"مقدمہ شعر و شاعری صفحہ 201 سے 208"

حسن علوی

محفلین
مطلق التزام نہیں کیا اور اردو کے عام روز مرہ کو صحت الفاظ پر جس کے اہل لکھنؤ سخت پابند ہیں، اکثر ترجیح دی ہے۔ ردیف قافیے میں عروضیوں کی بیجا قیدوں کی بھی پابندی نہیں کی۔ مگر جو اصل مقصود ردیف و قافیہ سے ہوتا ہے اس کو کہیں ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ مثلاً

کوئی مرتا ہے کیوں‌ ؟ بلا جانے ہم بہو بیٹیاں یہ کیا جانیں

اس ردیف کو ہمارے شعراء ضرور غلط بتایئں گے۔ مگر ردیف کا جو اصل مقصد ہے وہ اسے بخوبی حاصل ہے۔ کیونکہ سامع کو یہ سن کر واحد اور جمع کا فرق مطلق محسوس نہیں ہوتا اور یہی ردیف کا ماحصل ہے۔ اختلاط کے موقع پر جس نے بے تکلفی کے ساتھ معالات کی تصویر اس نے کھینچی ہے اس کی نسبت سوا اس کے اور کیا کہا جائے کہ “چور کی ماں گھٹنوں میں سر دے اور روئے“۔ افسوس ہے کہ شوق کی مثنویوں کی اس سے زیادہ اور کچھ داد نہیں دی جا سکتی کہ جو شاعری اس نے ایسی ام مورل مثنویوں کے لکھنے میں صرف کی ہے اگر وہ اس کو اچھی جگہ صرف کرتا ہے اور روشنی کے فرشتے سے تاریکی کے فرشتے کا کام نہ لیتا تو آج اردو زبان میں اس کی مثنویوں کا جواب نہ ہوتا۔

یہ بات تعجب سے خالی نہیں کہ نواب مرزا شوق کو اپنے اسکول کے برخلاف مثنوی میں ایسی صاف اور بامحاورہ زبان برتنے کا خیال کیونکر پیدا ہوا جب سوسائٹی کا رخ پھرا ہوا ہوتا ہے تو اس کے مخالف رخ بدلنے کے لیئے کسی خارجی تحریک کا ہونا ضروری ہے۔ ظاہراً ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خوجہ میر درد کے چھوٹے بھائی میر اثر دہلوی نے جو ایک مثنوی لکھی ہے جس کا نام غالباً خواب و خیال رکھا تھا اور جس کی شہرت ایک وجہ سے زیادہ تر یورپ یں ہوئی تھی۔ اس مثنوی میں جیسا کہ ہم نے اپنے بعض احباب سے سنا ہے تقریباً 40،45 شعر اسی قسم کے ہیں جیسے کہ شوق نے بہار عشق میں اختلاط کے موقع پر ان سے بہت زیادہ لکھے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ شوق کو ایسی زبان برتنے کا خیال اس مثنوی کو دیکھ کر پیدا ہوا اور چیونکہ وہ ایک شوخ طبع آدمی تھا اور بیگمات کے محاورات پر بھی اس کو زیادہ عبور تھا۔

اس نے اپنی مثنوی کی بنیاد “خواب و خیال“ کے انھیں 40،45 شعروں پر رکھی، اور ان معالات کو جو خواجہ میر اثر کے ہاں ضمناً مختصر طور پر بیان ہوئے تھے۔ اپنی مثنویوں میں زیادہ وسعت کے ساتھ بیان کیا۔ اور جس قسم کے محاوروں کی انہوں نے بنیاد قائم کی۔ شوق نے اس پر ایک عمارت چن دی۔ اس کا بڑا ثبوت یہ ہے کہ خواب و خیال کے اکثر مصرعے اور شعر تھوڑے تھوڑے تفاوت سے بہار عشق میں موجود ہیں۔ جن میں سے اک دو شعر ہم کو بھی یاد ہیں۔ مگر اس میں شک نہیں کہ موجودہ حالات میں خواب و خیال کو بہار عشق سے کچھ نسبت نہیں ہو سکتی۔

ان ہم مضمون کو ختم کرتے ہیں۔ اس کی نسبت یہ امید رکھنی چاہیئے کہ ہمارے دیرینہ سال شاعر جن پر قدیم شاعری کا رنگ چڑھ گیا ہے۔ اس مضمون کی طرف التفات کریں گے یا اس کو قابل التفات سمجھں گے محض بےجا اور یہ خیال کرنا بھی فضول ہے کہ جو کچھ اس میں لکھا گیا ہے وہ سب واجب التسلیم ہے۔ البتہ ہم کو اپنے نوجوان ہم وطنوں سے جو شاعری کا چسکا رکھتے ہیں اور زمانے کے تیور پہچانتے ہیں یہ امید ہے کہ شاید وہ اس مضمون کو پڑھیں اور کم سے کم اس قدر تسلیم کریں کہ اردو شاعر کی موجودہ حالت بلا شبہ اصلاح کے متعلق ظاہر کی ہیں۔ گو ان میں سے ایک رائے بھی تسلیم نہ کی جائے۔ لیکن اس مضمون سے ملک میں عموماً جیہ خیال پھیل جائے کہ فی الواقع ہماری شاعری اصلاح طلب ہے تو ہم سمجھیں گے کہ ہم کو پوری کامیابی حاصل ہوئے ہے۔ کیونکہ ترقی کی پہلی سیڑھی اپنے تنزل کا یقین ہے۔
 

حسن علوی

محفلین
اگرچہ اردو شاعری کی حقیقت ظاہر کرنے کے لیئے اس بات کی نہایت ضرورت تھی کہ مشہور اور مسلم الثبوت شاعروں کے کلام پر صراحتاً نکتہ چینی کی جائے۔ کیونکہ عمارت کا بودا پن جیسا کہ بنیاد کی کمزوری سے ثابت ہوتا ہے ایسا اور کسی چیز سے ثابت نہیں ہوتا مگر صرف اس خیال سے کہ ہمارے ہم وطن ابھ اعتراض سننے کے عادی نہیں ہیں بلکہ تنقید کو تنقیص سمجھتے ہیں۔ جہاں تک ہو سکا ہے اس مضمون یں کسی خاص شاعر کے کلام پر کوئی گرفت یا اعتراض اس طرح نہیں کیا گیا جو خاص اس کے کلام سے خصوصیت رکھتا ہو، بلکہ شاعری کے عام طریقہ پر اعتراض کرکے مثال کے طور پر جس کسی کا کلام یاد آیا ہے نقل کر دیا ہے، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس شخص پر بالتخصیص اعتراض کرنا مقصود نہیں ہےبلکہ شاعری کے عام طریقہ کی خراب ظاہر کرنا ہے۔ جس میں اس شخص کے ساتھ اور لوگ بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ جہاں تک ممکن تھا کسی پر کوئی ایسا اعتراض نہیں کیا گیا جس سے یہ ثابت ہوکہ وہ اپنی شاعری کے اصول مسلمہ سے ناواقف ہے یا اس نے کوئی گریمر یا عروض کی غلطی کی ہے ا کوئی ایسی فروگذاشت کی ہے جس سے قدیم طریقے کے موافق اس کی شاعری پر حرف آتا ہے۔ بلک زیادہ تر ایسے اعتراض کے ہیں جو نہ صرف اردو شاعری پر بلکہ تمام ایشائی شاعری پر وارد ہوتے ہیں۔

بایں ہمہ اگر بمتقضائے بشریت کوئی ایسی بات لکھی گئی ہو جو ہمارے کسی ہموطن کو ناگوار گزرے تو ہم نہایت عاجزی اور ادب سے معافی کے خواستگار ہیں اور چونکہ یہ مضمون اردو لٹریچر میں جہاں تک کہ ہم کو معلوم ہے بالکل نیا ہے۔ اس لیئے ممکن ہے کہ اگر بالفرض اس میں کچھ خوبیاں ہوں تو ان کے ساتھ کچھ لغزشیں اور خطایئں بھی پائی جایئں۔ اگرچہ خدا نے یہ قاعدہ بنایا ہے۔

“ان الحسنات یذھبن السیآت“ مگر انسان نے اس کی جگہ یہ قاعدہ مقرر کیا ہے کہ “ان السیآت یذھبن الحسنات“

پس اس انسانی قاعدے کے موافق ہم کو یہ امید رکھنی تو نہیں چاہیئے کہ اس مضمون کی غلطیوں کے ساتھ کی اس کی خوبیاں بھی (اگرچہ کچھ ہوں) ظاہر کی جایئں گی۔ لیکن اگر صرف غلطیوں کے دکھانے ہی پر اکتفا کیا اور خوبیوں کو بہ تکلف برائیوں کی صورت میں ظاہر کیا جائے تو بھی ہ اپنے تیئں نہایت خوش قسمت تصور کریں گے۔

راقم

الطاف حسین حالی

----------------------------------------------------
 

حسن علوی

محفلین
منابع و ماخذ


1: لکھنؤ میں میر انیس اور مرزا دبیر نے بھی تقریباً ایسی ہی قبولیت حاصل کی تھی۔ جو لوگ میر انیس کو پسند کرتے تھے وہ مرثیہ گوئی اور مرثیہ خوانی میں جہاں تک ہو سکتا تھا میر انیس کی تقلید کرتے تھے اور جو فریق مرزا دبیر کا طرف دار وہ ہر ایک بات میں ان کی پیروی کرتا تھا مگر لارڈ بائرن کی عظمت اہل انگلستان کے دل میں صرف اس وجہ سے تھی کہ وہ اس کو اپنا قومی شاعر سمجھتے تھے اور اس لیئے کیتھولک اور پروٹسٹنٹ دونوں فرقے اس کو یکساں عزیز رکھتے تھے۔ بخلاف انیس اور دبیر کے کہ ان کی عظمت محض ایک مذہبی شاعر ہونے کی وجہ سے تھی اور اسی لیئے ان کی بڑائی اور بزرگی جیسی کہ عموماً ایک فرقہ کے دل میں تھی ویسی عام طور پر دوسرے فرقے کے دل میں نہ تھی یہ امتیاز یعنی قومی اور مذہبی حیثیت کا ہمارے اور اہل یورپ کے تمام کاموں میں پایا جاتا ہے۔


2: رفاعہ آفندی ناظر مدرسئہ السنہ مختلفہ مصر نے دونوں قصیدوں کو عربی نظم میں ترجمہ کر کے اپنے سفرنامہ میں جس کا نام “الدیوان النفیس بایون ہاریس“ ہے نقل کیا ہے دونوں کا پہلا ایک ایک بند یہاں لکھا جاتا ہے۔


قصیدہ باریسیہ


یا اھل فراستہ الغرا یا شجعانا بشھامتکم

عشتم فی الرق و ورطۃ ولاٰن خزوا حریتکم

ما احسن یوم فخارکم بتوافتکم فی کلمتم

کر واکرا للظفر بھم النصر حلیف شجاعتکم


قصیدہ مرسیلیہ


فھیا یا نبی الاوطان ھیا فوقت فخارکم لکم تھیا

اقیمو الرایہ العظمٰی الویا و شنوا غارہ الھیجا ملیا

علیکم بالسلاح یا اھالی ونظم صفوفکم مثل اللالی

و خوضو فی دماء اولی الوبال فھم اعداء کم فی کل حال

وجورھم نھدا فیکم جلیا بنا خوضوا دماء اولی الوبال​
 

حسن علوی

محفلین
: یہ ایک مخضرمی شاعر ہے یعنی اس نے جاہلیت اور اسلام دونوں زمانے دیکھے ہیں اس نے ایک قصیدہ آں حضرت (ص) کی نعت میں بھی لکھا تھا۔ اور یہی عربی کا پہلا شاعر ہے جس نے مدح گوئی کا مدار صلہ و جایزہ پر رکھا اور محض بداحی کی بدولت دولت مند ہو گیا تھا۔ اکثبہ کے اشعار یہ ہیں:


ارسل عبداللہ اذحان یومہ الٰی قومہ لاتعقلوا لھم دمی

ولا تاخزوا منھم فا لاً و ابکرا واتوک فی بیت بصعدہ مظلم

ودع عنک عمروا ان عمروا سائم وحل بطن عمرو غیر شبر اطعم


4:

فان انتم لو تثاروا وا تدیتم فمشوا باذن انعام المصلم

ولا تردا و لا فضول نساءکم اذا ارتملت اعقا بھن من الدم


اس قصیدہ کے اول چند شعر یہ ہیں:-

بوئے یار مہرباں آید ہمے یاد جوئے مولیاں آید ہمے

ریگ آ موے و درشتی ہائے او پائے ما را پرنیاں آید ہمے

آب جیحوں و شگرفی ہائے او خنگ مارا تا میاں آید ہمے

شاہ ا است و بخارا آسماں ماہ سوئے آسماں آید ہمے

شاہ سرو است و بخارا بوستاں سرو سوئے بوستاں آید ہمے​
5: عبید زاکانی قزوینی ایک مشہور ہزال شاعر ہے۔ یہ شخص اقسام علوم میں ماہر تھا- اس نے ایک کتاب فن عزیمت میں لکھی تھی اور اس کو لے کر شاہ ابو اسحٰق انجو کے ہاں گزراننے کے لیئے شیراز گیا تھا۔ جب بادشاہ کے دربار میں جانا چاہا تو معلوم ہوا کہ بادشاہ مسخروں میں مشغول ہے۔ کسی سے ملنے کی فرصت نہیں۔ عبید نے کہا اگر مسخرگی سے تقرب بادشاہی حاصل ہو سکتا ہے تو علم حاصل کرنا فضول ہے۔ اسی روز سے ہزل گوئی اختیار کی اور اس میں مشہور ہوگیا۔

6: ٹورنو یورپین روس کے شمال مغرب میں ایک پہاڑ ہے۔

7: پیمبار کا جنوبی امریکہ میں شہر کینٹو دارالخلافہ ملک ایکوئیڈر کے پاس ایک پہاڑ ہے۔

8: یہ ارسطو کے قول کی طرف اشارہ ہے۔

9: مستثنٰی صورتوں پر شعر کی بنیاد رکھنے کی مثال ایسی ہے جیسے مومن کا یہ شعر:

رہتے ہیں جمع کوچہ جاناں خاص و عام
آباد ایک گھر ہے جہانِ خراب میں
 

حسن علوی

محفلین
یعنی شاعر نے معشوق کے چند خریدار جن کو بمقابلہ تمام بنی نوع کے مستثنٰیات میں شمار کرنا چاہیئے اس کے کوچہ میں جمع دیکھ کر یہ حکم لگایا ہے کہ سارا جہان اس کے کوچہ میں مجتمع رہتا ہے۔ اگرچہ اس کے طرز بیان سے شاعر کا لطفِ طبع ضرور ثابت ہوتا ہے لیکن اثر کچھ نہیں، بخلاف اس کے یہی شاعر دوسری جگہ دوسری جگہ کہتا ہے:

ایک ہم ہیں کہ ہوئے یسے پشیمان کہ بس ایک وہ ہیں کہ جنھیں شاہ کے ارمان ہوں گے


اس میں اس نے ایسی عام شق اختیا کی ہے جس میں استثنا کو بہت ہی کم دخل ہے۔ کیونکہ ہواوہوس کا انجام ہمیشہ پشیمانی ہوتی ہے اور اس کی ابتدا شوق اور ارمان سے بھری ہوئی ہوتی ہے۔ پس ہر شخص کا دل اس بات کو فوراً قبول کر لیتا ہے اور اس لیئے اس زیادہ متاثر ہوتا ہے۔

10: الف لیلہ میں قاسم اور علی بابا دونوں بھائیوں کے قصے میں ذکر ہے کہ کسی پہاڑ میں ایک غار تھا قزاق لوگ ادھر اُدھر لوٹ مار کر جو لاتے تھے اس میں جمع کر دیا کرتے تھے۔ غار کا دروازہ ہمیشہ کھل سم سم کہنے پر کھل جایا کرتا تھا اور بند ہو سم سم پر بند ہو جاتا تھا۔ ایک بار علی بابا نے چھپ کر قزاقوں کو دروازہ کھولتے اور بند کرتے دیکھ لیا۔ جب وہ چلے گئے تو اسی ترکیب سے اس نے دروازہ کھولا اور بہت سا مال و اسباب وہاں سے گدھوں پر لاد کر لے آیا۔ قاسم کو خبر ہوئی تو وہ بھی اس سے دروازہ کھولنے کا منتر سیکھ کر وہاں پہنچا۔ قاسم اندر گیا تو وہ منتر یاد تھا۔ جب مال لے کر باہر آنا چاہا تو سم سم بھول گیا۔ اس کی جگہ کھل جا یا کھل گیہوں کہنے لگا دروازہ نہ کھلا یہاں تک کہ قزاق آ پہنچے اور قاسم کو قتل کر ڈالا۔

11: شوق سے مراد نواب مرزا لکھنوی ہے۔ جس کہ بہارِ عشق، زہرِ عشق وغیرہ مثنویاں مشہور ہیں۔

12: کثیر ایک مشہور عرب کا شاعر تھا جس کی معشوقہ کا نام عزہ تھا اور عبدالعزیز بن مروان اس کا ممدوح تھا۔ جاں کثیر عزہ لکھتے ہیں وہاں اسی سے مراد ہوتی ہے۔

13: تکلیف کر لگانے کو کہتے ہیں جیسے تکلیف شرعی

14: یہ قصہ آب حیات میں مذکور ہے

15: غزل کے معنی لغت میں عشق بازی کرنے اور عورتوں سے مخاطب ہونے کے ہیں عربی میں کہتے ہیں ‘زید اغزال من عمرو‘ یعنی زید عشق کے مضامین عمرو سے بہتر باندھتا ہے یا زید عمرہ سے زیادہ عشق باز ہے۔

16: “اس بات“ کے لفظ میں جو لطف ہے اس کو اہل زبان مجھ سکتے ہیں

17: یعنی ہم نے۔ قدیم محاوروں میں میں اور ہم نے کی جگہ میں اور ہم بولتے تھے

18: جیسے تیس اور اکتیس۔ تیس مفرد ہے اور اکتیس مرتب بمزلہ مفرد

19: یہ بات حال نے 1892 میں لکھی ہے۔ یعنی مثنوی بدر منیر آج 1962 میں ستر برس نہیں بلکہ 140 برس پہلے کی ہے۔

20: یعنی بہارِعشق، زہرِ عشق اور فریب عشق میں۔

21: یعنی نیکیاں بدیوں کو مٹا دیتی ہیں۔ پس دوسرے فقرے کے یہ معنی ہوں گےکہ بدیاں نیکیوں کو مٹا دیتی ہیں


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اختتام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Top