ممتاز قادری اور چند الجھی ہوئی گتھیاں ...
با الآخر ممتاز قادری کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا اور پاکستان کی تاریخ میں ایک باب کا اور اضافہ ہو گیا جی ہاں اب کچھ لوگ اپنے اپنے نظریات کے مطابق ممتاز قادری کو شہید اور قاتل کہیںگے ایسے ہی جیسے بھٹو کے حوالے سے آج تک یہ معاملہ اختلافی ہے کہ وہ ایک عدالتی مجرم تھا یا پھر شہید جمہوریت .
سوال یہ ہے کہ کیا یہ معاملہ یہیں پر ختم ہو جائے گا یا پھر یہ اگلے باب کا آغاز ہے ...
ممتاز قادری کا تعلق اس ملک کے اکثریتی مسلک سے ہے یہ وہ مسلک ہے کہ جسکی تاریخ عسکریت سے یکسر خالی ہے نہ ہی انکا کا کوئی حربی نظم موجود ہے اور نہ ہی کسی قسم کا کوئی جہادی گروپ .
یہ وہ مکتب فکر ہے کہ جو حکومت اور ملک کے سیکولر طبقات ہر دو کی نگاہ میں قابل قبول رہا ہے اس گروہ کی عروس اور دیگر مذہبی تقریبات ثقافت اور تہذیب کا حصہ سمجھ کر قبول کی جاتی رہی ہیں وہابی (دیوبندی ، اہل حدیث ، جماعتی) سیکٹر کی طرح اسے (fundamentalist) تصور نہیں کیا جاتا اس طبقے کے کسی فرد کا ایسی کاروائی میں ملوث ہونا کہ جو ریاست کے خلاف ہو سوالات کو جنم دیتا .
کیا ممتاز قادری کو قربانی کا بکرا بنایا گیا ... ؟
سوال یہ بھی ہے کہ جب ممتاز قادری نے یہ کاروائی کی تو اس کاروائی کے مکمل ہونے اور سلمان تاثیر کو قتل کرنے کے بعد تک اسپر جوابی حملہ کیوں نہ کیا گیا ...
پھر یہ سوال بھی اٹھایا جا سکتا ہے کہ کیا ممتاز قادری اس معاملہ کا اکیلا فریق تھا یا اور بھی لوگ اس میں شامل تھا اور اس کا پس منظر خالص مذہبی تھا یا پھر اس کے پیچھے کچھ اور عوامل بھی تھے .
دوسری جانب کیا ممتاز قادری کی پھانسی کے بعد یہ سلسلہ رک جائے گا اور کیا سزا کے خوف سے عوامی (sentiment) کو دبایا جا سکتا ہے .
یہاں پر ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر مملکت پاکستان میں " ناموس رسالت " کا قانون اپنی اصل کے مطابق نافذ العمل ہوتا تو کیا کسی کے پاس اس قسم کی کاروائی کا جواز موجود رہتا .
دوسری جانب ہماری مقتدر شخصیات اور لبرل حلقوں کو بھی یہ بات سمجھنا ہوگی کہ (provocative) بیانات اور لوگوں کے عام مذھب کے خلاف اقدامات ہمیشہ عوامی احتجاج کو جنم دیتے ہیں آنجہانی سلمان تاثیر صاحب کے کچھ اقدامات اور بعض بیانات کافی عرصے سے عمومی حلقوں میں ہلچل پیدا کر رہے تھے .
دوسری طرف جبکہ وہابی طبقہ پہلے ہی حکومت کی مخالف سمت کھڑا ہے اب حکومت کو ایک بہت بڑا مسلہ یہ درپیش ہوگا کہ بریلوی مکتب فکر کی حمایت بھی اس کے ہاتھ سے جاتی رہے گی دوسرے لفظوں میں ملک کا اکثریتی دینی طبقہ حکومت وقت کے خلاف ہو چکا ہے اور یہ کوئی اچھی صورت حال نہیں ہے .
دوسری جانب اگر ممتاز قادری کی معافی کی اپیل قبول کر لی جاتی ...
اس حوالے سے مختلف آراء موجود ہیں لیکن یہ کوئی ایسا معاملہ نہیں کہ جس کی نظیر ماضی میں موجود نہ رہی ہو.
سربجیت سنگھ کا کیس اس حوالے سے مثال ہے ، پاکستان کی سرزمین پر بم دھماکے کرنے والے دہشت گرد کو جس انداز میں حکومتی سطح پر معافی دی گئی اور جس انداز میں ملکی و غیر ملکی لبرل طبقہ اسکی حمایت میں پیش پیش رہا اسکی نظیر بھی مشکل سے ملے گی یہ اور بات ہے کہ بعد میں وہ اپنے ساتھ قیدی کے ہاتھوں جیل میں ہی مارا گیا .
دیکھنا یہ ہے کہ اب جبکہ ممتاز قادری کو پھانسی دی جا چکی ہمارے شریف حکمران اس کے نتیجے میں ہونے والے انتشار کو کس طرح روک پائینگے .
حسیب احمد حسیب
http://humsub.com.pk/6724/haseeb-ahmad/