شمشاد
لائبریرین
تیسری مثال :
شاہ حاتم جو پہلے طبقہ میں شمار کیے گئے ہیں وہ دوست کے ملنے کی آرزو اور اس کے دیکھنے کے شوق کو اس طرح بیان کرتے ہیں :
اس مضمون کو میر نے یوں باندھا ہے
سودا یوں کہتے ہیں :
منشی امیر احمد صاحب امیر جو موجودہ طبقہ کے مشہور شاعر ہیں وہ اسی مضمون کو یوں ادا کرتے ہیں :
اس مثال میں بھی تینوں شعروں کو اگر چہ خیال کے لحاظ سے نیچرل کہا جا سکتا ہے مگر اخیر شعر کے بیان کے بمقابلہ حاتم اور میر و مرزا کے صاف تصنع اور ساختگی پائی جاتی ہے اور بیان نیچرل نہیں رہا۔ اگر زیادہ تفحص کیا جائے تو ان سے بہت زیادہ صریح اور صاف مثالیں کثرت سے مل سکتی ہیں۔
اوپر کے بیان سے یہ ہر گز سمجھنا نہیں چاہیے کہ متاخرین کی شاعری ان نیچرل ہوتی ہے۔ نہیں بلکہ ممکن ہے کہ متاخرین میں کچھ ایسے لوگ بھی ہوں جو قدما کی جولاں گاہ کے علاوہ ایک دوسرے میدان میں طبع آزمائی کریں یا اسی جولاں گاہ کو کسی قدر وسعت دیں یا زبان میں بہ نسبت متقدمین کے زیادہ گھلاوٹ اور لوچ اور وسعت اور صفائی پیدا کر سکیں، چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ لکھنئو میں میر انیس نے مرثیہ کو بے انتہا ترقی دی ہے۔ نواب مرزا شوق نے مثنوی کو زبان اور بیان کے لحاظ سے بہت صاف کیا ہے۔ اسی طرح دلی میں ذوق، ظفر اور خاص کر داغ نے غزل کی زبان میں نہایت وسعت اور صفائی اور بانکپن پیدا کر دیا ہے۔ جیسا کہ ہم آگے چل کر کسی قدر تفصیل کے ساتھ بیان کریں گے۔
شاہ حاتم جو پہلے طبقہ میں شمار کیے گئے ہیں وہ دوست کے ملنے کی آرزو اور اس کے دیکھنے کے شوق کو اس طرح بیان کرتے ہیں :
زندگی دردِ سر ہوئی حاتم
کب ملے گا مجھے پیا میرا
کب ملے گا مجھے پیا میرا
اس مضمون کو میر نے یوں باندھا ہے
وصل اس کا خدا نصیب کرئے
میر دل چاہتا ہے کیا کیا کچھ
میر دل چاہتا ہے کیا کیا کچھ
سودا یوں کہتے ہیں :
دل کو یہ آرزو ہے صبا کوئے یار میں
ہمراہ تیرے پہنچئے مل کر غبار میں
ہمراہ تیرے پہنچئے مل کر غبار میں
منشی امیر احمد صاحب امیر جو موجودہ طبقہ کے مشہور شاعر ہیں وہ اسی مضمون کو یوں ادا کرتے ہیں :
وا کردہ چشم دل صفتِ نقش پا ہوں میں
ہر رہ گزر میں راہ تری دیکھتا ہوں میں
ہر رہ گزر میں راہ تری دیکھتا ہوں میں
اس مثال میں بھی تینوں شعروں کو اگر چہ خیال کے لحاظ سے نیچرل کہا جا سکتا ہے مگر اخیر شعر کے بیان کے بمقابلہ حاتم اور میر و مرزا کے صاف تصنع اور ساختگی پائی جاتی ہے اور بیان نیچرل نہیں رہا۔ اگر زیادہ تفحص کیا جائے تو ان سے بہت زیادہ صریح اور صاف مثالیں کثرت سے مل سکتی ہیں۔
اوپر کے بیان سے یہ ہر گز سمجھنا نہیں چاہیے کہ متاخرین کی شاعری ان نیچرل ہوتی ہے۔ نہیں بلکہ ممکن ہے کہ متاخرین میں کچھ ایسے لوگ بھی ہوں جو قدما کی جولاں گاہ کے علاوہ ایک دوسرے میدان میں طبع آزمائی کریں یا اسی جولاں گاہ کو کسی قدر وسعت دیں یا زبان میں بہ نسبت متقدمین کے زیادہ گھلاوٹ اور لوچ اور وسعت اور صفائی پیدا کر سکیں، چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ لکھنئو میں میر انیس نے مرثیہ کو بے انتہا ترقی دی ہے۔ نواب مرزا شوق نے مثنوی کو زبان اور بیان کے لحاظ سے بہت صاف کیا ہے۔ اسی طرح دلی میں ذوق، ظفر اور خاص کر داغ نے غزل کی زبان میں نہایت وسعت اور صفائی اور بانکپن پیدا کر دیا ہے۔ جیسا کہ ہم آگے چل کر کسی قدر تفصیل کے ساتھ بیان کریں گے۔