معرکہ مذہب وسائنس

سید ذیشان

محفلین
آُ پ کا آج کا دور( شاید جس سےآپ شاید زیادہ متاثر ہو گئے ) بھی آنیوالے دور کا پچھلا دور ہے ۔جب سائنس ہی مضحکہ خیز :) ہو جائے تو کیا نیوٹن اور کیا آئنسٹائن۔۔۔ تھیوریاں بہت پیش کی جاتی رہی رہیں گی۔آئنسٹائن کی تھیوری بہر حال لاء نہ بن سکی حتی کہ سائنسدان ہی کترانے لگ گئے :)۔۔۔ ۔۔آپ کے قول کے مطابق سائنسدان آینسٹائن اور ڈارون عنقریب اس کی تھیوری کو بھی کوئی ردی کی ٹوکری میں پھینک دے گا سو یہ ایک آن گوئنگ پراسیس ہوا۔۔۔ ۔سرخ سلام آپ کی تھیوری کو۔۔۔ ۔۔۔ آپ اگرڈارون کے نیچرل سیلیکشن پہ ایمان لا یئں یہ آپ کا اختیار ہے ۔۔۔ ۔ ہمیں تو یہ خلاف عقل و فطرت لگتا ہے ۔۔۔

اسی لئے محفل پر میں کوئی سنجیدہ گفتگو نہیں کرتا کیونکہ جزباتی حضرات کا تانتا بندھا ہوا ہے۔ لیکن پھر بھی میں تھوڑی وضاحت کر دوں شائد آپ کو سمجھ آ جائے کہ میرا مدعا کیا ہے۔

سائنس ایک ان گوئنگ پراسیس ضرور ہے لیکن یہ مکمل غلط کبھی نہیں ہوتا اس میں بہتری کی گنجائش ضرور ہوتی ہے۔ نیوٹن کی مثال میں نے دی، نیوٹن کے لاز آج بھی کار آمد ہیں لیکن جب رفتار بڑھ جاتی ہے تو یہ کارآمد نہیں رہتے اور آئنسٹائن کی تھیوری کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ آئنسٹائن کی سمجھ نے نیوٹن کی سمجھ کو ردی کی ٹوکری میں ضرور پھینکا لیکن نیوٹن کی ایکویشنز کو کوئی بھی ردی کی ٹوکری میں نہیں پھینک سکا۔ آئنسٹائن کو اس کو ثابت کرنے میں کافی وقت لگا کہ جب رفتار بہت کم ہو تو آئنسٹائن کی اور نیوٹن کی ایکویشنز ایک ہی ہوتی ہیں۔
سائنس دراصل observations کو سمجھنا اور ان سے پیشن گوئی کرنے کا نام ہے۔ نیوٹن نے اپنے مشاہدات کے ذریعے کچھ ایکویشنز بنائیں جو کہ اس نے شمسی نظام پر لگائیں اور وہ بھی ان کے تابع تھا۔ اسی طرح آئنسٹائن کی ایکویشنز نے کچھ پیشن گوئیاں کیں اور وہ بھی صحیح ثابت ہوئی ہیں۔
اسی طرح ڈارون نے ایک نظریہ پیش کیا جو کہ جانداروں کے آپس میں ایک رشتے، یعنی observations ، کی وضاحت کرتا ہے۔ اور اب اس نظریے کے اتنے ثبوت مل چکے ہیں کہ کوئی بھی سنجیدہ سائنسدان اس سے انکار نہیں کر سکتا۔
یہ ہے سائنس۔ آپ کا مفروضہ یہ تھا کہ اسلام اور سائنس ایک دوسرے کے خلاف نہیں جا سکتے۔ یا تو آپ کو سائنس کو رد کرنا ہو گا یا پھر اسلام کو۔ یا پھر تیسرا طریقہ بھی ہے کہ قرآن کی آیتوں کی علماء نے جو تفسیریں کی ہیں تو وہ ان کی سمجھ بوجھ کے مطابق تھیں۔ اب انسان کی سمجھ بوجھ میں کافی ترقی کر چکی ہے۔ اور ضروری نہیں کہ قرآن کی آیات سے مراد وہی ہو جو کہ علماء ہمیں بتاتے ہیں۔ آخرکار اللہ نے قرآن میں سچائی بیان کی ہے تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ مشاہدات کے بالکل ہی خلاف ہو۔
قرآن سائنس کی کتاب نہیں ہے تو ہمیں اس سے سائنس اخذ نہیں کرنا چاہیے، تو جہاں پر ایسے معاملات کی بات ہوتی ہے جو پچھلی تفاسیر کے مطابق خلاف عقل ہو اس پر ہمیں پھر سے غور کرنا پڑے گا۔
 

سید ذیشان

محفلین
چلیں قیصرانی بھیا ہم یہاں آپس میں اسی موضوع پر بات کرتے ہیں :)
سارے خود ہی خود ایک دوسرے سے بحث کر رہے ہیں۔:confused:

إِنَّ اللَّهَ عِندَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْأَرْحَامِ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ

آپ نے اس آیت کا ترجمہ پیش کیا ہے!

اس آیت میں علم الساعۃ، ینزل الغیث، یعلم ما فی الارحام کے الفاظ سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ ان کا علم صرف اللہ کو ہی ہے۔ ممکن ہے کوئی اور بھی ان چیزوں کو جانتا ہو۔
آیت کے اگلے حصے کو دیکھیں تو جن چیزوں کے ساتھ حرف نفی ’’لا‘‘لگا ہے ان میں علم کی تخصیص کی گئی ہے۔
:)


میرے خیال میں قرآن مجید کا اصل موضوع انسان ہے۔ باقی چیزیں ضمناً بیان کی گئی ہیں جو اس کی ضروریات میں سے ہیں یا جن کا بالواسطہ یا بلاواسطہ انسان سے تعلق ہے !


اس آیت پر اگر غور کریں تو اس میں جنس کی بات کہاں پر کی گئی ہے؟ علم تو اور بھی قسم کا ہو سکتا ہے مثلاً یہ کہ جو رحم مادر میں ہے کیا یہ نیک انسان ہوگا یا بد؟
 

سعادت

تکنیکی معاون
[۔۔۔]
اسی لئے یہ نظریہ ایک نظریہ ہی رہا کسی سائنسی قانون کی حیثیت کبھی اختیار نہ کر سکا۔ جیسے کہ نیوٹن کا قانون تجاذب ۔
اگر جناب نے سائنس پڑھی ہو تو تھیوری اور لا ء کا فرق بھی امید ہے سمجھتے ہوں گے ۔ بوہر اٹامک تھیوری ۔ بوائلز لاء ۔وغیرہم۔۔ ۔اس طرح اور بھی بہت سی تھیوریز ہیں بایو جینسیز ۔ابایو جینسز ۔ماڈرن تھیوری وغیرہ۔

[---]
ڈارون کا نظریۂ ارتقا ایک "نظریہ" ہے "قانون" نہیں۔ جب کوئی نظریہ ہر لحاظ سے درست ثابت ہوجاتا ہےتب وہ"قانون" یعنی سائنس بن جاتا ہے۔

[---]
آئنسٹائن کی تھیوری بہر حال لاء نہ بن سکی حتی کہ سائنسدان ہی کترانے لگ گئے :)
[---]

سائنسی تناظر میں تھیوری (نظریہ) اور لاء (قانون) کے معانی عام بول چال سے مختلف ہیں:

"سائنسی قانون" دی گئی حالتوں اور شرائط کے تناظر میں کسی فطری عمل کو بیان کرتا ہے۔

جب کہ

"سائنسی نظریہ" فطری دنیا کے عوامل کی وضاحت کرتا ہے۔

مثال کے طور پر، کلاسیکی میکانِکس کے قوانین (جو نیوٹن نے بیان کیے) اجسام کی حرکت اور ان کے مابین موجود ثقالت (gravitation) کے بارے میں بتلاتے ہیں۔ لیکن یہ قوانین اس بات کی وضاحت نہیں کرتے کہ حرکت اور ثقالت کے یہ قوانین "کیسے" کام کرتے ہیں۔ یہ وضاحت ہمیں آئنسٹائن کے نظریۂ اضافت میں ملتی ہے۔

سادہ الفاظ میں، سائنسی لاء "کیا" کو بیان کرتا ہے، اور سائنسی تھیوری "کیسے/کیوں" کو بیان کرتی ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ دونوں اپنے اپنے بیانات کے لیے ثبوت (مشاہدات، تجربات وغیرہ) بھی فراہم کرتے ہیں۔ عام زندگی میں "تھیوری" کے معانی "اندازہ، قیاس، یا خیال" کے لیے جاتے ہیں، لیکن سائنس کی رُو سے ایک "تھیوری" کسی بھی hypothesis کی وضاحت بمع ثبوت ہوتی ہے۔ فطری دنیا کے تمام عوامل اور حقائق کی تشریح انہی سائنسی تھیوریز کی مدد سے کی جاتی ہے۔

یہ کہنا کہ "الف ب ج ایک تھیوری ہے اور اگر اس کو ثابت کر لیا جائے تو یہ لاء بن جائے گا" اس لحاظ سے غلط ہے کہ سائنسی تھیوریز اور سائنسی لاز دونوں کو اپنے اپنے دعووں کے لیے مشاہدات او ر ثبوت درکار ہوتے ہیں۔ ثبوت کے بغیر کوئی بھی سائنسی بیان -- چاہے وہ تھیوری ہو یا لاء -- سائنسدانوں کی توجہ نہیں پا سکے گا۔ نیز، ایک تھیوری کبھی لاء نہیں بنے گی، اور ایک لاء کبھی تھیوری نہیں بنے گا، کیونکہ دونوں کا دائرہ کار مختلف ہے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
یہ کہنا کہ "الف ب ج ایک تھیوری ہے اور اگر اس کو ثابت کر لیا جائے تو یہ لاء بن جائے گا" اس لحاظ سے غلط ہے کہ سائنسی تھیوریز اور سائنسی لاز دونوں کو اپنے اپنے دعووں کے لیے مشاہدات او ر ثبوت درکار ہوتے ہیں۔ ثبوت کے بغیر کوئی بھی سائنسی بیان -- چاہے وہ تھیوری ہو یا لاء -- سائنسدانوں کی توجہ نہیں پا سکے گا۔ نیز، ایک تھیوری کبھی لاء نہیں بنے گی، اور ایک لاء کبھی تھیوری نہیں بنے گا، کیونکہ دونوں کا دائرہ کار مختلف ہے۔
یہ ایک عمومی اور بدیہی امر ہے کہ پہلےنظریات -concieve- پیش کیے جاتے ہیں اس ان ہی نظریات کے بطن سے مشاہدات اور تجربات کی تصدیق کے بعد حقائق ترتیب دیے جاتے ہیں اور انہیں قانون کی شکل دی جاتی ہے۔۔۔۔ نظریات کی تاریخی حیثیت برقرار رہتی ہے ۔جس طرح پھول پولینیشن کے ذریعے اور اعضاء کی ترقی کے بعد پھل بن جاتا ہے ۔۔۔:)
 

قیصرانی

لائبریرین
ایک عمومی قاعدہ بیان ہوا ہے اس بارے میں:

وَجَعَلْنَامِنَ الْمَاءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ أَفَلَا يُؤْمِنُونَ ﴿الأنبياء: ٣٠﴾
اور ہم نے (زمین پر) پیکرِ حیات (کی زندگی) کی نمود پانی سے کی، تو کیا وہ (قرآن کے بیان کردہ اِن حقائق سے آگاہ ہو کر بھی) ایمان نہیں لاتے۔
http://www.openburhan.net/ob.php?sid=21&vid=30
اب یہاں مزید کنفیوژن پیدا ہو گئی ہے۔ اگر بریکٹ والے الفاظ ختم کر دیئے جائیں تو یہ زیادہ یونیورسل لگتی ہے۔ یعنی زندگی زمین کے علاوہ بھی کہیں ہو سکتی ہے۔ لیکن ہمارے علماء نے ترجمہ کرتے ہوئے اس آفاقی بیان کو محض زمین تک محدود کر دیا۔ رہے نام اللہ کا :)
 
اگر فرضی اور hypothetical باتوں کی بجائے سیدھی طرح ان امور کو اور پوائنٹس کو بیان کردیا جائے جس سے کسی کو یہ لگتا ہے کہ قرآن اور سائنس یا نظریہ ارتقاء ایک دوسرے کے نقیض ہیں اور contradictکرتے ہیں تو شائد ہم جیسے کم علم لوگوں کے بھی اصل بحث کو سمجھنے میں آسانی ہوجائے۔۔۔۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
اسی لئے محفل پر میں کوئی سنجیدہ گفتگو نہیں کرتا کیونکہ جزباتی حضرات کا تانتا بندھا ہوا ہے۔ لیکن پھر بھی میں تھوڑی وضاحت کر دوں شائد آپ کو سمجھ آ جائے کہ میرا مدعا کیا ہے۔

سائنس ایک ان گوئنگ پراسیس ضرور ہے لیکن یہ مکمل غلط کبھی نہیں ہوتا اس میں بہتری کی گنجائش ضرور ہوتی ہے۔ نیوٹن کی مثال میں نے دی، نیوٹن کے لاز آج بھی کار آمد ہیں لیکن جب رفتار بڑھ جاتی ہے تو یہ کارآمد نہیں رہتے اور آئنسٹائن کی تھیوری کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ آئنسٹائن کی سمجھ نے نیوٹن کی سمجھ کو ردی کی ٹوکری میں ضرور پھینکا لیکن نیوٹن کی ایکویشنز کو کوئی بھی ردی کی ٹوکری میں نہیں پھینک سکا۔ آئنسٹائن کو اس کو ثابت کرنے میں کافی وقت لگا کہ جب رفتار بہت کم ہو تو آئنسٹائن کی اور نیوٹن کی ایکویشنز ایک ہی ہوتی ہیں۔
سائنس دراصل observations کو سمجھنا اور ان سے پیشن گوئی کرنے کا نام ہے۔ نیوٹن نے اپنے مشاہدات کے ذریعے کچھ ایکویشنز بنائیں جو کہ اس نے شمسی نظام پر لگائیں اور وہ بھی ان کے تابع تھا۔ اسی طرح آئنسٹائن کی ایکویشنز نے کچھ پیشن گوئیاں کیں اور وہ بھی صحیح ثابت ہوئی ہیں۔
اسی طرح ڈارون نے ایک نظریہ پیش کیا جو کہ جانداروں کے آپس میں ایک رشتے، یعنی observations ، کی وضاحت کرتا ہے۔ اور اب اس نظریے کے اتنے ثبوت مل چکے ہیں کہ کوئی بھی سنجیدہ سائنسدان اس سے انکار نہیں کر سکتا۔
یہ ہے سائنس۔ آپ کا مفروضہ یہ تھا کہ اسلام اور سائنس ایک دوسرے کے خلاف نہیں جا سکتے۔ یا تو آپ کو سائنس کو رد کرنا ہو گا یا پھر اسلام کو۔ یا پھر تیسرا طریقہ بھی ہے کہ قرآن کی آیتوں کی علماء نے جو تفسیریں کی ہیں تو وہ ان کی سمجھ بوجھ کے مطابق تھیں۔ اب انسان کی سمجھ بوجھ میں کافی ترقی کر چکی ہے۔ اور ضروری نہیں کہ قرآن کی آیات سے مراد وہی ہو جو کہ علماء ہمیں بتاتے ہیں۔ آخرکار اللہ نے قرآن میں سچائی بیان کی ہے تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ مشاہدات کے بالکل ہی خلاف ہو۔
قرآن سائنس کی کتاب نہیں ہے تو ہمیں اس سے سائنس اخذ نہیں کرنا چاہیے، تو جہاں پر ایسے معاملات کی بات ہوتی ہے جو پچھلی تفاسیر کے مطابق خلاف عقل ہو اس پر ہمیں پھر سے غور کرنا پڑے گا۔
یہاں ایک بات واضح ہو گئی ہے کہ سائنس کے نظریات تبدیلی اور بہتری کو ہمیشہ قبول کرتے رہتے ہیں۔آج کی فکشن کو کل کی سائنس ہوتے دیکھے جانے کو ثابت کر نے کی ضرورت نھیں۔ میرا مفروضہ یہ نہیں تھا کہ اسلام اور سائنس مخالف نہیں ہو سکتے۔بلکہ میں نےتو ظفری کی پوسٹ پر یہ عرض کرنا چاہا تھا کہ اسلام کا براہ راست موضوع اگرچہ سائنس نہیں بلکہ بالواسطہ اسلام کا نظامحیات سائنس اور ٹیکنالوجی کا احاطہ کرتا ہے۔جبکہ دوسرے مذاہب میں عام طور پر اس سے سروکار نہیں۔
 
اب یہاں مزید کنفیوژن پیدا ہو گئی ہے۔ اگر بریکٹ والے الفاظ ختم کر دیئے جائیں تو یہ زیادہ یونیورسل لگتی ہے۔ یعنی زندگی زمین کے علاوہ بھی کہیں ہو سکتی ہے۔ لیکن ہمارے علماء نے ترجمہ کرتے ہوئے اس آفاقی بیان کو محض زمین تک محدود کر دیا۔ رہے نام اللہ کا :)
ترجمہ صرف سمجھنے کے لیے پیش کیا وگرنہ آیت اپنے مضمون کے اعتبار سے جامع ہے۔
 
اس آیت پر اگر غور کریں تو اس میں جنس کی بات کہاں پر کی گئی ہے؟ علم تو اور بھی قسم کا ہو سکتا ہے مثلاً یہ کہ جو رحم مادر میں ہے کیا یہ نیک انسان ہوگا یا بد؟
درست فرمایا آپ نے لیکن میرے مراسلے میں ایسی بات نہیں کی گئی جس میں ، میں نے آیت کے مضمون کو جنس کے ساتھ خاص کیا ہو!
إِنَّ اللَّهَ عِندَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْأَرْحَامِ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ

آپ نے اس آیت کا ترجمہ پیش کیا ہے!

اس آیت میں علم الساعۃ، ینزل الغیث، یعلم ما فی الارحام کے الفاظ سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ ان کا علم صرف اللہ کو ہی ہے۔ ممکن ہے کوئی اور بھی ان چیزوں کو جانتا ہو۔
آیت کے اگلے حصے کو دیکھیں تو جن چیزوں کے ساتھ حرف نفی ’’لا‘‘لگا ہے ان میں علم کی تخصیص کی گئی ہے۔
 
Top