ملالہ کی کل صبح اپنے باپ سے لڑائی کیوں ہوئی ؟؟؟

خصوصی رپورٹ (سبوخ سید )

ملالہ کو ملنے والے نوبیل ایوارڈ کی تقریب کی کوریج کے لیے میرے ایک صحافی دوست بھی گئے ہوئے ہیں ۔ معروف آدمی ہیں لیکن ان کا نام اس لیے نہیں لکھ رہا کہ انہوں نے مجھے اپنا حوالہ دینے سے روکا ہوا ہے ۔
کل شام انہوں نے اسکائپ پر اپنے کسی ذاتی کام کے لیے مجھ سے بات کی ۔ بات مکمل ہونے پر میں نے ان سے پوچھا کہ کیا ملالہ سے ملاقات ہوئی ؟ تو اس پر انہوں نے قہقہ لگاتے ہوئے مجھے پورا قصہ سنا دیا ۔کہنے لگے کہ
‘‘گذشتہ ایک ہفتے سےملالہ کے ساتھ ہی ہوں ۔ جب ناروے کے Reninge Heliport
پر پہنچا تو ملالہ اور اس کا والد خود لینے آئے تھے ۔ میں نے راستے میں محسوس کیا کہ ملالہ اور اس کے والد کے درمیان گفت گو بہت ہی کم ہو رہی ہے۔ ملالہ گاڑی میں والد کے ساتھ بیٹھنے کے بجائے اپنا آئی پیڈ لیکر پچھلی نشست پر بیٹھ گئی اور امریکن ایکسنٹ میں نوبیل پرائیز والی تقریر کے رٹے مارنے شروع کر دیے ۔
میں ملالہ کے والد ضیاء الدین کے ساتھ پاکستان کے سیاسی حالات اور دھرنوں کی سیاست پر گفت گو میں مگن ہو گیا ۔ اس دوران ضیاء الدین نے میرے ایک لطیفے پر قہقہ لگایا تو ملالہ نے اپنے والد کو گھور کر دیکھا ۔اس کے بعد ہوٹل تک ملالہ کے والد نے پھر زیادہ بات چیت نہیں کی ۔
جب ہم گھر پہنچے تو ایک برطانوی خاتون پروفیسر ملالہ کا گھر میں انتظار کر رہی تھی ۔ اس سے ملنے کے بعد ملالہ اس کے ساتھ کمرے میں بیٹھ گئی ۔ اس خاتون نے ملالہ سے زبانی تقریر سنی تو ملالہ ٹھیک طریقے سے تقریر نہیں کر پا رہی تھی ۔ خاتون نے ملالہ سے کہا کہ ‘‘دیکھو یہ کوئی سوات کی ڈائری نہیں جو تمھارے باپ نے کرائے پر لکھوائی تھی’’ اگر محنت نہیں کرو گی اس دن سب کو شرمندہ کر دو گی ۔ ملالہ نے یہ سن کر رونا شروع کر دیا اور کہنے لگی کہ جب کیلاش ہندی میں تقریر کر سکتا ہے تو مجھے کیوں پشتو میں تقریر نہیں کرنے دی جا رہی ۔
اس پر ملالہ کی ماں اور اس کا والد ضیاء الدین ملالہ کے پاس چلے گئے اور کہا کہ دیکھو بیٹا ’’ تم ہمارے سارے ایجنڈے کو تباہ کر رہی ہو ، خدا کے لیے تھوڑی محنت کرو ،ورنہ ہم مارے جائیں گے ‘‘ اس پر ملالہ نے اپنے باپ کو کھری کھری سنا تے ہوئے کہا کہ شرم نہیں آتی،پیسوں کے لیے اپنی بیٹیوں پر خود ہی حملے کراتے ہو اورپھر طالبان پر الزام لگا دیتے ہیں ۔ تم لوگوں کی وجہ سے پورا پاکستان مجھے گالیاں دے رہا ہے ۔ یہ سن کر ملالہ کی ماں رونے لگی ۔ ملالہ کو اپنی ماں سے بہت پیار ہے ۔ ماں کو روتا دیکھ کر اس نے ماں سے وعدہ کیا کہ وہ جلد تقریر تیار کر لے گی لیکن ایک شرط پر
شرط یہ ہے اسکی تقریر کو آسان انگریزی میں لکھا جائے اوراسے بی بی سی والے رپورٹر سے ہی لکھوایا جائے جس نے میری گل مکئی والی ڈائری لکھی تھی ،ملالہ کے ابو نے یہ سنا تو وہ ناراض ہونے لگے کہ وہ رپورٹر تو پہلے نوبیل پرائز میں اپنا حصہ مانگ رہا ہے ۔ ضیاء الدین کو کسی نے فون پر بتایا کہ وہ رپورٹر ملالہ کو ایوارڈ ملنے سے اگلے دن اس ڈائری کے حوالے سے انکشافات سے بھر پور ایک پریس کانفرنس بھی کر نا چاہتا ہے ۔ یہ سن کر ملالہ کا والد کافی خوفزدہ ہو گیا ۔ کافی تکرار اور سوچ بچار کے بعد اس رپورٹر کو پراگ سے بلوایا گیا جہاں وہ اب ایک دوسرے ادارے کے ساتھ کام کر رہا ہے ۔ اس رپورٹر نے بی بی سی اسٹائل میں ملالہ کے لیے ایک سادہ سی تقریر تیار کی اور پھر اسے یاد کرائی گئی ۔ ملالہ نے نوبیل انعام والی تقریر کم از کم 100 مرتبہ تو ہمیں سنائی ۔دوران تقریر وقفہ کیسے کرنا ہے ،مسکرانا کیسے ہے ؟،تالیوں کا وقفہ سب کچھ تیار کرایا گیا ۔یہاں تک میڈل لے کر ہاتھ فضا میں بلند کر نے تک ۔ ملالہ کو تو ٹھیک طریقے سے بسم اللہ بھی پڑھنی نہیں آتی تھی جس کے لیے پاکستان سے اسکائپ پر ایک آن لائن قاری کا انتظام کیا گیا ۔
میں حیرانی اور پریشانی کے عالم میں یہ سب دیکھتا رہا کہ کس طرح امریکی اپنے ایجنٹوں کو تیسری دنیا میں لیڈر بنا کر پیش کر تا ہے ۔ وہیں مجھے یہ بتایا گیا کہ پاکستان میں ٹی وی چینلز کو بھی خریدا گیا ہے کہ وہ اس موقع پر میراتھان ٹرانسمیشن کریں گے ۔
تو بھائی جان یہ ہے ڈرامے کا اصل اسکرپٹ ،انعام کا اصل حقدار عبدالستار ایدھی تھا لیکن ملالہ کو ایدھی سے چھینا ہوا انعام دے دیا گیا ۔

تو بھائیو ،بہنو ،دوستو اور بزرگوں ،گذارش یہ ہے کہ میں نے اپنے دل اور دماغ کی ساری کالک یہاں مل دی ہے ۔ اب تم جتنا پروپگنڈا مزید کر سکتے ہو ،کرو۔ اللہ تمھیں اجر ذلیل عطا فرمائے ۔
اور ہاں
کالیے ،اب تو بتا ،تو اس سے زیادہ اسے اور کہہ بھی کیا سکتا ہے ؟؟؟

عذیر سالار کا تبصرہ

اس سکرپٹ میں میرا حصہ ظاہر نہ کرنے پر سبوخ سید کا شکریہ لیکن آج میں خود یہ راز کھولنے جا رہا ہوں میرا اصل نام جوزف البرٹی ہے فیس بک پر عذیر سالار کے جعلی نام سے Black Water کے پروپگنڈا مشن پر ہوں...
(چونکہ عذیر علیہ السلام بنی اسرائیل کے نبی ہیں اور یہود انہیں اللہ کا بیٹا مانتے ہیں اس لیے میں نے اپنا قلمی نام بھی یہودیوں والا رکھا ہے)
یہ جو پچھلے چار پانچ سالوں سے ملالہ کے لیے ہلکان ہو رہا ہوں اس کے لیے مجھے اور میری سپائے ٹیم کو CIA نے 9.3 ملین ڈالر میں ہائر کیا تھا لیکن پھر وہ مکار ایجنسی نامعلوم وجوہات کی بناء پر مکر گئی تب میں نے اوباما کو فون کیا اور دھمکی دی کہ اگر مجھے میری بقیہ رقم چوبیس گھنٹوں میں نہ ملی تو میں ملالہ کا بھانڈا سرِ فیس بک پھوڑ دوں گا اس دھمکی کے بعد پینٹاگون میں ہلچل مچ گئی لیکن مسئلہ یہ تھا کے CIA ساری رقم حامد میر کو دے چکی تھی اور امریکی محکمہ دفاع کا خزانہ پاکستان کی طرح خالی تھا تب امریکہ نے اسرائیل سے 9.5 ملین ڈالر امداد لی اور اس میں سے 9.3 ملین مجھے دیے باقی 0.2 ملین ڈالر PTCL کو دئیے گئے جن کا 8MB والا DSL پیکج استعمال کر کے میں نے ملالہ کے حق میں پروپیگنڈہ مہم چلائی تھی
 
خصوصی رپورٹ (سبوخ سید )

ملالہ کو ملنے والے نوبیل ایوارڈ کی تقریب کی کوریج کے لیے میرے ایک صحافی دوست بھی گئے ہوئے ہیں ۔ معروف آدمی ہیں لیکن ان کا نام اس لیے نہیں لکھ رہا کہ انہوں نے مجھے اپنا حوالہ دینے سے روکا ہوا ہے ۔
کل شام انہوں نے اسکائپ پر اپنے کسی ذاتی کام کے لیے مجھ سے بات کی ۔ بات مکمل ہونے پر میں نے ان سے پوچھا کہ کیا ملالہ سے ملاقات ہوئی ؟ تو اس پر انہوں نے قہقہ لگاتے ہوئے مجھے پورا قصہ سنا دیا ۔کہنے لگے کہ
‘‘گذشتہ ایک ہفتے سےملالہ کے ساتھ ہی ہوں ۔ جب ناروے کے Reninge Heliport
پر پہنچا تو ملالہ اور اس کا والد خود لینے آئے تھے ۔ میں نے راستے میں محسوس کیا کہ ملالہ اور اس کے والد کے درمیان گفت گو بہت ہی کم ہو رہی ہے۔ ملالہ گاڑی میں والد کے ساتھ بیٹھنے کے بجائے اپنا آئی پیڈ لیکر پچھلی نشست پر بیٹھ گئی اور امریکن ایکسنٹ میں نوبیل پرائیز والی تقریر کے رٹے مارنے شروع کر دیے ۔
میں ملالہ کے والد ضیاء الدین کے ساتھ پاکستان کے سیاسی حالات اور دھرنوں کی سیاست پر گفت گو میں مگن ہو گیا ۔ اس دوران ضیاء الدین نے میرے ایک لطیفے پر قہقہ لگایا تو ملالہ نے اپنے والد کو گھور کر دیکھا ۔اس کے بعد ہوٹل تک ملالہ کے والد نے پھر زیادہ بات چیت نہیں کی ۔
جب ہم گھر پہنچے تو ایک برطانوی خاتون پروفیسر ملالہ کا گھر میں انتظار کر رہی تھی ۔ اس سے ملنے کے بعد ملالہ اس کے ساتھ کمرے میں بیٹھ گئی ۔ اس خاتون نے ملالہ سے زبانی تقریر سنی تو ملالہ ٹھیک طریقے سے تقریر نہیں کر پا رہی تھی ۔ خاتون نے ملالہ سے کہا کہ ‘‘دیکھو یہ کوئی سوات کی ڈائری نہیں جو تمھارے باپ نے کرائے پر لکھوائی تھی’’ اگر محنت نہیں کرو گی اس دن سب کو شرمندہ کر دو گی ۔ ملالہ نے یہ سن کر رونا شروع کر دیا اور کہنے لگی کہ جب کیلاش ہندی میں تقریر کر سکتا ہے تو مجھے کیوں پشتو میں تقریر نہیں کرنے دی جا رہی ۔
اس پر ملالہ کی ماں اور اس کا والد ضیاء الدین ملالہ کے پاس چلے گئے اور کہا کہ دیکھو بیٹا ’’ تم ہمارے سارے ایجنڈے کو تباہ کر رہی ہو ، خدا کے لیے تھوڑی محنت کرو ،ورنہ ہم مارے جائیں گے ‘‘ اس پر ملالہ نے اپنے باپ کو کھری کھری سنا تے ہوئے کہا کہ شرم نہیں آتی،پیسوں کے لیے اپنی بیٹیوں پر خود ہی حملے کراتے ہو اورپھر طالبان پر الزام لگا دیتے ہیں ۔ تم لوگوں کی وجہ سے پورا پاکستان مجھے گالیاں دے رہا ہے ۔ یہ سن کر ملالہ کی ماں رونے لگی ۔ ملالہ کو اپنی ماں سے بہت پیار ہے ۔ ماں کو روتا دیکھ کر اس نے ماں سے وعدہ کیا کہ وہ جلد تقریر تیار کر لے گی لیکن ایک شرط پر
شرط یہ ہے اسکی تقریر کو آسان انگریزی میں لکھا جائے اوراسے بی بی سی والے رپورٹر سے ہی لکھوایا جائے جس نے میری گل مکئی والی ڈائری لکھی تھی ،ملالہ کے ابو نے یہ سنا تو وہ ناراض ہونے لگے کہ وہ رپورٹر تو پہلے نوبیل پرائز میں اپنا حصہ مانگ رہا ہے ۔ ضیاء الدین کو کسی نے فون پر بتایا کہ وہ رپورٹر ملالہ کو ایوارڈ ملنے سے اگلے دن اس ڈائری کے حوالے سے انکشافات سے بھر پور ایک پریس کانفرنس بھی کر نا چاہتا ہے ۔ یہ سن کر ملالہ کا والد کافی خوفزدہ ہو گیا ۔ کافی تکرار اور سوچ بچار کے بعد اس رپورٹر کو پراگ سے بلوایا گیا جہاں وہ اب ایک دوسرے ادارے کے ساتھ کام کر رہا ہے ۔ اس رپورٹر نے بی بی سی اسٹائل میں ملالہ کے لیے ایک سادہ سی تقریر تیار کی اور پھر اسے یاد کرائی گئی ۔ ملالہ نے نوبیل انعام والی تقریر کم از کم 100 مرتبہ تو ہمیں سنائی ۔دوران تقریر وقفہ کیسے کرنا ہے ،مسکرانا کیسے ہے ؟،تالیوں کا وقفہ سب کچھ تیار کرایا گیا ۔یہاں تک میڈل لے کر ہاتھ فضا میں بلند کر نے تک ۔ ملالہ کو تو ٹھیک طریقے سے بسم اللہ بھی پڑھنی نہیں آتی تھی جس کے لیے پاکستان سے اسکائپ پر ایک آن لائن قاری کا انتظام کیا گیا ۔
میں حیرانی اور پریشانی کے عالم میں یہ سب دیکھتا رہا کہ کس طرح امریکی اپنے ایجنٹوں کو تیسری دنیا میں لیڈر بنا کر پیش کر تا ہے ۔ وہیں مجھے یہ بتایا گیا کہ پاکستان میں ٹی وی چینلز کو بھی خریدا گیا ہے کہ وہ اس موقع پر میراتھان ٹرانسمیشن کریں گے ۔
تو بھائی جان یہ ہے ڈرامے کا اصل اسکرپٹ ،انعام کا اصل حقدار عبدالستار ایدھی تھا لیکن ملالہ کو ایدھی سے چھینا ہوا انعام دے دیا گیا ۔

تو بھائیو ،بہنو ،دوستو اور بزرگوں ،گذارش یہ ہے کہ میں نے اپنے دل اور دماغ کی ساری کالک یہاں مل دی ہے ۔ اب تم جتنا پروپگنڈا مزید کر سکتے ہو ،کرو۔ اللہ تمھیں اجر ذلیل عطا فرمائے ۔
اور ہاں
کالیے ،اب تو بتا ،تو اس سے زیادہ اسے اور کہہ بھی کیا سکتا ہے ؟؟؟

عذیر سالار کا تبصرہ

اس سکرپٹ میں میرا حصہ ظاہر نہ کرنے پر سبوخ سید کا شکریہ لیکن آج میں خود یہ راز کھولنے جا رہا ہوں میرا اصل نام جوزف البرٹی ہے فیس بک پر عذیر سالار کے جعلی نام سے Black Water کے پروپگنڈا مشن پر ہوں...
(چونکہ عذیر علیہ السلام بنی اسرائیل کے نبی ہیں اور یہود انہیں اللہ کا بیٹا مانتے ہیں اس لیے میں نے اپنا قلمی نام بھی یہودیوں والا رکھا ہے)
یہ جو پچھلے چار پانچ سالوں سے ملالہ کے لیے ہلکان ہو رہا ہوں اس کے لیے مجھے اور میری سپائے ٹیم کو CIA نے 9.3 ملین ڈالر میں ہائر کیا تھا لیکن پھر وہ مکار ایجنسی نامعلوم وجوہات کی بناء پر مکر گئی تب میں نے اوباما کو فون کیا اور دھمکی دی کہ اگر مجھے میری بقیہ رقم چوبیس گھنٹوں میں نہ ملی تو میں ملالہ کا بھانڈا سرِ فیس بک پھوڑ دوں گا اس دھمکی کے بعد پینٹاگون میں ہلچل مچ گئی لیکن مسئلہ یہ تھا کے CIA ساری رقم حامد میر کو دے چکی تھی اور امریکی محکمہ دفاع کا خزانہ پاکستان کی طرح خالی تھا تب امریکہ نے اسرائیل سے 9.5 ملین ڈالر امداد لی اور اس میں سے 9.3 ملین مجھے دیے باقی 0.2 ملین ڈالر PTCL کو دئیے گئے جن کا 8MB والا DSL پیکج استعمال کر کے میں نے ملالہ کے حق میں پروپیگنڈہ مہم چلائی تھی

زبردست کہانی نویسی ہے اللہ کرے اور بھی زورِ قلم زیادہ
 

زیک

مسافر
معلوم نہیں کچھ پاکستانیوں کو ملالہ سے اتنی خار کیوں ہے۔ میں نے تو سوشل میڈیا پر ملالہ اور پشاور سکول پر حملے سے متعلق بھی عجیب و غریب سازشی مواد دیکھا ہے
 

باباجی

محفلین
گو کہ میں بھی ملالہ مخالف ہوں ۔۔۔ لیکن مخالفت میں اندھا نہیں ہوں
ہونے کو کچھ بھی ہوسکتا ہے لیکن جب تک مکمل ثابت نا ہوجائے اسے نہیں مانتا
اس رپورٹ میں "داستان گوئی" کا انداز ہے
 

محمداحمد

لائبریرین
ملالہ کو چاہیے کہ پاکستانیوں کے دل جیتنے کی کوشش کرے۔

چند اچھے بیانات اور عملی اقدامات (اگر ممکن ہو سکے) کی مدد سے پاکستان میں معتدل طبقے کی خاطر خواہ حمایت حاصل کی جا سکتی ہے۔
 

عثمان

محفلین
ملالہ کو چاہیے کہ پاکستانیوں کے دل جیتنے کی کوشش کرے۔

چند اچھے بیانات اور عملی اقدامات (اگر ممکن ہو سکے) کی مدد سے پاکستان میں معتدل طبقے کی خاطر خواہ حمایت حاصل کی جا سکتی ہے۔
حضرت! ۔۔ بچی کی جان جاتے جاتے بچی۔ یہ سب تو آپ جناب کا دل نہیں جیت سکا اور کیا احسان کیا جائے۔
 
ملالہ ماشآاللہ بہت بہادر بچی ہے۔ اس کا اصل کارنامہ اپنی تعلیم کے لئے اس وقت سٹینڈ لینا تھا جب اس کا علاقہ سوات لڑکیوں کی تعلیم کے دشمنوں کے مکمل کنٹرول میں تھا۔ جب ملالہ جب پہلی بار حامد میر کے پروگرام میں آئی اس وقت تو بہت وہ بہت چھوٹی تھی۔ اسی وقت اس سے بہادری اور زہانت ٹپک رہی تھی۔
 

محمداحمد

لائبریرین
حضرت! ۔۔ بچی کی جان جاتے جاتے بچی۔ یہ سب تو آپ جناب کا دل نہیں جیت سکا اور کیا احسان کیا جائے۔

بھائی صاحب طالبان نے تو نہ جانے کتنے لوگوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا اور ان حملوں میں کچھ لوگ بچ بھی گئے لیکن ملالہ یوسف زئی تو ایک ہی ہے کوئی اور اس مقام پر نہیں پہنچا۔

پھر اب ملالہ بین الاقوامی طور پر جانی پہچانی شخصیت ہے اور پاکستان کی پہلی نوبل پرائز ہولڈر ہے۔ ایسے میں اگر پاکستان کا ایک خاص طبقہ ملالہ کو پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھتا تو اُس طبقے کی غلط فہمی دور کرنے کی کوشش کرنا احسن قدم ہی کہلائے گا۔

پھر ملالہ پاکستان میں تعلیم کی علمبردار ہے تو اُسے اس سلسلے میں بھی پاکستان کی عوام کے لئے کچھ (جو ممکن ہو) کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ صرف اس وجہ سے کہ بچی کی جان جاتے جاتے بچ گئی پاکستان میں تعلیمی نظام میں بہتری کیسے آسکتی ہے۔ ملالہ کا رتبہ اب محض ایک "وکٹم" سے کہیں بڑھ کر ہے اور:

ع - جن کے رُتبے ہیں سِوا ، اُن کی سِوا مشکل ہے​
 

فاتح

لائبریرین
ملالہ ۔۔۔ پاکستان کی پہلی نوبل پرائز ہولڈر ہے۔
محمد احمد بھائی، کیا آپ کی معلومات عامہ واقعی اتنی ہی کمزور ہے؟ :)
پاکستان کا ایک خاص طبقہ ملالہ کو پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھتا تو اُس طبقے کی غلط فہمی دور کرنے کی کوشش کرنا احسن قدم ہی کہلائے گا۔
اس بچی سے پاکستان کا ایک خاص طبقہ یہ چاہتا ہے، دوسرا خاص طبقہ اس سے وہ چاہتا ہے، تیسرا خاص طبقہ کچھ اور چاہتا ہے اور چوتھا کچھ اور۔۔۔
ایسے میں اسے ان سب خاص طبقوں پر چار حرف بھیج کر اپنا کام جاری رکھنا چاہیے کیونکہ ایسے عقل کے اندھوں کی کتنی غلط فہمیاں دور کرے گی وہ بے چاری
 

فاتح

لائبریرین
گو کہ میں بھی ملالہ مخالف ہوں ۔۔۔ لیکن مخالفت میں اندھا نہیں ہوں
ہونے کو کچھ بھی ہوسکتا ہے لیکن جب تک مکمل ثابت نا ہوجائے اسے نہیں مانتا
اس رپورٹ میں "داستان گوئی" کا انداز ہے
یہ طنزیہ داستان گوئی ہی ہے۔۔۔ انگریزی میں اسے سیٹائر (satire) کہتے ہیں
 

محمداحمد

لائبریرین
محمد احمد بھائی، کیا آپ کی معلومات عامہ واقعی اتنی ہی کمزور ہے؟

شاید پہلی کم عمر لکھنا تھا۔ لیکن غلطی ہوئی۔

باقی رہا آپ کا جواب اور باقی لوگوں کی ریٹنگز۔ تو صرف اتنا عرض ہے کہ انتہا پسندی کا جواب انتہا پسندی سے دے کر معاملات کبھی سنور نہیں سکیں گے۔
 

فاتح

لائبریرین
شاید پہلی کم عمر لکھنا تھا۔ لیکن غلطی ہوئی۔

باقی رہا آپ کا جواب اور باقی لوگوں کی ریٹنگز۔ تو صرف اتنا عرض ہے کہ انتہا پسندی کا جواب انتہا پسندی سے دے کر معاملات کبھی سنور نہیں سکیں گے۔
یہی تو عرض کیا ہے کہ ایسی جہالت اور انتہا پسندی کا جواب چار حرف بھیجنا ہی ہے
 
چند اچھے بیانات اور عملی اقدامات (اگر ممکن ہو سکے) کی مدد سے پاکستان میں معتدل طبقے کی خاطر خواہ حمایت حاصل کی جا سکتی ہے۔[/QUOTE]
لیکن اس کو معتدل طبقہ کی حمایت کی ضرورت کیا ہے؟؟
یہ عوام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ذرا " وقت کے فرعونوں" کی نظر سے------------------" ان کیڑوں مکوڑوں" کی اوقات ہی کیا ہے ،
بقول شاعر
یہ گلیوں کے آوارہ بےکار کتے
کہ بخشا گیا جن کو ذوقِ گدائی
۔۔۔۔
ہر ایک کی ٹھوکر کھانے والے
یہ فاقوں سے اکتا کر مر جانے والے
 
یہ طنزیہ داستان گوئی ہی ہے۔۔۔ انگریزی میں اسے سیٹائر (satire) کہتے ہیں
بھائی جان ہم بھی اسی طرح کی ایک طنزیہ داستان پیش کرتے ہیں۔
یہ گذشتہ ہفتے کی بات ہے۔ ہمیں بازار سے کچھ سودا سلف لینا تھا۔ سورج ڈھلنے کا وقت تھا۔ موسم کی خوشگوار خنکی آہستہ آہستہ بڑھتی محسوس ہورہی تھی۔ ہم نے اس پُرکیف ماحول سے لطف اندوز ہونے کی خاطر ذرا لمبا راستہ اختیار کیا اور چلتے چلتے اس گلی میں جانکلے جہاں ہمارے دوست مسٹر کلین کا دربار لگتا ہے۔ ’’دربار‘‘ کا لفظ ہم نے اس لیے استعمال کیا، کیونکہ مسٹر کلین ایک معروف سوشل ورکر ہیں۔ ان کے پاس ان کے چاہنے والوں کے علاوہ ان کے کارکنوں یعنی این جی اوز کے نمایندوں کا بھی آنا جانا لگا رہتا ہے۔ آج کل پی ٹی آئی کے ’’انقلابیوں‘‘ کی آمد و رفت بھی بڑھ گئی ہے۔

ہم مسٹر کلین کے گھر کے نزدیک پہنچے تو ایسا لگا کہ وہاں آج واقعی دربار سا لگا ہوا ہے۔ مسٹر کلین کے گھر کے باہر جشن کا سماں تھا۔ نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی ایک بڑی تعداد وہاں جمع تھی۔ مسٹر کلین ان کے بیچ میں کرسی میں بیٹھے بڑے خوش دکھائی دے رہے تھے۔ ایسا محسوس ہورہا تھا کہ کچھ دیر پہلے یہاں مٹھائی بھی بٹی ہے۔ ہم اس ماحول میں مسٹر کلین کے پاس جانا نہیں چاہ رہے تھے۔ کنی کتراکر نکلنے کا سوچ ہی رہے تھے کہ موصوف کی نگاہ کی زد میں آگئے۔

انہوں نے دور سے آواز دی: ’’ملاجی! آئیے! آج ہم آپ کو حلوہ کھلاتے ہیں!‘‘ حلوہ کا جلوہ دیکھ کر ہم بھی ان کے نزدیک ہو گئے۔ پوچھا: ’’کس خوشی میں؟‘‘ مسٹر موصوف نے کہا: ’’لوجی! دنیا میں ایسے بھولے بھالے لوگ بھی موجود ہیں۔ آج پوری دنیا ٹی وی اسکرین کے آگے بیٹھی ہے اور اوسلو میں نوبل انعام کی تقریب دیکھ رہی ہے۔ قوم کی بیٹی ملالہ یوسف زئی کو اتنے بڑے اعزاز سے نوازا گیا ہے اور ادھر ملاجی ہیں کہ انہیں خبر ہی نہیں کہ دنیا میں ہوا کیا ہے؟‘‘

ہم نے عرض کیا: ’’ہم نے اخبار میں پڑھا تھا کہ ملالہ کو نوبل انعام مل رہا ہے، لیکن بیگانے کی شادی میں عبداللہ کیوں دیوانہ ہورہا ہے؟‘‘ مسٹر کلین نے سوالیہ نگاہ سے ہماری طرف دیکھا۔ ان کے آس پاس کھڑے نوجوان بھی شاید ہماری بات نہیں سمجھے۔ ہم نے عرض کیا: ’’ہمیں تو خوشی تب ہوتی جب یہ انعام ہمارے دوست مسٹر کلین کو ملا ہوتا۔‘‘ ہماری یہ بات سن کر مسٹر کلین تھوڑے سے کسمسائے، جیسے ہم ان سے مذاق کر رہے ہوں تاہم ان کے ارد گرد کھڑے نوجوانوں نے تالیاں بجاکر مسٹر کلین کی حوصلہ افزائی کی تو ان کے چہرے پر ایک دم بہار سی آگئی۔ ہم نے عرض کیا: ’’دیکھیں!ملالہ کو بچوں کی تعلیم اور ان کے حقوق کے لیے کام کرنے کے نام پر اتنا بڑا انعام دیا گیا ہے۔ بچوں کے حقوق، خواتین کے حقوق اور انسانی حقوق کے شعبے میںجتنا کام مسٹر کلین نے کیا ہے، ملالہ نے اس کا سواں حصہ بھی نہیں کیا ہوگا!‘‘

ہم نے کہا: ’’ملالہ نے اپنے ایک انٹرویو میں بتایا ہے کہ اس کا بھائی اس سے روز پوچھتا ہے: ’’تم نے ایسا کیا کیا ہے جو ساری دنیا میں تمہارا چرچا ہورہا ہے؟‘‘ ہم نے عرض کیا: ’’ہمیں نوبل انعام دینے والوں پر بڑا غصہ ہے کہ انہوں نے بھارت کے کیلاش کو تو یاد رکھا اور اسے ملالہ کے ساتھ انعام میں شریک کردیا، لیکن ہمارے کیلاش… معاف کیجیے گا، مسٹر کلین کو فراموش کردیا۔

‘‘ ایک نوجوان نے کہا: ’’ملاجی! آپ یہ بات مسٹر کلین کی محبت میں کر رہے ہیں یا ملالہ کے حسد میں؟‘‘ ہم نے عرض کیا: ’’دونوں باتیں ہیں۔ ہمیں مسٹر کلین کے ساتھ ناانصافی پر بھی افسوس ہے اور ملالہ سے حسد بھی!‘‘ نوجوان نے ایک معروف کالم نگار کا حوالہ دے کر کہا: ’’ہمیں ملالہ سے حسد نہیں کرنا چاہیے۔ ہم نے عرض کیا: ’’کیوں نہیں کرنا چاہیے؟ اسی کالم نگار نے اسی کالم میں آگے چل کر کہا ہے کہ کیلاش سیارتھی کو انعام اس لیے دیا گیا ہے کہ اس نے ساری زندگی بچوں کے حقوق کے لیے کام کیا اور ملالہ کو اس لیے دیا گیا کہ اس نے ابھی کام کرنا ہے۔‘‘ ہم نے عرض کیا: ’’یہ شاید دنیاکی تاریخ کا پہلا انعام اور ایوارڈ ہے جو کسی کو کوکام کرنے سے پہلے ہی دیا گیا ہے۔ اب آپ بتائیں کہ کسی کو کام کرنے پہلے ہی اتنا بڑا انعام مل جائے تو اس پر حسد ہونا چاہیے یا نہیں؟‘‘

مسٹر کلین نے ہماری بات ان سنی کرکے اپنی تقریر شروع کرنے کی کوشش کی، مگر ہم نے دیکھا کہ ان کے اردگرد کھڑے نوجوان ہماری بات پر توجہ دے رہے ہیں تو ہم نے لوہا گرم دیکھ کر مسٹر کلین کو دخل در معقولات کا موقع نہیں دیا اور عرض گزاری جاری رکھی۔ مزید کہا: ’’کہا جاتا ہے کہ ملالہ کو بچیوں کی تعلیم کے لیے آواز اُٹھانے پر انعام دیا گیا ہے۔ یہ سوال نہایت اہم ہے کہ کیا واقعی ملالہ کو تعلیم کے لیے آواز اٹھانے پر سر پر اٹھایا جارہا ہے؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے ہمیں اس ماحول اور تناظر کو سامنے رکھنا ہوگا جس میں یہ سارا کھیل کھیلا جارہا ہے۔ اس وقت خطے میں ایک ہمہ گیر اور ہمہ جہت جنگ جاری ہے۔ عسکری محاذ پر مغرب کے چالیس سے زائد ممالک کی افواج 13 سال کی خواری وذلت اٹھانے کے بعد اپنے زخم چاٹتے ہوئے واپس جانے کے منتظر ہیں۔ عسکری محاذ پر اپنی شکست کے آثار دیکھ کر مغربی طاقتوں نے کچھ عرصے سے اپنا سارا زور فکری وابلاغی محاذ پر لگانا شروع کردیا ہے۔ اس لحاظ پر نئے نئے گھات لگائے اور نئے نئے ہتھیار آزمائے جارہے ہیں۔ اس جنگ کو ایندھن فراہم کرنے کے لیے انٹیلی جنس سرگرمیوں اور خفیہ سازشوں کا ایک جال بھی بچھایا جاچکا ہے۔ امریکا اور اس کے اتحادی اپنے دشمن کو ’’طالبان‘‘ کے نام سے جانتے ہیں اور اس دشمن سے اپنی شکست کا بدلہ لینے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ’’طالبان‘‘ کا لفظ گالی بنادیاجائے، طالبان کا ایک نہایت ڈراؤنا اور خوفناک تاثر دنیا کے سامنے پیش کیا جائے۔ ان حالات کو سامنے رکھتے ہوئے دوبارہ اس سوال کی طرف آتے ہیں کہ کیا واقعی ملالہ کو تعلیم کی محبت میں محبت سے نوازا جارہا ہے، یا اصل مسئلہ طالبان سے بغض وعداوت کا ہے؟ یہ حب علیؓ کا کرشمہ ہے یا در حقیقت بغض معاویہؓ کا شاخسانہ۔ اور کیا مغرب کو طالبان سے دشمنی تعلیم کی وجہ سے ہے یا اس کی کوئی اور وجہ ہے؟‘‘

ہمارے اس سوال پر مسٹر کلین بغلیں جھانکنے اور آئی بائیں شائیں کرنے لگے۔ ہم نے محسوس کیا ان کے ارد گرد کھڑے نوجوان ان کی اس بے بسی سے محظوظ ہونے لگے ہیں۔ ہم اس سے زیادہ اپنے دوست کی ’’بے عزتی‘‘ نہیں کر وانا چاہتے تھے، اس لیے ہم نے حلوے اور مٹھائی کا تذکرہ چھیڑ کر ماحول کو کچھ میٹھا کردیا۔ چلتے چلتے مسٹر کلین کو مفت کامشورہ دے دی کہ وہ آیندہ برس نوبل انعام کے لیے ’’ٹرائی‘‘ کریں، کیا پتا ان کا بھی مقدر جاگ جائے!
۔
 

فاتح

لائبریرین
بھائی جان ہم بھی اسی طرح کی ایک طنزیہ داستان پیش کرتے ہیں۔
یہ گذشتہ ہفتے کی بات ہے۔ ہمیں بازار سے کچھ سودا سلف لینا تھا۔ سورج ڈھلنے کا وقت تھا۔ موسم کی خوشگوار خنکی آہستہ آہستہ بڑھتی محسوس ہورہی تھی۔ ہم نے اس پُرکیف ماحول سے لطف اندوز ہونے کی خاطر ذرا لمبا راستہ اختیار کیا اور چلتے چلتے اس گلی میں جانکلے جہاں ہمارے دوست مسٹر کلین کا دربار لگتا ہے۔ ’’دربار‘‘ کا لفظ ہم نے اس لیے استعمال کیا، کیونکہ مسٹر کلین ایک معروف سوشل ورکر ہیں۔ ان کے پاس ان کے چاہنے والوں کے علاوہ ان کے کارکنوں یعنی این جی اوز کے نمایندوں کا بھی آنا جانا لگا رہتا ہے۔ آج کل پی ٹی آئی کے ’’انقلابیوں‘‘ کی آمد و رفت بھی بڑھ گئی ہے۔

ہم مسٹر کلین کے گھر کے نزدیک پہنچے تو ایسا لگا کہ وہاں آج واقعی دربار سا لگا ہوا ہے۔ مسٹر کلین کے گھر کے باہر جشن کا سماں تھا۔ نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی ایک بڑی تعداد وہاں جمع تھی۔ مسٹر کلین ان کے بیچ میں کرسی میں بیٹھے بڑے خوش دکھائی دے رہے تھے۔ ایسا محسوس ہورہا تھا کہ کچھ دیر پہلے یہاں مٹھائی بھی بٹی ہے۔ ہم اس ماحول میں مسٹر کلین کے پاس جانا نہیں چاہ رہے تھے۔ کنی کتراکر نکلنے کا سوچ ہی رہے تھے کہ موصوف کی نگاہ کی زد میں آگئے۔

انہوں نے دور سے آواز دی: ’’ملاجی! آئیے! آج ہم آپ کو حلوہ کھلاتے ہیں!‘‘ حلوہ کا جلوہ دیکھ کر ہم بھی ان کے نزدیک ہو گئے۔ پوچھا: ’’کس خوشی میں؟‘‘ مسٹر موصوف نے کہا: ’’لوجی! دنیا میں ایسے بھولے بھالے لوگ بھی موجود ہیں۔ آج پوری دنیا ٹی وی اسکرین کے آگے بیٹھی ہے اور اوسلو میں نوبل انعام کی تقریب دیکھ رہی ہے۔ قوم کی بیٹی ملالہ یوسف زئی کو اتنے بڑے اعزاز سے نوازا گیا ہے اور ادھر ملاجی ہیں کہ انہیں خبر ہی نہیں کہ دنیا میں ہوا کیا ہے؟‘‘

ہم نے عرض کیا: ’’ہم نے اخبار میں پڑھا تھا کہ ملالہ کو نوبل انعام مل رہا ہے، لیکن بیگانے کی شادی میں عبداللہ کیوں دیوانہ ہورہا ہے؟‘‘ مسٹر کلین نے سوالیہ نگاہ سے ہماری طرف دیکھا۔ ان کے آس پاس کھڑے نوجوان بھی شاید ہماری بات نہیں سمجھے۔ ہم نے عرض کیا: ’’ہمیں تو خوشی تب ہوتی جب یہ انعام ہمارے دوست مسٹر کلین کو ملا ہوتا۔‘‘ ہماری یہ بات سن کر مسٹر کلین تھوڑے سے کسمسائے، جیسے ہم ان سے مذاق کر رہے ہوں تاہم ان کے ارد گرد کھڑے نوجوانوں نے تالیاں بجاکر مسٹر کلین کی حوصلہ افزائی کی تو ان کے چہرے پر ایک دم بہار سی آگئی۔ ہم نے عرض کیا: ’’دیکھیں!ملالہ کو بچوں کی تعلیم اور ان کے حقوق کے لیے کام کرنے کے نام پر اتنا بڑا انعام دیا گیا ہے۔ بچوں کے حقوق، خواتین کے حقوق اور انسانی حقوق کے شعبے میںجتنا کام مسٹر کلین نے کیا ہے، ملالہ نے اس کا سواں حصہ بھی نہیں کیا ہوگا!‘‘

ہم نے کہا: ’’ملالہ نے اپنے ایک انٹرویو میں بتایا ہے کہ اس کا بھائی اس سے روز پوچھتا ہے: ’’تم نے ایسا کیا کیا ہے جو ساری دنیا میں تمہارا چرچا ہورہا ہے؟‘‘ ہم نے عرض کیا: ’’ہمیں نوبل انعام دینے والوں پر بڑا غصہ ہے کہ انہوں نے بھارت کے کیلاش کو تو یاد رکھا اور اسے ملالہ کے ساتھ انعام میں شریک کردیا، لیکن ہمارے کیلاش… معاف کیجیے گا، مسٹر کلین کو فراموش کردیا۔

‘‘ ایک نوجوان نے کہا: ’’ملاجی! آپ یہ بات مسٹر کلین کی محبت میں کر رہے ہیں یا ملالہ کے حسد میں؟‘‘ ہم نے عرض کیا: ’’دونوں باتیں ہیں۔ ہمیں مسٹر کلین کے ساتھ ناانصافی پر بھی افسوس ہے اور ملالہ سے حسد بھی!‘‘ نوجوان نے ایک معروف کالم نگار کا حوالہ دے کر کہا: ’’ہمیں ملالہ سے حسد نہیں کرنا چاہیے۔ ہم نے عرض کیا: ’’کیوں نہیں کرنا چاہیے؟ اسی کالم نگار نے اسی کالم میں آگے چل کر کہا ہے کہ کیلاش سیارتھی کو انعام اس لیے دیا گیا ہے کہ اس نے ساری زندگی بچوں کے حقوق کے لیے کام کیا اور ملالہ کو اس لیے دیا گیا کہ اس نے ابھی کام کرنا ہے۔‘‘ ہم نے عرض کیا: ’’یہ شاید دنیاکی تاریخ کا پہلا انعام اور ایوارڈ ہے جو کسی کو کوکام کرنے سے پہلے ہی دیا گیا ہے۔ اب آپ بتائیں کہ کسی کو کام کرنے پہلے ہی اتنا بڑا انعام مل جائے تو اس پر حسد ہونا چاہیے یا نہیں؟‘‘

مسٹر کلین نے ہماری بات ان سنی کرکے اپنی تقریر شروع کرنے کی کوشش کی، مگر ہم نے دیکھا کہ ان کے اردگرد کھڑے نوجوان ہماری بات پر توجہ دے رہے ہیں تو ہم نے لوہا گرم دیکھ کر مسٹر کلین کو دخل در معقولات کا موقع نہیں دیا اور عرض گزاری جاری رکھی۔ مزید کہا: ’’کہا جاتا ہے کہ ملالہ کو بچیوں کی تعلیم کے لیے آواز اُٹھانے پر انعام دیا گیا ہے۔ یہ سوال نہایت اہم ہے کہ کیا واقعی ملالہ کو تعلیم کے لیے آواز اٹھانے پر سر پر اٹھایا جارہا ہے؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے ہمیں اس ماحول اور تناظر کو سامنے رکھنا ہوگا جس میں یہ سارا کھیل کھیلا جارہا ہے۔ اس وقت خطے میں ایک ہمہ گیر اور ہمہ جہت جنگ جاری ہے۔ عسکری محاذ پر مغرب کے چالیس سے زائد ممالک کی افواج 13 سال کی خواری وذلت اٹھانے کے بعد اپنے زخم چاٹتے ہوئے واپس جانے کے منتظر ہیں۔ عسکری محاذ پر اپنی شکست کے آثار دیکھ کر مغربی طاقتوں نے کچھ عرصے سے اپنا سارا زور فکری وابلاغی محاذ پر لگانا شروع کردیا ہے۔ اس لحاظ پر نئے نئے گھات لگائے اور نئے نئے ہتھیار آزمائے جارہے ہیں۔ اس جنگ کو ایندھن فراہم کرنے کے لیے انٹیلی جنس سرگرمیوں اور خفیہ سازشوں کا ایک جال بھی بچھایا جاچکا ہے۔ امریکا اور اس کے اتحادی اپنے دشمن کو ’’طالبان‘‘ کے نام سے جانتے ہیں اور اس دشمن سے اپنی شکست کا بدلہ لینے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ’’طالبان‘‘ کا لفظ گالی بنادیاجائے، طالبان کا ایک نہایت ڈراؤنا اور خوفناک تاثر دنیا کے سامنے پیش کیا جائے۔ ان حالات کو سامنے رکھتے ہوئے دوبارہ اس سوال کی طرف آتے ہیں کہ کیا واقعی ملالہ کو تعلیم کی محبت میں محبت سے نوازا جارہا ہے، یا اصل مسئلہ طالبان سے بغض وعداوت کا ہے؟ یہ حب علیؓ کا کرشمہ ہے یا در حقیقت بغض معاویہؓ کا شاخسانہ۔ اور کیا مغرب کو طالبان سے دشمنی تعلیم کی وجہ سے ہے یا اس کی کوئی اور وجہ ہے؟‘‘

ہمارے اس سوال پر مسٹر کلین بغلیں جھانکنے اور آئی بائیں شائیں کرنے لگے۔ ہم نے محسوس کیا ان کے ارد گرد کھڑے نوجوان ان کی اس بے بسی سے محظوظ ہونے لگے ہیں۔ ہم اس سے زیادہ اپنے دوست کی ’’بے عزتی‘‘ نہیں کر وانا چاہتے تھے، اس لیے ہم نے حلوے اور مٹھائی کا تذکرہ چھیڑ کر ماحول کو کچھ میٹھا کردیا۔ چلتے چلتے مسٹر کلین کو مفت کامشورہ دے دی کہ وہ آیندہ برس نوبل انعام کے لیے ’’ٹرائی‘‘ کریں، کیا پتا ان کا بھی مقدر جاگ جائے!
۔
کیا یہ بے سر و پا چیز سیٹائر ہے؟
خیر اگر آپ اسے یہی کہلوانے پر مصر ہیں تو بصد شوق کہیے۔
بہتر ہے کہ آپ کم از کم وکی پیڈیا سے ہی سہی لیکن سیٹائر کی بابت پڑھ ضرور لیجیے کہ یہ کس بلا کا نام ہے۔
http://en.wikipedia.org/wiki/Satire
 

زیک

مسافر
ملالہ کو چاہیے کہ پاکستانیوں کے دل جیتنے کی کوشش کرے۔

چند اچھے بیانات اور عملی اقدامات (اگر ممکن ہو سکے) کی مدد سے پاکستان میں معتدل طبقے کی خاطر خواہ حمایت حاصل کی جا سکتی ہے۔
واقعی ملالہ کو طالبان سے معافی مانگنی چاہیئے اور جن دہشتگردوں کو سزائے موت ہو رہی ہے ان کے جنازوں میں شرکت کرے
 
امریکا اور اس کے اتحادی اپنے دشمن کو ’’طالبان‘‘ کے نام سے جانتے ہیں اور اس دشمن سے اپنی شکست کا بدلہ لینے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ’’طالبان‘‘ کا لفظ گالی بنادیاجائے، طالبان کا ایک نہایت ڈراؤنا اور خوفناک تاثر دنیا کے سامنے پیش کیا جائے
کیا امریکہ نے طالبان کو پشاور کے واقعے کے لیے مجبور کیا کہ اس کے بعد طالبان بدنام ہو جائیں گے۔ اگر یہ طالبان کی کاروائی نہیں تو پھر طالبان اس کی ذمہ داری کیوں قبول کرتے ہیں ، اور پھر نام نہاد مولوی عبدالعزیزاور دیگر نے بھی اس کی مذمت نہیں -
 
Top