شمشاد
لائبریرین
مقدمہ شعر و شاعری از الطاف حسین حالی - صفحہ 171 سے 200
مرنے پر اظہار حزن و ملال کے لیے سوچ سوچ کر رنگین اور مسجع فقرے افشا کرے اور بجائے حزن و ملال کے اپنی فصاحت و بلاغت کا اظہار کرے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ مرثیہ کی ترتیب میں مطلق فکر و غور کرنا اور صنعت شاعری سے بالکل کام لینا نہیں چاہیے۔ بلکہ یہ کہتے ہیں کہ جہاں تک ممکن ہو شاعری کا سارا کمال زبان کی صفائی، مضمون کی سادگی و بے تکلفی، کلام کے موثر بنانے اور آورد کو آمد دکھانے میں صرف کرنا چاہیے۔ تا کہ وہ اشعار جو بے انتہا فکر و غور اور کاٹ چھانٹ کے بعد مرتب ہوئے ہیں۔ ایسے معلوم ہوں کہ گویا بے ساختہ شاعر کے قلم سے ٹپک پڑے ہیں۔ تیسرے مرثیہ کو صرف واقعہ کربلا کے ساتھ مخصوص کرنا اور تمام عمر اسی ایک مضمون کو دہراتے رہنا۔ اگر محض بہ نیت حصولِ ثواب ہو تو کچھ مضائقہ نہیں۔ لیکن شاعری کے فرائض اس سے زیادہ وسیع ہونے چاہیں۔ مرثیہ کے معنی ہیں کسی کی موت پر جی کڑھانا اور اس کے محامد و محاسن بیان کر کے اس کا نام دنیا میں زندہ کرنا۔ پس شاعر جو کہ قوم کی زبان ہوتا ہے۔ اس کا یہ فرض ہونا چاہیے کہ جب کسی کی موت سے اس کے یا اس کے قوم یا خاندان کے دل کو فی الواقع صدمہ پہنچے۔ اس کی کیفیت یا حالت کو جہاں تک ممکن ہو، درد اور سوز کے ساتھ شعر کے لباس میں جلوہ گر کرے کیونکہ خالص محبت جو ایک دوسرے کے ساتھ ہوتی ہے اور بے ریا تنظیم جو ایک دوسرے کی نسبت کرتا ہے۔ اس کے اظہار کا اس سے بہتر کوئی طریقہ نہیں کہ ممدوح خواب عدم میں بے خبر سوتا ہےا ور اس سے کسی نفع کی امید یا ضرر کا خوف باقی نہ رہا ہو۔ اب اگر شاعر کا دل فی الحقیقت علائق دنیوی سے ایسا پاک ہے کہ مقربان درگاہِ الہی کے سوا کسی کی موت سے متاثر اور متغیر نہیں ہوتا تو اس کو آحادناس کے مرثیے لکھنے کی تکلیف دینی بلاشبہ تکلیف ملایطاق ہو گی۔ لیکن اگر اس کے پہلو میں ایسا پاک دل نہیں ہے بلکہ وہ عام انسانوں کے ساتھ ہمدردی رکھتا ہے اور دنیاداروں کی موت پر بھی اس کا دل پسیجتا ہے تو اس کو اپنی فطرت کا متقضٰی ضرور پورا کرنا چاہیے۔
یہ سچ ہے کہ جناب سید الشہدا اور ان کے عزیزوں اور ساتھیوں کے آلام و مصائب کا بیان بشرطیکہ اس میں بناوٹ اور تصنع اور صنعت شاعری کا اظہار نہ ہو ایک مسلمان کے ایمان کو تازہ کرتا ہے اور اس خاندان نبوت کے ساتھ رشتہ محبت و اخلاص جو کہ اسلام کی جڑ ہے۔ مضبوط ہوتا ہے اور ان کے بے نظیر صبر و استقلال کی پیروی کرنے کا سبق حاصل ہوتا ہے۔ لیکن جس طرح ان تمام باتوں کی ضرورت ہے اسی طرح قوم میں قومیت کو روح پھونکنے کی بھی ضرورت ہے اور وہ اسی طرح پھونکی جاتی ہے کہ قوم کے افراد مثل ایک خاندان کے ممبروں کے ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی کریں۔ ان کی مساعی جمیلہ کی قدر کریں۔ ان کے نیک کاموں میں معین و مددگار ہوں۔ زندگی میں ان کی نیکیوں کو چمکائیں۔ ان کے کمالات کو شہرت دیں اور مرنے کے بعد ان کی ایسی یادگار قائم کریں جو صفحہ ہستی سے کبھی مٹنے والی نہ ہوں، مدحیہ قصیدے جو ممدوح کی زندگی میں لکھے جاتے ہیں۔ ان میں اس کی خوبیوں کا ایسا ثبوت نہیں ہوتا جیسا کہ اس کے مرنے کے بعد بے لاگ مرثیوں اور نوحوں میں ہوتا ہے۔ اسی واسطے ہمارے قدیم شعرا جن کا خمیر عرب کی خاک پاک سے تھا۔ جب کوئی برگزیدہ آدمی قوم سے اٹھ جاتا تھا اس کے مرثیے ویسے ہی شوق اور جوش و خروش کے ساتھ لکھتے تھے جیسے کہ اس کی زندگی میں مدحیہ قصیدے انشا کرتے تھے۔ براکہ کے مرثیوں پر شعرا برابر قتل کئے جاتے تھے۔ مگر لوگ ان کے مرثیے لکھنے سے باز نہ آتے تھے۔ معن بن زائدہ کا مرثیہ لکھنے پر خلیفہ وقت نے ایک شاعر کو کمال بے حرمتی کے ساتھ دربار سے نکلوا دیا۔ اس پر بھی اس کے بے شمار مرثیے لکھے گئے۔ ابو اسحاق صابی کا مرثیہ علم الہدیٰ شریف مرتضیٰ نے باوجود اختلاف مذہب کے ایسے سوز و گداز کے ساتھ لکھا ہے جیسے کوئی اپنے عزیز و یگانے کی موت پر افسوس کرتا ہے۔ اور اس کے علم و فضل کی بے انتہا تعریف کی ہے۔ اسی طرح ہزار ہا مرثیہ، اہل علم، اہل کمال، بہادروں، فیاضوں، نیک دل بادشاہوں، لائق وزیروں اور دیگر ممتاز لوگوں کی وفات پر لکھا گیا ہے۔
لیکن جو شخص مرثیہ لکھنے میں کمال حاصل کرنا چاہے تو اس کے لیے اس نئی طرز کے مرثیہ سے بہتر کوئی رہنما اردو شاعری میں نہیں مل سکتا۔ جو باتیں ان بزرگوں کے کلام میں مرثیت کی شان کے برخلاف ہیں۔ اگر ان سے قطع نظر کی جائے تو طالب فن کو اس سے نہایت عمدہ سبق مل سکتا ہے۔ مگر افسوس ہے کہ قصیدہ اول تو اردو میں بمقابلہ فارسی اور عربی کے اس قدر کم لکھا گیا ہے کہ گویا بالکل نہیں لکھا گیا۔ دوسرے اس کا نمونہ اردو میں ایسا نشان نہیں دیا جا سکتا جس کے قدم بہ قدم چلنا چاہیے۔ اول سودا اور آخر ذوق صرف یہ شخص ہیں۔ جنہوں نے ایران کے قصیدہ گویوں کی روش پر کم و بیش قصیدے لکھے ہیں۔ اور جو چال قدیم سے چلی آتی تھی اس کو بہت خوبی سے نبھایا ہے مگر جیسے قصیدے کی اب ضرورت ہے یا آئندہ ہونے والی ہے یا ہونی چاہیے۔ اس کا نمونہ ہماری زبان محدود ہے۔ شاید بہت تلاش سے عربی میں کسی قدر زیادہ اور فارسی میں خال خال ایسے نمونے ملیں جن کا اتباع کیا جا سکے۔ مگر حق یہ ہے کہ ایشیاٹک بوئٹری میں ایسے نمونے تلاش کرنے جن پر آج کل کے خیالات کے موافق مدح یا ہجا کی بنیاد قائم کی جائے۔ بعینہ ایسی بات ہے جیسے ایک ڈسپاٹک گورنمنٹ کی رعایا میں آزادی رائے کی جستجو کرنی۔ جن ملکوں میں ابتدائے آفرینش سے بادشاہوں اور ان کے ارکان سلطنت کی برابر پرستش ہوتی رہی ہو۔ جہاں رعیت کی سلامتی بلکہ زندگی خوشامد اور فرماں برداری اور رضا و تسلیم پر موقوف ہو، جہاں رعیت اور غلام دو مترادف سمجھے جاتے ہوں اور جہاں آزادی ایک ایسا لفظ ہو جس کے مفہوم سے کوئی واقف تک نہ ہو، ایسے ملکوں میں ممکن نہیں کہ مدح و ذم کے اصول راستی و عقل و انصاف پر مبنی ہوں۔ پس اس کے سوا کچھ چارہ نہیں کہ مدح و ذم کا طریقہ یورپ کی موجودہ شاعری سے اخذ کیا جائے اور آئندہ قصائد کی بنیاد اسی طریقہ پر رکھی جائے۔
مرنے پر اظہار حزن و ملال کے لیے سوچ سوچ کر رنگین اور مسجع فقرے افشا کرے اور بجائے حزن و ملال کے اپنی فصاحت و بلاغت کا اظہار کرے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ مرثیہ کی ترتیب میں مطلق فکر و غور کرنا اور صنعت شاعری سے بالکل کام لینا نہیں چاہیے۔ بلکہ یہ کہتے ہیں کہ جہاں تک ممکن ہو شاعری کا سارا کمال زبان کی صفائی، مضمون کی سادگی و بے تکلفی، کلام کے موثر بنانے اور آورد کو آمد دکھانے میں صرف کرنا چاہیے۔ تا کہ وہ اشعار جو بے انتہا فکر و غور اور کاٹ چھانٹ کے بعد مرتب ہوئے ہیں۔ ایسے معلوم ہوں کہ گویا بے ساختہ شاعر کے قلم سے ٹپک پڑے ہیں۔ تیسرے مرثیہ کو صرف واقعہ کربلا کے ساتھ مخصوص کرنا اور تمام عمر اسی ایک مضمون کو دہراتے رہنا۔ اگر محض بہ نیت حصولِ ثواب ہو تو کچھ مضائقہ نہیں۔ لیکن شاعری کے فرائض اس سے زیادہ وسیع ہونے چاہیں۔ مرثیہ کے معنی ہیں کسی کی موت پر جی کڑھانا اور اس کے محامد و محاسن بیان کر کے اس کا نام دنیا میں زندہ کرنا۔ پس شاعر جو کہ قوم کی زبان ہوتا ہے۔ اس کا یہ فرض ہونا چاہیے کہ جب کسی کی موت سے اس کے یا اس کے قوم یا خاندان کے دل کو فی الواقع صدمہ پہنچے۔ اس کی کیفیت یا حالت کو جہاں تک ممکن ہو، درد اور سوز کے ساتھ شعر کے لباس میں جلوہ گر کرے کیونکہ خالص محبت جو ایک دوسرے کے ساتھ ہوتی ہے اور بے ریا تنظیم جو ایک دوسرے کی نسبت کرتا ہے۔ اس کے اظہار کا اس سے بہتر کوئی طریقہ نہیں کہ ممدوح خواب عدم میں بے خبر سوتا ہےا ور اس سے کسی نفع کی امید یا ضرر کا خوف باقی نہ رہا ہو۔ اب اگر شاعر کا دل فی الحقیقت علائق دنیوی سے ایسا پاک ہے کہ مقربان درگاہِ الہی کے سوا کسی کی موت سے متاثر اور متغیر نہیں ہوتا تو اس کو آحادناس کے مرثیے لکھنے کی تکلیف دینی بلاشبہ تکلیف ملایطاق ہو گی۔ لیکن اگر اس کے پہلو میں ایسا پاک دل نہیں ہے بلکہ وہ عام انسانوں کے ساتھ ہمدردی رکھتا ہے اور دنیاداروں کی موت پر بھی اس کا دل پسیجتا ہے تو اس کو اپنی فطرت کا متقضٰی ضرور پورا کرنا چاہیے۔
یہ سچ ہے کہ جناب سید الشہدا اور ان کے عزیزوں اور ساتھیوں کے آلام و مصائب کا بیان بشرطیکہ اس میں بناوٹ اور تصنع اور صنعت شاعری کا اظہار نہ ہو ایک مسلمان کے ایمان کو تازہ کرتا ہے اور اس خاندان نبوت کے ساتھ رشتہ محبت و اخلاص جو کہ اسلام کی جڑ ہے۔ مضبوط ہوتا ہے اور ان کے بے نظیر صبر و استقلال کی پیروی کرنے کا سبق حاصل ہوتا ہے۔ لیکن جس طرح ان تمام باتوں کی ضرورت ہے اسی طرح قوم میں قومیت کو روح پھونکنے کی بھی ضرورت ہے اور وہ اسی طرح پھونکی جاتی ہے کہ قوم کے افراد مثل ایک خاندان کے ممبروں کے ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی کریں۔ ان کی مساعی جمیلہ کی قدر کریں۔ ان کے نیک کاموں میں معین و مددگار ہوں۔ زندگی میں ان کی نیکیوں کو چمکائیں۔ ان کے کمالات کو شہرت دیں اور مرنے کے بعد ان کی ایسی یادگار قائم کریں جو صفحہ ہستی سے کبھی مٹنے والی نہ ہوں، مدحیہ قصیدے جو ممدوح کی زندگی میں لکھے جاتے ہیں۔ ان میں اس کی خوبیوں کا ایسا ثبوت نہیں ہوتا جیسا کہ اس کے مرنے کے بعد بے لاگ مرثیوں اور نوحوں میں ہوتا ہے۔ اسی واسطے ہمارے قدیم شعرا جن کا خمیر عرب کی خاک پاک سے تھا۔ جب کوئی برگزیدہ آدمی قوم سے اٹھ جاتا تھا اس کے مرثیے ویسے ہی شوق اور جوش و خروش کے ساتھ لکھتے تھے جیسے کہ اس کی زندگی میں مدحیہ قصیدے انشا کرتے تھے۔ براکہ کے مرثیوں پر شعرا برابر قتل کئے جاتے تھے۔ مگر لوگ ان کے مرثیے لکھنے سے باز نہ آتے تھے۔ معن بن زائدہ کا مرثیہ لکھنے پر خلیفہ وقت نے ایک شاعر کو کمال بے حرمتی کے ساتھ دربار سے نکلوا دیا۔ اس پر بھی اس کے بے شمار مرثیے لکھے گئے۔ ابو اسحاق صابی کا مرثیہ علم الہدیٰ شریف مرتضیٰ نے باوجود اختلاف مذہب کے ایسے سوز و گداز کے ساتھ لکھا ہے جیسے کوئی اپنے عزیز و یگانے کی موت پر افسوس کرتا ہے۔ اور اس کے علم و فضل کی بے انتہا تعریف کی ہے۔ اسی طرح ہزار ہا مرثیہ، اہل علم، اہل کمال، بہادروں، فیاضوں، نیک دل بادشاہوں، لائق وزیروں اور دیگر ممتاز لوگوں کی وفات پر لکھا گیا ہے۔
لیکن جو شخص مرثیہ لکھنے میں کمال حاصل کرنا چاہے تو اس کے لیے اس نئی طرز کے مرثیہ سے بہتر کوئی رہنما اردو شاعری میں نہیں مل سکتا۔ جو باتیں ان بزرگوں کے کلام میں مرثیت کی شان کے برخلاف ہیں۔ اگر ان سے قطع نظر کی جائے تو طالب فن کو اس سے نہایت عمدہ سبق مل سکتا ہے۔ مگر افسوس ہے کہ قصیدہ اول تو اردو میں بمقابلہ فارسی اور عربی کے اس قدر کم لکھا گیا ہے کہ گویا بالکل نہیں لکھا گیا۔ دوسرے اس کا نمونہ اردو میں ایسا نشان نہیں دیا جا سکتا جس کے قدم بہ قدم چلنا چاہیے۔ اول سودا اور آخر ذوق صرف یہ شخص ہیں۔ جنہوں نے ایران کے قصیدہ گویوں کی روش پر کم و بیش قصیدے لکھے ہیں۔ اور جو چال قدیم سے چلی آتی تھی اس کو بہت خوبی سے نبھایا ہے مگر جیسے قصیدے کی اب ضرورت ہے یا آئندہ ہونے والی ہے یا ہونی چاہیے۔ اس کا نمونہ ہماری زبان محدود ہے۔ شاید بہت تلاش سے عربی میں کسی قدر زیادہ اور فارسی میں خال خال ایسے نمونے ملیں جن کا اتباع کیا جا سکے۔ مگر حق یہ ہے کہ ایشیاٹک بوئٹری میں ایسے نمونے تلاش کرنے جن پر آج کل کے خیالات کے موافق مدح یا ہجا کی بنیاد قائم کی جائے۔ بعینہ ایسی بات ہے جیسے ایک ڈسپاٹک گورنمنٹ کی رعایا میں آزادی رائے کی جستجو کرنی۔ جن ملکوں میں ابتدائے آفرینش سے بادشاہوں اور ان کے ارکان سلطنت کی برابر پرستش ہوتی رہی ہو۔ جہاں رعیت کی سلامتی بلکہ زندگی خوشامد اور فرماں برداری اور رضا و تسلیم پر موقوف ہو، جہاں رعیت اور غلام دو مترادف سمجھے جاتے ہوں اور جہاں آزادی ایک ایسا لفظ ہو جس کے مفہوم سے کوئی واقف تک نہ ہو، ایسے ملکوں میں ممکن نہیں کہ مدح و ذم کے اصول راستی و عقل و انصاف پر مبنی ہوں۔ پس اس کے سوا کچھ چارہ نہیں کہ مدح و ذم کا طریقہ یورپ کی موجودہ شاعری سے اخذ کیا جائے اور آئندہ قصائد کی بنیاد اسی طریقہ پر رکھی جائے۔