مقدمہ شعر و شاعری از الطاف حسین حالی - صفحہ 171 سے 200

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
یہاں تک ہو چکا ہے۔ ریختہ صفحہ 185 سے 189 تک آپ اور سید عاطف علی صاحب تقسیم کر لیجیے۔

جی۔ کتاب کا صفحہ ۲۰۰ یعنی ریختہ کا صفحہ ۲۰۱ ہو چکا ہے جو آپ نے ٹائپ کیا ہے۔ اس سے آگے لکھنے کی ضرورت نہیں۔
ٹھیک ہے۔
جو 185 سے 189 تک ہیں وہ صبح تک کر دیں گے ان شاء اللہ۔
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 185
عجائب پرستی ہونے لگی اور خدا کا خیال جاتا رہا، اسی طرح ہمارے لٹریچر میں صنائعِ لفظی کی لَے بڑھتے بڑھتے ، آخر کار محض الفاظ پرستی باقی رہ گئی اور معنی کا خیال بالکل جاتا رہا۔ صنائع و بدائع کی پابندی ، دلی کے شعرا میں عموماًبہت کم پائی جاتی ہے۔ بلکہ یہ کہنا چاہئیے کہ بالکل نہیں پائی جاتی۔البتہ لکھنؤ کے بعض شعرا نے اس کا سخت پابندی کے ساتھ التزام کیا ہے اور بہ مقابلے اہلِ دلی کے ، لکھنؤ کے عام شعرا بھی رعایت لفظی کا زیادہ خیال کرتے ہیں۔ لیکن پھر بھی فارسی کے مقابلے میں اُردو شاعری اس آفت سے بہت محفوظ ہے۔ جہاں تک ہم کو معلوم ہے ، وہ بے ہودہ لفظی صبعتیں ، جن میں معنی سے بالکل قطع نظر کر لی جاتی ہے اور محض لفظوں کا گورکھ دھندا بنایا جاتا ہے، جیسے منقوط و غیر منقوط ، رقطا، حیفا، ذوقافتین، ذوبحرین وغیرہ وغیرہ۔ اُردو شاعری میں کم یاب ہیں۔ مگر بجائے صنائع لفظی کے، اُردو غزل میں ایک اور روگ پیدا ہو گیا ہے، جو صنائع سے بھی زیادہ معنی کا خون کرنے والا ہے۔
د۔ سنگ لاخ زمینوں میں لکھنؤ اور دلی کے شعرائے متاخرین نے ہزارہا غزل لکھی ہے۔ میر ، سودا ، جراءت، درد اور اثر کے ہاں ایسی زمینوں میں بہت کم غزلیں پائی جاتی ہیں۔ اس کی ابتدا مصحفی اور انشا کے وقت سے ہوئی ہے۔ اور شاہ نصیرنے سب سے زیادہ اس میں طبع آزمائی کی ہے۔ ذوق کو بھی ابتدائے شاعری میں اس کا بہت لپکا رہا ہے ۔ ظفر کے کلام میں بھی ایسی زمینیں بہت ہیں۔ البتہ غالب، مومن، ممنون، شیفتہ۔ داغ وغیرہ نے ایسی زمینیں بہت کم اختیار کی ہیں۔ لکھنؤ کے شعرا نے بھی سخت زمینوں میں بے انتہا غزلیں لکھی ہیں۔
جو لوگ شاعری کے فرائض پورے پورے ادا کرنا چاہتے ہیں، وہ
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 186
اس بات کا اندازہ کر سکتے ہیں کہ شعر کے سر انجام دینے میں کوئی چیز ایسی مشکل نہیں جیسا مضمونِ شعر کے مناسب قافیہ بہم پہنچانا۔ اسی لئے جب کسی کو سخت دقت پیش آتی ہے، تو کہتے ہیں کہ اُس کا قافیہ تنگ ہو گیا۔ اسی قافیے کی مشکلات سے بچنے کے لیے یورپ کے شعرا نے آخر کار ایک بلینک درس یعنی نظمِ غیر مُقفّا نکال لی ہے اور اب زیادہ تر وہاں اِسی طرح کی نظم پر شاعری کا دار و مدار ہے۔ ہمارے ہاں اس پر طرّہ یہ ہے کہ قافیے کے پیچھے، ایک ردیف کا دُم چھلا اور لگا لیا گیا ہے۔ اگرچہ ردیف ایسی ضروری نہیں سمجھی جاتی جیسا قافیہ سمجھا جاتا ہے لیکن غزل میں اور خاص کر اُردو غزل میں تو اس کو وہی رتبہ دیا گیا ہے جو قافیے کو۔ اگر تمام اُردو دیوانوں میں غیر مُردّد غزلیں تلاش کی جائیں ، تو ایسی غزلیں شاید گنتی کی نکلیں۔ پس جب کہ ردیف اور قافیے کی گھاٹی خود دشوار گذار ہے، تو اُس کو اور زیادہ کٹھن اور ناقابلِ گذر بنانا، اُنھی لوگوں کا کام ہو سکتا ہے جو معنی سے کچھ سروکار نہیں رکھتے اور شاعری کا مآل ، محض قافیہ پیمائی سمجھتے ہیں اور بس۔
جہاں تک سنگ لاخ زمینوں کا استقرا کیا جاتا ہے، ان میں یا تو ردیف اور قافیہ ایسا اختیار کیا جاتا ہے جن میں باہم دگر کچھ مناسبت نہ ہو۔ مثلاً َ: تقریرِ پشتِ آئنہ، تدبیرِ پشتِ آئنہ۔ اور جیل کی مکھی، محل کی مکھی، دوّل کی مکھی۔ اور عسَس کی تیلیاں، نفس کی تیلیاں۔ یا ردیف ایسی لمبی اختیار کرتے ہیں جو ایک آدھ سے زیادہ شعروں میں معقول طور پر نہیں آ سکتی، جیسے فلک پہ بجلی، زمیں پہ باراں۔ سر پر طرّہ ہار گلے میں۔ گاہ فد نگ و گاہ کمان۔ غرض کہ قصداً ایسی طرح تجویز کرتے ہیں، جس میں عمدہ مضمون بندھنا تو یقیناً ناممکن ہو اور بامعنی شعر نکالنا بھی ، نہایت
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 187
مشّاق و ماہر استادوں کے سوا، عام شعرا کے قریب ناممکن کے ہو۔ ایسی زمینوں میں بڑا کمال شاعر کا یہ سمجھا جاتا ہے کہ قافیے اور ردیف میں جو منافرت ہو، وہ بہ ظاہر جاتی ہے۔ گویا تیل اور پانی کو ملایا جاتا ہے۔ ایسی غزلوں میں اور امیر خسرو کی ان مل میں کچھ تھوڑا ہی سا فرق معلوم ہوتا ہے۔ امیر خسرو نے کھیسر، چرخہ، ڈھول اور کُتا، ان چار چیزوں کا اس طرح پیوند ملایا ہے،
کھیر پکائی جتن سے چرخہ دیا جلا
آیا کُتا کھا گیا، تُو بیٹھی ڈھول بجا

ایک شاعر گل گیر اور پشتِ آئنہ کو اس طرح پیوند دیتا ہے:
آرسی پہنے ہوئے وہ گل جو لیوے شمع کا
ہم انگوٹھے کو کہیں گل گیر پشتِ آئنہ
اور اور شاعر نے کل اور مکھی کو اس طرح گانٹھا ہے:
صنعتِ لُعبتِ چیں دیکھ دلا جا کر تُو
دیکھنی گر تجھے منظور ہو کل کی مکھی
اسی پر قیاس کر لینا چاہئیے کہ گُل سنگ لاخ زمینوں میں اس کے سوا اور کچھ مقصود نہیں ہوتا کہ وہ بے میل چیزوں میں، میؒ ثابت کیا جائے۔ پس شاعر کو چاہئیے کہ ہمیشہ ردیف ایسی استعمال کرے جو قافیے سے میل کھاتی ہو او ردیف اور قافیہ دونوں مل کر ، دو مختصر کلموں سے زیادہ نہ ہوں۔ بلکہ رفتہ رفتہ مُردّف غزلیں لکھنی کم کرنی چاہئیے اور سر دست محض قافیے پر قناعت کرنی چاہئیے۔ قافیہ ایسا اختیار کرنا چاہئیے جس کے لیے قدرِ ضرورت ہے۔ دس گنے بلکہ بیس گنے الفاظ موجود ہوں ورنہ مضمون کو قوافی کا تابع کرنا پڑے گا۔ قافیے مضمون کے تابع نہ ہوں گے۔ جتنے نام ور شعرا گزرے ہیں، اُنھوں نے
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 188
یہی اصول ملحوظ رکھا ہے اور ہمیشہ ایسی زمینیں اختیار کی ہیں جن میں ہر قسم کے مضمون کی گنجائش ہو۔
قصیدہ۔۔قصیدہ بھی، اگر اُس کے معنی مطلق مدح و ذم کے لئے جائیں ، اور اُس کی بنیاد محض تقلیدی مضامین پر نہیں بلکہ شاعر کے سچے جوش اور ولولے پر ہو، تو شعر کی ایک نہایت ضروری صنف ہے۔ جس کے بغیر شاعر کمال کے درجے کو نہیں پہنچ سکتا۔ اور اپنے بہت سے اہم اور ضروری فرائض سے سبکدوش نہیں ہو سکتا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اکثر اوقات کسی چیز کو دیکھ کر یا کسی واقعے کو سُن کر بے اختیار ہمارے دل میں مدح و ستائش یا نفرین و ملامت کا جوش اٹھتا ہے۔ کبھی کسی کے عدل و انصاف یا عالی ہمتی یا حُبّ ِ وطن یا قومی ہمدردی یا کسی اور خوبی کو معلوم کر کے، اُس کی تعریف کرنے کو جی چاہتا ہے۔ کبھی کسی نیک صفات اور ستودہ خصائل آدمی کی موت پر افسوس کرنے اور اس کی خوبیاں یاد کرنے کا ولولہ دل میں پیدا ہوتا ہے ۔ کبھی ہم کو اپنے گذشتہ دوستوں کی صحبتیں یاد آتی ہیں اور اُن کی بے ریا دوستی اور خالص محبت کا نقشا آنکھوں کے سامنے پھر جاتا ہے ، جو اُن کا ذکرِ خیر کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ کبھی کسی خوش فضا مقام پر ہمارا گزر ہوتا ہے اور جو لُطف وہاں حاصل ہوتا ہے، اُس کے بیان کرنے کا جوش ہمارے دل میں اٹھتا ہے۔ اسی طرح جب کوئی واقعہ ہمارے دل کو ناگوار معلوم ہوتا ہے یا کسی سے کوئی حرکت یا کام قابلِ نفریں ظہور میں آتا ہے، تو اُس کی برائی ظاہر کرنے کا ارادہ ہمارے نفس میں متحرک ہوتا ہے۔ ایسے موقعوں پر شاعر کا فرض ہے کہ جو ملکہ اُس کی طبیعت میں خدا نے ودیعت کیا ہے، اُس کو معطل اور بے کار نہ چھوڑے اور اُس سے، جیسا کہ اُس کی فطرت کا مُقتضا ہے، کچھ کام لے۔ جس طرح ایک محقّق حکیم کا یہ فرض ہے کہ
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 189
موجوداتِ عالم کے جس قدر خواص اور احوال اس پر منکشف ہوں، اُن سے دنیا کو آگاہ کرے۔ یا ایک طبیب کا فرض ہے کہ عقاقیر کے مَضّار و منافع سے بنی نوع کو تا بہ مقدور بے خبر نہ رہنے دے۔ یا ایک سیاح کا فرض ہے کہ انکشافاتِ جدیدہ سے اہلِ وطن کو مطلع کرے۔ اسی طرح شاعر کا فرض یہ ہونا چاہئیے کہ اچھوں کی خوبیوں کو چمکائے ، ان کے ہُنر و فضائل ، عالم میں روشن کرے اور اُن کے اخلاق کی خوشبو سے ،موجودہ اور آئیندہ ، دونوں نسلوں کے دماغ معطّر کرنے کا سامان مہیّا کیاجائے۔ اور نیز برائیوں اور عیبوں پر، جہاں تک ممکن ہو، گرفت کرے، تا کہ حال اور مستقبل دونوں زمانوں کے لوگ برائی کی سزا اور اُس کے نتائج سے ہوشیار اور چوکنّے رہیں۔ یہ وتیرہ بالکل سنّتِ الٰہی کے مطابق ہو گا۔ کیوں کہ کلامِ الٰہی میں بھی ہمیشہ بُروں کو برائی کے ساتھ، اور بھلوں کو بھلائی کے ساتھ یاد کیا جاتا ہے۔ متوکّل باللہ نے ایک شاعر سے پوچھا کہ تم کس حد تک لوگوں کی ہجو کے درپے رہتے ہو اور کب تک اُن کی مدح و ستائش کرتے ہو؟ اُ س نے کہا : مَا اَ سَا واٰ وَ اَ حسَبُوا۔
یعنی جب تک ان سے نیکی اور بدی سر زد ہوتی ہے۔ پھر کہا : نعوذ باللہ ان نکون کالعقرب الّتی تلسب النبی و الذمی یعنی خدا نہ کرے کہ ہمارا حال بچّھو کا سا ہو جو کہ نبی اور ذمی دونوں کے ڈنک مارتا ہے۔
جب کسی ایسے شخص کی ، جو مدح کا مستحق ہوتا ہے، تعریف کی جاتی ہےتو اس کو مدح کا زیادہ استحقاق حاصل کرنے یا کم سے کم اپنا پہلا استحقاق قائم رکھنے کا اور دوسروں سے اس کی رِیس کرنے کا خیال پیدا ہوتا ہے۔ اسی طرح جو لو گ نفرین کے مستحق ہیں، جب ان کے عیب کنایتہً بیان کئے جائیں گے ، تو امید ہے کہ وہ اس اندیشے سے کہ مبادا آیندہ زیادہ رسوائی ہو، اپنی اصلاح
 
Top