محمد امین
لائبریرین
@مقدس : یہ لیجیے ہم آپکی فرمائش پر تشریح کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اپنی غزل کی۔۔۔۔
ویسے کوئی اور صاحب یا صاحبہ ہمارے (نام نہاد) اشعار سے کچھ مطالب اخذ کرنا چاہیں تو پوری آزادی ہے
کیوں کہ ہم خود کو غالب (سے کم) نہیں سمجھتے۔۔۔ لہٰذا اس بات کا قوی امکان ہے کہ ہمارے اشعار کی تشریح میں
دفتر کے دفتر سیاہ ہوجائیں۔۔۔۔۔
خیر مقدس بہنا، دراصل ہم نے یہ غزل، اردو شاعری کی ٹریڈیشن میں لکھی ہے، یعنی ہم سپوز کرلیتے ہیں کہ ہم کسی "محبوب" کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔ جبکہ درحقیقت ایسا ہونا ضروری نہیں۔ ان دی اینڈ وٹ میٹرز از دی ڈیپتھ اور یور تھوٹس۔۔۔اینڈ ہاؤ یو ایکسپریس وٹ یو فِیل ایٹ ٹائمز۔۔۔
نالہ و شور و فغاں کیا کیجے،
دل نہیں لگتا یہاں، کیا کیجے،
(ہم تنگ آئے ہوئے ہیں ہر چیز سے، اور کیا فریاد کریں، کیا روئیں، کیا شور مچائیں، ہمارا تو دل ہی نہیں لگتا یہاں)
دل تو اظہارِ تمنّا چاہے،
وہ نہیں سنتے، بیاں کیا کیجے،
(ہمارا دل تو چاہتا "ان" سے کہہ دیں ہک ہم کیا چاہتے ہیں۔۔۔۔۔ مگر وہ ہماری بات سنتے ہی نہیں، کیا کریں آخر۔۔۔)
شوخیٔ گل کا خدا حافظ ہو،
بلبلیں گریہ کناں،کیا کیجے،
(بلبل اور پھول کا شاعری میں کافی گہرا ساتھ ہے۔ بلبل رونے کے لیے مشہور ہے۔ ہم نے یہ کہنا چاہا ہے کہ پھول کی شوخی یعنی اس کی تمام پروپرٹیز، جیسے کہ رنگ خوشبو وغیرہ کا تو اب اللہ ہی حافظ ہے، کیوں بلبلیں جو رو رہی ہیں۔۔۔)
جام سب خالی پڑے ہیں دل کے،
چل دیا پیرِ مغاں، کیا کیجے،
(پیرِ مغاں، شاعری میں عام طور پر "شراب بیچنے والے" کو کہتے ہیں۔ مگر اس سے مراد اور بہت کچھ ہو سکتی ہے۔ شاعر حضرات عموماً اپنے محبوب کو بھی شراب پلانے والا کہتے ہیں کیوں کہ محبت کو شراب سے بھی تشبیہ دی جاتی ہے۔
تو ہم نے یہ کہنا چاہا کہ ہمارا محبوب تو چلا ہی گیا ہے ۔۔ اب ہمارے دل کے سب جام خالی پڑے ہیں۔۔۔ یعنی ہمارے دل میں محبت باقی نہیں رہی)۔۔۔
کب ملے ہیں حسینوں کے خطوط؟
چند تصویرِ بُتاں کیا کیجے،
(غالب کا مشہور شعر ہے۔۔۔۔ چند حسینوں کے خطوط، چند تصویرِ بتاں۔۔۔بعد مرنے کے مرے گھر سے یہ ساماں نکلا۔۔
یعنی غالب کہتے ہیں کہ ہمارے پاس تو بس یہی ہے۔۔چند حسینوں کے خطوط اور "بتاں" سے مراد بھی خوبصورت محبوب ہیں۔
تو ہم نے یہ کہنا چاہا ہے کہ ہمیں تو کسی "حسین" نے خطوط نہیں لکھے۔۔۔۔ جو چند "خوبصورت" تصاویر جمع کر کے رکھی ہیں انکا کیا کریں پھر؟؟؟
ہی ہی ہی ہی حالانکہ تصاویر ہیں نہیں ہمارے پاس۔۔بس شعر کہنا تھا سو کہہ دیا۔۔۔)
چھوڑ کر بیٹھ گیا جو ہم کو،
اس کے بن جائیں کہاں، کیا کیجے،
(آسان سا ہے۔۔۔۔ یعنی ہمارا دوست ہمیں چھوڑ کر چلا گیا ہے۔۔۔۔مگر ہم اس کے بغیر کیا کریں، کہاں جائیں۔۔۔)
شب سی تاریکی سرِ شام ہے کیوں،
دل مرا ڈوب گیا، کیا کیجے
(شام ہوتی ہے تو سورج ڈوبتا ہے۔۔۔ تو اندھیرا ہوتا ہے۔۔۔ مگر شام کے پہلے وقت میں یعنی کہ جب روشنی ہوتی ہے، جیسے کہ عصر کا وقت۔۔۔ اس وقت مجھے رات جیسی تاریکی کیوں لگ رہی ہے؟؟ کیا کروں۔۔۔میرا دل ہی ڈوب گیا ۔۔۔روشنی کیسے ہو۔۔)
امید ہے سمجھ آگیا ہوگا۔۔۔۔۔
ویسے کوئی اور صاحب یا صاحبہ ہمارے (نام نہاد) اشعار سے کچھ مطالب اخذ کرنا چاہیں تو پوری آزادی ہے
کیوں کہ ہم خود کو غالب (سے کم) نہیں سمجھتے۔۔۔ لہٰذا اس بات کا قوی امکان ہے کہ ہمارے اشعار کی تشریح میں
دفتر کے دفتر سیاہ ہوجائیں۔۔۔۔۔
خیر مقدس بہنا، دراصل ہم نے یہ غزل، اردو شاعری کی ٹریڈیشن میں لکھی ہے، یعنی ہم سپوز کرلیتے ہیں کہ ہم کسی "محبوب" کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔ جبکہ درحقیقت ایسا ہونا ضروری نہیں۔ ان دی اینڈ وٹ میٹرز از دی ڈیپتھ اور یور تھوٹس۔۔۔اینڈ ہاؤ یو ایکسپریس وٹ یو فِیل ایٹ ٹائمز۔۔۔
نالہ و شور و فغاں کیا کیجے،
دل نہیں لگتا یہاں، کیا کیجے،
(ہم تنگ آئے ہوئے ہیں ہر چیز سے، اور کیا فریاد کریں، کیا روئیں، کیا شور مچائیں، ہمارا تو دل ہی نہیں لگتا یہاں)
دل تو اظہارِ تمنّا چاہے،
وہ نہیں سنتے، بیاں کیا کیجے،
(ہمارا دل تو چاہتا "ان" سے کہہ دیں ہک ہم کیا چاہتے ہیں۔۔۔۔۔ مگر وہ ہماری بات سنتے ہی نہیں، کیا کریں آخر۔۔۔)
شوخیٔ گل کا خدا حافظ ہو،
بلبلیں گریہ کناں،کیا کیجے،
(بلبل اور پھول کا شاعری میں کافی گہرا ساتھ ہے۔ بلبل رونے کے لیے مشہور ہے۔ ہم نے یہ کہنا چاہا ہے کہ پھول کی شوخی یعنی اس کی تمام پروپرٹیز، جیسے کہ رنگ خوشبو وغیرہ کا تو اب اللہ ہی حافظ ہے، کیوں بلبلیں جو رو رہی ہیں۔۔۔)
جام سب خالی پڑے ہیں دل کے،
چل دیا پیرِ مغاں، کیا کیجے،
(پیرِ مغاں، شاعری میں عام طور پر "شراب بیچنے والے" کو کہتے ہیں۔ مگر اس سے مراد اور بہت کچھ ہو سکتی ہے۔ شاعر حضرات عموماً اپنے محبوب کو بھی شراب پلانے والا کہتے ہیں کیوں کہ محبت کو شراب سے بھی تشبیہ دی جاتی ہے۔
تو ہم نے یہ کہنا چاہا کہ ہمارا محبوب تو چلا ہی گیا ہے ۔۔ اب ہمارے دل کے سب جام خالی پڑے ہیں۔۔۔ یعنی ہمارے دل میں محبت باقی نہیں رہی)۔۔۔
کب ملے ہیں حسینوں کے خطوط؟
چند تصویرِ بُتاں کیا کیجے،
(غالب کا مشہور شعر ہے۔۔۔۔ چند حسینوں کے خطوط، چند تصویرِ بتاں۔۔۔بعد مرنے کے مرے گھر سے یہ ساماں نکلا۔۔
یعنی غالب کہتے ہیں کہ ہمارے پاس تو بس یہی ہے۔۔چند حسینوں کے خطوط اور "بتاں" سے مراد بھی خوبصورت محبوب ہیں۔
تو ہم نے یہ کہنا چاہا ہے کہ ہمیں تو کسی "حسین" نے خطوط نہیں لکھے۔۔۔۔ جو چند "خوبصورت" تصاویر جمع کر کے رکھی ہیں انکا کیا کریں پھر؟؟؟
ہی ہی ہی ہی حالانکہ تصاویر ہیں نہیں ہمارے پاس۔۔بس شعر کہنا تھا سو کہہ دیا۔۔۔)
چھوڑ کر بیٹھ گیا جو ہم کو،
اس کے بن جائیں کہاں، کیا کیجے،
(آسان سا ہے۔۔۔۔ یعنی ہمارا دوست ہمیں چھوڑ کر چلا گیا ہے۔۔۔۔مگر ہم اس کے بغیر کیا کریں، کہاں جائیں۔۔۔)
شب سی تاریکی سرِ شام ہے کیوں،
دل مرا ڈوب گیا، کیا کیجے
(شام ہوتی ہے تو سورج ڈوبتا ہے۔۔۔ تو اندھیرا ہوتا ہے۔۔۔ مگر شام کے پہلے وقت میں یعنی کہ جب روشنی ہوتی ہے، جیسے کہ عصر کا وقت۔۔۔ اس وقت مجھے رات جیسی تاریکی کیوں لگ رہی ہے؟؟ کیا کروں۔۔۔میرا دل ہی ڈوب گیا ۔۔۔روشنی کیسے ہو۔۔)
امید ہے سمجھ آگیا ہوگا۔۔۔۔۔