ایک مشاعرے کا کلپ نظر سے گزرا۔ آج کل کے مقبول شاعروں میں سے ایک "تہذیب حافی"اپنا کلام پیش کر رہے تھے اور پیچھے بیٹھے شعراء میں علی زریون نمایاں تھے۔ کلام کا نمونہ دیکھیے اور خیال کی ندرت دیکھئے تخیل کی پرواز دیکھیے۔ واہ واہ کر کے عوام نے آسمان سر پہ اٹھا لیا اس شعر پر
لاریوں سے زیادہ بہاؤ تھا تیرے ہر اک لفظ میں
میں اشارہ نہیں کاٹ سکتا تیری بات کیا کاٹتا
اور جب یہ شعر پڑھا تو علی زریون کے تو جیسے دل پر چھری چل گئی۔ بے اختیار ہو کر اٹھے اور آکر تہذیب حافی کا منہ چوم لیا۔ اور سامعین کی تو پوچھیے ہی مت۔ شعر یوں تھا۔
تیرے ہوتے ہوئے موم بتی بجھائی کسی اور نے
کیا خوشی رہ گئی تھی جنم دن کی میں کیک کیا کاٹتا
سوچتا ہوں اتنا بوڑھا تو ابھی تک میں بھی نہیں ہوا کہ سر میں ایک بال بھی سفید نہیں پھر بھی پتا نہیں شاید آج کل لوگوں کا مزاج کچھ اور ہو گیا یا ہمارے جیسے لوگ ابھی تک ماضی کو پکڑے بیٹھے ہیں۔ پتا نہیں ہم غلط ہیں صحیح۔
ویسے موجودہ شعراء کو زیادہ نہیں پڑھا سنا لیکن عمیر نجمی اور افکار علوی پسند آئے باقی یہ اتباف ابرک، علی زریون، رحمان فارس، تہذیب حافی عجیب عجیب منفرد سے نام اور منفرد سے خیال کہاں سے لاتے ہیں۔ کہاں سے آتے ہیں یہ لوگ۔
یہی سوال میرے ذہن میں بھی آیا جو عبدالرؤف بھائی نے کیا۔ امید ہے اساتذہ کرام وضاحت فرمائیں گے