معلومات فراہم کریں۔۔۔۔۔۔زیاراتِ مقاماتِ مقدسہ مکۃ المکرمۃ و مدینۃ المنورۃ

ابو کاشان

محفلین
کچھ معلومات فراہم کریں
زیارات مقاماتِ مقدسہ مکۃ المکرمۃ اور مدینۃ المنورۃ کے بارے میں​

میرے ایک آفس کے ساتھی ہیں۔ وہ انشاء اللہ عمرہ کی ادائیگی کا ارادہ رکھتے ہیں۔ انھیں زیارات مقاماتِ مقدسہ مکۃ المکرمۃ اور مدینۃ المنورۃ کے بارے میں کچھ معلومات ردکار ہیں۔ وہ کون کون سی جگہیں ہیں جو ان مقامات میں یا اطراف میں دیکھی جا سکتی ہیں۔
جگہوں کے نام اور نشاندہی کے ساتھ ساتھ اگر کچھ تفصیلات بھی مل جائیں تو کیا بات ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
میرے خیال میں‌ آجکل عمرے کا ویزہ شاید 15 دن کا ہوتا ہے جو کہ بہت ہی تھوڑے دن ہوتے ہیں۔ ان دنوں میں دوسرے ممالک سے آنے والوں کو یہی لالچ ہوتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ وقت حرم شریف میں گزاریں۔ اور زیادہ سے زیادہ نمازیں حرم شریف میں ادا کریں۔

مکہ میں زیادہ تر حاجی لوگ غارِ حرا دیکھنے جاتے ہیں۔ یہ حرم سے زیادہ دور نہیں ہے لیکن پیدل جانا ممکن نہیں کہ خاصا فاصلہ ہے۔ اوپر غار تک جانے کے لیے خاصا زیادہ وقت چاہیے۔ اگر آپ فجر کے فوراً بعد گاڑی کے ذریعے جائیں اور اوپر غار تک ہو کر آئیں تو ظھر تک واپس آ سکتے ہیں۔

دوسری جگہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی جائے پیدائش ہے جو کہ صفا مروہ کی طرف سے چند قدموں کے فاصلے پر ہے۔
مسجد جن اور قبرستان جنت المعلٰی بھی حرم سے قریب ہی ہیں۔ یہاں باآسانی پیدیل جایا جا سکتا ہے۔

اس کے علاوہ منٰی، مزدلفہ اور عرفات بھی جایا جا سکتا ہے۔ عرفات ہی میں جبلِ رحمت بھی ہے۔ لیکن ان جگہوں پر جانے کے لیے گاڑی کی ضرورت ہو گی۔

مدینہ شریف میں مقدس مقامات کی زیارت کے لیے حرم کے باہر گاڑیوں والے آوازیں لگا رہے ہوتے ہیں۔ وہ کچھ پیسے لے کر دو گھنٹوں میں کچھ مقامات کی زیارت کروا دیتے ہیں۔ ان مقامات میں مسجد قبا، سبعہ مساجد، مسجد قبلتین اور جبل اُحد شامل ہیں۔

قبرستان جنت البقیع مسجد نبوی کے برابر میں ہے۔
 

ابو کاشان

محفلین
شمشاد بھائی معلومات فراہم کرنے کا بہت بہت شکریہ۔
حاجیوں کا تو اصل مقصد ہی زیادہ سے زیادہ عبادت ہوتا ہے۔
اصل میں یہ صاحب پچھلے سال بھی عمرہ ادا کر کے آئے ہیں۔ آپ کے بیان کردہ مقامات تو یہ دیکھ چکے ہیں۔ اگر کوئی صاحب ان کے علاوہ مقامات کا بتا سکیں تو عنایت ہو گی۔
جیسے مجھے یاد پڑتا ہے کہ چار سال قبل میں جب عمرہ پر گیا تھا تو زیارت کے لیئے پیکیج والوں نےگاڑی بک کی تھی اس سفر میں ہم مکۃ المکرمہ سے کافی دور ایک نہایت قدیم مسجد میں گئے تھے جس میں بمشکل بیس آدمیوں کے نماز پڑھنے کی جگہ تھی۔ ایک معلوماتی سل بھی دیوار میں نصب تھی جس کی عبارت ظاہر ہے عربی ہی میں تھی۔ اس بارے میں کسی کو معلوم ہو تو بتائیں یا اس جیسی اور معلومات۔
پیشگی شکریہ۔
 

دوست

محفلین
سعودی حکومت کو دعائیں دیجیے جن کی بدولت اگلے چند سالوں میں پوچھنے کی زحمت بھی نہیں کرنی پڑا کرے گی۔ چند گنے چنے مقامات کے علاوہ باقی تمام مقامات یا تو مسمار کردئیے گئے ہیں یا ان کی دیکھ بھال نہیں کی جاتی۔ کنویں بند کردئیے گئے ہیں، باغ جلا اور اکھاڑ دئیے گئے ہیں۔ آثار قدیمہ اور مکانات ڈھے رہے ہیں اور کسی کو بھی اس کی پرواہ نہیں۔ ترکوں نے کبھی ہر اس جگہ مسجد کھڑی کردی تھی جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اصحاب رسول رضوان اللہ الیھم اجمعین کے ہونے کا ثبوت ملا۔ آج وہ مساجد یا تو موجود ہی نہیں یا آخری سانسیں لے رہی ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
جی شاکر بھائی کی بات بالکل درست ہے۔ سعودی حکومت سوائے چند ایک مقامات کے باقی ہر چیز کو ختم کرتی جا رہی ہے۔ حتی کہ سبعہ مساجد کی جگہ پر اب ایک ہی بڑی سی مسجد تعمیر کر دی گئی ہے۔

ان مقامات کو ختم کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ زائرین ان مقامات پر جا کر طرح طرح کی حرکتیں کرتے ہیں۔ ابھی بھی شہداء احد کی چار دیواری پر جو جنگلہ نصب ہے وہاں طرح طرح کے تعویذ اور دھاگے باندھ آتے ہیں۔ تو جب لوگوں نے دیکھا کہ تعویذ اور دھاگے تو وہاں کے منتظمین آسانی سے نکال کر پھینک دیتے ہیں تو زائرین نے وہاں تعویذ دھاگے باندھنے کی بجائے جالی یا سلاخوں میں تالے لگانا شروع کر دیئے۔ میں نے خود منتظمین کو لوہا کاٹنے والی آری سے وہ تالے کاٹتے دیکھا ہے۔
 

دوست

محفلین
تاریخ کے ثبوت مٹ جائیں تو وہ دیومالا بن جاتی ہے۔ مستنصر حسین تارڑ کے مطابق خیبر کے قلعے جو غزوہ خیبر کے موقع پر فتح کئے گئے ان میں سے ایک بڑے مکان جتنا تھا۔ شاید یہ وہی قلعہ تھا جہاں علی رضی اللہ عنہ اور مرحب کا مقابلہ ہوا۔ اس کا یہ حال ہے کہ صرف دیواریں باقی ہیں۔ وہ بھی ڈھے گئیں تو لوگوں کے ذہنوں میں اور خودساختہ تاریخوں میں ان مسمار شدہ دیواروں پر فصیلیں کھڑی کرلی جائیں گی۔ اور قلعہ ایکڑوں بلکہ میلوں پر پھیل جائے گا۔ تاریخ کے لیے اور یہ جاننے کے لیے کہ وہ بھی انسان ہی تھے، ثبوت بہت ضروری ہیں۔ ان سب چیزوں کو قائم رہنا چاہیے۔ ایک انتہا یہ ہے کہ عقیدت کی انتہا پر پہنچ کر اسے پوجنا شروع کردیا جاتا ہے اور دوسری انتہا یہ ہے کہ اس چیز کو ہی صفحہ ہستی سے مٹا دیا جاتا ہے۔ عجب اسلام ہے ہمارا۔
 

شمشاد

لائبریرین
آپ کی بات بجا ہے۔ لیکن ان مقدس مقامات پر جا کر زائرین اور خاص کر ایشیائی زائرین جو جو حرکتیں کرتے ہیں وہ بھی دیکھنے لائق ہوتی ہیں۔ جن حضرات نے غار حرا کی زیارت کی ہوئی ہے وہ جانتے ہیں کہ پہاڑ کے شروع میں ہی سعودی حکومت نے کتنا بڑا بورڈ نصب کر رکھا ہے اور اس پر اردو، انگریزی، ترکی، فاری، ہندی زبانوں وغیرہ میں لکھ رکھا ہے کہ اس پہاڑ کی مٹی لیجانا، پتھروں کو چومنا وغیرہ سب بدعت میں شامل ہے۔ مدینہ شریف میں جبل اُحد تو اب بہت ہی چھوٹا رہ گیا ہے کہ حاجی لوگ اس پہاڑ کی مٹی تبرک کے طور پر لے جاتے ہیں۔ اور بھی جو مقدس مقامات ہیں، وہاں بھی یہی کچھ ہوتا ہے۔
 

دوست

محفلین
اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ غار حرا پر صفائی کا بھی خیال نہ رکھا جائے۔ وہاں پیشہ ور گداگر بیٹھے رہتے ہیں۔ سیڑھیاں بنانے والے بیٹھے رہتے ہیں جن کی سیڑھیاں کبھی مکمل نہیں‌ ہوتیں۔ اور پہاڑ کے دامن میں کولڈ ڈرنک کی بوتلوں اور ایسی الا بلا کا ڈھیر لگا رہتا ہے۔ اچھا طریقہ ہے لوگوں کو بدعت سے روکنے کا۔
 
Top