عام افرادِ معاشرہ کے نزدیک سائنس اور مذہب کی راہیں جُدا جُدا ہی ہیں۔ مگر فکرِ عمیق کے حامل حُکما اور فلسفیوں کے نزدیک اِن دونوں موضوعات کا ماخذ ایک ہی ہے۔
یورپ کی نشاۃ ثانیہ بھی تنہا ملحدین کی مرہونِ منّت نہیں۔ اِس کا 80 ٪ اُن پادریوں کا مرہونِ منّت ہے جنہوں نے خود کو روائتی لکیر کی فقیری سے آزاد کروا کے صرف انجیلِ مقدس پر تکیہ کیا اور دُنیا و مافیہا کے قدرتی مظاہر پر غور و حوض شروع کر دیا اور زمانوی علوم کی خاطر تُرکی اور عراق کے مدارس میں تعلیم حاصل کی ۔
قبلہ آپ نے تو یورپی تاریخ ہی کو الٹا لٹکا دیا۔
میں اپنی بات پر قائم ہوں ، جدید سائنس اُن شکست خوردہ عیسائی راہبوں کی مرہونِ منت ہے جنہوں نے مسلمانوں کے ہاتھوں مار کھا کے انسانی وسائل کے استحصال کے بجائے اُن کی نشوونما کا بیڑہ اُٹھایا۔ اپنا قبلہ بھی درست کیا اور دوسروں انسانوں کے لیے بھی باعثِ رحمت ثابت ہوئے۔
عقل سے دشمنی اور دوسروں کی محنت غبن کرنا عوام کے منظور و مرغوب روائتی مذہب پرستوں کا شیوہ ہے۔ مگر کچھ مومنِ حقّا ایسے ضرور ہیں جو خُود کو اللہ کے حکم کے مطابق غور و فکر کا پابند کر لیتے ہیں ۔ یہ سچ ہے کہ مذہب گاہیں بطور ادارہ ہمیشہ سے ہی انسانی ثقافت کی تباہی میں مصروف ہیں مگر جو حق شناس ذرا سا بھی اپنے ذہن کو استعمال کرتا ہے وہ اُن بنیادی اخلاقی اقدار تک پہنچ سکتا ہے جو آسمانی کُتب کا اصل موضوع رہی ہیں۔
اِس کے بر عکس دُنیا میں کوئی ایسا ضابطہ اخلاق نہیں جو کسی ملحد کو بھلائی کا پابند کر سکے یہ وہ لوگ ہیں جو پادری اور مولوی وغیرہ کی معاشرتی ناانصافیوں کا قصورور خُدا کو ٹھہراتے ہیں اور سوائے غصہ کے اور کوئی کام نہیں کر تے۔ ایجادات کو دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ اٹھارویں اور انیسویں صدی کی زیادہ تر ایجادات یہودی مومنین کے حصہ میں آئی ہیں اور اُس سے پہلے والی سب پادریوں کے کھاتہ میں جاتی ہیں۔ یہاں تک کہ معاشی نطامِ سرمایہ داری کے تانے بانے بھی پادری حضرات کے ایجاد کردہ نظامِ مضاربت و جاگیرداری سے جا ملتے ہیں۔
میں اِس موقع پر یورپ کی نشاۃِ ثانیہ کے سلسلے میں ہونے والے اہم واقعات آپ کے گوش گُزار کروں گا:
1000ء سے قبل مسلم سائنسدانوں میں جدید حسابی مساوات ، فلکیاتی قطب نما، مقناطیسیت ، کیمیائی عوامل ، آلاتِ جراحی اور انسانی ساخت اور بصریات پر تجربات کی روشنی میں کتب کی تخلیق
1192ء تیسری صلیبی جنگ میں رچرڈ شیر دل کا سلطان صلاح الدین کے ساتھ معاہدہ اور ممالکِ بحیرہ روم میں امن و امان کی واپسی
1450ء میں پرنٹنگ پریس کی ایجاد
1453ء قسطنطنیہ کی فتح اور رومن گرجے کا جنگی بنیادوں پر مسلمانوں کی طرز پر عملی علوم کے احیاء کے اقدامات
1488 ہوائی جہاز کا حسابی نقشہ ، جدید ریاضی ، طبیعات ، حیاتیات (صوفی لیونارڈو ڈاونشی)
1492 سقوط غرناطہ اور سپین سے آٹھ سو سالہ مسلم اقتدار کا خاتمہ
1497 واسکوڈز گاما کی ہندوستان آمد اور سمندری روابط کا انقلاب
1514 جدید علم فلکیات کی بنیاد (پادری نکولیس کوپرنیکس)
1521 انجیلِ مقدس کا المانوی ترجمہ اور مارٹن لوتھر کی رومن چرچ سے بے دخلی اور تمام یورپی ممالک میں مذہبی اصلاحات کی تحاریک
1529 ویانا آسٹریا پر تُرک سلطان سلیمان قانونی کا حملہ
1537 رومن کیتھولک چرچ کی جہالت سے بیزاری پر بطور نتیجہ چرچ آف انگلینڈ کا آغاز
1616 جدید سائنسی اصولوں کا اجراء اور راسخ العقیدہ گلیلیو گلیلی کا اپنی سزا پر سر تسلیمِ خم
1648 میں یورپ میں اسّی سالہ فرقہ ورانہ فسادات کا خاتمہ
1660 جدید علمِ حرحرکیات Thermodynamics اور علم کیمیا (صوفی روبرٹ بوالز)
1700 میں بھاپ انجن کی فراوانی اور نیوٹن کے قوانینِ حرکت، مذہب بیزاری کا آغاز
1799 ٹیپو سُلطان کی انگریزوں کے ہاتھوں شکست اور عالمی معاشی گرفت کے نظریات کا ظہور
1857 حیاتیاتی کی بجائے سماجی حقائق کی بنیاد پر "قدرتی چناؤ کے تحت حیوانی انواع کا ماخذ" نظریہ ارتقاء (ڈارون) اور نو آبادیاتی نظام اور نسلی تفاخر
1865 علم جینیات کی بنیاد (صوفی گریگور مینڈل)
عظیم سائنسدان جناب سٹیفن ہاکنگ کا ایک جملہ (مقتبس از A Brief Hisory of Time) بھی پیش کروں گا جِس سے اصلی عالم اور مذہبی عالم کا فرق ظاہر ہو جائے گا۔
"- - - مگر ہمیں جلد ہی معلوم ہو گیا کہ کائنات کی ابتدا سے قبل وقت کوئی معنی نہیں رکھتا، اِس بات کی نشاندہی سب سے پہلے صوفی حضرت آگسٹائن (354 - 430 عیسوی) نے کی تھی جب اُن سے پوچھا گیا کہ کائنات کی تخلیق سے پہلے خُدا کیا کر رہا تھا ، تو انھوں نے یہ جواب نہیں دیا کہ خدا ایسا سوال پوچھنے والوں کے لیے دوزخ تیار کر رہا تھا ، اس کے بجائے انہوں نے کہا تھا کہ وقت یا زمان کائنات کی صفت Property ہے جو خدا نے بنائی ہے اور وقت کائنات سے پہلے وجود نہیں رکھتا تھا۔"
خیر خواہ
خلیل