حسن علوی
محفلین
مطلق التزام نہیں کیا اور اردو کے عام روز مرہ کو صحت الفاظ پر جس کے اہل لکھنؤ سخت پابند ہیں، اکثر ترجیح دی ہے۔ ردیف قافیے میں عروضیوں کی بیجا قیدوں کی بھی پابندی نہیں کی۔ مگر جو اصل مقصود ردیف و قافیہ سے ہوتا ہے اس کو کہیں ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ مثلاً
کوئی مرتا ہے کیوں ؟ بلا جانے ہم بہو بیٹیاں یہ کیا جانیں
اس ردیف کو ہمارے شعراء ضرور غلط بتایئں گے۔ مگر ردیف کا جو اصل مقصد ہے وہ اسے بخوبی حاصل ہے۔ کیونکہ سامع کو یہ سن کر واحد اور جمع کا فرق مطلق محسوس نہیں ہوتا اور یہی ردیف کا ماحصل ہے۔ اختلاط کے موقع پر جس نے بے تکلفی کے ساتھ معالات کی تصویر اس نے کھینچی ہے اس کی نسبت سوا اس کے اور کیا کہا جائے کہ “چور کی ماں گھٹنوں میں سر دے اور روئے“۔ افسوس ہے کہ شوق کی مثنویوں کی اس سے زیادہ اور کچھ داد نہیں دی جا سکتی کہ جو شاعری اس نے ایسی ام مورل مثنویوں کے لکھنے میں صرف کی ہے اگر وہ اس کو اچھی جگہ صرف کرتا ہے اور روشنی کے فرشتے سے تاریکی کے فرشتے کا کام نہ لیتا تو آج اردو زبان میں اس کی مثنویوں کا جواب نہ ہوتا۔
یہ بات تعجب سے خالی نہیں کہ نواب مرزا شوق کو اپنے اسکول کے برخلاف مثنوی میں ایسی صاف اور بامحاورہ زبان برتنے کا خیال کیونکر پیدا ہوا جب سوسائٹی کا رخ پھرا ہوا ہوتا ہے تو اس کے مخالف رخ بدلنے کے لیئے کسی خارجی تحریک کا ہونا ضروری ہے۔ ظاہراً ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خوجہ میر درد کے چھوٹے بھائی میر اثر دہلوی نے جو ایک مثنوی لکھی ہے جس کا نام غالباً خواب و خیال رکھا تھا اور جس کی شہرت ایک وجہ سے زیادہ تر یورپ یں ہوئی تھی۔ اس مثنوی میں جیسا کہ ہم نے اپنے بعض احباب سے سنا ہے تقریباً 40،45 شعر اسی قسم کے ہیں جیسے کہ شوق نے بہار عشق میں اختلاط کے موقع پر ان سے بہت زیادہ لکھے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ شوق کو ایسی زبان برتنے کا خیال اس مثنوی کو دیکھ کر پیدا ہوا اور چیونکہ وہ ایک شوخ طبع آدمی تھا اور بیگمات کے محاورات پر بھی اس کو زیادہ عبور تھا۔
اس نے اپنی مثنوی کی بنیاد “خواب و خیال“ کے انھیں 40،45 شعروں پر رکھی، اور ان معالات کو جو خواجہ میر اثر کے ہاں ضمناً مختصر طور پر بیان ہوئے تھے۔ اپنی مثنویوں میں زیادہ وسعت کے ساتھ بیان کیا۔ اور جس قسم کے محاوروں کی انہوں نے بنیاد قائم کی۔ شوق نے اس پر ایک عمارت چن دی۔ اس کا بڑا ثبوت یہ ہے کہ خواب و خیال کے اکثر مصرعے اور شعر تھوڑے تھوڑے تفاوت سے بہار عشق میں موجود ہیں۔ جن میں سے اک دو شعر ہم کو بھی یاد ہیں۔ مگر اس میں شک نہیں کہ موجودہ حالات میں خواب و خیال کو بہار عشق سے کچھ نسبت نہیں ہو سکتی۔
ان ہم مضمون کو ختم کرتے ہیں۔ اس کی نسبت یہ امید رکھنی چاہیئے کہ ہمارے دیرینہ سال شاعر جن پر قدیم شاعری کا رنگ چڑھ گیا ہے۔ اس مضمون کی طرف التفات کریں گے یا اس کو قابل التفات سمجھں گے محض بےجا اور یہ خیال کرنا بھی فضول ہے کہ جو کچھ اس میں لکھا گیا ہے وہ سب واجب التسلیم ہے۔ البتہ ہم کو اپنے نوجوان ہم وطنوں سے جو شاعری کا چسکا رکھتے ہیں اور زمانے کے تیور پہچانتے ہیں یہ امید ہے کہ شاید وہ اس مضمون کو پڑھیں اور کم سے کم اس قدر تسلیم کریں کہ اردو شاعر کی موجودہ حالت بلا شبہ اصلاح کے متعلق ظاہر کی ہیں۔ گو ان میں سے ایک رائے بھی تسلیم نہ کی جائے۔ لیکن اس مضمون سے ملک میں عموماً جیہ خیال پھیل جائے کہ فی الواقع ہماری شاعری اصلاح طلب ہے تو ہم سمجھیں گے کہ ہم کو پوری کامیابی حاصل ہوئے ہے۔ کیونکہ ترقی کی پہلی سیڑھی اپنے تنزل کا یقین ہے۔
کوئی مرتا ہے کیوں ؟ بلا جانے ہم بہو بیٹیاں یہ کیا جانیں
اس ردیف کو ہمارے شعراء ضرور غلط بتایئں گے۔ مگر ردیف کا جو اصل مقصد ہے وہ اسے بخوبی حاصل ہے۔ کیونکہ سامع کو یہ سن کر واحد اور جمع کا فرق مطلق محسوس نہیں ہوتا اور یہی ردیف کا ماحصل ہے۔ اختلاط کے موقع پر جس نے بے تکلفی کے ساتھ معالات کی تصویر اس نے کھینچی ہے اس کی نسبت سوا اس کے اور کیا کہا جائے کہ “چور کی ماں گھٹنوں میں سر دے اور روئے“۔ افسوس ہے کہ شوق کی مثنویوں کی اس سے زیادہ اور کچھ داد نہیں دی جا سکتی کہ جو شاعری اس نے ایسی ام مورل مثنویوں کے لکھنے میں صرف کی ہے اگر وہ اس کو اچھی جگہ صرف کرتا ہے اور روشنی کے فرشتے سے تاریکی کے فرشتے کا کام نہ لیتا تو آج اردو زبان میں اس کی مثنویوں کا جواب نہ ہوتا۔
یہ بات تعجب سے خالی نہیں کہ نواب مرزا شوق کو اپنے اسکول کے برخلاف مثنوی میں ایسی صاف اور بامحاورہ زبان برتنے کا خیال کیونکر پیدا ہوا جب سوسائٹی کا رخ پھرا ہوا ہوتا ہے تو اس کے مخالف رخ بدلنے کے لیئے کسی خارجی تحریک کا ہونا ضروری ہے۔ ظاہراً ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خوجہ میر درد کے چھوٹے بھائی میر اثر دہلوی نے جو ایک مثنوی لکھی ہے جس کا نام غالباً خواب و خیال رکھا تھا اور جس کی شہرت ایک وجہ سے زیادہ تر یورپ یں ہوئی تھی۔ اس مثنوی میں جیسا کہ ہم نے اپنے بعض احباب سے سنا ہے تقریباً 40،45 شعر اسی قسم کے ہیں جیسے کہ شوق نے بہار عشق میں اختلاط کے موقع پر ان سے بہت زیادہ لکھے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ شوق کو ایسی زبان برتنے کا خیال اس مثنوی کو دیکھ کر پیدا ہوا اور چیونکہ وہ ایک شوخ طبع آدمی تھا اور بیگمات کے محاورات پر بھی اس کو زیادہ عبور تھا۔
اس نے اپنی مثنوی کی بنیاد “خواب و خیال“ کے انھیں 40،45 شعروں پر رکھی، اور ان معالات کو جو خواجہ میر اثر کے ہاں ضمناً مختصر طور پر بیان ہوئے تھے۔ اپنی مثنویوں میں زیادہ وسعت کے ساتھ بیان کیا۔ اور جس قسم کے محاوروں کی انہوں نے بنیاد قائم کی۔ شوق نے اس پر ایک عمارت چن دی۔ اس کا بڑا ثبوت یہ ہے کہ خواب و خیال کے اکثر مصرعے اور شعر تھوڑے تھوڑے تفاوت سے بہار عشق میں موجود ہیں۔ جن میں سے اک دو شعر ہم کو بھی یاد ہیں۔ مگر اس میں شک نہیں کہ موجودہ حالات میں خواب و خیال کو بہار عشق سے کچھ نسبت نہیں ہو سکتی۔
ان ہم مضمون کو ختم کرتے ہیں۔ اس کی نسبت یہ امید رکھنی چاہیئے کہ ہمارے دیرینہ سال شاعر جن پر قدیم شاعری کا رنگ چڑھ گیا ہے۔ اس مضمون کی طرف التفات کریں گے یا اس کو قابل التفات سمجھں گے محض بےجا اور یہ خیال کرنا بھی فضول ہے کہ جو کچھ اس میں لکھا گیا ہے وہ سب واجب التسلیم ہے۔ البتہ ہم کو اپنے نوجوان ہم وطنوں سے جو شاعری کا چسکا رکھتے ہیں اور زمانے کے تیور پہچانتے ہیں یہ امید ہے کہ شاید وہ اس مضمون کو پڑھیں اور کم سے کم اس قدر تسلیم کریں کہ اردو شاعر کی موجودہ حالت بلا شبہ اصلاح کے متعلق ظاہر کی ہیں۔ گو ان میں سے ایک رائے بھی تسلیم نہ کی جائے۔ لیکن اس مضمون سے ملک میں عموماً جیہ خیال پھیل جائے کہ فی الواقع ہماری شاعری اصلاح طلب ہے تو ہم سمجھیں گے کہ ہم کو پوری کامیابی حاصل ہوئے ہے۔ کیونکہ ترقی کی پہلی سیڑھی اپنے تنزل کا یقین ہے۔