ملالہ کو نوبل پرائز کی کیا قیمت دینی ہے؟

یوسف-2

محفلین
story3.gif
 
ہوسکتا ہے اب ملالہ فلسطین کا دورہ کرکے ان کے یہ شکوے بھی دور کردے
ہوسکتا ہے ملالہ اسرائیل کے مظالم کی مذمت کردے
یہ تو امید کی جاسکتی ہے
 

سید ذیشان

محفلین
ابھی تو ابتداء ہے۔ آگے آگے دیکھئے کہ کیا نکلتا ہے۔ حالانکہ سب سے پہلے مبارکباد تو ایوارڈ دینے والی کمیٹی کے رابطہ رکن کی طرف سے ملتی ہے، جب وہ مطلوبہ شخص کو اطلاع دیتے ہیں :LOL:

مزے کی بات یہ ہے کہ اس مرتبہ جماعت اسلامی کے امیر نے بھی ملالہ کو مبارک باد دی ہے۔ :LOL:
 
آخری تدوین:

x boy

محفلین
نوبل انعام کے لئے مبارک ہو۔

چھوڑو ان سب باتوں کو کس نے کیا پایا کیا کھویا اپنے آپ ہم کتنے اچھے ہیں ابھی وہی کارآمد ہے

کل ہی پشتون کے بارہ میں جیومینٹری دیکھ رہا تھا کافی ترقی کرلی ہے پشتون بھائیوں اور بہنوں نے یعنی عوام نے۔
25 لاکھ کی لاگت والی پشتون موجودہ دور میں بنی فلم اردو فلم سے زیادہ کماتی ہے یعنی کڑوڑوں کا بزنس ایک ایک سینما
کررہی ہے اس بات پر بھی مبارک باد دیتا ہوں۔

میں نے سنا تھا کہ گزشتہ دور کے یادگار صدر پاکستان جناب آصف علی زرداری کا کراچی میں سینما گھر تھا سفر دیکھیں فکشن سے حقیقت تک۔
آرنلڈ شوازنیگر پمپنگ آئرن مسٹر یونیورس پھر سپر ہیرو کمانڈو معتدد کامیاب فلمیں آخر میں ٹیکساس کا گورنر یا میئر۔۔ وغیرہ۔

صدر ریگن بھی ایک فلمی آرٹسٹ تھے یاد ہو یا نہ ہو۔۔

کل کیا تھا مت دیکھیں آج کیا ہے وہ دیکھیں۔
 

arifkarim

معطل
ہوسکتا ہے اب ملالہ فلسطین کا دورہ کرکے ان کے یہ شکوے بھی دور کردے
ہوسکتا ہے ملالہ اسرائیل کے مظالم کی مذمت کردے
یہ تو امید کی جاسکتی ہے
پہلے یہ کام آپکے عربی آقا توکر دیں۔ خود تو فلسطین جاتے نہیں۔ خالی دور دور سے مذمتیں کر کے کیا خاک حاصل ہوگا!

یہ "امت" ہے ہی جھوٹ کا پلندہ۔ پاکستانی زرد صحافت کا اعلیٰ ترین شاہکار!

ابھی تو ابتداء ہے۔ آگے آگے دیکھئے کہ کیا نکلتا ہے۔ حالانکہ سب سے پہلے مبارکباد تو ایوارڈ دینے والی کمیٹی کے رابطہ رکن کی طرف سے ملتی ہے، جب وہ مطلوبہ شخص کو اطلاع دیتے ہیں :LOL:
میں یہ پہلے بھی پوسٹ کر چکا ہوں کہ صیہونی اخباروں میں اس خبر کو بہت پزیرائی ملی تھی۔

مزے کی بات یہ ہے کہ اس مرتبہ جماعت اسلامی کے امیر نے بھی ملالہ کو مبارک باد دی ہے۔ :LOL:
بس کسی طالبان کے ترجمان سے مبارک باد وصول کرنا ابھی باقی ہے۔ ملالہ کا نوبل انعام تک کا سفر اس ایک طالبانی گولی کے بغیر تو ممکن نہیں تھا!

عین ممکن ہے کہ "امت" والوں کے "فلسطینی" ذرائع نے یہ بات گول کر دی ہو؟ :)
اصل میں اوپر یہ تصویر اسرائیل کے سابق نہ کہ حالیہ صدر کی ہے۔ اُمتی اخبار تک شاید صیہونی میڈیا کی رسائی نہیں وگرنہ وہ خود اسے چیک کر لیتے:)
http://www.timesofisrael.com/peres-lauds-malalas-selection-for-nobel-peace-prize/

فلسطینی ذرائع نے اپنا نام بھی گول کر دیا ہے۔ ;)
فلسطینی ذرائع یعنی حماس کا ہیڈ آفس!

مجھے پوری طرح یاد نہیں لیکن کچھ اس طرح یاد ہے کہ ملالہ نے غزہ پر اسرائیلی مظالم کی مذمت کی تھی۔
جی کچھ ایسی ہی خبر میں نے بھی پڑھی تھی:
http://www.thenews.com.pk/Todays-News-13-31750-Malala-Yousafzai-condemns-Gaza-violence

مڈغاسکر کے صحافیوں کے خیالات بھی شئیر کیجیے۔
کاش اس افریقی جزیرہ پر بھی صیہونی آباد ہوتے!

امت اخبار "امت" کاترجمان ہے؟
نہیں امتیوں کا۔
 
پہلے یہ کام آپکے عربی آقا توکر دیں۔ خود تو فلسطین جاتے نہیں۔ خالی دور دور سے مذمتیں کر کے کیا خاک حاصل ہوگا!


یہ "امت" ہے ہی جھوٹ کا پلندہ۔ پاکستانی زرد صحافت کا اعلیٰ ترین شاہکار!


میں یہ پہلے بھی پوسٹ کر چکا ہوں کہ صیہونی اخباروں میں اس خبر کو بہت پزیرائی ملی تھی۔


بس کسی طالبان کے ترجمان سے مبارک باد وصول کرنا ابھی باقی ہے۔ ملالہ کا نوبل انعام تک کا سفر اس ایک طالبانی گولی کے بغیر تو ممکن نہیں تھا!


اصل میں اوپر یہ تصویر اسرائیل کے سابق نہ کہ حالیہ صدر کی ہے۔ اُمتی اخبار تک شاید صیہونی میڈیا کی رسائی نہیں وگرنہ وہ خود اسے چیک کر لیتے:)
http://www.timesofisrael.com/peres-lauds-malalas-selection-for-nobel-peace-prize/


فلسطینی ذرائع یعنی حماس کا ہیڈ آفس!


جی کچھ ایسی ہی خبر میں نے بھی پڑھی تھی:
http://www.thenews.com.pk/Todays-News-13-31750-Malala-Yousafzai-condemns-Gaza-violence


کاش اس افریقی جزیرہ پر بھی صیہونی آباد ہوتے!


نہیں امتیوں کا۔

یار عارف وہاں ناروے میں کیا گدو بندر نہیں ہے کیا؟ یا وہی سے لکھ رہے ہو
 

یوسف-2

محفلین
ملالہ کے لیے .....کس سے منصفی چاہیں ۔۔۔۔۔ انصار عباسی
243378_s.jpg

پاکستان کی ملالہ یوسف زئی اور ہندوستان کے کلاش ستیارتھی کو مشترکہ طور پر نوبل امن ایوارڈ کے لیے منتخب کیا گیا تو دوسرے ہی دن ہندوستان کے وزیر اعظم نریندرہ مودی نے کلاش ستیارتھی سے ملاقات کی اورمبارکباد دی۔ ہمارے معاملہ میں پاکستان کے وزیر اعظم یا کسی بھی دوسرے کے لیے ایسا کرنا ممکن نہ تھا کیوں کہ اکتوبر 2012 میں طالبان کے قاتلانہ حملہ کے بعد ملالہ کو علاج کے لیے برطانیہ لے جایا گیا جہاں صحت یابی کے بعد وہ اب بھی اپنے والدین اور دو بھائیوں کے ساتھ وہیں مقیم ہے۔دنیا بھر کے رہنمائوں اور کروڑوں افراد کی طرف سے ملالہ کو نوبل ایوارڈ کے لیے منتخب ہونے پر مبارکباد کے پیغامات مل رہے ہیں مگر پاکستان میں ملالہ کی شخصیت پر تنازع جاری ہے جس کا اندازہ یا تو ہمیں سوشل میڈیا میں ملتا ہے یا عام لوگوں سے بات کر کے محسوس کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان کی قسمت دیکھیں کہ یہاں سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر عبدالسلام جن کو 1979 میں نوبل ایوارڈ ملا وہ بھی شدید تنازع کا شکار رہے۔ ڈاکٹر عبدالسلام پاکستان میں اہم عہدوں پر فائز رہے مگر1974 میں جب پارلیمنٹ نے قادیانی گروپ، لاہوری گروپ یا جو اپنے آپ کو احمدی کہتے ہیں انہیں غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا تواس پر ڈاکٹر عبدالسلام احتجاجاً پاکستان کو چھوڑ کر برطانیہ منتقل ہو گئے جہاں اُن کا 1996 میں انتقال ہوا۔اُن کی خواہش پر انہیں احمدیوں کے مرکز ربوہ کے ایک قبرستان میں دفنایا گیا۔ جہاں تک ملالہ یوسف زئی کا مسئلہ ہے اس کا تعارف پاکستان میں اس وقت ہوا جب شاید اُس کی عمر بارہ سال تھی۔ جب سوات میں طالبان کافی مضبوط تھے اور بچیوں کے اسکولوں کو جلایا جا رہا تھا تو ملالہ نے تعلیم کے لیے آواز اٹھائی اور جیو کے کیپیٹل ٹاک میں کہا کہ کچھ بھی ہو وہ پڑھنا چاہتی ہے۔ ملالہ نے یہ بھی کہا کہ وہ تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہے اور کسی سے ڈرتی نہیں۔ بی بی سی کے لیے گل مکئی کے نام سے اپنی ڈائری میں بھی وہ تعلیم کی ہی بات کرتی رہی۔ میڈیا میں ملالہ کو کچھ ایسی کوریج ملی کہ طالبان تواس کے خلاف ہو ہی گئے مگر اس کے ساتھ ساتھ ملالہ اور اس کے والد ضیاء الدین کے متعلق بھی مختلف افوائیں عام ہو گئیں۔ پھراکتوبر 2012 کو جب ملالہ اپنے اسکول سے وین میں دوسری بچیوں کے ساتھ گھر واپس آ رہی تھی تو طالبان نے اس پر قاتلانہ حملہ کیا۔ گولی اس کے سر پر لگی جس سے وہ شدید زخمی ہو گئی۔ وہ کئی دن زندگی و موت کی کشمکش میں رہی۔ تھوڑی سی طبیعت سنبھلنے پر اُسے علاج کے لیے برطانیہ بھجوا یا گیا۔ جب ملالہ پر حملہ ہوا تو یہ دنیا بھر کے لیے بہت بڑی خبر تھی۔پاکستان میں ایک طرف لاکھوں لوگ ملالہ کی زندگی کے لیے دعائیں مانگتے رہے تو دوسرے طرف ایسے لوگوں کی بھی کمی نہ تھی جو یہ کہہ رہے تھے کہ ملالہ پر حملہ ایک ڈرامہ ہے اور اس کا مقصد پاکستان کو بدنام کرنا ہے۔جب ملالہ کو علاج کی غرض سے برطانیہ بھیجنے کا فیصلہ ہو گیا تو اُس حکومت کے ایک وزیر نے ملالہ کے والد کے حوالہ سے مجھے بتایا کہ ضیاء الدین نے اُس وقت کے وزیر داخلہ عبدالرحمن ملک سے یہ مطالبہ کیا تھا کہ وہ اپنی پوری فیملی کے ساتھ برطانیہ جانا چاہتے ہیں کیوں کہ یہاں اُن کی زندگیوں کو خطرہ ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ ضیاء الدین نے وزیر داخلہ کو کہا کہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو وہ برطانیہ میں سیاسی پناہ کے لیے درخواست دے دیں گے جس پر نہ صرف پوری فیملی کو برطانیہ بھیجا گیا بلکہ ملالہ کے والد کو لندن کے پاکستان ہائی کمیشن میں نوکری بھی دی گئی۔ اپنی کتاب میں ملالہ نے لکھا کہ وزیر داخلہ نے ضیاء الدین سے سیاسی پناہ لینے کے متعلق بات کی مگر ایسا اس کے والد نے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔میری نظر میں ملالہ اُس دن متنازعہ ہو گئی جب اُس کے نام سے منسوب کتاب ’’I am Malala‘‘ کو برطانیہ میں شائع کیا گیا۔ اس کتاب کی لندن میں رونمائی گزشتہ سال اُس وقت ہوئی جب نوبل ایوارڈ کے لیے ملالہ کا نام بھی زیر غور تھا اور کچھ ہی دن میں نامزدگی ہونی تھی۔ گزشتہ سال تو نوبل ایوارڈ کے لیے ملالہ کی نامزدگی نہ ہو سکی مگر I am Malala نے ملالہ کو مزید متنازعہ بنا دیا کیوں کہ اس کتاب کے کچھ حصوں میں ایک ایسی سوچ کی عکاسی کی گئی جو نہ صرف اسلامی تعلیمات کے خلاف تھی بلکہ اس سے بہت سے لوگوں کو دکھ ہوا۔ اس کتاب میں ایسے نازک مسائل پر بھی بات کی گئی جن پر ملالہ نے اس کے شائع ہونے سے پہلے یا بعد میں کبھی بھی لب گشائی نہیں کی۔ میں نے ملالہ کی اس کتاب پر دو تین کالم گزشتہ سال لکھے اور آج بھی مجھے یقین ہے کہ جو کچھ اس کتاب میں لکھا گیا وہ ایک 16 سالہ بچی کا کام نہیں ہو سکتا۔ اس کتاب کو پڑھنے پر میرا یہ کہنا تھا کہ ملالہ پر ایک حملہ سوات کے طالبان نے کیا اور دوسرا حملہ اُن لوگوں نے کر دیا جنہوں نے اس کا نام استعمال کر کے ایسی ایسی باتیں I am Malala میں لکھ دیں جو مسلمانوں کی مذہبی جذبات کو مجروح کرتی تھیں۔ ایک بچی جس نے اپنی تعلیم کے حصول کے حق کے لیے اپنی جان تک کو دائو پر لگا دیا اُس کے نام کو استعمال کر کے کتاب میں تقریباً ہر اس مسئلہ کو چھیڑا گیا جو ہمارے اور مغرب کے درمیان ہمیشہ سے تنازع کا باعث رہا۔ پاکستانی میڈیا میں اس کتاب پر جب اعتراضات اٹھائے گئے تو حامد میر صاحب نے اپنے ایک کالم میں یہ لکھا کہ ملالہ کے والد نے انہیں فون کیا اور اعتراف کیا کہ نہ صرف ملعون سلمان رشدی کا ذکر کتاب میں غیر ضروری تھا بلکہ حضرت محمدﷺ کے نام کے ساتھ PBUH بھی لکھا جانا چاہیے تھا جو غلطی سے رہ گیا۔ میر صاحب کے مطابق ضیاء الدین نے یقین دلایا کہ ایسی تمام غلطیوں کو کتاب کے نئے ایڈیشن میں دور کر دیا جائے گا۔ گذشتہ ہفتہ ملالہ اور بھارتیکلاش ستیارتھی کو مشترکہ طور پر نوبل ایوارڈ کے لیے کامیاب قرار دیا گیا۔اس کے ساتھ ہی ملالہ نے نوبل ایوارڈ حاصل کرنے والوں کی فہرست میں سب سے کم عمر ترین فرد ہونے کا بھی اعزاز حاصل کیا۔ملالہ کو مغرب اور یورپ میں اور بھی کئی انعامات سے نوازا گیا مگر نوبل ایوارڈ نے ملالہ کی اہمیت کو دنیا کے لیے کئی گنا بڑھا دیا۔ برطانوی اخبار گارڈین کے مطابق ملالہ نے یہ اعزاز حاصل کر کے پاکستان کے لیے فخر کا باعث تو بن گئی مگر وہ اپنے ملک واپس نہیں جا سکتی کیوں کہ اُسے وہاں طالبان سے خطرہ ہے۔ اسی رپورٹ میں ملالہ کے ایک پرانے انٹرویو کا حوالہ دے کر اخبار لکھتا ہے کہ طالبان کے خلاف ملٹری آپریشن تو کیا جاتا ہے مگر طالبان کے اہم رہنمائوں کو نشانہ نہیں بنایا جاتا۔ ملالہ کو پاکستان میں طالبان سے یقینا خطرات لاحق ہیں مگر اُس کو نوبل ایوارڈ کے حصول کے بعد مغرب اور اُن سیکولر قوتوں کے حملہ سے بھی بچنا ہو گا جو ملالہ کے نام کو استعمال کر کے اپنے اپنے مزموم ایجنڈوں کو پورا کرنے کی کوشش کریں گے۔ امید ہے کہ ملالہ اب کسی دوسرے کو اپنا نام استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے گی اور نہ ہی اپنے نام سے منسوب کسی ایسی نئی کتاب کی اشاعت کی اجازت دے گی جو مسلمانوں کے جذبات یا پاکستان کی اسلامی شناخت کو مجروع کرے یا مغربی ایجنڈے کی ترجمانی کرتی ہو۔ ملالہ کو یہ مقام اُس کی تعلیم سے کمٹمنٹکی بنیاد پر حاصل ہوا اور اُسے اپنے اسی کام پر توجہ دینی چاہیے۔ اور جب تعلیم کی بات ہو تو ہم دنیا کے علم کی بات تو کرتے ہیں مگر اُس حقیقی علم سے ناواقف اور بے نیاز رہتے ہیں جو ہمیں قرآن اور حدیث کی صورت میں ملا ہے اور جسے پڑھے اور سمجھے بغیر نہ تو ہم حرام اورحلال، حق اور با طل کے درمیان کے فرق کو سمجھ سکتے ہیں اور نہ ہی اپنی زندگی کے اصل مقصد کو پہچان سکتے ہیں۔
 

یوسف-2

محفلین
ملالہ یوسف زئی کو نوبل انعام ملنا (عبداللہ طارق سہیل)
============================

ملالہ یوسف زئی کو نوبل انعام ملنا پاکستان کیلئے قابل فخر بات ہوگی لیکن عوام میں کچھ اور قسم کے پریشان کن سوال اٹھنا شروع ہوگئے ہیں مثلاً یہ کہ کیا اسرائیل اور امریکہ عمران خان سے مایوس ہو گئے؟ کیا وائٹ ہاؤس نے پاکستان کی اگلی وزیراعظم ملالہ کو بنانے کا فیصلہ کر لیا ہے؟
ملالہ یوسف زئی نوبل انعام پانے والی پہلی پاکستانی مسلمان ہیں۔ ان سے پہلے ایک پاکستانی سائنس دان ڈاکٹر عبدالسلام کو بھی یہ انعام ملا جو قادیانی مذہب سے تعلق رکھتے تھے۔
-----------------------
بطور مسلمان دیکھا جائے تو ملالہ کے بعد نوبل انعام پانے والے مسلمانوں کی تعداد10ہوگئی ہے۔ نوبل انعام کے ادارے کے مطابق یہ تعداد 11ہے کیونکہ وہ ڈاکٹر عبدالسلام کو بھی مسلمانوں کے کھاتے میں گنتے ہیں۔
سب سے پہلا نوبل امن انعام مصر کے صدر آنجہانی انوار السادات کو ملا۔ یہ انعام انہیں اسرائیل کو تسلیم کرنے‘ فلسطین کے کاز سے دستبردار ہونے اور اسرائیل سے سٹریٹجک اتحاد پر ملا۔ اس دوران انہوں نے مصر کے بنیاد پرست مسلمانوں کے خلاف کارروائی کرکے بھی مغرب کی نظروں میں اپنا مقام بنایا۔ اس انعام میں وہ اسرائیل کے وزیراعظم مناہم بیگن کے ہم شریک تھے۔ دوسرا انعام فلسطین کی تنظیم آزادی کے رہنماآنجہانی یاسر عرفات کو اس وقت ملا جب وہ اپنے قدیمی مؤقف سے دستبردار ہو کر اسرائیل کے ماتحت رہتے ہوئے فلسطینیوں کو یہودیوں کی باج گزار قوم بنانے پر تیار ہوگئے۔تیسرا انعام ایران کی شیریں عبادی کو ملا۔ یہ خاتون انسانی حقوق کی سرگرم کارکن اور ہم جنسی پرستی کی پر جوش حامی یعنی روشن خیال تھیں۔ انعام انہیں بظاہر انسانی حقوق کے نام پر دیا گیا لیکن اگر مؤخر الذکر خوبی نہ ہوتی تو بہت مشکل تھا کہ انہیں یہ انعام مل پاتا۔ پاکستان کی محترم خاتون عاصمہ جہانگیر کی انسانی حقوق کی خدمات شیریں عبادی سے کہیں بڑھ کر ہیں لیکن نوبل انعام کے لئے درکار خصوصی صفات ان میں نہیں چنانچہ انہیں یہ انعام نہیں مل سکتا اور نہ ہی محترمہ آمنہ جنجوعہ کو مل سکتا ہے جن کی انسانی حقوق کی خدمات کا مقابلہ شاید ہی کوئی دوسری خاتون کر سکے۔ انہوں نے تو پولیس اور خفیہ اداروں کا وحشیانہ تشدد بھی برداشت کیا۔ وہ چونکہ اسلام پرست بھی ہیں‘ یعنی تاریک خیال‘ اس لئے نوبل انعام کے اردگرد ان کا نام پھٹک بھی نہیں سکتا۔
-----------------------
چوتھا انعام مصر کے محمد البرادی کو ان کی پرامن ایٹمی خدمات پر ملا۔ ان کا اصل کارنامہ یہ تھا کہ انہوں نے عراق کے ’’تباہ کن ہتھیاروں‘‘ کی وہی مخبری کی تھی جو امریکہ چاہتا تھا۔ انہوں نے مصر کو امریکی کالونی بنانے کے لئے بھی خدمات انجام دیں۔
پانچواں انعام بنگلہ دیش کے گرامین بینک کے محمد یونس کو دیا گیا۔ موصوف بنگلہ دیش میں جمہوریت کے خلاف عالمی سکرپٹ رائٹرز کے منصوبے کے بنیادی مہرے تھے۔ انہوں نے بنگلہ دیش میں بھارت نواز عناصر کی پر شور واپسی کیلئے بھی اہم کردار ادا کیا۔
چھٹا انعام یمنی خاتون توکیل کرمان کو ملا۔ انسانی حقوق کی اس پرجوش کارکن نے یمن میں عدم استحکام پیدا کرنے کے لئے ان تھک محنت کی۔
ساتواں انعام (ادب) مصر کے نجیب محفوظ کو ملا۔ وہ بہت بڑے ادیب تھے اور اسرائیل کے پر جوش عاشق۔ انہیں مصر کے اندر یہود دشمن عناصر کی ناراضگی کا سامنا رہا۔
----------------------
آٹھواں انعام (ادب) مصر کے ایک اور بڑے ادیب اور رجحان ساز ڈرامہ نگار توفیق الحکم کو ملا۔ توفیق الحکم مشہور مائسوگائنسٹک Misogynistic شخص تھے۔ عربی میں اس کا ترجمہ عدو المراۃ یعنی عورت دشمن کیا جاتا ہے۔ آپ عورتوں سے امتیاز برتنے‘ ان پر ہر طرح کے تشدد کو روا رکھنے اور استحصال کے بعد انہیں اٹھا پھینکنے کے پر جوش حامی اور وکیل تھے البتہ بعد ازاں آپ نے اس نظریے سے اعلانیہ تو نہیں عملاًرجوع فرما لیا‘ اس طرح کہ ایک خاتون سے شادی کر لی۔ مصر میں ڈرامے کی تجدید اور احیا کیلئے آپ کی خدمات بہت تاریخی ہیں۔ آپ نے الف لیلیٰ کے ایک باب شہر زاد پر ڈرامہ لکھا جو اصل سے بڑھ کر بے حجاب تھا۔ نویں نمبر پر بھی ایک مصری ہیں۔ یعنی احمد زویل جنہیں کیمسٹری میں خدمات پر انعام ملا۔اس ایک نظر سے واضح ہو جاتا ہے کہ کسی مسلمان کو نوبل انعام دینے کا ’’خصوصی‘‘ معیار ہے۔
----------------------
ملالہ کی تعلیمی خدمات ابھی تک پردۂ اسرار میں ہیں لیکن ان کا پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کی پر جوش حامی ہونا بالکل آشکار ہے۔وہ خود پاکستانی ہیں لیکن ان کے والد گرامی جیّد قسم کے اکھنڈ بھارتی ہیں۔ ملالہ کی سوانح عمری جس میں توہین رسالت کی گئی‘ ملالہ کی نہیں‘ انہی قابل احترام والد محترم کی تخلیق ہے۔ اب تو خیر سے وہ ’’بابائے پاکستان‘‘ بننے کے قریب ہیں۔ انعام ملتے ہی ان کی پہلی فرمائش تھی کہ انعام بانٹنے کی تقریب میں نریندر مودی اور نواز شریف یعنی دونوں ملکوں کے وزیراعظم موجود ہونے چاہئیں۔ نواز شریف بھی بھارت سے امن چاہتے ہیں اور اس بنا پر سکیورٹی حلقے انہیں سکیورٹی رسک قرار دیتے ہیں۔ ملالہ نواز شریف سے آگے بڑھ کر بہت کچھ اور بھی چاہتی ہیں۔ خوش آئند بات ہے کہ آئی ایس پی آر کے ترجمان نے ملالہ کو پر جوش مبارکباد دی ہے۔ جس کے بعد امید بندھ گئی کہ امن کی گاڑی اب چل پڑے گی اور نواز شریف کو کچھ زیادہ محنت کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ ان کی ذمہّ داری ملالہ یوسف زئی ‘ جو بالکل سکیورٹی رسک نہیں ہیں‘ نے لے لی ہے۔ ملالہ نے انعام لینے کے بعد کہا کہ قلم کی طاقت بندوق سے زیادہ ہے۔ اس پر اسے خوب داد ملی۔ یہی بات پرویز رشید نے کہی تھی اور داد کی جگہ بیداد پائی تھی۔ ثابت ہوا کہ کیا کہا گیا‘ یہ اہم نہیں ہے۔ اہم یہ ہے کہ کس نے کہا۔ اسی طرح اہم یہ نہیں کہ کوئی کیا کر رہا ہے۔ اہم یہ ہے کہ کون کر رہا ہے۔ مثلاً نواز شریف نے واجپائی کولاہور بلایا اور کرسی سے محروم کر دیئے گئے۔ مشرف نے آگرہ جا کر واجپائی کی پاپوش بوسی کی اور عظیم مدّبر کہلائے۔
-------------------------
مشہور مغربی نیوز ایجنسی رائٹر نے لکھا ہے کہ ملالہ کی عالمی پذیرائی بہت زیادہ ہے لیکن پاکستان میں اسے اچھوت Outcastمانا جاتا ہے۔ ایسی بات نہیں ہے۔ امریکہ جب کسی کو وزیراعظم بنانے کا فیصلہ کر لے تو ’’مقامی قوّتیں‘‘ سارے راستے ہموار کر لیتی ہیں۔اچھوت آپ سے آپ چھوت بن جاتا ہے۔ رائٹر کو چنداں فکر کی ضرورت نہیں۔ رائٹر نے لکھا ہے کہ فیس بک پر ملالہ کو سی آئی اے کی ایجنٹ بتایا جا رہا ہے۔ اس میں کیا خرابی ہے۔ سی آئی اے کا ایجنٹ ہونا کسی بھی محب وطن پاکستانی کے لئے اعزاز کی آخری معراج ہوا کرتا ہے۔ شک ہے تو پاشا سے پوچھ لو‘ عمران سے پوچھ لو‘ طاہر القادری سے پوچھ لو‘ شاہ محمود قریشی سے پوچھو یا پاشا کارپوریشن کے کسی بھی تعلّق دار سے پوچھ لو۔ عام پاکستانی کو اس معاملے پر کوئی تحفظات نہیں ہیں‘ اسے تو صرف یہ پریشانی ہے کہ عمران سے کیا غلطی ہوگئی کہ اس کا متبادل ڈھونڈ لیا گیا‘ بلکہ ڈھونڈ لی گئی۔یا یہ کہ اگلی باری عمران کی‘ اس سے اگلی ملالہ کی !
_______________________
 
Top