مقدمہ شعر و شاعری از الطاف حسین حالی - صفحہ 46 سے 104

شمشاد

لائبریرین
( 10 ) خواجہ میر درد اپنی شہرت اور مقبولیت کا محض بے اصل و بے بنیاد ہونا اس طرح ظاہر کرتے ہیں :

تہمتیں چند اپنے ذمے دھر چلے
کس لیے آئے تھے ہم کیا کر چلے​
 

شمشاد

لائبریرین
ان تمام مثالوں میں جیسا کہ ظاہر ہے بیان کی سادگی، اصلیت اور جوش تینوں باتیں بوجہ احسن پائی جاتی ہیں۔

( 11 ) نطیری اس حالت کو جب کہ اس نے سفر حج کا ارادہ کیا ہے اور تعلقات دینوی سےآزاد ہونے اور خدا کی طرف رجوع کرنے کا شوق اس کے دل میں موجزن ہے اس طرح بیان کرتا ہے۔

سگ آستانم اما ہمہ سب قلاوہ خایمکہ سر شکار دارم نہ ہوائے پاسبانی
عجب انبوہ باشد خضرے بہ جستجو یمکہ فتادہ ام بہ ظلمت چو زلالِ زندگانی​

پہلے شعر میں اپنے تیئں بلحاظ اس کے کہ تعلقات میں پھنسا ہوا ہے سگِ آستاں قرار دیا ہے جو کہ رات بھر اپنے مالک کے مکان کی پاسبانی کرتا ہے بلحاظ اس ے کہ تعلقات کو ترک کر کے رجوع الی اللہ کرنا چاہتا ہے، اپنے کو شکاری کتے سے تشبیہ دی ہے جو رات بھر شکار کے شوق میں اپنے گلے کے پٹے کو چباتا ہے کہ اس کو کاٹ کر شکار کی تلاش میں جنگل کی راہ لے، دوسرے شعر میں اس نے یہ مضمون ادا کیا ہے کہ انسان جس میں یہ قابلیت ہے کہ ترقی کر کے ملائے اعلٰی تک پہنچ جائے، اس کا دینوی تعلقات میں آلودہ رہنا ایسا ہے کہ گویا آبِ حیات ظلمات میں چھپا ہوا ہے اور چونکہ جاذبہ لطف الہٰی ہر وقت انسان کی گھات میں ہے کہ اس کو اپنی طرف کھینچ کر تعلقات کی تلاش میں گئے تھے اس لیے جذبہ الہٰی کو خضر سے اور آپ کو آبِ حیات سے تشبیہ دے کر کہتا ہے کہ تعجب ہے اگر خضر میری تلاش میں نہ ہو کیونکہ میں آبِ حیات کی طرح ظلمات میں پڑا ہوں۔

ان دونوں شعروں میں اصلیت اور غایت درجہ کا جوش دونوں باتیں کمال خوبی کے ساتھ پائی جاتی ہیں۔ اگرچہ ایسے بلیغ اشعار کی نسبت یہ کہنا بے دردی ہے کہ ان میں کسی چیز کی کسر ہے اور نہ کسی خوبی میں کمی ہے۔ لیکن جو معنی سادگی کے اوپر بیان کئے گئے ہیں ان کے لحاظ سے کہا جا سکتا ہے کہ ان میں سادگی ایسی نہیں پائی جاتی کہ عام اہلِ زبان یا زباں داں اس کو اچھی طرح سمجھ سکیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
( 12 ) مومن اس مضمون کو کہ اہل دنیا کا ایک نہ ایک بل میں مبتلا رہنا ایک ضروری بات ہے اور اس لیے جب کبھی میں ایک بلا سے محفوظ ہوتا ہوں تو دوسری بلا کا منتظر رہتا ہوں۔ اس طرح بیان کرتے ہیں :

ڈرتا ہوں آسمان سے بجلی نہ گر پڑے
صیاد کی نگاہ سوئے آشیاں نہیں​

اس شعر میں اصلیت اور جوش دونوں باتیں پائی جاتی ہیں۔ مگر تیسری چیز یعنی سادگی جس سے الفاظ اور خیال دونوں کی سادگی مراد ہے البتہ نہیں پائی جاتی کیونکہ جب تک یہ جملہ کہ "اہل دنیا کا ایک نہ ایک بلا میں مبتلا میں رہنا ضروری ہے۔ "شعر میں اضافہ نہ کیا جائے۔ عام ذہن معنی مقصود کی طرف انتقال نہیں کر سکتے۔ لیکن اس میں شاعر نے ایک لطافت رکھی ہے جو سادگی کا نعم البدل ہو سکتی ہے۔ مگر بیان زیادہ صاف ہوتا تو وہ لطافت باقی نہ رہتی۔ اس نے یہ جملہ گویا قصدا حذف کر دیا ہے اور یہ جتانا چاہتا ہے کہ یہ بات ایسی بدیہی ہے کہ اس کے ذکر کرنے کی ضرورت نہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
( 13 ) آتش کہتے ہیں :

فرصت اک دم عہد طفلی میں نہ رونے سے ملی
پرورش پایا ہوا ہوں دامنِ سیلاب کا

جامہ سخن ہو گیا راہ عدم میں نذرِ کور
بوجھ اٹھایا تھا مگر ٹھگ کے لیے اسباب کا

ساحلِ مقصود دیکھا میں نے جا کر کور میں
ڈوبنا کشتی تن کو مژدہ تھا پایاب کا​

ان تینوں شعروں میں شاید مشکل سے کسی نہ کسی قسم کی اصلیت تو نکل آئے لیکن جیسا کہ ظاہر ہے نہ بیان میں سادگی ہے نہ جوش۔
 

شمشاد

لائبریرین
( 14 ) نظیری کہتا ہے :

رہ نداد آں قدرم بر سر خوانِ تو فلک
کز نمکدانِ تو بر لب زنم انگشت نمک

رستحیز ---! کہ شود زیر و زبر وضع جہاں
چندر ختم بسما باشد و بختم بہ سمگ​

پہلے شعر کا مطلب یہ ہے کہ خوانِ نعمت الہٰی سے مجھ کو اتنا بھی حصہ نہ ملا کہ نمک دانی سے نمک تو انگلی پر لگا کر چکھ لیتا۔

دوسرے شعر میں وہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ میں باعتبار اپنی قابلیت اور استعداد کے جوہر علوی ہوں مگر میرا نصیب اپنی پستی کے سبب تحت الثریٰ میں پڑا ہوا ہوں پس کہتا ہے کہ کاش ایسی رستخیز یعنی انقلاب برپا ہو جس سے جہاں زیر و زبر ہو جائے اور میرا نصیب پستی سے بلندی پر پہنچ جائے۔ ان دونوں شعروں میں اصلیت سے جوش بخوبی پایا جاتا ہے لیکن بیان کسی قدر اذہان سے بالاتر ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
( 15 ) آتش کہتے ہیں :

تری تقلید سے کہکِ دری نے ٹھوکریں کھائیں
چلا جب جانور انساں کی چال، اس کا چلن بگڑا

نہیں بے وجہ ہنسنا اس قدر زخمِ شہیداں کا
تری تلورا کا منھ کچھ نہ کچھ اے تیغ زن بگڑا

امانت کی طرح رکھا زمیں نے روز محشر تک
نہ ایک مُو کم ہوا اپنا نہ اک تارِ کفن بگڑا​

یہ تینوں شعر صاف ہیں مگر ان میں سادگی بیان کے سوا جیسا کہ ظاہر ہے نہ اصلیت ہے نہ جوش۔
 

شمشاد

لائبریرین
( 16 ) ذوق کہتے ہیں :

کیا جانے اسے وہم ہے کیا میری طرف سے
جو خواب میں بھی رات کو تنہا نہیں آتا

ہم رونے پہ آ جائیں تو دریا ہی بہائیں
شبنم کی طرح سے ہمیں رونا نہیں آتا​

اس شعروں میں بھی سادگی کے سوا نہ اصلیت ہے نہ جوش۔
 

شمشاد

لائبریرین
اب صرف دو احتمال باقی رہ گئے ہیں ایک یہ کہ کلام میں صرف جوش پایا جائے اور سادگی و اصلیت نہ پائی جائے۔ دوسرے یہ کہ سادگی اور جوش پایا جائے۔ اصلیت نہ پائی جائےلیکن جوش کے لیے اصلیت کا ہونا ایسا ضروری ہے کہ بغیر اس کے ہر گز کلام میں جو جوش متحقق نہیں ہو سکتا۔ پس یہ دونوں صورتیں ممکن الوقوع نہیں۔

رہا وہ کلام جس میں نہ سادگی نہ جوش نہ اصلیت تینوں چیزیں نہ پائی جائیں سو ایسے کلام سے ہمارے شعرا کے دیوان بھرے پڑے ہیں لیکن ہماری شاعری زیادہ تر اب دو قسم کے مضامین پر منحصر ہے۔ عشقیہ یا مدحیہ۔ عشقیہ مضامین میں اکثر غزل، مثنوی اور قصائد کی تشبیب میں باندھے جاتے ہیں اور مدحیہ مضامین زیادہ تر قصائد میں۔ سو ان تینوں صنفوں میں شاعر کا کام یہ سمجھا جاتا ہے کہ جو مضامین قدیم سے بندھتے چلے آتے ہیں اور جو بندھتے بندھتے بمنزلہ اصول مسلمہ کے ہو گئے ہیں۔ انہیں کو ہمیشہ بہ ادنٰی تخیر باندھتا رہے اور ان سے سرِ مو تجاوز نہ کرئے مثلا غزل میں ہمیشہ معشوق کو بے وفا، بے مروت، بے مہر، بے رحم، ظالم، قاقل، صیاد، جلاد، ہرجائی، اپنوں سے نفرت کرنے والا، اوروں سے ملنے والا، سچی محبت پر یقین نہ لانے والا، اہل ہوس کو عاشق صادق جاننے والا، بدگمان، بدخو، بد زبان، بد چلن، غرضیکہ ایک حسن و جمال یا ناز و ادا و دیگر حرکات مہر انگیز کے سوا اور تمام ایسی برائیوں کے ساتھ اس کو موصوف کرنا جو ایک انسان دوسرے انسان کے ساتھ کر سکتا ہے۔ اور اپنے تئیں غم زدہ، مصیبت زدہ، فلک زدہ، ضعیف، بیمار، بد بخت، آوارہ، بدنام، مردود خلائق، آوارگی پسند، بدنامی کا خواہاں، حسنِ قبول سے ففور، خوشی اور عافیت سے کنارہ کرنے والا، میخوار، بدمست، مدہوش، خود فراموش، وفادار، جفا کیش، کہیں آزاد طبع اور کہیں گرفتاری کا آرزو مند، کہیں صابر اور کہیں بیقرار، کہیں دیوانہ اور کہیں ہوشیار، کہیں غیور اور کہیں چکنا گھڑا، رشک کا پتلا، رقیبوں کا دشمن، سارے جہان سے بدگمان، آسمان کا شاکی، زمین سے نالاں، زمانہ کے ہاتھ سے تنگ، غرضیکہ ایک عشق اور وفاداری کے سوا اپنے تئیں ان تمام صفات سے متصف کرنا جو عموما انسان کے لیے قابل افسوس خیال کی جاتی ہیں یا مثلا آسمان اور زمانہ یا نصیب اور ستارہ کی شکایت کرنا یا زاہد و واعظ و صوفی کر لتاڑنا اور بادہ کش و بادہ فروش اور ساقی و خمار کے تعریف کرنی اور ان سے حسنِ عقیدت ظاہر کرنا، ایمان و اسلام و زہد و طاعت سے نفرت اور کفر و بے دینی و گناہ و معصیت سے رغبت ظاہر کرنی، کبھی کبھی مال و جاہ و منصب دینوی کو حقیر ٹھہرانا اور فقر و عشق و آزادگی وغیرہ علم و عقل و سلطنت وغیرہ پر ترجیح دینی۔ اسی طرح کے اور چند مضامین ہیں جو غذل کے لیے بمنزلہ ارکان و عناصر ہوئے گئے ہیں۔ غزل کے ساتھ جو الفاظ مخصوص ہیں وہ بھی ایک نہایت تنگ دائرہ میں محدود ہیں۔ مثلا معشوق کی صورت کو حور، پری، چاند، سورج، گل، لالہ، باغ اور جنت وغیرہ سے اس کی آنکھ کو نرگس، آہو، بادام، ساحر، مست، بیمار وغیرہ سے، زلف کو سنبل، مشک، عنبر، کافر، جادوگر، رات، ظلمات، دام، زنجیر، کمند وغیرہ سے، نگاہ و مژہ و غمزہ و ادا کو تیر و سنان و شمشیر وغیرہ سے ابرو کو کمان سے، زقن کو کوئیں سے، دانتوں کو موتیوں سے، ہونٹوں کو لعل، یاقوت، گلبرت، نبات، آبِ حیات وغیرہ سے، منہ کو غنچہ سے، کمر کو بال سے یا دونوںکو عدم سے، قد کو سرو ، صنوبر، شمشاد قیامت وغیرہ سے، رفتار کو فتنہ قیامت، بلا آفت، آشوب وغیرہ سے اور اسی طرح اور بعض اعضا جو چند خاص خاص چیزوں سے تشبیہ دینا، معشوق کے سامان و آرائش میں سے مشاطہ، شانہ، آئینہ، حنا، سرمہ، کاجل، غازہ، مسی، پان، کبھی قبا، بند قبا، کلاہ، چیرہ، دستار اور کبھی برقع، نقاب، مھرم، چادر، چوٹی، چوڑیاں اور خاص خاص زیوروں کا ذکر کرنا اور ان کو خاص خاص چیزوں سے تشبیہ دینا۔

باغ میں سے چند چیزوں کو انتخاب کر لینا، جیسے سرو، قمری، گل، بلبل، صیاد، گلچیں، باغباں، آشیانہ، قفس، دام، دانہ، یاسمین، نسرین، نسترن، ارغوان، سوسن، خار، گلبن وغیرہ۔

صحرا میں سے وادی، چشمہ، آب رواں، سبزہ، تشنہ، سیراب، سراب، صرصر، گرد باد، سموم، نخل، چنار، خارِ مغیلاں، رہزن، رہنما، خضر، قافلہ، جرش، آواز درا، محمل، لیلٰی، مجنون، وحشت، جنون وغیرہ۔

دریا میں سے کشتی، ناخدا، موج، گرداب، ساحل، حباب، قطرہ ہای، نہنگ، غوطہ، شناوری وغیرہ۔

محفل میں سے شمع، پروانہ، شراب، کباب، پیالہ، مینا، صراحی، خُم، جرعہ، نشہ، خمار، صبوحی، ساقی، دور، نغمہ، مطرب، چنگ، ارغنوں، مضراب، پردہ ساز، رقص، وجد، سماع وغیرہ۔

سامانِ غم میں سے نالہ، آہ، فغان، قلق، اضطراب، درد، رشک، ضبط، شوق، جدائی، یاد، تمنا، حسرت، ارمان، حرماں، رنج، غم، الم، سوز، داغ، زخم، خلش، تپش، کاہش وغیرہ، یہ اور اسی قسم کے چند اور الفاظ ہیں جن پر بالفعل اردو زبان کی غزل گوئی کا دارومدار ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
قصیدہ میں بھی صرف چند معمولی سرکل ہیں جن میں ہمیشہ ہمارے شعرا شبدیز فکر کو کاوے دیتے رہتے ہیں۔ اگر کسی نے زیادہ شاعری کے جوہر دکھانے چاہے تو وہ مدح سے پہلے ایک تمہید لکھتا ہے جس میں یا تو فصل بہار کا ذکر ہوتا ہے۔ (اگرچہ اس وقت خزاں ہی کا موسم ہو) مگر اس ذکر میں اس ناپاک دنیا کی فصل بہار سے کچھ بحث نہیں ہوتی بلکہ ایک اور عالم سے بحث ہوتی ہے اور جو عالم امکان سے بالاتر ہے یا زمانہ، آسمان، نصیب یا قسمت کی شکایت ہوتی ہے جس کو درحقیقت خدا کی شکایت سمجھنا چاہیے جو زمانہ وغیرہ کی آڑ میں خوب دل کھول کر کی جاتی ہے۔ اس میں بھی شاعر اپنے واقعی مصائب بیان نہیں کرتا اور ممدوح کو اپنے اوپر رحم دلانے کی باتیں کہتا ہے بلکہ جس قسم کے مصائب اگلے زمانے کے شعرا نے اپنی نسبت بیان کیے تھے اور جیسے بہتان انہوں نے آسمان و زمانہ وغیرہ پر باندھے تھے یہ بھی بہ ادنٰی تغیر ویسے ہی مصائب بیان کرتا ہے اور اسی قسم کے بہتان باندھتا ہے یا ایک فرضی معشوق کے حسن و جمال کی تعریف، اس کے جورو ظلم کی شکایت اور اپنے شوق و انتظار کا مسلسل یا غیر مسلسل بیان اس طرح کیا جاتا ہے جیسا کہ عشقیہ مثنویوں یا غزلوں میں ہوتا ہے یا فخر و خودستائی میں تمام تمہید ختم کر دی جاتی ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
اس کے بعد مدح شروع ہوتی ہے۔ مدح میں اکثر ایک نام کے سوا کوئی خصوصیت ایسی مذکور نہیں ہوتی جو ممدوح کی ذات کے ساتھ مختص ہو بلکہ ایسے حاوی الفاظ میں مدح کی جاتی ہے کہ اگر بالفرض مداح اس علت میں کہ فلاں شخص کی مدح کیوں کی؟ عدالت میں ماخوذ ہو جائے تو قصیدہ میں کوئی لفظ ایسا نہ ملے جس سے اس کا جرم ثابت ہو سکے۔ مدح میں زیادہ تر وہی معمولی محامد بیان ہوتے ہیں جو قدیم سے شعرا باندھتے چلے آئے ہیں۔ اور ہر ایک خوبی کے بیان میں ایسا مبالغہ کیا جاتا ہے کہ قصیدہ کا مصداق نفس الامر میں کوئی انسان قرار نہیں پا سکتا۔ ممدوح کی ذات میں جو واقعی خوبیاں ہوتی ہیں ان سے اصلا تعرض نہیں کیا جا سکتا۔ بلکہ بجائے انکے ایسی محال باتیں بیان کی جاتی ہیں جو کسی متنفس پر صادق نہ آ سکیں۔ ممدوح کی طرف اکثر وہ خوبیاں منسوب کی جاتی ہیں جن کی اضداد اس کی ذات میں موجود ہیں۔ مثلا ایک جاہل کو علم و فضل کے ساتھ، ایک ظالم کو عدل و انصاف کے ساتھ اور ایک احمق اور غافل کو دانشمندی اور بیدار مغزی کے ساتھ، ایک عاجز بے دست و پا کو قدرت و مکنت کے ساتھ، ایک ایسے شخص کو جس کی ران نے کبھی گھوڑے کی پیٹھ کو مس نہیں کیا شہسواری اور فردسیت کے ساتھ۔ غرضیکہ کوئی بات ایسی نہیں کی جاتی جس پر ممدوح فخر کر سکے یا جس سے لوگوں کے دل میں عظمت اور محبت پیدا ہو اور اس کے محاسن و تاثر زمانہ میں یاد گار رہیں۔

ہماری مثنویوں کا یہ حال ہے کہ ان میں معمولی حمد و نعت وغیرہ کے بعد اکثر پہلے کسی بادشاہ زادہ یا وزیر زادہ یا امیر زادہ یا سوداگر بچہ کے حسن و جمال وغیرہ کی تعریف ہوتی ہے۔ پھر اس کو کسی پری یا شہزادی یا وزیر زادی یا اور کسی کے ساتھ لگا مارا جاتا ہے۔ وہ اول اس کے فراق میں شہر شہر اور جنگل جنگل مارا مارا پھرتا ہے پھر آخر کار وہ وصل سے کامیاب ہوتا ہے۔ یہ کامیابی ایسی ضروری ہے کہ اس کی نسبت پہلے ہی سے پیشین گوئی کی جا سکتی ہے۔

جو لوگ فی الواقع مسلم الثبوت شاعر ہیں یا پانے تئیں ایسا سمجھتے ہیں وہ تو جب مثنوی لکھیں گے ضرور اسی قسم کے لکھیں گے۔ البتہ جو لوگ اس درجہ کے شاعر نہیں ہیں ان کی مثنویاں، تاریخی، مذہبی یا اخلاقی مضامین پر بھی دیکھی گئی ہیں۔ لیکن اول تو یہ مضامین خود روکھے پھیکے ہوتے ہیں اور پھر ان کے لکھنے والے نہ تو بیان میں کچھ گرمی پیدا کرنی چاہتے ہیں اور نہ پیدا کر سکتے ہیں۔ لہٰذا ان مثنویوں کو کوئی آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتا۔ پس ہمارے ہاں وہی مثنویاں رونق پاتی ہیں جن کی بنیاد عشق پر رکھی گئی ہو۔

اگر چہ قصہ کی بنیاد عشق یا بہادری پر رکھنے کا دستور قدیم سے چلا آتا ہے اور آج کل کے شائستہ قصے بھی جب تک ان میں عشق یا بہادری کا رنگ نہیں بھرا جاتا، زیادہ مقبول نہیں ہوتے۔ لیکن ہماری مثنویوں میں اور ان میں بہت بڑا فرق ہے۔ ہمارے ہاں جس قسم کے واقعات اور دو چار استاد باندھ گئے ہیں انہیں واقعات کو بہ ادنی تغیر باندھتے چلے جاتے ہیں۔ بیاں کے اسلوب اور تشبیہات اور معشوق کے سراپا اور قصہ کے آغاز و انجام وغیرہ میں زیادہ تر انہیں کی تقلید کی جاتی ہے۔ نتیجہ ہمیشہ شد آید قدیم کے موافق جدائی کے بعد وصال اور مصیبت کے بعد راحت کا مترتب کیا جاتا ہے۔ طالب و مطلوب کے دل پر جو حالات و واردات ایک دوسرے کی محبت میں فی الواقع گزرگے ہیں یا گزر سکتے ہیں ان سے بہت کم تعرض کیا جاتا ہے۔ عشقیہ مضامین سے اخلاقی نتائج نکالنے کا بھی بھول کر بھی خیال نہیں کیا جاتا ۔ بیان میں اثر مطلق نہیں ہوتا۔ کیونکہ شاعر اس خیال سے کہ قدیم مثنویوں سے اپنی مثنوی میں کچھ جدت پیدا کرے، ہمہ تن صنائع لفظی کے سر انجام کرنے میں منہمک ہوتا ہے۔ اس لیے اس کے کلام میں اثر پیدا کرنے کی فرصت ہی نہیں ملتی۔
 

شمشاد

لائبریرین
بخلاف شائستہ ملکوں کے کہ وہاں اکثر ہر قصہ یا مثنوی میں ایک اچھوتی اور نرانی بات پیدا کی جاتی ہے۔ عقل و عادت کے خلاف باتیں جن پر اکثر ہماری مثنویوں یا قصوں کی بنیاد رکھی جاتی ہے ان میں بہت کم ہوتی ہے۔ ان کے قصے برانے نام فرضی سمجھے جاتے ہیں ورنہ ان میں تمام واقعات اور تمام واردات ایسے بیان ہوتے ہیں جو رات دن لوگون پر گزرتے ہیں اور پھر ان سے وہ ایسے اخلاقی، سوشل یا پولیٹکل نتائج نکالتے ہیں، جن سے قوم کے اخلاق، معاشرت یا تمدن پر نہایت عمدہ اثر ہوتا ہے۔ ہمارے ملک کی مثنویوں کی طرح ان کے مطالعہ سے صرف عوام الناس اور بازاری لوگ ہی محظوظ نہیں ہوتے بلکہ فضلا و حکما کی سوسائٹی میں بھی ان کی قدر کی جاتی ہے۔ ان کے قصوں کا خاتمہ ہمیشہ کامیابی اور خوشی ہی پر نہیں ہوتا بلکہ عادت الٰہی کے موافق کبھی کامیابی اور کبھی ناکامی پر کبھی خوشی اور کبھی اندوہ و غم پر ہوتا ہے۔ الغرض جب کہ ہماری موجودہ شاعری کا مدار من کل الوجوہ یعنی نہ صرف الفاظ و عبارات میں بلکہ خیالات و مضامین میں بھی محض قوم کی تقلید پر ہے اور جب کہ ہمارے ہاں یہ بات بالاتفاق تسلیم کی گئی ہے کہ "احسن اشعرا کذبہ توہم کو اپنی شاعری کی موجودہ حالت میں اصلیت کے پیدا نہیں ہو سکتا۔ رہی سادگی سو وہ موجودہ حالت میں اکثر بہ مجبوری چھوڑنی پڑتی ہے کیونکہ جو معمولی خیالات اور مضامین زیادہ تر ہمارے شعرا کے زیر مشق رہتے ہیں انکو قدما سادگی اور صفائی کے ہر اسلوب اور ہر پیرایہ میں ادا کر چکے ہیں اب تاوقتیکہ طرز بیان میں کسی قدر پیچیدگی یا خیال میں کوئی بھونڈا اضافہ یا تبدیلی پیدا نہ کی جائے اس وقت تک آسانی سے کسی معمولی مضمون میں جدت نہیں دکھائی جا سکتی۔

اگر چہ ہمارے بعض شعرا ایسے بھی گزرے ہیں جنہوں نے سادگی بیان کو سب چیزوں سے مقدم سمجھا ہے جیسے میر، اثر اور مصحفی وغیرہ۔ لیکن چونکہ انہوں نے قدما کے خیالات و مضامین سے بہت کم تجاوز کیا ہے، اس لیے ان کے دیوان زیادہ تر بھرتی اور پُکن اشعار سے بھرے ہوئے ہیں۔ میر کی نسبت مولانا آزردہ دہلوی اپنے تذکرہ میں لکھتے ہیں کہ "پستش بغایت پست و بلندش بغایت بلند" ان لوگوں کو جو اعلٰی درجہ کا استاد مانا گیا ہے اس کا سبب یہی ہے کہ ان کے کلام میں وہی معمولی خیالات جو متعدد صدیوں سے برابر بندھتے چلے آئے تھے۔ باوجود غایت درجہ کی سادگی اور صفائی کے اکثر جگہ ایسے نرالے اسلوبوں میں بیان ہوئے ہیں جو فی الواقع بے مثل و عدیم النظیر ہیں۔ میر کے دیوان میں ایک غزل ہے خاک میں، چاک میں، بلاک میں، مولانا آزردہ کے مکان پر ان کے چند احباب جن میں مومن اور شیفتہ بھی تھے، ایک روز جمع تھے، میر کی اس غزل کا یہ شعر پڑھا گیا :

اب کے جنوں میں فاصلہ شاید نہ کچھ رہے
دامن کے چاک اور گریبان کے چاک میں​

شعر کی بے انتہا تعریف ہوئی اور سب کو یہ خیال ہوا کہ اس قافیہ کو ہر شخص اپنے اپنے سلیقہ اور فکر کے موافق باندھ کر دکھائے۔ سب قلم دوات اور کاغذ لے الگ الگ بیٹھ گئے اور فکر کرنے لگے، اسی وقت ایک اور دوست وارد ہوئے مولانا سے پوچھا کہ حضرت کس فکر میں بیٹھے ہیں۔ مولانا نے کہا قل ہو اللہ کا جواب لکھ رہا ہوں۔

ظاہر ہے کہ جوش جنوں میں گریبان یا دامن یا دونوں کو چاک کرنا ایک نہایت مبتذل اور پامال مضمون ہے جس کو قدیم زمانے سے لوگ برابر باندھتے چلے آئے ہیں۔ ایسے چیتھڑے ہوئے مضمون کو میر نے باوجود غایت درجہ کی سادگی کے ایک ایسے اچھوتے، نرالے اور دلکش اسلوب میں بیان کیا ہے اس سے بہتر اسلوب تصور میں نہیں آ سکتا۔ اس اسلوب میں بڑی خوبی یہ ہے کہ سیدھا سادہ ہے نیچرل ہے اور باوجود اس کے بالکل انوکھا ہے۔

یہاں تک کہ ان تین شرطوں کی شرح جن کو ملٹن نے شعر کے لیے ضروری قرار دیا ہے یعنی سادگی۔ اصلیت اور جوش ہمارے نزدیک بقدر ضرورت بیان ہو گئی ہے۔ ملٹن سے پہلے ہمارے قدما نے بھی عمدہ شعر کی تعریف میں کچھ کچھ کہا ہے، اصمعی نے اس کی یہ تعریف کی ہے کہ "اس کے معنی لفظوں سے پہلے ذہن میں آ جائیں" یعنی سریع الفہم ہو۔ گویا اصمعی نے ملٹن کی تین شرطوں میں سے صرف ایک شرط یعنی سادگی پر شعر کی عمدگی کا مدار رکھا ہے۔ یہ تعریف جامع تو ہے لیکن مانع نہیں ہے۔ یعنی کوئی عمدہ شعر سادگی سے خالی تو نہیں ہو سکتا مگر یہ ضروری نہیں کہ جس شعر میں سادگی ہو وہ اعلٰی درجہ کا بھی ہو۔ خلیل ابن احمد کے نزدیک عمدہ شعر کا معیار یہ ہے کہ "سامع کو اس کے شروع ہوتے ہی یہ معلوم ہو جائے کہ اس کا فلاں قافیہ ہو گا۔" یہ تعریف نہ جامع ہے نہ مانع۔ ممکن ہے کہ شعر ادنی درجہ کا ہو اور اس میں یہ بات پائی جائے اور ممکن ہے کہ شعر اعلٰی درجہ کا ہو اور اس میں یہ بات نہ پائی جائے۔ صاحبِ عقد الفرید لکھتے ہیں کہ اس باب میں سب سے بہتر زہیر بن ابی سلمٰی کا قول ہے :

و ان احسن بیت انت قائلہ
بیت یقال اذا اشد تہ صدقا​

(یعنی سب سے بہتر شعر جو تم کہہ سکتے ہو وہ ہے کہ جب پڑھا جائے تو وہ لوگ کہیں کہ سچ کہا ہے) اس قول میں بھی گویا ملٹن کی تین شرطوں میں سے صرف ایک شرط یعنی اصلیت کو ضروری بتایا گیا ہے۔ لیکن صرف یہ ایک شرط کافی نہیں ہے۔ اگرچہ اعلٰی درجہ کے شعر میں یہ خاصیت ہوتی ضرور ہے مگر یہ ضروری نہیں کہ جس میں یہ خاصیت پائی جائے وہ اعلٰی ہی درجہ کا شعر ہو۔ اس سے زیادہ اور کون سا شعر سچا ہو سکتا ہے :

"چشمان تو زیر ابرو انند
دندان تو جملہ در دہانند"​

حالانکہ اس کو ادنٰی درجہ کا شعر بھی بمشکل کہا جا سکتا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
ہمارے نزدیک اس باب میں سب سے عمدہ ابن رشیق کا قول ہے۔ وہ کہتے ہیں :

فازا قیل اطمع الناس طُرا
واذا ریم اعجز امعجز ینا​

(یعنی جب پڑھا جائے تو ہر شخص کو یہ خیال ہو کہ میں بھی ایسا کہہ سکتا ہوں مگر جب ویسا کہنے کا ارادہ کیا جائے تو معجز بیان عاجز ہو جائیں)۔

حق یہ ہے کہ ابن رشیق نے جس لطافت اور خوبی سے عمدہ شعر کی تعریف کی ہے اس سے بہتر تصور میں نہیں آ سکتی۔ گویا جس رتبہ اور پایہ کا شعر اس کی تعریف میں انشا کیا ہے۔

ابن رشیق اور ملٹن کے بیان میں جو نازک فرق ہے اس کو غور سے سمجھنا چاہیے۔ ابن رشیق کی تعریف سے یہ مفہوم ہوتا ہے کہ عمدہ شعر کا سر انجام ہونا زیادہ تر حسن اتفاق پر موقوف ہے۔ شاعر کے قصد و ارادہ کو اس میں چنداں دخل نہیں ہے۔ وہ شاعر کو عمدہ شعر کہنے کا طریقہ نہیں بتاتا بلکہ یہ بتاتا ہے کہ شاعر کے کون سے شعر کو عمدہ شعر سمجھنا چاہیے۔ بخلاف ملٹن کے کہ اس کے بیان میں دونوں پہلو موجود ہیں اس سے عمدہ شعر کی پہچان اور عمدہ شعر کہنے کے ارکان دونوں باتیں معلوم ہوتی ہیں۔ اگرچہ یہ ضروری نہیں کہ ملٹن کی تینوں شرطیں ملحوظ رکھنے سے ہمیشہ ویسے ہی سہل ممتنع اشعار سر انجام ہوں گے جن کا معیار ابن رشیق نے بتایا ہے۔ لیکن یہ ضرور کہ جو شاعر اس کی شرطوں کو ملحوظ رکھے گا اس کے کلام میں جابجا وہ بجلیاں کوندتی نظر آئیں گی۔
 

شمشاد

لائبریرین
یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ دنیا میں جتنے شاعر استاد مانے گئے ہیں۔ یا جن کو استاد ماننا چاہیے ان ایک بھی ایسا نہ نکلے گا جس کا کلام اول سے آخر تک حسنِ لطافت کے اعلی درجہ پر واقع ہوا ہو۔ کیونکہ یہ خاصیت صرف خدا کے کلام میں ہو سکتی ہے جیسا کہ وہ خود فرماتا ہے "ولو کان من عند غیر اللہ لوجد وافیہ اختلافا کثیرا۔" شاعر کی معراج کمال یہ ہے کہ اس عام کلام ہموار اور اصول کے موافق ہو اور کہیں کہیں اس میں ایسا حیرت انگیز جلوہ نظر آئے جس سے شاعر کا کمال خاص و عام کے دلوں پر نقش ہو جائے البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ اس کے عام اشعار میں بھی خاص خاص اشخاص کے دل پر خاص خاص حالتوں میں تقریبا ویسا ہی اثر کریں جیسا کہ اس کا خاص کلام ہر شخص کے دل پر ہر حالت میں اثر کرتا ہے اور یہ بات اسی شاعر کے کلام میں پائی جا سکتی ہے جس کا کلام سادہ اور نیچرل ہو۔ اگرچہ مقتضائے مقام یہ ہے کہ اس بحث کو زیادہ بسط کے ساتھ بیان کیا جائے اور جس قدر کہ بیان کیا گیا ہے وہ ہمارے نزدیک کافی مقدار سے بہت کم ہے لیکن اس وقت بضرورت صرف اسی قدر بیان پر اکتفا کیا جاتا ہے۔ اگر وقت نے مساعدت کی تو پھر کسی موقع پر اسی بحث کو زیادہ وضاحت کے ساتھ لکھا جائے گا۔
 

شمشاد

لائبریرین
زمانہ کی رفتار کے موافق اردو شاعری میں ترقی کیونکر ہو سکتی ہے؟

یہاں تک شعر و شاعری کی حقیقت اور وہ شرطیں جن پر شاعر کی خوبی اور شادعر کا کمال منحصر ہے کسی قدر تفصیل کے ساتھ بیان کی گئی۔ اب ہم اپنے ہم وطنوں کو جو زمانہ کی رفتار کے موافق شاعری میں ترقی کرنے کا خیال رکھتے ہیں، اپنی سمجھ اور رائے کے موافق چند مشورے دیتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ جن ذریعوں سے ایشیا کی شاعری ہمیشہ ترقی پاتی رہی ہے وہ اردو کی شاعری کے لیے فی زمانہ مفقود ہیں اور ہر گز امید نہیں ہے کہ کبھی زمانہ آئندہ میں ایسے ذریعے مہیا ہو سکیں۔ بقول شخصے "وہ منڈھی ہی جاتی رہی۔ جہاں اتیت رہتے تھے۔" یہ بھی ظاہر ہے کہ وہ قدرتی سر چشمہ جو ہمیشہ ہر قوم کی ترقی کا منبع رہا ہے۔ یعنی سلف ہلپ اور اپنی ذات پر بھروسہ کرنا اس کی سُوتیں بھی ہماری قوم میں مدت سے بند ہیں۔ پس ایسی حالت میں اردو شاعرے کی ترقی کا خیال پکانا گویا زمانہ ناسازگار سے مقابلہ کرنا ہے۔ خصوصا ایسے زمانہ میں جگ کہ اردو سے نہایت اعلی اور اشرف زبانوں کی شاعری بھی معرضِ زوال میں ہو۔ سائنس اس کی جڑ کاٹ رہا ہو اور سویلزیشن اس کا طلسم توڑ رہی ہو اور اس کے جادو کو حرف غلط کی طرح مٹا رہی ہو لیکن چونکہ یاش اور امید دونوں حالتوں میں اخیر وقت تک ہاتھ پاؤں مارنا جان دار کا طبعی اقتضا ہے۔ مذبوح کی حرکت اور مدقوق کی امید دمِ واپسیں تک باقی رہتی ہے۔ اس لیے جو کچھ ہم لکھنا چاہتے ہیں اس سے یہ بتا دینا مقصود نہیں ہے کہ کچھ ہو گا بلکہ یہ ظاہر کرنا ہے کہ کاش ایسا ہوتا۔
 

شمشاد

لائبریرین
شاعری کے لیے سبق استعداد ضروری ہے :

سب سے پہلے تو ہم اس بات کی اصلاح دیتے ہیں کہ شاعرے کے کوچہ میں اسی شخص کو قدم رکھنا چاہیے جس کی فطرت میں یہ ملکہ ودیعت کیا گیا ہو ورنہ تمام کاوش اور تمام کوشش رائیگاں جائے گی۔ یوں تو ہر فن اور ہر پیشہ میں کمال حاصل کرنے کے لئے مناسب فطرت کی ضرورت ہے۔ لیکن شاعری میں جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا ہے اس کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ جب تک شاعر کی فکر میں اتنی بھی اپچ نہ ہو جتنی کہ ایک بئے میں گھونسلا بنانے کی اور مکڑی میں جالا پورنے کی ہوتی ہے۔ اس کو ہرگز مناسب نہیں کہ اس خیال خام میں اپنا وقت ضائع کرئے۔ بلکہ خدا کا شکر کرنا چاہیے کہ اس کے دماغ میں یہ خلل نہیں ہے۔

شاعری کی ابتدا ابعینہ ایسی ہوتی ہے جیسی شطرنج کی ابتدا ہوتی ہے جس کی طبیعت کو شطرنج سے لگاؤ ہوتا ہے اس کو دو ہی چار دن میں باریک اور گہری چالیں سوجھنے لگتی ہیں اور شطرنج میں اس کو ایسا مزہ آنے لگتا ہے کہ کھانا پینا اور سونا سب بھول جاتا ہے اور روزبروز اس کی چال بڑھتی جاتی ہے مگر جن کی طبیعت کو اس سے لگاؤ نہیں ہوتا ان کا حال برعکس ہوتا ہے۔ وہ اگر تمام عمر شطرنج کھیلیں ان کی چال اس درجہ سے کبھی آگے نہیں بڑھتی جو ابتدائی چند روزہ مشق سے ان کو حاصل ہوئی تھی۔ یہی حال شاعری کا ہے جن لوگوں کی فطرت میں اس کا ملکہ ہوتا ہے، ان کی طبیعت ابتدا ہی سے راہ دینے لگتی ہے۔ اگر وہ کسی وجہ سے اس کی طرف متوجہ نہیں ہوتے تو طبیعت کا اقتضا ان کو جبرا اس کی طرف کھینچ کر لاتا ہے ہو جب اس کی طرف توجہ کرتے ہیں تو ان کو کچھ نہ کچھ کامیابی ضرور ہوتی ہے اور اس لیے ان کا دل روز بروز بڑھتا جاتا ہے۔ ان کو اپنی وقتِ ممیزہ پر پورا بھروسہ ہوتا ہے وہ اپنے کلام کی برائی اور بھلائی کا بغیر اس کے کہ کسی سے مشورہ یا صلاح لیں آپ اندازہ کر سکتے ہیں۔ ان کی طبیعت میں ہر حالت اور ہر واقعہ سے خواہ وہ حالت اور واقعہ خود ان پر گزرے یا زید و عمر پر یا ایک چیونٹی پر متاثر ہونے کی قابلیت ہوتی ہے۔ اور اس قابلیت سے اگر وہ چاہیں تو بہت کچھ فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ ان کو خارج سے اپنی شاعری کا مصالح فراہم کرنے کی صرف اسی قدر ضرورت ہوتی ہے جس قدر کہ بئے کو اپنے گھونسلے کے لیے پھونس اور تنکوں کے باہر سے لانے کی ضرورت ہوتی ہے ورنہ وہ سلیقہ جو الفاظ و خیالات کی ترتیب و انتخاب کے لیے درکار ہے وہ اپنی ذات میں اسی طرح پاتے ہیں جس طرح کہ بیا گھونسلا بنانے کا ہنر اور سلیقہ اپنی ذات میں پاتا ہے۔ وہ اساتذہ کے کلام سے صرف یہی فائدہ نہیں اٹھاتے کہ جو کچھ انہوں نے لکھا یا باندھا ہے اس سے مطلع ہو جاتے ہیں بلکہ ان کے ایک ایک مصرع اور ایک ایک لفظ سے بعض اوقات ان کو وہ سبق حاصل ہوتا ہے جو ایک نامور شاعر مہینوں میں کسی استاد سے حاصل نہیں کر سکتا۔ پس ہمارے ملک میں جو شاعری کے لیے ایک استاد قرار دینے کا دستور اور اصلاح کے لیے ہمیشہ اس کو اپنا کلام دکھانے کا قاعدہ قدیم سے چلا آتا ہے اس سے شاگردوں کے حق میں کوئی متعدنہ فائدہ مترتب ہونے کی امید نہیں ہے۔ استاد شاگرد کے کلام میں اس سے زیادہ اور کیا کر سکتا ہے کہ کوئی گریمر کی غلطی بتا دے یا کسی عروضی پالغز کی اصلاح کر دے لیکن اس سے نفس شعر میں کچھ ترقی نہیں ہو سکتی۔ رہی یہ بات کہ استاد شاگرد کے پست کلام کو بلند کر دے یا شاگرد کو اپنا ہمسر بنانے کی طاقت ہوتی تو ملا نظامی صاحبزادہ کو یہ نصیحت نہ کرتے :

در شعر مجو بلند نامی
کایں ختم شد است بر نظامی​

اور اگر کمال شاعری کے لیے کسی کا تلمذ اختیار کرنا ضروری ہوتا تو سنانی، نظامی، سعدی، خسرو اور حافظ کے ضرور استاد ایسے استاد نکلتے جن کی شہرت شاگردوں سے زیادہ نہیں تو ان کے برابر یا ان سے کمتر تو ہوتی۔

شاعر بننے کے لیے سب سے اول سبق استعداد اور پھر نیچر کا مطالعہ اور اس کے بعد کثرت سے اساتذہ کا کلام دیکھا اور ان کے بزگزیدہ کلام کا اتباع کرنا اور اگر میسر آئے تو ان لوگوں کی صھبت سے مستفید ہونا جو شعر کا صحیح مذاق رکھتے ہوں۔ (عام اس سے کہ شاعر ہوں یا نہ ہوں) صرف اس قدر کافی ہے اور بس۔ البتہ ان لوگوں کو جو مستند زبان پر کافی عبور نہیں رکھتے ممکن ہے کہ محاورات کے استعمال میں شبہات واقع ہوں لیکن ان شبہات کا رفع ہونا کسی مشاق و ماہر استاد پر موقوف نہیں ہے بلکہ وہ ہر صاحبِ زبان سے یہاں تک کہ ایک دوا ایک ماما، ایک کنجڑن بلکہ ایک حلال خوری سے بھی رفع ہو سکتے ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
جھوٹ اور مبالغہ سے بچنا چاہیے :

دوسری نہایت ضروری بات یہ ہے کہ شعر میں جہاں تک ممکن ہو حقیقت اور راستی کا سر شتہ ہاتھ سے دینا نہیں چاہیے۔ اگرچہ ہم نے جو اصلیت کی شرح اوپر بیان کی ہے اس میں دائرہ بیان کو زیادہ وسیع کر دیا ہے اور اصلیت کے لیے بہت سے پہلو نکالے ہیں لیکن زمانہ کا اقتضا یہ ہے کہ جھوٹ، مبالغہ، بہتان، افترا، صریح، خوشامد، اداعائے بے معنی، تعلٰی بے جا، الزام لا یعنی، شکوہ بے محل اور اسی قسم کی باتیں جو صدق و راستی کی منافی ہیں اور جو ہماری شاعری کے اقوام میں داخل ہو گئی ہیں۔ ان سے جہاں تک ممکن ہو قاطبتہ احتراز کیا جائے۔ یہ سچ ہے کہ ہماری شاعری میں خلفائے عباسیہ کے زمانہ سے لے کر آج تک جھوٹ اور مبالغہ برابر ترقی کرتا چلا آیا ہے اور شاعری کے لیے جھوٹ بولنا جائز ہی نہیں رکھا گیا بلکہ اس کو شاعری کا زیور سمجھا گیا ہے۔ لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ جب سے ہماری شاعری میں جھوٹ اور مبالغہ داخل ہوا، اسی وقت سے اس کا تنزل شروع ہوا۔ عرب، عربِ، عربا اور صدر اول کے شعرا جھوٹ سے نفرت کرتے تھے اور اس کو عیوب شاعری میں سے سمجھتے تھے۔ زہیر ابن ابی سلمٰی جو صدر اول کا شاعر ہے اس کا قول ہے کہ "احسن القول ما صدقہ الفعل۔" یعنی سب سے بہتر کلام وہ ہے جس پر کام گواہی دیں اور اسی شاعر کا یہ مشہور شعر ہے :

و ان اشعر بیت انت قائلہ
بیت یقال اذا اشدتہ صدقا​

اسی زہیر کی نسبت حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ کہا کرتے تھے "انہ اشعر الشعرآ لانہ لا یمدح الا مستحقا" (یعنی وہ افضل ترین شعرا میں ہے کیونکہ وہ اسی کی مدح کرتا ہے جو مستحق مدح ہو)۔

ایک بار بنی تمیم نے سلامۃ بن جنرل سے جو ایک جاہل شاعر تھا درخواست کی کہ مجد نا بشعرک (یعنی تو اپنے مدحیہ اشعار سے ہماری عزت بڑھا) اس نے کہا افعلوا حتی اقول (یعنی تم کچھ کر کے دکھاؤ تا کہ میں اس کو بیان کروں)۔

صاحب عقد الفرید لکھتے ہیں کہ "شعرائے عرب اپنی مدح سے ممدوحوں کی عزت بڑھا دیتے تھے اور ہجو سے لوگوں کو ذلیل و رسوا کر دیتے تھے۔" اس کا سبب اس کے سوا اور کچھ نہ تھا کہ وہ ان کی واقعی خوبیاں یا واقعی برائیاں بیان کرتے تھے۔ ورنہ جھوٹی مدح اور جھوٹی ہجو سے کوئی شخص عزیز یا ذلیل نہیں ہو سکتا۔

معاویہ بن ابی سفیان کہتے ہیں کہ "شعر وہ چیز ہے جس کے پڑھنے سے بخیل فیاض، نامرد بہادر اور نا اہل بیٹا اہل اور فرماں بردار ہو جاتا ہے۔"

ظاہر ہے کہ اس تعریف کا مصداق اگر کوئی ہو سکتا ہے تو وہ ہی ہو سکتا ہے جو جھوٹ اور مبالغہ سے پاک ہو۔

ابو نواش نے خلیفہ کی مدح میں یہ شعر کہہ دیا تھا :

و اخفت احل الشرک حتی انہ
اتخا فک المطف التی لم تخلق​

(یعنی تو نے اہل شرک کو ایسا ڈرایا ہے کہ جو نطفے ہنوز قرار نہیں پائے وہ صلب پدری میں تجھ سے خوف کھاتے ہیں۔) اس پر لوگوں نے یہ اعتراض کیا کہ جو نطفے ہنوز قرار نہیں پائے وہ کیونکر خوف کھا سکتے ہیں اور ابو نواس کی طرف سے سوا اس کے کہ بعضوں نے تاویل سے اس کو صحیح قرار دیا اور کوئی کچھ جواب نہ دے سکا۔

سچا شعر کہنے کی صلاح کچھ اس لیے نہیں دی جاتی کہ جھوٹ بولنا گناہ ہے نہیں بلکہ اس لیے دی جاتی ہے کہ تاثیر جو شعر کی علت غائی ہے وہ جھوٹ میں بالکل باقی نہیں رہتی، اس کے سوا علوم و معارف کی ترقی جو آج کل دنیا میں ہو رہی ہے وہ جھوٹی شاعری کو برباد کرنے والی ہے۔ جن ڈھکوسلوں پر پرانے مذاق کے لوگ ابھی تک سر دُھنتے ہیں کوئی دن جاتا ہے کہ وہ دیوانوں کی ہُو سمجھیں گے۔
 

شمشاد

لائبریرین
نیچرل شاعری :

اس مقام پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آج کل شاعری کا لفظ اکثر لوگوں کی زبان پر جاری ہے اس کی کسی قدر شرح کی جائے۔ بعض حضرات تو نیچرل شاعری اس شاعری کو سمجھتے ہیں جو نیچر یوں سے منسوب ہو یا جس میں نیچریوں کے مذہبی خیالات کا بیان ہو۔ بعضے یہ خیال کرتے ہیں کہ نیچرل شاعری وہ ہے جس میں خاص مسلمانوں کی یا مطلقا کسی قوم کی ترقی یا تنزلی کا ذکر کیا جائے۔ مگر نیچرل شاعری سے یہ دونوں معنے کچھ علاقہ نہیں رکھتے، نیچرل شاعری سے وہ شاعری مراد ہے جو لفظا نیچرل کے موافق ہونے سے یہ غرض ہے کہ شعر کے الفاظ اور ان کی ترکیب و بندش تا بمقدور اس زبان کی معمولی بول چال کے موافق ہو، جس میں وہ شعر کہا گیا ہے۔ کیونکہ ہر زبان کی معمولی بول چال اور روز مرہ اس ملک والوں کے حق میں جہاں وہ زبان بولی جاتی ہے نیچر یا سیکنڈ نیچر کا حکم رکھتے ہیں۔ پس شعر کا بیان جس قدر کہ بے ضرورت معمولی بول چال اور روز مرہ سے بعید ہو گا اسی قدر اَن نیچرل سمجھ جائے گا۔ معنے نیچرل کے موافق ہونے سے یہ مطلب ہے کہ شعر میں ایسی باتیں بیان کی جائیں جیسی کہ ہمیشہ دنیا میں ہوا کرتی ہیں یا ہونی چاہییں۔ پس جس شعر کا مضمون اس کے خلاف ہو گا وہ اَن نیچرل سمجھا جائے گا۔ مثلا :

میر حسن :

کوئی رکھ کے زیر زنخداں چھڑی
رہی نرگس آسا کھڑی کی کھڑی

رہی کوئی انگلی کو دانتوں میں داب
کسی نے کہا گھر ہوا یہ خراب​

ان دونوں شعروں کو نیچرل کہا جائے گا کیونکہ بیان بھی بول چال کے موافق ہے اور مضمون بھی ایسا ہے کہ جس موقع پر وہ لایا گیا ہے وہاں ہمیشہ ایسا ہی واقعہ ہوا کرتا ہے یا مثلا :

ذوق :

رہتا ہے اپنا عشق میں یوں دل سے مشورہ
جس طرح آشنا سے کرئے آشنا صلاح​

اس شعر کو بھی نیچرل کہا جائے گا۔ کیونکہ عشق میں اور ہر ایک مشکل کے وقت انسان اپنے دل سے ایس طرح مشورہ کیا کرتا ہے یا مثلا :

ظفر :

ترے رخسار و گیسو سے بتا تشبیہ دوں کیونکر
نہ ہے لالہ میں رنگ ایسا نہ ہے سنبل میں بُو ایسی​

اس شعر کو بھی نیچرل کہا جائے گا کیونکہ عاشق کو فی الواقع کوئی رنگ اور کوئی بُو معشوق کے رنگ و بُو سے بہتر یا اس کے برابر نہیں معلوم ہو رہی یا مثلا :

مومن :

تم مرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا​

یہ بھی نیچرل شعر سمجھا جائے گا کیونکہ جس سے تعلق خاطر بڑھ جاتا ہے اس کا تصور تنہائی میں ہمیشہ پیش نظر رہتا ہے یا مثلا:

داغ :

طبیعت کوئی دن میں بھر جائے گی
چڑھی ہے یہ اندھی اُتر جائے گی

رہیں گی دم مرگ تک خواہشیں
یہ نیت کوئی آج بھر جائے گی​

ان دونوں شعروں کا مضمون گو ایک دوسرے کی ضد معلوم ہوتا ہے، مگر دونوں اپنی اپنی جگہ نیچرل کے مطابق ہیں۔ فی الواقع ہوا و ہوس کا بھوت بڑے زور و شور کے ساتھ سر پر چڑھتا ہے مگر بہت جلد اتر جاتا ہے اور فی الواقع دنیا کی خواہشوں سے کبھی نیت سیر نہیں ہوتی یا مثلا :

غالب :

رنج سے خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج
مشکلیں اتنی پڑیں مجھ پر کہ آساں ہو گئیں​

یہ شعر بھی نیچرل ہے اور فطرت انسانی کی کسی قدر گہری اور پوشیدہ خاصیت کا پتہ دیتا ہے جس کے بیان کرنے کے بعد کوئی شخص اس سے انکار نہیں کر سکتا۔

اوپر کے تمام اشعار جیسا کہ ظاہر ہے ایسے ہیں جنکو لفظا اور معنی دونوں حیثیتوں سے نیچرل کہنا چاہیے۔ اب ہم چند مثالیں ایسی دیتے ہیں جن کو لفظا یا دونوں حیثیتوں سے نیچرل نہیں کہا جا سکتا۔ مثلا:

ناسخ :

کبھی ہے دھیان عارض کا کبھی یادِ مژد دل کو
کبھی ہیں خار پہلو میں کبھی گلزار پہلو میں​

اس شعر کو صرف لفظا نیچرل کہا جا سکتا ہے لیکن معنی نہیں کہا جا سکتا۔ معشوق کے تصور سے بلا شبہ عاشق کو فرحت بھی ہو سکتی ہے اور رنج بھی۔ لیکن جب فرحت ہو تو عارض اور مژگاں دونوں کے تصور سے فرحت ہونی چاہیے، جب رنج ہو تو دونوں کے تصور سے رنج ہونا چاہیے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ پیکں جو خار سے مشابہ ہیں ان کے تصور سے پہلو میں خار ہوں اور عارض جو گل سے مشابہ ہے اس کے تصور سے پہلو میں گلزار ہو یا مثلا :

غالب :

عرض کیجیے جوہر اندیشہ کی گرمی کہاں
کچھ خیال آیا تھا وحشت کا کہ صحرا جل گیا​

جوہر اندیشہ میں کیسی ہی گرمی ہو یہ کسی طرح ممکن نہیں کہ اس میں صحرا نوردی کا خیال آنے سے خود صحرا جل اٹھے یا مثلا :

امیر :

کیا نزاکت ہے جو تورا شاخ گل سے کوئی پھول
آتش گل سے پڑے چھالے تمہارے ہاتھ میں​

نزاکت کسی درجہ کی کیوں نہ ہو یہ ممکن نہیں کہ آتش گل یعنی خود گل کے چھونے سے ہاتھ میں چھالے پڑ جائیں۔ یا مثلا :

ذوق :

دفن ہے جس جا پہ کشتہ سرد مہری کا تری
بیشتر ہوتا ہے پیدا واں شجر کافور کا​

سرد مہری میں اتنی ٹھنڈک ہو سکتی ہے ججتنی کہ لفظ سرد میں پھر اس کے کشتہ کی خاک میں اتنا اثر ہونا کہ اس سے شجر کافور پیدا ہو۔ محض الفاظ ہی الفاظ ہیں جن میں معنی کا بالکل نام و نشان نہیں۔

ہر زبان میں نیچرل شاعری ہمیشہ قدما کے حصے میں رہی ہے۔ اگر قدما کے اول طبقہ میں شاعری کی قبولیت کا درجہ حاصل نہیں ہوتا۔ انہیں کا دوسرا طبقہ اس کو سڈول بناتا ہے اور سانچے میں ڈھال کر اس کو خوشنما اور دلربا صورت میں ظاہر کرتا ہے مگر اس کی نیچرل حالت کو اس کی خوشنمائی اور دلربائی میں بھی بدستور قائم رکھتا ہے۔ ان کے بعد متاخرین کا دور شروع ہوتا ہے۔ اگر یہ لوگ قدما کی تقلید سے قدم باہر نہیں رکھتے اور خیالات کے اسی دائرہ میں محدود رہتے ہیں جو قدما نے ظاہر کئے تھے اور نیچر کے اس منظر سے جو قدما کے پیش نظر تھا آنکھ اٹھا کر دوسرے طرف نہیں دیکھتے تو ان کی شاعری رفتہ رفتہ نیچرل حالت سے تنزل کرتی ہے۔ یہاں تک کہ وہ نیچر کی راہ راست سے بہت دور جا پڑتے ہیں۔ اس کی مثال ایسی سمجھنی چاہیے کہ ایک باورچی نے ایسے مقام پر جہاں لوگ سالم، کچے اور ۔۔۔۔ نے ماش یا مونگ پانی میں بھیگے ہوئے کھاتے تھے انہیں پانی میں ابال کر اور نمک ڈال کر لوگوں کو کھلایا۔ انہوں نے اپنی معمولی غذا سے اسی کو بہت غنیمت سمجھا۔ دوسرے باورچی نے ماش مونگ دلوا کر دل کو دھو کر اور مناسب مصالح اور گھی ڈال کر کھانا تیار کیا۔ اب تیسرے باورچی کو اگر وہ دال ہی پکانے میں اپنی استادی ظاہر کرنا چاہتا ہے اس کے سوا اور کوئی موقع تنوع پیدا کرنے کا باقی نہیں رہا کہ وہ مقدار مناسب سے زیادہ مرچیں اور کھٹائی اور گھی ڈالکر لوگوں کو اپنی چٹ پٹی ہانڈی پر فریفتہ کرئے۔

اسی مطلب کو ہم دوسری طرح پر دل نشین کرنے میں کوشش کرتے ہیں۔ فرض کرو کہ فارسی زبان میں جس پر اردو شاعری کی بنیاد رکھی گئی ہے۔ جنہوں نے اول غزل لکھی ہو گی۔ ضرور ہے کہ انہوں نے عشق و محبت کے اسباب اور دواعی محض نیچرل اور سیدھے سادے طور پر معشوق کی صورت حسن و جمال اور نگاہ اور ناز و انداز وغیرو کو قرار دیا ہو گا۔ ان کے بعد لوگوں نے انہیں باتوں کو مجاز اور استعارہ کے پیرایہ میں بیان کیا۔ مثلا نگاہ و ابرو یا غمزہ و ناز و ادا کو مجازا تیغ و شمشیر کے ساتھ تعبیر کیا اور اس جدت و تازگی سے وہ مضمون زیادہ لطیف و بامزہ ہو گیا۔ متاخرین جب اسی مضومن پر پل پڑے اور ان کو قدما کے استعارہ سے بہتر کوئی اور استعارہ ہاتھ نہ آیا اور جدت پیدا کرنے کا خیال دامن گیر ہوا انہوں نے تیغ و شمشیر کے مجازی معنوں سے قطع نظر کی اور اس سے خاص سردہی یا اصیل تلوار مراد لینے لگے جو قبضہ، باڑ، پیپلا، آب اور ناب اور ڈاب سب کچھ رکھتی ہے، میان میں رہتی ہے، گلے میں حمائل کی جاتی ہے، زخمی کرتی ہے، ٹکڑے اڑاتی ہے، سر اتارتی ہے، خون بہاتی ہے، چورنگ کاٹتی ہے، اس کی دھار تیز بھی ہو سکتی ہے اور کُند بھی، قاتل کا ہاتھ اس کو مارنے سے تھک سکتا ہے، وہ قاتل کے ہاتھ سے چھوٹ کر گر سکتی ہے۔ اس کے مقتول کا مقدمہ عدالت میں دائر ہو سکتا ہے، اسکا قصاص لیا جا سکتا ہے، اس کے وارثوں کو خوں بہا دیا جا سکتا ہے۔ غرضیکہ جو خواص ایک لوہے کی اصلی تلوار میں ہو سکتے ہیں وہ سب اس کے لیے ثابت کرنے لگے۔
 

شمشاد

لائبریرین
یا مثلا اگلوں نے کسی پر عاشق ہو جانے کو مجاز اول دادن یا دل باختن یا دل فروختن سے تعبیر کیا رفتہ رفتہ متاخرین نے دل کو ایک ایسی چیز قرار دے لیا جو کہ مثل ایک جواہر یا پھل کے ہاتھ سے چھینا جا سکتا ہے، واپس لیا جا سکتا ہے، کھویا اور پایا جا سکتا ہے۔ کبھی اس کی قمیت پر تکرار ہوتی ہے، سودا بنتا ہے تو دیا جاتا ہے ورنہ نہیں دیا جاتا، کبھی اس کو معشوق عاشق سے لے کر طاق میں ڈال کر بھول جاتا ہے۔ اتفاقا وہ عاشق کے ہاتھ لگ جاتا ہے اور وہ آنکھ بچا کر وہاں سے اڑا لاتا ہے۔ پھر معشوق کے ہاں اس کی ڈھنڈیا پڑتی ہے اور عاشق اس کی رسید نہیں دیتا۔ کبھی وہ یاروں کے جلسہ میں آنکھوں ہی آنکھوں میں غایت ہو جاتا ہے۔ سارا گھر چھان مارتے ہیں کہیں پتہ نہیں لگتا۔ اتفاقا معشوق جو بالوں میں کنگھی کرتا ہے تو وہ جوں کی طرح جھڑ پڑتا ہے۔ کبھی وہ ایسا تلپٹ ہو جاتا ہے کہ زلف یار کی ایک ایک شکن اور ایک ایک لٹ میں اس کی تلاش کی جاتی ہے۔ مگر کہیں کچھ سراغ نہیں ملتا کبھی وہ بیع بالخیار کے قاعدے سے یار کے ہاتھ اس شرط پر فروخت کیا جاتا ہے کہ پسند آئے تو رکھنا ورنہ پھیر دینا اور کبھی اس کا نیلام بول دیا جاتا ہے کہ جو زیادہ دام لگائے وہی لے جائے۔

یا مثلا اگلوں نے معشوق کو اس لئے کہ وہ گویا لوگوںکے دل شکار کرتا ہے مجاز صیاد باندھا تھا۔ پچھلوں نے رفتہ رفتہ اس پر تمام احکام حقیقی صیاد کے مترتب کر دیئے۔ اب وہ کہیں جال لگا کر چڑیاں پکڑتا ہے کہیں ان کو تیر مار کر گراتا ہے کہیں ان کو زندہ پنجرے میں بند کرتا ہے۔ کہیں ان کے پر نوچتا ہے کہیں ان کو ذبح کر کے زمین پر تڑپاتا ہے۔ جب کبھی وہ تیر کمان لگا کر جنگل کی طرف جا نکلتا ہے، تمام جنگل کے پنچھی اور پکھیرو اس سے پناہ مانگتے ہیں۔ سیکڑوں پروندں کے کباب لگا کر کھا گیا۔

بیسیوں پنجرے قمریوں اور کبوتروں اور کووں اور بٹیروں کے اس کے دروازے پر لٹکے رہتے ہیں، سارے چڑی مار اس کے آگے کان پکڑتے ہیں یا مثلا اگلوں نے عشق ہی یا محبت روحانی کو جا ایک انسان کو دوسرے انسان کے ساتھ ہو سکتی ہے، مجازا شراب کے نشہ سے تعبیر کیا تھا اور اس مناسبت سے جام و صراحی، خم و پیمانہ اور ساقی و مے فروش وغیرہ کے الفاظ بطور استعارہ کے استعمال کیئے تھے یا بعض شعرائے متصوفین نے شراب کو اس وجہ سے کہ اس دار الغرور کے تعلقات سے تھوڑی دیر کو فارغ البال کرنے والی ہے بطور تفاول کے موصل الی المطلوب قرار دیا تھا۔ رفتہ رفتہ وہ اس کے تمام لوازمات اپنی حقیقی معنوں میں استعمال ہونے لگے کہاں تک کہ مشاعرہ بلا مبالغہ کلال کی دکان بن گیا، ایک کہتا ہے لا، دوسرا کہتا ہے اور لا، تیسرا کہتا ہے پیالہ نہیں تو اوک ہی سے پلا۔ کچھ بہک رہے ہیں اور کچھ بہکا رہے ہیں۔ کوئی واعظ پر پھبتی کہتا ہے، کوئی زاہد کی داڑھی پر ہاتھ لپکاتا ہے اور سیخ کی پگڑی اچھالتا ہے۔ جوان اور بوڑھے، جاہل اور عالم، رند اور پارسا سب ایک رنگ میں رنگے ہوئے ہیں، جو ہے سو نشہ کے خمار میں انگڑائیاں لے رہا ہے۔ جدھر دیکھو العطش العطش کی پکار ہے۔

یا مثلا قدما نے لاغری بدن کو اندوہ عشق یا صدمہ جدائی کا ایک لازمی نتیجہ سمجھ کر اس کو کسی موثر طریقہ سے بیان کیا تھا۔ متاخرین نے رفتہ رفتہ اس کی نوبت یہاں تک پہنچا دی کہ فراش جھاڑو دیتا ہے تو خس و خاشاک کے ساتھ عاشق زار کو سمیٹ لے جاتا ہے۔ معشوق جب صبح کو اٹھتا ہے تو عاشق کو لاغری کے سبب بستر پر نہیں پاتا۔ لاچار بچھونا جھاڑ کر دیکھتا ہے تا کہ زمین پر کچھ گرتا ہوا معلوم ہو۔ عاشق کو موت ڈھونڈتی پھرتی ہے مگر لاغری کے سبب وہ اس کو کہیں نظر نہیں آتا۔ میدان قیامت میں فرشتے چاروں طرف ڈھونڈتے پھرتے ہیں اور قاضی یوم الحساب منتظر بیٹھا ہے مگر عاشق کا لاغری کے سبب کہیں پتہ نہیں ملتا۔

اسی طرح متاخرین نے ہر مضمون کو جو قدما نیچرل طور پر باندھ گئے تھے، نیچر کی سرحد سے ایک دوسرے عالم میں پہنچا دیا۔ معشوق کے دہانہ کو تنگ کرتے کرتے صفحہ روزگار سے یک قلم مٹا دیا۔ کمر کو پتلی کرتے کرتے بالکل معدوم کر دیا، زلف کو دراز کرتے کرتے عمرِ خضر سے بھی بڑھا دیا، رشک کو بڑھاتے بڑھاتے خدا سے بھی بدگمان بن گئے، جدائی کی رات کو طول دیتے دیتے ابد سے جا بھڑایا۔ الغرض جب پچھلے انہیں مضامین کو جو اگلے باندھ گئے ہیں اوڑھنا اور بچھونا بنا لیتے ہیں تو ان کو مجبورا نیچرل شاعری سے دست بردار ہونا اور میل کا بیل بنانا پڑتا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
اس بات کے زیادہ ذہن نشین کرنے کے لیے (کہ شاعری کا آغاز کس حالت میں ہوتا ہے اور پھر قدما کا دوسرا طبقہ اس کو کس طرح اسی نیچرل حالت میں درست کرتا ہے اور ان کے بعد متاخرین اس کو کیا چیز بنا دیتے ہیں) اردو شعرا کے ہر ہر طبقہ کلام میں سے کچھ کچھ مثالیں نقل کرنی مناسب معلوم ہوتی ہیں۔

پہلی مثال :

شاہ آبرو جو اردو شعرا کے سب سے پہلے طبقہ میں شمار ہوتے ہیں وہ اس کیفیت کو جو معشوق کے دیکھنے سے عاشق کے دل میں پیدا ہوتی ہے اس طرح بیان کرتے ہیں :

نین سین نین جب ملائے گیا
دل کے اندر مرے سمائے گیا

نگہ گرم سیں مرے دل میں
خوش نین آگ سی لگائے گیا​

مراز رفیع سودا، جن کو دوسرے طبقہ میں شمار کرنا چاہیے وہ اسی کیفیت کو اس طرح بیان کرتے ہیں :

سودا جو ترا حال ہے اتنا تو نہیں وہ
کیا جانئے تو نے اسے کس آن میں دیکھا​

میر تقی جو مرزا رفیع کے معاصر ہیں وہ اسی کیفیت کو یوں ادا کرتے ہیں :

نہیں ہے چاہ بھیلی اتنی بھی دعا کر میر
کہ اب جو دیکھوں اسے میں بہت نہ پیار آوے​

خواجہ حیدر علی آتش جن کو چوتھے پانچویں طبقہ میں سمجھا گیا ہے وہ اسی کیفیت کو یوں بیان فرماتے ہیں :

تختہ نردِ عشق دل کھیلا جو حسن یار سے
چھٹ گئے ایسے مرے چھکے کہ ششدر ہو گیا​
 

شمشاد

لائبریرین
دوسری مثال :

شاہ آبرو اس طویل مدت کو جو مفارقت کے زمانے میں عاشق کو محسوس ہوتا ہے اس طرح بیان کرتے ہیں :

جدائی کے زمانہ کی سجن کیا زیادتی کے لیے
کہ اس ظالم کی جو ہم پر گھڑی گزری سو جُگ بیتا​

اسی مضمون کو میر نے یوں ادا کیا ہے :

ہر آن ہم کو تجھ بن اک اک برس ہوئی ہے
کیا آ گیا زمانہ اے یار رفتہ رفتہ​

ناسخ جو پانچویں طبقہ میں ہیں وہ اس مضمون کو یوں باندھتے ہیں :

جائے کافور سحر چاہیے کافورِ حنوط
یہ شبِ ہجر ہے یارو شبِ دیجور نہیں​

یعنی شبِ ہجر جب تک ہماری جان نہ لے گی ٹلنے والی نہیں ہے پس کافور سحر کی توقع رکھنی عبث ہے۔ بلکہ اس کی جگہ کافورِ حنوط غسلِ میت کے لیے درکار ہے۔ اگرچہ مضمون کے لحاظ سے تینوں شعروں کو نیچرل کہا جا سکتا ہے کیونکہ شوق و انتظار کی حالت میں ممکن ہے کہ عاشق کو ایک ایک گھڑی جُگ اور ایک ایک آن برس کے برابر معلوم ہو اور ممکن ہے کہ عاشق طولِ شبِ فراق سے تنگ آ کر جینے سے مایوش ہو جائے۔ مگر ناسخ کی طرز بیان اردو کی معمولی بول چال سے اس قدر بعید ہے کہ اس کو کسی طرح نیچرل بیان نہیں کہا جا سکتا۔
 
Top