آج انتیس فروری دو ہزار سولہ، ممتاز قادری کو سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کا قاتل ثابت ہونے پر ایک طویل عدالتی کارروائی کے بعد پھانسی دے دی گئی۔ آج کا دن عدل و انصاف کی فتح کا دن ہے جب قانون نے اپنا عزم واضح کیا کہ انصاف ہی اس کے لئے بہترین معیار ہے۔ ایک ریاست میں کسی فرد کو یہ حق نہیں دیا جا سکتا کہ وہ اپنی عدالت لگائے اور جسے جس بنیاد پر چاہے سزائیں دیتا پھرے۔ ہمارا آئین جمہوری ہے جس میں جمہور کی مرضی و خواہش کا عنصر غالب ہے اور اس کی پابندی و پاسداری ہر شہری کے لئے ضروری ہے۔
ممتاز قادری اکثر رجعت پسندوں کا ہیرو تھا۔ کسی بھی ہیرو کی ہلاکت کے بعد اس کے گرد افسانوی داستانوں کا ایک جمگھٹا لگ جاتا ہے۔ آئیے رائج افسانوی داستانوں کے تناظر میں ممتاز قادری کے لئے چند افسانوی داستانوں کی پیش گوئی کرتے ہیں جو خاکسار کی رائے میں عوام الناس کو جلد ہی سننے کو ملیں گے۔
- جب صبح ممتاز قادری کو پھانسی دی گئی، اس رات فلاں مدرسہ کے ایک مہتمم نے خواب میں دیکھا کہ چند عورتیں بیٹھی آپس میں ہنسی مذاق اور بناو¿ سنگھار کر رہی ہیں۔ وہ اتنی خوبصورت تھیں کہ مہتمم حاجی صاحب نے ایسی حسین خواتین کبھی نہیں دیکھی تھیں۔ انہوں نے ان خواتین سے پوچھا کہ آپ کون ہیں اور یہاں کیا کر رہی ہیں، وہ بھی بے پردہ ؟ انہوں نے جواب دیا ہم جنت کی حوریں ہیں اور ممتاز قادری کا انتظار کر رہی ہیں جو بس آنے ہی والے ہیں۔ اس پر حاجی صاحب کی آنکھ کھل گئی۔ ٹی وی آن کیا تو پتا چلا کہ ممتاز قادری کو پھانسی دے دی گئی ہے۔
- جب ممتاز قادری کو دفن کیا گیا تو اس کی قبر سے چالیس دن خوشبو آتی رہی۔ جرمنی سے انگریز آئے اور فرانس کی لیبارٹری میں قبر کی مٹی کو چیک کیا گیا تو امریکی سائنس دانوں نے اعلان کیا کہ یہ کوئی دنیاوی خوشبو نہیں تھی، ایسی خوشبو نہ انہوں نے کبھی سونگھی اور نہ سائنس نے آج تک دریافت کی ہے۔ اب چین کے لوگ اس خوشبو کی نقل بنا رہے ہیں مگر ویسی تو نہیں بنا سکتے۔
- جس صبح ممتاز قادری کو پھانسی ہوئی، پوری رات وہ تلاوت کرتے رہے۔ ان کا چہرہ انتہائی پرسکون تھا مگر لگتا تھا جلدی میں ہیں بار بار گھڑی پر دیکھتے تھے۔ رات کے آخری پہر ہوں گے کہ ایک قیدی کی آنکھ کھل گئی، اس نے دیکھا قادری صاحب سجدے میں ہیں، جیل کا کمرہ نور سے بھر گیا ہے، آنکھیں تیز مگر ٹھنڈی روشنی کے سبب چندھیا رہی ہیں۔ اور غائب سے ایک آواز آتی ہے جلدی آ میں تیرا منتظر ہوں۔ قیدی ڈر کے مارے کمبل میں چھپ جاتا ہے۔ کاش دیکھتا رہتا تاکہ امت کو اس نورانی رات کے مزید مناظر سننے کو ملتے۔ (ایک قیدی نواز کی بات چیت )
- شیخ صالح عراق کی فلاں مسجد کے خطیب امام ہیں۔ انہوں نے خواب میں دیکھا کہ ایک انتہائی حسین جگہ ہے جہاں کچھ سفید ریش بزرگ سفید رنگ کے اجلے لباس میں کھڑے کسی کا بے چینی سے انتظار کر رہے ہیں۔ شیخ صاحب کو چونکہ عربی آتی تھی تو انہوں نے عربی میں پوچھا آپ کون ہیں اور کس کا انتظار کر رہے ہیں۔ ان لوگوں نے بتایا ہم حضرت فلاں فلاں ہیں اور ممتاز قادری الباکستانی کا انتظار کر رہے ہیں۔ شیخ صاحب کی اس اثنا میں آنکھ کھل گئی انہوں نے اپنے ایک پاکستانی ہم جماعت کو فون کیا جو ان کے ساتھ فلاں مدرسے میں پڑھتے تھے اور پوچھا کہ ممتاز قادری الباکستانی کون ہیں؟ جب انہیں پتا چلا کہ وہ کون تھے تو شیخ صاحب فون پر دھاڑیں مار مار کر رونے لگے۔
- جب قادری صاحب کو پھانسی ہوئی تو اس کے چند لمحات بعد وہ اپنے مرشد حضرت چشتی قادری مجددی عطاری وغیرہ وغیرہ کے خلوت خانہ میں تشریف لائے اور ہاتھ کے اشارے سے خدا حافظ کہا۔ مرشد صاحب سب سمجھ گئے، اور جب انہوں نے فجر کی نماز پڑھائی تو دھاڑیں مار مار کر روتے رہے۔ ہم میں سے کوئی بھی اس کی وجہ نہ سمجھ سکا۔ بالاخر صبح قادری صاحب کی پھانسی کی خبر سن کر ہی ہمیں یقین ہو گیا کہ کائنات کے راز فقط مرشد ہی جانتے ہیں۔
اور جب کوئی مؤرخ یا کالم نگار یہ لکھے گا کہ قادری صاحب پھانسی سے پہلے رحم کی درخواستیں کرتے رہے اور اپنے بال بچوں کا واسطہ دیتے رہے تو ایسے کالم نگار دانشوروں کو سیکولر اور جھوٹا کہہ کر یہ ثابت کیا جائے گا کہ انہوں نے پھانسی سے قبل پھانسی کے رسے کو چوما تھا، اور کہا تھا کہ مجھے جنت کی خوشبو آ رہی ہے۔میں حوروں کی چوڑیوں کی کھن کھن اور پائلوں کی چھن چھن سن رہا ہوں۔
http://humsub.com.pk/6714/zeeshan-hashim-23/