شمشاد
لائبریرین
سر والٹر اسکوٹ کی شاعری
سر والٹر اسکوٹ جو انگلستان کا ایک مشہور شاعر ہے اس کی نسبت لکھا ہے کہ اس کی خاص خاص نظموں میں دو خاصیتیں ایسی ہیں جن کو سب نے تسلیم کیا ہے، ایک اصلیت سے تجاوز نہ کرنا۔ دوسرے ایک ایک مطلب کو نئے نئے اسلوب سے ادا کرنا۔ جہاں کہیں اس نے کسی باغ یا جنگل یا پہاڑ کی فضا کا بیان کیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس موقع کی روح میں جو خاصیتیں تھیں سر والٹر نے وہ سب انتخاب کر لی تھیں۔ سر والٹر کی نظم پڑھ کر آنکھوں کے سامنے بالکل وہی سماں بندھ جاتا ہے جو پہلے خود اس موقع کے دیکھنے سے معلوم ہوا تھا اور اب دھیان سے اتر گیا تھا۔ ظاہراً اس نے ان بیانات میں قوت متخیلہ پر ایسا بھروسہ نہیں کیا کہ اصلیت کو چھوڑ کر محض تخیل پر ہی قناعت کر لیتا۔ کہتے ہیں کہ جب وہ روکبی کا قصہ لکھ رہا تھا ایک شخص نے اس کو دیکھا کہ پاکٹ بک میں چھوٹے چھوٹے خودرو پھول پتے اور میوے جو وہاں اُگ رہے تھے ان کو نوٹ کر رہا ہے۔ ایک دوست نے اس سے کہا کہ اس دردِ سر سے کیا فائدہ؟ کیا عام پھول کافی نہ تھے جو چھوٹے چھوٹے پھولوں کو ملاحظہ کرنے کی ضرورت پڑی۔ سر والٹر نے کہا تمام کائنات میں دو چیزیں بھی ایسی نہیں جو بالکل یکساں ہوں۔ پس جو شخص محض اپنے تخیل پر بھروسہ کر کے مذکورہ بالا مطالعہ سے چشم پوشی یا غفلت کرے گا اس کو بہت جلد معلوم ہو جائے گا کہ اس کے دماغ میں چند معمولی تشبیہیں یا تمثیلوں کا ایک نہایت محدود ذخیرہ ہے جن کو برتتے برتتے خود اس کا جی اکتا جائے گا اور سامعین کو سنتے سنتے نفرت ہو جائے گی۔ جو شخص شعر کی تربیت میں اصلیت کو ہاتھ سے نہیں دیتا اور محض ہوا پر اپنی عمارت کی بنیاد نہیں رکھتا وہ اس بات پر قدرت رکھتا ہے کہ ایک مطلب کو جتنے اسلوبوں میں چاہے بیان کرئے۔ اس کا تخیل اسی قدر وسیع ہو گا جس قدر کہ اس کا مطالعہ وسیع ہے۔
سر والٹر اسکوٹ جو انگلستان کا ایک مشہور شاعر ہے اس کی نسبت لکھا ہے کہ اس کی خاص خاص نظموں میں دو خاصیتیں ایسی ہیں جن کو سب نے تسلیم کیا ہے، ایک اصلیت سے تجاوز نہ کرنا۔ دوسرے ایک ایک مطلب کو نئے نئے اسلوب سے ادا کرنا۔ جہاں کہیں اس نے کسی باغ یا جنگل یا پہاڑ کی فضا کا بیان کیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس موقع کی روح میں جو خاصیتیں تھیں سر والٹر نے وہ سب انتخاب کر لی تھیں۔ سر والٹر کی نظم پڑھ کر آنکھوں کے سامنے بالکل وہی سماں بندھ جاتا ہے جو پہلے خود اس موقع کے دیکھنے سے معلوم ہوا تھا اور اب دھیان سے اتر گیا تھا۔ ظاہراً اس نے ان بیانات میں قوت متخیلہ پر ایسا بھروسہ نہیں کیا کہ اصلیت کو چھوڑ کر محض تخیل پر ہی قناعت کر لیتا۔ کہتے ہیں کہ جب وہ روکبی کا قصہ لکھ رہا تھا ایک شخص نے اس کو دیکھا کہ پاکٹ بک میں چھوٹے چھوٹے خودرو پھول پتے اور میوے جو وہاں اُگ رہے تھے ان کو نوٹ کر رہا ہے۔ ایک دوست نے اس سے کہا کہ اس دردِ سر سے کیا فائدہ؟ کیا عام پھول کافی نہ تھے جو چھوٹے چھوٹے پھولوں کو ملاحظہ کرنے کی ضرورت پڑی۔ سر والٹر نے کہا تمام کائنات میں دو چیزیں بھی ایسی نہیں جو بالکل یکساں ہوں۔ پس جو شخص محض اپنے تخیل پر بھروسہ کر کے مذکورہ بالا مطالعہ سے چشم پوشی یا غفلت کرے گا اس کو بہت جلد معلوم ہو جائے گا کہ اس کے دماغ میں چند معمولی تشبیہیں یا تمثیلوں کا ایک نہایت محدود ذخیرہ ہے جن کو برتتے برتتے خود اس کا جی اکتا جائے گا اور سامعین کو سنتے سنتے نفرت ہو جائے گی۔ جو شخص شعر کی تربیت میں اصلیت کو ہاتھ سے نہیں دیتا اور محض ہوا پر اپنی عمارت کی بنیاد نہیں رکھتا وہ اس بات پر قدرت رکھتا ہے کہ ایک مطلب کو جتنے اسلوبوں میں چاہے بیان کرئے۔ اس کا تخیل اسی قدر وسیع ہو گا جس قدر کہ اس کا مطالعہ وسیع ہے۔