پاکستان کے ضلع سوات کی طالبہ ملالہ یوسف زئی کو امن کے نوبیل انعام سے نوازا گیا ہے۔ یہ ایوارڈ انھیں بھارت کے کیلاش ستیارتھی کے ساتھ مشترکہ طور پر ملا ہے۔
نوبیل پرائز کی ویب سائٹ کے مطابق ملالہ اور کیلاش ستیارتھی کو یہ ایوارڈ ان دونوں کو ان کوششوں کے صلے میں دیا گیا ہے جو انھوں نے ’بچوں اور نوجوانوں کے استحصال کے خلاف جدوجہد اور تمام بچوں کے لیے تعلیم کے حق‘ کے لیے کیں۔
ملالہ یوسفزئی کا سفر
نوبیل کی انعامی رقم 12 لاکھ ڈالر کے قریب ہے۔ یہ رقم ملالہ یوسف زئی اور کیلاش ستیارتھی میں برابر تقسیم کی جائے گی۔
پاکستانی وزیرِ اعظم نواز شریف نے ملالہ کو یہ اعزاز حاصل کرنے پر مبارک باد دی ہے۔
60 سالہ ستیارتھی نے مہاتما گاندھی کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے کئی پرامن احتجاجی مظاہروں میں حصہ لیا ہے۔ نوبیل کمیٹی کے مطابق انھوں نے ’مالی مفاد کی خاطر بچوں کے سنگین استحصال پر توجہ مرکوز کی۔‘
اس برس نوبیل امن انعام کی دوڑ میں ریکارڈ تعداد میں 278 امیدوار حصہ لے رہے تھے جن میں اطلاعات کے مطابق پوپ فرانسس بھی شامل تھے۔
ڈاکٹر عبدالسلام کے بعد ملالہ دوسری پاکستانی شہری ہیں جنھیں نوبیل انعام سے نوازا گیا ہے۔
بی بی سی اردو سروس کے لیے گل مکئی کے نام سے سوات سے ڈائریاں لکھ کر عالمی شہرت حاصل کرنے والی ملالہ یوسفزئی کو اکتوبر سنہ 2012 میں طالبان نے حملے کا نشانہ بنایا تھا۔
حملے کے وقت وہ مینگورہ میں ایک سکول وین سے گھر جا رہی تھیں۔ اس حملے میں ملالہ سمیت دو اور طالبات بھی زخمی ہوئی تھیں۔ ابتدائی علاج کے بعد ملالہ کو انگلینڈ منتقل کر دیا گیا جہاں وہ صحت یاب ہونے کے بعد زیرِ تعلیم ہیں۔
ملالہ کے چند چیدہ اعزازات
نیشنل یوتھ پیس پرائز، 2011
ستارۂ شجاعت، 2012
مدر ٹیریسا میموریل ایوارڈ، 2012
روم پرائز فار پیس، 2012
سیموں دا بوار پرائز، 2013
’ضمیر کی سفیر‘ ایوارڈ، ایمنسٹی انٹرنیشنل، 2013
کلنٹن گلوبل سٹیزن ایوارڈ، 2013
سخاروف پرائز برائے آزادیِ اظہار، 2013
وومن آف دا ایئر، گلیمر میگزین، 2013
اعزازی ڈاکٹر آف سول لا، کینیڈا، 2014
سکول گلوبل ٹریژر ایوارڈ، 2014
نوبیل انعام برائے امن، 2014
بعدازاں حکومتِ پاکستان نے انھیں سوات میں طالبان کے عروج کے دور میں بچوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے پر نقد انعام اور امن ایوارڈ دیا تھا۔ انھیں 2011 میں ’انٹرنیشنل چلڈرن پیس پرائز‘ کے لیے بھی نامزد کیا گیا تھا۔
ملالہ یوسف زئی کا تعلق سوات کے صدر مقام مینگورہ سے ہے۔ سوات میں 2009 میں فوجی آپریشن سے پہلے حالات انتہائی کشیدہ تھے اور شدت پسند مذہبی رہنما مولانا فضل اللہ کے حامی جنگجو وادی کے بیشتر علاقوں پر قابض تھے جبکہ لڑکیوں کی تعلیم پر بھی پابندی لگا دی گئی تھی۔
اس زمانے میں طالبان کے خوف سے اس صورتِ حال پر میڈیا میں بھی کوئی بات نہیں کر سکتا تھا۔ ان حالات میں ملالہ یوسف زئی نے کمسن ہوتے ہوئے بھی انتہائی جرات کا مظاہرہ کیا اور مینگورہ سے ’گل مکئی‘ کے فرضی نام سے بی بی سی اردو سروس کےلیے باقاعدگی سے ڈائری لکھنا شروع کی۔
اس ڈائری میں وہ سوات میں پیش آنے والے واقعات بیان کیا کرتی تھیں۔اس ڈائری کو اتنی شہرت حاصل ہوئی کہ ان کی تحریریں مقامی اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں بھی باقاعدگی سے شائع ہونے لگیں۔
ملالہ پر میڈیا کے دو بین الاقوامی اداروں نے دستاویزی فلمیں بھی بنائیں جن میں انھوں نے کھل کر تعلیم پر عائد کردہ پابندیوں کی بھرپور مخالفت کی تھی۔
نوبیل کمیٹی نے ناروے کے شہر اوسلو میں کہا کہ امن انعام کے دوسرے شریک کیلاش ستیارتھی نے مہاتما گاندھی کی روایت کو زندہ رکھتے ہوئے کئی ایسے پُرامن مظاہرے کیے جن کا مقصد ’بچوں کے استحصال کے ذریعے مالی فوائد‘ حاصل کرنے کے خلاف تحریک چلانا تھا۔
ساٹھ سالہ کیلاش ستیارتھی نے ’بچن بچاؤ آندلن‘ نامی تنظیم کی بنیاد رکھی جس کا مقصد بچوں کے حقوق کا تحفظ اور انسانی سمگلنگ کے خلاف مہم چلانا تھا۔
نوبیل انعام کی خبر پر مسٹر ستیارتھی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا: ’ یہ تمام بھارتیوں کے لیے بہت اعزاز کی بات ہے۔ یہ ان تمام بچوں کے لیے اعزاز ہے جو ٹیکنالوجی، مارکیٹ اور معیشت میں بے شمار ترقی کے باوجود غلامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ میں یہ انعام دنیا بھر کے ایسے بچوں کے نام کرتا ہوں۔‘
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2014/10/141010_malala_wins_nobel_rk