ناصر علی مرزا
معطل
خصوصی رپورٹ (سبوخ سید )
ملالہ کو ملنے والے نوبیل ایوارڈ کی تقریب کی کوریج کے لیے میرے ایک صحافی دوست بھی گئے ہوئے ہیں ۔ معروف آدمی ہیں لیکن ان کا نام اس لیے نہیں لکھ رہا کہ انہوں نے مجھے اپنا حوالہ دینے سے روکا ہوا ہے ۔
کل شام انہوں نے اسکائپ پر اپنے کسی ذاتی کام کے لیے مجھ سے بات کی ۔ بات مکمل ہونے پر میں نے ان سے پوچھا کہ کیا ملالہ سے ملاقات ہوئی ؟ تو اس پر انہوں نے قہقہ لگاتے ہوئے مجھے پورا قصہ سنا دیا ۔کہنے لگے کہ
‘‘گذشتہ ایک ہفتے سےملالہ کے ساتھ ہی ہوں ۔ جب ناروے کے Reninge Heliport
پر پہنچا تو ملالہ اور اس کا والد خود لینے آئے تھے ۔ میں نے راستے میں محسوس کیا کہ ملالہ اور اس کے والد کے درمیان گفت گو بہت ہی کم ہو رہی ہے۔ ملالہ گاڑی میں والد کے ساتھ بیٹھنے کے بجائے اپنا آئی پیڈ لیکر پچھلی نشست پر بیٹھ گئی اور امریکن ایکسنٹ میں نوبیل پرائیز والی تقریر کے رٹے مارنے شروع کر دیے ۔
میں ملالہ کے والد ضیاء الدین کے ساتھ پاکستان کے سیاسی حالات اور دھرنوں کی سیاست پر گفت گو میں مگن ہو گیا ۔ اس دوران ضیاء الدین نے میرے ایک لطیفے پر قہقہ لگایا تو ملالہ نے اپنے والد کو گھور کر دیکھا ۔اس کے بعد ہوٹل تک ملالہ کے والد نے پھر زیادہ بات چیت نہیں کی ۔
جب ہم گھر پہنچے تو ایک برطانوی خاتون پروفیسر ملالہ کا گھر میں انتظار کر رہی تھی ۔ اس سے ملنے کے بعد ملالہ اس کے ساتھ کمرے میں بیٹھ گئی ۔ اس خاتون نے ملالہ سے زبانی تقریر سنی تو ملالہ ٹھیک طریقے سے تقریر نہیں کر پا رہی تھی ۔ خاتون نے ملالہ سے کہا کہ ‘‘دیکھو یہ کوئی سوات کی ڈائری نہیں جو تمھارے باپ نے کرائے پر لکھوائی تھی’’ اگر محنت نہیں کرو گی اس دن سب کو شرمندہ کر دو گی ۔ ملالہ نے یہ سن کر رونا شروع کر دیا اور کہنے لگی کہ جب کیلاش ہندی میں تقریر کر سکتا ہے تو مجھے کیوں پشتو میں تقریر نہیں کرنے دی جا رہی ۔
اس پر ملالہ کی ماں اور اس کا والد ضیاء الدین ملالہ کے پاس چلے گئے اور کہا کہ دیکھو بیٹا ’’ تم ہمارے سارے ایجنڈے کو تباہ کر رہی ہو ، خدا کے لیے تھوڑی محنت کرو ،ورنہ ہم مارے جائیں گے ‘‘ اس پر ملالہ نے اپنے باپ کو کھری کھری سنا تے ہوئے کہا کہ شرم نہیں آتی،پیسوں کے لیے اپنی بیٹیوں پر خود ہی حملے کراتے ہو اورپھر طالبان پر الزام لگا دیتے ہیں ۔ تم لوگوں کی وجہ سے پورا پاکستان مجھے گالیاں دے رہا ہے ۔ یہ سن کر ملالہ کی ماں رونے لگی ۔ ملالہ کو اپنی ماں سے بہت پیار ہے ۔ ماں کو روتا دیکھ کر اس نے ماں سے وعدہ کیا کہ وہ جلد تقریر تیار کر لے گی لیکن ایک شرط پر
شرط یہ ہے اسکی تقریر کو آسان انگریزی میں لکھا جائے اوراسے بی بی سی والے رپورٹر سے ہی لکھوایا جائے جس نے میری گل مکئی والی ڈائری لکھی تھی ،ملالہ کے ابو نے یہ سنا تو وہ ناراض ہونے لگے کہ وہ رپورٹر تو پہلے نوبیل پرائز میں اپنا حصہ مانگ رہا ہے ۔ ضیاء الدین کو کسی نے فون پر بتایا کہ وہ رپورٹر ملالہ کو ایوارڈ ملنے سے اگلے دن اس ڈائری کے حوالے سے انکشافات سے بھر پور ایک پریس کانفرنس بھی کر نا چاہتا ہے ۔ یہ سن کر ملالہ کا والد کافی خوفزدہ ہو گیا ۔ کافی تکرار اور سوچ بچار کے بعد اس رپورٹر کو پراگ سے بلوایا گیا جہاں وہ اب ایک دوسرے ادارے کے ساتھ کام کر رہا ہے ۔ اس رپورٹر نے بی بی سی اسٹائل میں ملالہ کے لیے ایک سادہ سی تقریر تیار کی اور پھر اسے یاد کرائی گئی ۔ ملالہ نے نوبیل انعام والی تقریر کم از کم 100 مرتبہ تو ہمیں سنائی ۔دوران تقریر وقفہ کیسے کرنا ہے ،مسکرانا کیسے ہے ؟،تالیوں کا وقفہ سب کچھ تیار کرایا گیا ۔یہاں تک میڈل لے کر ہاتھ فضا میں بلند کر نے تک ۔ ملالہ کو تو ٹھیک طریقے سے بسم اللہ بھی پڑھنی نہیں آتی تھی جس کے لیے پاکستان سے اسکائپ پر ایک آن لائن قاری کا انتظام کیا گیا ۔
میں حیرانی اور پریشانی کے عالم میں یہ سب دیکھتا رہا کہ کس طرح امریکی اپنے ایجنٹوں کو تیسری دنیا میں لیڈر بنا کر پیش کر تا ہے ۔ وہیں مجھے یہ بتایا گیا کہ پاکستان میں ٹی وی چینلز کو بھی خریدا گیا ہے کہ وہ اس موقع پر میراتھان ٹرانسمیشن کریں گے ۔
تو بھائی جان یہ ہے ڈرامے کا اصل اسکرپٹ ،انعام کا اصل حقدار عبدالستار ایدھی تھا لیکن ملالہ کو ایدھی سے چھینا ہوا انعام دے دیا گیا ۔
تو بھائیو ،بہنو ،دوستو اور بزرگوں ،گذارش یہ ہے کہ میں نے اپنے دل اور دماغ کی ساری کالک یہاں مل دی ہے ۔ اب تم جتنا پروپگنڈا مزید کر سکتے ہو ،کرو۔ اللہ تمھیں اجر ذلیل عطا فرمائے ۔
اور ہاں
کالیے ،اب تو بتا ،تو اس سے زیادہ اسے اور کہہ بھی کیا سکتا ہے ؟؟؟
عذیر سالار کا تبصرہ
اس سکرپٹ میں میرا حصہ ظاہر نہ کرنے پر سبوخ سید کا شکریہ لیکن آج میں خود یہ راز کھولنے جا رہا ہوں میرا اصل نام جوزف البرٹی ہے فیس بک پر عذیر سالار کے جعلی نام سے Black Water کے پروپگنڈا مشن پر ہوں...
(چونکہ عذیر علیہ السلام بنی اسرائیل کے نبی ہیں اور یہود انہیں اللہ کا بیٹا مانتے ہیں اس لیے میں نے اپنا قلمی نام بھی یہودیوں والا رکھا ہے)
یہ جو پچھلے چار پانچ سالوں سے ملالہ کے لیے ہلکان ہو رہا ہوں اس کے لیے مجھے اور میری سپائے ٹیم کو CIA نے 9.3 ملین ڈالر میں ہائر کیا تھا لیکن پھر وہ مکار ایجنسی نامعلوم وجوہات کی بناء پر مکر گئی تب میں نے اوباما کو فون کیا اور دھمکی دی کہ اگر مجھے میری بقیہ رقم چوبیس گھنٹوں میں نہ ملی تو میں ملالہ کا بھانڈا سرِ فیس بک پھوڑ دوں گا اس دھمکی کے بعد پینٹاگون میں ہلچل مچ گئی لیکن مسئلہ یہ تھا کے CIA ساری رقم حامد میر کو دے چکی تھی اور امریکی محکمہ دفاع کا خزانہ پاکستان کی طرح خالی تھا تب امریکہ نے اسرائیل سے 9.5 ملین ڈالر امداد لی اور اس میں سے 9.3 ملین مجھے دیے باقی 0.2 ملین ڈالر PTCL کو دئیے گئے جن کا 8MB والا DSL پیکج استعمال کر کے میں نے ملالہ کے حق میں پروپیگنڈہ مہم چلائی تھی
ملالہ کو ملنے والے نوبیل ایوارڈ کی تقریب کی کوریج کے لیے میرے ایک صحافی دوست بھی گئے ہوئے ہیں ۔ معروف آدمی ہیں لیکن ان کا نام اس لیے نہیں لکھ رہا کہ انہوں نے مجھے اپنا حوالہ دینے سے روکا ہوا ہے ۔
کل شام انہوں نے اسکائپ پر اپنے کسی ذاتی کام کے لیے مجھ سے بات کی ۔ بات مکمل ہونے پر میں نے ان سے پوچھا کہ کیا ملالہ سے ملاقات ہوئی ؟ تو اس پر انہوں نے قہقہ لگاتے ہوئے مجھے پورا قصہ سنا دیا ۔کہنے لگے کہ
‘‘گذشتہ ایک ہفتے سےملالہ کے ساتھ ہی ہوں ۔ جب ناروے کے Reninge Heliport
پر پہنچا تو ملالہ اور اس کا والد خود لینے آئے تھے ۔ میں نے راستے میں محسوس کیا کہ ملالہ اور اس کے والد کے درمیان گفت گو بہت ہی کم ہو رہی ہے۔ ملالہ گاڑی میں والد کے ساتھ بیٹھنے کے بجائے اپنا آئی پیڈ لیکر پچھلی نشست پر بیٹھ گئی اور امریکن ایکسنٹ میں نوبیل پرائیز والی تقریر کے رٹے مارنے شروع کر دیے ۔
میں ملالہ کے والد ضیاء الدین کے ساتھ پاکستان کے سیاسی حالات اور دھرنوں کی سیاست پر گفت گو میں مگن ہو گیا ۔ اس دوران ضیاء الدین نے میرے ایک لطیفے پر قہقہ لگایا تو ملالہ نے اپنے والد کو گھور کر دیکھا ۔اس کے بعد ہوٹل تک ملالہ کے والد نے پھر زیادہ بات چیت نہیں کی ۔
جب ہم گھر پہنچے تو ایک برطانوی خاتون پروفیسر ملالہ کا گھر میں انتظار کر رہی تھی ۔ اس سے ملنے کے بعد ملالہ اس کے ساتھ کمرے میں بیٹھ گئی ۔ اس خاتون نے ملالہ سے زبانی تقریر سنی تو ملالہ ٹھیک طریقے سے تقریر نہیں کر پا رہی تھی ۔ خاتون نے ملالہ سے کہا کہ ‘‘دیکھو یہ کوئی سوات کی ڈائری نہیں جو تمھارے باپ نے کرائے پر لکھوائی تھی’’ اگر محنت نہیں کرو گی اس دن سب کو شرمندہ کر دو گی ۔ ملالہ نے یہ سن کر رونا شروع کر دیا اور کہنے لگی کہ جب کیلاش ہندی میں تقریر کر سکتا ہے تو مجھے کیوں پشتو میں تقریر نہیں کرنے دی جا رہی ۔
اس پر ملالہ کی ماں اور اس کا والد ضیاء الدین ملالہ کے پاس چلے گئے اور کہا کہ دیکھو بیٹا ’’ تم ہمارے سارے ایجنڈے کو تباہ کر رہی ہو ، خدا کے لیے تھوڑی محنت کرو ،ورنہ ہم مارے جائیں گے ‘‘ اس پر ملالہ نے اپنے باپ کو کھری کھری سنا تے ہوئے کہا کہ شرم نہیں آتی،پیسوں کے لیے اپنی بیٹیوں پر خود ہی حملے کراتے ہو اورپھر طالبان پر الزام لگا دیتے ہیں ۔ تم لوگوں کی وجہ سے پورا پاکستان مجھے گالیاں دے رہا ہے ۔ یہ سن کر ملالہ کی ماں رونے لگی ۔ ملالہ کو اپنی ماں سے بہت پیار ہے ۔ ماں کو روتا دیکھ کر اس نے ماں سے وعدہ کیا کہ وہ جلد تقریر تیار کر لے گی لیکن ایک شرط پر
شرط یہ ہے اسکی تقریر کو آسان انگریزی میں لکھا جائے اوراسے بی بی سی والے رپورٹر سے ہی لکھوایا جائے جس نے میری گل مکئی والی ڈائری لکھی تھی ،ملالہ کے ابو نے یہ سنا تو وہ ناراض ہونے لگے کہ وہ رپورٹر تو پہلے نوبیل پرائز میں اپنا حصہ مانگ رہا ہے ۔ ضیاء الدین کو کسی نے فون پر بتایا کہ وہ رپورٹر ملالہ کو ایوارڈ ملنے سے اگلے دن اس ڈائری کے حوالے سے انکشافات سے بھر پور ایک پریس کانفرنس بھی کر نا چاہتا ہے ۔ یہ سن کر ملالہ کا والد کافی خوفزدہ ہو گیا ۔ کافی تکرار اور سوچ بچار کے بعد اس رپورٹر کو پراگ سے بلوایا گیا جہاں وہ اب ایک دوسرے ادارے کے ساتھ کام کر رہا ہے ۔ اس رپورٹر نے بی بی سی اسٹائل میں ملالہ کے لیے ایک سادہ سی تقریر تیار کی اور پھر اسے یاد کرائی گئی ۔ ملالہ نے نوبیل انعام والی تقریر کم از کم 100 مرتبہ تو ہمیں سنائی ۔دوران تقریر وقفہ کیسے کرنا ہے ،مسکرانا کیسے ہے ؟،تالیوں کا وقفہ سب کچھ تیار کرایا گیا ۔یہاں تک میڈل لے کر ہاتھ فضا میں بلند کر نے تک ۔ ملالہ کو تو ٹھیک طریقے سے بسم اللہ بھی پڑھنی نہیں آتی تھی جس کے لیے پاکستان سے اسکائپ پر ایک آن لائن قاری کا انتظام کیا گیا ۔
میں حیرانی اور پریشانی کے عالم میں یہ سب دیکھتا رہا کہ کس طرح امریکی اپنے ایجنٹوں کو تیسری دنیا میں لیڈر بنا کر پیش کر تا ہے ۔ وہیں مجھے یہ بتایا گیا کہ پاکستان میں ٹی وی چینلز کو بھی خریدا گیا ہے کہ وہ اس موقع پر میراتھان ٹرانسمیشن کریں گے ۔
تو بھائی جان یہ ہے ڈرامے کا اصل اسکرپٹ ،انعام کا اصل حقدار عبدالستار ایدھی تھا لیکن ملالہ کو ایدھی سے چھینا ہوا انعام دے دیا گیا ۔
تو بھائیو ،بہنو ،دوستو اور بزرگوں ،گذارش یہ ہے کہ میں نے اپنے دل اور دماغ کی ساری کالک یہاں مل دی ہے ۔ اب تم جتنا پروپگنڈا مزید کر سکتے ہو ،کرو۔ اللہ تمھیں اجر ذلیل عطا فرمائے ۔
اور ہاں
کالیے ،اب تو بتا ،تو اس سے زیادہ اسے اور کہہ بھی کیا سکتا ہے ؟؟؟
عذیر سالار کا تبصرہ
اس سکرپٹ میں میرا حصہ ظاہر نہ کرنے پر سبوخ سید کا شکریہ لیکن آج میں خود یہ راز کھولنے جا رہا ہوں میرا اصل نام جوزف البرٹی ہے فیس بک پر عذیر سالار کے جعلی نام سے Black Water کے پروپگنڈا مشن پر ہوں...
(چونکہ عذیر علیہ السلام بنی اسرائیل کے نبی ہیں اور یہود انہیں اللہ کا بیٹا مانتے ہیں اس لیے میں نے اپنا قلمی نام بھی یہودیوں والا رکھا ہے)
یہ جو پچھلے چار پانچ سالوں سے ملالہ کے لیے ہلکان ہو رہا ہوں اس کے لیے مجھے اور میری سپائے ٹیم کو CIA نے 9.3 ملین ڈالر میں ہائر کیا تھا لیکن پھر وہ مکار ایجنسی نامعلوم وجوہات کی بناء پر مکر گئی تب میں نے اوباما کو فون کیا اور دھمکی دی کہ اگر مجھے میری بقیہ رقم چوبیس گھنٹوں میں نہ ملی تو میں ملالہ کا بھانڈا سرِ فیس بک پھوڑ دوں گا اس دھمکی کے بعد پینٹاگون میں ہلچل مچ گئی لیکن مسئلہ یہ تھا کے CIA ساری رقم حامد میر کو دے چکی تھی اور امریکی محکمہ دفاع کا خزانہ پاکستان کی طرح خالی تھا تب امریکہ نے اسرائیل سے 9.5 ملین ڈالر امداد لی اور اس میں سے 9.3 ملین مجھے دیے باقی 0.2 ملین ڈالر PTCL کو دئیے گئے جن کا 8MB والا DSL پیکج استعمال کر کے میں نے ملالہ کے حق میں پروپیگنڈہ مہم چلائی تھی