چاک گریبانی
شعر کیا ہے یہ سوال صدیوں کی انگڑائیاں لیے ہوئے ہے، ارسطو،ٹی ایس ایلیٹ، علّامہ شمس قیس رازی، اِبنِ رشیق القیروانی، شبلی و حالی سمیت تمام قابلِ قدر اَذہان نے ماہیّتِ شعر کو سمجھنے کی کوشش کی مگر کوئی کلّیہ مرتب نہ کیا جاسکا۔شاعری کی کوئی تعریف ایسی نہیں جو اِس نگارِ ہزار شیوہ دیوی کی قامتِ بالاپر راست آتی ہو۔ سو بابتِ شعر رائے رکھنا نہ میرے نزدیک بغاوت ہے اور نہ ہی اسلاف سے روگردانی ۔۔۔ مقدور بھر سفرِ شعری میں مجلسی تربیّت اور داخلی پرداخت نے مجھے جس راہ سے آگاہ کیا ہے، اُسی میں آپ کو شریک کرتا ہوں ۔ شعرکبھی ابہام کی بُھول بھلیّوں سے نمودار ہوتا ہے، کبھی صنّاعی کے فلک پر ضوفگن ہوتا ہے، کبھی تمثیل و تشبیب کے آئینے میں عکس ریز ہوتا ہے تو کبھی استعارہ کے چاک پررقصِ خدّوخال میں غلطاں نظر آتا ہے،کبھی مشخّص سے مجرّد کا سفر طے کرتا ہے، کبھی تذکیہ ٔذات کے طورپر ذات و کائنات کو دامن میں سمیٹنے کی سعیٔ لاحاصل پر صادکرتا ہے،کبھی خارج سے داخل کے ظہوریاب ہونے کا نوحہ توکبھی موسیقیت کی الوہی دھن پرترنّم ریزصدائے الست و مست میں سر نہوڑائے مشامِ جاں سے لذّت کشید کرتا نظرآتاہے۔اِس لیے مجھے کہنے میںکچھ باک نہیں کہ مَیں نےاسالیبِ شعر میں غزل کو نصابی تعریف سے نہیں بلکہ ’’اپنی غزل‘‘ سے سمجھا اور اختیار کیا ہے، مبہم ، پرُاسراراور رَم و سپردگی سے لبریز، لمس آفرین و کیف آگیں۔سو میرا اِظہاری مزاج مجھے عشق تعلّق میں پیش آنےوالے واقعے کو نظم کرنے پر کبھی نہیں اکساتا بلکہ روح تک محسوس و محفوظ کرنے اور امانتاََ کیفیّت و حسّیت کو شعرکی جبینِ بے نیاز پر کندہ کرنے کا ہنر عطا کرتا ہے۔فنا فی العشق ہونا ہی عین عشق ہے، سو مَیںبھی عشق پر اپنا آپ واردینے کا قائل ہوں اور اِس سے مفر کو اپنے آپ سے بغاوت سمجھتا ہوں، بقول نظیریؔ نیشاپوری ؎
کسے کہ کشتہ نہ شُداز قبیلۂ ما نیست
شعر مجھے عشق سے تعلیم ہوا اور عشق نے شعرتعلیم کیا ، یہی میرے مقدور بھر شعری اظہار کا لازمہ اور سرمایہ ہے۔ ہرسخنِ اصل کے متلاشی اور لکھنے والے کی طرح میری بھی خواہش ہے کہ خدائے نطق وسخن مجھے میرے انفراد کا اظہار عطا کرے،سو خود کو اختیار کرنے سے قبل میں نے خود کورَد کرنے کے عمل سے گزارا، یوںمیں نے کثیر لکھنے والوں کی طرح کسبِ شعر پر اکتفا نہیں کیا اورچندبرس قبل ۲۰۰۵ ء میں شعری مجموعہ’’آشوبِ ذات‘‘ طباعت کے مراحل میں ہی تلف کردیا تھا،اِسی باعث میر ا موجودہ شعری مجموعہ خاصی تاخیر سے منصۂ شہود پرآسکا۔ ۔ شعر سے میرا رشتہ اتنا ہی قدیم ہے جتنا خود میرا اپنی ذات سےتعلّق، مجھے بھی معلوم نہ تھا کہ شعرکیا ہوتا ہے شعر کیوں ہوتا ہے۔بس جو شعردل میں اُترجاتا اُسےکاغذ پر محفوظ کرلیاکرتا ، یوں شعر جمع کرنے کا خبط عنفوانِ شباب کی سرحد کو پہنچا تو دوستوں جیسے عم زادجاوید اقبال کو نازؔ متخلّص دیکھا اور پوچھ بیٹھا کہ آپ بھی شعر لکھتے ہیں، کہنے لگے شعر لکھا نہیںجاتا بلکہ کہا جاتا ہے،یہ میری شعری تربیت کا پہلا قدم تھا۔ قصّہ کوتاہ جاوید بھائی کی غزل سُنی تو مَیںنے کہا مَیں بھی شعر کہتاہوں اورتین چار سال پُرانے جمع جوڑ جملے سنا ڈالے، کہنے لگے حیرت انگیز بات ہے کہ تمہیں قافیے ردیف اور وزن کا خو ب علم ہے ، تم میں توایک شاعر کی صلاحیت موجود ہے اس صلاحیت کو باہر لائواور باقاعدہ شعر کہا کرو ،شاید تعریف کا اثر تھا کہ اس بات کے بعد دوبارہ ’’نام نہادشعر سرزد‘‘ ہی نہ ہوا، بارہا خیال گزرا کہ شاید یہ صلاحیت کبھی تھی ہی نہیں۔خیر ۱۹۹۸ءکی ایک چلچلاتی دوپہر جاوید بھائی کی مخاطبت میں ’’باقاعدہ پہلاشعر ‘‘سرزد ہوا ؎
اَورں کو سنانے سے کسک اور بڑھے گی
کیا تم بھی مرے غم کی کہانی نہ سُنو گے
زندگی وقت کے کِرم خوردہ اوراق پلٹنے میں اس قدر مستغرق رہی کہ ترجیحات بدلتی گئیں مگر ٹوٹے پھوٹے شعری اظہاریے جمع ہوتے رہے۔ ادبی نشستوںمیں آنا جانا لگا رہا اِسی دوران جناب یوسف فضل اورسید اختر علی انجمؔ سے ملاقاتیں نصیب ہوئیں ، بعد ازیں سید اختر علی انجمؔ کی وساطت سے انتہائی شفیق ،درویش صفت ،شاعرِ بے پناہ اُستادِمکرم قبلہ نصیراللہ خاں نصیرؔ کوٹی صاحب سے ملاقات یاوری ہوئی اور رموزِ شعری کے حصول کے لیے مَیں نے آپ کی جناب میں زانوئےتلمّذ تہہ کیا، روزگارِ روز و شب کی پریشاں حالی نے زیادہ مہلت نہ دی کہ رموز و نکاتِ شعری کی بنیادیں مزید مضبوط ہوسکتیں اور مجھے خدمت کا شرف حاصل ہوسکتا، گاہے گاہے زیارت کا شرف حاصل رہا۔۔۔
اِسی دوران عزمؔ بہزادمرحوم سے ملاقات ہوئی، ہفتہ وارپھر روازنہ کی بنیاد پر عزمؔبھائی کے دولت کدے پر جمع ہونا اور غرض و غایتِ شعر وادب پر پرُ مغز گفت گُوسُنتے کئی برس گزرگئے۔ جوں جوں بابتِ شعروادب معلوم ہوتا گیا تو ایک عجیب سا خوف درآتا گیا، یوں بھی کبھی عزم ؔبھائی کے سامنے بولنے کی جسارت ہی کب تھی ، یہاں اعتراف کرتاچلوں کہ میں نے جناب لیاقت علی عاصم ؔکے سکوتِ لب کے باوصف اعتراف اور اختلاف کرنا دونوں عزمؔ بھائی سے ہی سیکھا،آپ کہا کرتے تھے کہ مغل میاں اعتراف کرنا سیکھو، اِس سے داخلی کثافت میں کمی آتی ہے اور سینے میںلطافت پیداہوتی ہےجو شعر کا لازمہ ہے۔ اِن ہی نشستوں میںمجھےقدماء ، متاخرین، متوسطین، معاصرین اور مشاہیر کو سمجھنے کا سلیقہ نصیب ہوا، خداغریقِِ رحمت کرے عزمؔ بھائی مکالمے کے آدمی تھے، معاملے کے نہیں، مگرنہ جانے کیوں دکانِ خاک سے معاملہ کرنے کی عجلت کربیٹھے۔۔۔
برسوں پر محیط اِس سفرِعمری میں مجھے جہاںبے شماربزرگوںاور دوستوں کی محبتیں نصیب رہی ہیں وہاں اُن کے صرف اسمائے گرامی شامل کرنے میں ہی دفتردرکار ہوں گے، مگرچنیدہ بزرگوں دوستوںمیں شاعر،نقّاد اور صحافی جناب سرور ؔجاوید، جناب نیّرؔ ندیم ، جناب اعجاز ؔرحمانی ،جناب احسنؔ سلیم ، جناب احمد امتیازؔ، جناب خالد عباس کنولؔ، احتشام انورؔ، ڈاکٹرنفیس علی آزرؔ ،افضلؔ شاہ، جناب سہیلؔ اختر ہاشمی،جناب خواجہ رضیؔ حیدر، فیض عالم بابرؔ،
جناب اعجازؔ عبید(بھارت)، فاتح الدین بشیر محمودؔ، جناب سرورؔ عالم راز(بھارت)،توقیر عباسؔ،
سیّد اویس قرنی عرف چھوٹا غالب، نعیم سمیرؔ،عظمیٰ نورعثمانی آپی،
سعود اِبنِ سعید(بھارت)، عقیلؔ ملک ،مُدثر عباس ؔ، اور
صالح اچھّا (بھارت)کا ذکر نہ کرنابددیانتی پر منتج ہوگا، بالخصوص میں اپنی شریکِ حیات غزل ناز غزل ؔکے لیے سراپا تشکّرہوں کہ نہ صرف مجھے مجتمع کیا بلکہ مقدور بھر شعری اثاثہ کوکتاب کی شکل میں محفوظ کرنے میں دن رات ایک کردیے۔
اسالیبِاظہارمیں فنِ شاعری، افسانہ نویسی، نقدنویسی، مصّوری اور خطّاطی میرے لیے تصفیہ وتذکیۂ ذات کا باعث ہیں، مجھے قطعاََ کسی بھی فنِ اظہار میں کوئی ملکہ حاصل نہیں اور نہ ہی کوئی خام دعویٰ،مگراسلوبِ شعر میں میراداخلی وجود میرے لیے آبنوسی حیثیت رکھتا ہے۔ہجر گزاری کا رَم ہو یا وصل کی سپردگی ،انفاس کی آنچ پر سلگنا ہی میرے لیے لذّت کشید کرنے اور شعر کے قالب میں ڈھلنے کا عمل ہے ۔ مجھے فخرہے کہ مَیں اِس عمل میں اپنا آپ دریافت کرنے اور رَد کرنے پر مامور من العشق ہوں ،سوہر دو کیفیات میرے لیے رفیق و معاون ہیں،یوں بھی سعدی ؔ شیرازی کا نوحہ میرے اعتماد کو روزگارِ روز و شب کے تغیّرات و تبد ّل میں مستقر کیے ہوئے ہے ؎
چناں قحط سالی در اندر دمشق
کہ یاراں فراموش کردنند عشق
مامور من العشق کے لیےہجرسے حذر تہمتِ تنفّس ہے اوروصل خدمتِ معشوق،میرا تعلّق عشق قبیلے سے ہے سوعشقم عشقم کی الوہی اورسرمدی دُھنوں پرمَیں محمّدجمال الدین عرؔفی شیرازی کی تعلیم کے مطابق غزلؔ کو عشق کا وظیفہ بنائےہوئے ہوں، میری غزل بھی غزل، نظم بھی غزل اور نثر بھی غزل ، یہی میراشعری اظہار، مسئلۂ حیات اور کارِ نجات ہے ؎
تُو از قبیلۂ عشقی، وظیفہ ات غزل است
شعرمیرے لیے داخلی و خارجی کیفیات کے مجّرد ومشخّص کرنے کا عمل ہے،پوری یک سُوئی پوری طہارت کے ساتھ مبتلا رہنا میرا شعری اظہاری اثاثہ ہے، اغراضِ شعر میں نہ تومَیں اپنی تہذیب سے کٹ کر معاصر اور سکّہ بند نقّادانِ کرام کی طرح چارچھ رٹے رٹائے فرنگی ادیبوں کے ناموں کے سامنے اپنا سرجھکا کراپنے شعر کےبارے میں اپنی تفہیم آپ پر مسلطّ کرنا چاہتا ہوں نہ ہی میری تربیّت مجھے اپنی رائے آپ پر مسلّط کرنے کی اجازت دیتی ہے۔مَیں شکر گزار ہوں بارگاہِ ایزدی میں کہ اُس نےمجھے نہ عدم شہرت سے خائف رکھا اورنہ ہی مجھے شرکِ کیفیّت و انتخابِ ردیف و قوافی کا اسیر کیابلکہ سراپا اپنے محبوب کی نظّارگی میں مبتلارکھا ، یوں مقدور بھر شعری اثاثہ مسطور ہوسکا، بہ قول مولانا جلال الدین بلخی ؔ ؎
قافیہ اندیشم و دلدارِ من
گویدم مندیش جُز دیدارِ من
ایسا نہیں کہ مَیں کسی غرّے میں مبتلا ہوں بلکہ مَیں مانتا ہوںمملکتِ ادب میں نئے دیوانوں کی طرح ابتدائی ادوار میں مجھے بھی ردیف و قوافی کی بندشوں نے اسیر کیے رکھامگر بعد ازاں میرے عشق ،مجلسی تربیت اور میری داخلی پرداخت نے مجھےاپنا آپ تلاش کرنے پر مامور کیا ،مجھے کلامِ موزوں اور شعر کی تفہیم عطا کی ، شعر اگر دریافت اور اظہارِذات ہے تو ہاں میں نے مقدور بھر سعی کی ہے کہ اپنا آپ آبگینۂ شعر میں دیکھ سکوں ،شعر اگرکسب ہے تو مجھے معاف کیجے گا کہ میں ردیف و قوافی کی مزدُوری کے لیے پیدا نہیں ہوا، میں جانتا ہوں ؎
میں عشق کا بندہ ہوں مزدُورِ محبّت نئیں
غزال آباد میں چاک گریبانی کے عالم میں مجھے اپنے بارے میں نہ کوئی غلط فہمی ہے اور نہ ہی کوئی خوش فہمی ، جو کچھ ہے میری داخلی واردات و کیفیات کا آئینہ ہے ۔مجھے یقین ہے کہ آپ اپنے خدّوخال اِس میں رقص کرتے ہوئے محسوس کرسکیں گے، میرا اوّلین شعری مجموعہ اِس اعتماد کے ساتھ آپ کے حسنِ ذوق اور تفہیم کی بارگاہ میں ہے کہ یا تو یہ مقدور بھرشعری اظہاریہ قبول کر لیا جائے گا یا رَد کردیا جائے گا ، درمیانی کوئی صورت نہیں ۔
طے ہو نہیں رہا ہے غزل کے خمار میں
میں نے غزل کہی کہ غزل نے مجھے کہا
.............
م۔م۔مغل ؔ
17 ، مئی 2014