ملک (ایک نابغہ شخصیت) از قلم نیرنگ خیال

مقدس

لائبریرین
ارررے ررے نہیں!

میں تو کہہ رہا تھا کہ ۔۔۔۔۔

ویسے تم اگر لکھنے والوں میں شامل رہو تو نمبر بھی لگا رہے۔ بغیر لکھے تو میرے والے نمبر پر ہی آنا پڑے گا نا۔ یعنی زیرو :) :) :)
بھیا جی۔۔۔ مجھھ بغیر لکھے نمبر ون پر رہنا ہے ناں :rollingonthefloor:
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
یعنی اب ملک صاحب کی خیر نہیں ہے۔ :)

ہمیشہ کی طرح دلچسپ، مگر دو قسطیں ایک ساتھ پڑھ کر بھی تشنگی کا احساس ہو رہا ہے تھوڑا زیادہ زیادہ لکھا کریں نا۔ :) :) :)

ویسے یہ رول پراٹھے کی تصغیر والی بات واقعی تکلیف دہ ہے وہ بھی جب جمبو کہہ کر توقعات وابستہ کر دی جائیں۔ :p
اس کی اور قسطیں لکھنی ہیں۔۔۔ یہ نہ سمجھیں جان چھوٹ گئی۔۔۔ :p
بس جی۔۔۔ اب کیا کہیں ہم۔۔۔ ہم نے تو چپ ہی کر جانا ہوتا ہے۔ :p
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
ہمیشہ کی طرح ایک پھلجھڑی۔۔۔ایک آتش بازی۔۔۔۔مسکراہٹوں کے رنگوں کی قوس وقزح ۔۔۔قہقہوں کی برسات۔۔۔واقعات نگاری اور لفظوں کی بنت سے سجی ایک دل آویز تحریر
ہمیشہ خوش رہیں اور خوش رکھیں۔آمین!:)
آپ کی حوصلہ افزائی جو کہ ہمیشہ ہی میسر رہی ہے۔۔۔ اس پر جتنا بھی شکرگذار رہوں کم ہے۔۔۔ بہت شکریہ۔۔۔

بہت خوب!دوسری قسط بھی کمال کی ہے۔ کیا خوب شخصیت نگاری ہے۔
(پہلے صفحہ پہ پہلا تبصرہ )
ایک بار پھر اس حوصلہ افزائی پر شکرگذار ہوں جاسمن صاحبہ۔۔۔ بہت شاد رہیں۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
جم۔۔۔۔ ورزش گاہ۔۔۔
حصہ اوّل​
رفتہ رفتہ ہم ملک صاحب سے اورملک صاحب ہم پر کھلتے چلے گئے۔ ہم ان کی مجلس میں بیٹھتے لیکن زبان نہ کھولتے، کیوں کہ ہمارے پیش نظر علم حاصل کرنا ہوتا تھا۔ ملک صاحب اپنی ترنگ میں اس دن کے کھیل پر روشنی ڈالا کرتے تھے۔ اب قبل اس کے کوئی گستاخ پوچھے کہ "اس دن کے کھیل" سے کیا مراد ہے؟ تو ہم خود ہی بتلائے دیتے ہیں کہ ملک صاحب ہمہ کھیل قسم کے کھلاڑی تھے۔ لہذا جو کھیل ایک بار کھیلتے کئی دن تک اس کی دوبارہ باری نہ آتی۔ لیکن سبحان اللہ ذرا دسترس ملاحظہ کیجیے کہ مہارت میں کوئی فرق نہ آتا۔ سوائے کسرت کے جو باقاعدگی سے فرمایا کرتے تھے۔ ان کا خود فرمانا تھا کہ باڈی بلڈنگ میری سرشت میں شامل ہے۔ میں چاہ کر بھی اس کو چھوڑ نہیں سکتا۔ یوں تو ہم زندگی میں بہت کم ہی گستاخی پر مائل ہوئے ہیں، اور اگر کبھی ہوئے بھی ہیں تو کوشش ہمیشہ یہی کہ ہے کہ جوان کو پیر کا استاد نہ کیا جائے۔ بڑے بوڑھے ہمیں باادب بانصیب کہہ کر بہت سے کاموں سے روک گئے ہیں۔ لیکن ان تمام باتوں کے باوجود اس دن ہماری زبان لڑکھڑا ہی گئی۔ وجہ اس کی یہ نہ تھی کہ ہمیں کسی کے باڈی بلڈر ہونے پر اعتراض تھا۔ بلکہ ملک صاحب کا ڈیل ڈول ہمارے لیے حیرانی کا باعث تھا۔ کیوں کہ ملک صاحب ایک اوسط مقامی آدمی جتنی طوالت رکھتے تھے۔ جسم چھریرا، بازو اتنے سیدھے اور دبلے تھے کہ کسی بھی حسینہ کو ان پر رشک ہو سکتا تھا۔ چھاتی اتنی تھی کہ صاف پتا چل جاتا تھا کہ چھاتی ہے۔ لیکن کمر کے بارے میں وہی زبان زد عام بات کہ سنتے ہیں کہ تمہاری بھی کمر ہے کہاں کدھر ہے۔
" کیا آپ واقعی باڈی بلڈنگ کرتے ہیں؟ "
"کرتا کیا مطلب؟ بھائی میرا جم جائے بنا گزاراہ نہیں۔" ملک صاحب نے ہم کو یوں گھورا جیسے ہمارے سر پر سینگ اگ آئے ہوں۔
"نہیں !جم جانا اور بات ہے اور ورزش کرنا دوسری بات"۔ ہم نے اپنی بے تکی بات کی وضاحت کرنے کی کوشش کی۔
ملک صاحب کچھ دیر تو ہم کو گھورتے رہے کہ شاید ہم ان سے یہ تمام باتیں ازراہِ تفنن کر رہے ہیں۔ اور ابھی ہم طالبان کی طرح اعلان کر دیں کہ "میں مذاق کر رہا تھا۔ وگرنہ کول مین کے بعد دنیا میں کوئی باڈی بلڈر آیا ہے تو وہ ملک صاحب ہیں۔" لیکن جب ہم نے اپنا انداز نہ بدلا اور سوالیہ نگاہوں سے ملک صاحب کو جوابی گھورنا جاری رکھا۔ تو انہوں نے ایک لمبا سانس کھینچا۔ ایسا سانس وہ عموماً تب کھینچا کرتے تھے جب انہوں نے اپنی ذات کے ان رازوں سے پردہ اٹھانا ہوتا تھا جو عام طور پر لوگوں کو معلوم ہی ہوتے تھے۔
"میں گزشتہ آٹھ برس سے باڈی بلڈنگ کر رہا ہوں۔ جم میں ہر آدمی مجھے دیکھ کر رشک کرتا ہے۔ خاص طور پر جب میں بائی سپ اور سینے کی ورزش کرتا ہوں تو کچھ لوگوں کی آنکھیں تو پھٹنے والی ہوجاتی ہیں۔ ایک دن بائی سپ ٹرائی سپ اور سینہ کی ورزش کرتا ہوں۔ اگلے دن پیٹ اور کاندھوں کی اور اگلے دن۔۔۔۔۔ " ملک صاحب نے فخریہ انداز میں ہماری معلومات میں شدید قسم کا اضافہ کرتے ہوئے ہمیں مکمل شیڈول سے بھی آگاہی دی۔
ہم نے حیرت سے ان کے بائی سپ کو دیکھا جو سائز میں کسی حسینہ کے بائی سپ جتنا تھا، اور پھر ان کے سینے کو دیکھا جو کسی بھی حسینہ جیسا نہ تھا۔ کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا۔ مگر پھر بند کر لیا۔​
تمہیں یقین نہیں آرہا۔ چلو آج میرے ساتھ جم چلنا۔ تمہیں اپنے کمالات دکھائیں گے۔ اور شام کو ہم ملک صاحب کے ساتھ ان کی گاڑی میں بیٹھے جم کی طرف روانہ ہوئے۔

حصہ دوم
 
آخری تدوین:
Top