arifkarim
معطل
یہ ایک کم بجٹ کی فلم ہے۔ میرا نہیں خیال اسمیں کسی کی عکاسی کی گئی ہے۔ٹریلردیکھ کر تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ قرآن پاک سے حوالہ جات شامل کئے گئے ہیں۔اچھا فلم میں عکاسی ہے۔۔۔ یہی معلوم کرنا چاہ رہا تھا۔۔۔
یہ ایک کم بجٹ کی فلم ہے۔ میرا نہیں خیال اسمیں کسی کی عکاسی کی گئی ہے۔ٹریلردیکھ کر تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ قرآن پاک سے حوالہ جات شامل کئے گئے ہیں۔اچھا فلم میں عکاسی ہے۔۔۔ یہی معلوم کرنا چاہ رہا تھا۔۔۔
آپ والا اسلام یا ہمارے والا اسلام ؟ ابھی یہ طے ہونا باقی ہے !ایرا غیرا یعنی وہ جسکا اردو اور مسلمان دنیا سے کوئی تعلق نہیں۔ اس قسم کی فلمیں تو آئے دن نیٹ پر جاری ہوتی رہتی ہیں اور زیادہ تر انکے پیچھے غیر مسلمین کاہاتھ ہوتا ہے۔ یہ غالباً پہلی بار ہوا ہے کہ ایک پاکستانی مسلمان نے اسلام چھوڑنے کے بعد یہ جسارت کی ہے۔ یہ میرے لئے ایک حیرت کی بات تھی اسلئے یہاں اسکے بارہ میں پوسٹ کیا ہے۔ خاص کر جب اسنے وہ اردو میں فلم کا ٹریلر جاری کیا۔
لولز اب اس فلم کی وجہ سے مسلمانوں نے 100-200 مسلمان مارنے ہین مظاہرے کرنے ہیں املاک جلانی ہیں اور پھر جا کر ان کا بدلہ پورا ہونا ہے
یار یہ اچھا سسٹم ہے جب بھی مسلمانوں کو کسی کام پر لگانا ہو ایک فلم بنا دو
وہ ویب سائٹس جو اس کے جواب میں بنائی گئی ان کا شمار میرے لیے ممکن نہیں ۔ چند :گزشتہ روز لندن میں ہزاروں برطانوی مسلمانوں نے توہین آمیز فلم کے خلاف گوگل لندن کے مرکزی دفتر کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا ۔ برطانوی پریس کے مطابق ۱۰،۰۰۰ سے زائد شرکا نے کمپنی کے مرکزی دفاتر کے باہر مظاہرہ کیا اور اس سے اس توہین آمیز فلم کو ہٹانے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ گوگل اپنی ویب سائٹ یو ٹیوب سے اس گستاخانہ فلم کو نہ ہٹا کر دہشت گردی کو فروغ دے رہا ہے۔
مظاہرین نے یہ ارادہ بھی ظاہر کیا کہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں وہ ساری دنیا میں گوگل اور یوٹیوب کے دفاتر کے باہر احتجاج جاری رکھیں گے۔ یہ مسلمان چند ہفتوں تک مشہور ہائیڈ پارک میں ملین سٹرنگ ریلی کا بھی ارادہ رکھتے ہیں ۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
ہر معاشرے ميں نفرت بيچنے والے گنتی کے چند افراد کے مقابلے ميں محبت اور روادری کا پرچار کرنے والے بے شمار لوگ موجود ہيں۔
http://www.youtube.com/watch?v=QruTUDmgDSE&list=UUol54Ybnv6TQt0KZeTBC7zw&index=2
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
عاطف بھائ تھوڑی سی رہنمائ فرمائیے گا کہ کیا جذبات صرف مسلمانوں کے ہوتے ہیں جن کا خیال رکھنا باقی پانچ کھرب سے زائد انسانوں کا فرض ہے۔ مگر کیا آپ اس بات سے انکار کر سکتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں "عیسائ، یہودی اور ہندو" کے الفاظ گالی کے طور پر استعمال کئے جاتے ہیں۔ عیسائیوں کو چوہڑا کہا جاتا ہے۔ ہندو اور تعصب کے الفاظ کو ہم معانی لیا جاتا ہے۔ یہودیوں کا صرف نام ہی کافی ہے جن کی سازشیں ہمیں ہر مسئلے کے پیچھے دکھائ دیتی ہیں۔ جنہیں ہم اٹھتے بیٹھتے مطعون کرتے ہیں۔عارف صاحب، میں نے تقریباً چار مہینے پہلے محفل کی رکنیت حاصل کی تھی اور ان چار مہینوں میں میں نے جو کچھ پڑھا اور سنا ہے اس سے تو مجھے یہ لگتا ہے کہ محفل میں انتظامی نوعیت کی بہت سی تبدیلیاں اسلامی عقائد رکھنے والے لوگوں کی وجہ سے نہیں بلکہ ان لوگوں کی وجہ سے لائی گئی ہیں جن کا اپنا تو کوئی دین مذہب ہے نہیں اور وہ دوسروں کے ایمان پر بات بات پر سوال اٹھاتے ہیں۔
اگر کسی کو پتہ ہے کہ یہاں 99 فیصد لوگ مسلمان ہیں تو اسے کیا ضرورت ہے کہ وہ جان بوجھ کر ایسی باتیں کہے جن سے ان لوگوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچے۔ مجھے تو سمجھ نہیں آتی کہ ویسے تو لوگوں کو کتے بلیوں کے حقوق کا بھی خیال ہوتا ہے مگر جہاں بات آتی ہے اسلام اور مسلمانوں کی وہاں جو مرضی کہہ اور کر لیتے ہیں اور اس کے بعد جب کسی ردعمل کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو پھر تحمل، برداشت اور رواداری کا درس شروع کردیتے ہیں۔ بیشتر مسائل کی جڑ یہی دوہرے رویے ہیں، یقین نہ آئے تو باریک بینی سے جائزہ لے کر دیکھ لیجئے!
حماد بھائی، آپ نے شاید غور نہیں کیا کہ میں نے بات اردو محفل سے متعلق کی تھی، اسی لئے کہا تھا کہ یہاں 99 فیصد سے زائد لوگ مسلمان ہیں، پوری دنیا کا حوالہ دے کر تو یقینآ میں یہ بات نہیں کہہ سکتا تھا۔عاطف بھائ تھوڑی سی رہنمائ فرمائیے گا کہ کیا جذبات صرف مسلمانوں کے ہوتے ہیں جن کا خیال رکھنا باقی پانچ کھرب سے زائد انسانوں کا فرض ہے۔ مگر کیا آپ اس بات سے انکار کر سکتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں "عیسائ، یہودی اور ہندو" کے الفاظ گالی کے طور پر استعمال کئے جاتے ہیں۔ عیسائیوں کو چوہڑا کہا جاتا ہے۔ ہندو اور تعصب کے الفاظ کو ہم معانی لیا جاتا ہے۔ یہودیوں کا صرف نام ہی کافی ہے جن کی سازشیں ہمیں ہر مسئلے کے پیچھے دکھائ دیتی ہیں۔ جنہیں ہم اٹھتے بیٹھتے مطعون کرتے ہیں۔
میرے دل میں یونہی ایک سوال پیدا ہوا۔ میں نے سوچا کہ عاطف بھائ کافی ٹھنڈے مزاج اور متوازن طبیعت کے مالک لگتے ہیں اور کم از کم مجھ سے زیادہ صاحب علم بھی ہیں۔ کیوں نہ دل میں کھد بد کرتے اس سوال کو ان کے سامنے رکھا جائے ، شاید تسلی ہو۔حماد بھائی، آپ نے شاید غور نہیں کیا کہ میں نے بات اردو محفل سے متعلق کی تھی، اسی لئے کہا تھا کہ یہاں 99 فیصد سے زائد لوگ مسلمان ہیں، پوری دنیا کا حوالہ دے کر تو یقینآ میں یہ بات نہیں کہہ سکتا تھا۔
اب اگر آپ بات کو عمومی سیاق و سباق میں لے ہی آئے ہیں تو اس پر بھی جواب دینا میرا فرض بنتا ہے کہ میں الحمدللہ ایک مسلمان ہوں اور اعتراض مسلمانوں پر ہی کیا گیا ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ آپ نے بات ہی بہت مبہم کی ہے، شروع میں پانچ کھرب انسانوں کا حوالہ دے کر بات آپ نے پوری دنیا کی کرنا چاہی ہے اور آگے چل کر اعتراضات سارے پاکستانی معاشرے سے متعلق ہیں۔ پہلے تو یہ بتاتا چلوں کی دنیا کی آبادی نے تقریبآ سوا سال پہلے 7 ارب سے تجاوز کیا ہے، آبادی اگر موجودہ شرح سے بھی بڑھتی رہے تو کھرب والے ہندسے تک پہنچنے کے لئے ابھی دو تین ہزار سال درکار ہوں گے، البتہ یہ الگ بات کہ دنیا میں اتنے لوگوں کو سمانے کی گنجائش ہے یا نہیں۔ اسی تناظر میں آپ سے گزارش ہے کہ ازراہِ کرم ٹھنڈے دل سے فیصلہ کریں کہ بات پاکستانی معاشرے کی کرنا چاہتے ہیں یا پوری دنیا کی۔
اب آئیے آپ کے تین اعتراضات کی طرف جن کا تعلق پاکستانی معاشرے سے ہے: بھائی میرے، ہمارے ہاں ہر عیسائی کو ’چوہڑا‘ نہیں کہا جاتا بلکہ یہ اصطلاح صرف ان لوگوں کے لئے استعمال کی جاتی ہے جو ایک خاص قسم کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ مثلآ میں نے کبھی نہیں سنا کہ کسی نے 1965ء کی جنگ کے ہیرو سیسل چوہدری یا بشپ آف لاہور الیگزینڈر جان ملک کو چوہڑا کہا ہو؛ ہندوؤں کے متعصب ہونے سے متعلق آپ کے اعتراض کے جواب میں یہ بتانا چاہوں گا کہ لاہور میں سینکڑوں ہندو آباد ہیں، منوہر چند ان کا بہت سرگرم نمائندہ/رہنما ہے، وہ بہت سے مسلمانوں سے ملتا ہے اور انہیں اپنے مختلف مذہبی تہواروں پر دعوت بھی دیتا ہے، دو بار مجھے بھی کرشنا مندر جانے کا اتفاق ہوا ہے۔ مندر کے اردگرد رہنے والے 99 فیصد سے زائد لوگ مسلمان ہیں مگر کبھی کسی کو وہاں رہنے اور پوجا پاٹھ کے لئے آنے والے ہندوؤں میں تعصب دکھائی نہیں دیا بلکہ ان ہندوؤں سے مسلمانوں کے تعلق بہت خوشگوار ہیں؛ آپ کا آخری اعتراض یہودیوں کے حوالے سے ہے، تو جناب عرض یہ ہے کہ پاکستان میں تو اس وقت یہودیوں کی کل آبادی سینکڑوں نہیں تو چند ہزاروں میں ہوگی اور وہ خود کو یہودی ظاہر ہی نہیں کرتے، لٰہذا ہمارے معاشرے کے حوالے سے تو اس بات کو ایک طرف رکھئے۔ اب یہ کہتا چلوں کہ سازش کی بات صیہونیوں سے متعلق کی جاتی ہے مگر وہ چونکہ خود کو یہودیت کے پردے میں چھپائے رکھتے ہیں اس لئے نام یہودیوں کا بدنام ہوتا ہے۔ مختلف ملکوں کے مسلمان رضاکاروں کو ترکی سے فلسطین لے کر جانے والے امدادی بحری بیڑے کو ایک یہودی لڑکی ریچل کوری کے نام سے ہی منسوب کیا گیا تھا۔
آپ سے گزارش ہے کہ حالات و واقعات کا ٹھیک سے جائزہ لے لیں، میں یہیں ہوں اور جب آپ چاہیں بحث کرنے کو تیار ہوں۔
حماد بھائی، جواب تو میں نے ٹھنڈے دل سے ہی دیا ہے مگر اس میں جو ذرا سی ترشی آپ کو دکھائی دی ہے اس کی وجہ آپ کے سوال میں شامل بےجا تنقید ہے۔ میں ایک صحافی ہوں اور میرا کام ہی دن رات معاشرے کے مختلف طبقات کا مشاہدہ کرنا ہے۔ میں اندرون سندھ کے ان علاقوں سے بھی ہو کر آیا ہوں جہاں ہندو آبادی کی اکثریت ہے اور عیسائی بھی خاصی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ مجھے ان لوگوں سے ملنے اور ان کے ساتھ وقت گزارنے کا موقع بھی ملا ہے۔ وقت ملا تو کسی روز محفل میں اپنے اس تجربے کی روداد پیش کروں گا انشاءاللہ۔میرے دل میں یونہی ایک سوال پیدا ہوا۔ میں نے سوچا کہ عاطف بھائ کافی ٹھنڈے مزاج اور متوازن طبیعت کے مالک لگتے ہیں اور کم از کم مجھ سے زیادہ صاحب علم بھی ہیں۔ کیوں نہ دل میں کھد بد کرتے اس سوال کو ان کے سامنے رکھا جائے ، شاید تسلی ہو۔
مگر آپ نے آغاز میں ایک ٹائپو کو پکڑ کر پہلے مجھے رگیدا اور مذاق بنا کر شرمندہ کیا۔ آپ ویسے ہی اپنے زور کلام کے ذریعے میری تسلی کر سکتے تھے کجا یہ کہ مجھے حریف جان کر میری سہو پر ایک پیراگراف لکھ مارا۔
میں بھی اسی معاشرے کا ایک فرد ہوں۔ آپ کا مشاہدہ میرے مشاہدے کے برعکس ہے۔ بہرحال یہ آپکی رائے ہے جس کا مجھے مکمل احترام ہے۔
آخر میں آپ نے "بحث کا چیلنج" اس طرح دیا ہے گویا میرے اس سوال کے پیچھے بھی کسی یہودی سازشی ادارے کا ہاتھ ہے۔
خوش رہئے!
تو کیا کچھ ماہ قبل استمبر میں جاری ہونے والی” معصوم مسلمان “ فلم جو کہ بالکل گمنام تھی، اسکو ہم نے ہی روایتی جلسے، جلوس ، قتل اور ملکی املاک کو نقصان پہنچا کر پوری دنیا میں اہمیت نہیں دلوائی؟ایسی فلموں کی تشہیر کرکے ہم اسے خود اہمیت دے رہے ہیں۔
یہ فلم ایک dramatization ہے۔ اس میں ٹیری جونز کی اصل وڈیو کو استعمال کیا گیا ہے اور گانا گانے والے لوگ ایکٹرز ہیں جن کی وڈیو بعد میں شامل کی گئی ہے۔ اصل میں ٹیری جونز کی تقریر کو کسی نے گانا گا کر نہیں روکا تھا۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
سب سے پہلی بات تو يہ ہے کہ نا تو يہ ويڈيو جعلی ہے اور نا ہی اس ميں سياق وسباق سے ہٹ کر کوئ ردوبدل کيا گيا ہے۔ تمام معتبر امريکی اخبارات ميں اس واقعے کو رپورٹ کيا گيا تھا اور اس کی بآسانی تصديق کی جا سکتی ہے۔ اس واقعے کی تفصيل اور وہ لمحہ بہ لمحہ حالات جو ان مناظر کا سبب بنے اس ويب لنک پر بيان کيے گئے ہيں۔
http://www.nytimes.com/2012/12/17/opinion/the-public-square.html?_r=0
علاوہ ازيں آپ اس ويڈيو کے اصل پيغام اور اس ميں اجاگر کردہ سوچ کو يکسر نظرانداز کر رہے ہيں۔ اکثر اردو فورمز پر مغرب ميں چند افراد کی جانب سے تشہير کردہ منفی مواد کی بابت بہت کچھ لکھا جاتا ہے۔ اس ويڈيو کا مقصد يہ واضح کرنا ہے کہ کسی بھی دوسرے معاشرے کی طرح امريکی معاشرے ميں بھی ايسے افراد کی کمی نہيں ہے جو کسی مخصوص مذہبی يا نسلی گروہ کے خلاف نفرت پر مبنی پيغام کو يکسر مسترد کرتے ہيں۔ اس ويڈيو کا مقصد اس بنيادی انسانی سوچ اور جستجو کا اظہار ہے جس کے تحت معاشرے کے مختلف مذہبی طبقوں کے مابين برداشت اور عدم احترام کے جذبات کو پروان چڑھانے کی اہميت واضح کرنا ہے۔
اس ويڈيو کے ذريعے انتہائ تخليقی انداز ميں ان گنے چنے افراد کے فلسفے کی بھی نفی کی گئ ہے جو نا صرف يہ کہ نفرت اور عدم برداشت کا پرچار کرتے ہيں بلکہ اپنے تئيں خود کو معاشرے کے بڑے حصے کا نمايندہ بھی قرار ديتے ہیں۔
اس کوشش کو فريب قرار دينا يا اسے دھوکہ دہی کے زاويے سے ديکھنا سراسر ناانصافی ہے۔ اس ويڈيو ميں جو مناظر دکھائے گئے ہيں وہ نيويارک کی سڑکوں پر عام امريکيوں کی جانب سے برداشت اور باہم احترام کے مقبول عام جذبے کا عوامی اظہار ہے اور يہ اس حقيقت کو بھی آشکار کرتا ہے کہ چند افراد کی اوٹ پٹانگ حرکتوں کو امريکی عوام کی اکثريت کی رائے قرار نہيں ديا جا سکتا۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
یہ ہے original video:
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
آپ ٹيری جونز کی سوچ اور اس ويڈيو پر توجہ مرکوز کيے ہوئے ہيں جو اس پيغام کی تشہير کر رہی ہے۔ ميرا موقف يہ ہے کہ ايسے بہت سے امريکی ہيں جو اس سوچ سے متفق نہيں ہيں اور معاشرے کے تمام طبقات کے ليے برداشت اور احترام پر يقين رکھتے ہيں۔ ميں نے جو ويڈيو پوسٹ کی ہے وہ اس مقبول سوچ کی عکاسی کرتی ہے اور اس ميں نيويارک ميں عام عوام کی جانب سے ردعمل دکھايا گيا ہے۔
بحث کی حد تک اگر يہ مان ليا جائے کہ جو ويڈيو ميں نے پوسٹ کی ہے وہ محض جعلی ہے اور ايسا کوئ واقعہ سرے سے رونما ہی نہيں ہوا تو اس کا يہ مطلب نکلتا ہے کہ کچھ عام امريکی شہريوں نے يہ فيصلہ کيا کہ مصنوعی طور پر ايک ايسا واقعہ "تخليق" کيا جائے اور پھر اس کے ذريعے اس سوچ کی تشہير کی جائے کہ عام امريکی شہری ان قدروں اور نظريات پر يقين نہيں رکھتے جن کا اظہار ٹيری جونز کی جانب سے کيا جاتا ہے۔ صرف يہی نہيں بلکہ امريکہ ميں ميڈيا کے بڑے بڑے اداروں نے بھی اس "مصنوعی واقعے" کو رپورٹ کرنے کی حامی بھر لی تا کہ اس خيال کو مقبول عام کرنے ميں مدد مل سکے کہ امريکہ ايک ايسے معاشرے کا حصہ ہونے کو قابل فخر سمجھتے ہيں جہاں برداشت اور روادری کا مظاہرہ کيا جاتا ہے اور کسی بھی مذہب يا نسلی گروہ کے خلاف نفرت اور تفريق کو يکسر رد کر ديا جاتا ہے۔
باوجود اس کے کہ ميں نے ايسے قابل تحقيق ريفرنسس پيش کيے ہیں جن سے يہ ثابت ہو جاتا ہے کہ ويڈيو ميں پيش آنے والا واقعہ جعلی نہيں ہے، آپ اپنی بات پر بضد ہیں۔ آپ کے موقف کے حوالے سے دلچسپ امر يہ ہے کہ اگر آپ اپنی سوچ کو درست مانتے ہوئے بھی حقائق پر نظر ڈالیں تو بنيادی نقطہ يہی ہے کہ امريکيوں کے ايک گروہ نے يہ ٹھان لی کہ ٹيری جونز جس فکر اور نظريے کی تشہير کر رہا ہے اس کو زائل کرنے کے ليے کوشش کی جانی چاہيے تا کہ يہ حقيقت سب پر عياں ہو کہ زيادہ تر امريکی ايسا نہيں سوچتے اور پھر امريکی ميڈيا کے اہم اداروں نے بھی اس کوشش کی حمايت اور اسے کامياب کرنے کے ليے اپنا کردار ادا کيا۔ دونوں ہی صورتوں ميں آپ کی دليل مانند پڑ جاتی ہے۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu