شمشاد
لائبریرین
شعر کی ماہیت :
شعر کی بہت سی تعریفیں کی گئی ہیں۔ مگر کوئی تعریف ایسی نہیں جو اس کے تمام افراد کو جامع اور مانع ہو دخول غیر سے۔ البتہ لارڈ مکالے نے جو کچھ شعر کی نسبت لکھا ہے گو اس کو شعر کی تعریف نہیں کہا جا سکتا لیکن جو کچھ شعر سے آج کل مراد لی جاتی ہے اس کے قریب قریب ذہن کو پہنچا دیاتا ہے وہ کہتے ہیں کہ " شاعری جیسا کہ دو 8 ہزار برس پہلے کہا گیا تھا ایک قسم کی نقالی ہے جو اکثر اعتبارات سے مصوری، بت تراشی اور ناٹک سے مشابہ ہے مگر مصور بت تراش اور ناٹک کرنے والے کی نقل شاعر کی نسبت کسی قدر کامل تر ہوتی ہے شاعر کی کہ کسی چیز سے بنی ہوئی ہے؟ الفاظ کے پرزوں سے، اور الفاظ ایسی چیز ہیں کہ اگر ہومر اور ڈینٹے جیسے صناع بھی ان کو استعمال کریں تو بھی سامعین کے متخیلہ میں اشیائے خارجی کا ایسا صحیح اور ٹھیک نقشہ اتار سکتے جیسا موقلم اور چھینی کے کام دیکھ کر بارے میں خیال اترتا ہے۔ لیکن شاعر کا میدان وسیع اس قدر ہے کہ بت تراشی، مصوری اور ناٹک یہ تینوں رن اس کی وسعت کو نہین پہنچ سکتے۔ بت تراش فقط صورت کی نقل اتار سکتا ہے۔ مصور صورت کے ساتھ رنگ کو بھی جھلکا دیتا ہے اور ناٹک کرنے والا بشرطیکہ شاعر نے اس کے لیے الفاظ مہیا کر دیے ہوں صورت اور رنگ کے ساتھ حرکت بھی پیدا کر دیتا ہے۔
مگر شاعری باوجودیکہ اشیائے خارجی کی نقل میں تینو فنون کا کام دے سکتی ہے اس کو تینوں سے اس بات کی فوقیت ہے کہ انسان کا بطون صرف شاعری ہی کی قلمرو ہے۔ نہ وہاں مصوری کی رسائی ہے نہ بت تراشی کی اور نہ ناٹک کی مصوری اور ناٹک وغیرہ انسان کے خصائل یا جذبات اس قدر ظاہر کر سکتے ہیں جس قدر کہ چہرہ یا رنگ اور حرکت سے ظاہر ہو سکتے ہیں اور یہ بھی ہمیشہ ادھورے اور نظر فریب نمونے ان کیفیات کے ہوتے ہیں جو فی الواقع انسان کے بطون میں موجود ہیں۔ مگر نفس انسانی کی باریک گہری اور بوقلموں کی کیفیات صرف الفاظ ہی کے ذریعہ سے ظاہر ہو سکتی ہے۔ شاعری کائنات کی تمام اشیائے خارجی اور ذہنی کا نقشہ اتار سکتی ہے۔ عالم محسوسات، دولت کے انقلابات، سیرت انسانی، معاشرت نوع انسانی تمام چیزیں جن کا تصور مختلف اشیا کے اجزا کو ایک دوسرے سے ملا کر کیا جا سکتا ہے۔ سب شاعری کی سلطنت میں محصور ہیں۔ شاعری ایک سلطنت ہے جس کی قلمرو اسی قدر وسیع ہے جس قدر خیال کی قلمرو۔"
ایک اور محقق نے شعر کی تعریف اس طرح کی ہے کہ " جو خیال ایک معمولی اور نرالے طور پر لفظوں کے ذریعہ سے اس لیے ادا کیا جائے کہ سامع کا دل اس کو سنکر خوش یا متاثر ہو وہ شعر ہے خواہ نظم میں ہو اور خواہ نثر میں۔"
مذکورہ بالا تقریروں کا مطلب زیادہ دل نشین کرنے کے لیے ہم اس مقام پر چند مثالیں ذکر کرنی مناسب سمجھتے ہیں۔
شعر کی بہت سی تعریفیں کی گئی ہیں۔ مگر کوئی تعریف ایسی نہیں جو اس کے تمام افراد کو جامع اور مانع ہو دخول غیر سے۔ البتہ لارڈ مکالے نے جو کچھ شعر کی نسبت لکھا ہے گو اس کو شعر کی تعریف نہیں کہا جا سکتا لیکن جو کچھ شعر سے آج کل مراد لی جاتی ہے اس کے قریب قریب ذہن کو پہنچا دیاتا ہے وہ کہتے ہیں کہ " شاعری جیسا کہ دو 8 ہزار برس پہلے کہا گیا تھا ایک قسم کی نقالی ہے جو اکثر اعتبارات سے مصوری، بت تراشی اور ناٹک سے مشابہ ہے مگر مصور بت تراش اور ناٹک کرنے والے کی نقل شاعر کی نسبت کسی قدر کامل تر ہوتی ہے شاعر کی کہ کسی چیز سے بنی ہوئی ہے؟ الفاظ کے پرزوں سے، اور الفاظ ایسی چیز ہیں کہ اگر ہومر اور ڈینٹے جیسے صناع بھی ان کو استعمال کریں تو بھی سامعین کے متخیلہ میں اشیائے خارجی کا ایسا صحیح اور ٹھیک نقشہ اتار سکتے جیسا موقلم اور چھینی کے کام دیکھ کر بارے میں خیال اترتا ہے۔ لیکن شاعر کا میدان وسیع اس قدر ہے کہ بت تراشی، مصوری اور ناٹک یہ تینوں رن اس کی وسعت کو نہین پہنچ سکتے۔ بت تراش فقط صورت کی نقل اتار سکتا ہے۔ مصور صورت کے ساتھ رنگ کو بھی جھلکا دیتا ہے اور ناٹک کرنے والا بشرطیکہ شاعر نے اس کے لیے الفاظ مہیا کر دیے ہوں صورت اور رنگ کے ساتھ حرکت بھی پیدا کر دیتا ہے۔
مگر شاعری باوجودیکہ اشیائے خارجی کی نقل میں تینو فنون کا کام دے سکتی ہے اس کو تینوں سے اس بات کی فوقیت ہے کہ انسان کا بطون صرف شاعری ہی کی قلمرو ہے۔ نہ وہاں مصوری کی رسائی ہے نہ بت تراشی کی اور نہ ناٹک کی مصوری اور ناٹک وغیرہ انسان کے خصائل یا جذبات اس قدر ظاہر کر سکتے ہیں جس قدر کہ چہرہ یا رنگ اور حرکت سے ظاہر ہو سکتے ہیں اور یہ بھی ہمیشہ ادھورے اور نظر فریب نمونے ان کیفیات کے ہوتے ہیں جو فی الواقع انسان کے بطون میں موجود ہیں۔ مگر نفس انسانی کی باریک گہری اور بوقلموں کی کیفیات صرف الفاظ ہی کے ذریعہ سے ظاہر ہو سکتی ہے۔ شاعری کائنات کی تمام اشیائے خارجی اور ذہنی کا نقشہ اتار سکتی ہے۔ عالم محسوسات، دولت کے انقلابات، سیرت انسانی، معاشرت نوع انسانی تمام چیزیں جن کا تصور مختلف اشیا کے اجزا کو ایک دوسرے سے ملا کر کیا جا سکتا ہے۔ سب شاعری کی سلطنت میں محصور ہیں۔ شاعری ایک سلطنت ہے جس کی قلمرو اسی قدر وسیع ہے جس قدر خیال کی قلمرو۔"
ایک اور محقق نے شعر کی تعریف اس طرح کی ہے کہ " جو خیال ایک معمولی اور نرالے طور پر لفظوں کے ذریعہ سے اس لیے ادا کیا جائے کہ سامع کا دل اس کو سنکر خوش یا متاثر ہو وہ شعر ہے خواہ نظم میں ہو اور خواہ نثر میں۔"
مذکورہ بالا تقریروں کا مطلب زیادہ دل نشین کرنے کے لیے ہم اس مقام پر چند مثالیں ذکر کرنی مناسب سمجھتے ہیں۔