یہ ایک روشن صبح تھی۔ ہمارے ذہن کے کسی گوشے میں بھی یہ بات نہ تھی کہ آج قدرت ہم پر ہماری ہی بسیار خوری کا راز آشکار کر دے گی۔ عرفانِ ذات کا یہ مرحلہ اس قدر آسانی سے طے پا جائے گا کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوگی۔ بے شک کاررواں کے درمیان آپ کی ذات کی کسی خامی کا یوں بیان کردینا کہ ماسوائے آپ کے کسی اور کو اس کی ہوا تک نہ لگے کسی ولی کامل ہی کا کام ہے۔ جمعہ کا مبارک دن اس کام کے لیے یوں بھی مناسب ہی تھا۔ ہم رند سرشت لہو و لعب میں ڈوبے دنیاوی وسائل کی فکر میں کھوئے تھے کہ ہمارے کانوں میں ملک صاحب کی شگفتہ آواز نے رس گھول دیا۔
" آپ نے نماز جمعہ کے بعد کھانے کا کچھ مناسب انتظام کیا ہے؟" یہ ان بھلے دنوں کی یاد ہے جب ملک صاحب ہمیں اور ہم ان کو آپ آپ کر کے پکارا کرتے تھے۔
"جی! ابھی تک کچھ نہیں۔ آج کام کچھ زیادہ ہے۔ میں جمعہ پڑھ کر واپس آجاؤں گا۔" ہم نے تفصیلی جواب دینا ضروری خیال کرتے ہوئے کہا۔
"اوہ اچھا! ایسا ہے کہ میں جمعہ کے بعد کچھ احباب کے ساتھ باہر کھانا کھانے جاؤں گا۔ اگر آپ کچھ منگوانا چاہیں تو میں بخوشی لے آؤں گا۔" ملک صاحب نے ہم کو معلومات دینے کے ساتھ ساتھ اپنی مہربان صفت سے بھی آشنا کرواتے ہوئے کہا۔
"زبردست! " ہمارے دل نے خوشی سے قلابازی لگائی۔ "آپ کھانا کھانے کدھر جا رہے ہیں؟ " ہماری بھوک صرف کھانے پر جانے کا نام سن کر چمک اٹھی تھی۔
"ہم سب کا پراٹھا رول کھانے کا ارادہ ہے۔" ملک صاحب نے اپنے اور اپنے غائبانہ احباب کے منصوبے سے آگاہی دی۔
ہمیں بےاختیار لاہور یاد آگیا۔ لبرٹی کے مشہور پراٹھا رول۔ منہ میں پانی بھر آیا۔ فوراً جی میں آیا کہ کہیں تین پراٹھے رول میرے لیے بھی لے آئیے گا، لیکن ملک صاحب کی کرینہ کپور جیسی صحت دیکھ کر ہمیں خیال آیا کہ کہیں یہ تین پراٹھا رول کو خود پر طنز نہ سمجھ لیں اور وہاں پر کوئی پانچ چھے پراٹھے رول کھا کر ادھ موئے ہو جائیں، تو کیوں نہ صرف دو ہی کہہ دیا جائے۔ سو دل پر پتھر رکھ کر کہا کہ "دو پراٹھا رول میرے لیے بھی لے آئیے گا۔"
"دو!" ملک صاحب نے زیر لب دہرایا۔ اور پھر ہمارے جثے پر نظر ڈالتے ہوئے کہا کہ "آپ کے لیے دو زیادہ ہوجائیں گے۔ ایک جمبو رول لے آؤں گا۔ آپ کو اندازہ نہیں ہے وہ کتنا بڑا ہوتا ہے۔ میرے جیسا بسیار خور بھی بمشکل ایک ہی کھا پاتا ہے۔ "
ملک صاحب کا اپنی ذات کے لیے بسیار خور کالفظ استعمال کرنا دیکھ کر ایک بار تو ہمارا دل بھر آیا۔ عین ممکن تھا کہ ہم اٹھ کر کسی قریبی ستون سے لپٹ جاتے اور دھاڑیں مار مار کر رونا شروع کر دیتے ۔ بہرحال کسی طرح ہم نے اپنے دل پر قابو پا ہی لیا۔
"ٹھیک ہے جیسے آپ کو مناسب لگے۔" ہم نے شکرگزار انداز میں سر ہلاتے ہوئے جواب دیا۔
جمعہ کی نماز کے بعد ہم دوبارہ آ کر کام میں جٹ گئے۔ لیکن ہائے یہ اشتہا۔ بار بار ذہن میں پراٹھے رول گھومنے لگیں۔ جوں جوں ہماری اشتہا بڑھتی گئی وقت کی نبض اور سست چلنے لگی۔ ہم بے چینی سے اٹھ کر دوسرے کمروں کا چکر لگاتے اور کبھی واپس آ کر کام میں دھیان لگانے کی کوشش کرنے لگتے۔ وقت دیکھا تو چار بجنے والے تھے۔ آخر مایوس ہو کر ہم نے جب اپنے پیٹ کا آخری تسلی دے دی کہ اب شام کو ہوٹل واپس جا کر کھانا ملے گا تو ملک صاحب کی آمد ہوگئی۔ اپنی مخصوص شگفتہ مسکراہٹ کے ساتھ انہوں نے کہا کہ آئیں چلیں کیفے چلتے ہیں۔ یہ ملک صاحب کا بڑا پن تھا۔ اگرچہ وہ کھانا کھا آئے تھے لیکن مروت میں ہمارے ساتھ بیٹھنے پر بھی ازخود رضامند تھے کہ کہیں ہم بوریت کا شکار نہ ہوجائیں۔ کیفے میں کرسی سنبھالتے ہی ہم نے بےچینی سے لفافہ کھولا جس میں ایک بوتل اور ایک جمبو سائز پراٹھا رول ہمارا انتظار کر رہا تھا۔ لیکن لفافہ کھلنے پر ہمارے ارمانوں پر یوں اوس پڑ گئی ۔ کریم رول کے سائز کا کچھ ایک ریپر میں لپٹا تھا اور اس کے ساتھ ایک چھوٹی سی کیچپ کی پڑیا اور ایک بوتل۔ ہم نے جمبو سائز پراٹھا رول اٹھایا جائزہ لیا اور پھر اپنے ہاتھوں کو دیکھا۔ شاید ہمارے ہاتھ کچھ بڑے ہوگئے ہیں جن کی وجہ سے یہ پراٹھا رول چھوٹا لگ رہا ہے۔ لیکن جب کوئی بھی چیز ایسی نہ ملی جس پر الزام دھرا جائے تو ہم نے ملک صاحب کی طرف دیکھا۔ جو چہرے پر ایک سنجیدگی سجائے ہمیں یوں دیکھ رہے تھے گویا ہم اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھے ہیں۔
"آپ نے جمبو سائز کا فرمایا تھا۔ " آخر ہم سے ضبط نہ ہو سکا۔
"جی یہی تو جمبو سائز ہے۔ اففف ! ایک کھا لے آدمی تو پھٹنے والا ہو جاتا ہے۔" ملک صاحب ہماری دلی کیفیات سے بےخبر اپنا تجربہ بیان کر رہے تھے اور ہم دل ہی دل میں خود کو موٹو، پیٹو اور پتا نہیں کن کن القابات سے نواز رہے تھے ۔
اگلی قسط: جم ورزش گاہ حصہ اول