بر محل اور بے محل کا امتیاز ملحوظ نہ رکھنا سرورؔ کا خاصا کم زور پہلو (۱) ہے اور اس بے امتیازی نے بھی کئی جگہ بے لطفی کو شاملِ عبارت کیا ہے۔ صرف ایک مثال: جانِ عالم سمندر میں ڈوبتے ڈوبٹے بچا ہے اور کئی دن کے بعد ساحل پر آ لگا ہے۔ نقاہت کا وفور ہے؛ لیکن ماہی گیروں کے استفسار پر وہ اُن ان پڑھ مچھیاروں کے سامنے اُس عالم میں جب کہ بولنا مشکل تھا، مرصع تقریر شروع کرتا ہے، جو "ایُہا الناس" سے شروع ہوتی ہے۔
------------------------------------------------------------------
(۱) "بیانِ لکھنؤ" میں جہاں نصیر الدین حیدر کی تعریف شامل کی ہے، وہاں متعدد جملے ایسے لکھے ہیں جن کے متعلق یہ خیال کیا جا سکتا ہے (اور خیال کیا گیا ہے) کہ یہ تحسین نہیں، تعریض ہے اور مدح نہیں، ہجوِ ملیح ہے۔ مثلاً: "ایک ایک ادنیٰ کُنجڑن، ہفت ہزاریوں سے اعلیٰ بنائی۔ شہ زادیوں کو کہاریوں پر رشک آیا، خواصوں کو صاحبِ نوبت کیا۔۔۔ پیش خدمتوں نے بادشاہت کے چین کیے۔۔۔" (ص ۲۰) لیکن میرا خیال یہ ہے کہ یہاں وہی بے امتیازی کار فرما ہے جو اس کتاب میں سرورؔ کی تحریر میں کئی اور مقامات پر بھی شامل نظر آتی ہے۔ سرورؔ کسی بھی عنوان سے نصیر الدین حیدر سے ناخوش نہین تھے، جہاں بھی اُن کا ذکر کیا ہے، اچھے الفاظ میں اُنہیں یاد کیا ہے اور ہر جگہ مبالغہ آمیز تعریف کی ہے۔ قدسیہ محل (اور ملکہ ٔ زمانی) سے متعلق جن جملوں کو طنزیہ مانا گیا ہے؛ بہ ظاہر وہ سر تا سر طنزیہ معلوم ہوتے ہیں، مگر مصنف کا یہ مقصود نہیں ہو گا۔ اُس نے تو تعریف کی ہے اور اپنے خیال میں بات کو بہتر بنا کر پیش کیا ہے۔ یہ اُس کے طرزِ ادا کی خامی ہے کہ مفہوم میں ایسی پہلو داری چمک اُٹھی ہے جس نے تعریض کو نمایا کر دیا ہے۔ اس کو یوں بھی دیکھے کہ فسانۂ عبر میں نصیر الدین حیدر کے مرنے کے بعد، ویرانی کا جو احوال لکھا ہے (ص ۱۸ سے ص ۲۲ تک) اُس میں بھی بعض جملوں پر یہ شک ہو سکتا ہے کہ یہ طنزیہ ہیں، لیکن ایسا ہے نہیں۔ یہ ساری عبارت تو اُن کی تعریف کو نمایاں کرنے کے لیے لکھی گئی ہے۔ چوں کہ سرورؔ کی اس تحریر میں متعدد مقامات پر ایسی مثالیں موجود ہیں، اس لیے یہ بات اعتماد کے ساتھ کہی جا سکتی ہے ۔ ہاں اگر نصیر الدین حیدر کا کسی ایک جگہ بھی اُنھوں نے ذرا بھی بُرائی کے ساتھ ذکر کیا ہوتا، یا فسانۂ عبرت میں، جس میں اُن کے مرنے کے بعد اُن کا حال لکھا گیا ہے، ذرا بھی بُرائی کے ساتھ کچھ لکھا جاتا، تب بے شک یہ خیال قابلِ تسلیم ہو سکتا تھا۔
اور جس میں فارشی کی ایک رباعی بھی شامل ہے؛ اس کو پڑھ کر ہنسی آتی ہے۔
یہ بھی اِسی قبیل کی بے امتیازی کا اثر ہے کہ دہلی کی شدید مخالفت کے باوجود، کئی جگہ وہاں کی بعض خاص اشیا کا نام لینے لگتے ہیں، مثلاً: "تختِ طاؤس پر بٹھا نذریں دیں" (ص ۲۱۳)۔ "تختِ طاؤس" دہلی کی خاص چیز ہے۔ یا جیسے نصیر الدین حیدر کی مدح کے آخر میں جو دُعائیہ کلمات لکھے ہیں، اُن میں یہ جملہ بھی ہے: "جب تک گنگا جمنا میں پانی بہے، یہ خطۂ دل چسپ، فرح افزا آباد رہے۔" یعنی وہ گومتی کو بھول گئے اور گنگا جمنا کے لے آئے۔ یہاں میر امن کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے، جنہوں نے باغ و بہار میں گل کرسٹ کے لیےلکھا تھا: "ہمشہ اقبال اُن کا زیادہ رہے، جب تلک گنگا جمنا بہے۔" (میر امن نے "گنگا جمنا بہے" لکھا ہے اور سرورؔ نے "گنگا جمنا میں پانی بہے" اسی ایک جملے سے میر امن کی "ہُنر مندی" کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ سچ ہے: جاے اُستاد خالیست)۔ یا جیسے "ارگجۂ محمد شاہی" (ص ۱۳۷) جانِ عالم جو بندر کے قالب میں ہے، ایک جگہ کہتا ہے: "تیرھویں صدی ہے، نیکی کا بدلا بدی ہے" (ص ۲۳۶)۔ گویا پُرانے زمانے کی داستان کو اپنے زمانے می کھینچ لائے ہیں۔
لفظی رعایت اور قافیہ بندی کے التزام نے بھی بہت سے مقامات پر عبارت کو بے کیف بنایا ہے۔ قافیہ بندی سرورؔ کا ہُنر بھی ہے اور عیب تھی۔ جہاں جہاں سلیقے کے ساتھ وہ اسے برت گئے ہیں، وہاں جملہ چمک اُٹھا ہے۔ جہاں حُسنِ تناست اور سلیقہ کار فرما نہیں رہا ہے، وہاں بھدا پن آ گیا ہے؛ میں اس "بے ہُنری" کی صرف تین (۳) مثالیں پیش کرنے پر اکتفا کروں گا: (۱) "دانتوں کی آب سے گوہرِ غلطاں بے آب ہو جات اہے۔ معشوقوں کا اُن پر دانت ہے، دل و جاں وارتے ہیں۔ جب نظر سے پنہاں ہوں، ڈاڑھیں مارتے ہیں" (ص ۱۷۲)۔ اگر صرف پہلے ٹکڑے (دانتوں کی آب سے گوہرِ غلطاں بے آب ہو جاتا ہے) پر قناعت کر لیتے تو جملہ اُن کے خاص انداز کی اچھی ترجمانی کرتا۔ (۲) "اگر چاہ کسی کو چاے کی ہوئی، دودھ پیتے بچے تک شیر چاے موجود کر دی" (ص ۱۸)۔ (۳) "موسم کی تاک میں، تاک کا، مستوں کی روش جھومنا۔ غنچۂ سربسہ کا منہ تاک تاک کے چومنا۔" لفظی تکرار نے بیان کے حُسن کو ختم کر دیا ہے۔
جیسا کہ میں نے کہا ہے، قافیہ بندی سُرورؔ کی تحریر کا خاص جوہر ہے۔ اُن کا پسندیدہ انداز تو یہ ہے کہ کبھی ایک ٹکڑے اور کبھی دو (۲) ٹکڑوں کے بعد وہ ٹکڑا آتا ہے جس پر قافیے کی بنیاد ہوتی ہے۔ اور یہ بھی ہے کہ ایک ہی جملے میں (وہ چھوٹا ہو یا بڑا) قافیہ بندی کا حُسن موجود ہے، یا کئی جملے کسی فصل کے بغیر قافیہ بندی کی بہار دکھاتے ہیں۔ زیادہ مثالوں کی تو گنجائش نہیں، میں پہلے عبارت کا ایسا ٹکڑا پیس کرتا ہوں، جس میں یہ تینوں انداز موجود ہیں :
"یہاں نیند کہاں۔ جی سینے میں بے ارار، پہلو میں وہ خار۔ ہر دم آہِ سرد دلِ پُر درد سے بلند۔ چشمۂ چشم جاری، فریاد و زاری دو چند۔ جگر میں سوزِ فراق نہاں، لب سے دوسِ پنہاں عیاں، سینہ مجمر، دل و جگر سپند۔ یہ رباعی برزباں" (ص ۶۵) پہلا ٹکڑا مسجع بھی ہے اور مُقفا بھی اور خوب ہے۔ یہی ٹکڑا قافیہ بندی کی بنیاد بنتا ہے، یعنی آخری لفظ بنیادی قافیے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے بعد دو (۲) ٹکڑے آتےہیں جو "بےقرار" اور "خار" کے واسطے سے ہین قافیہ ہیں، ان درمیانی دو (۲) ٹکڑوں کے بعد تیسرا ٹکڑا آتا ہے، جس پہلے ٹکڑے کی رعایت سے "بلند" قافیہ بندی کا حُسن چمکا رہا ہے۔ پھر دو (۲) ٹکڑے آتے ہیں، جن میں سے پہلے ٹکڑے میں بیان کا توازن "جاری" اور "زاری" کے واسطے سے برقرار رکھا گیا ہے۔ اس کے بعد ایک ٹکڑا آتا ہے جو "دو چند" پر ختم ہوتا ہے اور اس طرح "بلند" سے قافیہ بندی کا پہلو روشن ہو اُٹھتا ہے۔ اس کے بعد دو (۲) ٹکڑوں کے آخر میں "نہاں" اور "عیاں" آتے ہیں، جو بنیادی قافیے کی طرف سے توجہ کو ختم نہیں ہونے دیتے۔ یہ بھی دیکھیے کہ اس عبارت کے پہلے ٹکڑے "یہاں نیند کہاں" کی رعایت سے اس ٹکڑے میں بھی وہی انداز موجود ہے "دودِ پنہاں عیاں" یعنی دونوں لفظ ہم قافیہ ہیں۔ یہ گویا وزن کو سنبھالنے اور بیان کے تناسب کو برقرار رکھنے کی نہایت کام یاب اور فن کارانہ کوشش ہے۔ ان کے بعد پھر دو (۲) ٹکڑے آتے ہیں، یہ دونوں ہم قافیہ نہیں ہیں، مگر دوسرا ٹکڑا "سپند" پر ختم ہوتا ہے، جو عبارت کے چوتھے ٹکڑے کے "بلند" اور چھٹے ٹکڑے
"دو چند" کا ہم قافیہ ہے اور اس ظرح بنیادی قافیے کا اہنگ ذہن کو تناسب اور توازن کے احساس سے خالی نہیں ہونے دیتا اور توجہ کو پوری طرح منعطف رکھتا ہے۔ اس عبارت کا اختتام جس ٹکڑے پر ہوتا ہے، وہ پہلے ٹکڑوں کی طرح دو (۲) اجزا کا مجموعہ نہیں، یہاں ایک ہی جُز ہے، مگر اس کے آخر میں "برزباں" آتا ہے، جو پہلے ٹکڑے کے بنیادی لفظ "کہاں " کے آہنگ کو دُہراتا ہے۔ اس ٹکڑے میں ایک ہی جُز کا ہونا فن کارانہ اندازِ نگارش کا اچھا نمونہ ہے، کیوں کہ اس طرح ذہن میں ابتدائی اور بنیادی آہنگ کی جھنکار اچانک اور پورے دباؤ کے ساتھ گونج اُٹھتی ہے۔ اگر یہاں بھی دو (۲) ٹکڑے ہوتے، تو یہ جھنکار اس قدر پُر شور نہ ہو پاتی، آہنگ تقسیم ہو کر کچھ ہلکا ہو جاتا ہے۔
(۲) ایک چھوٹے سے ٹکڑے کو دیکھیے: "اور تو اور شُہدا پیر بخارا کا، ٹِماسا، سید الشُہدا کا شیدا" (ص ۱۶)۔ "شُہدا"، "شُہَدا"، "شَیدا" میں صنعتِ تجنیس نے بیان کا جو حُس پیدا کیا ہے، اُسے صحیح معنی میں اُسی وقت سمجھا جا سکت اہے جب پڑھنے والا اس طرزِ ادا سے واقف ہو اور اُس کا ذہن اس کے پیدا کیے ہوئے حُسن اور لطف کو قبول کرنے کے لیے تیار بھی ہو۔ یہ تبھی ہو گا جب کلاسیکی اسالیب سے واقفیت ہو۔ اس ایک ٹکڑے میں تجنیس کے تین (۳) روپ نمایاں ہیں، انہیں معلوم اور محسوس کیے بغیر اس کو نہ تو پورے طور پر سمجھا جا سکتا ہے اور نہ اس سے لُطف اندوز ہو ا جا سکتا ہے۔ یہ احوال ہے ایک چھوٹے سے ٹکڑے کا، اس سے صورتِ حال کا کچھ اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
یہ ہے سرورؔ کی نثر کا حُسن۔ مزید مثالوں کی یوں ضرورت نہیں کہ ایک تو یہاں گنجایش نہیں، دوسرے یہ کہ اس اشارے کی روشنی میں پڑھنے والا خود ہی ایسے اجزا کو منتخب کرتا چلا جائے گا۔ یہ بھی عرض کروں کہ اس کتاب میں ایسے اجزا کی کمی نہیں جن میں مرصے سازی کا کمال نقطۂ عروج پر نظر آتا ہے؛ مگر بات وہی ہے کہ نگارش کے اس انداز اور ترصیع کے اس فن اور حُسن کو سمجھنے کے لیے ذہن کا تربیت یافتہ ہونا اور کلاسکی اسالیب سے واقفیت ضروری ہے؛ ورنہ یہ سب بے جان لفظوں کا کھیل نظر آئے گا۔
اس کتاب میں کئی مقامات پر یہ صورتِ حال سامنے آتی ہے کہ قافیہ بندی میں تقٖیے کی بنیاد، معمول کے مطابق تلفظ پر نہیں، کتابت پر نظر آتی ہے۔ اُردو میں ایک زمانے تک، بل کہ یوں کہیے کہ اس صدی کے اوائل تک آخرِ لفظ میں واقع یا ے معروف و مجہول کی کتابت میں امتیاز کو ملحوظ نہیں رکھا جاتا تھا، یہی احوال سرورؔ کے زمانے میں تھا۔ سرورؔ نے ایسے الفاظ سے بھی قافیہ بندی کا فائدہ حاصل کیا ہے جو تلفظ میں مختلف ہیں، مگر کتابت میں وہ اختلاف قطعیت کے ساتھ نمایاں نہیں ہوتا۔ مثلاً اس جملے کو دیکھیے: "شب کو نالہ تھا، دن کو زاری تھی؛ دن رات اُس پر سخت بھاری تھے" (ص ۱۵۴)۔ اس میں "زاری تھی" اور "بھاری تھے" پر قافیہ بندی کی بنیاد ہے، تلفظ دونوں جگہ مختلف ہے (تھی – تھے) مگر (پُرانے چلن کے مطابق ) کتابت دونوں جگہ یکساں رہ سکتی ہے اور اسی بنا پر ان ٹکڑوں کو قافیہ بند کیا گیا ہے۔
یا جیسے یہ ٹکڑا: "پپڑی لذیذ، دبیز، بسی بسائی، پستہ و بادام کی ہوائکی؛ ہونٹ سے چبائے، دانت اک اُس پر تمام عمر دانت رہے، لگانے کی نوبت نہ آئے" (ص ۶)۔ یہاں بھی "ہوائی" اور "چبائے" اور "نہ آئے" میں یہی انداز کار فرما ہے۔ ایک اور جملہ: "ہر قدم پر کبکِ دری چال بھول کر جبینِ نیاز رگڑتے، شاخِ سرو شمشاد قامتوں کے رو بہ رو نہ اکڑتی" (ص ۱۰)۔ یہاں بھی "رگڑتے" اور "اکڑتی" میں یہی صورت ہے۔ (پُرانی کتابت میں "رگڑتے، اکڑتے" یا "رگڑتی، اکڑتی" لکھا جا سکتا تھا اور لکھا جاتا تھا؛ اسی پر تقفیے کی بنیاد ہے)۔
تقٖیے کے علاوہ رعایتِ لفظی کے کام بھی یہ صورت آ سکتی تھی، اس کی مثال بھی موجود ہے۔ مطبع میر حسن کی تعریف میں سرورؔ نے لکھا تھا: "ہر پتھر ہم سنگِ گوہ طور ہے؛ کسی پر جلی لکھا، کوئی قلم مو سے مسطور ہے (۱)" (ح ص ۱۵)۔ یہاں "طور" کی رعایت سے "موسی" لایا گیا ہے۔ اَسے "قلم موسے"
--------------------------------------------------------------
(۱) بعد میں سرورؔ نے اس جملے کو اس طرح بدل دیا: "یہ صفا اگر بہ غور دیکھو تو قلم مو سے یہ لکھا ہے کہ ہر پتھر پر طور کا جلوہ ہے" (ص ۲۳)۔
یا "قلمی موسی" لکھا جائے؛ تو "موسیٰ" بھی پڑھنے میں آئے گا اور اسے "موسے" بھی پڑھا جا سکتا ہے (جس طرح پڑھنا چاہیے) یوں لفظی رعایت کا فائدہ حاصل ہو جائے گا اور بنا اس رعایت کی اُسی اندازِ کتابت پر ہے۔ ضمیمۂ تشریحات میں ایسے مقامات کی نشان دہی کر دی گئی ہے۔
خطی نسخے
یہ عجیب بات ہے کہ مکمل کتاب کو کوئی ایسا خطی نسخہ اب تک علم میں نہیں آ سکا ہے جو عہد مصنف کا لکھا ہوا ہو۔ اطہر پرویز مرحوم نے اپنے مرتبہ فسانۂ عجائب کے مقدمے میں ایک خطی نسخے کا حوالہ دیا ہے جو علی گڑھ یونی ورسٹی لائبریری میں ہے؛ لیکن بہ قولِ مرحوم: "اُس پر نہ کاتب کا نام درج ہے اور نہ سن (کذا) تحریر موجود ہے، جس سے اُس نسخے کے بارے میں زیادہ معلومات حاصل ہو سکیں" (ص ۴۸) اس بنا (۱) پر اس کو شمار میں نہیں لایا گیا۔
اس نایابی کی بہ ظاہر ایک وجہ سمجھ میں آتی ہے۔ سُرورؔ نے شرفُ الدولہ کی مدح میں جو نثر لکھی ہے، اُس کے آخر میں یہ بھی لکھا ہے: "بندہ بھی خوش طالعی سے ملازمت کا شرف اندوز ہوا۔۔۔ اس کہانی کی بھی آبرو ہوئی۔ ہر ایک کو خواہش ہوئی، جست وجود ہوئی۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ لکھی نہ گئی، چھپنے کی صلاح ٹھہری" (ص ۳۵۲)۔ یعنی شرفُ الدولہ سے وابستگی
----------------------------------------------------------------
(۱) مرحوم نے ۔۔۔۔ ذیل میں یہ بھی لکھا ہے کہ اس نسخے کے "بیانِ لکھنؤ" میں "تقریباً پانچ چے صفحے زیادہ ہیں، جو کسی مطبوعہ نسخے میں نہیں ملتے" مرحوم نے اُن زائد صفحات کو اپنے نسخے میں شامل کر لیا ہے، لیکن میں نے ایک مجہول اُلاحوال نسخے کی بنیاد پر اس اضافے کو قبول کرنا احتیاط کے مناجفی خیال کیا۔ مصنف نے کئی بار اس کتاب پر نظرِ ثانی کی ہے اور کسی نسخے میں ایسے کسی اضافے کا پتا نشان نہیں ملتا۔ مجھے ایسا کوئی قرینہ نظر نہیں آیا جس کی بِنا پر میں اُس زائد حصے کو شاملِ متن کر سکتا۔
ادارۂ ادبیاتِ اُردو (حیدر آباد) میں فسانۂ عجائب کا ایک خطی نسخہ ہے، مگر وہ مطبوعہ نسخے کی نقل ہے (رجب علی بیگ سرور، ص ۱۴۰)۔
کے بعد اُن کی اِس کتاب کو شہرت ملی۔ اسی نثر میں اُنھوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ :"برسوں یہ فسانہ کساد بازاریِ زمانہ سے تہ رہا، مشہور نہ ہوا" اور اس سے بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ شہرت کے ساتھ ہی جلد چھپنے کی صلاح ٹھہر گئی؛ یوں گویا اس کی نقلیں تیار کرنے کی نوبت نہیں آئی۔ اس کے باوجود، چند خطی نسخے تو بہ ہر حال تیار کیے ہی گئے ہوں گے۔ ایک تو وہی نسخہ ہو گا جسے پہلی بات چھپنے کے لیے مطبعے میں دیا گیا ہو گا۔ خیالِ غالب یہ ہے کہ یہ کتاب اُنھوں نے غازی الدین حیدر اور نصیر الدین حیدر کی خدمت میں بھی پیش کی ہو گی؛ دو (۲) نسخے وہ ہو سکتے ہیں۔ پھر جب ۱۲۶۷ھ میں اُنھوں نے مطبعِ محمدی کان پور میں چھپنے کے لیے اس کتاب پر اس طرح نظرِ ثانی کی کہ ایک نیا نسخہ بن گیا، تو ظاہر ہے کہ اُسے بھی مستقل اور مکمل مسودے کی شکل میں دیا گیا ہو گا؛ کیوں کہ عبارتیں اس طرح بدلی ہیں اور اس قدر اضافے کیے ہیں کہ پچھلے مطبوعہ نسخے پر وہ سارا عمل نہیں کیا جا سکتا تھا۔ بہ ہر صورت، یہ واقعہ ہے کہ اب تک اس کتاب کے کسی ایسے خطی نسخے کا پتا نہیں چل سکا ہے جو مکمل کتاب پر حاوی ہو، عہدِ مصنف کا مکتوبہ ہو اور جس سے متن کی تصحیح و ترتیب میں مدد لی جا سکے۔
مطبوعہ نسخے
یہ حصہ چار (۴) فصلوں پر مشتمل ہے۔ پہلی فصل میں اُن نسخوں پر گفتگو کی جائے گی جن کو تصحیحِ متن کے سلسلے میں پیشِ نظر رکھا گیا ہے۔ دوسری فصل میں اُن چند نسخوں کا مختصراً ذکر کیا جائے گا جو محض قدامت کی وجہ سے کسی حد تک قابلِ ذکر ہیں۔ تیسری فصل میں ایک جعلی نسخے کا ذکر آئے گا اور ایک ایسے نسخے کا، جسے سُرورؔ کا نظرِ ثانی کردہ نسخہ فرض کر لیا گیا ہے اور چوتھی فصل میں "فسانۂ عجائب کا بنیادی متن" پر مختصر سی گفتگو کی جائے گی۔
پہلی فصل – مصنف کی زندگی میں یہ کتاب بارہا چھپی ہے، مگر ایسے سب نسخے ہمارے کام کے نہیں۔ سُرورؔ نے اشاعتِ اول کے بعد چار نسخوں پا باقاعدہ نظرِ ثانی کی ہے اور اس کی وضاحت بھی کر دی ہے۔ اس لحاظ سے اشاعتِ اول اور وہ چار نسخے جن پر نظرِ ثانی کی گئی ہے (کُل پانچ نسخے) یہ حیثیت رکھتے ہیں کہ متن اور اختلافِ متن کی بحث میں اُن کو لازماً پیشِ نظر
رکھا جائے (ایک نسخہ یعنی نسخۂ د بحث طلب ہے، اس لیے اُس کو اس فہرست میں شامل نہیں کیا گیا۔ تعارف اُس کا ضرور کرایا گیا ہے اور تعارف کے ذیل میں بحث طلب پہلو پر گفتگو کی گئی ہے)۔ دو (۲) نسخے اور ایسے ہیں جو بعض دیگر وجوہ سے (جن کی صراحت کی جائے گی) مرتب کی نظر میں اس کا استحقاق رکھتے ہیں کہ اُن کو بھی پیشِ نظر رکھا جائے۔ اس لحاظ سے کُل آٹھ (۸) نسخے ایسے ہوتے ہیں جن کا اصولی طور پر تعارف کرانا ضروری ہے۔
(۱) اب تک کی معلومات کے مطابق اس کتاب کا پہلا مطبوعہ اڈیشن وہ ہے جو میر حسن رضوی کے مطبعِ حسنی سے ۱۲۵۹ھ میں شائع ہوا تھا۔ اس کے سر ورق پر یہ عبارت ملتی ہے: "اُفوِضُ امری اِلَی اللہِ اِنَ اللہَ بَصیرٌ بالعبادَ/قصہ زبانِ اردو از تصنیفات مرزا رجب علی بیگ متخلص بسرور مسمی / بفسانہ عنائب / دربیت السلطنت لکھنؤ بمحلۂ محمود نگر در ۱ٍ۲۵۹ھ / بمطبع حسنی میر حسن رضوی طبع گردید"۔ اس کے آخر میں (سرورؔ کی منظوم تاریخ کے بعد) شرفُ الدولہ کی مدح میں ایک (۱) نثر ہے جو صفحۂ آخر کی تیسری سطر تک ہے۔ اُس کے بعد خاتمتُ الطبع کی یہ عبارت ہے : "للہ الحمد و المنۃ کہ نسخۂ عجیبہ و قصۂ غریبہ جان عالم شاہزادہ بزبان اردو مسمی بفسانۂ عجائب از مصنفات مرزا رجب علی بیگ متخلص بسرور کہ بیک واسطہ سلسلۂ تلمذ را بجرات (۲) می رسانند درماہ جمادی الثانیہ روز شنبہ تاریخ نہم (۹) ۱۲۵۹ ہجری در عہد دولت مہد امجد علی شاہ بادشاہ خَلَد اللہ ملکہ و سلطانہ در مطبع حسنی میر حسن رضوی ولد میر حسین عرف میر کامل در بیت السلطنت لکھنؤ بمحلۂ محمود نگر طبع نمود۔" اس کے بعد شیخ کرامت علی اظہرؔ کا دو (۲) اشعار کا قطعۂ تاریخِ طبع ہے۔ اُس کے نیچے جلی قلم سے "تمام شد" لکھا ہوا ہے۔ کُل صفحات ۲۱۰ ہیں۔ مسطر اُنیس (۱۹) سطری ہے۔ کتابت، طباعت اور کاغذ کے لحاظ سے اسے بہت اچھا اڈیشن کہا جا سکتا ہے۔ کاغذ عمدہ ہے اور رنگین جدول کشی کی گئی ہے۔ اغلاطِ
-------------------------------------------------------------
(۱) یہ نثر اس کتاب کے پہلے ضمیمے میں شامل کر لی گئی ہے۔ یہ نثر ح کے علاہ، م، د اور نسخہ مطبوعۂ مطبع کریم الدین میں بھی موجود ہے۔
(۲) کذا۔ لیکن م، د اور نسخہ کریم الدین میں یہاں "میر سوز" ہے۔
اس اڈیشن کے سلسلے میں دو (۲) باتیں قابلِ ذکر ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ کہیں نہیں لکھا ہوا ہے کہ یہ اس کتاب کا پہلا اڈیشن ہے؛ لیکن ۱۲۶۳ھ میں جب اسی مطبعے سے یہ دوبارہ شائع ہوا، تو اُس پر "بارِ دوم" لکھا ہو اہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ۱۲۵۹ھ والا یہ اڈیشن اس مطبع کا پہلا اڈیشن ہے۔ چوں کہ اس سے پہلے کا کہیں کا چھپا ہوا کوئی اڈیشن اب تک سامنے نہیں آیا ہے، اس لیے یہ مان لیا گیا ہے کہ اس کتاب کا یہی پہلا اڈیشن (۱) ہے۔ شرفُ الدولہؔ کی مدح کی شمولیت بھی ایک قرینے کا حکم رکھتی ہے۔ دوسری قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہ نسخہ چھپا ہے ۱۲۵۹ھ میں، یعنی عہدِ امجد علی شاہ میں۔ امجد علی شاہ ۵ ربیع الثانی ۱۲۵۸ھ کو تخت نشیں (۲) ہوئے تھے، تو اس لحاظ سے اس میں شرفُ الدولہ کی مدح شامل نہیں ہونا چاہیے تھی، کیوں کہ امجد علی شاہ اُن سے خوش نہیں تھے۔ تخت نشینی کے کم و بیش تین ماہ بعد امجد علی شاہ نے اُن کو وزارت کے عہدے سے الگ کر (۳) دیا تھا۔ لیکن حقیقتاً اس میں کچھ اشکال نہیں۔ عہدِ شرفُ الدولہ میں بہ قولِ سرورؔ اس کتاب کے چھپنے کی صلاح ٹھہری تھی۔ جب یہ کتاب چھپنے کے لیے گئی ہو گی تو عہدِ محمد علی شاہ ہو گا۔ اور اُس وقت شرفُ الدولہ با اختیار تھے۔ کتابت اور طباعت میں وقت تو لگتا ہی ہے۔ چھپ کر آئی امجد علی شاہ کے عہد میں۔ یوں یہ مدحیہ نثر اس نسخے میں (۴) موجود رہی۔ لیکن بعد کے نسخوں سے سُرورؔ نے اس کو خارج کر دیا اور اس کی اصل وجہ یہی ہو گی کہ وہ معتوب ہو چکے تھے اور بے اختیار، اور اب سُرورؔ اپنے کو اُن کے متوسلین اور مدح طرازوں میں شمار کرانا نہیں چاہتے تھے کہ اس سے نقصان پہنچ سکتا تھا۔ (مگر اس احتیاط کے باوجود
----------------------------------------------------------------
(۱) ل میں شامل عنایت حسین کے قطعے سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہی پہلا اڈیشن تھا۔ دیکھیے نسخۂ ل کا تعارف۔
(۲) فسانۂ عبرت، ص ۵۵۔
(۳) سرورؔ نے فسانۂ عبرت میں ۱۲۵۸ھ کے بعض واقعات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے: "نویں رجب پنجشنبے کا روز تھا کہ نواب شرفُ الدولہ بہادر خانہ نشین۔۔۔ ہوئے" (ص ۶۰)۔
(۴) یہ نثر اب تک کی معلومات کے مطابق چار نسخوں کے آخر میں شامل ہے ایک تو یہی نسخہ، دوسرا مطبعِ مصطفائی (۱۲۶۲ھ) کا نسخہ، تیسرا مطبعِ حیدری(۱۲۶۲ھ) کا نسخہ اور چوتھا وہ نسخہ جسے مولوی کریم الدین نے چھاپا تھا۔
(غالباً اسی وجہ سے) نقصان پہنچا، اور وہ امجد علی شاہ کے زمانے میں پریشاں حال رہے۔ بہ ظاہر یہی وجہ معلوم ہوتی ہے کہ فسانۂ عبر میں سرورؔ نے امجد علی شاہ کی سخت مذمت کی ہے)۔
املا کے لحاظ سے اس نسخے مین وہ ساری باتیں موجود ہیں جو پُرانی کتابوں میں بالعموم پائی جاتی ہیں، یعنی یاے معروف و مجہول اور ہاے ملطوظ و مخلوط میں عدمِ امتیاز، آخرِ لفظ میں واقع نونِ غنہ پر بھی ہر جگہ نقطے کا موجود ہونا، پیراگرافوں کا نہ ہونا (وغیرہ)۔ البتہ ایک قابلِ ذکر بات اس سلسلے کی یہ ضرور ہے کہ اس نسخے میں ڈال اور ڑے کو اُسی طرح لکھا گیا ہے۔جس طرح ہم آج کل لکھتے ہیں (یعنی ڈ، ڑ) مگر ٹ کی دو (۲) صورتیں ملتی ہیں : اکثر مقامات پر دو (۲) نقطوں پر ط ملتی ہے، جیسے : تپّہ، بیتہ کر؛ اور بعض جگہ صرف ط ملتی ہے، جیسے: کاٹی (ص ۲۷) اس نسخے کا نشان ح ہے۔
(۲) زمانی ترتیب کے لحاظ سے دوسرا قابلِ ذکر نسخہ وہ ہے جسے محمد مصطفا خاں نے اپنے مطبعِ مصطفائی میں چھاپا تھا۔ اس کے آخر میں جو عبارتِ خاتمتُ الطبع ہے، اُس میں مرقوم ہے کہ : "اہتمام بندۂ خیر اندیش۔۔۔ محمد مصطفی خاں ولد حاجی محمد روشن خاں مرحوم سے بہ تصحیح عبد الغنی مطبع مصطفائی واقع محلۂ محمود نگر زیر اکبری دروازہ من محلات بیت السلطنت لکھنؤ میں بیچ اکیسویں محرم ۱۲۶۲ ہجری کے حلۂ انطباع پہنا۔"
اس نسخے پر سرورؔ نے نظرِ ثانی نہیں کی ہے اور ناشر نے اس کا دعوا بھی نہیں کیا ہے (۱)۔ شرفُ الدولہ کی مدح اس کے آخر میں شامل ہے۔ ایک خاص بات یہ ہے کہ اس اشاعت میں بین السطور بعض لفظوں کے اور عربی کی عبارتوں کے معنی لکھے گئے ہیں۔ بہ ظاہر یہ اضافہ
-----------------------------------------------------------
(۱) اطہر پرویز مرحوم نے اپنے مرتبہ نسخے کے مقدمے میں لکھا ہے کہ مطبعِ مصطفائی کے نسخے پر بھی سرورؔ نے نظرِ ثانی کی تھی (ص ۳۸)۔ اُن کی یہ راے مبنی ہے خاتمتُ الطبع کی اُس عبارت پر جس کو اُنھوں نے اس کے بعد نقل کیا ہے۔ (ص ۴۰ پر بھی اُنھوں نے یہی راے ظاہر کی ہے۔) مرحوم کو غلط فہمی ہوئی، جس عبارت کو اُنھوں نے مطبعِ مصطفائی کے حوالے سے نقل کیا ہے، وہ دراصل نسخۂ محمدی کان پور کی ہے۔
اربابِ مطبع کی کارگزاری سے تعلق رکھتا ہے، اشاعتِ اول میں یہ چیز موجود نہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ "بیانِ لکھنؤ" میں جہاں سرورؔ نے لکھنؤ کے مطبعوں کا ذکر کیا ہے، وہاں اشاعتِ اول (ح) میں میر حسن رضوی اور اُن کے مطبے کی تعریف لکھی ہے؛ اس نسخے میں اُس عبارت سے میر حسن کا اور اُن کے مطبعے کا نام نکال دیا گیا ہے۔ یہ احتیاط ضرور کی ہے کہ اُس کی جگہ اپنے مطبعے کا نام شامل نہیں کیا، بل کہ اُس عبارت کو اس طرح بنا دیا ہے کہ لکھنؤ کے عام مطبعوں کی تعریف کا انداز آ گیا ہے۔ اسے تصرف کہا جائے گا۔
ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ نسخہ م کس نسخے پر مبنی ہے۔ میں نے نسخہ ح سے جو تقابل کیا (یوں کہ اُس سے پہلے کا کوئی مطبوعہ یا خطی نسخہ ہمارے سامنے موجود نہیں) تو یہ بات سامنے آئی کہ بہ طورِ عموم تو اس کا متن ح سے مطابقت رکھتا ہے (اور غالباً اسی بنا پر مدحِ شرف الدولہ بھی اس میں شامل ہے) لیکن بعض مقامات پر اس کا متن ح سے مختلف ہے اور اس سے واضح طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ناشر کے سامنے طبع اول (ح) کے علاوہ کوئی اور نسخہ بھی تھا (ایک سے زیادہ نسخے بھی ہو سکتے ہیں)۔ مختلف مقامات پر اختلافِ متن کا احوال ایک جیسا نہیں، مختلف صورتیں ملتی ہیں۔ کہیں تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہاں مصحح نے بہ طورِ خود تصحیح کی ہے۔ کہیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ کسی دوسرے نسخے کے متن کو ترجیح دی گئی ہے، اور کئی مقامات پر یہ دل چسپ صورت سامنے آتی ہے کہ اس نسخے میں جو متن ہے، وہ ح سے مختلف ہے، لیکن بعد می اُن اشاعتوں سے مطابقت رکھتا ہے جن پر مصنف نے نظرِ ثانی کی تھی؛ اور اس کا سیدھا سا مطلب یہ وا کہ ناشر کے سامنے کوئی ایسا نسخہ بھی تھا جس پر مصنف نے کچھ مقامات پر تصحیح و ترمیم کی تھی، اور یہ بہت اہم بات ہے۔ بعض مثالوں سے ان صورتوں کی وضاحت ہو سکے گی۔ صفحات نمبر زیرِ بحث نسخۂ مصطفائی کے ہیں:
(۱) ص ۶۶، س ۵ : "تاجِ خسروی بر سر"۔ اس میں "خسروی" پر ن لکھ کر حاشیے میں "خسروانہ" لکھا گیا ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ دو (۲) نسخے سامنے ہیں، ایک میں خسروی ہے اور ایک میں خسروانہ۔ ح میں "خسروانہ" ہے، یعنی یہاں ح کے متن کو قبول نہیں کیا گیا (بعد کے نسخوں کا متن ح کے مطابق ہے، یعنی اُن میں "خسروانہ" ہی ہے۔ ہمارے نسخے میں بھی یہی ہے (ص ۱۱۲)
(۲) ص ۷۱، س ۸ : "تیر سے چھد کر جہنم واصل وہ حواصل ہو گیا ہے۔" ح میں "وہ حواصل" موجود نہیں، اُس میں یوں ہے: "جہنم واصل ہو گیا ہے" (ح ص ۷۶)۔ ض اور ف میں "جہنم واصل وہ حواصل ہو گیا ہے" ہے (ض ص ۷۶، ف ص ۴۷)۔ یعنی اس مقام پر م میں جو متن اختیار کیا گیا ہے، وہ وہی ہے جو بعد کے اُن دو (۲) نسخوں میں ہے جن پر مصنف نے نظرِ ثانی کی تھی (ک میں سرورؔ نے اس کو یوں بنایا تھا: جہنم واصل وہ الو کا پٹھا حواصل ہو گیا ہے" (ص ۴)) اسی کو ل میں برقرار رکھا۔ ہمارے نسخے میں یہ ص ۱۲۰ پر ہے)۔ (۳) ہمارے نسخے میں ص ۱۲۹ کے آخر سے ایک غزل شروع ہوتی ہے، جس کے شروع میں "شاعر" کے نام کی جگہ "مؤلف" لکھا ہوا ہے۔ ض (یعنی مصنف کے نظرِ ثانی کیے ہوئے پہلے نسخے) میں بھی یہاں "مؤلف" لکھا ہوا ہے۔ مگر ح یں اس مقام ہر کوئی لفظ نہیں (ص ۸۲) اس کے برخلاف م میں "مؤلف" لکھا ہوا ہے (ص ۷۷)۔ مطلب یہی نکلا کہ ناشر کے سامنے کوئی ایسا نسخہ بھی تھا جس کا متن اس مقام پر ح سے مختلف تھا اور اُن نسخوں سے مطابقت رکھتا تھا جن پر مصنف نے نظرِ ثانی کی ہے۔ (۴) غازی الدین حیدر کی مدح میں ح میں ایک ٹکڑا یہ ہے : "بلی کی جبلی یہ کہ کبوتر سے ہراساں۔" م میں بھی اسی طرح ہے، جب کہ بعد کے نظرِ ثانی شدہ نسخوں (بہ شمول ل) میں "بلی کی عادتِ جبلی" ہے۔ یعنی اس مقام پر م کا متن ح کے عین مطابق ہے۔ (۵) اسی بیان میں ح میں ایک جملہ یوں ہے: "دودِ دلِ اندوہ ناک روزنِ ہر خانے سے مسدود۔" م میں بھی "ہرخانے سے" ہے، جب کہ بعد کے نسخوں میں "ہرخانہ سے" ہے۔ یہاں بھی ح اور می میں مطابقت ہے، جیسے ح کے متن کی نقل کی گئی ہو۔ (۶) ہمارے نسخے میں ص ۱۷۱ پر "مولٖف" کا ایک شعر یوں ہے :
مر کے حاصل کیا فرقت ہی میں لُو نامِ وصال
جان دی ہم نے، مٹایا ہے خلش ہجراں کا
اس کتاب کے اور سب نسخوں (ح، ض، ف، ک، ل ، ن) میں یہ شعر اسی طرح ہے؛ مگر م میں آخری جُز یوں ہے : "مٹایا خلشِ ہجراں کو" (ص ۱۰۰) اور صاف ظاہر ہے کہ اس مقام پر مصح نے، یہ خیال کر کے کہ لفظِ "خلش" تو مونث ہے، تصحیح سے کام لیا اور
آخری ٹکڑے کو اس طرح بدل دیا کہ تذکیر و تانیث کا جھگڑا ہی نہ رہے۔ یہ کُھلی ہوئی تحریف ہے۔ (۷) ہمارے نسخے میں ص ۳۰۸ پر عربی کا ایک ٹکڑا یوں ہے: القلیلُ کالمعدوم۔ اور سب نسخوں میں بھی یہی ہے، جب کہ م میں "النادر کالمعدوم" ہے (ص ۱۷۳)۔ یہاں بھی مصح کے قلم کی کارگزاری معلوم ہوتی ہے، کیوں کہ اصلاً مثل اسی طرح ہے۔ یعنی مصح نے ایک غلطی کی بہ طورِ خود تصحیح کی ہے۔ (۸) ہمارے نسخے میں ص ۹۱ پر ایک شعر ہے :
لطفِ شبِ مہ اے دل اُس دم تجھے حاصل ہو
اک چاند بغل میں ہو، اک چاند مقابل ہو
ح میں بھی اور ض، ف اور ل میں (یعنی مصنف کے آخری نظرِ ثانی کردہ نسخے میں بھی) یہ شعر "بقاؔ" سے منسوب جہے۔ ک میں "بقا" کی جگہ "لا اعلم" لکھا ہوا ہے۔ صرف م میں "ہوس" لکھا گیا ہے، اور یہ واقعہ ہے کہ یہ شعر ہوسؔ کا ہے۔ یہاں صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ مصح نے ح میں منقول "بقا" کو قبول نہیں کیا، بل کہ اپنی طرف سے اُس شاعر کا نام لکھا ہے، واقعتا یہ شعر جس کا ہے (۱)۔ (اب اسے آت تصحیح کہہ لیجیے یا تحریف)۔ (۹) آخرِ کتاب میں نوازشؔ کا جو قطعۂ تاریخ ہے، ح میں اُس کا دوسرا شعر یوں ہے : سرور ایں مثنوی چوں کرد ایجاد۔ (ظاہر ہے کہ "مثنوی" یہاں قطعاً بے محل ہے) نسخۂ مصطفائی میں یہ مصرع اس طرح ملتا ہے: سرور ایں داستاں چوں کرد ایجاد (۲)۔ (یہ غالباً اصلاح ہے۔
-----------------------------------------------------------------
(۱) چوں کہ اور نسخوں کے ساتھ ساتھ نسخۂ ل میں بھی "بقا" ہے، اس لیے ہم نے بھی (اصولِ تدوین کے مطابق) متن میں اسی کو برقرار رکھا ہے، مگر ضمیمۂ انتسابِ اشعار میں (ص ۴۰۱ پر) یہ صراحت کر دی ہے کہ یہ شعر دراصل ہوسؔ کا ہے۔
(۲) اس مصرعے کا اختلاف درج کیا جاتا ہے۔ ح، د، ک : سرور ایں مثنوی چوں کرد ایجاد۔ م :
سرور ایں داستاں چوں کرد ایجاد۔ ض، ف، ل، ن : سرور ایں قصہ را چوں کرد ایجاد۔
اس قطعے کا آخری مصرع بھی توجہ طلب ہے، جس میں مادۂ تاریخ نظم کیا گیا ہے، پورا شعر یوں ہے :
بجستم سالِ تاریخش نوازشؔ
فلک این گلستانِ بے خازں داد
میرا خیال ہے کہ ابھی چند مثالوں سے صورتِ حال کی وضاحت ہو گئی ہو گی۔ میری جمع کی ہوئی ابھی اور دس بارہ ایسی مثالیں باقی ہیں، لیکن طوالت کے خیال سے اُنہیں شامل بحث نہیں کیا گیا۔ کُل صفحات ۱۹۸ ہیں۔ مسطر اکیس (۲۱) سطری ہے۔ کتابت، طباعت، کاغذ کے لحاظ سے اسے بلا تکلف اعلا درجے کا اڈیشن کہا جا سکتا ہے۔ املا کے لحاظ سے وہی احوال ہے جس کی وضاحت نسخۂ ح کے ذیل میں کی جا چکی ہے، صرف اس فرق کے ساتھ کہ اس میں ٹ کو ہر جگہ ت لکھا گیا ہے۔ جو تفصیل پیش کی گئی، اُس کے لحاظ سے یہ نسخہ بجاے خود اہمیت رکھتا ہے اور اسی لیے اسے قابلِ ذکر نسخوں کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔
(۳) ۱۲۶۲ھ کا چھپا ہوا ایک مجموعہ ہے دو (۲) کتابوں پر مشتمل : حوض میں دیوانِ جانصاحبؔ ہے اور حاشیے پر فسانۂ عجائب۔ دیوانِ جانصاحبؔ کے اختتام پر مطبعے کی طرف سے جو نثرِ خاتمہ لکھی گئی ہے، اُس میں یہ مرقوم ہے کہ جانصاب کے دیوان کا یہ نسخہ "سید علی الزمان صاحب" کو کوشش سے ۱۷ ربیع الثانی ۱۲۶۲ھ کو "در رکاب گنج جدید باہتمام کار پردازان مطبع حیدری" چھاپا گیا۔
اس کتاب کے دو (۲) نسخے میرے سامنے ہیں۔ ان میں سے ایک نسخہ (جو نیر مسعود صاحب کا عطیہ ہے) ناقص الاول بھی ہے اور ناقص الآخر بھی۔ دوسرا نسخہ (جو پروفیسر محمود الٰہی کے توسط سے حاصل ہوا ہے) مکمل ہے، مگر ذرا سی خرابی اُس میں یہ ہے کہ آخری صفحے کے حاشیے کا بایاں گوشہ تھوڑا سا غائب ہے، اور اُسی جگہ عبارتِ خاتمتۃ الطبع مرقوم تھی؛ مگر اس عبارت کے بعض ٹکڑے پڑھنے میں آ جاتے ہیں۔ البتہ تاریخ کی جگہ صرف "ربیع ۱۱"
------------------------------------------------------------------
اس میں مادۂ تاریخ "گلستانِ بے خزاں داد" ہے۔ بہ قولِ ڈاکٹر گیان چند جین: "جملے کے ایک جُزو کو تاریخ کا مادہ بنانا نہایت خام کارانہ ہے۔ یا تو پورا مصرعہ مادۂ تاریخ ہو، یا محض گلستانِ بے خزاں۔" (اُردو کی نثری داستانیں، ص ۵۹) اور یہ اعتراض بالکل درست ہے۔ زبان، بیان، تاریخ؛ ہر لحاظ سے یہ قطعۂ تاریخ "بغایت پست" کے ذیل میں آتا ہے۔
باقی رہ گیا ہے۔ اسے "ربیع الثانی" مانا جا سکتا ہے؛ مگر دل چسپ بات یہ ہے کہ جس قدر عبارت پڑھنے میں آتی ہے، وہ "ربیع اا" کے سوا، وہی ہے جو نسخۂ ح میں ہے۔
اس نسخے کی سب سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس میں غازی الدین حیدر کا نام موجود نہیں؛ ان کے بجائے "ابو الظفر مصلح الدین ثریا جاہ سلطان عاسل محمد امجد علی شاہ پادشاہ غاری" لکھا گیا ہے۔ مدحیہ عبارت کچھ نئی ہے، کچھ وہی ہے جو ح میں ہے۔ اُن کی مدح میں بہ ذیلِ دین داری و دعدالت یہ بھی لکھا گیا ہے: "اکل حلال کی ہر دم خیال ہے۔۔۔ عدل مزاج میں ایسا ہے کہ کسی اور کا اعتبار نہ کیا، مجتہد کو عدالت کا مختار کر دیا۔ؔ یہ بیان امجد علی شاہ کے حالات سے مطابقت رکھتاہے (کہ اُنہیں مذہبیت میں غلو تھا)۔ شروعِ کتاب میں جہاں بادشاہِ وقت کی مدح تھی، وہاں سے تو غازی الدین حیدر کا نام نکال دیا گیا، لیکن آگے چل کر وہ عبارت بلفظہ موجود ہے جس میں یہ لکھا ہے کہ "یہ فسانہ بہ عہدِ دولتِ شاہ غازی الدین حیدر شروع ہوا تھا اور تمام بعٖصر سلطان ابن سلطان ابو النصر نصیر الدین حیدر دام ملکہ ہوا۔" نصیر الدین حیدر کی مدح میں اس مقام پر جو عبارت ح میں ہے، وہ سب اس میں بھی بعینہ موجود ہے (اور نصیر الدین حیدر کے لیے "دام ملکہ" بھی موجود ہے!)۔ اور ہاں، اس نسخے کے سر ورق پر یہ بھی مرقوم ہے کہ یہ کتاب "بہ تصحیحِ مصنافاں" چھی ہے؛ یعنی سرورؔ نے اس پر نظرِ ثانی کی ہے۔
امجد علی شاہ سے متعلق عبارت دیکھ کر تو یہ بات ماننا پڑتی ہے کہ اس نسخے پر مصنف نے نظر ثانی کی ہے اور یہ تبدیلی کی ہے کہ پچھلے بادشاہ، یعنی غازی الدین حیدر کا نام نکال کر، اپنے زمانے میں موجود بادشاہ کا نام شامل کر دیا۔ بہ ظاہر اس میں کوئی الجھن نہیں آتی؛ لیکن میرے ذہن میں دو (۲) سوال پیدا ہوتے ہیں : (۱) مدحِ امجد علی شاہ شامل کرنے کا بہ ظاہر مطلب تو یہ ہوا کہ مصنف اسے نئے بادشاہ کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا تھا۔ اگر یہ خیال درست ہے تو پھر سوال یہ پیدا ہو گا کہ اس میں مدحِ شرفُ الدولہ کیوں شامل کی گئی؛ جب کہ یہ بات معلوم ہے اور معلوم تھی کہ امجد علی شاہ اُن سے زمانۂ ولی عہدی ہی سے خوش نہیں تھے اور بادشاہ ہوتے ہی تین (۳) ماہ کے اندر اُن کو وزارت الگ
کر دیا تھا۔ کتاب چھپی ہے ۱۲۶۲ھ کے وسط میں، جب کہ شرفُ الدولہ اس سے بہت پہلے، یعنی رجب ۱۲۶۸ ھ میں وزارت سے الگ کیے جا چکے تھے۔
دوسری بات یہ ہے کہ یہ کتاب اُس مجلد کے حاشیے پر چھپی ہے۔ (حوض میں دیوانِ جانصاحبؔ ہے، اور ظاہری نظر میں وہ اصل چیز ٹھہرتا ہے) جو کتاب بادشاہِ وقت کی خدمت میں پیش کرنے کی خاطر مرتب کی جائے، اُس کا چھاپا جائے ایک دوسرے کتاب کے حاشیے پر! یہ بات سمجھ میں نہیں آتی۔ حاشیے پر کتابیں چھپتی رہی ہیں، لیکن یہاں صورتِ حال اُس عمومی روش سے مختلف ہے، کہ اِس کتاب میں بادشاہِ وقت کی مدح خاص طور پر شامل کی گئی ہے؛ یوں اصل کتاب تو یہ تھی، مگر اُس کی حیثیت ثانوی ہو گئی۔ ایسی کتاب بادشاہ کے سامنے پیش کرنے کی جرات سرورؔ تو کیا، کوئی ان سے بڑا شخص بھی نہیں کر سکتا تھا۔ اور پھر یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ سرورؔ کی روش یہ رہی ہے کہ جب اُنھوں نے نظر ثانی کی ہے؛ تو جس مطبع میں اُسے چھپنا تھا، نثرِ خاتمہ میں اُس کا نام ضرور شامل کیا ہے، اور اُسی نثر میں اس کی بھی صراحت کی ہے کہ میں نے اس نسخے پر نظر ثانی کی ہے۔ اس نسخے میں ان میں سے کوئی چیز موجود نہیں۔ نسخۂ ح (نیز دیگر نسخوں) میں جہاں لکھنؤ کے مطبعوں کا بیان ہے اور اُس کے ذیل میں میر حسن رضوی کا اور اُن کے مطبعے کا بیان ہے، یہ پورا حصہ اس نسخے میں موجود نہیں۔ حد یہ ہے کہ مطبعے کی طرف سے جو نثرِ خاتمتُ الطبع لکھی جاتی ہے، وہ بھی تاریخ کے ایک دو لفظوں کی تبدیلی کے ساتھ اصلاً وہی ہے جو نسخۂ ح میں ہے۔
یہ ساری باتیں ذہن میں شدت کے ساتھ یہ خیال پیدا کرتی ہیں کہ یہ نسخہ سرورؔ کا مرتب کیا ہوا اور تصحیح کیا ہوا نہیں۔ بس ایک تاویل ذہن میں آتی ہے۔ جو عبارتیں ح کے مقابلے میں بدلی ہوئی ہیں یا زائد ہیں، وہ لکھی ہوئی تو سرور" کی معلوم ہوتی ہیں؛ شاید یہ ہوا ہو کہ محمد علی شاہ کے مرتے ہی سرورؔ کو اپنے مستقبل کا خیال آیا ہو، اس بنا پر خاص کر وہ شرفُ الدولہ کے متوسلین میں تھے، جن سے نیا بادشاہ خوش نہیں تھا۔ اس خیال کے آتے ہی اُنھوں نے نسخۂ ح میں جلدی جلدی بعض تبدیلیاں کی ہوں اور نئے بادشاہ کی
مدح شامل کی ہو، ابھی یہ نسخہ چھپنے کی منزل سے گزرا نہ ہو کہ شرفُ الدولہ کا ستارہ گردش میں آگیا اور سرورؔ بھی اس کی لپیٹ میں آگئے۔ ظاہر ہے کہ اب اُس نئے نسخے کی گنجائش باقی نہیں رہی تھی؛ اس لیےسرورؔ نے اُس کو چھپوانے کا ارادہ ملتوی کر دیا یا یوں کہیے کہ ختم کر دیا۔- مسودہ پریس میں رہ گیا اور یوں دو تین سال کے بعد مطبعے نے اپنی تجارتی اغراض کے تحت بہ طور خود اُس مسودے کو چھاپ لیا۔یہ محض قیاس ہے لیکن بعید از امکان نہیں اور اس نسخے کو غیر مشکوک ماننے کے لیے ایسے ہی کسی امکان کو ماننا لازم ہے۔ یہ بات بہرحال کہی جاسکتی ہے کہ سرورؔ نے اس پر (دوسرے نسخوں کی طرح) باضابطہ نظر ثانی نہیں کی ہے۔برقؔ کے ذکر میں بعض الفاظ کا اضافہ ملتا ہے جو توجہ طلب ہے۔ اختلافِ نسخ کے ضمیمے میں ساری تبدیلیوں اور اضافوں کو دیکھا جا سکتا ہے شان دال ہے۔ اس نسخے کا نشان دہے۔
(۴) زمانی ترتیب کے لحاظ سے چوتھے نمبر پر وہ نسخہ آتا ہے جس پر سرورؔ نے باضابطہ نظرثانی کی تھی۔ سال طبع : ۱۲۶۳ھ۔ یہ نسخہ میر حسن رضوی کے مطبع حسنی ہی کا چھپا ہوا ہے۔ سرِ ورق پر "بار دوم" لکھا ہوا ہے۔ (یہ پہلی بار ۱۲۵۹ھ میں وہیں سے شائع ہوا تھا)۔ اس کے آخر میں ص ۲۰۷ پر سرورؔ کی لکھی ہوئی نثر موجود ہے، جس میں نظر ثانی کی صراحت کی گئی ہے (یہ نثر ضمیمہ نمبر ۱ میں شامل ہے)۔ اس نثر کے آخر میں سرورؔ کی ۱۲۲۶(ھ) مہر بھی ہے جس پر "مرزا رجب علی ۱۲۲۶" لکھا ہوا ہے۔ آخری صفحےپر غلط نامہ ہے۔ کُل صفحات ۲۰۸۔ مسطر اُنیس (۱۹) سطری۔ کتابت اور طباعت عمدہ ہے۔ یہ کتاب مضبوط بانسی کاغذ پر چھپی ہے۔ جس میں اب تک کرارا پن موجود ہے۔ اور سیاہی کی چمک اب تک ماند نہیں پڑی ہے۔ اس میں شرفُ الدولہ کی مدح شامل نہیں۔ ح کے مقابلے میں لفظی اصلاح اور ترمیم جگہ جگہ ملتی ہے۔ یہ اڈیشن اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ بعد کے اکثر مطبوعہ اڈیشن اسی نسخے پر مبنی ہیں۔ آخر میں دو (۲) قطعاتِ تاریخِ طبع (مولوی کرامت علی اور مولوی قدرت احمد کے) شامل ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ نسخہ ۱۲۶۳ھ میں شائع ہوا۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس نسخے کے سرورق پر سالِ طبع ۱۲۶۲ھ مرقوم ہے۔ دو (۲) صورتیں
ہیں: یا تو یہ مان لیا جائے کہ ۱۲۶۲ غلطیِ کتابت ہے، یا پھر یہ مان لیا جائے کہ ۱۲۶۲ھ میں کتابت اور طباعت کا کام شروع ہوا ہو گا۔ سر ورق کی کتابت شروع ہی میں ہو گئی اور یوں اُس پر ۱۲۶۲ھ مرقوم ہوا۔ طباعت ختم ہوئی ۱۲۶۳ھ میں، اور یوں قطعاتِ تاریخِ طبع ۱۲۶۳ھ کے ہیں۔ یہی آخری صورت میرے نزدیک مرجح حیثیت رکھتی ہے (اس لیے کہ اس قسم کی بہت سے مثالیں اور بھی ملتی ہیں، مثلاً اسی کتاب کا وہ نسخہ جو ۱۲۸۰ھ کا چھپا ہوا ہے اور جس کو ہم نے بنیاد بنایا ہے۔ تفصیل اس نسخے کے تعارف کے ذیل میں۔ یا مثلاً باغ و بہار کا نسخۂ فورٹ ولیم کالج کلکتہ، کہ اُس کے سرورق پر سالِ طبع ۱۸۰۳ء مندرج ہے اور آخری صفحے پر ۱۸۰۴ء مرقوم ہے)۔
ایک اہم اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس نسخے میں ص ۱۷۵ پر ایک جملہ یوں ہے: "قمری کی کوکو متجسس کی جان کھوتی ہے۔" متن میں "متجسس" پر ن لکھ کر حاشیے میں اُس کا بدل "جویا" لکھا گیا ہے۔ ح، ف، م میں اس کی جگہ"متلاشی" ہے اور ک میں "تلاشی" ہے۔ یعنی "جویا" ان میں سےکسی نسخے میں نہیں۔ اس کا واضح طور پر مطلب یہ نکلا کہ پریس میں اس کتاب کا کوئی ایسا نسخہ بھی موجود تھا جس میں اس مقام پر "جویا" لکھا ہوا تھا۔ مصنف نے تو اس اختلافِ نسخ کی نشان دہی کی نہیں ہو گی، ظاہر ہے کہ یہ کام پریس کے مصحح کا ہے۔ بہ ہر حال، اس سے یہ ضرور معلوم ہوتا ہے کہ مطبعِ حسنی میں اس کتاب کا کوئی ایسا نسخہ بھی موجود تھا جو ان مذکورہ نسخوں سے مختلف تھا۔
اس نسخے میں املا کی وہی سب خصوصیات پائی جاتی ہیں جن کا اس سے پہلے ح کے ذیل میں ذکر کیا جا چکا ہے، البتہ اس نسخے میں (ڈ اور ڑ کی طرح) ٹ کو بھی ہر جگہ اُسی طرح لکھا گیا ہے جس طرح آج ہم لکھتے ہیں، جیسے : بیٹھا، ٹوٹا۔
(۵) ترتیب میں اس کے بعد وہ نسخہ آتا ہے جو ۱۲۶۷ھ میں مطبع محمدی کان پور میں چھپا تھا۔ اس کے آخر میں سرورؔ کی لکھی ہوئی نثر شامل ہے جس میں اُنھوں نے یہ صراحت کی ہے کہ مولوی محمد حسین کی فرمایش پر "نیاز مندِ قدیم نے کوششِ عظیم سے ملاحظہ کر کے جہاں موقع پایا کچھ بڑھایا" (یہ نثر ضمیمہ نمبر ۱ میں شامل ہے)۔ آخر میں پریس کی طرف سے خاتمتُ الطبع
کی عبارت ہے: "۔۔۔ ربیع الآخر کی بائیسویں ۱۲۶۷ ہجری کو سرمۂ سواد طبع آنکھوں میں لگایا اور شہر کان پور چھپر محال سیتا رام ٹھٹھیرے کے گھر میں نیا جلوہ دکھایا۔" کل صفحات : ۱۳۸۔ مسطر تیئیس (۲۳) سطری ہے۔ کتابت و طباعت اچھی ہے اور کاغذ باریک اور مضبوط ہے۔
اس نسخے میں سرورؔ نے اتنی زیادہ ترمیمیں اور تبدیلیاں کی ہیں کہ یہ ایک طرح سے نیا نسخہ بن گیا ہے۔ خاص کر مقفا جملوں اور ٹکڑوں کا اضافہ کیا گیا ہے۔ انگریز سوداگر کی ضمنی کہانی میں بہت زیادہ تبدیلیاں ہیں لیکن یہ دل چسپ بات ہے کہ اس نسخے نے قبولِ عام نہیں پایا۔ انتہا یہ ہے کہ خود سرورؔ نے بعد میں اسے نظر انداز کر دیا اور بعد کے نسخوں پر نظرِ ثانی کرنے کےلیے نسخۂ ض کو بنیاد بنایا۔ ک میں بہت سے لفظوں کے معنی مرقوم ہیں۔ دوسرے نسخوں میں تو لفظوں کے معنی بین السطور ہیں، مگر اس نسخے میں حاشیے پر ہیں اور ان کی تعداد دوسرے نسخوں کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ ایک خاص بات یہ ہے کہ بعض لفظوں کے ذیل میں حرکات کی بھی نشان دہی کی گئی ہے اور یہ اہم بات ہے۔ میں بعض مثالیں بھی پیش کرنا چاہتا ہوں :
ص ۴ : "سنکرنیں باضم ترہ فروش" – "مگہا شہر کا نام ہے عظیم آباد کے قریب اور مہوبا بندیل کھنڈ میں ہے، پان خوب ہوتے ہیں۔" ص ۸ : "باہر بندو مردمان دیہ" – " منجی اصلاح قمار بازاں خالی رفتن۔"
ص ۱۷۳ کے حاشیے پر "گلِ پیادہ" کے معنی غیاث اللغات کے حوالے سے لکھے گئے ہیں۔ اس نسخے میں لکھنؤ کے مطبعوں کا بیان شامل نہیں، وہ پورا حصہ نکال دیا گیا ہے۔ اُس کی جگہ پر یہ کیا ہے کہ آخرِ کتاب میں جو نثرِ خاتمہ لکھی ہے، اُس میں مطبعے کا اور صاحبِ مطبع کا ذکر کر دیا ہے۔ اس نسخے کا نشان ک ہے۔
(۶) ۱۲۷۶ھ میں مولوی محمد یعقوب انصاری کے مطبعے افضل المطابع محمدی کان پور سے اس کتاب کا ایک اڈیشن شائع ہوا، جو سرورؔ کا نظرِ ثانی کردہ تھا۔ اس کے آخر میں سرورؔ کی لکھی ہوئی نثر شامل ہے جس میں اس کی صراحت کی گئی کہ مولوی یعقوب انصاری کی فرمایش پر اُنھوں نے اس پر مکمل نظرِ ثانی کی ہے (یہ نثر ضمیمہ نمبر ۱ میں شامل ہے)۔
کُل صفحات ۱۳۰۔ مسطر پچیس ۲۵ سطری۔ کتابت، طباعت، کاغذ ہر چیز معمولی ہے۔ املا کے لحاظ سے اس کا وہی احوال ہے جس کا حوالہ نسخۂ ک کے ذیل میں دیا گیا ہے (یعنی اس میں بھی "ت" کے بجائے صرف ٹ ملتی ہے)۔ اس اشاعت میں لکھنؤ کے مطبعوں کی تعریف کے ذیل میں مطبعِ محمد یعقوب انصاری کا ذکر کیا گیا ہے، جب کہ یہ اشاعت اُن کے کان پور والے مطبعے میں چھپی ہے۔ اس کو اس طرح نباہا کہ "سابق ازیں فرنگی محل میں چھاپہ خاہ تھا" لکھا اور پھر "العاقل تکفیہ الاشارہ" لکھ کر گویا یہ کہا کہ اب کان پور میں ہے تو کیا، پہلے تو لکھنؤ میں تھا۔ دراصل اس جگہ پہلے (نسخۂ ح اور نسخۂ ض میں) مطبعِ میر حسن رضوی کی تعریف تھی اور وہ واقعتاً لکھنؤ میں تھا۔ اس اشاعت میں عبارت تو وہی رہنے دی، صرف نام بدل دیے اور اس سے جو اُلجھن پیدا ہو سکتی تھی، اُس کو دفع کرنے کےلیے "سابق ازیں" اور "العاقل۔۔۔" کے پیوند لگائے گئے۔ اس نسخے کا نشان ف ہے۔
(۷) سرورؔ کا آخری بار نظرِ ثانی کیا ہوا نسخہ وہ ہے جسے مولوی محمد یعقوب انصاری ہی نے ۱۲۸۰ھ میں اپنے مطبعے میں چھاپا تھا۔ اس نسخے کے آخر میں سرورؔ کی لکھی ہوئی نثر خاتمہ ہے، جس میں اُنھوں نے یہ صراحت کی ہے کہ میں نے اس نسخے پر نظرِ ثانی کی ہے۔ عبارت کے خاتمے پر سرورؔ کی مُہر ہے، جس پر "مرزا رجب علیبیگ" مرقوم ہے۔ (یہ نثرِ خاتمہ ضمیمہ نمبر ۱ میں شامل ہے)۔ یہ نسخہ اس قدر کم یاب ہے کہ اس کی خبر کسی کو تھی ہی نہیں۔ خدا بخش لائبریری پٹنہ کے ذخیرۂ قاضی عبد الودود میں اچانک یہ نسخہ سامنے آ گیا اور تب پہلی بار میں اس کے وجود سے باخبر ہوا، ورنہ اُس وقت تک ہم سب یہی سمجھتے تھے کہ مصنف کا آخری بار نظرِ ثانی کیا ہوا نسخہ وہ ہے جو ۱۲۷۶ھ میں افضل المطابع میں چھپا تھا (یعنی نسخۂ ف)۔ کُل صفحات : ۱۳۵۔ مسطر : سائیس (۲۷) شطری۔ خصوصیاتِ املا کے لحاظ سے اس کی بھی احوال وہی ہے جس کی صراحت نسخۂ ف کے تعارف میں کی گئی ہے۔ اغلاطِ کتابت اس میں نہ ہونے کے برابر ہیں۔
اس کی سرورق پر سالِ طبع "۱۲۷۹ھ" مرقوم ہے، مگر آخر میں سرورؔ کی لکھی ہوئی