تربیت کے لغوی معنی: تربیت لغت میں پرورش کرنے کو کہتے ہیں ۔اسے رَبَوَ سے اخذ کیا گیا ہے۔ ''المنجد ''میں ایک دفعہ اس کا معنی ''غذا دینا''کیا گیا ہے۔ جیسے (ربہ الوالد :ای غذاہ وجعلہ یربوا) اورکبھی اس کامعنی ''مہذب بنانا''اور کسی کو آلودگیوں سے پاک کرنے کو کہا گیا ہے۔راغب اصفہانی ''مفردات راغب'' میں '' ربّ'' کے ذیل میں تحریر فرماتے ہیں کہ'' تربیت ،کمال کی طرف ایک تدریجی حرکت کا نام ہے ''۔ اصطلاح میں تربیت کا کوئی خاص اورایک معنی نہیں ہے ۔لیکن تربیت کی خصوصیات میں سے یہ ہے کہ اس انسان کو جو کچھہ سکھایا گیا ہے اور جس چیز کی تعلیم دی گئی ہے ،اسے اپنی زندگی میں عملی جامہ پہنائے۔
تربیت ایک ایسا ضروری اور لازم امر ہے جس پر انسان کی نیک بختی اور بد بختی کادار ومدار ہوتا ہے ۔ اگر انسان کی تربیت اچھی ہو تو انسان اسی کے بل بوتے پرمعاشر ہ میں تکامل اور بلند مقام حاصل کرسکتا ہے لیکن اگر تربیت صحیح نہ ہو تو انسان پستی کے تمام مراحل طے کرتا ہے۔ اسی تربیت کی بنا پر انسان اپنے اچھے اعمال کے ذریعے فرشتوں سے بالاتر مقام بھی حاصل کر سکتا ہے اور اشرف المخلوقات کا خطاب انعام میں حاصل کرتا ہے۔ اوراگرتربیت صحیح نہ ہو تو یہی انسان اپنے برے اعمال کی وجہ سے اسفل السافلین کی طرف جاتا ہے اور حیوانوں سے بھی بد تر ہوتا ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید ایسے شخص کو یوں یاد کرتا ہے اولئک کالانعام بل ھم اضل اولئک ہم الغافلون (اعراف،١٧٩) ان ہم الّا کالانعام بل ہم اضل سبیلاً (الفرقان،٤٤) یہ لوگ حیوانوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی بدتر ہیں۔ چونکہ حیوانات کی غرض تخلیق انسان کے لئے ان کا مسخر ہونا ہے اور یہ غرض حیوانات سے انجام پاتی ہے ۔ جبکہ سرکش انسان اپنی غرض تخلیق کے منافی عمل کرتا ہے اس لئے انسان جانوروں سے بھی زیادہ گمراہ ہے ۔ ( قرآن کریم ،ترجمہ وحاشیہ شیخ محسن علی نجفی)
انسان جب شکم مادر سے اس دنیا میں آتا ہے تو اس کے پاس کچھ بھی نہیں ہوتا ہر قسم کی خصوصیت سے عاری ہوتا ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے: واللّٰہ اخرجکم من بطون امھاتکم لاتعلمون شیأاً (النحل،٧٨)اللہ نے تمہیں تمہاری ماؤں کی پیٹ سے اس طرح نکالا کہ تم کچھ بھی نہیں جانتے تھے۔ لیکن خدا نے اس انسان کے اندر گوناں گوں صلاحیتیں رکھی ہیں ۔ یہ اس انسان کے والدین اور عزیزوں کی ذمہ داری ہے کہ اس کی اچھی تربیت کرکے اس کو خوش بخت بنائیںیا اپنی ذمہ داری کو انجام نہ دیتے ہوئے اس کی بری تربیت کرکے اس کو بد بخت بنائیں۔ تربیت کرنے کے لئے بھی سیرت اور نمونہ عمل کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ اس نمونہ عمل کو سامنے رکھ کر اور اس کی روش وفرامین کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے بچے کی تربیت کرسکے ۔ خدا کے فضل سے مسلمانوں کے لئے بلکہ پوری انسانیت کے لئے خدا نے نمونہ کی نشاندہی کر دی ہے لقد کان لکم فی رسول اللّٰہ اسوۃ حسنۃ(احزب ٢١) تمہارے لئے رسول اللہؐ بہترین نمونہ عمل ہیں ۔رسولؐ نے جن کی تربیت کی ہے ان شخصیات کو دیکھنے کے بعد ہمیں اندازہ ہو تا ہے کہ آپ نے کتنی بہترین تربیت کی ہے اور ان کی تربیت کی مثا ل دنیامیں نہیں ملتی۔ امام حسینؑ کی تربیت رسول خداؐ اور رسول خدا ؐ کے تربیت کردہ افراد کے دامن میں ہوئی ہے ۔ ان ہستیوں نے رہتی دنیا تک کے لئے تربیت کے سنہری اصول بتا دئےے ہیں اگر انسان ان اصولوں پر عمل کرے تو کامیاب و کامران ہو سکتا ہے۔ خصوصاً کربلا کا زندہ وجاوید واقعہ انسان کو جنجوڑ کر تربیت کا پیغام دیتا ہے ۔ اپنے اندر احاطہ کئے ہوئے تربیتی پیغامات کو ہرسال لوگوں تک پہنچاتا ہے تاکہ بنی نوع انسان ان نیک پیغامات پر عمل کریں اور اپنے لئے سعادت اور خوش بختی کی راہ کو اختیار کریں۔اور جو اس راہ کو اپنا چکے ہیں وہ اس راہ پر اھدنا الصراط المستقیم کی دعا کا ورد کرتے ہوئے گامزن رہیں اور تکامل انسانی کے اعلیٰ مرتبہ کو حاصل کریں۔
زیر نظر مقالہ میں ہم کوشش کریں گے کہ کربلا کے زندہ وجاوید دروس کی طرف اشارہ کریں۔
تربیت کی اقسام: تربیت کی دو قسمیں ہیں (١)اچھی تربیت(٢) بری تربیت
تاریخ کے آئینہ میں دیکھتے ہیں تو بنی ہاشم اور بنی امیہ کو ان دو تربیتوں کے حامل پاتے ہیں ۔ بنی ہاشم اچھی تربیت کے مالک ہیں جس کے حسین ؐوارث ہیں جبکہ یزید بنی امیہ کا وارث ہے جو بری تربیت کے حامل ہیں۔ جیسا کہ شہید مطہری فرماتے ہیں:'' کان بنی ہاشم یعملون فی الرأاسۃ الدینیۃ ، وبنوعبد الشمس یعملون فی التجارۃ او الرأاسۃ وھما ما ھما فی الجاھلیۃ من الربا والمماکسۃ والغبن والتطفیف والتزییف ، فلا عجب ان یختلفا ھذا الاختلاف بین اخلاق الصراحۃ واخلاق المساومۃ وبین وسائل الایمان ووسائل الحیلۃ علی النجاح ۔ بنی ہاشم ریاست دینی کا کام کرتے تھے اور عبد شمس(بنی امیہ)تجارت اور ریاست سیاسی کا کام کرتے تھے ۔تجارت اور سیاست جاہلیت کے دور میں عبارت تھیںربا، دھوکہ دہی ، قیمتوں میں کمی کرنا،کم فروشی اور معیوب چیزوں کو فروخت کرنے سے۔لہذا کوئی مضائقہ نہیں کہ اتنا واضح اختلاف ہو اچھے وخالص اور برے وبازاری اخلاق کے درمیان اور وسائل ایمان ووسائل حیلہ گری کے درمیان جو اپنے ہر مقصد تک پہنچنے کے لئے کی جاتی ہے۔''(حماسہ حسینی ج ٢ ص٨٤ )
اس سے بھی واضح الفاظ میں تاریخ نے اس طرح بیان کیا ہے کہ :''وھذا التنافس بینھما (حسین ویزید) یرجع الی کل سبب یوجب النفرۃ بیں رجلین من العصبۃ الی التراث الموروثۃ ، الی السیاسۃ، الی العاطفۃ الشخصیۃ ، الی اختلاف الخلیقۃ والتفکیر۔حسین ؑاور یزید کی جنگ کی بازگشت ان اسباب کی طرف ہوتی ہے جو عصبیت اور حمایت اپنے گذشتگان اور بزرگان کے آثار ، سیاست اور عوطف شخصی،اخلاق ،تربیت ، رشد اور تفکیر میں اختلاف کی وجہ سے ہے۔''(حماسہ حسینی ج ٢ص٨٠ )
ہمارا مقصود بحث حسین ابن علی ؑ ہے جو اخلاق وتربیت حسنہ کے مالک ہیں اور ہمارے لئے نمونہ عمل ہیں خصوصاً آپؑ اور آپ کے اصحاب نے معرکہ کربلا میں ہمیں کس طرح تربیت کا درس دیاہے۔جیسا کہ ا مام حسین ؑ کا ارشاد ہے ولکم فیّ اسوۃ۔ میری زندگی تمہارے لئے نمونہ عمل ہے۔(تایخ طبری ج٣
ص ٣٠٧)
کربلا کے انسان ساز معرکے میں ہمیں اپنی تربیت کے لئے بہت سارے پیغامات نظر آتے ہےں ۔ لیکن ہم صرف بعض کی طرف اشارہ کریں گے۔
امام حسین (ع)کے تربیتی پیغامات:
خدا پر ایمان : سب سے پہلے امام حسینؑ ہمیں توحید اور ایمان کی تعلیم دیتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ کیونکہ اسی توحید کے اندر دوسرے تمام اوصاف خداوندی پوشیدہ ہیں ۔ امام ؑ مکہ میں یہ دعا کرتے ہوئے نظرآتے ہیںکہ''اے میرے خدا !میں غنا کی حالت میں تیری طرف محتاج ہوں پس کس طرح حالت فقر میں تیری طرف محتاج نہ ہوں۔دانائی کی حالت میں نادان ہوں پس کس طرح نادانی کی حالت میں نادان نہ رہوں۔ اے خدا جس کے محاسن اور خوبیاں بد ہوں کس طرح اس کی برائیاں بد نہ ہوں۔ جس کی حقیقت بری ہو اس کے دعوے کس طرح باطل نہ ہوں''(مفاتیح الجنان دعا عرفہ)
آپ میدان کربلا میں مصائب پر صبر کرتے ہیں اور وقت شہادت جتنا نزدیک ہوتا ہے امام کا چہرہ اتنا ہی تابناک ہوتا ہے اور فرماتے ہیں''یہ تمام رنج و مصائب میرے نزدیک کم ہیں کیونکہ خدا کی آنکھوں کے سامنے ہیں۔''
امام ؑ کاسامناجب حر کے لشکر سے ہوتا ہے اس وقت امام ؑ خطبہ ارشاد فرماتے ہیں اور خطبہ کے درمیان فرماتے ہیں کہ:''میری تکیہ گاہ خدا ہے اور مجھے تم سے بے نیاز کرتا ہے ۔'' (العوالم ،الامام الحسین ص٢٣٣)
اور صبح عاشور لشکر ابن سعد شور وغل اور طبل بجاتے ہوئے امام کے خیمہ کی طرف آتا ہے تو امام نے فرمایا :''خدایا !ہر گرفتاری اور مشکل میں تو میری پناہ گاہ اور امید ہے اور ہر حادثہ میں جو مجھے پیش آتا ہے تو میرا مدد گار ہے۔''(الارشاد ج٢ ص٩٤)
جب ہم ان تمام فرامین پر نظر ڈالتے ہیں تو ان کا خلاصہ یہ نکلتا ہے کہ ہر مشکل وقت میں اپنے پروردگار کو فراموش نہیں کرنا چاہیے ۔ یہی خدا پر مضبوط ایمان کی دلیل ہے۔
رسالت پر اعتقاد : رسول اسلام (ص)کے بعد ملت اسلامیہ دو حصوں میں تقسیم ہو گئی ۔ ایک گروہ ضلالت کی طرف چلا گیا اور دوسرا رسول(ص) کے بتائے ہوئے راستے پر ثابت قدم رہا۔ اس گروہ میں اہلبیت پیغمبر(ع) سب سے آگے نظر آتے ہیں ۔رسول (ص)کے نقش قدم پر چلتے ہیں اور رسول(ص)سے پیوستگی کو اپنے لئے باعث فخروشرافت سمجھتے ہیں۔امام حسین (ع)مدینہ سے نکلتے وقت ابن عباس سے پوچھتے ہیں :''آپ کا کیا نظریہ ہے ان لوگوں کے بارے میں جو دختر رسول(ص) کے فرزند کو اپنا گھر بار اور وطن چھوڑ کر جانے پر مجبور کررہے ہیں ، دشت وبیابان میں آوارہ کر رہے ہیں ، ان کو قتل اور ان کا خون بہانے کے درپے ہیں ۔ حالانکہ رسول خدا (ص)کے اس فرزند نے نہ کسی کو خدا کاشریک ٹھہرایا ہے ، نہ خدا کے علاوہ کسی اور کو اپنا سرپرست بنایا ہے اور نہ رسول(ص) کے آئین سے ہٹ کر کوئی فعل انجام دیا ہے۔'' ابن عباس جواب میں عرض کرتے ہیں :''میں ان لوگوں کے بارے میں اس قرآنی آیت کے سوا کچھ نہیں کہوں گاکہ(یہ لوگ خدا اور اس کے رسول(ص) کی نسبت کافر ہو گئے ہیں) ۔'' اس کے بعد امام حسین ؑ نے فرمایا:'' خدایا! تو گواہ رہنا ،ابن عباس نے صراحتاً ان لوگوں کے کافر ہونے کی گواہی دی ہے ۔(کلمات امام حسینؑ ص٣٠٦)
میدان کربلا ہو یا اس کے بعد کا مرحلہ ،امام ؑ اور آپ کے خاندان نے رسول (ص)اسلام کے ساتھ اپنی پیوستگی کا ہرمقام پر اعلان کیا ۔ امام ؑ نے میدان کربلا میں لشکر ابن سعد سے مخاطب ہو کر فرمایا:''انشدکم اللّٰہ ھل تعرفونی ،قالوااللھم نعم انت ابن رسول اللّٰہ وسبطہ۔ قال انشدکم اللّٰہ ھل تعلمون ان جدّی رسول اللّٰہ قالوا اللھم نعم۔میں تمہیں خدا کی قسم دیتا ہوں کیا تم مجھے پہچانتے ہو۔کہا کہ ہاںآپ رسول اللہ(ص) کے فرزند اور ان کے نواسے ہیں۔ اس کے بعد آپ ؑ نے فرمایاکیا تم جانتے ہو کہ میرا نانا رسول خدا(ص) ہے۔''(لھوف ص ١٢٠)
آپ کے اہل حرم نے بھی رسول خدا(ص) سے وابستگی کا ہر مقام پر اعلان کیا۔ حضرت زینبؑ نے دربارابن زیاد میں فخر سے یہ جملہ ادا کیا :''الحمد للّٰہ الذی اکرمنا بنبیہ محمدؐ۔تمام تعریفیں اس خدا کے لئے ہیں جس نے ہمیں اپنے نبی محمد(ص) کے ذریعے کرامت بخشی۔''(الاراشاد ج٢ ص١١٥)
توکل : امام حسین ؑ کے کلمات اور افعال وکردار سے یہ نمایاں اور واضح ہو جاتا ہے کہ آپ کس قدر خدا پر توکل کرتے تھے ۔ آپ نے مدینہ سے جب سفر کاآغاز کیا تو خدا پر ہی توکل کر کے، اور جتنا بھی راستہ طے کیا خدا پر توکل کی وجہ سے طے کیا ۔امام ؑ مکہ سے نکلتے ہوئے ارشادفرماتے ہیں :''فمن کان باذلاً فینا مھجتہ موطناً علی لقاء اللّٰہ نفسہ فلیرحل معنا فانی راحل مصبحاً ان شاء اللّٰہ۔جو بھی اپنے خون کو ہماری راہ میں بہانا چاہتا ہے اور خدا سے ملاقات کا مشتاق ہے وہ میرے ساتھ چلے۔میں کل صبح سفر پر نکل رہا ہوں۔(بحار الانوار ج ٤٤ ص ٣٦٧،حماسہ حسینی ج١ ص٢٥٦)
آپ ؑنے کبھی بھی اپنے اصحاب و ساتھیوں پر توکل نہیں کیا ۔ اسی لئے آپ نے فرمایا کہ:''فمن احبّ منکم الانصراف فلینصرف ۔ جو واپس جاناچاہتا ہے وہ واپس چلا جائے ''(الارشاد ج٢ص٧٥)
اور شب عاشور چراغ بجھا کر فرمایا کہ'' جو جانا چاہتا ہے وہ چلا جائے ۔'' مدینہ سے نکلتے ہوئے جس نے بھی آپ کو کوئی رائے پیش کی کہ آپ کوفہ کی طرف تشریف نہ لے جا ئیں بلکہ حجاز یا کسی اورمقام کی طرف ہجرت کریں تو آپ نے خدا پر توکل کیا اور کوفہ کا سفر اختیار کیا ۔ مدینہ سے نکلتے ہوئے اپنے بھائی محمد حنفیہ سے فرمایا :'' ما توفیقی الا باللّٰہ علیہ توکلت والیہ انیب۔ میری توفیق خدا سے ہے اور میں اسی پر توکل کرتا ہوں اور وہی میری پناہ گاہ ہے'' (بحار الانوار ج ٤٤ ص٣٢٩)
وہ تمام خطبات جو روز عاشور آپ نے دئےے ان میں یہ جملہ نمایاں طور پر نظر آتا ہے کہ:''انی توکلت علی اللّٰہ ربی وربکم۔ میں خدا پر توکل کرتا ہوں جو میرا اور تمہارا پروردگار ہے۔'' صبر : امام حسین ؑاور آپ کے ا صحاب صبر اور تحمل میں اپنی مثال آپ رکھتے ہیں ۔ امام ہمیشہ اپنے اصحاب اور اقرباء کو صبر کی تلقین کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ''صبر اور مقاومت سے کام لو اے بزرگ زادگان ۔ کیونکہ موت تمہیں غم اور سختی سے عبور کراتی ہے اور وسیع بہشت اور ہمیشہ رہنے والی نعمتوں تک پہنچاتی ہے۔(بحار الانوار ج٤٤ ص٢٩٧)
کربلا کے میدان میں ہمیں ایک اور شخصیت نظر آتی ہے جس نے صبر کا ایسا مظاہرہ کیا کہ تاریخ میں اس کی نظیر نہیں ملتی اسی وجہ سے ان کا نام
ام المصائب پڑ گیا ۔ حضرت زینب وہ شخصیت ہے جس نے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے بھائی اور بیٹوں کو شہید ہوتے ہوئے دیکھا ۔اور شہادت کے بعد خیمے جلے پھر بھی صبر سے کام لیا ، سروں سے چادرں چھینی گئیں صبر کیا اور جب حضرت امام حسین ؑ کو اس حالت میں دیکھا کہ سر کٹا ہوا ہے اور ظلم وستم کی انتہا کر دی گئی ہے اس وقت بارگاہ خداوندی میں فرماتی ہیں :'' اللھم تقبل منا ھذا القربان القلیل۔ اے خدا ہماری یہ قلیل قربانی اپنی باگاہ میں قبول کر لے۔''
امام حسین ؑ شب عاشور اپنے اہل حرم کو جمع کرکے فرماتے ہیں :''یہ قوم میرے قتل کے بغیر راضی نہیں ہو گی ۔ لیکن میںآپ لوگوں کو تقوی الہٰی اور بلا پر صبر اور مصیبت میں تحمل کی وصیت کرتا ہوں۔ '' (کلمات الامام الحسین ص٤٠٠) اخلاص : امام حسین ؑ نے خروج نہ حکومت کے لئے کیاتھا نہ جاہ طلبی ومال کے لئے ۔بلکہ امام ؑ خالصتاًللہ مدینہ سے اپنے گھر بار کو چھوڑ کر نکلے تھے۔امام ؑنے مدینہ سے نکلتے وقت فرمایا کہ ''انی لم اخرج اشرا ً ولا بطراً ولا مفسداً ولا ظالماً بل خرجت لطلب الاصلاح فی امۃ جدی رسول اللّٰہ ارید ان أمر بالمعروف وانھی عن المنکر واسیر بسیرۃ جدی وابی۔ میں اس وجہ سے خروج نہیں کر رہا ہوں کہ تاکہ فسادپھیلاؤںاور ظلم کروں بلکہ میں اس وجہ سے خروج کررہاہوں تاکہ اپنے نانا کی امت کی اصلاح کروں۔ اور میرا ارادہ یہ ہے کہ امر بالمعروف کروں اور نہی عن المنکر کروں ۔ اور اپنے نانا اور بابا کی سیرت پر چلوں۔''(بحارالانوار ج ٤٤ ص ٣٢٩،حماسہ حسینی ج١ ص٢٠٧)
امام ؑ کا کوئی ذاتی مقصد نہیں تھا بلکہ خدا کے مقصد کو اپنا مقصد بنایا یعنی لوگوں کو گمراہی سے بچانا۔جو لوگ طالب مال ودنیا تھے انہوں نے امام ؑکا ساتھ نہیں دیا اور کئی لوگ آپ کو چھوڑ کر چلے بھی گئے۔امام ؑ کے ساتھ فقط وہی لوگ تھے جو مخلص تھے اور مال ومتاع کی غرض نہیں رکھتے تھے ۔
امام ؑکے اصحاب میں سے حضرت عابس نے رجز پڑھتے ہوئے فرمایا کہ :''میں اپنی تلوار سے تمہارے ساتھ جنگ اور جہاد کروں گا یہاں تک کہ خدا کی بارگاہ میں چلاجاؤں اور اس کے بدلے میں خدا سے جزا کے علاوہ کچھ نہیں چاہتا ۔''(العوالم ٢٧٢) بدعت کا خاتمہ : جب دین میں بدعت رواج پا جائے اور دین کا چہرہ مسخ کیا جائے تو صاحبان علم کا کیا وظیفہ بنتا ہے ، اس بارے میں روایت موجود ہے
:''اذا ظہر البدع فلیظہر العالم علمہ وان لا تفعل فلعنۃ اللّٰہ علیہ ۔ جب بدعت ظاہر ہوجائے تو عالم کا وظیفہ یہ بنتا ہے کہ اپنے علم کو ظاہر کرے اور بدعت کا خاتمہ کرے اگر ایسا نہ کرے تو اس پرخدا کی لعنت ہو گی۔(اصول کافی ج ١ ص ٥٤، وسائل الشیعہ ج ١٦ ص ٢٦٩)
رسول اسلام ؐ کے بعد بدعتوں کا رواج پانا شروع ہوا۔ امام حسین ؑکے زمانے میں اس حد تک بدعتیں رواج پا چکی تھیں کہ دین محمدیؐ کا چہرہ مسخ کردیا گیا تھا۔ اس وقت روئے زمین پر آپ سے زیادہ کوئی عالم شخص موجود نہیں تھا ۔ امام کا یہ وظیفہ بنتا تھا کہ آپ اس بدعت کے خاتمہ کے لئے قیام کریں۔ اور امام ؑ نے اپنی
ذمہ داری احسن طریقے سے انجام دی۔امام ؑ ایک مقام پر ارشاد فرماتے ہیں کہ :'' ادعوکم الی کتاب اللّٰہ وسنۃ نبیہ فان السنۃ قد امیتت فان تجیبوا دعوتی وتطیعوا امری اھدکم سبیل الرشاد۔میں تمہیں کتاب خدا اور سنت نبی ؐ کی طرف دعوت دیتا ہوں ۔ بتحقیق سنت کو ختم کیا گیا ہے اگر تم میری دعوت کوقبول اورمیری اطاعت کرو تو میں راہ رشد کی طرف تمہاری ہدایت کروں گا۔'' ( بحار الانوار ج ٤٤ ص ٣٤٠، مثیر الاحزان ج١ ص ٢٧)
امام حسین ؑ نے حر کے لشکر سے مخاطب ہو کر فرمایا:''ایھاالناس! من رأی سلطاناً جائرا مستحلاًلحرام اللّٰہ ، ناکثاًلعھداللّٰہ ،مستأثراً لفَیء اللّٰہ،معتدیاًلحدوداللّٰہ ،فلم یغیر بقول ولا فعل کان حقاً علی اللّٰہ ان یدخلہ مدخلہ ۔ الا وان ھؤلاء القوم قد احلوا حرام اللّٰہ وحرموا حلالہ واستأثروا فَی ءَ اللّٰہ ۔ امام ؑ نے یہاںپر ایک صغری اور کبری ذکر کیا ہے۔ ابتداء میں کبری بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ''ایھاالناس۔۔۔۔'' اے لوگو!رسول خدا نے فرمایا ہے کہ جب کوئی شخص کسی ظالم وجابر کو دیکھے کہ وہ حلال خدا کو حرام اور حرام خدا کو حلال کرتا ہے ، بیت المال کو اپنے ذاتی مقاصد کے لئے استعمال کرتا ہے، خدا کے قانون میں تبدیلی کرتا ہے ، اور وہ شخص اس حالت میں خاموش بیٹھا رہے تو خدا کو یہ حق حاصل ہے کہ اسے اس ظالم کا ساتھی قرار دے۔ اس کے بعد امام ؑ صغری بیان فرماتے ہیں ''ان ھؤلاء القوم۔۔۔۔'' یہ قوم (بنی امیہ )جو آج حکومت کر رہی ہے اسی طرح حلال خدا کو حرام اور حرام خدا کو حلال کر رہی ہے۔ بیت المال کو ذاتی مقاصد کے لئے خرچ کر رہی ہے ۔ آخر میں فرماتے ہیں :''انا احق من غیرلقربتی من رسول اللّٰہ'' میں اپنے نانا کے فرمان کو عملی جامہ پہنانے کے لئے دوسروں سے زیادہ حقدار ہوں ۔ (بحار الانوار ج ٤٤ ص ٣٨٢،حماسہ حسینی ج١ص٢٧١)
امر بالمعروف ونہی عن المنکر :[/size
]امر بالمعروف ونہی عن المنکر اسلام کا ایک بنیادی رکن ہے ۔ جب شرائط موجود ہوں تو ہر مسلمان پرامر بالمعروف اور نہی عن المنکر واجب ہے۔لیکن بدقسمتی سے امام حسینؑ کوایسے لوگوں کا سامنا تھا جو امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے بجائے امربالمنکر اور نہی عن المعروف کرتے تھے۔ آپ کے قیام کا ایک بنیادی مقصد امر بالمعروف ونہی عن المنکر تھا۔ جس کی طرف آپ نے مدینہ سے نکلتے وقت توجہ مبذول کرائی:۔۔''ارید ان أمر بالمعروف وانہیٰ عن امنکر۔ میرا ارادہ یہ ہے کہ میں امر بالمعروف اور نہی از منکر کروں۔( حماسہ حسینی ج١ص٢٠٧)
مسلمانوں کا یہ وظیفہ بنتا ہے کہ وہ خود بھی اچھے افعال انجام دیں اور برے کاموں سے پرہیز کریںاور دوسروں کو بھی اس کی تلقین کریں، حق پر عمل پیرا ہوں اور باطل سے پرہیز کریں اور دوسروں کو بھی اس کی تلقین کریں۔لیکن امام ؑ کے دور میں حق پر عمل نہیں ہو رہا تھا اور باطل سے پرہیز نہیں کیا جا رہا تھا۔ یہی اسباب تھے جن کی وجہ سے امام نے قیام کےا۔ ایک مقام پرآپؑ فرماتے ہیں :'' الا ترون ان الحق لا یعمل بہ وان الباطل لا یتناھی عنہ۔ کیا تم نہیں دیکھ رہے ہو کہ حق پر عمل نہیں ہو رہا ہے اور باطل سے نہی نہیں ہو رہی ہے۔( حماسہ حسینی ج١ص٢٧٠ ) عشق خدا : امام ؑاور آپ کے اصحاب ہمیشہ عشق خدا میں سرشار نظر آتے ہیں ۔یہاں تک کہ انہیں موت سے خوف ہے نہ جنگ سے ڈر۔ بلکہ وہ موت کو خدا سے ملاقات کا ایک ذریعہ سمجھتے ہیں ۔ حضرت بریر ہمدا نی ؑروز عاشور بہت خوش نظر آرہے تھے اوردوسروں سے مذاق کررہے تھے۔ جب آپ سے کہا گیا کہ اے بریرؑ کیا یہ ہنسنے اور مذاق کرنے کا وقت ہے ، تو آپ نے جواب میں فرمایا کہ میں اسی لئے تو خوش ہو رہا ہوں کیونکہ تھوڑی دیر بعد شہادت نصیب ہو گی۔(لہوف ص١٣٤)
خدا سے محبت ہی کی خاطر امام ؑنے ایک شب کی مہلت مانگی تاکہ خدا کے حضور زیادہ سے زیادہ مناجات کا موقع مل جائے۔ہر عاشق اپنے محبوب کی پسند سے محبت رکھتا ہے اور خدا کو یہ فعل زیادہ پسند ہے کہ اس کے بندے اس کی بارگاہ میں رازونیاز اور عبادت واستغفار کریں۔امام ؑ ارشاد فرماتے ہیں : ''نصلی لربنا اللیلۃ وندعوہ ونستغفرہ ، فھو یعلم انی قد احب الصلوۃ وتلاوۃ کتابہ والدعاء والاستغفار۔آج کی رات ہم اپنے پروردگار کی عبادت کریں اور اس کی بارگاہ میں دعا واستغفار کریں۔ وہ جانتا ہے کہ میں نماز ،اس کی کتاب کی تلاوت ، دعا اور استغفار کو پسند کرتا ہوں۔ (الارشاد ج٢ ص٩٠) جہاد بالنفس : کربلا کا معرکہ دشمنوں سے نبرد کا معرکہ تھا ۔ اس معرکے میں کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ پہلے اپنے نفس سے جہاد کر کے اسے شکست دی جائے جسے رسول اسلام ؐنے جہاداکبرکا نام دیا ہے۔جب تک اپنے نفس پر کامیابی حاصل نہیں ہو گی دشمنوں پر فتح وکامرانی حاصل نہیں ہوگی کیونکہ اگر تزکیہ نفس کے بغیر انسان میدان میں اترے تو اسے کسی بھی وقت شکست کا سامنا ہو سکتا ہے۔ کیونکہ کچھ مراحل ایسے آتے ہیں جہاں نفس کو شکست دینے کے ذریعے دشمن پر کامیابی حاصل کی جاتی ہے۔ معرکہ کربلا میں ہمیں امام ؑاور اصحاب امام ؑکی وہ سیرت ملتی ہے جو جہاد بالنفس کی بہترین مثال ہے۔
حضرت نافع بن ہلال کی منگیتر بھی آپ کے ساتھ میدان کربلا میں موجود تھیں۔ ابھی آپ کی شادی نہیں ہوئی تھی ۔ جب حضرت نافع میدان جنگ کی طرف روانہ ہو رہے تھے آپ کی منگیتر آپ کے دامن کو تھام کر جانے سے روکنے لگتی ہیں ۔ یہ واقعہ ایک جوان کو متزلزل کرنے اور جذبہ جہاد کو ٹھنڈا کرنے کے لئے کافی تھا۔امام ؑ نے بھی حضرت نافع سے اپنی منگیتر کی خواہش کو میدان جنگ پر ترجیح دےنے کو کہا،لیکن حضرت نافع نے اس محبت دنیوی اور خواہش نفس پر غلبہ پایا اور فرمایا کہ :''اے فرزند رسول خدا ؐاگر میں آج آپ کی مدد نہ کروں تو کل رسول خدا ؐ کو کیا جواب دوں گا ۔ '' آپ میدان میں گئے اور جنگ کی ،یہاں تک کہ آپ شہید ہو گئے۔ (کلمات امام حسین ؑ ص٤٤٧) تسلیم ورضا : امام ؑاپنے تمام افعال میں تسلیم ورضا کا درس دیتے ہیں ۔ آپ ؑسے جب عبداللہ ابن مطیع نے کوفہ کے لوگوں کے بارے میںاپنا تجربہ بیان کیا تو امام ؑ نے فرمایا:''یقضی اللّٰہ ما احبّ۔ خدا جس چیز سے محبت کرتا ہے اسے مقدر کرتا ہے۔'' (الاخبار الطوال ص٢٢٩)
مرتضی مطہری فرماتے ہیں کہ رضا وتسلیم کی چار اقسام میں سے ایک یہ ہے کہ کام کسی اور کے ہاتھ میں ہو یعنی خدا کے فرمان اور امر سے ہو۔ شخصی اور خواہش نفس کی پیروی میں نہ ہو۔(حماسہ حسینی ج٢ ص٥١)
امام ؑکے اقوال سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ آپ جو کچھ انجام دیتے ہیں وہ رضائے الٰہی میں انجام دیتے ہیں ۔ امام ؑ اپنی آخری دعا میں فرماتے ہیں :''صبراً علٰی قضائک یا ربّ لا الہ سواک یا غیاث المستغیثین ، مالی رب سواک ولا معبود غیرک ، صبراً علیٰ حکمک۔ پروردگا ر!آپ کی قضا پر صبر کرتا ہوں ۔ تیرے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے اے فریاد کرنے والوںکی فریاد سننے والا ، تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے، تیرے حکم پر صبر کرتا ہوں۔'' (کلمات امام حسین ؑ ص٥١٠ ) وفاداری : معرکہ کربلا وفاداری سے بھرا ہوا نظر آتاہے ۔ہر مقام پر وفا کی ایک تصویر دکھائی دیتی ہے ۔اسی وفا داری کو دیکھ کر اباعبداللہ ؑ ارشاد فرماتے ہیں : ''فانی لا اعلم اصحاباً اوفی ولا خیراً من اصحابی۔ میں نے اپنے اصحاب سے زیادہ باوفا اور اچھے اصحاب نہیں دیکھے۔'' (الارشاد ج٢ص٩١)
خصوصاً حضرت عباس کی وفا مشہور ہے ۔ آپ اس طرح وفا کے حامل تھے کہ اب وفا کا نام سنتے ہی حضرت عباس ذہن میں آتے ہیں ۔ شیخ مفید کتاب ارشاد میں لکھتے ہیں کہ جب شمر ملعون آیا اور کہا کہ :''انتم یا بنی اختی آمنون ۔اے میری بہن کے فرزندو!تم امان میں ہو۔''توحضرت عباس اور آپ کے بھائیوں نے جواب میں فرمایا کہ : ''لعنک اللّٰہ ولعن امانک اتؤمننا وابن رسول اللّٰہ لا امان لہ۔تم اور تمہارے امان نامے پر خدا کی لعنت ہو، کیا تو ہمیں امان دیتا ہے جبکہ رسول خدا ؐ کے فرزند کیلئے امان نہیں ہے۔''(الارشاد ج٢ ص ٨٩)
کتاب''اعیان الشیعہ ''میں حضرت عباس ؑ کا جواب اس طرح سے موجود ہے''تبت یداک ولعن ما جئتنا بہ من امانک یا عدواللّٰہ اتأمرنا ان نترک اخانا وسیدنا الحسین بن فاظمہ وندخل فی طاعۃ اللعناء ۔ اے دشمن خدا وای ہو تجھ پر ، لعنت ہو تمہارے امان پر ۔کیا تم یہ کہتے ہو کہ ہم اپنے بھائی وآقا حسین ؑابن فاطمہؑ کو چھوڑ دیں اور لعینوں کی اطاعت کریں۔(اعیان الشیعہ ج١١ص٤٧٧)
دریا ئے فرات پر جب آپ کا قبضہ ہوااس وقت آپ تین دن سے پیاسے تھے اور پانی آپ کی دسترس میں تھا لیکن آپ فرماتے ہیں کہ:''واللّٰہ لا اذق الماء وسیدی الحسین عطشاناً۔ خدا کی قسم میں پانی کو نہیں چکھوں کا کیونکہ میرا آقا حسین پیا ساہے۔(سوگنامہ آل محمدص٣٠٤)
عباس کی وفا ایسی تھی کہ دشمن بھی تعریف کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔جب وہ علم جسے حضرت عباس نے اٹھایا ہوا تھا یزید کے دربار میں پیش کیا جاتا ہے تو یزید دیکھتا ہے کہ اس پرچم میں کوئی جگہ سالم نہیں ہے اور پوچھتا ہے کہ اس علم کوکس نے اٹھارکھاتھا ۔ جواب ملا عباس ابن علی ؑ،تو کہنے لگا :''ھکذا یکون وفا الاخ لاخیہ۔بھائی کی وفاداری بھائی سے اس طرح ہونی چاہیے۔''(سوگنامہ آل محمد ص٣٠٠)
امام ؑ کے عزیزوں کے علاوہ آپ ؑ کے اصحاب بھی وفا کے پیکر تھے ۔ عمرو بن قرظہ روز عاشور دشمنوں کے تیروں کے سامنے امام ؑ کے لئے سپر بنتے ہیںتاکہ امامؑ پر کوئی آنچ نہ آنے پائے اس قدر زخمی ہو گئے کہ زخموں کی تاب نہ لا کر گر پڑے اور حضرت سے پوچھنے لگے : اے فرزند رسول !کیا میں نے وفا کی ہے ۔ حضرت نے جواب دیا :ہاں! تم مجھ سے پہلے بہشت جا رہے ہو ،رسول خداؐ کو میرا سلام کہنا۔(بحارالانوار ج٤٥ص٢٢)
حضرت مسلم ابن عوسجہ فرماتے ہیں کہ :''واللّٰہ لو علمت انی اقتل ثم احیا ثم احرق ثم احیا ثم اذری یفعل بی ذالک سبعین مرۃ ما فارقتک۔ خدا کی قسم ! اگر مجھے یہ معلوم ہو کہ مجھے قتل کیا جائے گا پھر زندہ کیا جائے گا اور جلاکر راکھ کیا جائے پھر اسے ہوا میں اڑایا جائے گا، اسی طرح ستر بار یہ عمل دہرایا جائے تب بھی میں آپ کوچھوڑوں کر نہیںجاؤں گا۔''(الارشاد ج ٢ض٩٢ )
بڑے تو بڑے ہیں کربلا میں ہمیں بچے بھی وفا کے علمبردارنظر آتے ہیں ۔ شام غریبان میں جب حضرت سکینہ کو پانی دیا گیا تو آپ پانی کو لے کر مقتل کی طرف جانے لگتی ہیں تاکہ اپنے چھوٹے بھائی علی اصغر کو پانی پلائے جبکہ حضرت سکینہ تین دن سے پیاسی ہیں۔ مواسات وایثار : مواسات یعنی دکھ درد میں ایک دوسرے کی مدد اور ہمدردی کرنا۔کربلا میں ہمیں اس صفت کی بے نظیر مثالیں ملتی ہیں بلکہ مواسات سے بھی بڑھ کر ایثار کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ امام حسین ؑ نے فقط دوستوں کے ساتھ مواسات کا درس نہیں دیا بلکہ دشمن کے ساتھ بھی مواسات اور ایثار کا عملی مظاہرہ کیا ۔ حر کا لشکر جب کربلا پہنچا تھا پیاس کی شدت سے ان کی حالت بری تھی۔ اس گرمی کے زمانے میں جہاں پانی کم جگہوں پر ملتا تھا اور ساتھ میں خواتین اور بچے بھی ہوں ،دشمنوں کو پانی پلایا نہ فقط انسانوں کو بلکہ ان کے جانوروں کو بھی سیراب کیا۔
شب عاشور اصحاب امام ؑ آپس میں یہ مشورہ کر رہے ہیں کہ کل ہم پہلے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرینگے اور امام ؑکے عزیزوں پر ہم سے پہلے آنچ آنے نہیں دیں گے۔اور دوسری طرف خاندان بنی ہاشم کے جوان اکھٹے ہو تے ہیں اور حضرت عباس ؑ جوانان بنی ہاشم سے مخاطب ہو کر یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ ''اصحاب غیروں میں شمار ہوتے ہیں اور بار سنگین کو خاندان کے افراد کو اٹھانا چاہیے ۔ آپ لوگوں کو سب سے پہلے میدان میں جانا چاہیے تاکہ لوگ یہ نہ کہیں کہ اصحاب کو پہلے میدان کی طرف میدان بھیجا گیا''(کلمات امام حسین ؑص٤٠٩)
حضرت عباس ؑ کے اسی کردار کی وجہ سے آپ کو زیارات میں ان الفاظ کے ساتھ یاد کیا گیا ہے کہ''فلنعم الاخ المواسی۔کس قدر اچھے مواسات کے حامل بھائی ہیں۔ ''السلام علیک ایھا العبد الصالح والصدیق المواسی۔ اے عبد صالح اور سچے مواسات کرنے والے آپ ؑ پرسلام ہو۔ شوق شہادت : اما م ؑ اورا صحاب امام ؑ شہادت طلبی کے مظہر اور نمونہ تھے خصوصاً اما م حسین علیہ السلام اس میدان میں سب سے آگے نظر آتے ہیں ۔ امام ؑ جب مدینہ سے روانہ ہورہے تھے تو آپؑ نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا :''فمن کان باذلاً فینا مھجتہ موطناً علی لقاء اللّٰہ نفسہ فلیرحل معنا۔جو بھی شہادت کا طالب ہے اور اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنا چاہتاہے وہ میر ے ساتھ چلے ۔(بحار الانوار ج ٤٤ ص ٣٦٧،حماسہ حسینی ج١ ص٢٥٦)
راہ حق میں موت کو امام ؑ زینت قرار دیتے ہیں ۔خطَّ الموت علی ولد آدم مخطَّ القلادۃ علی جید الفتاۃ۔ موت ،بنی آدم کے لئے اس گردن بند کی طرح ہے جو جوان لڑکیوںکے گلے میں ہوتا ہے۔(لہوف ص ٩٠، حماسہ حسینی ج ١ ص ١٥٢)موت کو وہی شخص زینت قرار دے سکتا ہے جو موت کی حقیقت سے آشنا ہو۔
شب عاشور امام ؑ کے اصحاب جس طرح کے خیالات کا اظہار کرتے ہیں وہ مکتب اہل بیت ؑ کے ماننے والوں کے لئے ایک سرمایہ ہےں ۔ امام ؑ کے اصحاب شوق شہادت میں محو تھے اور شہادت کی تمنا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ:'' تعریف اور حمد ہے اس خدا کی جس نے ہمیں آپ ؑ کی مدد کرنے کی سعادت بخشی اور آپ کے ساتھ شہید ہونے کی شرافت عطاکی ۔''(کلمات امام حسین ؑ ص٤٠٢)
ایک مقام پر امام حسین ؑ ارشاد فرماتے ہیں کہ :''انی لااری الموت الا سعادۃ والحیوۃ مع الظالمین الا برماً '' میں موت کو سعادت کے سوا کچھ نہیں سمجھتااور ظالموں کے ساتھ زندہ رہنے کو ننگ اور عار کے سوا کچھ نہیں سمجھتا ۔(حماسہ حسینی ج١ ص ٢٧٠) یعنی امام ؑشہادت کو ایک سعادت سمجھتے ہیںاور سعادت کے طالب ہیں۔
اس کے علاوہ ہم جب کربلا کے نوجوانوں کو دیکھتے ہیں تو اس جذبہ کی ایک اور جھلک نظر آتی ہے ۔حضرت قاسم سے جب امام ؑ نے پوچھا کہ : ''کیف الموت عندک ۔ موت آپ کے نزدیک کیسی ہے تو فرمانے لگے :''یا عماہ احلی من العسل''چچا شہد سے بھی زیادہ شیریں ہے۔(حماسہ حسینی ج١ ص ٣٧٨)
شہد ایک شیرین چیز ہے جس کی وجہ سے اسے ہر خاص وعام پسند کرتا ہے ۔ حضرت قاسم نے موت کو شہد سے تشبیہ دے کر یہ بتا دیا کہ جو شہادت کاجذبہ رکھتا ہے اس کے نزدیک موت شہد سے بھی زیادہ شیریں ہے۔
حجاب وعفت : کربلا میں خواتین نے ہمیں یہ بتا دیا کہ خواتین کا گھر سے باہر آنا اگر پردہ کے ساتھ ہو تو کوئی بری بات اور عیب نہیں ہے ۔ بلکہ اگر اسلام کو ان کی ضرورت ہو تو ان کا گھر سے باہر نکلنا ضروری ہو جاتا ہے لیکن اپنے پردے اور حجاب کا خیال رکھےں ۔ ہمیں اس کی روشن اور واضح مثال کربلا کی شیر دل خواتین نظر آتی ہیں ۔حضرت زینب ،ام کلثوم اور دوسری مخدرات کس طرح اپنے آپ کو نامحرموں کی نظروں سے پچانے کی کوشش کرتی ہیں ۔ حضرت ام کلثوم بازار کوفہ میں لوگوں کو مخاطب کر کے فرماتی ہیں:''یا اھل کوفۃ اما تستحیون من اللّٰہ ورسولہ ان تنظرون الی حرم النبی۔ اے اہل کوفہ کیا تمہیں خدا اور اس کے رسول ؐ سے شرم نہیں آتی کہ تم حرم نبی ؐ کو دیکھ رہے ہو۔(مقتل الحسین ؑ ص٤٠٠)
دربار یزید میں حضرت زینبؑ نے پردہ کے بارے میں یزید کو مخاطب کر کے بہت ہی سخت الفاظ میں فرمایا :''یا بن الطلقاء تخدیرک وحرائرک وامائک وسوقک بنات رسول االلّٰہ سبایا ھتکت ستورھن وابدیت وجوھھن تحدو بھن الاعداء من بلد الی بلد ویستشرفھن اھل المناھل والمعاقل ویتصفع وجوھھن القریب والبعید۔ اے رسولؐ کے آزاد کردہ کی اولاد !کیا یہ عدالت ہے کہ تمہاری بیویاں اور کنیزیں پردہ میں ہوں اور رسول خداؐ کی بیٹیاں اسیر کرلی جائیںاور ان کے پردے کو چھین لیا جائے۔ ان کے چہروں کو عیاں کیاجائے اور دشمن انہیںاس طرح ایک شہر سے دوسرے شہر پھرائیں کہ شہر،دیہات اورقلعہ کے لوگ اور بیابانی افراد ان کو دور ونزدیک سے دیکھیں۔(احتجاج طبرسی ج٢ص ٣٥)
اہل حرم جہاں تک ممکن ہوسکے نامحرموں کی نگاہوں سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ حضرت ام کلثوم ؑ فوج کے اس سردار سے جو اسیروں کو لے جارہا تھا فرماتی ہیں کہ جب ہمیں دمشق میں داخل کرنا ہو تو ایسے دروازے سے داخل کروجہاں تماشائیوں کی تعداد کم ہو۔ اہل بیت رسول ؐ کے نزدیک حجاب کا اندازہ اس بات سے لگا یاجا سکتا ہے کہ ان کے بچے بھی کسی اور چیز کا سوال نہیں کرتے بلکہ فقط پردہ کے متعلق سوال کرتے ہیں ۔ صحابی رسولؐ حضرت سہیل بن سعدنے بازار میں جب حضرت سکینہ سے کہا میں آپ کے نانا کا صحابی ہوں ،کیامیں اس حالت میں آپ کی کوئی خدمت کرسکتا ہوں۔ حضرت سکینہ ؑ نے فرمایا کہ اس نیزہ بردار کو آگے بھیج دیں تاکہ لوگ ان سروں کو دیکھنے میں مشغول ہوں اور حرم رسول پر ان کی نگاہ نہ پڑے۔ (حیاۃ امام حسین بن علی ؑ ج٣ ص٣٧٠) اصلاح :
وہ معاشرہ جو پستی اور انحطاط کا شکار ہو اور اچھی عادات سے خالی ہو وہ فاسدمعاشرہ کہلاتا ہے۔ خصوصاًوہ معاشرہ جس کے صاحبان اقتدار سر عام فسق وفجور کرتے ہوئے نظر آئیں،ایسا معاشرہ اصلاح کا محتاج ہوتا ہے ۔ امام حسین ؑ کو ایک ایسے ہی معاشرے کا سامنا تھاجس میں خلیفہ وقت سر عام مقدسات دینی کا مذاق اڑاتا تھا۔ امام حسین ؑ کا یہ مشہور قول اسی بارے میں ہے کہ :''وعلی الاسلام السلام اذ قد بلیت الامۃ براع مثل یزید۔اگر یزید جیسا شخص مسلمانوں کا خلیفہ بنا رہے تو اسلام پر حسینؐ کا سلام ہو۔ (بحار انوار ج٤٤ ص ٣٢٦،حماسہ حسینی ج١ ص٢٠١،٢٤١)
امامؑ نے اسی مقصد کو مد نظر رکھ کر قیام کیا تاکہ اسلامی معاشرے کو فساد کی دلدل سے نکال کر اصلاح کی طرف لاسکے۔مدینہ سے نکلتے وقت امام ؑ نے فرمایا : ''انما خرجت لطلب الاصلاح فی امۃ جدی۔ میں اگر خروج کررہا ہوں تو اپنے نانا کی امت کی اصلاح کی خاطر خروج کر رہا ہوں۔ (حماسہ حسینی ج١ ص٢٠٧) امامت :
لوگوں کی قیادت ورہبری ہمیشہ سے ایک اہم مسئلہ رہاہے جسے دین مبین اسلام نے بہت ہی اہمیت دی ہے۔دنیا میں لوگوں کی خلقت سے پہلے خدا نے لوگوں کے امام کو خلق کیا تاکہ انسان کو قیادت ورہبری میں مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔رسول اسلامؐ بھی لوگوں کو گمراہی سے نکال کر نجات کی طرف لے جانے میں ان کی رہبری کرتے رہے تاکہ مخلوق خدا گمراہ نہ ہو۔ غدیر خم کے میدان میں اعلان ولایت بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔ لیکن رسول اسلامؐ کے بعد مسلمانوں نے خلافت کو جانشین حقیقی تک پہنچنے نہیں دیا اور اسے یرغمال بنا لیا۔ قیام عاشورا اسی حق طلبی کا ایک جلوہ تھا تاکہ حق ،ظالم کے چنگل سے آزاد ہو کر حقدار تک پہنچے۔امام ؑ حرکے سپاہیوں سے مخاطب ہوکر فرماتے ہیں :''ایھاالناس فانکم ان تتقوا اللّٰہ وتعرفوا الحق لاھلہ یکن ارضی لللّٰہ عنکم، ونحن اہل بیت محمدؐ ، واولی بولایۃ ھذٰا الامر علیکم من ھؤلاء المدعین ما لیس لھم، وسائرین فیکم بالجور والعدوان۔اے لوگو!اگر تم خدا سے ڈرو اور حق کو اس کے اہل کا حق سمجھو تو خدا تم سے زیادہ راضی ہو گا۔ہم اہل بیت محمدؐ ہیں اور زیادہ حق دار ہیں اس امر اور تم پر ولایت کے،ان لوگوں کی نسبت جو ناحق اس کا دعوی کرتے ہیں اور تم لوگوں پر ظلم وجور کے ذریعے حکومت کرتے ہیں ۔( الارشاد ج٢ص٧٨ )
عاشورا کا پیغام یہی ہے کہ اسلامی معاشرے میں حاکمیت اور ولایت اس کے شائستہ افراد کا حق ہے اور اس میں ملوکیت اوروراثت کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ عزت وافتخار :
امام ؑ اور آپ کے اصحاب نے ہمیشہ عزت و وقار کو پیش نظر رکھا۔ ذلیل انسانوں کے سامنے جھکنا گوارا نہیں کیا۔ امام ؑ سے جب والی مدینہ نے بیعت کا سوال کیا تو آپ نے اس فعل کو ذلت سے تعبیرکیا اورفرمایا کہ:'' لایبائع مثلی مثلہ ۔ مجھ جیسا یزید جیسے کی بیعت نہیں کرے گا۔''(بحار الانوار ج ٤٤ص ٣٢٥)
آپ نے میدان کربلا میں بیعت کے سوال پرارشاد فرمایا: ''لا اعطیکم بیدی اعطاء الذلیل ولا اقرّ اقرار العبید۔ میں ذلیل افراد کی طرح اپنا ہاتھ بیعت کے لئے تمہارے ہاتھ میں نہیں دوں گااور غلاموں کی طرح اقرار بیعت نہیں کروں گا۔(حماسہ حسینی ج٢ ص٢٦)
میدان کربلا میں روز عاشور آپ نے سپاہ شام کے سامنے فرمایا کہ :''الا ان الدعی وابن الدعی قد ترکنی بین السلۃ والذلۃ وھیھات منا الذلۃ ابی اللّٰہ ذالک لنا ورسولہ والمؤمنون وحجور طھرت جدود طابت ان یوثر طاعۃ اللأام علی مصارع الکرام۔ آگاہ ہو جاؤ دعی ابن دعی نے مجھے موت اور ذلت کے درمیان کھڑا کر دیا ہے اور ذلت ہم سے کوسوں دور ہے ۔خدا اور اس کا رسول ؐ اور وہ پاک دامن جن میں ہم نے تربیت پائی ہے ،ہمیںاس فعل کی اجازت نہیں دیتے کہ ایک پست انسان کی اطاعت کریں '' (احتجاج طبرسی ج٢ ص٢٤،حماسہ حسینی ج١ ص٢٠٨)
امام زین العابدین ؑ بھی اپنے بابا کی شہادت پر فخر کرتے ہوئے کوفہ کے لوگوں سے فرماتے ہیں کہ :''انا ابن من قتل صبراً وکفانی بھذا فخراً۔ میں اس کا بیٹا ہوں جس کو شہید کیا گیااس حالت میں کہ وہ صبر کر تا رہا۔اور میرے لئے فخر کے لئے یہی کافی ہے ۔ '' (مصارع الشھداء ومقاتل السعداء ص ١٦٤)
آپ کی طرح ثانی زہراؑنے بھی عزت وقار کا مظاہرہ کیااور ظالموں کے ان اہانت آمیز رویوں کے سامنے آپ نے خندہ پیشانی سے انہیں شکست سے دوچار کیا۔ آپ ؑنے ظالموں کو ہر مقام پر خواہ وہ دربار یزید ہو یا دربار ابن زیاد ،بازار کوفہ ہو یا بازار شام دندان شکن جوابات دئیے اور صاحبان اقتدار کو ذلت اور رسوائی کا سامنا کرنا پڑا۔جب دربار ابن زیاد میں اہل حرم پہنچے تو ابن زیاد ،حضرت زینبؑ سے مخاطب ہو کر کہنے لگا:''الحمد للّّٰہ الذی فضحکم وقتلکم واکذب احدوثتکم ۔ تعریف ہے اس خدا کی جس نے تمہیں رسوا کیا اور تمہیں قتل کیا اور تمہاری باتیں جھوٹی ثابت کردیں۔'' (الارشاد ج٢ ص١١٥)
ابن زیاد نے یہ خیال باطل اپنے ذہن میں بٹھا رکھا تھا کہ یہ تو قیدی ہیں ،میں جو کچھ کہوں گا یہ لوگ خاموشی سے سنتے رہیں گے اور میں انہیں ذلیل کروں گا۔لیکن اسے یہ معلوم نہیں تھا کہ یہ لوگ کس خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ علی ؑ کی بیٹی نے دندان شکن جواب دیتے ہوئے فرمایا:''الحمد للّٰہ الذی اکرمنا بنبیہ محمد صلی اللّٰۃ علیہ وآلہ وطھرنا من الرجس تطھیراً، وانما یفتضح الفاسق ویکذب الفاجر وھو غیرنا والحمد للّٰہ ۔''تمام تعریفیں اس خدا کے لئے ہیں جس نے ہمیں اپنے نبی محمد ؐ کے ذریعے کرامت بخشی اور ہمیں ہر رجس سے پاک وپاکیزہ رکھا۔ رسوا فاسق ہوتا ہے اور جھوٹ فاجر بولتا ہے ۔خدا کے فضل سے ہم ان میں سے نہیں ہیں۔ (الارشاد ج٢ ص١١٥)
اور دربار یزید میں بھی اسی قسم کے رویہ کا سامنا کرناپڑااور یزید اقتدار کے نشہ میں مست ہو کر کفر آمیز جملے ادا کرنے لگاکہ:
''لعبت ہاشم بالملک فلا خبر جاء ولا وحی نزل
لیت اشیاخی ببدر شھدوا جزع الخزرج من وقع الاسل
لاھلوا واستھلوا فرحاً ولقالو یا یزید لا تشل
فجزیناہ ببدر مثلاً اقمنا مثل بدر فاعتدل
لست من خندف ان لم انتقم من بنی احمد ما کان فعل
بنی ہاشم نے حکومت کے لئے کھیل کھیلا ، نہ کوئی خبر آئی اور نہ کوئی وحی اتری ، کاش میرے وہ بزرگان ہوتے جو بدر میں مارے گئے ہیں تو خزرج کی فریاد سنتے تلوار کے وار کی وجہ سے، وہ خوش ہوتے اور کہتے :اے یزید شاباش ۔ہم نے بدر کا بدلہ لے لیا اور ہم نے ایک اور بدر قائم کردیا پس برابر ہو گئے۔ اگر میں آل احمد ؐسے ان کے کئے کا بدلہ نہ لوں تو میں خندف کی اولاد نہیں ہوں۔'' ( احتجاج طبرسی ج ٢ ص ٣٠٧،لھوف ص٢٤٤)اس کے جواب میں حضرت زینب ؑ نے اسے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:''اظننت یا یزید حین اخذت علینا اقطار الارض وآفاق السماء فاصبحنا نساق کما تساق الامائ۔ ان بنا ھوانا علی اللّٰہ وبک علیہ کرامۃ۔اے یزید کیا تو نے یہ گمان کر رکھا ہے کہ اگر زمین اور آسمان کو ہم پر تنگ کر وگے اور ہمیں کنیزوں کی طرح اسیر کرو گے تو ہمیںخدا کے نزدیک ذلیل اور خود خدا کے پاس صاحب عزت بن جاؤ گے۔''(لھوف ص٢٤٤)یا یزید کد کیدک واسع سعیک ناصب جھدک فواللّٰہ لا تمحو ذکرنا ولا تمیت وحینا۔اے یزید تم جو حیلہ اختیار کرنا چاہتے ہو اختیار کرلو اور جتنی کوشش کرنا چاہے کرلو ، خدا کی قسم تو ہمارا ذکر نہیں مٹا سکے گا اور وحی کو ختم نہیں کر سکے گا۔''(لہوف ص ٢٥٠) غیرت :
امام حسین ؑ اورآپ کے اصحاب غیرت کے پیکر تھے ۔ امام نے یہ کبھی گوارا نہیں کیا کہ جیتے جی کوئی اہل حرم کے خیموں کی طرف جائے یا اہل حرم خیموں سے باہر آئیں ۔حتی اس وقت بھی جب آپ ؑ زخمی حالت میں تھے اور حضرت زینب ؑ آپ کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے وہاں پہنچی تو فرمایا بہن زینب واپس خیمہ میں جاؤ میں آپ ابھی زندہ ہوں۔
اول سفر سے ہی حضرت عباس رات کو خیموں کی حفاظت کے لئے خیموں کے گرد چکر لگاتے تھے تاکہ خواتین وبچے بے خوف وہراس سو جائیں۔ حضرت امام حسینؑ جب گھوڑے سے زمین پر تشریف لائے تھے تو دشمن کو یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ آپ زندہ ہیں یا نہیں اور کسی میں یہ جرأت بھی نہیں تھی کہ آپ کے سامنے جائے ۔ شمر ملعون کہنے لگا کہ اگر یہ معلوم کرنا ہو کہ حسینؑ زندہ ہےں یا نہیںتو خیموں پر حملہ کردو۔ امام نے جب یہ سنا تو کہنی کے بل کھڑے ہو کر فرمایا :'' ویلکم یا شیعۃ آل ابی سفیان ! ان لم یکن لکم دین وکنتم لا تخوفون المعاد فکونوا احراراً فی دنیاکم ھذہ۔اے پیروان ابوسفیان ! اگر تم میں دین نام کی کوئی چیز نہیں ہے تو کم ازکم دنیا میں آزاد رہو۔ (لہوف ص١٦٢، حماسہ حسینی ج ١ ص ٢٠٨)یعنی کم از کم حیا دار بنو ،خواتین اور بچوں سے تمہاری کیا دشمنی ہے ۔کوئی پوچھتا ہے :ماتقول یابن فاطمہ؟ اے فرزند فاطمہ ؑ کیا کہہ رہے ہو۔امام ؑ نے فرمایا:انا اقاتلکم وانتم تقاتلونی والنساء لیس علیھن حرج ۔میں تم سے جنگ کر رہا ہوں اور تم لوگ مجھ سے ۔عورتوں نے کیا بگاڑا ہے (حماسہ حسینی ج ١ ص ٢٠٨) ظلم کے ساتھ جہاد :
ظالم اورجابر افراد جب تخت حکومت پر بیٹھے ہوں تو وہ نہ کسی پررحم کرتے ہیں اور نہ کسی قانون کی رعایت۔امام ؑ حسین ؑکے دور میں بھی یہی کچھ ہو رہا تھا ۔ آپ ؑ کے دور میں ایسے افراد حکومت پر قابض تھے جو نہ مقدسات دینی کے لئے احترام کے قائل تھے نہ اسلام کی عظمت کے ۔بلکہ کھلے عام دین اسلام کا مذاق اڑاتے تھے۔ایسے موقع پر امام ؑنے اپنے اوپر جہاد کو فرض سمجھا اور ظالم اور مفسدوں سے جہاد کرنے نکلے۔ امام ؑ کوفہ کی طرف اسی مقصد کی خاطر نکلے تھے تاکہ وہاں کے لوگوں کو جمع کرکے ظالم حکومت کے خلاف جہاد کریں اور نظام عدل قائم کریں۔
امام حسین ؑ فرزدق سے فرماتے ہیں :''میں سب سے زیادہ سزاوار ہوں دین خدا کی مدد کے لئے قیام کروں اور اس کی شریعت کو عزت دوں۔ اس کی راہ میں جہاد کروں تاکہ کلام خدا بلند وبالا ہو جائے۔ (کلمات امام حسین ؑص٣٣٦) شجاعت :
امام ؑ اور اصحاب امام ؑ شجاعت کے میدان میں ہر ایک کے لئے نمونہ ہیں ۔ آپ کی طرح شجاعت کسی نے نہیں دکھائی ۔ آپ میں سے ہر ایک کو یہ معلوم تھا کہ اگر امام ؑ کے ساتھ رہے تو زندہ نہیں بچیں گے ۔ جبکہ امام ؑ نے جانے کی اجازت بھی دی تھی۔ اس کے باوجود کسی نے امام ؑ کو چھوڑ کر جانے کی کوشش نہیں کی۔کیونکہ آپ ؑ کے اصحاب میں عشق وجذبہ شہادت موجود تھا۔ اور کبھی بھی دشمن کو پیٹ نہیں دکھائی۔ آپ لوگوں کی شجاعت ہی کی وجہ سے لشکر ابن سعد دُوبہ دُو ہو کر لڑنے سے گریزکرتا تھااور سب مل کر حملہ کرتے تھے۔امام حسین ؑ کی شجاعت کو دیکھ کرحمید ابن مسلم کہتا ہے:''فواللّٰہ ما رأیت مکثوراًقط قد قتل ولدہ واہل بیتہ واصحابہ اربط جأشاً ولا امضی جناناً منہ علیہ السلام۔خدا کی قسم! میں نے کسی ایسے کو نہیں دیکھاجو اتنے لوگوں کے گھیرے میں ہو اور اس کا بیٹا ، خاندان کے افراد اور اصحاب کو قتل کیا گیا ہو اور حسین ابن علی ؑ کی طرح مضبوط دل اور شجاع ہو۔ ''(الارشاد ج٢ ص١١١۔لھوف ص ١٦٢) احیاء دین :
جس دین کو رسول اسلام ؐ نے زحمتوں کے ساتھ پروان چڑھایا تھا وہ دین ظالموں اور فاسقوں کے نرغے میں آچکا تھا۔ جس طرح ان کے ضمیر مردہ ہوچکے تھے اسی طرح اسلام کی شکل بھی مسخ کر کے اسے لوگوں کے سامنے پیش کررہے تھے اور لوگ اس تحریف شدہ اور مسخ شدہ اسلام کو دین حقیقی سمجھنے لگے تھے۔امام حسین ؑ نے اس دین کو دوبارہ زندہ کرنے کے لئے نہ فقط اپنی قربانی پیش کی بلکہ اپنے اقرباء کے خون کا نذرانہ بھی اسلام کو عطا کیا۔ امام ؑ نے روز عاشوریہ مشہور جملہ ادا کیا ہے:''
لو کان دین محمدؐ لم یستقم الا بقتلی فیا سیوف خذینی
اگر دین محمدؐ میرے قتل کے بغیر قائم نہیں رہ سکتا تو اے تلوارو آؤ مجھ پر ٹوٹ پڑو۔( معالم المدرستین ج٣ ص٣٠٣ )
یعنی اسلام کے احیاء کے لئے اگر حسین ؑ کے خون کی ضرورت ہے تو میں اس قربانی سے بھی دریغ نہیں کروں گا۔
اسی طرح حضرت عباسؑ کا یہ شعر جب آپ کا دایاں ہاتھ جدا کیا گیاتو آپ نے فرمایا:''
واللّٰہ ان قطعتم یمینی انی احامی ابداً عن دینی
خدا کی قسم! اگر چہ تم نے میرا دایاں ہاتھ کاٹ دیا ہے لیکن میں ہمیشہ اپنے دین کی حمایت کروں گا۔'' ( مناقب آل ابی طالب ؑ ص٢٥٦ ) احیاء نماز :
عاشور کے پیغامات میں سے ایک اہم پیغام اقامہ نماز ہے۔یہ ایک ایسا دور تھا جب حاکم وقت کی طرف سے نماز کا تمسخر اڑایا جاتا تھا۔ یزید کے یہ اشعار تاریخ میں ثبت ہیں :
دع المساجد للعبّاد وتسکنھا واجلس علی دکۃ الخمار واسقینا
ان الذی شربا فی سکرہ طربا وللمصلین لا دنیا ولا دیناً
ما قال ربک ویل للذی شرباً لکنّہ قال ویل للمصلیناً
مساجد کو عبادت گزاروں کے لئے چھوڑدو تاکہ وہ اس میںرہیں۔ اور خود شراب کی دکان پر بیٹھو اور ہمیں شراب پلاؤ۔ جو شخص شراب پیتا ہے وہ مستی کی حالت میں ڈھول بجاتا ہے ۔ اور نماز پڑھنے والے کے لئے نہ دنیا ہے نہ دین ۔ تمہارے پروردگار نے قرآن میں یہ نہیں کہا ہے ''وای ہو شراب پینے والے پر'' لیکن یہ کہا ہے کہ''وای ہو نماز گزاروں پر''( حماسہ حسینی ج ٢ ص٨٩)
امام ؑاقامہ نماز کو بھی اپنا وظیفہ سمجھتے ہیں ۔اس کی روشن مثال یہ ہے کہ آپ نے نویں محرم کو لشکر ابن سعد سے ایک رات کی مہلت خدا کی بارگاہ میں عبادت اور راز ونیاز کے لئے مانگی تھی۔امام ؑ فرماتے ہیں :''نصلی لربنا اللیلۃ وندعوہ ونستغفرہ ، فھو یعلم انی قد احب الصلوۃ وتلاوۃ کتابہ والدعاء والاستغفار۔آج کی رات ہم اپنے پروردگار کی عبادت کریں اور اس کی بارگاہ میں دعا واستغفار کریں۔ وہ جانتا ہے کہ میں نماز ،اس کی کتاب کی تلاوت ، دعا اور استغفار کو پسند کرتا ہوں۔ ( الارشاد ج٢ ص٩٠)امام حسین ؑ اور آپ کے اصحاب نے اس اہم فریضہ کو وقت جنگ بھی فراموش نہیں کیااور اقامہ نماز کیا ۔ عاشور کی ظہر میں جب نماز کا وقت ہوا تو صحابی امام ؑ ابو ثمانہ صیداوی نے نماز کی یاد دہانی کرائی، اس پر امام ؑ نے انہیں دعائے خیر دی اور فرمایا کہ خدا تمہیں ہمیشہ نماز گزاروں میں شمار کرے۔(بحار الانوار ج ٤٥ ص٢١) روز عاشور کا سب سے پہلا شہید نماز کے اقامہ کی خاطر شہید ہوا۔ جب امام ؑ نمازکے لئے کھڑے ہوئے تو حضرت سعید بن عبداللہ آپ کے سامنے ڈھال بن کر کھڑے ہو گئے اور دشمنوں کے تیروں کو اپنے جسم سے روکتے رہے ۔نماز کے ختم ہوتے ہی آپ زخموں کی تاب نہ لاکر شہید ہو گئے۔اس طرح میدان کربلا میں شہیدوں میں سب سے پہلا شہید اقامہ نماز کی خاطر شہید ہوا۔ احیاء کتاب وسنت :
امام ؑ کے زمانہ میں کتاب خدا اور سنت رسولؐ پر عمل کرنا چھوڑ دیا گیا تھااور صاحبان اقتدار اپنے اجداد کے نقش قدم پر چل رہے تھے ۔ خدا کے احکامات اور رسولؐ کی سنت کو پس پشت ڈال چکے تھے۔ امام حسین نے احیاء کتاب اور سنت رسولؐ کو احیاء کرنا اپنا ہدف قرار دیا۔ مدینہ سے نکلتے وقت آپ نے فرمایا :''اسیر بسیرۃ جدی وابی۔ میں اپنے نانا اور بابا کی سیرت پر چلنا چاہتا ہوں۔(حماسہ حسینی ج ١ ص ٢٠٧)
امام ؑ بصرہ کے لوگوں کے نام ایک خط تحریر فرماتے ہیں :'' ادعوکم الی کتاب اللّٰہ وسنۃ نبیہ فان السنۃ قد امیتت فان تجیبوا دعوتی وتطیعوا امری اھدکم سبیل الرشاد۔میں تمہیں کتاب خدا اور سنت نبی ؐ کی طرف دعوت دیتا ہوں ۔ بتحقیق سنت کو ختم کیا گیا ہے اگر تم میری دعوت کوقبول اورمیری اطاعت کرو تو میں تمہیں صحیح راستے کی ہدایت کروں گا۔'' ( بحار الانوار ج ٤٤ ص ٣٤٠، مثیر الاحزان ج١ ص ٢٧)
اسی طرح ایک اور مقام پر ارشاد فرماتے ہیں کہ :''اہل کوفہ نے میرے نام خط لکھا ہے اور مجھ سے چاہا ہے کہ میں ان پاس چلا جاؤں کیونکہ مجھے امید ہے کہ حق کی نشانیاں اور تعالیم زندہ اور بدعتیں ختم ہوجائیں۔''(کلمات امام حسین ص٣٤١) عدالت خواہی :
امام حسینؑ کا زمانہ ایسا زمانہ تھا جہاں مومنین اور محبان اہل بیت ؑ پر فقط اس جرم میں ظلم ہونے لگا تھا کہ وہ محب اہل بیت ہیں۔اقتدار ظالم ، جابراور دشمنان اہل بیتؑ کے ہاتھ میں تھا۔ جس کی وجہ سے وہ جس پر ظلم کرنا چاہیںاور جب تجاوز کرنا چاہیں کر تے تھے۔ اس کے خاتمہ کے لئے ایک ایسے نظام عدل کی ضرورت تھی جس میں معاشرہ کے کمزور افراد بھی سکون کا سانس لے سکیں۔امام ؑکے قیام کے مقاصد میں سے ایک ، عدالت کا قیام تھا۔جیسا کہ آپ کے سفیر حضرت مسلم ابن عقیل ؑ،دربار ابن زیاد میں اسی بات پر زور دیتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ حضرت مسلم فرماتے ہیں:'' فأتیناہ لنأمر بالعدل وندعو الی حکم الکتاب۔ ہم یہاں اس لئے آئے ہیں تاکہ عدالت کے ساتھ حکم کریں اور قرآن کے حکم کی طرف دعوت دیں۔'' (الارشاد ج٢ص٦٢) اتمام حجت :
امام ؑ نے کربلا کے میدان میں ہر مرحلہ پر اتمام حجت کیا تاکہ لوگوں کو معلوم ہو سکے کہ ان کے مقابل میں کون ہے اور جہالت اور نادانی کی وجہ سے کسی پاک خون سے ان کے ہاتھ آلودہ نہ ہوجائیںاور عذاب الٰہی کے شکار نہ ہو جائیں۔امامؑ اور آپ کے اصحاب نے واضح دلیلوں کے ذریعے انہیں صحیح راستے کی نشاندہی کی ۔ حضرت امام حسین ؑروز عاشوردشمن کے لشکر کے سامنے کھڑے ہو کر فرماتے ہیں :فانسبونی فانظروا من انا، ثم ارجعوا الی انفسکم وعاتبوھا ، فانظروا ھل یصلح لکم قتلی وانتھاک حرمتی؟ الست ابن بنت نبیکم ، وابن وصیہ وابن عمہ واوّل المؤمنین المصدّق لرسول اللّٰہ بما جاء بہ من عند ربہ، او لیس حمزۃ سیدالشھداء عمی ، او لیس جعفر الطیّار فی الجنۃ بجناحین عمی، او لم یبلغکم ما قال رسول اللّٰہ لی ولاخی:''ھذٰان سیدا شباب اھل الجنۃ؟ فان صدقتمونی بما اقول وھو الحق ، واللّٰہ ما تعمدت کذباً منذ علمت ان اللّٰہ یمقت علیہ اھلہ ، وان کذبتمونی فان فیکم (من لو) سألتموہ عن ذالک اخبرکم ، سلوا جابربن عبداللّٰہ الانصاری وابا سعید الخدری وسھل بن سعد الساعدی وزید ابن ارقم وانس ابن مالک ، یخبرونکم انہم سمعوا ھذہ المقالۃ من رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ لی ولاخی۔ اما فی ھذٰا حاجز لکم عن سفک دمی؟!۔میرے بارے میں غور کرو کہ میں کون ہوں پھر اپنے نفس کی طرف رجوع کرو اور پنے آپ کو سرزنش کرو ۔ کیا مجھے قتل کرنا اورمیری ہتک عزت کرنا تمہارے لئے مناسب ہے؟ کیا میں تمہارے نبیؐ کی بیٹی کا فرزند نہیں ہوں؟ کیا میں نبیؐ کے وصی اور چچا زاد بھائی کا فرزند نہیں ہوں ؟ کیا حمزہ سید الشہداء اور جعفر طیار جو اپنے دونوں پروں کے ذریعے جنت میں پرواز کرتے ہیں،میرے چچا نہیں ہیں ؟ کیاتم نے میں اور میرے بھائی کے بارے میں رسول خداؐ کا یہ قول نہیں سنا: حسنؑ وحسین ؑجنت کے جوانوں کے سردار ہیں۔ جو میں کہہ رہا ہوں وہ سچ ہے اور آج تک میں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا۔ اگر یہ سمجھتے ہو کہ میں جھوٹ بول رہا ہوں توایسے افراد ابھی تمہارے درمیان موجود ہیںجو تمہیں اس کی خبر دیں گے۔ جابربن عبداللہ انصاری، ابو سعید خدری، سہل بن سعد ساعدی ،زید بن ارقماور انس ابن مالک سے پوچھو وہ تمہیں بتائیں گے کہ انہوں نے یہ حدیث میں اور میرے بھائی کے بارے میں سنی ہے ۔ کیا یہ کافی نہیں ہے کہ میرے قتل سے باز آجاؤ۔(الارشاد ج٢ ص٩٧،بحار الانوار ج٤٥ص٦) نتیجہ :
عاشوراایک ایسا مکتب ہے جو انسان سازی کرتا ہے۔ اس مکتب میں امام حسین ؑ ایک انسان ساز کی حیثیت رکھتے ہےں بلکہ یوں کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ عاشورا ایک حادثہ نہیںجو واقع ہونے کے بعد اس کے آثار ختم ہوگئے، بلکہ ایک ایسا مکتب ہے جس میں ایمان، صبر ورضا،شجاعت وشہادت،ایثار ووفااور غیرت وجہادکا درس اب بھی موجود ہے۔ عاشورا اگرچہ ایک دن میں واقع ہوا اور اس میں لوگوں کی ایک قلیل تعداد موجود تھی لیکن واقع میں ہر وہ شخص موجود تھا جس کے اندر انسانیت کا درد موجود ہے۔ کربلا میں اگرچہ ظاہراً شکست ہوئی لیکن واقع میں دنیا کے ہر اس ظالم کو شکست دی جو اس قصد سے آگے بڑھتا ہے کہ حق کو ختم کر دے گااور باطل کا پرچار کرے گا۔
'' قتل حسین ؑاصل میں مرگ یزید ہے اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد''
اسلام دین حق ہے اور اس دین حق کو حسین ؑ نے بلند کیا اور باطل کو سرنگون کردیا اور رہتی دنیا تک کو یہ بتا دیا کہ رسول اسلامؐ کا یہ فرمان سچا ہے:الاسلام یعلو ولا یعلی علیہ