ریختہ صفحہ 185
عجائب پرستی ہونے لگی اور خدا کا خیال جاتا رہا، اسی طرح ہمارے لٹریچر میں صنائعِ لفظی کی لَے بڑھتے بڑھتے ، آخر کار محض الفاظ پرستی باقی رہ گئی اور معنی کا خیال بالکل جاتا رہا۔ صنائع و بدائع کی پابندی ، دلی کے شعرا میں عموماًبہت کم پائی جاتی ہے۔ بلکہ یہ کہنا چاہئیے کہ بالکل نہیں پائی جاتی۔البتہ لکھنؤ کے بعض شعرا نے اس کا سخت پابندی کے ساتھ التزام کیا ہے اور بہ مقابلے اہلِ دلی کے ، لکھنؤ کے عام شعرا بھی رعایت لفظی کا زیادہ خیال کرتے ہیں۔ لیکن پھر بھی فارسی کے مقابلے میں اُردو شاعری اس آفت سے بہت محفوظ ہے۔ جہاں تک ہم کو معلوم ہے ، وہ بے ہودہ لفظی صبعتیں ، جن میں معنی سے بالکل قطع نظر کر لی جاتی ہے اور محض لفظوں کا گورکھ دھندا بنایا جاتا ہے، جیسے منقوط و غیر منقوط ، رقطا، حیفا، ذوقافتین، ذوبحرین وغیرہ وغیرہ۔ اُردو شاعری میں کم یاب ہیں۔ مگر بجائے صنائع لفظی کے، اُردو غزل میں ایک اور روگ پیدا ہو گیا ہے، جو صنائع سے بھی زیادہ معنی کا خون کرنے والا ہے۔
د۔ سنگ لاخ زمینوں میں لکھنؤ اور دلی کے شعرائے متاخرین نے ہزارہا غزل لکھی ہے۔ میر ، سودا ، جراءت، درد اور اثر کے ہاں ایسی زمینوں میں بہت کم غزلیں پائی جاتی ہیں۔ اس کی ابتدا مصحفی اور انشا کے وقت سے ہوئی ہے۔ اور شاہ نصیرنے سب سے زیادہ اس میں طبع آزمائی کی ہے۔ ذوق کو بھی ابتدائے شاعری میں اس کا بہت لپکا رہا ہے ۔ ظفر کے کلام میں بھی ایسی زمینیں بہت ہیں۔ البتہ غالب، مومن، ممنون، شیفتہ۔ داغ وغیرہ نے ایسی زمینیں بہت کم اختیار کی ہیں۔ لکھنؤ کے شعرا نے بھی سخت زمینوں میں بے انتہا غزلیں لکھی ہیں۔
جو لوگ شاعری کے فرائض پورے پورے ادا کرنا چاہتے ہیں، وہ