نیچرل شاعری :
اس مقام پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آج کل شاعری کا لفظ اکثر لوگوں کی زبان پر جاری ہے اس کی کسی قدر شرح کی جائے۔ بعض حضرات تو نیچرل شاعری اس شاعری کو سمجھتے ہیں جو نیچر یوں سے منسوب ہو یا جس میں نیچریوں کے مذہبی خیالات کا بیان ہو۔ بعضے یہ خیال کرتے ہیں کہ نیچرل شاعری وہ ہے جس میں خاص مسلمانوں کی یا مطلقا کسی قوم کی ترقی یا تنزلی کا ذکر کیا جائے۔ مگر نیچرل شاعری سے یہ دونوں معنے کچھ علاقہ نہیں رکھتے، نیچرل شاعری سے وہ شاعری مراد ہے جو لفظا نیچرل کے موافق ہونے سے یہ غرض ہے کہ شعر کے الفاظ اور ان کی ترکیب و بندش تا بمقدور اس زبان کی معمولی بول چال کے موافق ہو، جس میں وہ شعر کہا گیا ہے۔ کیونکہ ہر زبان کی معمولی بول چال اور روز مرہ اس ملک والوں کے حق میں جہاں وہ زبان بولی جاتی ہے نیچر یا سیکنڈ نیچر کا حکم رکھتے ہیں۔ پس شعر کا بیان جس قدر کہ بے ضرورت معمولی بول چال اور روز مرہ سے بعید ہو گا اسی قدر اَن نیچرل سمجھ جائے گا۔ معنے نیچرل کے موافق ہونے سے یہ مطلب ہے کہ شعر میں ایسی باتیں بیان کی جائیں جیسی کہ ہمیشہ دنیا میں ہوا کرتی ہیں یا ہونی چاہییں۔ پس جس شعر کا مضمون اس کے خلاف ہو گا وہ اَن نیچرل سمجھا جائے گا۔ مثلا :
میر حسن :
کوئی رکھ کے زیر زنخداں چھڑی
رہی نرگس آسا کھڑی کی کھڑی
رہی کوئی انگلی کو دانتوں میں داب
کسی نے کہا گھر ہوا یہ خراب
ان دونوں شعروں کو نیچرل کہا جائے گا کیونکہ بیان بھی بول چال کے موافق ہے اور مضمون بھی ایسا ہے کہ جس موقع پر وہ لایا گیا ہے وہاں ہمیشہ ایسا ہی واقعہ ہوا کرتا ہے یا مثلا :
ذوق :
رہتا ہے اپنا عشق میں یوں دل سے مشورہ
جس طرح آشنا سے کرئے آشنا صلاح
اس شعر کو بھی نیچرل کہا جائے گا۔ کیونکہ عشق میں اور ہر ایک مشکل کے وقت انسان اپنے دل سے ایس طرح مشورہ کیا کرتا ہے یا مثلا :
ظفر :
ترے رخسار و گیسو سے بتا تشبیہ دوں کیونکر
نہ ہے لالہ میں رنگ ایسا نہ ہے سنبل میں بُو ایسی
اس شعر کو بھی نیچرل کہا جائے گا کیونکہ عاشق کو فی الواقع کوئی رنگ اور کوئی بُو معشوق کے رنگ و بُو سے بہتر یا اس کے برابر نہیں معلوم ہو رہی یا مثلا :
مومن :
تم مرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
یہ بھی نیچرل شعر سمجھا جائے گا کیونکہ جس سے تعلق خاطر بڑھ جاتا ہے اس کا تصور تنہائی میں ہمیشہ پیش نظر رہتا ہے یا مثلا:
داغ :
طبیعت کوئی دن میں بھر جائے گی
چڑھی ہے یہ اندھی اُتر جائے گی
رہیں گی دم مرگ تک خواہشیں
یہ نیت کوئی آج بھر جائے گی
ان دونوں شعروں کا مضمون گو ایک دوسرے کی ضد معلوم ہوتا ہے، مگر دونوں اپنی اپنی جگہ نیچرل کے مطابق ہیں۔ فی الواقع ہوا و ہوس کا بھوت بڑے زور و شور کے ساتھ سر پر چڑھتا ہے مگر بہت جلد اتر جاتا ہے اور فی الواقع دنیا کی خواہشوں سے کبھی نیت سیر نہیں ہوتی یا مثلا :
غالب :
رنج سے خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج
مشکلیں اتنی پڑیں مجھ پر کہ آساں ہو گئیں
یہ شعر بھی نیچرل ہے اور فطرت انسانی کی کسی قدر گہری اور پوشیدہ خاصیت کا پتہ دیتا ہے جس کے بیان کرنے کے بعد کوئی شخص اس سے انکار نہیں کر سکتا۔
اوپر کے تمام اشعار جیسا کہ ظاہر ہے ایسے ہیں جنکو لفظا اور معنی دونوں حیثیتوں سے نیچرل کہنا چاہیے۔ اب ہم چند مثالیں ایسی دیتے ہیں جن کو لفظا یا دونوں حیثیتوں سے نیچرل نہیں کہا جا سکتا۔ مثلا:
ناسخ :
کبھی ہے دھیان عارض کا کبھی یادِ مژد دل کو
کبھی ہیں خار پہلو میں کبھی گلزار پہلو میں
اس شعر کو صرف لفظا نیچرل کہا جا سکتا ہے لیکن معنی نہیں کہا جا سکتا۔ معشوق کے تصور سے بلا شبہ عاشق کو فرحت بھی ہو سکتی ہے اور رنج بھی۔ لیکن جب فرحت ہو تو عارض اور مژگاں دونوں کے تصور سے فرحت ہونی چاہیے، جب رنج ہو تو دونوں کے تصور سے رنج ہونا چاہیے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ پیکں جو خار سے مشابہ ہیں ان کے تصور سے پہلو میں خار ہوں اور عارض جو گل سے مشابہ ہے اس کے تصور سے پہلو میں گلزار ہو یا مثلا :
غالب :
عرض کیجیے جوہر اندیشہ کی گرمی کہاں
کچھ خیال آیا تھا وحشت کا کہ صحرا جل گیا
جوہر اندیشہ میں کیسی ہی گرمی ہو یہ کسی طرح ممکن نہیں کہ اس میں صحرا نوردی کا خیال آنے سے خود صحرا جل اٹھے یا مثلا :
امیر :
کیا نزاکت ہے جو تورا شاخ گل سے کوئی پھول
آتش گل سے پڑے چھالے تمہارے ہاتھ میں
نزاکت کسی درجہ کی کیوں نہ ہو یہ ممکن نہیں کہ آتش گل یعنی خود گل کے چھونے سے ہاتھ میں چھالے پڑ جائیں۔ یا مثلا :
ذوق :
دفن ہے جس جا پہ کشتہ سرد مہری کا تری
بیشتر ہوتا ہے پیدا واں شجر کافور کا
سرد مہری میں اتنی ٹھنڈک ہو سکتی ہے ججتنی کہ لفظ سرد میں پھر اس کے کشتہ کی خاک میں اتنا اثر ہونا کہ اس سے شجر کافور پیدا ہو۔ محض الفاظ ہی الفاظ ہیں جن میں معنی کا بالکل نام و نشان نہیں۔
ہر زبان میں نیچرل شاعری ہمیشہ قدما کے حصے میں رہی ہے۔ اگر قدما کے اول طبقہ میں شاعری کی قبولیت کا درجہ حاصل نہیں ہوتا۔ انہیں کا دوسرا طبقہ اس کو سڈول بناتا ہے اور سانچے میں ڈھال کر اس کو خوشنما اور دلربا صورت میں ظاہر کرتا ہے مگر اس کی نیچرل حالت کو اس کی خوشنمائی اور دلربائی میں بھی بدستور قائم رکھتا ہے۔ ان کے بعد متاخرین کا دور شروع ہوتا ہے۔ اگر یہ لوگ قدما کی تقلید سے قدم باہر نہیں رکھتے اور خیالات کے اسی دائرہ میں محدود رہتے ہیں جو قدما نے ظاہر کئے تھے اور نیچر کے اس منظر سے جو قدما کے پیش نظر تھا آنکھ اٹھا کر دوسرے طرف نہیں دیکھتے تو ان کی شاعری رفتہ رفتہ نیچرل حالت سے تنزل کرتی ہے۔ یہاں تک کہ وہ نیچر کی راہ راست سے بہت دور جا پڑتے ہیں۔ اس کی مثال ایسی سمجھنی چاہیے کہ ایک باورچی نے ایسے مقام پر جہاں لوگ سالم، کچے اور ۔۔۔۔ نے ماش یا مونگ پانی میں بھیگے ہوئے کھاتے تھے انہیں پانی میں ابال کر اور نمک ڈال کر لوگوں کو کھلایا۔ انہوں نے اپنی معمولی غذا سے اسی کو بہت غنیمت سمجھا۔ دوسرے باورچی نے ماش مونگ دلوا کر دل کو دھو کر اور مناسب مصالح اور گھی ڈال کر کھانا تیار کیا۔ اب تیسرے باورچی کو اگر وہ دال ہی پکانے میں اپنی استادی ظاہر کرنا چاہتا ہے اس کے سوا اور کوئی موقع تنوع پیدا کرنے کا باقی نہیں رہا کہ وہ مقدار مناسب سے زیادہ مرچیں اور کھٹائی اور گھی ڈالکر لوگوں کو اپنی چٹ پٹی ہانڈی پر فریفتہ کرئے۔
اسی مطلب کو ہم دوسری طرح پر دل نشین کرنے میں کوشش کرتے ہیں۔ فرض کرو کہ فارسی زبان میں جس پر اردو شاعری کی بنیاد رکھی گئی ہے۔ جنہوں نے اول غزل لکھی ہو گی۔ ضرور ہے کہ انہوں نے عشق و محبت کے اسباب اور دواعی محض نیچرل اور سیدھے سادے طور پر معشوق کی صورت حسن و جمال اور نگاہ اور ناز و انداز وغیرو کو قرار دیا ہو گا۔ ان کے بعد لوگوں نے انہیں باتوں کو مجاز اور استعارہ کے پیرایہ میں بیان کیا۔ مثلا نگاہ و ابرو یا غمزہ و ناز و ادا کو مجازا تیغ و شمشیر کے ساتھ تعبیر کیا اور اس جدت و تازگی سے وہ مضمون زیادہ لطیف و بامزہ ہو گیا۔ متاخرین جب اسی مضومن پر پل پڑے اور ان کو قدما کے استعارہ سے بہتر کوئی اور استعارہ ہاتھ نہ آیا اور جدت پیدا کرنے کا خیال دامن گیر ہوا انہوں نے تیغ و شمشیر کے مجازی معنوں سے قطع نظر کی اور اس سے خاص سردہی یا اصیل تلوار مراد لینے لگے جو قبضہ، باڑ، پیپلا، آب اور ناب اور ڈاب سب کچھ رکھتی ہے، میان میں رہتی ہے، گلے میں حمائل کی جاتی ہے، زخمی کرتی ہے، ٹکڑے اڑاتی ہے، سر اتارتی ہے، خون بہاتی ہے، چورنگ کاٹتی ہے، اس کی دھار تیز بھی ہو سکتی ہے اور کُند بھی، قاتل کا ہاتھ اس کو مارنے سے تھک سکتا ہے، وہ قاتل کے ہاتھ سے چھوٹ کر گر سکتی ہے۔ اس کے مقتول کا مقدمہ عدالت میں دائر ہو سکتا ہے، اسکا قصاص لیا جا سکتا ہے، اس کے وارثوں کو خوں بہا دیا جا سکتا ہے۔ غرضیکہ جو خواص ایک لوہے کی اصلی تلوار میں ہو سکتے ہیں وہ سب اس کے لیے ثابت کرنے لگے۔