوّام (Reptile) کے انڈے سے پیدا ہو گیا۔ یہی نظریہ ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ زمین پر بسنے والے گوشت خور جاندار کسی (ناقابلِ فہم) وجہ سے ، زبردست قسم کے جینیاتی تغیرات کا شکار ہو کر، دیو قامت وہیل مچھلیوں میں تبدیل ہو گئے ہوں گے۔

یہ دعوے جینیات، حیاتی طبیعیات اور حیاتی کیمیا کے طے شدہ قواعد و ضوابط سے بری طرح متصادم ہیں اور ان میں اتنی ہی سائنسی صداقت ممکن ہے جتنی مینڈک کے شہزادے میں تبدیل ہو جانے والی جادوئی کہانیوں میں ہو سکتی ہے۔ ان تمام خرابیوں اور نقائص کے باوجود، جدید ڈارونزم کے پیش کردہ نتائج اور پیدا شدہ بحران سے عاجز آئے ہوئے کچھ ارتقاء پرست ماہرینِ معدومیات (Paleontologists) نے اس نظریئے (نشان زد توازن) کو گلے سے لگا لیا جو اپنی ذات میں جدید ڈارونزم سے بھی زیادہ عجیب و غریب اور ناقابلِ فہم ہے۔

اس نئے ماڈل کا واحد مقصد صرف یہ تھا کہ رکازی ریکارڈ میں خالی جگہوں کی موجودگی (یعنی زندگی کی درمیانی شکلوں کی عدم موجودگی) کی وضاحت فراہم کی جائے ، جنہیں واضح کرنے سے جدید ڈارونزم بھی قاصر تھا۔ مگر ریکارڈ کی عدم موجودگی کے ثبوت میں یہ کہنا ’’رینگنے والے جانور کا انڈا ٹوٹا اور اس میں سے پرندہ برآمد ہوا‘‘ بمشکل ہی معقول دلیل سمجھا جائے گا۔ وجہ صاف ظاہر ہے۔ ڈاروِن کا نظریہ ارتقاء خود کہتا ہے کہ انواع کو ایک سے دوسری شکل میں ڈھلنے کے لئے زبردست اور مفید قسم کا جینیاتی تغیر درکار ہوتا ہے۔ اس کے برعکس کوئی جینیاتی تغیر بھی، خواہ وہ کسی بھی پیمانے کا ہو، جینیاتی معلومات کو بہتر بناتا ہویا ان میں اضافہ کرتا ہوا نہیں پایا گیا۔ تغیرات (تبدیلیوں ) سے تو جینیاتی معلومات تلپٹ ہو کر رہ جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ’’مجموعی تغیرات‘‘ (Gross Mutations) جن کا تصور نشان زد توازن کے ذریعے پیش کیا گیا ہے ، صرف جینیاتی معلومات میں کمی اور خامی کا باعث ہی بن سکتے ہیں۔

اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ’’نشان زد توازن‘‘ کا نظریہ بھی محض تخیلات کا حاصل ہے۔ اس کھلی ہوئی سچائی کے باوجود ارتقاء کے حامی اس نظریئے کو ماننے سے بالکل نہیں ہچکچاتے۔ وہ جانتے تھے کہ رکازات کے ریکارڈ کی عدم موجودگی، ڈاروِن کے نظریہ ارتقاء سے ثابت نہیں کی جاسکتی لہٰذا وہ نشان زد توازن کو ماننے پر مجبور ہو گئے۔ مگر خود ڈاروِن کا کہنا تھا کہ انواع کا ارتقاء بتدریج ہوا تھا (یعنی وہ تھوڑی تھوڑی کر کے تبدیل ہوئی تھیں )، جس کے باعث یہ اشد ضروری تھا کہ آدھا پرندہ/ آدھا ہوّام، یا آدھی مچھلی/ آدھا چوپایہ جیسے عجیب الخلقت جانداروں کے رکازات دریافت کئے جائیں۔ تاہم اب تک، ساری تحقیق و تلاش کے بعد بھی ان ’’درمیانی (انتقالی) شکلوں’’ کی ایک مثال بھی سامنے نہیں آ سکی۔ حالانکہ اس دوران لاکھوں رکازات، زمین سے برآمد ہو چکے ہیں۔

ارتقاء پرست صرف اس لئے نشان زد توازن والے ماڈل سے چمٹ گئے ہیں تاکہ رکازات کی صورت میں ہونے والی اپنی شکست فاش کو چھپا سکیں۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ نشان زد توازن کو کسی باضابطہ ماڈل کی حیثیت سے اختیار نہیں کیا گیا، بلکہ اسے تو صرف ان مواقع پر راہِ فرار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے جہاں تدریجی ارتقاء سے بات واضح نہیں ہو پاتی۔ آج کے ماہرینِ ارتقاء یہ محسوس کرتے ہیں کہ آنکھ، پر، پھیپھڑے ، دماغ اور دوسرے پیچیدہ اعضاء علی الاعلان تدریجی ارتقائی ماڈل کو غلط ثابت کر رہے ہیں۔ بطورِ خاص انہی نکات پر آ کر وہ مجبوراً نشان زد توازن والے ماڈل میں پناہ لینے دوڑے آتے ہیں۔

سو یہ ہے ڈارون کے نظریہ ٴ ارتقاء کا خلاصہ ،جو اس وقت بھی صرف ایک نظریہ ہی تھا اور آج بھی نظریہ سے آگے نہیں بڑھ سکا۔اس نظریہ کو کوئی ایسی ٹھوس بنیاد مہیا نہیں ہو سکی جس کی بناء پر یہ نظریہ سائنس کا قانون (Scientific Law)بن سکے اس نظریہ پر بعد کے مفکرین نے شدید اعتراض کیے ہیں۔"
از ڈاکٹر ہارون یحیٰ۔

باقی تفصیل آئندہ۔
 

عثمان

محفلین
کافی دلچسپ موضوع ہے۔ اسلام اور سائنس۔ ایسے بھائی جو اسلام اور سائنس میں کوئی تضاد نہیں دیکھتے وہ ڈارون کے نظریۂ ارتقا کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ کیونکہ یہ نظریہ تو سائنس کے مسلمات میں سے ہے۔
میٹھا میٹھا ہپ، کڑوا کڑوا تھو!
جو کچھ سائنس میں اپنے مذہبی نظریے کے موافق ہو وہ حقانیت کی مثل دینے کی زینت بنتا ہے۔ باقی سب ملحدین کی سازش کے کھاتے میں۔ :)
 

عثمان

محفلین
میرے ذاتی خیال میں ایسا صرف اس صورت میں ممکن ہے جب سائنس دان اپنی حدود سے تجاوز کرے۔اور سائنس کو مذہب کے مقابلے میں لاکر کھڑاکر کے اسے ایک مذہب بنا دے
سائنسدان کی نہیں بلکہ سائنس کی حدود ہوتی ہیں جو سائنس خود طے کرتی ہے۔ Skepticism & Inquiry کا عمل کسی فرد کی خواہش یا رویے کے تابع نہیں۔ اور بالفرض اگر کسی فرد کی سوئی اٹک بھی جائے تو بھی سائنس میں اجتماعی تحقیقی عمل آبجیکٹو ہے۔
کوئی فرد اگر سائنس کو مذہب کے سامنے لاکھڑا کرے بھی تو بھی یہ عمل سائنس نہیں کہلاتا۔

بہر حال اپنی حدود کے اندر رہے تو ہر چیز اچھی رہتی ہے۔:laughing:۔اور حدود متعین کرنا مذہب کا کام ہے نہ کہ سائنس کا۔
سائنس کی حدود اپنی ، مذہب کی اپنی۔ دونوں میں سے کوئی بھی ایک دوسرے کی حدود طے نہیں کرتے۔

ایسی صورت میں سائنس مذہب کے لئے اوزار اور مشینری کے طور پر معاون ہو سکتی ہے۔لیکن یہ تمام اقدار آپ کاتعین آپ کے زاویہ ءفکر اور سطحِ فکر اور ساید لچک ِ فکر سے ہوتا ہے۔
یہاں مسکان میری طرف سے وصول کیجیے۔ :laughing:

(ایسا لگتا ہے آپ کی فکر کی سوئی کسی نا معلوم وجہ سے اسی جگہ اٹک گئی ہے اسی لئے استدلال کا راستہ اختیار نہیں کررہے ۔ مجھے آپ سے کوئی پرخاش نہیں معافی چاہتا ہوں۔ ) ۔
دوسرے کی رائے پر یہ کچھ کہنے کے بعد معذرت بے معنی ہے۔ :)
 

عثمان

محفلین
مذہب کو سائنس کا تڑکہ لگانا کیوں ضروری ہے؟ زمانے کا جبر ؟ کہ جب تک کوئی چیز "سائنسی" نہیں ہوگی ، قبولیت کا درجہ نہیں پائے گی ؟
حالانکہ مذہب کی بنیاد ایمانیات ہے۔ ایمان لانے کے لیے سائنسی توجیہہ کی حاجت نہیں۔ مذہب کا دائرہ استدلال اپنا ہے۔اس پر چل کر آپ ایمان مظبوط کر سکتے ہیں۔ جبکہ مذہب اور سائنس کو Reconcile کر کے آپ دونوں میں سے کسی کی بھی خدمت نہیں کر رہے۔ :)
 

قیصرانی

لائبریرین
آپ کے نزدیک سائنس ہے کیا ؟
میرے نقطہ ء نظر سے قرآن سائنس کی کتاب نہیں ہے بلکہ انسانی زندگی کے مقاصد کی اعلی درجے کی تکمیل کاایک جامع ضابطہء اخلاق مکمل دستور پیش کرتی ہے اور یہ کسی زمانے پر قید نہیں ہے۔عثمان صاحب کے بقول "کچھ " مظاہر فطرت" کا تذکرہ ہے۔۔ ۔۔
کیا آپ قرآن مجید کی اس کثرت ِ آیات سے متفق ہیں کہ جو انسان کو کائنات پر، اس کی تخلیقات اور اس کے غور وفکر کی طرف کھینچتی اورعلم کے حصول کے لیے جھنجھوڑتی نظر آتی ہیں ۔بنا بریں مشرق و مغرب کے مصنفین نے قران اور سائنس پرکتنا کچھ اظہار خیال کیا ہے اس کی فہرست کتنی طویل ہے اورکیا یہ ان " چند مظاہر فطرت" کی تفسیر ہے ؟۔
اس ضمن میں میں آپ کو ڈاکٹر اقبال کی کتاب ری کنسٹرکشن اف ریلجس تھاٹ ان اسلام کے پہلے خطبے کے مطالعے کی دعوت دینا دینا چاہوں گا جس میں انہوں نے انسان کائنات اور قران کے باہمی تعلق پر کچھ اظہار خیال کیا ہے ۔بشرطیکہ استدلال اورانصاف کی معتدل نگاہ سے دیکھا جائے:)۔البتہ ہمارے مفکرین پر چند سو سالوں سے جو فکری جمود طاری رہا ہے اس سے کچھ غلط فہمیاں ضرور پیدا ہوئی ہیں۔۔
قرآن کہتا ہے کہ کوئی نہیں جانتا کہ ماں کے پیٹ میں کیا ہے۔ آج کے دور میں الٹرا ساؤنڈ کی بدولت آپ تصویری شکل میں بچے کو دیکھ سکتے ہیں
قرآن کہتا ہے کہ کوئی نہیں جانتا کہ بارش کب ہوگی، جدید سائنس عام طور پر درست انداز میں اس کی پیشین گوئی کر سکتی ہے اور اب تو مخصوص حالات کے مطابق مصنوعی بارش برسانے تک کا مرحلہ آ چکا ہے
میں یہ نہیں کہہ رہا کہ خدانخواستہ قرآن کی باتیں غلط ہیں، میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ ہمارے علماء نے قرآن کی غلط تشریح پیش کر کے اس طرح کی الجھنیں پیدا کی ہیں۔ تاہم یہ میری رائے ہے، ضروری نہیں کہ کوئی اس سے اتفاق کرے :)
 

سید عاطف علی

لائبریرین
مذہب کو سائنس کا تڑکہ لگانا کیوں ضروری ہے؟ زمانے کا جبر ؟ کہ جب تک کوئی چیز "سائنسی" نہیں ہوگی ، قبولیت کا درجہ نہیں پائے گی ؟
حالانکہ مذہب کی بنیاد ایمانیات ہے۔ ایمان لانے کے لیے سائنسی توجیہہ کی حاجت نہیں۔ مذہب کا دائرہ استدلال اپنا ہے۔اس پر چل کر آپ ایمان مظبوط کر سکتے ہیں۔ جبکہ مذہب اور سائنس کو Reconcile کر کے آپ دونوں میں سے کسی کی بھی خدمت نہیں کر رہے۔ :)
آپ کے پیش کردہ استدلال کی سوئی کے پیش نظر میں آپ کی مسکان ایک جگہ نہیں پورے مراسلے میں بخوشی قبول کرتا ہوں۔۔۔نہ جانے کس سبب آپ کو سائنس اور مذہب کی حریفانہ کشاکش کا چٹخارا لگ گیا ہے بہر حال آپ کا اختیا ہے ؟۔اور ایسی استقامت کو مندرجہ ذیل الفاظ میں خراج پیش کرنے کی جسارت کرتا ہوں قبول کیجئے اگر منظور ہو۔:p
مرے بت خانے میں تو کعبے میں گاڑو برہمن کو:laughing:۔(مرزا غالب)
 

قیصرانی

لائبریرین
ایک سوال میری جانب سے۔ کیا مذہب (یعنی اسلام کے علاوہ بھی مذاہب) یا قرآن کی رو سے آپ ثابت کر سکتے ہیں کہ انسان کے علاوہ دیگر تمام جاندار کیسے پیدا ہوئے یا کیسے موجودہ شکل تک پہنچے؟
پس نوشت: ہمیں حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش کا بتایا جاتا ہے لیکن سانپ، مور اور گندم کے پودے کی تخلیق کے بارے نہیں بتایا جاتا۔ اس سے یہ سوال ذہن میں ابھرا
 
عام افرادِ معاشرہ کے نزدیک سائنس اور مذہب کی راہیں جُدا جُدا ہی ہیں۔ مگر فکرِ عمیق کے حامل حُکما اور فلسفیوں کے نزدیک اِن دونوں موضوعات کا ماخذ ایک ہی ہے۔
یورپ کی نشاۃ ثانیہ بھی تنہا ملحدین کی مرہونِ منّت نہیں۔ اِس کا 80 ٪ اُن پادریوں کا مرہونِ منّت ہے جنہوں نے خود کو روائتی لکیر کی فقیری سے آزاد کروا کے صرف انجیلِ مقدس پر تکیہ کیا اور دُنیا و مافیہا کے قدرتی مظاہر پر غور و حوض شروع کر دیا اور زمانوی علوم کی خاطر تُرکی اور عراق کے مدارس میں تعلیم حاصل کی ۔
قبلہ آپ نے تو یورپی تاریخ ہی کو الٹا لٹکا دیا۔ :eek:
میں اپنی بات پر قائم ہوں ، جدید سائنس اُن شکست خوردہ عیسائی راہبوں کی مرہونِ منت ہے جنہوں نے مسلمانوں کے ہاتھوں مار کھا کے انسانی وسائل کے استحصال کے بجائے اُن کی نشوونما کا بیڑہ اُٹھایا۔ اپنا قبلہ بھی درست کیا اور دوسروں انسانوں کے لیے بھی باعثِ رحمت ثابت ہوئے۔

عقل سے دشمنی اور دوسروں کی محنت غبن کرنا عوام کے منظور و مرغوب روائتی مذہب پرستوں کا شیوہ ہے۔ مگر کچھ مومنِ حقّا ایسے ضرور ہیں جو خُود کو اللہ کے حکم کے مطابق غور و فکر کا پابند کر لیتے ہیں ۔ یہ سچ ہے کہ مذہب گاہیں بطور ادارہ ہمیشہ سے ہی انسانی ثقافت کی تباہی میں مصروف ہیں مگر جو حق شناس ذرا سا بھی اپنے ذہن کو استعمال کرتا ہے وہ اُن بنیادی اخلاقی اقدار تک پہنچ سکتا ہے جو آسمانی کُتب کا اصل موضوع رہی ہیں۔
اِس کے بر عکس دُنیا میں کوئی ایسا ضابطہ اخلاق نہیں جو کسی ملحد کو بھلائی کا پابند کر سکے یہ وہ لوگ ہیں جو پادری اور مولوی وغیرہ کی معاشرتی ناانصافیوں کا قصورور خُدا کو ٹھہراتے ہیں اور سوائے غصہ کے اور کوئی کام نہیں کر تے۔ ایجادات کو دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ اٹھارویں اور انیسویں صدی کی زیادہ تر ایجادات یہودی مومنین کے حصہ میں آئی ہیں اور اُس سے پہلے والی سب پادریوں کے کھاتہ میں جاتی ہیں۔ یہاں تک کہ معاشی نطامِ سرمایہ داری کے تانے بانے بھی پادری حضرات کے ایجاد کردہ نظامِ مضاربت و جاگیرداری سے جا ملتے ہیں۔

میں اِس موقع پر یورپ کی نشاۃِ ثانیہ کے سلسلے میں ہونے والے اہم واقعات آپ کے گوش گُزار کروں گا:
1000ء سے قبل مسلم سائنسدانوں میں جدید حسابی مساوات ، فلکیاتی قطب نما، مقناطیسیت ، کیمیائی عوامل ، آلاتِ جراحی اور انسانی ساخت اور بصریات پر تجربات کی روشنی میں کتب کی تخلیق
1192ء تیسری صلیبی جنگ میں رچرڈ شیر دل کا سلطان صلاح الدین کے ساتھ معاہدہ اور ممالکِ بحیرہ روم میں امن و امان کی واپسی
1450ء میں پرنٹنگ پریس کی ایجاد
1453ء قسطنطنیہ کی فتح اور رومن گرجے کا جنگی بنیادوں پر مسلمانوں کی طرز پر عملی علوم کے احیاء کے اقدامات
1488 ہوائی جہاز کا حسابی نقشہ ، جدید ریاضی ، طبیعات ، حیاتیات (صوفی لیونارڈو ڈاونشی)
1492 سقوط غرناطہ اور سپین سے آٹھ سو سالہ مسلم اقتدار کا خاتمہ
1497 واسکوڈز گاما کی ہندوستان آمد اور سمندری روابط کا انقلاب
1514 جدید علم فلکیات کی بنیاد (پادری نکولیس کوپرنیکس)
1521 انجیلِ مقدس کا المانوی ترجمہ اور مارٹن لوتھر کی رومن چرچ سے بے دخلی اور تمام یورپی ممالک میں مذہبی اصلاحات کی تحاریک
1529 ویانا آسٹریا پر تُرک سلطان سلیمان قانونی کا حملہ
1537 رومن کیتھولک چرچ کی جہالت سے بیزاری پر بطور نتیجہ چرچ آف انگلینڈ کا آغاز
1616 جدید سائنسی اصولوں کا اجراء اور راسخ العقیدہ گلیلیو گلیلی کا اپنی سزا پر سر تسلیمِ خم
1648 میں یورپ میں اسّی سالہ فرقہ ورانہ فسادات کا خاتمہ
1660 جدید علمِ حرحرکیات Thermodynamics اور علم کیمیا (صوفی روبرٹ بوالز)
1700 میں بھاپ انجن کی فراوانی اور نیوٹن کے قوانینِ حرکت، مذہب بیزاری کا آغاز
1799 ٹیپو سُلطان کی انگریزوں کے ہاتھوں شکست اور عالمی معاشی گرفت کے نظریات کا ظہور
1857 حیاتیاتی کی بجائے سماجی حقائق کی بنیاد پر "قدرتی چناؤ کے تحت حیوانی انواع کا ماخذ" نظریہ ارتقاء (ڈارون) اور نو آبادیاتی نظام اور نسلی تفاخر
1865 علم جینیات کی بنیاد (صوفی گریگور مینڈل)

عظیم سائنسدان جناب سٹیفن ہاکنگ کا ایک جملہ (مقتبس از A Brief Hisory of Time) بھی پیش کروں گا جِس سے اصلی عالم اور مذہبی عالم کا فرق ظاہر ہو جائے گا۔
"- - - مگر ہمیں جلد ہی معلوم ہو گیا کہ کائنات کی ابتدا سے قبل وقت کوئی معنی نہیں رکھتا، اِس بات کی نشاندہی سب سے پہلے صوفی حضرت آگسٹائن (354 - 430 عیسوی) نے کی تھی جب اُن سے پوچھا گیا کہ کائنات کی تخلیق سے پہلے خُدا کیا کر رہا تھا ، تو انھوں نے یہ جواب نہیں دیا کہ خدا ایسا سوال پوچھنے والوں کے لیے دوزخ تیار کر رہا تھا ، اس کے بجائے انہوں نے کہا تھا کہ وقت یا زمان کائنات کی صفت Property ہے جو خدا نے بنائی ہے اور وقت کائنات سے پہلے وجود نہیں رکھتا تھا۔"

خیر خواہ
خلیل
 

آصف اثر

معطل
میں چند تحریریں یہاں آپ سب کی خدمت میں پیش کرنا چاہوں گاتاکہ سائنس اور دینِ اسلام کو الگ الگ سمجھنے کی یہ غلط فہمی بھی دور ہوجائے۔
 

سید ذیشان

محفلین
ذیشان صاحب کی خدمت میں عرض ہے کہ چالس ڑابرٹ ڈارون کے جو نتائج موصوف نے بیگل نامی بحری جہاز پہ سوار ہو کر گولاپگس جزائر میں مکوڑے(بیٹلز) ،چڑیاں(فنچز) اور چھوٹی لمبی گردن والے کچھووں کو دیکھ کر اخذ کئے ۔وہ واقعی میری نظر میں بھی قابل قدراور دلچسپ ہیں ۔لیکن ان کا خدائی انکار تک پہنچایا جانا ایک متنازعہ نظریہ ہے۔ اسی لئے یہ نظریہ ایک نظریہ ہی رہا کسی سائنسی قانون کی حیثیت کبھی اختیار نہ کر سکا۔ جیسے کہ نیوٹن کا قانون تجاذب ۔
اگر جناب نے سائنس پڑھی ہو تو تھیوری اور لا ء کا فرق بھی امید ہے سمجھتے ہوں گے ۔ بوہر اٹامک تھیوری ۔ بوائلز لاء ۔وغیرہم۔۔ ۔اس طرح اور بھی بہت سی تھیوریز ہیں بایو جینسیز ۔ابایو جینسز ۔ماڈرن تھیوری وغیرہ۔


تھیوری اور لاء کے فرق کا ذکر کرنا ایک مضحکہ خیز بات ہے۔ نیوٹن کے سو کالڈ "لاز" کو آئنسٹائن کی "تھیوری" نے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا تھا۔ اور آج کل لاء کا لفظ استعمال کرنے سے سائنسدان کتراتے ہیں کیونکہ وہ پچھلے دور کے "لاز" کا حال دیکھ چکے ہیں۔ ڈارون کا نظریہ سائنسدانوں کی نظر میں ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ اس سے انکار ممکن نہیں ہے۔

خدائی انکار کی تو بات نہیں کی گئی۔ یہاں پر تخلیق کی بات ہو رہی ہے۔
 
آخری تدوین:

سید ذیشان

محفلین
ذیشان بھائی، ڈارون کا نظریۂ ارتقا ایک "نظریہ" ہے "قانون" نہیں۔ جب کوئی نظریہ ہر لحاظ سے درست ثابت ہوجاتا ہےتب وہ"قانون" یعنی سائنس بن جاتا ہے۔ڈارون کا نظریۂ ارتقا ایک ایسا مضحکہ خیز افسانہ ہے جسے کوئی عقل کا بندہ بھی قبول کرنے پر تیار نہیں۔ ذرا تفصیل سے پڑھتے ہیں تاکہ بات سمجھ میں آسانی سے آجائے۔

"اس نظریئے کے مطابق انواع کا ارتقاء، تغیرات (Mutations) اور ان کے جین (Genes) میں معمولی تبدیلیوں سے ہوا۔ مزید یہ کہ (ارتقاء پذیر ہونے والی ان نئی انواع میں سے ) صرف وہی انواع باقی بچیں جو فطری انتخاب کے نظام کے تحت موزوں ترین (Fittest) تھیں۔ مگر جب یہ ثابت کیا گیا کہ جدید ڈارونزم کے مجوزہ نظامات درست نہیں ، اور یہ کہ نئی انواع کی تشکیل کے لئے معمولی جینیاتی تبدیلیاں کافی نہیں ہیں ، تو ارتقاء کے حمایتی ایک بار پھر نئے ماڈلوں کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔

اب کی بار وہ ایک نیا دعویٰ لے کر آئے جسے ’’نشان زد توازن‘‘(Punctuated Equilibrium) کہا جاتا ہے ، اور اس کی بھی کوئی معقول سائنسی بنیاد نہیں ہے۔ اس ماڈل کی رُو سے جاندار کوئی ’’درمیانی شکل‘‘ اختیار کئے بغیر، اچانک ہی ایک سے دوسری انواع میں ارتقاء پذیر ہو گئے۔ با الفاظِ دیگر یہ کہ کوئی نوع اپنے ’’ارتقائی آباء و اجداد‘‘ کے بغیر ہی وجود میں آ گئی۔ اگر ہم یہ کہیں کہ انواع کو ’’تخلیق‘‘ کیا گیا ہے (یعنی ان کا کوئی خالق ضرور ہے ) تو ہم بھی وہی کہہ رہے ہوں گے جو نشان زد توازن میں کہا گیا ہے۔ لیکن ارتقاء پرست، نشان زد توازن کے اس پہلو کو قبول نہیں کرتے (جو خالق کی طرف اشارہ کر رہا ہے )۔ اس کے بجائے وہ حقیقت کو ناقابلِ فہم منظر ناموں سے ڈھانپنے کی کوشش کرنے لگے۔ مثلاً یہ کہ دنیا کا پہلا پرندہ اچانک ہی، ناقابلِ تشریح انداز میں ، رینگنے والے کسی جانور یعنی ہوّام (Reptile) کے انڈے سے پیدا ہو گیا۔ یہی نظریہ ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ زمین پر بسنے والے گوشت خور جاندار کسی (ناقابلِ فہم) وجہ سے ، زبردست قسم کے جینیاتی تغیرات کا شکار ہو کر، دیو قامت وہیل مچھلیوں میں تبدیل ہو گئے ہوں گے۔

یہ دعوے جینیات، حیاتی طبیعیات اور حیاتی کیمیا کے طے شدہ قواعد و ضوابط سے بری طرح متصادم ہیں اور ان میں اتنی ہی سائنسی صداقت ممکن ہے جتنی مینڈک کے شہزادے میں تبدیل ہو جانے والی جادوئی کہانیوں میں ہو سکتی ہے۔ ان تمام خرابیوں اور نقائص کے باوجود، جدید ڈارونزم کے پیش کردہ نتائج اور پیدا شدہ بحران سے عاجز آئے ہوئے کچھ ارتقاء پرست ماہرینِ معدومیات (Paleontologists) نے اس نظریئے (نشان زد توازن) کو گلے سے لگا لیا جو اپنی ذات میں جدید ڈارونزم سے بھی زیادہ عجیب و غریب اور ناقابلِ فہم ہے۔

اس نئے ماڈل کا واحد مقصد صرف یہ تھا کہ رکازی ریکارڈ میں خالی جگہوں کی موجودگی (یعنی زندگی کی درمیانی شکلوں کی عدم موجودگی) کی وضاحت فراہم کی جائے ، جنہیں واضح کرنے سے جدید ڈارونزم بھی قاصر تھا۔ مگر ریکارڈ کی عدم موجودگی کے ثبوت میں یہ کہنا ’’رینگنے والے جانور کا انڈا ٹوٹا اور اس میں سے پرندہ برآمد ہوا‘‘ بمشکل ہی معقول دلیل سمجھا جائے گا۔ وجہ صاف ظاہر ہے۔ ڈاروِن کا نظریہ ارتقاء خود کہتا ہے کہ انواع کو ایک سے دوسری شکل میں ڈھلنے کے لئے زبردست اور مفید قسم کا جینیاتی تغیر درکار ہوتا ہے۔ اس کے برعکس کوئی جینیاتی تغیر بھی، خواہ وہ کسی بھی پیمانے کا ہو، جینیاتی معلومات کو بہتر بناتا ہویا ان میں اضافہ کرتا ہوا نہیں پایا گیا۔ تغیرات (تبدیلیوں ) سے تو جینیاتی معلومات تلپٹ ہو کر رہ جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ’’مجموعی تغیرات‘‘ (Gross Mutations) جن کا تصور نشان زد توازن کے ذریعے پیش کیا گیا ہے ، صرف جینیاتی معلومات میں کمی اور خامی کا باعث ہی بن سکتے ہیں۔

اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ’’نشان زد توازن‘‘ کا نظریہ بھی محض تخیلات کا حاصل ہے۔ اس کھلی ہوئی سچائی کے باوجود ارتقاء کے حامی اس نظریئے کو ماننے سے بالکل نہیں ہچکچاتے۔ وہ جانتے تھے کہ رکازات کے ریکارڈ کی عدم موجودگی، ڈاروِن کے نظریہ ارتقاء سے ثابت نہیں کی جاسکتی لہٰذا وہ نشان زد توازن کو ماننے پر مجبور ہو گئے۔ مگر خود ڈاروِن کا کہنا تھا کہ انواع کا ارتقاء بتدریج ہوا تھا (یعنی وہ تھوڑی تھوڑی کر کے تبدیل ہوئی تھیں )، جس کے باعث یہ اشد ضروری تھا کہ آدھا پرندہ/ آدھا ہوّام، یا آدھی مچھلی/ آدھا چوپایہ جیسے عجیب الخلقت جانداروں کے رکازات دریافت کئے جائیں۔ تاہم اب تک، ساری تحقیق و تلاش کے بعد بھی ان ’’درمیانی (انتقالی) شکلوں’’ کی ایک مثال بھی سامنے نہیں آ سکی۔ حالانکہ اس دوران لاکھوں رکازات، زمین سے برآمد ہو چکے ہیں۔

ارتقاء پرست صرف اس لئے نشان زد توازن والے ماڈل سے چمٹ گئے ہیں تاکہ رکازات کی صورت میں ہونے والی اپنی شکست فاش کو چھپا سکیں۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ نشان زد توازن کو کسی باضابطہ ماڈل کی حیثیت سے اختیار نہیں کیا گیا، بلکہ اسے تو صرف ان مواقع پر راہِ فرار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے جہاں تدریجی ارتقاء سے بات واضح نہیں ہو پاتی۔ آج کے ماہرینِ ارتقاء یہ محسوس کرتے ہیں کہ آنکھ، پر، پھیپھڑے ، دماغ اور دوسرے پیچیدہ اعضاء علی الاعلان تدریجی ارتقائی ماڈل کو غلط ثابت کر رہے ہیں۔ بطورِ خاص انہی نکات پر آ کر وہ مجبوراً نشان زد توازن والے ماڈل میں پناہ لینے دوڑے آتے ہیں۔

سو یہ ہے ڈارون کے نظریہ ٴ ارتقاء کا خلاصہ ،جو اس وقت بھی صرف ایک نظریہ ہی تھا اور آج بھی نظریہ سے آگے نہیں بڑھ سکا۔اس نظریہ کو کوئی ایسی ٹھوس بنیاد مہیا نہیں ہو سکی جس کی بناء پر یہ نظریہ سائنس کا قانون (Scientific Law)بن سکے اس نظریہ پر بعد کے مفکرین نے شدید اعتراض کیے ہیں۔"
از ڈاکٹر ہارون یحیٰ۔

باقی تفصیل آئندہ۔

تھیوری اور لاء والی بات کا جواب اوپر مراسلے میں دیکھیں۔

جہاں تک عدنان اوکتار (ہارون یحییٰ ) کا تعلق ہے تو وہ سائنس کا اکسپرٹ کب سے ہو گیا جو اس کی تحاریر پیش کی جا رہی ہیں۔ اس سے پہلے بھی اسی طرح کے ایک اکسپرٹ فتح اللہ گولن کی تحریر پر میں نے کچھ لکھا تھا۔ اس کو ذرا پڑھیں۔

اور بہتر یہ ہوگا کہ کاپی پیسٹ کی جگہ اپنے خیالات پیش کئے جائیں۔ اور جہاں پر کسی حوالے کی ضرورت ہو تو اس کا لنک پیسٹ کریں۔ اس طرح گفتگو زیادہ سیر حاصل رہے گی۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
تھیوری اور لاء کے فرق کا ذکر کرنا ایک مضحکہ خیز بات ہے۔ نیوٹن کے سو کالڈ "لاز" کو آئنسٹائن کی "تھیوری" نے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا تھا۔ اور آج کل لاء کا لفظ استعمال کرنے سے سائنسدان کتراتے ہیں کیونکہ وہ پچھلے دور کے "لاز" کا حال دیکھ چکے ہیں۔ ڈارون کا نظریہ سائنسدانوں کی نظر میں ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ اس سے انکار ممکن نہیں ہے۔
خدائی انکار کی تو بات نہیں کی گئی۔ یہاں پر تخلیق کی بات ہو رہی ہے۔
آُ پ کا آج کا دور( شاید جس سےآپ شاید زیادہ متاثر ہو گئے ) بھی آنیوالے دور کا پچھلا دور ہے ۔جب سائنس ہی مضحکہ خیز :) ہو جائے تو کیا نیوٹن اور کیا آئنسٹائن۔۔۔تھیوریاں بہت پیش کی جاتی رہی رہیں گی۔آئنسٹائن کی تھیوری بہر حال لاء نہ بن سکی حتی کہ سائنسدان ہی کترانے لگ گئے :)۔۔۔۔۔آپ کے قول کے مطابق سائنسدان آینسٹائن اور ڈارون عنقریب اس کی تھیوری کو بھی کوئی ردی کی ٹوکری میں پھینک دے گا سو یہ ایک آن گوئنگ پراسیس ہوا۔۔۔۔سرخ سلام آپ کی تھیوری کو۔۔۔۔۔۔آپ اگرڈارون کے نیچرل سیلیکشن پہ ایمان لا یئں یہ آپ کا اختیار ہے ۔۔۔۔ ہمیں تو یہ خلاف عقل و فطرت لگتا ہے ۔۔۔
 
قرآن کہتا ہے کہ کوئی نہیں جانتا کہ ماں کے پیٹ میں کیا ہے۔ آج کے دور میں الٹرا ساؤنڈ کی بدولت آپ تصویری شکل میں بچے کو دیکھ سکتے ہیں
قرآن کہتا ہے کہ کوئی نہیں جانتا کہ بارش کب ہوگی، جدید سائنس عام طور پر درست انداز میں اس کی پیشین گوئی کر سکتی ہے اور اب تو مخصوص حالات کے مطابق مصنوعی بارش برسانے تک کا مرحلہ آ چکا ہے
میں یہ نہیں کہہ رہا کہ خدانخواستہ قرآن کی باتیں غلط ہیں، میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ ہمارے علماء نے قرآن کی غلط تشریح پیش کر کے اس طرح کی الجھنیں پیدا کی ہیں۔ تاہم یہ میری رائے ہے، ضروری نہیں کہ کوئی اس سے اتفاق کرے :)
چلیں قیصرانی بھیا ہم یہاں آپس میں اسی موضوع پر بات کرتے ہیں :)
سارے خود ہی خود ایک دوسرے سے بحث کر رہے ہیں۔:confused:

إِنَّ اللَّهَ عِندَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْأَرْحَامِ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ

آپ نے اس آیت کا ترجمہ پیش کیا ہے!

اس آیت میں علم الساعۃ، ینزل الغیث، یعلم ما فی الارحام کے الفاظ سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ ان کا علم صرف اللہ کو ہی ہے۔ ممکن ہے کوئی اور بھی ان چیزوں کو جانتا ہو۔
آیت کے اگلے حصے کو دیکھیں تو جن چیزوں کے ساتھ حرف نفی ’’لا‘‘لگا ہے ان میں علم کی تخصیص کی گئی ہے۔
:)


میرے خیال میں قرآن مجید کا اصل موضوع انسان ہے۔ باقی چیزیں ضمناً بیان کی گئی ہیں جو اس کی ضروریات میں سے ہیں یا جن کا بالواسطہ یا بلاواسطہ انسان سے تعلق ہے !
 
آخری تدوین:

قیصرانی

لائبریرین
ایک بات کی وضاحت کر دوں کہ نیچرل سلیکشن یا ڈارون کا نظریہ ارتقاء یہ نہیں کہتا کہ قدرت بعض انواع کو آگے بڑھاتی ہے اور بعض کو روک یا ختم کر دیتی ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ بدلتے ماحول کے ساتھ جو جاندار زیادہ مطابقت رکھتے ہوں یا مطابقت پیدا کر سکتے ہوں، کے لئے زندہ رہنے اور آگے بڑھنے اور پھلنے پھولنے کے زیادہ مواقع ہوتے ہیں اور انہی مواقع کی بدولت وہ زیادہ بچے پیدا کرتے ہیں اور ان کا ایک طرح سے غلبہ ہو جاتا ہے

اس کی مثال کچھ یوں لیجئے کہ کئی سائنس دان کئی تھیوریاں پیش کرتے ہیں۔ جن کی تھیوریاں درست ثابت ہوں گی، ان کو زیادہ قدر ملے گی اور ان کی بات کو زیادہ مانا جائے گا اور ان پر زیادہ تحقیق کی جائے گی اور اسے آگے بڑھایا جائے گا۔ جس سائنس دان کی تھیوری غلط ثابت ہو چکی ہو، اس پر نہ تو کام کیا جائے گا اور نہ ہی اسے آگے بڑھایا جائے گا۔ یعنی پہلا سائنس دان ترقی پا کر آگے بڑھا اور دوسرا "فطری موت" مارا گیا

اسی طرح ایک اسکیمو کسی گرم افریقی ملک میں جاتا ہے۔ اپنے ملک میں چاہے وہ جتنا ہی بہترین مواقع رکھتا ہو، گرم ملک میں اس کے لئے زندہ رہنا دشوار ہو جائے گا۔ کیا وہاں اس کا مقابلہ جن مقامی لوگوں سے ہوگا، کیا وہ ان کی برابری کر سکے گا یا ان سے بہتر ہو سکے گا؟ نہیں نا؟ اسی طرح گرم ملک کے رہنے والے قطب شمالی یا قطب جنوبی میں یا اس کے آس پاس جا رہنے کی کوشش کریں تو آپ کو بخوبی علم ہوگا کہ کیا وہ اسکیمو یا مقامی لوگوں کا مقابلہ کر سکیں گے؟

اسی طرح ہمارے کسان جو بیل اور ہل کی مدد سے کاشتکاری کرتے ہیں، کیا وہ مغربی ملکوں کے رہنے والے اور جدید ترین مشینری استعمال کرنے والے کسانوں کا مقابلہ کر پائیں گے؟ نہیں نا؟ بے شک ہمارے کسان کی کنک کا سواد اپنا ہوگا، اس کے سٹے میں دانے پڑنے پر نکلنے والی سوندھی خوشبو کا اپنا ہی مزہ ہوگا، لیکن کیا پھر بھی یہ مقابلہ کر پائے گا؟

ہمارے ہاں کا ایک جاہل بندہ اگر کسی ترقی یافتہ ملک جا کر نوکری کی کوشش کرتا ہے تو اس کا کیا مقابلہ؟ اسی طرح دیکھ لیں کہ کم تعلیم یافتہ بندہ اور زیادہ تعلیم یافتہ بندہ یا کم تجربہ کار بندہ جس نوکری کے لئے اپلائی کرتا ہے، وہاں اس کا مقابلہ اگر زیادہ تجربہ کار فرد سے ہو تو ظاہر ہے کہ وہ مار کھا جائے گا

غرض یہ زندگی کے کسی بھی شعبے میں آزما کر دیکھیں، "نیچرل سلیکشن" ہمیں ہمیشہ ہی دکھائی دے گا اور یہ ہی آگے بڑھنے کا راستہ ہے۔ تاہم بندروں سے انسان کا بننا اور انسان سے بندروں کا بننا دو الگ الگ لیکن ایسی باتیں ہیں کہ ان پر پوری کتابیں لکھی جا سکتی ہیں۔ اگر ڈارون کا نظریہ ہمیں یہ بتائے کہ بندر ترقی پا کر انسان بنے ہیں تو ہمیں اس پر ہنسی آتی ہے۔ اگر اللہ تعالٰی ہمیں کہتے ہیں کہ فلاں قوم یا فلاں افراد انسان سے بندر یا سور بن گئے تو اس پر ہم آنکھیں بند کر کے ایمان لاتے ہیں

ایمان اور سائنس میں یہی بنیادی فرق ہے۔ ایک ہمیں آنکھیں بند کر کے یقین کرنے کو کہتا ہے اور دوسرا ہمیں ہر چیز کو شک کی نگاہ سے دیکھنے کی عادت ڈالتا ہے :)
 
ایک سوال میری جانب سے۔ کیا مذہب (یعنی اسلام کے علاوہ بھی مذاہب) یا قرآن کی رو سے آپ ثابت کر سکتے ہیں کہ انسان کے علاوہ دیگر تمام جاندار کیسے پیدا ہوئے یا کیسے موجودہ شکل تک پہنچے؟
پس نوشت: ہمیں حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش کا بتایا جاتا ہے لیکن سانپ، مور اور گندم کے پودے کی تخلیق کے بارے نہیں بتایا جاتا۔ اس سے یہ سوال ذہن میں ابھرا

ایک عمومی قاعدہ بیان ہوا ہے اس بارے میں:

وَجَعَلْنَامِنَ الْمَاءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ أَفَلَا يُؤْمِنُونَ ﴿الأنبياء: ٣٠﴾
اور ہم نے (زمین پر) پیکرِ حیات (کی زندگی) کی نمود پانی سے کی، تو کیا وہ (قرآن کے بیان کردہ اِن حقائق سے آگاہ ہو کر بھی) ایمان نہیں لاتے۔
http://www.openburhan.net/ob.php?sid=21&vid=30
 
مدیر کی آخری تدوین:
Top