مقدمہ شعر و شاعری - الطاف حسین حالی

شمشاد

لائبریرین
سر والٹر اسکوٹ کی شاعری

سر والٹر اسکوٹ جو انگلستان کا ایک مشہور شاعر ہے اس کی نسبت لکھا ہے کہ اس کی خاص خاص نظموں میں دو خاصیتیں ایسی ہیں جن کو سب نے تسلیم کیا ہے، ایک اصلیت سے تجاوز نہ کرنا۔ دوسرے ایک ایک مطلب کو نئے نئے اسلوب سے ادا کرنا۔ جہاں کہیں اس نے کسی باغ یا جنگل یا پہاڑ کی فضا کا بیان کیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس موقع کی روح میں جو خاصیتیں تھیں سر والٹر نے وہ سب انتخاب کر لی تھیں۔ سر والٹر کی نظم پڑھ کر آنکھوں کے سامنے بالکل وہی سماں بندھ جاتا ہے جو پہلے خود اس موقع کے دیکھنے سے معلوم ہوا تھا اور اب دھیان سے اتر گیا تھا۔ ظاہراً اس نے ان بیانات میں قوت متخیلہ پر ایسا بھروسہ نہیں کیا کہ اصلیت کو چھوڑ کر محض تخیل پر ہی قناعت کر لیتا۔ کہتے ہیں کہ جب وہ روکبی کا قصہ لکھ رہا تھا ایک شخص نے اس کو دیکھا کہ پاکٹ بک میں چھوٹے چھوٹے خودرو پھول پتے اور میوے جو وہاں اُگ رہے تھے ان کو نوٹ کر رہا ہے۔ ایک دوست نے اس سے کہا کہ اس دردِ سر سے کیا فائدہ؟ کیا عام پھول کافی نہ تھے جو چھوٹے چھوٹے پھولوں کو ملاحظہ کرنے کی ضرورت پڑی۔ سر والٹر نے کہا تمام کائنات میں دو چیزیں بھی ایسی نہیں جو بالکل یکساں ہوں۔ پس جو شخص محض اپنے تخیل پر بھروسہ کر کے مذکورہ بالا مطالعہ سے چشم پوشی یا غفلت کرے گا اس کو بہت جلد معلوم ہو جائے گا کہ اس کے دماغ میں چند معمولی تشبیہیں یا تمثیلوں کا ایک نہایت محدود ذخیرہ ہے جن کو برتتے برتتے خود اس کا جی اکتا جائے گا اور سامعین کو سنتے سنتے نفرت ہو جائے گی۔ جو شخص شعر کی تربیت میں اصلیت کو ہاتھ سے نہیں دیتا اور محض ہوا پر اپنی عمارت کی بنیاد نہیں رکھتا وہ اس بات پر قدرت رکھتا ہے کہ ایک مطلب کو جتنے اسلوبوں میں چاہے بیان کرئے۔ اس کا تخیل اسی قدر وسیع ہو گا جس قدر کہ اس کا مطالعہ وسیع ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
تیسری شرط تفحصِ الفاظ

کائنات کے مطالعہ کی عادت ڈالنے کے بعد دوسرا نہایت ضروری مطالعہ یا تفحص ان الفاظ کا ہے۔ جن کے ذریعہ سے شاعر کا اپنے خیالات مخاطب کے روبرو پیش کرتے ہیں۔ یہ دوسرا مطالعہ بھی ویسا ہی ضروری اور اہم ہے جیسا کہ پہلا۔ شعر کی ترتیب کے وقت اول متناسب الفاظ کا انتخاب کرنا اور پھر ان کو ایسے طور پر ترتیب دینا کہ شعر سے معنی مقصود کے سمجھنے میں مخاطب کو کچھ تردد باقی نہ رہے اور خیال کی تصویر ہو بہو آنکھوں کے سامنے پھر جائے اور باوجود اس کے اس ترتیب میں ایک جادو مخفی ہو جو مخاطب کو مسخر کر لے۔ اس مرحلہ کا طے کرنا جس قدر دشوار ہے اسی قدر ضروری بھی ہے۔ کیونکہ اگر شعر میں یہ بات نہیں ہے تو اس کے کہنے سے نہ کہنا بہتر ہے۔ اگرچہ شاعر کے متخیلہ کو الفاظ کی ترتیب میں بھی ویسا ہی دخل ہے جیسا کہ خیالات کی ترتیب میں۔ لیکن اگر شاعر زبان کے ضروری حصہ پر حاوی نہیں ہے اور ترتیب شعر کے وقت صبر و استقلال کے ساتھ ساتھ الفاظ کا تتبع اور تفحص نہیں کرتا تو محض قوت متخیلہ کچھ کام نہیں آ سکتی۔

جن لوگوں کو یہ قدرت ہوتی ہے کہ شعر کے ذریعہ سے اپنے ہم جنسوں کے دل میں اثر پیدا کر سکتے ہیں۔ ان کو ایک ایک لفظ کی قدر و قیمت معلوم ہوتی ہے۔ وہ خوب جانتے ہیں کہ فلاں لفظ جمہور کے جذبات پر کیا اثر رکھتا ہے اور اس کے اختیار کرنے یا ترک کرنے سے کیا خاصیت بیان میں پیدا ہوتی ہے۔ نظم الفاظ میں اگر بال برابر تھی کمی رہ جاتی ہے تو وہ فوراً سمجھ جاتے ہیں کہ ہمارے شعر میں کون سی بات کی کسر ہے۔ جس طرح ناقص سانچے میں ڈھلی ہوئی چیز فوراً چغلی کھاتی ہے اسی طرح ان کے شعر میں اگر تاؤ بھاؤ میں بھی فرق رہ جاتا ہے معاً ان کی نظر میں کھٹک جاتا ہے۔ اگرچہ وزن اور قافیہ کی قید ناقص اور کامل دونوں قسم کے شاعروں کو اکثر اوقات ایسے لفظ کے استعمال پر مجبور کرتی ہے جو خیال کو بخوبی ادا کرنے سے قاصر ہے۔ مگر فرق صرف اس قدر ہے کہ ناقص شاعر تھوڑی سے جستجو کے بعد اسی لفظ پر قناعت کر لیتا ہے۔ اور کامل جب تک زبان کے تمام کنوئیں نہیں جھانک لیتا تب تک اس لفظ پر قانع نہیں ہوتا۔ شاعر کو جب تک الفاظ پر کامل حکومت اور ان کی تلاش و جستجو میں نہایت صبر و استقلال حاصل نہ ہو ممکن نہیں کہ وہ جمہور کے دلوں پر بالاستقلال حکومت کر سکے۔ ایک حکیم شاعر کا قول ہے کہ " شعر شاعر کے دماغ سے ہتھیار بند نہیں کودتا بلکہ خیال کی ابتدائی ناہمواری سے لے کر انتہا کی تنقیح و تہذیب تک بہت سے مرحلے طے کرنے ہوتے ہیں جو کہ اب سامعین کو شاید محسوس نہ ہوں لیکن شاعر کو ضرور پیش آتے ہیں۔"

اس بحث کے متعلق چند امور ہیں جن کو فکر شعر کے وقت ضرور ملحوظ رکھنا چاہیے۔ اول خیالات کو صبر و تحمل کے ساتھ الفاظ کا لباس پہنانا، پھر ان کو جانچنا اور تولنا اور ادائے معنی کے لحاظ سے ان میں جو قصور رہ جائے اس کو رفع کرنا، الفاظ کو ایسی ترتیب سے منتظم کرنا کہ صورۃً اگرچہ نثر سے متمیز ہو مگر معنی اسی قدر ادا کرئے جیسے کہ نثر میں ادا ہو سکتے۔ شاعر بشرطیکہ شاعر ہو۔ اول تو وہ ان باتوں کا لحاظ وقت پر ضرور کرتا ہے۔ اور اگر کسی وجہ سے بالفعل اس کو زیادہ غور کرنے کا موقع نہیں ملتا تو پھر جب کبھی وہ اپنے کلام کو اطمینان کے وقت دیکھتا ہے، اس کو ضرور کانٹ چھانٹ کرنی پڑتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر بڑے بڑے شاعروں کا کلام مختلف نسخوں میں مختلف الفاظ کے ساتھ پایا جاتا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
آمد اور آورد میں فرق :

اکثر لوگوں کی یہ رائے ہے کہ جو شعر شاعر کی زبان یا قلم سے فوراً بے ساختہ ٹپک پڑتا ہے وہ اس شعر سے زیادہ لطیف اور بامزہ ہوتا ہے۔ جو بہتدیر میں غور و فکر کے بعد مرتب کیا گیا ہو۔ پہلی صورت کا نام انہوں نے آمد رکھا ہے اور دوسرے کا آورد۔ بعضے اس موقع پر یہ مثال دیتے ہیں کہ جو شیرہ انگور سے خود بخود ٹپکتا ہے وہ اس شیرہ سے زیادہ لطیف و بامزہ ہوتا ہے جو انگور سے نچوڑ کر نکالا جائے۔ مگر ہم اس رائے کو تسلیم نہیں کرتے۔ اول تو یہ مثال جو اس موقع پر دی جاتی ہے اسی سے اس رائے کے خلاف ثابت ہوتا ہے جو شیرہ انگور سے خود بخود اس کے پک جانے کے بعد ٹپکتا ہے وہ یقیناً اس شیرہ کی نسبت بہت دیر میں تیار ہوتا ہے جو کچے یا اَدھ کچرے انگور سے نچوڑ کر نکالا جاتا ہے۔ مستثنٰی حالتوں کے سوا ہمیشہ وہی شعر زیادہ مقبول، زیادہ لطیف، زیادہ بامزہ زیادہ سنجیدہ اور زیادہ موثر ہوتا ہے جو کمال غور و فکر کے بعد مرتب کیا گیا ہو۔ یہ ممکن ہے کہ شاعر کسی موقع پر پاکیزہ خیالاگ جو اس کے حافظہ میں پہلے سے ترتیب وار محفوظ ہوں مناسب الفاظ میں جو حسنِ اتفاق سے فی الفور اس کے ذہن میں آ جائیں ادا کر دے۔ لیکن اول تو ایسے اتفاقات شاذ و نادر ظہور میں آتے ہیں۔ والنادر کالمعدوم۔ دوسرے ان خیالات کو جو مدت سے انگور کے شیرہ کی طرح اس کے ذہن میں پک رہے تھے، کیونکر کہا جا سکتا ہے کہ وہ جھٹ پٹ بغیر غور و فکر کے سر انجام ہو گئے ہیں۔ شعر میں دو چیزیں ہوتی ہیں، ایک خیال، دوسرے الفاظ۔ خیال تو ممکن ہے کہ شاعر کے ذہن میں فوراً ترتیب پا جائے مگر اس کے لئے الفاظِ مناسب کا لباس تیار کرنے میں ضرور دیر لگے گی، یہ ممکن ہے کہ ایک مستری مکان کا نہایت عمدہ اور نرالا نقشہ ذہن میں تجویز کر لے۔ مگر یہ ممکن نہیں کہ اس نقشہ پر مکان بھی ایک چشم زدن میں تیار ہو۔

وزن اور قافیہ کی اوگھٹ تھاٹی سے صحیح سلامت نکل جانا اور مناسب الفاظ کے تفحص سے عہدہ برآہ ہونا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ اگر ایک دن کا کام ایک گھنٹے میں کیا جائے گا تو وہ کام نہ ہو گا، بیگار ہو گی۔

روما کے مشہور شاعر ورجل کے حال میں لکھا ہے کہ صبح کو اپنے اشعار لکھواتا تھا اور دن بھر ان پر غور کرتا تھا اور ان کو چھانٹتا تھا اور یہ کہا کرتا تھا کہ "ریچھنی بھی اسی طرح اپنے بدصورت بچوں کو چاٹ چاٹ کر خوبصورت بناتی ہے۔"

ایرسٹو شاعر جس کے کلام میں مشہور ہے کہ کمال بے ساختگی اور آمد معلوم ہوتی ہے اس کے مسودے اب تک فریرا علاقہ اٹلی میں محفوظ ہیں۔ ان مسودوں کے دیکھنے والے کہتے ہیں کہ جو اشعار اس کے نہایت صاف اور ساعے معلوم ہوتے ہیں وہ آٹھ آٹھ کاٹ چھانٹ کرنے کے بعد لکھے گئے ہیں۔

ملٹن بھی اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ نہایت سخت محنت اور جانفشانی سے نظم لکھی جاتی ہے اور نظم کی ایک ایک بیت مین اس کے سڈول ہونے سے پہلے کتنی ہی تبدیلیاں پے در پے کرنی پڑتی ہیں۔

ایک فارسی گو شاعر بھی فکر شعر کی حالت اس طرح بیان کرتا ہے :

برائے پاکی لفظے شہے بروز آرد
کہ مرغ و ماہی باشند خفتہ، او بیدار​

سچ یہ ہے کہ کوئی نظم جس نے کہ استقلال کے ساتھ جمہور کے دل پر اثر کیا ہو۔ خواہ طویل ہو خواہ مختصر، ایسی نہیں ہے جو بے تکلف لکھ کر پھینک دی گئی ہو۔ جس قدر کسی نظم میں زیادہ بے ساختگی اور آمد معلوم ہو اسی قدر جاننا چاہیے کہ اس پر زیادہ محنت زیادہ غور اور زیادہ حک و اصلاح کی گئی ہو گی۔

ابن رشیق اپنی کتاب ’عمدہ‘ میں لکھتے ہیں کہ "جب شعر سرانجام ہو جائے تو اس پر بار بار نظر ڈالنی چاہیے اور جہاں تک ہو سکے اس میں خوب تنقیح و تہذیب کرنی چاہیے۔ پھر بھی اگر شعر میں جودت اور خوبی نہ پیدا ہو تو اس کے دور کرنے میں پس و پیش نہ کرنا چاہیے جیسا کہ اکثر شعرا کیا کرتے ہیں۔ انسان اپنے کلام پر اس لئے کہ وہ اس کی مجازی اولاد ہوتی ہے مفتون اور فریفتہ ہوتا ہے۔ پس اگر اس کے دور کرنے میں مضائقہ کیا جائے گا تو ایک بُرے شعر کے سبب سارا کلام درجہ بلاغت سے گر جائے گا۔"
 
Top