جی کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے ۔۔۔۔!چنانچہ آخر میں ہم ملالہ کے حوالے سے یہی کہیں گے کہ تم نابل پرائز جیتو یا ہارو، ہمیں تم سے پیار ہے اور جبر کے اس ماحول میں جہاں بڑے بڑے سورما ؤں کو خاموش رہنے میں ہی عافیت نظر آتی تھی، اس گیارہ سالہ لڑکی کا عزم و ہمت اور طالبان کے سامنے ڈت جانا، بیحد قابلَ تعریف امر ہے جس پر اسے جتنے بھی ایوارڈ دئیے جائیں کم ہیں۔۔۔
میرے محترم کیا جہاد کے متعلق صرف ایک ہی حدیث ہے ۔۔۔ مختلف اوقات میں جہاد کی مختلف قسمیں افضل ہوتی ہیں۔۔۔۔!اس کالم میں دو تین باتوں کو آپس میں گڈ مڈ کردیا گیا ہے۔۔۔
1- جہاں تک نوبل پرائز کاتعلق ہے، تو ہم اس بات سے متفق ہیں کہ امن کا نوبل پرائز عام طور پر مغرب کی سیاسی وابستگیوں، اور پالیسیوں کو مدنظر رکھ کر دیا جاتا ہے اور کسی شخص کی امن اور انسانیت کی جدوجہد کو نوبل پرائز کے ذریعے جانچا نہیں جاسکتا کیونکہ کافی امن کے دشمنوں کو بھی یہ پرائز دیا جاچکا ہے۔۔۔ یہاں تک تو ہم اوریا مقبول جان سے متفق ہیں۔
2- دوسری بات جو انہوں نے اپنے کالم میں کی ہے وہ عبیر نامی عراقی لڑکی پر امریکی سپاہیوں کی جانب سے کئے گئے ظلم کی کہانی ہے یہ واقعہ بھی درست ہے اور ان فوجیوں کو انکے اپنے ملک کی عدالت کی طرف سے سزا سنائی جاچکی ہے۔ لیکن اس کہانی کا ملالہ سے کیا تعلق ہے؟؟؟۔ ہاں اس سے یہ استدلال ضرور کیا جاسکتا ہے کہ امن امن کی رٹ لگانے والی امریکی اور یورپین اقوام اتنی بھی معصوم نہیں ہیں اور اخلاقی طور پردنیا کو امن کا درس دینے کی پوزیشن میں ہر گز نہیں ہیں۔۔۔ ۔۔یہاں بھی ہم کالم نگار سے متفق ہیں۔
3- اب اگے چل کت اوریا صاحب نے یہ کاریگری دکھائی ہے کہ ملالہ کے انٹرویو میں اسکے کہے گئے ایک فقرے کو بالکل سیق و سباق سے الگ کرکے پیش کیا ہے جس سے یہ تاثر ملے کہ شائد ملالہ مغربی آقاؤں کے کہنے پر ملک کے خلاف ایسے بیانات دے رہی ہے جس سے اسلام، مسلمان اور پاکستان کی توہین ہوتی ہو۔۔۔ لیکن ایسا ہرگز نہیں ہے۔ ملالہ نے یہ جملہ سوات میں طالبان کی جانب سے غیر اسلامی احکامات کو بزور نافذ کرنے کے بعد پیدا ہونے والی معاشرت صورتحال کے حوالے سے دیا ہے اور اسکا تعلق اس وقت کے سوات کے ماحول سے ہے نا کہ پورے پاکستان سے او ر نا ہی موجودہ صورتحال میں۔ اسکو اسی مقام اور اسی وقت کے تناظر میں دیکھنا چاہئیے۔۔۔ میں نے خود اسکے انٹرویو غور سے سنے ہیں مجھے تو ایسا تاثر کہیں نہیں ملا کہ وہ اسلام اور پاکستان کی توہین کر رہی ہے۔۔۔ بلکہ اس نے تو جا بجا یہی کہا ہے کہ یہ جو کچھ طالبان کر رہے تھے ( 400گرلز سکولوں کو بارود سے اڑادینا اور گلی گلی اعلان کروادینا کہ آپ لوگ اپنی بچیوں کو سکولوں میں نہ بھیجیں) یہ سب غیر اسلامی تھا اور ہم مسلمان ایسے نہیں ہیں اور نہ ہی یہ اسلام کی تعلیم ہے۔۔۔ چنانچہ اوریا صاحب جیسے پڑھے لکھے آدمی سے اس قسم کی عامیانہ بات کی توقع نہیں تھی۔
چنانچہ آخر میں ہم ملالہ کے حوالے سے یہی کہیں گے کہ تم نابل پرائز جیتو یا ہارو، ہمیں تم سے پیار ہے اور جبر کے اس ماحول میں جہاں بڑے بڑے سورما ؤں کو خاموش رہنے میں ہی عافیت نظر آتی تھی، اس گیارہ سالہ لڑکی کا عزم و ہمت اور طالبان کے سامنے ڈت جانا، بیحد قابلَ تعریف امر ہے جس پر اسے جتنے بھی ایوارڈ دئیے جائیں کم ہیں۔۔۔ ۔او ر آخر میں بات بات پر اسلام کے دعوے کرنے والے سطحی قسم کی سوچ کے حا مل دانشوروں کی خدمت میں یاد دہانی کیلئے ایک حدیث مبارک کا مفہوم پیش کرتا ہوں:
"بہترین جہاد، جابر حکمران کے سامنے کلمہ حق بلند کرنا ہے"۔۔۔
سب سے پہلے آپکے دوسرے سوال کا جواب۔۔۔ملالہ نے کونسے حکمران کے سامنے کلمہ حق کہا ہے؟۔۔۔تو سن لیجئے سوات میں قائم خارجی تکفیری اجڈ اور گنوار فضل اللہ گروپ کے نام نہاد طالبان اس وقت حکمران تھے (انکا کنٹرول تھا سوات پر) اور 400 گرلز سکولوں کو منہدم کرنے والے اس گمراہ گروہ کے اس غیر اسلامی حکم (کہ لوگ اپنی بچیوں کو سکولوں میں پڑھنے کیلئے نہ بھیجیں) کے خلاف اگر وہاں کسی نے کلمہ حق بلند کیا اور اس بات کو ماننے سے برملا انکار کیا تو وہ یہی چھوٹی سی گیارہ سالہ ملالہ تھی۔میرے محترم کیا جہاد کے متعلق صرف ایک ہی حدیث ہے ۔۔۔ مختلف اوقات میں جہاد کی مختلف قسمیں افضل ہوتی ہیں۔۔۔ ۔!
اور دوسرے ملالہ نے کونسے حکمران کے سامنے کلمہ حق کہا ہے ۔۔۔ ۔؟
کیا ان نہ ماننے والوں میں صرف ایک ملالہ ہی تھی ۔۔۔ باقی سب ان نام نہاد طالبان کی بات مان گئے تھے ؟سب سے پہلے آپکے دوسرے سوال کا جواب۔۔۔ ملالہ نے کونسے حکمران کے سامنے کلمہ حق کہا ہے؟۔۔۔ تو سن لیجئے سوات میں قائم خارجی تکفیری اجڈ اور گنوار فضل اللہ گروپ کے نام نہاد طالبان اس وقت حکمران تھے (انکا کنٹرول تھا سوات پر) اور 400 گرلز سکولوں کو منہدم کرنے والے اس گمراہ گروہ کے اس غیر اسلامی حکم (کہ لوگ اپنی بچیوں کو سکولوں میں پڑھنے کیلئے نہ بھیجیں) کے خلاف اگر وہاں کسی نے کلمہ حق بلند کیا اور اس بات کو ماننے سے برملا انکار کیا تو وہ یہی چھوٹی سی گیارہ سالہ ملالہ تھی۔
امید ہے سمجھ میں یہ بات آگئی ہوگی آپکے۔
کٹ حجتی کا میرے پاس کوئی حل نہیں ہے۔۔۔۔آپ اور میں شائد کبھی متفق نہ ہوسکیں کیونکہ آپکا اسلام اور ہے اور میرا اور۔۔۔۔ورنہ سیدھی سی بات ہے مجھے اسکا جواب دیجئے کہ :کیا ان نہ ماننے والوں میں صرف ایک ملالہ ہی تھی ۔۔۔ باقی سب ان نام نہاد طالبان کی بات مان گئے تھے ؟
ہمیں حسد نہیں بلکہ افسوس ہے کہ بے چاری عالمی طاقتوں کے کھیل کا حصہ بن گئی۔۔۔۔! مستقبل قریب میں اس سارے فریب کا پردہ چاک ہو جائے گا۔۔۔۔حسد نہ کر محنت کر۔
آپ بھی مجھے صرف اور صرف ایک سوال کا جواب دے دیں ۔۔۔۔ کہ وہ اسلام جس کی ملالہ دعوےدار ہے وہ کونسا اسلام ہے ؟کٹ حجتی کا میرے پاس کوئی حل نہیں ہے۔۔۔ ۔آپ اور میں شائد کبھی متفق نہ ہوسکیں کیونکہ آپکا اسلام اور ہے اور میرا اور۔۔۔ ۔ورنہ سیدھی سی بات ہے مجھے اسکا جواب دیجئے کہ :
1- کیا ان 400 سکولوں کو گرانا آپکے اسلام میں جائز ہے؟۔۔۔ میرے اسلام میں تو نہیں۔
2- کیا مسلمانوں کی بچیوں کو سکولوں میں بھیجنے سے روکنا آپکے اسلام میں جائز ہے؟۔۔۔ میرے اسلام میں تو نہیں۔
3- جس باہمت لڑکی نے اس غیر اسلام اور غیر شرعی پابندی کے خلاف آواز اٹھائی، تعاونوا علی البر والتقویٰ کے بموجب اس لڑکی کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیئے یا نہیں؟ آپکے اسلام کا تو پتہ نہیں، لیکن میں جس اسلام کو مانتا ہوں اس میں تو کرنی چاہئیے۔
4- آخری سوال یہ ہے کہ اگر یہی کام ملالہ جیسی لڑکی کی بجائے کسی طالب لڑکے نے کیا ہوتا تو آپ اسکی سپورٹ کرتے یا نہ؟
ہمیں حسد نہیں بلکہ افسوس ہے کہ بے چاری عالمی طاقتوں کے کھیل کا حصہ بن گئی۔۔۔ ۔! مستقبل قریب میں اس سارے فریب کا پردہ چاک ہو جائے گا۔۔۔ ۔
آپ ذاتی تضحیک اور طعنہ زنی پر اتر آئے ہیں۔۔۔ جو کہ آپ کی پرانی عادت ہے ۔۔۔۔! اب میں آپ کی کسی بات کا جواب نہیں دوں گا۔۔۔۔!مجھے
تو لگتا ہے کہ عرب زمانہ جاہلیت میں اپنی لڑکیوں کو زندہ دفن کردینے والوں کی ذریت ابھی دنیا سے ناپید نہیں ہوئی۔۔۔
برقعہ پوش خواتین اتو یورپ میں بھی پائی جاتی ہیں (اور خاصی تعلیم یافتہ بھی ہیں) اور برقعہ پوش خواتین وزیرستان اور افغانستان کے دیہات میں بھی نظر آتی ہیں۔۔لیکن ان دونوں میں فرق ہے۔۔۔ایک نے اپنی مرضی سے اور مغربی معاشرے کے دباؤ کو دیکھنے اور جھیلنے کے باوجود حجاب اور برقعے کو اختیار کیا۔۔۔ایسی خواتین کو ہمارا سلام ہے(خواہ وہ کسی علاقے سے بھی تعلق رکھتی ہوں)۔۔اور دوسری خواتین وہ ہیں جن پر انکے قبیلے والوں کے رسم و رواج نے، اور انکے علاقے کے مردوں نے اپنی جھوٹی انا اور غیرت کی رکھوالی کیلئے خیمے نما برقعے یا پیرا شوٹس مسلط کئیے ہوئے ہیں۔۔۔انکو دیکھ کر تو مجھے بھی پتھر کا زمانہ یاد آتا ہے۔۔۔ان دونوں قسم کی خواتین کا آپس میں کوئی تقابل نہیں۔۔۔ایک کیلئے ہمار ے دل میں عزت ہے اور دوسری کیلئے ہمدردی ۔آپ بھی مجھے صرف اور صرف ایک سوال کا جواب دے دیں ۔۔۔ ۔ کہ وہ اسلام جس کی ملالہ دعوےدار ہے وہ کونسا اسلام ہے ؟
جسے برقعہ پوش خواتین کو دیکھ کر پتھر کا زمانہ یاد آ جاتا ہے ۔۔۔ ۔ یہ کونسا اسلام ہے ؟ شاید یہ آپ کے والا اسلام ہو۔۔۔ ہمارا اسلام تو الحمد للہ وہی ہے جو چودہ سو سال پہلے محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم سے شروع ہوا ۔۔۔ اور آج تک وہی چلا آرہا ہے ۔۔۔ ۔ !
آپ کے سوالات کا جواب بھی آیا چاہتا ہے ۔۔ تھوڑا انتظار فرمائیں۔۔۔ !
آپ نے ان خواتین سے انٹرویو کیا تھا یا سروے کیا تھا ؟ کیسے پتا چلا کہ مغرب والی خواتین نے دباؤ کے باجود اسکارف ( نہ کے برقعہ) کو اختیار کیا ہے جبکہ قبیلوں والی نے مجبورا ۔۔۔ایک نے اپنی مرضی سے اور مغربی معاشرے کے دباؤ کو دیکھنے اور جھیلنے کے باوجود حجاب اور برقعے کو اختیار کیا۔۔۔ ایسی خواتین کو ہمارا سلام ہے(خواہ وہ کسی علاقے سے بھی تعلق رکھتی ہوں)۔۔اور دوسری خواتین وہ ہیں جن پر انکے قبیلے والوں کے رسم و رواج نے، اور انکے علاقے کے مردوں نے اپنی جھوٹی انا اور غیرت کی رکھوالی کیلئے خیمے نما برقعے یا پیرا شوٹس مسلط کئیے ہوئے ہیں۔۔۔
یعنی آپ نے پتھروں کا دور دیکھا ہے ۔۔کتنی عمر ہے آپ کی ؟؟انکو دیکھ کر تو مجھے بھی پتھر کا زمانہ یاد آتا ہے۔۔۔
ملالہ کی ٹوپ ڈرامے کی باتوں میں آکر ، بے تکی بچکانہ باتوں سے گریز کرے ۔۔۔۔ملالہ جیسی لڑکیوں کی باتوں سے تو پتہ چلتا ہے کہ وہاں کی خواتین اپنی مرضی اور پسندسے نہیں بلکہ اپنے بھائی، باپ اور شوہر کی مرضی سے یا معاشرے کے دباؤ سے ایسا برقع پہننے پر مجبور ہیں