نور وجدان
لائبریرین
کچھ دن پہلے مغلیہ تاریخ فیس بک پر پڑھنے کا اتفاق ہوا ۔ میں نے سوچا ہے کہ مغلیہ تاریخ کی فیس بک سرگرمی پر تاریخ لکھی جائے ۔ آپ سب کو پتا ہے کہ بابر کی طوفانی روح افغانستان میں پیدا ہوئی اور تیرہ سال کی عمر میں سلطنت سنبھال لی ۔ یہ عظیم الشان شہنشاہ جس نے زندگی کا زیادہ تر حصہ دربدری میں گزارا تھا ، بہت ذہین اور زیرک تھا۔ کہاوت ہے کہ ''پوت کے پاؤں پالنے سے'' کے مصداق بابر نے پیدا ہوتے ہی جو قلقاریاں ماریں وہ کچھ یوں تھی
''فا فا فے فے س ب بواں بک ''
بابر نے پیدا ہوتے ہی فیس بک کا استعمال شروع کیا ۔ اور اپنی پیدائش کے اسٹیٹس کو اس طرز پر اپ ڈیٹ کیا۔۔۔
جو لوگ سن و پیدائش کو یاد نہیں رکھ سکتے اب وہ فیس بک کے ذریعے بہتر طور پر یاد رکھ سکتے ہیں ۔بات یہاں تک محدود نہ رہی ۔بادشاہِ وقت جان چکے تھے کہ آج کل ٹوئیٹر کا استعمال زوروں پر ہو ۔ سیاسی مبصرین سے لے کے نیوز رپورٹرز سے براہ راست تعلق اس سائیٹ سے استوار کیا جاسکتا ہے اور یہیں سے سراغ رسانی کا کام بخوبی انجام پاسکتا ہے ۔ اس لیے ٹوئیٹر سرگرمی کو ملاحظہ کرتے ''فالو'' بٹن دبانا مت بھولیے گا ۔
بابر چونکہ بچہ ہے اس لیے اس کے ''فالورز'' تھوڑے ہیں ۔ تاہم بابر کو مشورہ دیا گیا ہے کہ کس کو ''فالو'' کرے اور ساتھ پیشن گوئی کی گئی اس کے بعد اس کا جانشین کون ہوسکتا ہے ۔ اس تصویر کی سائیڈ بار پر ملاحظہ کیجئے ۔ لوگ کہتے ہیں ا''براہیم لودھی'' بڑا مفاد پرست تھا ۔ اسی لیے بابر کو خط لکھ کے ہندوستان آنے کی دعوت دی ۔ بابر بیچارہ بھی'' فرغانہ ''میں چین نہیں پاسکا تھا اور دربدری میں اسے ابراہیم کی آفر کافی نافع لگی اور یوں دونوں میں براہ راست دوستی کا آغاز ہوگیا مگر ابراہیم نے غداری کی اور بابر نے پانی پت کا معرکہ سر کرتے لودھیوں اور راجپوتوں کی طاقت کو کچل دیا۔
یوں ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کا بانی ظہیرالدین بابر تھا ۔ تزک بابری میں اس نے فیس بک کی ابتدا کے بارے میں بھرپور تفصیل بھرا مضمون لکھا تھا ۔ یوں فیس بک کی تاریخ اتنی ہی پرانی جتنا بابر ۔۔۔۔ سبھی جدید علوم کے بانی مسلمان ہیں جیسے علم کیمیا کا بانی جابر بن حیان تھا اور علم حیاتیات پر سب سے پہلے ابن نفیس نے روشنی ڈالی اور طبیعات کے خشک مضمون کی ابتدا ابن الہیتھم نے کی تھی ۔ اسی طرح فیس بک کی ابتدا بابر کرگیا تھا مگر اس کی ایجاد کا سہرا 'مارک ' کے سر پر ہے ۔
دہلی کی عظیم الشان فتح کے بارے مفتوح نے ''تزک بابری'' میں ٹوئیٹر پر سیاسی خبر نامہ شریک کیا اس کی نقول کی کاپی ایک عدد یہاں پر فراہم کی جا رہی ہے ۔
بابر نے ہمایوں کو اپنا ولی عہد مقرر کردیا جبکہ اس سے بڑے بھائی بالخصوص کامران کو جلن و حسد نے جلا کے راکھ کردیا ۔ یہی وجہ ہمایوں نے اس کی آنکھیں نکلوا کے حج پر بھیج دیا ۔ بابر نے ہمایوں کو ولی عہد بنانے کا جو فیصلہ کیا، اس کو تاریخ نے اس طرح ہمارے سامنے رکھا ہے ۔
ہمایوں کو شادی کرنے کا بہت شوق تھا جہاں جاتا ۔ جس جگہ کو فتح کرتا وہاں سال سے چھ مای عیش و نشاط میں گزار دیتا تھا اور ایک عدد نئی بیوی کے ہمراہ دار السلطنت واپس آتا تھا ۔
ہمایوں کی عشق و عاشقی کی داستان شیر شاہ سوری تک پہنچی تو اس نے خواب بُننا شروع کردیے ۔ سب سے پہلے بہار خان لودھی کو شکست دیتے بنگال اور اودھ پر قبضہ کرلیا اور آہستہ آہستہ دہلی پر قابض ہوگیا ۔ ہمایوں کو بھی اپنے باپ کی طرح در بدر ہونا پڑا اور جب وہ سندھ کے پاس پہنچا تو حمیدہ بیگم سے شادی کرتے ایک عدد ولی عہد پیدا کیا جس کو افغانستان بھیج دیا گیا ۔ اس ہونہار سپوت کا نام اکبر رکھا گیا ۔
ہمایوں جب خراساں روانہ ہوا تو وہاں کے شاہ نے پناہ دینے کی شرط فرقے سے مشروط کردی اور یوں ہمایوں سنی سے شیعہ ہوگیا ۔ اسی وجہ سے وہ ہندوستان پر دوبارہ قابض نہیں ہوسکا
مگر پھر اسے ترکیب سوجی اور افغانستان سے راستہ بناتے ہندوستان داخل ہوا جس وقت شیر شاہ سوری مرچکا تھا ۔
ہمایوں کا وفادار ''بیرم خان'' ہندوستان میں داخل ہوا اور سلطنت داخل ہوتے وقت اس نے اسٹیٹس اپڈیٹ کیا وہ کچھ یوں تھا :
ہمایوں زیادہ عرصہ زندہ نہیں رہ سکا اور نیابت اکبر کے پاس آگئی ۔ہیمو ہندوستان کا بہادر سپوت تھا جو راجھستان پر قابض ہو چکا تھا۔ اپنی حکومت کا باقاعدہ آغاز شروع کردیا ۔
اکبر اس وقت بچہ تھا مگر بیرم خان نے ''ہیمو'' کا مقابلہ کیا یوں پانی پت کی عظیم الشان جنگ میں ہیمو کو بیرم خان نے قتل کردیا۔ اکبر اور بیرم خان کے درمیاں چپقلش کا آغاز اس واقعے کے بعد ہوا۔ یوں ہممو کی شکست کے بدلے محفل موسیقی رکھی گئی ۔ تان سین نے جنگ کی جیت کے موقع پر سُر سے محفلین کا سر دھن دیا ۔
تان سین نے نا صرف ٹوئیٹر پر اپنا پروفائل بنایا بلکہ ساؤنڈ کلاؤڈ کو رواج دیتے اس کو شروع کیا ۔ اسد امانت علی ، شفقت امانت علی ، نصرت فتح علی خان ، نور جہان اور راحت فتح علی خان سبھی تان سین کو ''فالو'' کرتے دیکھے گئے ہیں جبکہ عاطف اسلم بھی اسی راہ کے مسافر دکھائی دیتے ہیں ۔
اکبر کی راجپوت پالیسی کو تزک جہانگیری میں یوں دکھایا گیا ہے
اکبر کی طبعی موت کے بعد جہانگیر نے تخت سلطنت سنبھالا اور تخت سنبھالنے کے بعد پہلا کام اپنی فیس بک پروفائل اپڈیٹ کرنا تھا ۔ 'تزک جہانگیری'' میں اس کی نقول اس طرح کاپی کی گئی ہیں ۔
سلیم اور انارکلی کی داستان یوں تو کون نہیں جانتا مگر فیس بک اس وقت اشرافیہ کے پاس تھی اس لیے اشرافیہ نے اس قصے کو عوام الناس تک مقبول نا ہونے دیا تاہم ان نواردات کی اک نقل موؤرخین بھی ساتھ رکھتے ہیں
ماہرین نور جہاں کی سازشیں اس کمنٹ میں ملاحظہ کرسکتے ہیں اور اس بارے میں ایک ریسرچ کو بھی لائق کرتی پائی گئی تھی
جہانگیر نے برطانیہ کے تاجروں کو خصوصی رعایت دے رکھی تھی اور یوں مدراس اور پٹنہ میں ان کے کپڑوں کا کارخانے تھے اور برطانیہ کے سبھی تاجروں نے مل کے ایک یونین بنائی جس کو ''ایسٹ انڈیا کمپنی '' کہا جاتا تھا۔ جہانگیر نے ایک دفعہ اس کمپنی کو کو لنچ کا شرف بخشا۔ کمپنی نے بطور خاص ہندوستانی چکن کی تعریف کی اور اس کی ہائبری ڈائزیشن سے فارمی مرغی تک بنالی ۔ جس کو فیس بک پر اپ ڈیٹ اس لیے نہیں کیا گیا کیونکہ سبھی موؤرخین بادشاہ ِ وقت پر نظریں مرکوز کیے رکھتے تھے ۔
تخت نشینی کا کوئی باقاعدہ اصول نہ ہونے کے باعث شہزادے نے روایت جاری رکھتے بغاوت کردی اور اپنی حکومت کا باقاعدہ آغاز کیا ۔
دنیا کے ساتواں عجوبہ تاج محل تعمیر کرانے کا سہرا بھی شاہ جہاں کو جاتا ہے تاج محل بنانے کے بعد اپنی بے پایاں مسرت کا اظہار اس طرز کیا تھا۔
؎؎؎
پبلک پیج بناتے جب شاہ جہاں نے کیفیت نامہ لکھا تو مورخین کہتے ہیں انہوں نے اس کو ''اونلی می '' کی سیٹنگز پر استوار کیا جس سے انفرادی رازداری کی ترجیحات کے بارے میں ہمیں مطلع کیا گیا ہے ۔ فیس بک سے یہی رواج اردو محفل تک آیا اور یہاں پر صرف چیدہ لوگ جو پیروی کرتے ہوئے پائے جاتے وہی اپنی پسندیدہ محفلین کے کیفیت نامے پر تبصرہ کرسکتے تھے ۔ بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ یہ فری فلو آف انفارمیشن کے خلاف ہے مگر روایت ہونے کی وجہ اس کو بطور فیشن اپنا لیا گیا ہے
شاہ جہاں کی زندگی کی کچھ اہم واقعات جو ہمیں فیس بک کے ماخذ سے حاصل ہوئے اس کی نقول یہاں پر اپلوڈ کی جارہی ہیں ۔
بالآخر من گھڑت بیماری کی کہانی نے شاہ جہاں کی موت کی خبر عام کردی اور یوں چار بھائیوں میں خانہ جنگی کے بعد اورنگ زیب بچ گیا اور مغلیہ سلطنت کا وارث ہوا
مورخین کے مطابق اورنگ زیب کی دکن پالیسی اس کی سلطنت کے لیے نہ صرف کینسر ثابت ہوئی بلکہ اس کی زندگی کا بھی کینسر ہوگئی اور اس کی جان انہیں جنگوں کی نظر ہوگئ
اورنگ زیب کے بعد کوئی بادشاہ اس قابل نہیں تھا جو حکومت کو سنبھال سکے ۔ اس لیے ایسٹ انڈیا کمپنی نے فائدہ اٹھاتے مغلیہ سلطنت اور حکومت کا خاتمہ کردیا
اپنی جلا وطنی کے بارے میں بہادر شاہ ظفر کا ایک مشہور شعر ان کے دیوان سے
بڑا ہے بد نصیب ظفر دفن کے لیے
دو گز زمیں بھی نہ ملی کوئے یار میں
اور ان کا حسرت بھرا کلام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ان کی زندگی میں اندھیروں کی علامت کے طور پر جانا جاتا ہے
جو لوگ سن و پیدائش کو یاد نہیں رکھ سکتے اب وہ فیس بک کے ذریعے بہتر طور پر یاد رکھ سکتے ہیں ۔بات یہاں تک محدود نہ رہی ۔بادشاہِ وقت جان چکے تھے کہ آج کل ٹوئیٹر کا استعمال زوروں پر ہو ۔ سیاسی مبصرین سے لے کے نیوز رپورٹرز سے براہ راست تعلق اس سائیٹ سے استوار کیا جاسکتا ہے اور یہیں سے سراغ رسانی کا کام بخوبی انجام پاسکتا ہے ۔ اس لیے ٹوئیٹر سرگرمی کو ملاحظہ کرتے ''فالو'' بٹن دبانا مت بھولیے گا ۔
بابر چونکہ بچہ ہے اس لیے اس کے ''فالورز'' تھوڑے ہیں ۔ تاہم بابر کو مشورہ دیا گیا ہے کہ کس کو ''فالو'' کرے اور ساتھ پیشن گوئی کی گئی اس کے بعد اس کا جانشین کون ہوسکتا ہے ۔ اس تصویر کی سائیڈ بار پر ملاحظہ کیجئے ۔ لوگ کہتے ہیں ا''براہیم لودھی'' بڑا مفاد پرست تھا ۔ اسی لیے بابر کو خط لکھ کے ہندوستان آنے کی دعوت دی ۔ بابر بیچارہ بھی'' فرغانہ ''میں چین نہیں پاسکا تھا اور دربدری میں اسے ابراہیم کی آفر کافی نافع لگی اور یوں دونوں میں براہ راست دوستی کا آغاز ہوگیا مگر ابراہیم نے غداری کی اور بابر نے پانی پت کا معرکہ سر کرتے لودھیوں اور راجپوتوں کی طاقت کو کچل دیا۔
یوں ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کا بانی ظہیرالدین بابر تھا ۔ تزک بابری میں اس نے فیس بک کی ابتدا کے بارے میں بھرپور تفصیل بھرا مضمون لکھا تھا ۔ یوں فیس بک کی تاریخ اتنی ہی پرانی جتنا بابر ۔۔۔۔ سبھی جدید علوم کے بانی مسلمان ہیں جیسے علم کیمیا کا بانی جابر بن حیان تھا اور علم حیاتیات پر سب سے پہلے ابن نفیس نے روشنی ڈالی اور طبیعات کے خشک مضمون کی ابتدا ابن الہیتھم نے کی تھی ۔ اسی طرح فیس بک کی ابتدا بابر کرگیا تھا مگر اس کی ایجاد کا سہرا 'مارک ' کے سر پر ہے ۔
دہلی کی عظیم الشان فتح کے بارے مفتوح نے ''تزک بابری'' میں ٹوئیٹر پر سیاسی خبر نامہ شریک کیا اس کی نقول کی کاپی ایک عدد یہاں پر فراہم کی جا رہی ہے ۔
بابر نے ہمایوں کو اپنا ولی عہد مقرر کردیا جبکہ اس سے بڑے بھائی بالخصوص کامران کو جلن و حسد نے جلا کے راکھ کردیا ۔ یہی وجہ ہمایوں نے اس کی آنکھیں نکلوا کے حج پر بھیج دیا ۔ بابر نے ہمایوں کو ولی عہد بنانے کا جو فیصلہ کیا، اس کو تاریخ نے اس طرح ہمارے سامنے رکھا ہے ۔
ہمایوں کو شادی کرنے کا بہت شوق تھا جہاں جاتا ۔ جس جگہ کو فتح کرتا وہاں سال سے چھ مای عیش و نشاط میں گزار دیتا تھا اور ایک عدد نئی بیوی کے ہمراہ دار السلطنت واپس آتا تھا ۔
ہمایوں کی عشق و عاشقی کی داستان شیر شاہ سوری تک پہنچی تو اس نے خواب بُننا شروع کردیے ۔ سب سے پہلے بہار خان لودھی کو شکست دیتے بنگال اور اودھ پر قبضہ کرلیا اور آہستہ آہستہ دہلی پر قابض ہوگیا ۔ ہمایوں کو بھی اپنے باپ کی طرح در بدر ہونا پڑا اور جب وہ سندھ کے پاس پہنچا تو حمیدہ بیگم سے شادی کرتے ایک عدد ولی عہد پیدا کیا جس کو افغانستان بھیج دیا گیا ۔ اس ہونہار سپوت کا نام اکبر رکھا گیا ۔
ہمایوں جب خراساں روانہ ہوا تو وہاں کے شاہ نے پناہ دینے کی شرط فرقے سے مشروط کردی اور یوں ہمایوں سنی سے شیعہ ہوگیا ۔ اسی وجہ سے وہ ہندوستان پر دوبارہ قابض نہیں ہوسکا
مگر پھر اسے ترکیب سوجی اور افغانستان سے راستہ بناتے ہندوستان داخل ہوا جس وقت شیر شاہ سوری مرچکا تھا ۔
ہمایوں کا وفادار ''بیرم خان'' ہندوستان میں داخل ہوا اور سلطنت داخل ہوتے وقت اس نے اسٹیٹس اپڈیٹ کیا وہ کچھ یوں تھا :
ہمایوں زیادہ عرصہ زندہ نہیں رہ سکا اور نیابت اکبر کے پاس آگئی ۔ہیمو ہندوستان کا بہادر سپوت تھا جو راجھستان پر قابض ہو چکا تھا۔ اپنی حکومت کا باقاعدہ آغاز شروع کردیا ۔
اکبر اس وقت بچہ تھا مگر بیرم خان نے ''ہیمو'' کا مقابلہ کیا یوں پانی پت کی عظیم الشان جنگ میں ہیمو کو بیرم خان نے قتل کردیا۔ اکبر اور بیرم خان کے درمیاں چپقلش کا آغاز اس واقعے کے بعد ہوا۔ یوں ہممو کی شکست کے بدلے محفل موسیقی رکھی گئی ۔ تان سین نے جنگ کی جیت کے موقع پر سُر سے محفلین کا سر دھن دیا ۔
تان سین نے نا صرف ٹوئیٹر پر اپنا پروفائل بنایا بلکہ ساؤنڈ کلاؤڈ کو رواج دیتے اس کو شروع کیا ۔ اسد امانت علی ، شفقت امانت علی ، نصرت فتح علی خان ، نور جہان اور راحت فتح علی خان سبھی تان سین کو ''فالو'' کرتے دیکھے گئے ہیں جبکہ عاطف اسلم بھی اسی راہ کے مسافر دکھائی دیتے ہیں ۔
اکبر کی راجپوت پالیسی کو تزک جہانگیری میں یوں دکھایا گیا ہے
اکبر کی طبعی موت کے بعد جہانگیر نے تخت سلطنت سنبھالا اور تخت سنبھالنے کے بعد پہلا کام اپنی فیس بک پروفائل اپڈیٹ کرنا تھا ۔ 'تزک جہانگیری'' میں اس کی نقول اس طرح کاپی کی گئی ہیں ۔
سلیم اور انارکلی کی داستان یوں تو کون نہیں جانتا مگر فیس بک اس وقت اشرافیہ کے پاس تھی اس لیے اشرافیہ نے اس قصے کو عوام الناس تک مقبول نا ہونے دیا تاہم ان نواردات کی اک نقل موؤرخین بھی ساتھ رکھتے ہیں
ماہرین نور جہاں کی سازشیں اس کمنٹ میں ملاحظہ کرسکتے ہیں اور اس بارے میں ایک ریسرچ کو بھی لائق کرتی پائی گئی تھی
جہانگیر نے برطانیہ کے تاجروں کو خصوصی رعایت دے رکھی تھی اور یوں مدراس اور پٹنہ میں ان کے کپڑوں کا کارخانے تھے اور برطانیہ کے سبھی تاجروں نے مل کے ایک یونین بنائی جس کو ''ایسٹ انڈیا کمپنی '' کہا جاتا تھا۔ جہانگیر نے ایک دفعہ اس کمپنی کو کو لنچ کا شرف بخشا۔ کمپنی نے بطور خاص ہندوستانی چکن کی تعریف کی اور اس کی ہائبری ڈائزیشن سے فارمی مرغی تک بنالی ۔ جس کو فیس بک پر اپ ڈیٹ اس لیے نہیں کیا گیا کیونکہ سبھی موؤرخین بادشاہ ِ وقت پر نظریں مرکوز کیے رکھتے تھے ۔
تخت نشینی کا کوئی باقاعدہ اصول نہ ہونے کے باعث شہزادے نے روایت جاری رکھتے بغاوت کردی اور اپنی حکومت کا باقاعدہ آغاز کیا ۔
دنیا کے ساتواں عجوبہ تاج محل تعمیر کرانے کا سہرا بھی شاہ جہاں کو جاتا ہے تاج محل بنانے کے بعد اپنی بے پایاں مسرت کا اظہار اس طرز کیا تھا۔
پبلک پیج بناتے جب شاہ جہاں نے کیفیت نامہ لکھا تو مورخین کہتے ہیں انہوں نے اس کو ''اونلی می '' کی سیٹنگز پر استوار کیا جس سے انفرادی رازداری کی ترجیحات کے بارے میں ہمیں مطلع کیا گیا ہے ۔ فیس بک سے یہی رواج اردو محفل تک آیا اور یہاں پر صرف چیدہ لوگ جو پیروی کرتے ہوئے پائے جاتے وہی اپنی پسندیدہ محفلین کے کیفیت نامے پر تبصرہ کرسکتے تھے ۔ بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ یہ فری فلو آف انفارمیشن کے خلاف ہے مگر روایت ہونے کی وجہ اس کو بطور فیشن اپنا لیا گیا ہے
شاہ جہاں کی زندگی کی کچھ اہم واقعات جو ہمیں فیس بک کے ماخذ سے حاصل ہوئے اس کی نقول یہاں پر اپلوڈ کی جارہی ہیں ۔
بالآخر من گھڑت بیماری کی کہانی نے شاہ جہاں کی موت کی خبر عام کردی اور یوں چار بھائیوں میں خانہ جنگی کے بعد اورنگ زیب بچ گیا اور مغلیہ سلطنت کا وارث ہوا
مورخین کے مطابق اورنگ زیب کی دکن پالیسی اس کی سلطنت کے لیے نہ صرف کینسر ثابت ہوئی بلکہ اس کی زندگی کا بھی کینسر ہوگئی اور اس کی جان انہیں جنگوں کی نظر ہوگئ
اورنگ زیب کے بعد کوئی بادشاہ اس قابل نہیں تھا جو حکومت کو سنبھال سکے ۔ اس لیے ایسٹ انڈیا کمپنی نے فائدہ اٹھاتے مغلیہ سلطنت اور حکومت کا خاتمہ کردیا
اپنی جلا وطنی کے بارے میں بہادر شاہ ظفر کا ایک مشہور شعر ان کے دیوان سے
بڑا ہے بد نصیب ظفر دفن کے لیے
دو گز زمیں بھی نہ ملی کوئے یار میں
اور ان کا حسرت بھرا کلام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ان کی زندگی میں اندھیروں کی علامت کے طور پر جانا جاتا ہے
میں نہیں نغمۂ جانفزا، کوئی مجھ کو سن کے کرے گا کیا
میں بڑے بروگ کی ہوں صدا، میں بڑے دکھی کی پکار ہوں
مرا بخت مجھ سے بچھڑ گیا ، مرا رنگ و روپ بگڑ گیا
جو خزاں سے باغ اجڑ گیا ، میں اُسی کی فصلِ بہار ہوں
پئے فاتحہ کوئی آئے کیوں ، کوئی چار پھول چڑھائے کیوں
کوئی شمع لا کے جلائے کیوں ، میں وہ بے کسی کا مزار ہوں
نہ میں مضطر ان کا حبیب ہوں، نہ میں مضطر ان کا رقیب ہوں
جو بگڑ گیا وہ نصیب ہوں، جو اجڑ گیا وہ دیار ہوں
میں بڑے بروگ کی ہوں صدا، میں بڑے دکھی کی پکار ہوں
مرا بخت مجھ سے بچھڑ گیا ، مرا رنگ و روپ بگڑ گیا
جو خزاں سے باغ اجڑ گیا ، میں اُسی کی فصلِ بہار ہوں
پئے فاتحہ کوئی آئے کیوں ، کوئی چار پھول چڑھائے کیوں
کوئی شمع لا کے جلائے کیوں ، میں وہ بے کسی کا مزار ہوں
نہ میں مضطر ان کا حبیب ہوں، نہ میں مضطر ان کا رقیب ہوں
جو بگڑ گیا وہ نصیب ہوں، جو اجڑ گیا وہ دیار ہوں
آخری تدوین: