معرکہ مذہب وسائنس

عبد المعز

محفلین
کتاب کا نام
معرکہ مذہب وسائنس
مصنف
ڈاکٹر جان ولیم ڈریپر
مترجم
مولانا ظفر علی خاں
ناشر
الفیصل ناشران وتاجران کتب


تبصرہ

ازمنہ وسطی کے کلیسائی ظلم و جبر کے خلاف جب یورپ میں ایک بیداری کی لہر اٹھی تو اہل یورپ میں بغاوت مذہب کے میلانات شدت پکڑ گئے ۔ مذہب سے سرعام اظہار تنفر کیا جانے لگا ۔ بلکہ اپنی زندگی کی اساس ہی مخالفت مذہب پر اٹھائی جانے لگی ۔ نتیجۃ ایک ایسی زندگی سامنے آئی جس میں سوسائیٹی کی بنیاد لامذہبیت قرار پائی ۔ اور مذہب کا خلا سائنس سے پر کرنے کی کوشش کی جانے لگی ۔ اس کے لیے تمام تر مفکرین یورپ متحد ہو گئے اور بھرپور کوشش کرنے لگے کہ ایسے نظریات اور افکار سامنے لائے جائیں جو ایک طرف تمدن و تہذیب کی اساس بنیں اور دوسری طرف ضرورت مذہب ختم کریں ۔ زیر تبصرہ کتاب کے مصنف ڈاکٹر ڈرائپر نے مذہب اور سائنس کی اس کشمکش کو جو صدیوں پر محیط تھی اسے تاریخی طور پر سامنے لانے کی کوشش کی ہے ۔ اس سلسلے میں موصوف یونان سے لیکر جدید یورپ تک کی تمام تاریخ کو سامنے لے کر آئے ہیں ۔ تاہم درمیان میں جب مسلمانوں کے حوالے سے تذکرہ کرتے ہیں تو افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ موصوف کی اس بارے میں معلومات انتہائی ناقص ہیں ۔ مثلا وہ کہتے ہیں کہ محمدﷺ نے جو پیغام دنیا کو دیا تھا وہ نسطوری عیسائیوں سے لیا گیا تھا ۔ وغیرہ تاہم مولانا ظفر علی خان جو کہ اردو کے مایہ ناز ادیب ہیں انہوں نے جہاں اسے بہترین اردو قالب میں ڈھالا ہے وہاں اس طرح غلط فہمیوں کا ازالہ کرنے کی بھی کوشش کی ہے ۔ (ع۔ح)

 

عبد المعز

محفلین
فہرست مضامین
مقدمہ
حیات ڈاکٹر ڈریپر از مترجم
دیباچہ مصنف
پہلا باب سائنس کی ابتداء
دوسرا باب عیسائیت کی ابتداء
تیسرا باب نزاع مذہب وسائنس دربارہ ، مسئلہ توحید
چوتھا باب جنوب میں سائنس کا احیاء
پانچواں باب نزاع مذہب وسائنس دربار ماہئیت روح
چھٹا باب نزاع مذہب وسائنس دربار ماہئیت عالم
ساتواں باب نزاع دربارہ عمر زمین
آٹھواں باب نزاع دربارہ معیار حق
نواں باب نزاع دربارہ انتظام عالم
دسواں باب لاطینی مسیحیت اور تمدن جدید کا تعلق
گیارہواں باب سائنس کا تعلق تمدن جدیدہ کے ساتھ
بارہواں باب خطرہ کی آمد آمد
 
سائنس مذہب کا موضوع ہی نہیں ہے ۔
عام افرادِ معاشرہ کے نزدیک سائنس اور مذہب کی راہیں جُدا جُدا ہی ہیں۔ مگر فکرِ عمیق کے حامل حُکما اور فلسفیوں کے نزدیک اِن دونوں موضوعات کا ماخذ ایک ہی ہے۔
یورپ کی نشاۃ ثانیہ بھی تنہا ملحدین کی مرہونِ منّت نہیں۔ اِس کا 80 ٪ اُن پادریوں کا مرہونِ منّت ہے جنہوں نے خود کو روائتی لکیر کی فقیری سے آزاد کروا کے صرف انجیلِ مقدس پر تکیہ کیا اور دُنیا و مافیہا کے قدرتی مظاہر پر غور و حوض شروع کر دیا اور زمانوی علوم کی خاطر تُرکی اور عراق کے مدارس میں تعلیم حاصل کی ۔
یہ کتاب ضرور بہت دلچسپ ہو گی، مطالعہ شرط ہے مگر میں وقت کہاں سے لاؤں :idontknow:۔
 
آخری تدوین:

عثمان

محفلین
یورپ کی نشاۃ ثانیہ بھی تنہا ملحدین کی مرہونِ منّت نہیں۔ اِس کا 80 ٪ اُن پادریوں کا مرہونِ منّت ہے جنہوں نے خود کو روائتی لکیر کی فقیری سے آزاد کروا کے صرف انجیلِ مقدس پر تکیہ کیا اور دُنیا و مافیہا کے قدرتی مظاہر پر غور و حوض شروع کر دیا اور زمانوی علوم کی خاطر تُرکی اور عراق کے مدارس میں تعلیم حاصل کی ۔

قبلہ آپ نے تو یورپی تاریخ ہی کو الٹا لٹکا دیا۔ :eek:
 

ظفری

لائبریرین
عام افرادِ معاشرہ کے نزدیک سائنس اور مذہب کی راہیں جُدا جُدا ہی ہیں۔ مگر فکرِ عمیق کے حامل حُکما اور فلسفیوں کے نزدیک اِن دونوں موضوعات کا ماخذ ایک ہی ہے۔
یورپ کی نشاۃ ثانیہ بھی تنہا ملحدین کی مرہونِ منّت نہیں۔ اِس کا 80 ٪ اُن پادریوں کا مرہونِ منّت ہے جنہوں نے خود کو روائتی لکیر کی فقیری سے آزاد کروا کے صرف انجیلِ مقدس پر تکیہ کیا اور دُنیا و مافیہا کے قدرتی مظاہر پر غور و حوض شروع کر دیا اور زمانوی علوم کی خاطر تُرکی اور عراق کے مدارس میں تعلیم حاصل کی ۔
یہ کتاب ضرور بہت دلچسپ ہو گی، مطالعہ شرط ہے مگر میں وقت کہاں سے لاؤں :idontknow:۔
آپ نے یورپ کی نشاۃ ثانیہ کے بارے میں جو کچھ فرمایا ہے ۔ اس کو عثمان نے سرسری طور پر بیان کردیا ہے ۔ چونکہ آپ نے میرا مراسلہ کوٹ کیا ہے ۔ اس لیئے کہنا چاہتا ہوں کہ آپ نے میرے اقتباس کے ضمن میں جو بھی کہا وہ قطعی طور بھی میرے خیال سے مطابقت نہیں رکھتا ۔ یعنی آپ میرا موقوف نہیں سمجھے ۔ ان شاءاللہ اس کتاب پر کبھی بحث ہو تو پھر میں کچھ کہنے کی جسارت کرسکتا ہوں ۔
 

ظفری

لائبریرین
تو پھرآپ کے اس قول کی ۔ دلیل کیا ہوگی کہ سائنس اسلام کا موضوع نہیں ہے ؟
اس پر بحث کی جاچکی ہے ۔ مذہب کے فورم پر بہت سے دھاگوں کیساتھ کہیں مدفن ہوگی ۔
بہرحال یہ اچھی بات ہے کہ آپ کسی حجتی قسم کی بحث کے بجائے دلیل اور استدلا ل پر یقین رکھتے ہیں ۔ ان شاءاللہ فرصت ہوگی تو ایک بارپھر اس پر بحث کے لیئے تیار ہوں ۔ اگر آپ اپنا کوئی استدلال اس موضوع کے حوالے سے پیش کرنا چاہتے ہیں تو بہت اچھی بات ہے کہ مجھے کم از کم یہ اندازہ ہوسکے گا کہ گفتگو کہاں سے شروع کیا جائے ۔
عثمان کی بات پر بھی غور کیجیئے کہ انہوں نے کوزے میں سمندربندکر دیا ہے ۔
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
قرآن میں کچھ مظاہر فطرت کے ذکر ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ قرآن کا موضوع سائنس ہے۔
آپ کے نزدیک سائنس ہے کیا ؟
میرے نقطہ ء نظر سے قرآن سائنس کی کتاب نہیں ہے بلکہ انسانی زندگی کے مقاصد کی اعلی درجے کی تکمیل کاایک جامع ضابطہء اخلاق مکمل دستور پیش کرتی ہے اور یہ کسی زمانے پر قید نہیں ہے۔عثمان صاحب کے بقول "کچھ " مظاہر فطرت" کا تذکرہ ہے۔۔ ۔۔
کیا آپ قرآن مجید کی اس کثرت ِ آیات سے متفق ہیں کہ جو انسان کو کائنات پر، اس کی تخلیقات اور اس کے غور وفکر کی طرف کھینچتی اورعلم کے حصول کے لیے جھنجھوڑتی نظر آتی ہیں ۔بنا بریں مشرق و مغرب کے مصنفین نے قران اور سائنس پرکتنا کچھ اظہار خیال کیا ہے اس کی فہرست کتنی طویل ہے اورکیا یہ ان " چند مظاہر فطرت" کی تفسیر ہے ؟۔
اس ضمن میں میں آپ کو ڈاکٹر اقبال کی کتاب ری کنسٹرکشن اف ریلجس تھاٹ ان اسلام کے پہلے خطبے کے مطالعے کی دعوت دینا دینا چاہوں گا جس میں انہوں نے انسان کائنات اور قران کے باہمی تعلق پر کچھ اظہار خیال کیا ہے ۔بشرطیکہ استدلال اورانصاف کی معتدل نگاہ سے دیکھا جائے:)۔البتہ ہمارے مفکرین پر چند سو سالوں سے جو فکری جمود طاری رہا ہے اس سے کچھ غلط فہمیاں ضرور پیدا ہوئی ہیں۔۔
 

عثمان

محفلین
کیا آپ قرآن مجید کی اس کثرت ِ آیات سے متفق ہیں کہ جو انسان کو کائنات پر، اس کی تخلیقات اور اس کے غور وفکر کی طرف کھینچتی اورعلم کے حصول کے لیے جھنجھوڑتی نظر آتی ہیں ۔بنا بریں مشرق و مغرب کے مصنفین نے قران اور سائنس پرکتنا کچھ اظہار خیال کیا ہے اس کی فہرست کتنی طویل ہے اورکیا یہ ان " چند مظاہر فطرت" کی تفسیر ہے ؟۔
قرآن ان چند مظاہر فطرت کے ذریعہ خالق کی طرف توجہ دلا رہا ہے۔ وہاں قرآن کا موضوع خالق ہے، مظاہر فطرت کے متعلق کیا ، کیوں اور کیسے نہیں جو کہ دراصل سائنس کا موضوع ہے۔ سائنس کو مذہب کے ہاں معروف خالق سے کوئی واسطہ نہیں۔
فرق صاف واضح ہے۔ اگر آپ کو لفظ "چند" پر غم ہے تو اسے چند سو پڑھ لیں۔ موضوع پھر بھی سائنس نہیں۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
قرآن ان چند مظاہر فطرت کے ذریعہ خالق کی طرف توجہ دلا رہا ہے۔ وہاں قرآن کا موضوع خالق ہے، مظاہر فطرت کے متعلق کیا ، کیوں اور کیسے نہیں جو کہ دراصل سائنس کا موضوع ہے۔ سائنس کو مذہب کے ہاں معروف خالق سے کوئی واسطہ نہیں۔
فرق صاف واضح ہے۔ اگر آپ کو لفظ "چند" پر غم ہے تو اسے چند سو پڑھ لیں۔ موضوع پھر بھی سائنس نہیں۔
میراپہلا سوال یہ تھا کہ سائنس ہے کیا ؟ ۔۔جس کا جواب نہیں دیا ۔
دوسرے یہ کہ آپ نے تسلیم کیا کہ قرآن خالق کی طرف (فراموش کردہ ہدایت یاد دلانے اور ) بلانے کے لیے کس قدر اشتیاق سے سائنٹفک طریقہ فکر کو اپناتا ہے۔ کیا یہ ثابت کرنے کے لئے کافی نہیں کہ مذہب اسلام کے ہمہ گیر موضوعات میں سائنس کو ایک ایسا مقام حآصل ہے جو زمان و مکان کی قید سے آزاد ہے۔؟ یہاں ابھی تک سائنس کے موضوعات کی بات ہی نہیں ہوئی۔
اسلام کے نظام زندگی کو اپنی اپنی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اس میں اسلام کا نہیں بلکہ مسلمین کا قصور ہو سکتا ہے۔اسلام کا نہیں ۔اسلام ایک فلاحی معاشرہ قائم کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔
اسلام کی بہت سی تعلیمات میں سب سے بنیادی تعلیم ہے کہ لوگوں میں سب سے بہتر وو ہے جو لوگوں کو فائدہ پہنچائے ۔اور یہ ایک ابدی اصول ہے ۔۔آج آپ اگر لوگوں کی فلاح و بہبود کا کام کرنے میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے ذرائع اختیار کئے بغیرجدو جہدکریں گے تو اس کے کیا نتائج ہوں گے۔اس ناحیہ سے تو ٹیکنالوجی اور انجینئرنگ کوبھی اسلام کا بلا واسطہ موضوع قرار دیا جانا چاہیئے۔میرا مقصد ہر گز یہ نہیں کہ اسلام کو سائنس کا واحد موضوع یا قران کو سائنس کی کتاب قرار دے دوں ۔لیکن اتنا پیغام دینا ضرور مناسب ہو گا کہ اسلام و قران کی تعلیمات کی گہرائی اور گیرائی کی طرف اشارہ کر دیا جائے جو فکر کو اتنی وسعت بخش سکے کہ ہم امور کو روشنی کی حالت میں دیکھ سکیں اور اس اسلام کو بھی پہچان سکیں جو ہمیں کچھ مولویوں کی طرف سے عطا کیا جاتا ہے۔اور جس سے ہم اسلام سمجھ لیتے ہیں۔
آپ نے چوں کہ سائنس کے سوال کو نظر انداز کر دیا چنانچہ کچھ گزارشات بھی عرض ہیں ممکن ہے یہاں آپ بھی متفق ہوں۔:)
آپ کی خدمت میں سائنس ۔ٹیکنالوجی اور انجینئرنگ کی ڈیفینیشن اور ان کا فرق بھی واضح کر دینا مناسب سمجھتا ہوں۔
سائنس وہ علم ہے جو محسوسات اور تجربات کی بیناد پرعقل سے حاصل کیا جاتا ہے ۔
سائنس سے اس کا کوئی سروکار نہیں کہ کس مشاہدہ کو حاصل کرنے میں آپ کو کتنا پیسا خرچ کرنا پڑتا ہےکتنے ریسورسز لگانے پڑتے ہیں اور کتنا وقت لگتا ہے۔ یہاں محض حقائق کو دریافت کر نا مقصد ہوتا ہے۔
ٹیکنالوجی دراصل سائنسی اصولوں کی روشنی میں معاشرتی بہبود اور بہتری کے لئے فنی ایجادات پہ بحث کرتی ہے یہاں بھی بجٹ کوئی بینادی حیثیت نہیں رکھتا۔
انجینئرنگ در اصل ٹیکنالوجی کی آپٹیمائزڈ یمپلی منٹیےشن کے اصول وضع کرتی ہے ۔ جس میں بجٹ ،انسانی تحفظ اور وقت کی اقداراور بجٹ کو ملحوظ رکھ کر ٹیکنالوجی کو ممکنہ طور پر بہتر ین شکل دی جاتی ہے،
 
آخری تدوین:

عثمان

محفلین
میراپہلا سوال یہ تھا کہ آپ نے جواب نہیں دیا کہ سائنس ہے کیا ؟ ۔۔جس کا جواب نہیں دیا ۔
جواب اوپر موجود ہے۔ آپ صرف بحث پھیلانا چاہتے ہیں۔ پھر عرض کیے دیتا ہوں: "کیا ، کیوں ، کیسے "۔ تشکیک ضرب تحقیق۔
جبکہ مذہب کی بنیاد ایمانیات پر ہے۔ وہاں تشکیک کو کوئی عمل دخل نہیں۔ عمل سائنس سے آپ خدا تک پہنچنے نہ پہنچیں ہر دو صورتیں میں آپ کی بنیاد آپ کا ایمان ہوگا۔ سائنس نہیں۔
 

آصف اثر

معطل
قرآن ان چند مظاہر فطرت کے ذریعہ خالق کی طرف توجہ دلا رہا ہے۔ وہاں قرآن کا موضوع خالق ہے، مظاہر فطرت کے متعلق کیا ، کیوں اور کیسے نہیں جو کہ دراصل سائنس کا موضوع ہے۔ سائنس کو مذہب کے ہاں معروف خالق سے کوئی واسطہ نہیں۔
فرق صاف واضح ہے۔ اگر آپ کو لفظ "چند" پر غم ہے تو اسے چند سو پڑھ لیں۔ موضوع پھر بھی سائنس نہیں۔
محترم عثمان بھائی۔ امید ہے آپ خیریت سے ہوں گے۔
میں یہاں پر ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں۔ آپ نے ذکر کیا کہ "سائنس کو مذہب کے ہاں معروف خالق سے کوئی واسطہ نہیں۔" یہاں دو باتیں پوچھنے کی ہیں۔ ایک یہ کہ کیا آپ سائنس کو صرف ملحدین کی نظر سے دیکھتے ہیں یا آپ سائنس کو سائنس کے تناظر میں ۔کہ سائنس میں عقل نہیں بلکہ دلیل سے بات ہوتی ہیں۔ اگر یہاں آپ کی مراد ملحدین ہیں تو پھر تو اس کا کوئی جواب ہی نہیں، کہ وہ خدا کو سرے سے مانتے ہی نہیں۔کیوں کہ ان کا مطالبہ بھی وہی بنی اسرائیلیوں کا ہے۔ "کہ جب تک ہم تمھارے خدا کو اپنی آنکھوں سے براہِ راست نہ دیکھ لیں۔ ہم نہیں مانیں گے۔"اب اس قسم کے مطالبوں اور ان کے انجام کا ذکر قرآن میں مفصل ذکر ہیں۔ اور اگر آپ دنیا کے تمام سائنس -دانوں کاحوالہ دیتے ہیں تو یہ بات کسی بھی لحاظ سے درست نہیں، کہ اگر بہت سے (ملحد) سائنس دان اللہ کو نہیں مانتے تو بہت سے (مؤحد) سائنس دان ہر سائنسی مظہر کو اللہ کی نشانی قرار دیتے ہیں۔
بات تو بہت تفصیل طلب ہے۔ آپ ذرا غور کریں۔ آج اس "راز" کو پانے کے لیےطبیعیات و فلکیات کے ماہرین کتنے بڑے پیمانے پر تجربات کررہے ہیں کہ یہ کائنات کیسے وجود میں آئی؟ یعنی اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ آخر وہ کونسی قوتیں(یا قوت ) تھی جس کے سبب اتنا عظیم الشان مکان وجود پذیر ہوا۔اب اگر یہ سائنسدان اس بات کو خالق سے متعلق نہیں ٹھہراتے تو کیا ہم کہیں گے کہ "سائنس" (جو کہ دراصل ان مخصوص سائنسی مفکرین کا سوچ ہے) کا خالق سے کوئی واسطہ نہیں۔ میں آپ کو ایک مثال دیتا ہوں۔
ایبٹ آباد زلزلے کے بعد (اس مخصوص ملحد سوچ کے زیر تسلط) میڈیا و افراد نے کہنا شروع کردیا کہ یہ سب کچھ (اللہ نے نہیں ) بلکہ زیرِ زمین ٹکٹونک پلیٹوں کے کسکاؤ کے سبب وقوع پذیر ہوا۔ اب ان کو کون سمجھائے کہ بالکل سبب یہ کسکاؤ تھا مگر حکم کس کا تھا؟مقصد یہ کہ ان کو مذہب سے اتنا بیرہے کہ یہ ہر بات میں اللہ کو نظر انداز کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تاکہ ( شیطان کے منشا کے مطابق) کہیں اللہ کے یہ بندے اللہ کی طرف رجوع نہ کرلیں۔
آج بھی 125 سے زیادہ ایسے سوالات حل طلب ہیں جن کا جواب ابھی تک سائنس کے پاس نہیں۔ جن میں "زندگی کا ظہور" بھی شامل ہے۔ تو کیا کوئی یہ کہہ لیں کہ زندگی کا وجود ہی نہیں۔۔۔۔؟؟؟
غرض صرف یہ ہے کہ سائنس وہ نہیں جسے الحاد کہتے ہیں۔
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
جواب اوپر موجود ہے۔ آپ صرف بحث پھیلانا چاہتے ہیں۔ پھر عرض کیے دیتا ہوں: "کیا ، کیوں ، کیسے "۔ تشکیک ضرب تحقیق۔
جبکہ مذہب کی بنیاد ایمانیات پر ہے۔ وہاں تشکیک کو کوئی عمل دخل نہیں۔ عمل سائنس سے آپ خدا تک پہنچنے نہ پہنچیں ہر دو صورتیں میں آپ کی بنیاد آپ کا ایمان ہوگا۔ سائنس نہیں۔
آپ میرے محترم ہیں۔ میں بحث کو نہیں بلکہ اپنی اور آپ کی تفہیم کے دائرے کو وسعت دینے کا زیادہ مشتاق ہوں ۔ایک بار پھر کہوں گا کہ مذہب اسلام ایمانیات پر ضرور بیناد رکھتا ہے لیکن اس پرتکیہ رکھ کر انسان کو سلا نہیں دیتا بلکہ سائنٹفک طریقہ ء کار سے میدان عمل میں بلاتا ہے۔
 

عثمان

محفلین
آپ میرے محترم ہیں۔ میں بحث کو نہیں بلکہ اپنی اور آپ کی تفہیم کے دائرے کو وسعت دینے کا زیادہ مشتاق ہوں ۔ایک بار پھر کہوں گا کہ مذہب اسلام ایمانیات پر ضرور بیناد رکھتا ہے لیکن اس پرتکیہ رکھ کر انسان کو سلا نہیں دیتا بلکہ سائنٹفک طریقہ ء کار سے میدان عمل میں بلاتا ہے۔
آپ بھی میرے محترم ہیں۔ :)
اختلاف کے ساتھ کہوں گا کہ مذہب اسلام ایمانیات پر بنیاد رکھتا ہے۔ استدلال پر اصرار کرتا ہے۔ لیکن سائٹفیک طریقہ کار کے تابع نہیں کرتا۔ کہ سائنس کی بنیاد ایمان(مذہب کی بنیاد) کے برعکس تشکیک ہے۔ جو مذہب میں ممنوع ہے۔
 
Top