مقدمہ فسانہ عجائب از رشید حسن خاں

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۳۰

کہ اُن سب بحثوں کا شاملِ مقدمۂ مرتب کیا جائے۔ اُن کا حوالہ دینا کافی ہو سکتا ہے۔ مثلاً اسی کتاب کے مصنف کے حالات کی تحقیق ضروری ہے، زمانۂ تصنیف کی بحث بھی ضروری ہے، اس کتاب کے مختلف نسخوں کی نشان دہی اور اُن کا تعارف بھی ضروری ہے [وغیرہ]۔ یہ سب وسیعُ الذیل عنوان ہیں۔ صورتِ حال یہ ہے کہ ڈاکٹر نیر مسعود رضویؔ کے تحقیقی مقالے رجب علی بیگ سرور میں حیاتِ مصنف سے متعلق تفصیلات موجود ہیں اور ابھی تک [بعض ضمنی باتوں سے قطعِ نظر] اُن پر قابلِ ذکر اضافہ نہیں کیا جا سکا ہے۔ اسی طرح فسانۂ عجائب کی داستان کے مآخذ پر گیان چند جین صاحب نے اپنی کتاب اُردو کی نثری داستانیں میں مناسب بحث کی ہے۔ اب اگر یہ طریقہ اختیار کیا جائے کہ صرف نہایت ضروری باتوں کو اختصار کے ساتھ لکھا جائے اور تفصیلات کے لیے اصل مآخذ کا حوالہ دے دیا جائے، تو یہ طریقۂ کار بالکل درست ہو گا۔ اس کتاب کے مقدمے میں یہی طریقۂ کار اختیار کیا گیا ہے۔ اُنھی اُمور پر بحث کی گئی ہے جن پر بحث کرنا ضروری تھا۔ مثلاً مُصنف کے حالاتِ زندگی کے مقابلے میں، اس کتاب کے اُن نسخوں کے تعارف کو زیادہ توجہ کا مستحق قرار دیا گیا ہے جن سے اس متن کی تصحیح میں مدد لی گئی ہے۔ [ہاں اگر کوئی شخص مثلاً فسانۂ عجائب کی داستان کے مآخذ پر، یا مصنف کے حالاتِ زندگی پر، یا ایسے ہی کسی دوسرے موضوع پر مستقل طور پر تحقیقی کام کرے، تو پھر صورتِ حال مختلف ہو گی، کیوں کہ وہاں اصل مقصد دوسرا ہو گا۔ یہاں اصل مقصد تصحیحِ متن ہے]۔ اسی طرح متعلقاتِ متن کو، تصحیحِ متن کی نسبت سے، خاص طور پر گفتگو کا موضوع بنایا گیا ہے۔

ولادت، وطن، وفات اور مدفن

فسانۂ عجائب کے مصنف مرزا رجب علی بیگ سُرورؔ کے سالِ ولادت کا علم نہیں۔ نیر مسعود صاحب نے قیاسا! (۱) ۱۲۰۰ھ لکھا ہے۔ اُن کے وطن کا جہاں تک تعلق ہے، تو "بیان لکھنؤ"
------------------------------------------------------
(۱) سُرور کا سال پیدایش معلوم کرنے کا صرف ایک قرینہ فسانۂ عجائب کے دیباچے کا یہ فقرہ ہے: "چالیس سال
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۳۱

کے شروع ہی میں اُنھوں نے اپنے آپ کو "متوطنِ خطۂ بے نظیر دل پذیر" لکھا ہے۔ "خطۂ بے نظیر" سے قطعی طور پر لکھنؤ مراد ہے، اس لیے میری نظر میں وہ لکھنؤ ہی کے رہنے والے تھے۔ (۱) اُن کو جو "اکبر آبادی" اور "کان پوری" لکھا گیا ہے، تو یہ بجاے خود درست نہیں۔ "اکبر آبادی" سے متعلق ضروری تفصیل اس تحریر میں اس سے پہلے آ چکی ہے۔ کان پور کا حوالہ دتاسی نے اپنے پانچویں خطبے میں دیا ہے؛ مگر اُسے غالباً یہ غلط فہمی [بہ قولِ نیر مسعود صاحب] اِس بنا پر ہوئی کہ یہ کتاب سُرورؔ نے بہ زمانۂ قیامِ کان پور لکھی تھی [رجب علی بیگ سرور، ص ۷۷]۔

نیر مسعود صاحب نے اُن کے سالِ وفات کی مختلف تاریخوں پر بحث کرتے ہوئے، آخر میں لکھا ہے: "اس طرح یہ طے ہو جاتا ہے کہ سُرورؔ نے محرم ۱۲۸۶ھ میں ۱۴ اپریل اور ۱۴ مئی ۱۸۶۹ء کے درمیان کسی تاریخ کو انتقال کیا" [ایضاً، ص ۴۰۰]۔ ڈاکٹر حنیف نقوی نے اپنے ایک مضمون بہ عنوانِ "مرزا رجب علی بیگ سرورؔ اور بنارس" [مشمولۂ غالب نامہ، دہلی، شمارۂ جولائی ۱۹۸۳ء] میں اس سے اختلاف کرتے ہوئے لکھا ہے:

"اس بحث کا ماحصل یہ ہے کہ ۔۔۔۔۔ تقویمِ ہجری کے مطابق دس سال چند یوم۔۔۔۔ کے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جہان کی دیکھ بھال کی۔۔۔۔۔" اس فقرے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ دیباچے کی تحریر کے وقت سُرورؔ کی عمر چالیس سال تھی۔ دیباچے۔۔۔۔ کا مندرجۂ بالا مقام بہ ظاہر ۱۲۴۰ھ میں لکھا گیا ہے، اس لیے قدرے کم زور آواز میں کہا جا سکتا ہے کہ سُرورؔ ۱۲۰۰ ھ میں پیدا ہوئے" [رجب علی بیگ سرور، ص ۷۵]۔ اس سلسلے میں اب تک اور کچھ معلوم نہیں ہو سکا ہے۔ اس قیاسی تعین کو تسلیم کرنے میں بہ ظاہر کوئی بات مانع نظر نہیں آتی اور یوں اِس سنہ کو قرینِ قیاس کہا جا سکتا ہے۔ ۱۲۰۰ھ مطابق ہے ۸۶-۱۷۸۵ء کے۔ فسانۂ عجائب کے ایک مرتب ڈاکٹر سلیمان حسین نے بھی اپنے دیباچے میں یہی بات لکھی ہے: "اُن کا سالِ پیدایش ۱۲۰۰ھ / ۸۶-۱۷۸۵ء کے لگ بھگ ہونا چاہیے" (ص ۱۲)۔

(۱) گیان چند جین صاحب نے اُن کے لکھنؤی ہونے کے سلسلے میں کچھ اور باتیں بھی لکھی ہیں، من جملہ اُن کے: "شگوفۂ محبت کے اختتام پر سُرورؔ خود لکھجتے ہیں: "اس قصے کا کہنے والا، لکھنؤ کا رہنے والا۔۔۔۔"۔ اس طرح تمام شہادتیں سُرورؔ کے متوطنِ لکھنؤ ہونے کے حق میں ہیں" [اُردو کی نثری داستانیں، ص ۵۰۶]۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۳۲

قریب دربارِ بنارس سے وابستہ رہنے کے بعد، ذی الحجہ ۱۲۸۵ھ کے اواخر میں [۱۵ مارچ تا ۱۲ اپریل ۱۸۶۹ء] رام نگر ہی میں، تقریباً پچاسی سال کی عمر میں اُن کا انتقال ہوا۔"

میرے نزدیک یہ قول مرجح ہے۔ اُن کے مدفن کے سلسلے میں نیر مسعود صاحب نے اپنی کتاب میں تاج الدین اشعرؔ رام نگری کا یہ قول نقل کیا ہے: "قصبے (یعنی رام نگر) کے مشرق میں پنچ بٹی کے مقام پر واقع گورستان میں سپردِ خاک کیے گئے۔" ( ۴۰۱)۔ حنیف نقوی نے بھی (محولۂ بالا مضمون میں) اسی قول کو تسلیم کیا ہے، اور بہ ظاہر اس سے اختلاف کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔ اُس قبرستان میں سُرورؔ کی قبر کا نشان اب موجود ہے یا نہیں، اس کے متعلق کوئی بات اُسی وقت کہی جا سکتی ہے جب کوئی شخص وہاں جا کر بہ چشم خود دیکھے۔ کوشش کے باوجود میں اس سلسلے میں کچھ معلوم نہیں کر سکا۔

تعلیم او رمختلف فنون سے واقفیت

سُرورؔ کے سوانح میں یہ صراحت ملتی ہے کہ فنونِ سپہ گری، خطاطی اور موسیقی میں بھی اُن کو دخل تھا۔ شاعر تو وہ تھے ہی اور اس فن میں وہ آغا نوازش حسین خاں نوازشؔ، عرف مرزا خانی لکھنؤی کے شاگرد تھے۔ نوازشؔ شاگرد تھے میر سوزؔ کے۔ سُرورؔ کے اشعار پڑھ کر واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ وہ معمولی درجے کے شاعر تھے اور یہ اچھا ہی ہوا کہ اُنھوں نے شاعری کی طرف زیادہ توجہ نہیں کی۔ دیگر فنون (خطاطی، سپہ گری، موسیقی) میں اُن کی حیثیت کیا تھی، اس کے متعلق فی الوقت کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ ہاں اُس زمانے کی روش اور چلن کے لحاظ سے یہ خیال کیا جا سکتا ہے کہ ان فنون میں درجۂ کمال نہ سہی، مہارت ضرور رکھتے ہوں گے۔ کئی باتوں کی بنا پر یہ مانا جا سکتا ہے کہ فنِ داستان گوئی میں بھی (کچھ نہ کچھ) دسترس ضرور رکھتے تھے۔ اس قصے کو اُنھوں نے جس طرح دوستوں کی محفل میں بیان کرنے کا حال لکھا ہے، اُس سے بھی اس خیال کی تائید کا پہلو نکلتا ہے۔ اس کتاب میں کئی جگہ ایسا اندازِ بیان اختیار کر گئے ہیں جس سے بہ ظاہر یہی خیال ہوتا ہے کہ
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۳۳

وہ داستان گوئی سے ربط ضرور رکھتے تھے۔ مثلاً ایک جگہ لکھا ہے : "یہاں سے دو (۲) کلمے یہ سُنیے، مُسببُ الاسباب کی کار سازی کے سامان دیکھیے" (ص ۳۰۵)۔ یا جیسے: "صبح سے پہر دن باقی رہا، کوئی دقیقہ طرفین سے نہ باقی رہا۔ طول اِس مقام کا بے جا ہے، اِسی کلمے پر تمام کیا" (ص ۲۵۱)۔ ایسی متعدد مثالیں اس کتاب سے پیش کی جا سکتی ہیں۔ اُن کے دہلوی حریف سید فخر الدین حسین سخنؔ نے اپنی (جوابی) کتاب سروشِ سخن میں جو یہ لکھا ہے کہ "یوں تو کہنے کو بہت سے داستان گو دہلی اور لکھنؤ میں مارے مارے پھرتے ہیں، وہ بھی چاہیں تو فسانہ لکھ ڈالیں" (بہ حوالۂ رجب علی بیگ سرور، ص ۸۰) تو بہ قولِ نیر مسعود صاحب: "یہ فقرے بھی سُرورؔ کے داستان گو ہونے کی طرف اشارہ کر رہے ہیں (ایضاً)۔؂

جہاں تک تعلیم کا تعلق ہے تو اُنھوں نے اپنی کتاب شگوفۂ محبت کے دیباچے میں لکھا ہے: "نامساعدتِ بخت اور نیرنگیِ زمانہ سے نہ عربی میں دخل ہوا نہ فارسی میں کال ہوا۔۔۔۔ پست ہمتی سے اُردو کے لکھنے میں اوقات بسر کی۔۔۔۔ کچھ دن نظم کا اہتمام رہا، شعر کہنے کا خیالِ خام رہا۔ جب وہ بھی نہ ہو سکا، نثر کی طرف خیال آیا" (اور یہ اچھا ہی ہوا کہ نثر کی طرف خیال آیا)۔ بہ قولِ نیر مسعود: "سرورؔ کی تحریروں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ فارسے بہ خوبی اور کم سے کم کام چلانے بھر عربی سے واقف تھے۔۔۔ مگر فارسی لکھنا سرورؔ کو نہ آ سکا۔ انشاے سرور میں اُن کے جو فارسی خط شامل ہیں، وہ عجب بے کسانہ اندازِ تحریر کا نمونہ پیش کرتے ہیں۔ اُن کی عبارإت کے الفاظ و مصادر تو فارسی ہیں، لیکن حقیقتاً اُن کو فارسی میں لکھی ہوئی اُردو کہا جا سکتا ہے۔۔۔ اُردو زبان میں سرورؔ نے واقعی دستگاہ بہم پہنچائی تھی" (رجب علی بیگ سرور، ص ۷۸) اُنھوں نے باضابطہ تعلیم کس قدر پائی تھی اور کہاں پائی تھی، اس کا احوال نہیں معلوم؛ لیکن یہ بات اعتماد کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ فارسی زبان اور ادب سے وہ خوب واقف تھے اور فارسی سے اُردو میں اچھا ترجمہ کرنے پر بھی قادر تھے۔ اُن کے حالاتِ زندگی سے متعلق بعض ضروری باتیں اس کتاب کی تصنیف اور اس کے مختلف نسخوں کے تعارف کے ذیل میں آ گئی ہیں۔ مفصل حالات اور تصنیفات کے لیے ڈاکٹر نیر مسعود کی کتاب رجب علی بیگ سرور کو دیکھا جا سکتا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۳۴

کتاب کا نام

فسانۂ عجائب کے اُن مطبوعہ نسخوں میں، جو میری نظر سے گزرے ہیں، اس کتاب کا نام "فسانۂ عجائب" ملتا ہے۔ مصنف نے اپنے دیباچے کے آخر میں خود ہی صراحتاً لکھا ہے: "دوست کی خوشی سے کام رکھا، فسانۂ عجائب اس کا نام رکھا" (ص ۳۱)۔ اس میں صرف ایک استثنا ہے اور وہ ہے اس کتاب کا وہ مطبوعہ نسخہ، جو مطبع حیدری لکھنؤ میں چھپا تھا (نسخہ د)۔ اس نسخے میں منقولٰہ بالا جملہ اس طرح ہے: "دوست کی خوشی سے کام رکھا، فسانۂ عجیب اس کا نام رکھا" (ص ۱۲)؛ مگر اس نسخے کے سرِ ورق پر اس کو "فسانۂ عجائب" لکھا گیا ہے: "محشی بہ نسخۂ عجائب و غرائب جانِ عالم شاہزادہ۔۔۔ مسمی بفسانۂ عجائب"

ڈاکٹر محمود الٰہی نے فسانۂ عجائب کا بنیادی متن کے نام سے اس کتاب کی جو روایت شائع کی ہے، اُس میں نام سے متعلق اپنے مقدمے میں لکھا ہے: "خطی نسخے کے متن میں کتاب کے نام کی صراحت نہیں۔ ہاں جہاں کتاب ختم ہوتی ہے، اُس کے معاً بعد اور ترقیمے سے پہلے "تمام شد کتاب فسانۂ عجیب" ملتا ہے۔ یہ امر بعید از قیاس نہیں کہ مصنف نے پہلے کتاب کا نام فسانۂ عجیب" رکھا ہو اور اصلاح کے بعد "فسانۂ عجائب" کر دیا ہو" (ص ۴۰)۔

جس روایت کو محمود الٰہی صاحب نے "بنیادی متن" کے عنوان سے شائع کیا ہے، اُس روایت کا ایک اور خطی نسخہ ڈاکٹر نور الحسن ہاشمی کے پاس تھا (دونوں روایتوں میں بعض اہم اختلافات ہیں)۔ ڈاکٹر گیان چند جین نے ہاشمی صاحب کے خط کی بنیاد پر اپنی کتاب میں یہ لکھا ہے کہ "اِ س کے ترقیمے میں قصے کا نام "انجمن آرا" دیا ہے" (اُردو کی نثری داستانیں، ص ۵۱۱)۔ یوں تین نام ہوئے: فسانۂ عجائب، فسانۂ عجیب، قصۂ انجمن آرا۔

جیسا کہ محمود الٰہی صاحب نے صراحتاً لکھا ہے کہ "فسانۂ عجیب" شاملِ متن نہیں۔ اس روایت کے متن میں وہ جملہ ہی موجود نہیں جس میں (دیگر نسخوں میں) کتاب کا نام آیا ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ اش نام کا مصنف سے کچھ تعلق نہیں۔ یہ بہ ظاہر ناقلِ کتاب کا اضافہ ہے،
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۳۵

اس لیے لازماً قابلِ قبول نہیں۔ اس کی دوسری روایت میں جو "قصۂ انجمن آرا" مرقوم ہے، تو اس کو بھی کتاب کا حقیقی نام مان لینا درست نہیں ہو گا۔ یہ تو ویسا ہی صفاتی نام ہے جیسے اس قصے کو "قصئہ جانِ عالم" کہا جائے (اور یہ کہا گیا ہے)۔ اس طرح کے صفاتی ٹکڑے لازماً حقیقی نام نہیں ہوتے۔ یہ بھی ناقلِ کتاب کا اضافہ ہے۔ اصل مسئلہ نسخۂ مطبع حیدری کا ہے۔ اس نسخے سے جو عبارت اوپر نقل کی گئی ہے، اُس میں جملے کا دوسرا ٹکڑا ناتمام ہے، یعنی "نام" کے بعد فعل موجود نہیں۔ دوسرے یہ کہ سر ورق پر اس کا نام "فسانۂ عجائب" ہی لکھا گیا ہے۔ یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ اُس وقت تک، یعنی مطبع حیدری کے اس نسخے کی اشاعت کے وقت تک، یہ کتاب کئی بار چھپ چکی تھی اور "فسانۂ عجائب" کے نام سے شہرت پا چکی تھی۔ ان وجوہ سے میری راے میں "فسانۂ عجیب" کسی طرح قابل قبول نہیں معلوم ہوتا۔ سُرورؔ نے مختلف اشاعتوں کے لیے عبارت میں تبدیلیاں کی ہیں، نام کبھی نہیں بدلا اور بہ ظاہر نام کو بدلنے کی کوئی وجہ بھی سمجھ میں نہیں آتی۔ اس کا امکان ہے کہ کسی نے اسے "فسانۂ عجیب" کہا ہو اور مطبع میں اس مقام پر یہی نام زیرِ کتابت آ گیا ہو۔ اس اشاعت کے دو (۲) نسخے میرے سامنے ہیں۔ ایک تو ناقص الآخر ہے، دوسرے میں یہ نقص تو نہیں، مگر اُس آخری صفحے کے حاشیے کےکونے کا کچھ حصہ غائب ہے جہاں خاتمتُ الطبع کی عبارت لکھی ہوئی ہے۔ اُس عبارت میں "نسخۂ عجیبہ و قصۂ غریبۂ جان عالم شاہزادہ بزبان اُردو" تو صاف صاف پڑھنے میں آتا ہے، اور "مسمی بفسانۂ عجائب" کے بعض اجزا پڑھنے میں آتے ہیں، مگر غور کرنے پر قطعی طور پر معلوم ہو جاتا ہے کہ "مسمی بفسانۂ عجائب" لکھا ہوا تھا۔ اس سے اور سر ورق کے اندراج سے اس کے حقیقی نام "فسانۂ عجائب" ہی کی توثیق ہوتی ہے۔

ڈاکٹر نیر مسعود نے اپنی محولۂ بالا کتاب میں نام کے سلسلے میں ایک اور بات لکھی ہے۔ ۱۲۶۲ھ میں مطبع مصطفائی سے اس کتاب کو جو اڈیشن شائع ہوا تھا، اُس کے آخر میں کئی قطعاتِ تاریخِ طبع شامل ہیں؛ ایک قطعے کا پہلا مصرع یہ ہے : چھپی پھر جانِ عالم لکھنؤ میں۔ اس مصرعے کو نقل کر کے، اُنھوں نے لکھا ہے: "فسانۂ عجائب
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۳۶

کے کئی پُرانے قطعاتِ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کتاب "جانِ عالم" یا "قصۂ جانِ عالم" کے نام سے بھی مشہور تھی" (حاشیۂ ص ۱۳۴)۔ نیرؔ صاحب نے اگرچہ یہ نہیں لکھا کہ "جانِ عالم" یا "قصۂ جانِ عالم" اس کا اصلی نام تھا، صرف یہ لکھا کہ ان ناموں سے بھی مشہور تھی؛ مگر اس سے غلط فہمی کے لیے اچھی خاصی گنجایش پیدا ہو گئی ہے۔ یہ بات واضح کر دینا تھی کہ ایسے سب نام، دراصل صفاتی نام ہیں۔ اگر سب یا بیش تر مطبوعہ نسخوں کے آخر میں شامل قطعاتِ تاریخِ طبع اور عباراتِ خاتمتُ الطبع کو یک جا کیا جائے، تو ایسے متعدد صفاتی نام سامنے آئیں گے، مثلاً : این کتابِ جانِ عالم چوں حسن فرمود طبع (اشاعتِ اول)۔ یا یہ فقرہ : "داستانِ سرور افزا ہے، جانِ عالم انجمن آرا ہے" (اشاعتِ ۱۲۶۷ھ)۔ یا یہ شعر : "داستانِ سرور افزا ہے، جانِ عالم انجمن آرا ہے" (اشاعت ۱۲۶۷ھ)۔ یا یہ شعر : فکر کی عاصی نے جو تاریخ کی، جانِ عالم نے کہا مرغوب ہے (طبع ۱۲۶۳ھ)۔ ع : افسانۂ عجائب مرزا رجب علی (اشاعت ۱۲۶۲ھ)۔ سرورِ جانِ عالم انجمن آرا یہ قصہ ہے (ایضاً)۔ ع : جانِ عالم کا یہ قصہ خوش بیاں (ایضاً)۔ سُرورؔ نے اپنی کتاب شگوفۂ محبت میں خود بھی اسی انداز کا ایک جملہ لکھا ہے : "فسانۂ عجائب، کہ قصۂ جانِ عالم ہے، بہت مطبوعِ ساکنانِ عالم ہے" (جو حوالۂ فسانۂ عبر، ص ۵)۔ اس سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ "قصۂ جانِ عالم" نام نہیں، بیانیہ صفت ہے؛ نام "فسانۂ عجائب" ہے۔ غرض کہ اس کتاب کا نام فسانۂ عجائب ہے۔ باقی ایسے سب ٹکڑے، جن پر نام کا دھوکا ہو سکتا ہے (یا ہوا ہے) بیانہ ٹکڑے ہیں؛ جو بہ طورِ صفت آئے ہیں، ہیرو یا ہیروئن کی مناسبت سے، یا کسی اور نسبت سے۔

وجہ تصنیف اور زمانۂ تصنیف

ان دونوں سے متعلق مصنف کا بیان موجود ہے۔ اسی کتاب کے دیباچے میں "وجہ تالیف اس قصۂ بے نظیر کی "کے ذیل میں سُرورؔ نے لکھا ہے کہ "ایک روز چند دوستِ صادق۔۔۔ باہم بیٹھے تھے" اور ہر شخص زمانے کی شکایت کر رہا تھا۔ "اُس زُمرے میں
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۳۷

ایک آشناے بامزہ بندے کے تھے، اُنھوں نے فرمایا: اس وقت تو کوئی قصہ یا کہانی بہ شیریں زبانی ایسی بیان کر کہ رفعِ کدورت ہو۔۔۔ فرماں بردار نے بجز اقرار، انکار مناسب نہ جانا، چند کلمے گُوش گزار کیے" (ص ۲۷)۔

یہاں سُرورؔ نے قصہ گوئی کی رعایت سے "چند کلمے" لکھا ہے (داستان سرایوں اور قصہ گویوں کا یہ خاص محاورہ تھا) کسی نہ کسی شکل میں پوری کہانی کہی ہو گی؛ ہاں وہ ویسی مربوط اور مفصل یقیناً نہیں ہو گی، جیسی کتابی صورت میں ہمارے سامنے آئی ہے۔ اپنے بیان کو "پراگندہ تقریر" کہہ کر، یہ وضاحت اُنھوں نے خود ہی کر دی ہے، لکھا ہے : "وہ (۱) باتیں اُنہیں بہت پسند آئیں، کہا : اگر بہ دل جمعیِ تمام تو اس پراگندہ تقریر کو، از آغاز تا انجام، قصے کے طور پر زبانِ اُردو میں فراہم اور تحریر کرے، تو نہایت منظورِ نظر اہلِ بصر ہو" (ص ۲۸)۔ ساتھ ہی دوست نے یہ بھی فرمایش کی کہ زبان مشکل نہ ہو: "لیکن تقصیر معاف ہو، لُغت سے صاف ہو"۔ سُرورؔ نے وعدہ کر لیا، مگر یہ کہا کہ "جلدی نہ کرنا، بہ وقتِ فرصت لکھوں گا" (ص ۲۸)۔ سُرورؔ نے اگرچہ صراحت نہیں کی، لیکن سارے قرائن اس پر دلالت کرتے ہیں کہ یہ لکھنؤ کا واقعہ ہے۔ اب مختصراً یہ کہا جا سکتا ہے کہ پہلے پہل یہ داستان لکھنؤ میں، دوستوں کے اجتماع میں، ایک خاص دوست کی فرمایش پر، قصہ گویوں کے طرز پر زبانی بیان کی گئی تھی۔ البتہ دو (۲) باتیں وضاحت طلب رہ جاتی ہیں : (۱) یہ کس زمانے کا واقعہ ہے۔ (۲) وہ آشناے بامزہ (اور ایک نسخے کے مطابق "آشناے پُرمزہ") کون تھے جن کی فرمایش پر یہ داستان سُنائی گئی تھی۔

پہلی بات کے متعلق قیاساً یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ زمانہ غازی الدین حیدر کی حکومت کا ہو گا۔ اس کا تعین فی الوقت نہیں کیا جا سکتا کہ یہ اُن کے اعلانِ (۲) بادشاہت سے
-----------------------------------------------------------------
(۱) پہلے کے نسخوں، یعنی ح، م، ض، د (اور ن) میں یہ جملہ یوں ہے: "یہ فسانہ انہیں بہت پسند آیا۔" اسی طرح اگلے جملے میں "پراگندہ تقریر" کی جگہ "قصۂ پراگندہ" ہے۔
(۲) ۱۸ ذی الحجہ ۱۲۳۴ھ۔ مطابق ۹ اکتوبر ۱۸۱۹ء (نجم الغنی خاں۔ تاریخِ اودھ، چہارم، ص ۱۳۳)۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۳۸

پہلے کا واقعہ ہے یا اُس کے بعد کا۔ ہاں یہ مسلم ہے کہ یہ واقعہ اُن کے سفرِ کان پور ربیع الثانی ۱۲۴۰ھ (نومبر – دسمبر ۱۸۲۴ء) سے پہلے کا ہے۔

اب رہی دوسری بات، سُ اُس کے متعلق قطیعت کے ساتھ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ سُرورؔ نے بہ طورِ خود صراحت نہیں کی، اور اس وقت تک جو معلومات سامنے آئی ہے، اُس کی مدد سے بھی اُن "آشناے بامزہ" کی نشان دہی نہیں کی جا سکتی۔ البتہ سُرورؔ نے اُن کے لیے جو لفظ استعمال کیے ہیں، اُن سے یہ ضرور مترشح ہوتا ہے کہ اُن کے عام حلقۂ احباب سے الگ، وہ کوئی خاص دوست تھے۔ اس سلسلے میں قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ اس کتاب کی اشاعتِ اول (نسخۂ ح) میں وجہ تصنیف کے حصے کا عنوان اس طرح قائم کیا گیا تھا:

"باعث تحریر اجزاے پریشان و سرگذشت مجمع دوستاں، مُکلف ہونا محبوب کا، بیان داستان مرغوب کا" (نسخۂ ح، ص ۱۷)۔

اس میں "مکلف ہونا محبوب کا" توجہ طلب نظر آتا ہے۔ پہلی بار نظرِ ثانی کردہ اشاعتِ دوم (نسخۂ ص۔ ۱۲۶۳ھ) میں بھی یہ عبارت اسی طرح باقی رہی۔ جب دوسرے بار سُرورؔ نے اس کتاب پر نظرِ ثانی کی اور یہ نسخہ ۱۲۶۷ھ میں چھپا (نسخۂ ک) تو سُرورؔ نے عنوان کی عبارت میں تبدیلی کی اور "محبوب" کو "صاحبِ فرمایش" سے بدل دیا۔ اس کے بعد جب تیسری بار اس کتاب پر نظرِ ثانی اور یہ نسخہ ۱۲۷۶ھ میں چھپا (نسخۂ ف) تو اس نسخے میں اشاعتِ اول والی عبارت کو برقرار رکھا، یعنی "مکلف ہونا محبوب کا" برقرار رہا۔ آخری بار جب
------------------------------------------------------
ناسخؔ کے اس مصرعے سے بھی یہی سنہ نکلتا ہے: بگو ناسخؔ کہ "ظل اللہ گردید" (ایضاً۔ نیز کلیاتِ ناسخ، طبع اول، ص ۳۷۹) تاریخِ اودھ میں صاحب راے کا بھی قطعۂ تاریخ مندرج ہے، ۴ ۳ ۲ ۱، جس کے آخری مصرعے سے دن، تاریخ، مہینا اور سال معلوم ہوتا ہے: "ماہِ ذی الحجہ شنبہ باہیز دہم" (تاریخِ اودھ میں اس مصرعے میں "ذی حجہ" چھپا ہوا ہے، مگر یہ واضح طور پر غلطیِ کتابت ہے۔ ۴ ۳ ۲ ۱، "ذی الحجہ" سے صحیح سال برآمد ہو گا، اسی لیے میں نے "ذی الحجہ" لکھا ہے)۔

(۱) یہ مہینا اور سنہ خود سُرورؔ نے اسی کتاب میں سببِ تصنیف کے ذیل میں لکھا ہے (ص ۲۹)
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۳۹

نظرِ ثانی کی اور یہ نسخہ ۱۲۸۰ھ میں چھپا (نسخۂ ل) تو اس نسخے میں ۱۲۶۷ھ والی عبارت کو واپس لے آیا گیا آخری ٹکڑے کی تبدیلی کے ساتھ، یعنی اس میں "محبوب" کی جگہ پھر "صاحبِ فرمایش" نے لے لی۔

یہ تو تھا عنوان کی تبدیلیوں کا احوال۔ عنوان کے تحت اُن "محبوب" یا "آشنا ے بامزہ" سے متعلق جو عبارت ہے، اُس میں بھی تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ ح، م، ض، ف میں "آشناے باصفا پُرمزہ" ہے۔ ک میں "باصفا" موجود نہیں اور "پُرمزہ" کو "بامزہ" سے بدل دیا گیا ہے۔ زیادہ توجہ طلب وہ عبارت ہے جو اُس نسخے میں ہے جسے ڈاکٹر محمود الٰہی نے "فسانہ؁ عجائب کی بنیادی متن" کے نام سے شائع کیا ہے۔ اُس نسخے میں اس موقعے پر یہ عبارت ہے:

اُس زُمرے میں ایک دوستِ باصفا، محبِ بے ریا ایسے تھے، بندہ جن کا تابعِ فرمان بدل و جان، ممنونِ عنایات و احسان، باعثِ زیستِ جگر فگار، تسکینِ خاطرِ بے قرار۔۔۔" (ص ۴۴)۔

آخری دونوں ٹکڑے قابل غور ہیں۔ ہر دوستِ باصفا اور محبِ بے ریا کو "باعثِ زیستِ جگر فگار" اور "تسکینِ خاطرِ بے قرار" نہیں کہا جاتا۔ پھر جب اشاعتِ اول کے عنوان میں موجود "مکلف ہونا محبوب کا" کے ساتھ ان ٹکڑوں کو دیکھا جائے اور "آشنا سے پُرمزہ" اور پھر "آشنا سے بامزہ" پر بھی نگاہ رکھی جائے ("آشناے پُرمزہ" یا "بامزہ" بھی عام دوستوں کو نہیں کہتے) تو ذہن میں اس خیال کا پیدا ہونا قدرتی سا ہے کہ یہ صاحب، جن کی فرمایش پر یہ قصہ سُنایا گیا تھا، اُس جلسے میں موجود دیگر احباب کی طرح محض محبِ باصفا اور دوستِ بے ریا نہیں تھے؛ یہ "تسکینِ خاطرِ بے قرار" تھے اور ان کو جو سُرورؔ نے "محبوب" لکھا تھا، تو وہ محض رسمی اندازِ خطاب نہیں تھا۔ یا پھر یہ مان لیا جائے کہ سُرورؔ اس قدر بدذوق اور کم نظر تھے کہ ان لفظوں کے معنی مفہوم سے ناواقف تھے۔ اور ہاں، اسی ذیل میں سُرور" کے اُن اشعار کو بھی ذہن میں رہنا چاہیے جو اُنھوں نے داستان کے آخر میں لکھے ہیں، جب کہانی کے بچھڑے ہوئے تو سب مل جاتے ہیں، مگر سُرورؔ اپنے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۰

"مطلوب" سے اب بھی جدا ہیں (یعنی کان پور میں ہیں):

وہ بچھڑے تو سب ہو گئے ایک جا
ہوئے اپنے مطلوب سے ہم جُدا

رہی شرحِ جورِ فلک ناتمام

سُرورِ حزیں! تو سنِ خامہ تھام (ص ۳۳۶)

سُرورؔ نے صراحت کے ساتھ لکھا ہے کہ "اُسی دن سے ہمیشہ اس کا خیال رہتا تھا، عدمِ فرصت سے نہ کہتا تھا" (نہ کہتا تھا" یہاں "نہ لکھتا تھا" کے مفہوم میں آیا ہے۔ اس طرح کی خامیاں سُرورؔ کی عبارت میں اچھی خاصی تعداد میں پائی جاتی ہیں)۔ یہاں تک کہ ماہِ ربیع الثانی ۱۲۴۰ھ میں اُن کو لکھنؤ چھوڑنا پڑا اور کان پور جانا پڑا۔ یہ بستی اُن کو "ویران، پوچ و لچر" نظر آئی۔ "اشراف یہاں عنقا صفت ناپیدا ہیں، مگر چھوٹی اُمت کی بڑی کثرت دیکھی۔ یہ طور جو نظر آیا، دلِ وحشت منزل سخت گھبرایا، قریب تھا جنون ہو جائے" (ص ۲۹) لیکن اُن کے ایک کرم فرما حکیم (۱) سید اسد علی کی عنایت و شفقت سے "طبع سودا خیز و سرِ جنوں انگیز کو آرام و تسکیں حاصل ہوئی۔"

ایک دن سُرورؔ نے حکیم صاحب سے اپنے اُن "دوست" کا احوال بیان کیا جنہوں نے اس کہانی کو لکھنے کی فرمایش کی تھی" "بعدِ اظہارِ حالِ مُکلف فسانۂ دوستانہ، یہ بھی کہا کہ حسبِ وعدہ ایک کہانی لکھا چاہتا ہوں" (ایضاً)۔ حکیم صاحب نے ہمت افزائی اور تاکید کی۔ حکیم صاحب کا کہنا "تو سنِ طبع کو تازیانہ ہوا، تحریر کا بہانہ ہوا" (ایضاً) اور یوں وہ سُنائی ہوئی کہا، ایک مکمل داستانی قصے کی شکل میں کتابی صورت میں مرتب ہوئی۔

سُرورؔ نے یہ لکھا ہے کہ "تلاشِ معاش کے حیلے میں "اُنہیں کان پور جانا پڑا؛ مگر یہ بات ماننے کی نہیں۔ اسے کون مانے گا کہ لکھنؤ، جہاں سب کچھ تھا، وہاں کوئی کام نہ ملے۔ اور کان پور جو "کُوردِہ" تھا، وہاں مرزا رجب علی بیگ سرورؔ تلاشِ معاش میں جائیں! ہاں فسانۂ عجائب کی بنیادی متن میں اس مقام پر "تلاشِ معاش کے حیلے" کی جگہ یہ لکھا ہے کہ "اتفاق آنے کا بہ طرزِ نامعقول و وجہِ مجہول کو ردہِ کان پور میں ہوا" (ص ۴۵)۔ یہ "وجہِ مجہول" اور "طرزِ نامعقول" بہت معنی خیز ہے۔ نیز مسعود صاحب نے اپنی کتاب میں
-----------------------------------------------------------
(۱) ان کے لیے دیکھیے ضمیمہ نمبر ۴، ص ۴۱۸۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۱

اس پر مفصل بحث کی ہے اور آخر میں یہ راے ظاہر کی ہے کہ غالباً کسی جرم کے سلسلے میں شاہی عتاب کی بنا پر انہیں گنگا پار یعنی کان پور جانا پڑا تھا۔ "اُس زمانے میں کان پور، کالے پانی کی حیثیت رکھتا تھا، اور اکثر شاہی معتوبین اور مجرموں کو جلا وطنی کی سزا دے کر دریاے گنگا کے پار اُتار دیا جاتا تھا" (ص ۸۶) اور یہی بات مرجح معلوم ہوتی ہے (یہ دل چسپ بات ہے (اور شاید معنی خیز بھی) کہ سُرورؔ کے اُستاد نوازشؔ کو بھی اُن دنوں ایسے ہی مشکوک حالات میں کان پور میں رہنا پڑا تھا۔ اس کی کچھ تفصیل آگے آئے گی)۔

کتاب کے آخر میں خود سُرورؔ کا کہا ہوا قطعۂ تاریخ موجود ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ۱۲۴۰ھ میں یہ کتاب مکمل ہو گئی تھی۔ ۱۲۴۰ھ مشتمل ہے دو (۲) عیسوی سنین ۲۵-۱۸۲۴ پر۔ اگر اس پر نظر رکھی جائے کہ سُرورؔ اپنے قول کے مطابق ۱۲۴۰ھ میں ربیع الثانی کے مہینے میں کان پور پہنچے تھے، جو نومبر – دسمبر ۱۸۲۴ء کے مطابق ہے (انجمن ترقیِ اُردو (ہند) کی شائع کی ہوئی تقویم کے مطابق یکم ربیع الثانی (۱۲۴۰ھ) کو نومبر (۱۸۲۴ء) کی ۲۳ تاریخ تھی) تو پھر بہ آسانی کہا جا سکتا ہے کہ تکمیلِ کتاب کا عیسوی سال ۱۸۲۵ء ہو گا۔ کان پور پہنچتے ہی تو وہ لکھنے میں لگ نہیں گئے تھے۔ خود اُن کا بیان موجود ہے، جس سے دنوں کا قطعی طور پر تعین تو نہیں ہوتا، لیکن یہ ضرور معلوم ہوتا ہے کہ کان پور پہنچنے کے کچھ دن بعد ہی حکیم صاحب سے لکھنے کا ذکر آیا تھا اور حکیم صاحب نے تاکید کی تھی۔ پھر اس کے لکھنے میں بھی کم سے کم دو ڈھائی مہینے تو لگے ہی ہوں گے۔ یوں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ۱۲۴۰ھ میں ربیع الثانی کے بعد، اور ۱۸۲۵ء میں وسطِ اگست سے پہلے کسی وقت یہ کتاب مکمل ہوئی ہو گی (اگست کے وسط سے ۱۲۴۱ھ شروع ہو جاتا ہے)۔

نوازشؔ اور اِصلاح

سُرورؔ نے یہ بھی لکھا ہے کہ تکمیل کے بعد اس کتاب کو (سعادت مند شاگرد کی طرح) اپنے اُستاد نوازشؔ کے سامنے بہ غرضِ اصلاح پیش کیا (ص ۳۴۴)۔ نوازشؔ نے کیا اصلاح دی، اُس کا حال تو معلوم نہیں؛ ہاں اُن کا کہا ہوا قطعۂ تاریخ شاملِ کتاب ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۲

نوازش شاعر تھے، یوں بہ ظاہر خیال کیا جا سکتا ہے کہ محض اُستاد کا احترام مدِ نظر ہو گا جو سُرورؔ نے اس نثری تصنیف کو بھی اُن کے سامنے پیش کیا؛ لیکن اس سلسلے میں ایک بات ضرور قابلِ توجہ ہے۔ نوازشؔ کے بہت زیادہ اشعار اس داستان میں شامل کیے گئے ہیں اور کئی مقامات پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ نوازش نے خاص کر اُس موقعے کی مناسبت سے وہ شعر کہا ہے یا وہ اشعار لکھے ہیں۔ مثلاً جب جانِ عالم، ملکہ مہر نگار سے رخصت ہو کر عازمِ سفر ہوتا ہے؛ اُس جگہ پانچ اشعار کی ایک غزل ملتی ہے، جس کے دو (۲) شعر یہ ہیں :

میں مر گئی سُن اُس کے سر انجام سفر کا
آغاز ہی دیکھا نہ کچھ انجام سفر کا

مت جان نکما مجھے اے جان، لیے چل
کرتی چلوں گی ساتھ ترے کام سفر کا (ص ۹۹)

ان میں صیغۂ تانیث جس طرح لایا گیا ہے، اُس سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ یہ غزل خاص کر اسی مقام کے لیے کہی گئی تھی۔ خدا بخش لائبریری پٹنہ میں نوازشؔ کے دیوان کا خطی نسخہ موجود ہے (یہ دیوان اب تک چھپا نہیں) اور اُس میں یہ غزل موجود نہیں۔ یہی نہیں، اس کتاب میں ایسے بہت سے شعر ہیں جو اُس دیوان میں نہیں ملتے۔ یہی خیال ہوتا ہے کہ یہ سب یا کم از کم اکثر اشعار اسی کتاب کے لیے کہے گئے تھے۔ اسی طرح اس کتاب میں ایسے اشعار بھی ہیں، جو اُس نسخۂ دیوان میں موجود ہیں، لیکن متن بدلا ہوا ہے۔ ایسے سب اشعار جب میں نے یک جا کیے اور متن کے اختلاف کا گوشوارہ تیار کیا، تو میں اس نتیجے پر پہنچا کہ اس کتاب کے مختلف مقامات کی نسبت اور ضرورت سے اشعار کے متن میں تبدیلی کی گئی ہے۔ میں یہاں ایک مثال پیش کرتا ہوں۔ آغازِ داستان میں نوازشؔ کا یہ شعر مرقوم ہے :

مثل ہی سے نہ الفاظِ تلازم سے یہ خالی ہے
ہر اک فقرہ کہانی کا، گواہِ بے مثالی ہے

لیکن دیوان میں یہ اس طرح ملتا ہے"

مثل ہی سے نہ الفاظِ تلازم سے یہ خالی ہے
مرا ہر شعر بے مثل، اس زمانے میں مثالی ہے
(ورق ۱۹۵ ب)

صاف ظاہر ہے کہ دوسرے مصرعے کو اس کتاب کی نسبت سے بدلا گیا ہے۔ (انتسابِ اشعار
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۳

کا جو ضمیمہ اس کتاب میں شامل ہے، اُس میں متن کے ایسے اختلافات کو دیکھا جا سکتا ہے)۔ میں صرف ایک مثال اور پیش کروں گا۔ دیوان میں ایک شعر یوں مرقوم ہے :

وعدۂ قتل ہے کل، رات کی نیت ہو حرام
دیں اگر طالعِ برگشتہ نہ تدبیر اُلٹ

اس کتاب میں پہلا مصرع اس طرح ملتا ہے : مژدۂ وصل ہے کل، رات کی نیت ہو حرام (س ۵۱)۔ یہ وہ مقام ہے جہاں تو تے کے کے کہنے کے مطابق کل صبح جانِ عالم تلاشِ محبوب میں روانہ ہونے والا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہاں "وعدۂ قتل" کا کوئی محل نہیں تھا، ہاں "مژدۂ وصل" کا محل ہے اور اسی نسبت سے شعر میں تبدیلی کی گئی ہے۔ اشعار کے مگن میں ایسی تبدیلیاں ظاہر ہے کہ خود نوازشؔ نے کی ہوں گی، شاگرد اس کی جرات نہیں کر سکتا، خاص کر اُس وقت جب کہ اُستادِ محترم وہیں موجود تھے۔ اس سلسلے میں مختلف پہلوؤں پر غور کرنے کے بعد میرے ذہن میں یہ خیال بیٹھ سا گیا ہے کہ اس کتاب کی تصنیف کے زمانے میں سُرورؔ اپنے اُستاد نوازشؔ سے برابر مشورہ کرتے رہے ہیں۔ یا اسی بات کو یوں کہہ لیجیے کہ نوازشؔ مشورہ دیتے رہے ہیں۔ اور اسی دوران مختلف موقعوں کی نسبت سے نئے اشعار کہہ کر، یا پُرانے اشعار میں مناسبِ موقع تبدیلی کر کے اُنہیں شاملِ داستان کراتے گئے ہیں۔

میں کوئی شہادت تو پیش نہیں کر سکتا، لیکن سارے قرائن دلالت اسی پر کرتے ہیں کہ اس داستان کی نقش بندی میں نوازشؔ کے مشورے شامل رہے ہیں۔ اشعار کے اضافوں کے علاوہ نثر میں بھی اُنھوں نے مشورے دیے تھے، یا یوں کہیے کہ اصلاح کی تھی؛ اس کے متعلق کوئی شہادت تو موجود نہیں، لیکن مجھے ایسی اصلاحوں کا شامل ہونا بعید از قیاس نہیں معلوم ہوتا۔ ڈاکٹر محمود الٰہی نے فسانۂ عجائب کا بنیادی متن کے مقدمے میں جو یہ لکھا ہے :

"یہاں اس بات کا ذکر بھی بے محل نہ ہو گا کہ فسانۂ عجائب کے متداول نسخوں کے آخر میں سرورؔ کے اُستاد نوازشؔ کا ذکر ملتا ہے، جس میں یہ اقرار کیا گیا ہے کہ اُنھوں نے اس کتاب کو بہ نظرِ اصلاح دیکھا تھا؛ خطی نسخے میں یہ بیان نہیں ہے۔ اس طرح یہ نتیجہ نکالنا غلط نہ ہو گا کہ فسانۂ عجائب میں جو تبدیلیاں کی گئی ہیں، اُن میں نوازشؔ
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۴

کے اصلاحی مشوروں کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔" (ص ۱۳)

تو یہ بات دل کو لگتی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ "بڑا ہاتھ" نہ سہی، کچھ نہ کچھ دخل تو ضرور ہو گا۔

یہ بات بھی نظر میں رکھنے کی ہے کہ اس کتاب میں نوازش کے جتنے زیادہ اشعار ملتے ہیں، سُرورؔ کی کسی اور کتاب میں یہ صورت دکھائی نہیں دیتی۔ وجہ اس کی صاف ہے کہ جس وقت یہ کتاب لکھی گئی ہے، اُس وقت نوازشؔ اور سُرورؔ دونوں کان پور میں تھے، سُرورؔ کو اُس وقت تک بہ حیثیتِ مصنف شہرت حاصل نہیں تھی (اُس وقت تک اُنھوں نے کوئی کتاب ہی نہیں لکھی تھی) نوازشؔ شاعر کی حیثیت سے بہت مشہور تھے، اس کے علاوہ دنیاوی حیثیت سے بھی قابلِ (۱) ذکر حیثیت رکھتے تھے، سُرورؔ کی طرح تنگ دست نہیں تھے اور
--------------------------------------------------------------
(۱) خدیوِ ملکِ سخن رانی نوازش حسین خاں عرف مرزا خانی ، شخصِ باتجمل، خلف الصدقِ حسین علی خاں ابنِ نواب ناصر خاں صوبہ دارِ کابل" (تذکرۂ خوش معرکۂ زیبا‘ مرتبۂ مشفق خواجہ) اس تذکرے کا مولف اُن سے اچھی طرح واقف تھا۔ جس وقت سُرورؔ کان پور میں تھے، نوازش بھی اُس زمانے میں وہیں تھے۔ اُن کے قیامِ کان پور کے متعلق خوش معرکۂ زیبا کے مولف نے یہ لکھا ہے کہ "چند روز سے بہ غرض خرید دیہات نیلام کے کان پور میں تشریف رکھتے ہیں۔ گاہے گاہے لکھنؤ بھی آ جاجتے ہیں۔" حاشیے میں اس تذکرے کے ایک اور نسخے سے آخری جملہ اس طرح نقل کیا گیا ہے: "لکھنؤ میں آمد و رفت بہت کم"۔ نیز مسعود صاحب نے بھی اپنی کتاب میں یہی بات لکھی ہے (ص ۸۹)۔ پٹنے میں نوازش کے دیوان کا جو خطی نسخہ محفوظ ہے، اُس میں یہ شعر بھی ہے :یاں بھی اک بُت سے بڑھایا (کذا) دل نے اے میرے خُدا

لکھنؤ سے تھا ہوا حکم اس پہ گنگا پار کا

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دراصل سُرورؔ کی طرح نوازشؔ کو بھی کسی "جرمؔ میں لکھنؤ بدر کر دیا گیا تھا۔ یہ شعر بھی اسی سلسلے کا ہے :

شکلِ وطن نہ دیکھی نوازشؔ جو اب تلک
کس وقتِ نحس میں نے کیا تھا وہاں سے کوچ

یعنی وہ کان پور میں اُس جرم کی بنا پر رہنے پر مجبور تھے۔ دیوان میں موجود یہ دو (۲) شعر بھی توجہ طلب ہیں :

ہو مستعدِ قتل نہ کوئی حق و ناحق
یاں رہیو خبردار، یہ منصور نگر ہے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۵

سُرورؔ کے اُستاد تو تھے ہی؛ ان سب وجوہ سے سُرورؔ کی نیاز مندی سمجھ میں آنے والی بات ہے۔

اس تفصیل سے واضح طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ شروع میں سُرورؔ کے ذہن میں کتاب لکھنے کا کوئی منصوبہ نہیں تھا۔ دوستوں کی محفل میں، محض وقت گُزاری کے لیے، ایک دوست کی فرمایش پر انھوں نے ایک قصہ سُنایا تھا۔ اُسے بہت پسند کیا گیا اور اُسے لکھنے کی فرمایش کی گئی۔ ظاہر ہے کہ اُس بیان میں اُس وقت نہ حاکمِ وقت کا ذکر ہو گا اور نہ میر امن کا اور
---------------------------------------------------------
وہ محلہ تو مرا دارِ شفا تھا الحق
یار کا پھرتا ہے منصور نگر آنکھوں میں

[فسانۂ عجائب میں سُرورؔ نے بھی ایک جگہ لفظی رعایت کے ساتھ منصور نگر کا نام لیا ہے: "کلمۂ حق کہنے والے کا مدار دار پر ہوتا ہے، منصور نگر اُس کا محلہ ہے" (ص۱۹)]۔

یہ بات ذہن میں رہے کہ سُرورؔ پر قتل کا ایک مقدمہ بھی چلا تھا، جس میں سزا پانا یقینی سا تھا، مگر یہ قولِ خود وہ بچ گئے تھے (تفصیل نیر مسعود کی کتاب میں، ص ۸۴ – ۸۵)۔ ان سب باتوں کو نظر میں رکھا جائے تو اس خیال کا پیا ہونا قدرت سا ہے کہ اُستاد شاگرد دونوں ایک ہی یا ایک ہی طرح کے جرم میں ملوث ، اور دونوں کو اسی بنا پر کان پور جانا پڑا تھا، یعنی لکھنؤ بدر ہونا پڑا تھا اور یوں زمانۂ قیامِ کان پور میں سُرورؔ کا اپنے اُستاد کے کچھ زیادہ زیرِ اثر رہنا معمولی بات معلوم ہوتی ہے۔

مولفِ خوش معرکۂ زیبا نے نوازشؔ کے تذکرے میں یہ بھی لکھا ہے : "ایک دن مولف سے کہنے لگے کہ ایک خدمت گار کہ ذرا صورت دار ہو، نوکر رکھوا دو۔ؔ اُن کے دیوان میں موجود اس شعر کو بھی دیکھیے :

واں بھی ہیں غلمان ہم امرد پرستوں کے لیے
واسطے گر شیخ کے خلدِ بریں میں حور ہے (ورق ۲۱۰ ب)

لکھنؤ میں اُس زمانے میں امرد پرستی کی وبا کچھ کم نہیں تھی۔ ناسخؔ کا نام تو خاص طور پر اس سلسلے میں آیا ہے۔ سُرورؔ نے وجہ تصنیف کے ذیل میں جو "مکلف ہونا محبوب کا" لکھا ہے اور پھر اُسے "آشناےپُر مزہ" اور "آشناے بامزہ" سے تعبیر کیا ہے؛ ان سب باتوں کی بنا پر بہ قولِ محمد حسین آزادؔ بدگمانی گنہ گار ضرور کرتی ہے۔ ہاں قطعی طور پر کوئی حکم نہیں لگایا جا سکتا۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۶

اُن کی دہلی کا یعنی "بیانِ لکھنؤ" نام کی کوئی چیز نہیں ہو گی۔ یہ بھی محض اتفاق تھا کہ اُنہیں (بہ خیالِ غلب) شاہی عتاب کی بنا پر لکھنؤ چھوڑنا پڑا اور گنگا پار، یعنی کان پور جانا پڑا (جو انگریزی عمل داری میں تھا) اور وہیں رہنا پڑا۔ سُرورؔ کے لیے یہ "کالے پانی کی سزا" بہت تکلیف دے تھی اور اذیت رساں۔ وہاں اُن کو اُس فرمایش کو پورا کرنے کا خیال آیا اور اُس کے نتیجے میں اُنھوں نے کان پور میں چند مہینوں کے اندر اُس کہانی کو کتابی صورت میں مکمل کر لیا۔ یہ ۱۲۴۰ھ کی بات ہے، جب لکھنؤ میں غازی الدین حیدر بادشاہِ اودھ تھے، جن کے حکم پر (قرائن کے مطابق) اُنہیں لکھنؤ چھوڑنا پڑا تھا۔

سُرورؔ کو لکھنو واپس آنے کی شدید تر تمنا ہو گی، لیکن اجازت کے بغیر وہ واپس نہیں آ سکتے تھے اس لیے یہ قطعی طور پر قرینِ قیاس معلوم ہوتا ہے کہ اُن کے ذہن میں یہ خیال آیا ہو کہ وہ اس کتاب کو وسیلہ بنا کر لکھنؤ واپس آنے کی سبیل نکالیں۔ اس کے لیے یہ ضروری تھا کہ شاہِ وقت کی مدح و ستایش کی جائے۔ لیکن شاہِ وقت کی مدح تو بہت سی کتابوں میں کی ہی جاتی تھی؛ اس لیے اس کا قوی امکان ہے کہ اُن کے ذہن میں یہ خیال بھی آیا ہو کہ اس کتاب میں کوئی ایسا بیان بھی ہو جو شاہِ اودھ کو خاص طور پر متوجہ کر سکے اور خوش کر سکے۔ اس سلسلے میں غازی الدین حیدر کا اعلانِ بادشاہت گویا سامنے کی بات تھی۔ نئی حکومت کو دہلی کی پُرانی بادشاہت پر ترجیح دینا اور لکھنؤ کی معاشرت کے مختلف پہلوؤں کی، یہاں کی عمارتوں کی اور یہاں کے اہلِ کمال کی اس طرح تعریف کرنا کہ یہ بات سامنے آ جائے کہ لکھنؤ کی سر زمین اب ہر لحاظ سے دہلی پر فوقیت رکھتی ہے؛ یہ ایک ایسی خاص بات ہو سکتی تھی جو جذبۂ پسندیدگی کو اُبھار دے۔ اس خیال کے زیر اثر اُنھوں نے اس کتاب کی جو روایت تیار کی ہو، اُس میں "بیانِ لکھنؤ" نے کسی شکل میں جگہ پائی ہو۔

اس سلسلے میں دو (۲) باتیں ایسی ہیں جن کے متعلق فی الوقت کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ ایک بات تو یہ کہ کیا یہ بات اُن کے ذہن میں شروع ہی میں آ گئی تھی کہ ایک کتاب لکھ کر اُسے "وسیلہ نجات" بنایا جا سکتا ہے اور پھر اُسے ایفاے وعدہ کا عنوان دیا گیا۔ یا پھر یوں ہوا تھا کہ دل بہلانے اور وقت گزارنے کے لیے اُنہیں کچھ کرنا ہی تھا، ایسے میں ایفاے وعدہ
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۷

کا خیال شدت سے پیدا ہوا اور اُنھوں نے اُس کہانی کو کتابی صورت میں لکھنا شروع کیا۔ لکھنے کے دوران یا تکمیل کے بعد اچانک یہ خیال آن کے ذہن میں آیا کہ اس کتاب سے تو ایک اور کام بھی لیا جا سکتا ہے۔ غرض جو بھی صورت ہوئی ہو، خیال یہی ہے کہ اس کتاب کو وسیلۂ واپسیِ لکھنؤ بنانے کا خیال کسی وقت اُن کے ذہن میں آیا ہو گا اور اُسی کے تحت مبالغہ آمیز انداز سے مدحِ شاہِ وقت اور "بیانِ لکھنؤ" (کا کچھ حصہ) لکھا گیا ہو گا۔

سُرورؔ نے اپنی کتاب کسی وسیلے سے غازی الدین حیدر کی خدمت میں پیش کی تھی یا نہیں، اس کے متعلق ہمیں کچھ معلوم نہیں۔ ہاں قیاس یہ کہتا ہے کہ پیش کرنے کی کوشش ضرور کی ہو گی۔ اس کی شہادت بہ ہر حال موجود ہے کہ ۱۲۴۳ھ / ۱۸۲۷ء میں جب غازی الدین حیدر مرے تھے اور اُن کے بیٹے نصیر الدین حیدر تخت نشیں ہوئے تھے، تو اُس وقت وہ کان پور ہی میں تھے اور اُس وقت تک اُن کو لکھنؤ آنے کی مسرت حاصل نہیں ہو سکی تھی (یعنی اجازت نہیں ملی تھی)۔ اس کی سب سے بڑی شہادت وہ غزل ہے جو اُنھوں نے (بادشاہ بننے کے بعد) نصیر الدین حیدر کی مدح کے ذیل میں شاملِ "بیانِ لکھنؤ" کی ہے اور جس سے قطعی طور پر معلوم ہوتا ہے کہ وہ اُس وقت لکھنؤ میں نہیں تھے، دیارِ غربت (یعنی کان پور) میں تھے۔ اس غزل کے تین (۳) شعر یہ ہیں :

رشک کھا کھا گُو فلک مجھ سے چُھڑائے لکھنؤ
تب میں جانوں، دل سے جب میرے بُھلائے لکھنؤ

یا تو ہم پھرتے تھے اُن میں، یا ہوا یہ انقلاب
پھرتے ہیں آنکھوں میں ہر دم کوچہ ہائے لکھنؤ

دشتِ غربت میں کیا برباد وحشت نے، تو کیا
دل سے اُڑتی ہے کوئی اپنے ہوائے لکھنؤ
(ص ۲۲)

اس غزل کے بعد چند دعائیہ فقرے ہیں اور اُن کے بعد یہ شعر ہے :

الہٰی! لکھنؤ بستا رہے دورِ قیامت تک
سُرورِؔ دشت پیما کا کبھی وہ شہر مسکن تھا (ص ۲۲)

ربیعُ الاول ۱۲۴۳ھ (۱۸۲۷ء) میں "نصیر الدین حیدر (۱) نے بعدِ پدر۔۔۔ جلوسِ میمنت مانوس
-------------------------------------------------------------------
(۱) فسانۂ عبرت، مرتبۂ پروفیسر مسعود حسن رضوی، ص ۹۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۸

سر پر سلطنت پر کیا۔" "بیانِ لکھنؤ" میں اُن کی مدح بھی شامل ہے اور غازی الدین حیدر کی مدح کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ متنِ کتاب میں بھی اُن کا نام ضمنا! (۱) داخل کیا گیا ہے۔ جیسا کہ پہلے لکھا جا چکا ہے، سُرورؔ نے خاتمۂ کتاب میں واضے طور پر لکھا ہے کہ یہ کتاب ۱۲۴۰ھ میں مکمل ہو گئی تھی، اس صورت میں نصیر الدین حیدر کی مدح بہ ظاہر شاملِ کتاب نہیں ہو سکتی؛ لیکن یہاں بھی وہی بات معلوم ہوتی ہے کہ سُرورؔ نے ایک بار پھر اس کتاب کو وسیلۂ واپسیِ لکھنؤ بنانا چاہا ہو گا۔ اس کے لیے لازم تھا کہ نئے بادشاہ کی مدح کتاب میں شامل ہو۔ اس کے لیے اُنھوں نے یہ کیا کہ "بیان ِ لکھنؤ" میں عبارت کا اس طرح جُوڑ لگایا: "اچھے آغاز کا انجام بہ خیر ہوتا ہے، اللہ تعالٰی مشقت کسی کی بے کار نہیں کھوتا ہے۔ یہ فسانہ شروع زمانۂ غازی الدین حیدر بادشاہ میں ہوا تھا اور تمام عصرِ سلطان بن سلطان ابو النصر نصیر الدین حیدر دام ملکہ کے ہوا" (ص ۱۹)۔ یہ جُوڑ اس بُری طرح لگایا گیا ہے کہ دور ہی سے اکھڑا ہوا نظر آتا ہے، اچھی طرح شامل عبارت نہیں ہو پایا ہے۔

اس نئی اضافہ کردہ عبار میں سُرورؔ نے اپنے پچھلے بیان کو (یہ یہ فسانہ ۱۲۴۰ھ میں مکمل ہوا تھا) بدل دیا، اور اب یہ کہا کہ یہ فسانہ غازی الدین حیدر کے زمانے میں شروع ہوا تھا، ختم اب اس نئے بادشاہ کے زمانے میں ہوا ہے۔ نئے بادشا کے لیے "دام ملکہ" لکھا، مگر مرحوم بادشاہ کے لیے جو "خلد اللہ ملکہ" لکھا تھا، اُسے بھی باقی رہنے دیا۔ خیر، اس کی تو کسی طرح تاویل کی جا سکتی ہے؛ لیکن اُنھوں نے غضب یہ کیا کہ آخرِ کتاب میں شامل پُرانے قطعاتِ تاریخِ تکمیلِ تصنیف کو بھی باقی رہنے دیا۔ اُن کا کوئی حریف تو اس کےلیے یہی کہتا کہ دروغ گو را حافظہ نبا شید؛ لیکن میرا خیال ہے کہ یہ محض فرو گذاشت ہے۔

نیر مسعود نے اپنی کتاب میں سُرورؔ کی ایک عرضداشت کا ذکر کیا ہے جو ایک "جواں بخت و جواں دولت، جواں سال" بادشاہ کے نام ہے، جس کی خدمت میں فسانۂ عجائب کا ایک نسخہ پیش کیا تھا۔ سُرورؔ نے "اپنی پریشانی و بے سرو سامانی کا ذکر کر کے، ملازمت کی درخواست کی ہے" اور قرینۂ قوی کی بنیاد پر یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ یہ بادشاہ نصیر الدین حیدر تھے "جو
-----------------------------------------------------------
(۱) کنٹروں میں عطر سُہاگ، مہک پری ایجادِ نصیر الدین حیدری" (ص ۱۳۷)۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۹

نوجوانی کے عالم میں تخت نشیں ہوئے تھے" (ص ۸۹)۔ اس کو تسلیم کرنے میں کوئی امر مانع نظر نہیں آتا۔ اس کی دستاویزی شہادت تو موجود نہیں کہ اُن کو لکھنؤ آنے کی اجازت مل گئی تھی، لیکن یہاں بھی سارے قرائن اسی پر دلالت کرتے ہیں کہ اُن کو واپس آنے کی اجازت مل گئی تھی۔ فسانۂ عبرت میں سُرورؔ نے نصیر الدین حیدر کے حالات کے تحت جو اندازِ بیان اختیار کیا ہے، وہ سراسر تعریفی ہے (جب کہ بعض دوسرے بادشاہوں کے لیے سخت ترین کلمات استعمال کیے ہیں)۔ اسی طرح نصیر الدین حیدر کے مرنے کے بعد کے بعض حالات جہاں لکھے ہیں، وہاں واضح طور پر لکھنؤ میں اُن کی موجودگی معلوم ہوتی ہے (فسانۂ عبرت، ص ۲۱)۔ اسی طرح جہاں امجد علی شاہ کے جنازے کا حال لکھا ہے، وہاں بھی صاف صاف معلوم ہوتا ہے کہ نصیر الدین حیدر کے مرنے کے وقت وہ لکھنؤ میں موجود تھے (ایضاً، ص ۷۶)۔ اس طرح ہم اعتماد کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ یہ کتاب نصیر الدین حیدر کی خدمت میں پیش کی گئی تھی (لیکن فی الوقت اس کا تعین ممکن نظر نہیں آتا کہ کس سنہ میں اسے پیش کیا گیا تھا۔ یہ قیاس شاید بے جا نہ ہو کہ یہ شروعِ حکومت کا زمانہ ہو گا) اور (بہ خیالِ غالب) اسی کے نتیجے میں اُن کو لکھنؤ واپس آنے کی اجازت مل گئی تھی۔ البتہ یہ معلوم نہیں کہ "ملازمت کی درخواست" جو اُنھوں نے کی تھی، اُس کا کیا ہوا۔ نصیر الدین حیدر کے زمانۂ حکومت (تخت نشینی: "ربیع الاولٰی ۱۲۴۳ھ / اکتوبر ۱۸۲۷ء – انتقال: "ربیع الاُخریٰ ۱۲۵۳ھ / جولائی ۱۸۳۸ء – ایضاً ص ۹ – ص ۱۷) میں سُرورؔ کیا کرتے رہے تھے، اس کا احوال معلوم نہیں ہو سکا۔

"بیانِ لکھنؤ" کے اختلافات

اس بات کو ماننے میں ذرا سی بھی قباحت نظر نہیں آتی کہ مصنفین کی عام روش کے مطابق اس کتاب کا دیباچہ، کتاب کی تکمیل کے بعد لکھا گیا (بل کہ یوں کہنا چاہیے کہ دیباچے کا مطالعہ اس خیال کی پوری طرح تائید کرتا ہے) خاص کر دیباچے کا یہ آخری جملہ : "عنایت ایزدی سے تمام ہوئی کتاب" قطعی طور پر اس پر دلالت کرتا ہے کہ دیباچہ، کتاب کی تکمیل کے بعد لکھا گیا ہے۔ یہ بھی مسلم ہے کہ دیباچے کے بعض حصے مختلف زمانوں میں لکھے گئے ہیں
 
Top