ممتاز قادری کو پھانسی دے دی گئی

فاتح

لائبریرین
میرے محترم بھائی میرے اک محترم دوست نے فارورڈ کیا یہ پیج اور پوچھا کہ کیا واقعی " تاثیر نے آسیہ کو رہا کرا بیرون ملک بھیج دیا "
میں نے آپ سب کے سامنے رکھ اس کی تصدیق چاہی ہے ۔۔۔
بہت دعائیں
کسی صوبے کے گورنر کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ کسی شخص کو، جسے عدالت نے سزائے موت سنائی ہو، جیل سے رہا کروا سکے۔ یہ فیصلہ صرف عدالت ہی سنا سکتی ہے۔
 

یاز

محفلین
تو پھر ان مولویوں پر بھی یہ قانون لگایا جائے جو دوسروں کے خداؤں اور مذہبی پیشواؤں کو برا بھلا کہتے ہیں اور اپنے ہی مذہب کو راہ راست پر سمجھتے ہیں۔ بلکہ اس کا اطلاق تو ہر مذہبی پر ہونا چاہیے۔
اسی کے ساتھ اس مولوی کو بھی پھانسی پہ لٹکایا جائے جس نے رمشا مسیح نامی بچی پہ توہینِ قرآن پاک کا الزام لگانے کے لئے خود اوراق جلائے۔
 
تو پھر ان مولویوں پر بھی یہ قانون لگایا جائے جو دوسروں کے خداؤں اور مذہبی پیشواؤں کو برا بھلا کہتے ہیں اور اپنے ہی مذہب کو راہ راست پر سمجھتے ہیں۔ بلکہ اس کا اطلاق تو ہر مذہبی پر ہونا چاہیے۔
اسلام کے ماننے والوں کا ایمان تو گستاخین رسالت عیسائیوں اور یہودیوں کے انبیا ء عیسی علیہ اسلام ، موسی علیہ سلام، داؤد علیہ سلام کیا، بلکہ آدم سےآنحضرت تک تمام نبیوں کی عزت کیے بنا مکمل ہی نہیں ہوتا۔ مسلمان تو سب مذاہب کے انبیا ء کا احترام کرتے ہیں لیکن دوسرے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا احترام نہیں کرتے۔ اور دیکھیں جب بھی عیسائی یا یہودی ہمارے نبی کے بارے گستاخانہ رویہ اپناتے ہیں تو ہم مسلمان پھر بھی ان کے نبیوں کو کبھی برا نہیں کہہ سکتے ، کیونکہ ان کا احترام ہمارے مذہب کا لازمی حصہ ہے۔ صاحب دلائل سے پہلے اپنے مذہب کے بارے تفصیلی مطالعہ کریں۔ دین اسلام کے مطابق وہ مسلمان ہی نہیں ہے جو تمام الہامی مذاہب کے انبیا اور تمام آسمانی کتابوں کا احترام نہ کرے۔
 
مدیر کی آخری تدوین:

زیک

مسافر
اسلام کے ماننے والوں کا ایمان تو گستاخین رسالت عیسائیوں اور یہودیوں کے انبیا ء عیسی علیہ اسلام ، موسی علیہ سلام، داؤد علیہ سلام کیا، بلکہ آدم سےآنحضرت تک تمام نبیوں کی عزت کیے بنا مکمل ہی نہیں ہوتا۔ مسلمان تو سب مذاہب کے انبیا ء کا احترام کرتے ہیں لیکن دوسرے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا احترام نہیں کرتے۔ اور دیکھیں جب بھی عیسائی یا یہودی ہمارے نبی کے بارے گستاخانہ رویہ اپناتے ہیں تو ہم مسلمان پھر بھی ان کے نبیوں کو کبھی برا نہیں کہہ سکتے ، کیونکہ ان کا احترام ہمارے مذہب کا لازمی حصہ ہے۔ صاحب دلائل سے پہلے اپنے مذہب کے بارے تفصیلی مطالعہ کریں۔ دین اسلام کے مطابق وہ مسلمان ہی نہیں ہے جو تمام الہامی مذاہب کے انبیا اور تمام آسمانی کتابوں کا احترام نہ کرے۔
صرف ان نبیوں کو جہنیں مسلمان نبی مانتے ہیں۔ کیا دوسرے ادیان کی مقدس ہستیوں کی گستاخی کے بھی آپ اتنا ہی خلاف ہیں؟
 
جسٹس (ر) میاں نذیر اختر ایک عشرے سے زیادہ تک لاہور ہائی کورٹ کے جج رہے ۔ اس سے پہلے پچیس سال تک وکالت سے وابستہ رہنے کے ساتھ ساتھ سولہ سال تک قانون کے استاد کے طور پر یونیورسٹی لاء کالج میں پڑھاتے رہے۔ ملک کے بڑے نامور وکلا اور جج حضرات ان کے شاگرد رہ چکے ہیں۔ جسٹس ریٹائرڈ میاں نذیر اختر ممتاز قادری کیس میں پہلے دن سے بطور وکیل منسلک رہے ۔ کچھ عرصہ پہلے ممتاز قادری کیس کے حوالے سے روزنامہ امت کراچی نے ان سے انٹرویو لیا تھا، اس میں ان کی گئی گفتگو نذرِ قارئین ہے۔
قانون کی بالادستی کا معاملہ
ممتاز قادری کیس کے حوالے سے عمومی تاثر یہ بنا ہے کہ یہ قانون کی بالادستی کا معاملہ ہے۔ میری رائے میں اگر ملک میں واقعی قانون کی بالادستی ہوتی تو ممتاز قادری آج جیل میں ہوتا نہ اسے عدالتوں سے سزا ملتی۔ بلکہ وہ بری ہوچکا ہوتا۔ قانون کی حکمرانی کی بات کرنے والوں کو یہ سمجھ نہیں ہے کہ پاکستانی قانون میں اسلامی قانون بدرجہ اولیٰ شامل ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس بات کو درست طور پر سمجھا ہی نہیں گیا۔ عدالت میں جب ہم سے یہ سوال کیا گیا تو میں نے عرض کیاتھا کہ تمام جرائم کی بنیاد قانون کو اپنے ہاتھ میں لیناہوتاہے۔ ہر جرم کی بنیاد یہی چیز بنتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود ہر طرح کے جرائم میں ملوث ملزمان کو کم سے کم سزا دینے کی کوشش کی جاتی ہے یا انہیں بری کردیا جاتا ہے۔ کسی کیس میں اس انداز فکر کی بنیاد پر فیصلہ کم ہی ہوتا ہے کہ یہ قانون کی بالادستی کا معاملہ ہے۔ عدالتوں کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ جہاں سے بھی ملزم کو ریلیف مل سکتا ہو،اسے دیاجائے۔ لیکن اس خاص مقدمے میں یہ معاملہ بالکل الٹ نظر آیا۔ اگر بطور ایک قانون دان میری رائے آپ جاننا چاہیں تو میں تو یہ کہوں گا کہ پاکستان کے قوانین کے مطابق سلمان تاثیر کو قتل کرنے کا قانونی اور شرعی جواز موجود تھا۔
قتل کے حوالے سے موجودہ دفعہ کو اسلامی قانون قصاص ودیت کی صورت میں ڈھالا گیا ہے۔ یہ دفعہ تعزیرات پاکستان کے باب سولہ میں موجود ہے۔ اس میں دفعہ 338 ایف ت پ، میں واضح طور پر کہاگیاہے کہ اس باب کے تحت تمام مقدمات میں قانون کے اطلاق اور اس کی تعبیر کے حوالے سے عدالتیں لازمی طور پر اسلامی قانون سے رہنمائی حاصل کریں گی۔ یعنی قرآن وسنت کے احکامات کے مطابق پاکستانی عدالتیں فیصلے کریں گی۔
عدالت نے عملاً اس دفعہ کو نظر انداز کیاہے۔ اسی طرح دفعہ 89 ت پ کو بھی نظر انداز کیاگیا۔ دفعہ اناسی کے تحت ایسا کوئی فعل جرم کے زمرے میں نہیں آتا،جو کوئی واقعاتی غلطی کرنے والا دیانتداری سے سمجھتاہو کہ وہ قانوناً ایسا کرنے کا حق رکھتاتھا۔اس لیے میں ایک قانون دان کے طور پر سمجھتاہوں کہ قانون ناموس رسالت پر حملہ آور ہونے والے کو قتل کرنے کا قانون حق دیتاہے۔ اس ناطے ممتاز قادری نے اپنی قانونی ذمہ داری انجام دی ہے۔ اگر عدالت ان دونوں دفعات کی روح کے مطابق فیصلہ کرتی تو ممتاز قادری کو مجرم قرار نہ دیتی۔ خطا فی القصد دفعہ نواسی کی روح کے مطابق ہے۔
غازی علم دین کیس - مماثلت اور فرق
غازی علم دین شہید کے حوالے سے کیس کا فیصلہ برطانوی قانون کے تحت غیرمسلم ججوں نے دیاتھا۔ جبکہ ممتاز قادری کیس کا فیصلہ پاکستان میں رائج اسلامی قانون کے تحت مسلمان ججوں نے کرناتھا۔ توقع تھی کہ ہمارے محترم جج صاحبان ملک میں نافذ العمل اسلامی قوانین اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں فیصلہ کریں گے ۔ کیوں کہ اسلام میں شاتم رسول کو ختم کردینا جائز ہے۔ میں نے عدالت کے سامنے اس مفہوم کی کم وبیش پندرہ احادیث پیش کیں۔ ان میں سے پہلی یہ تھی کہ" جوکوئی تعزیر میں حد کی مثل سزا دے وہ ظالموں میں سے ہے۔"(ممتاز قادری کو قانون کو میں ہاتھ میں لینے کی وجہ سے تعزیری سزا ہی دی جاسکتی تھی ) جج صاحبان نے جب یہ حدیث سنی تو مجھے کہا " آپ ہمیں ظالم قرار دے رہے ہیں؟" میں نے کہا کہ یہ حدیث مبارکہ کے الفاظ ہیں۔ میں ان میں تبدیلی نہیں کرسکتا ہوں۔ لیکن بعد ازاں جب عدالت نے فیصلہ لکھا تو اس حدیث یا کسی دوسری پیش کردہ حدیث کا فیصلے میں ذکر تک نہیں کیا۔
ایک قانونی اور عدالتی اصطلاح ہے " فیورٹ چائلڈ"۔ میں اس کا ترجمہ طفل پسندیدہ کے طور پر کرتا ہوں۔ اس کی روح یہ ہے کہ جرم سے نفرت تو جائز ہے ، جرم کرنے والے سے نفرت مناسب نہیں۔ اسی وجہ سے کسی بھی مقدمے کو ملزم سے نفرت ، تعصب یا بغض کی بنیاد پر آگے نہیں بڑھایا جاتا۔یہ بھی عام عدالتی روایت ہے کہ جب کسی مقدمے میں موجود حقیقت کے دومفاہیم نکلتے ہوں تو جو تعبیر یا مفہوم ملزم کے حق میں جاتاہو، اسی کو اختیار کیا جاتاہے۔ لیکن ممتاز قادری کے مقدمے میں پاکستان کی 65 سالہ عدالتی تاریخ اور روایت کے برعکس انداز اختیار کیا گیاہے۔ ایسا محسوس ہوتاہے کہ عدالت کو ہروہ بات زیادہ اپیل کرتی تھی ، جو استغاثے کے حق میں جاتی ہو۔ قانونی اور عدالتی مشاہدے یاتجربے میں اس طرح کی مثال اس سے پہلے کبھی نہیں آئی۔ عدالت نے اس کیس میں استغاثہ (سلمان تاثیر اینڈ کمپنی) کو اپنے " فیورٹ چائلڈ" کے طور پر رکھا۔ اگر میرے اس نکتہ نظر پر کسی کو شبہ ہو تو وہ عدالتی فیصلے اور اس کیس کی پروسیڈنگ کے ریکارڈ پر نظر ڈال لے۔ ممتاز قادری کے خلاف سامنے آنے والا فیصلہ صاف طور پر " پرو پراسیکیوشن" فیصلہ ہے۔ اس طرح کے فیصلے کی پہلے شاید کوئی نظیر نہیں ہو۔
ایک مسلمہ ضرورت ہوتی ہے کہ استغاثہ اپنے مقدمے کو ہر قسم کے شک وشبہے سے بالاتر ثابت کرے۔ استغاثہ کا فرض ہوتاہے کہ وہ گواہوں خصوصاً عینی شاہدین کو پیش کرے۔ لیکن اس مقدمے میں عجیب بات ہوئی کہ ایک طرف ایلیٹ فورس کے انتیس گواہوں کو پیش نہیں کیاگیا اور دوسری طرف سلمان تاثیر کے دوست وقاص شیخ ، جو ان کے ساتھ کھانا کھانے کے لیے ہوٹل گئے تھے اور آخری وقت تک ساتھ رہے، کو بھی بطور گواہ پیش نہیں کیاگیا۔ اس کے باوجود فیصلہ ممتاز قادری کے خلاف آگیا ہے۔ واضح رہے کہ وقاص شیخ کو استغاثہ کی طرف سے پیش کیے گئے ابتدائی نقشے میں سلمان تاثیر کو گولی لگتے وقت صرف پانچ فٹ کے فاصلے پر پوائنٹ نمبر تین پر دکھایا گیاتھا۔ اِس قدر اہم گواہ، سلمان تاثیر کا انتہائی قریبی دوست اور موقع کا عینی شاہد بھی گواہ کے طور پر پیش نہیں کیاجاسکا۔
اسے اِس لیے استغاثے نے پیش کرنے سے گریز کیا کہ اسے پیش کیا گیا تو وہ سلمان تاثیر کے اس آخری مکالمے کے بارے میں سب کچھ اگلنے پر مجبور ہوسکتاہے ، جو سلمان تاثیر اور ممتاز قادری کے درمیان ہوا، اور جس میں سلمان تاثیر نے تحفظ ناموس رسالت قانون کے بارے میں انتہائی اشتعال انگیز زبان استعمال کی تھی۔ شاید استغاثہ کو خطرہ تھا کہ وقاص شیخ کی گواہی ممتاز قادری کے حق میں چلی جائے گی۔
عدالت نے ہر بوجھ ملزم پر ڈالا اور استغاثہ کو اپنا کیس ثابت کرنے کے بوجھ سے آزاد کردیا۔29 گواہوں کی گواہی کو غیر ضروری قرار دیتے ہوئے ترک کردیا اور وقاص شیخ کے بارے میں کوئی وجہ نہیں بتائی گئی کہ ان کا نام گواہوں سے کیوں خارج کیاگیا۔
اشتعال اور غیرت کی بنیاد پر ہونے والے قتل کے مقدمات:
عمومی طور پر غیرت اور اشتعال کی بنیاد پر ہونے والے جرائم میں ملزمان کو انتہائی سزا نہیں دی جاتی۔ اس بات کو سمجھانے کے لیے میں آپ کو دو مقدمات قتل کی مثال دیتا ہوں۔ ایک عورت نے اپنے داماد کو کسی بات پر سرزنش کی تو داماد نے اسے اپنی توہین سمجھا اور اس توہین کا بدلہ لینے کے لیے وہ بازار گیا اور چھری لاکر اپنی ساس کو قتل کردیا۔ لیکن سپریم کورٹ نے اسے اشتعال میں آکر قتل کرنے کا مجرم مان کر پھانسی کے بجائے عمر قید کی سزا دی۔ ایک اور مقدمہ قتل جس میں ایک صاحب نے ایک شخص کو صرف اس بنیاد پر قتل کردیا کہ مقتول نے پشتو زبان میں کچھ ایسا کہا جسے وہ سمجھ نہیں سکتاتھا۔ لیکن اسے محسوس ہوا کہ اس نے اسے برا بھلا کہاہے۔ عدالت نے اس قاتل کو بھی سزائے موت نہیں دی کہ ہوسکتاہے کہ مقتول نے کوئی ایسی بات کہی ہوگی،جس سے اسے اشتعال آیا، لہٰذا عدالت نے قاتل کو سزائے قید سنائی۔
موکل ممتاز قادری ناموس رسالت قانون کے بارے میں سلمان تاثیر کے موقف سے مشتعل ہوا تھا۔ ہمارا تو پورا کیس ہی یہ تھا۔ عدالت کو بھی خوب علم تھا۔ یہ بھی عدالت کےسامنے عرض کیاگیا کہ رسول اکرمؐ کی شان میں توہین کسی مسلمان کو سب زیادہ مشتعل کرنے کا باعث بن سکتی ہے۔ یہ ایک مسلمان کے لیے غیرت کے حوالے سے بھی سب سے زیادہ اہم بات ہے ۔ جبکہ عام طور پر اشتعال اور غیرت کی بنیاد پر ہونے والے قتل کے واقعات میں عدالتیں سزائے موت نہیں دیتی ہیں۔لیکن یہاں الٹ ہوا ذاتی توہین اور نجی غیرت کے معاملے میں انتہائی اقدام کی سزا کم ،جبکہ ناموس رسالت کے تحفظ کے لیے بنائے گئے قانون کی توہین پر سزائے موت سنادی گئی۔
ہم نے اسلامی قانون کی مثالیں اور عدالتی فیصلوں کے حوالے دیے اور یہ ثابت کیا اسلامی قانون ہی ملک کا قانون ہے، جسے آئین نے تحفظ دے رکھا ہے۔ نفاذ شریعت ایکٹ 1991ء کا حوالہ بھی دیا، جس کے تحت اسلامی قانون ہی ملک کا حقیقی اور موثر قانون ہے اور دیگر تمام ملکی قوانین اس کے تابع ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم نے دیگر قوانین اور عدالتی فیصلوں کے بھی ہرممکن حوالے پیش کیے۔ لیکن عدالت نے ہر پہلو سے بلا جواز طور پر استغاثہ کے حق میں بات کرنے کی کوشش کی۔ عدالت نے ممتاز قادری کو غیرت اور اشتعال کے حوالے سے ریلیف نہ دینے کا جواز یہ بنایا کہ مقتول کا توہین رسالت سے متعلق قانون کو " کالا قانون" کہنا ثابت نہیں ہوتاہے۔ اس سلسلے میں عدالت کے سامنے ایکسپریس ٹربیون اور ایکسپریس کو مارک"اے " اور "بی" کے طور پر پیش کیاگیا۔ لیکن عدالت نے کہہ دیا کہ یہ صرف بیانات ہیں۔ یہ کافی نہیں ، اور یہ کہ اخبار نویسوں کو عدالت نہیں لایا گیا۔ ہم نے عدالت کے سامنے کئی عدالتی فیصلوں کے حوالے پیش کیے۔ ولی خان کیس، بے نظیر کیس اور نواز شریف سمیت کئی کیسز میں عدالتی فیصلوں کی مثال دیتے ہوئے بتایا کہ ماضی میں عدالتیں یہ فیصلہ دے چکی ہیں کہ جس بیان یا خبر کی متعلقہ شخص تردید نہ کرے ، تو ان اخباری بیانات کو درست سمجھا جائے گا۔ لیکن عدالت نے ان فیصلوں کو بھی قبول کرنے سے انکار کردیا اور کہا وہ سیاسی نوعیت کے کیس تھے۔ حالانکہ اصول یہ ہے کہ قانون سب کے لیے یکساں ہوتا ہے، سیاسی لوگوں اور عوام کے علیحدہ لاگو نہیں کیاجاسکتا۔ عدالت کی جانب سے اس بنیادی اصول کی بھی فیصلے میں خلاف ورزی ہوئی ہے۔ اسی مقدمے میں اخبارات کو استغاثہ کے حق میں استعمال کیاگیا۔
عدالت کی طرف سے ریمارکس دیے گئے کہ سلمان تاثیر نے ضیاءالحق کے بنائے ہوئے قانون کو کالا قانون کہاتھا اور اس تنقید کا حق موجود ہے۔ جب عدالت کے توجہ اس جانب دلائی گئی کہ یہ قانون ضیاءالحق کی ذہنی اختراع نہیں تھا، بلکہ یہ قانون قرآن وسنت سے لیا گیاتھا، اس لیے اسے تنقید کا نشانہ بنانا جائز نہیں ہوسکتا ہے۔ نیز یہ بھی دیکھا جانا چاہیے تھا کہ سلمان تاثیر کی طرف سے اس قانون پر تنقید نہیں بلکہ اس کی مذمت کی جارہی تھی۔ لیکن قابل احترام عدالت کے ججوں نے اس پر توجہ نہ کی اور عدالت کے سامنے پیش کردہ احادیث کو بھی فیصلہ لکھتے وقت نظر انداز کیا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ میں پوچھا گیا کہ خلفائے راشدین کے دور میں اس طرح کے معاملات کو کیسے ڈیل کیاجاتاتھا؟ اس پر عدالت کو بتایاگیا کہ خلفائے راشدین کے دور میں بھی توہین رسالت کرنے والوں کا انجام برا ہوتارہا۔ بحرین کے ایک گستاخ پادری کی طرف سے توہین رسالت کرنے پر نوعمر لڑکوں کے ہاتھوں اس کے قتل کا معاملہ حضرت عمر فاروقؓ کے سامنے پیش ہوا تو آپؓ نے اس قتل کو درست قرار دیا۔ اس حوالے سے عدالت کے سامنے کئی تاریخی حوالے بھی پیش کیے گئے۔
سلمان تاثیر کے بیٹے نے ایف آئی آر میں درج کرائی تھی کہ اس کے والد کو مخصوص خیالات کی وجہ سے مارا گیا اور ملزم نے مذہبی گروہوں کے ایما،انگیخت،معاونت اور سازش سے بہیمانہ طور پر قتل کیا۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ اس حوالے سے صرف دو علماء کو شامل تفتیش کیاگیا۔ ان میں سے ایک علامہ امتیاز تھے اور دوسرے علامہ محمد حنیف قریشی۔ ان دونوں کا جو بیان تفتیشی افسر نے عدالت میں " پی ڈبلیو14" کے طور پر پیش کیا، اس کے مطابق ممتاز قادری نے سلمان تاثیر کا قتل کسی کے کہنے پر نہیں بلکہ اپنے طور پر کیاہے۔ یعنی یہ اس کا ذاتی فعل تھا۔ لیکن اس کے باوجود قابل احترام عدالت کے ججوں نے لکھ دیا کہ وجہ عناد ثابت ہوگئی ہے۔ صرف یہی نہیں ، سپریم کورٹ کے سامنے میں نے موقف پیش کیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے پیرا 28 اور 29 میں حضوراکرمؐ کے فیصلوں کو سنت نبوی نہیں مانا۔ یہ نکتہ نظر سراسر غیر شرعی ہے۔ اس پر سپریم کورٹ نے کہا کہ ہم ان پیرا جات کو حذف کردیں گے۔ لیکن اسے بعد ازاں وعدے کےمطابق حذف نہیں کیاگیا۔ صرف یہی نہیں، عدالت نے تو اس کیس میں ہمارا موقف سننے کے لیے مناسب وقت بھی نہیں دیا۔ حد یہ ہوئی کہ کہاگیا کہ اپنا بیان تحریری طور پر دے دیں، بعد میں پڑھ لیں گے۔ لیکن بیان جمع کرانے کے بعد سماعت کے اختتام کو صرف بیس منٹ گزرے تھے کہ عدالت نے اپنا مختصر فیصلہ سنادیا اور تین پیپر بکس کمرہ عدالت میں پڑے رہ گئے۔ یوں ہمارے دلائل کو سُنے اور پڑھے بغیر مختصر فیصلہ دے دیاگیا۔ اس مختصر فیصلے میں تفصیلی فیصلے کا سرے سے ذکر ہی نہیں کیاگیا۔ حکومتی پراسیکیوٹر کا معاملہ یہ تھا کہ ایک روز اسلام آباد ہائی کورٹ میں جب اسے بولنا تھا تو اس کی حالت دیدنی ہوگئی، اس سے بات نہیں ہوپارہی تھی۔ اس پر عدالت کے فاضل جج صاحبان نے پوچھا کیا ہواہے آج آپ کو؟ تو پراسیکیوٹر کا جواب تھا کہ ڈر رہاہوں کہیں کوئی ایسی بات زبان سے نہ نکل جائے جو نبیؐ کی شفاعت سے محرومی کا سبب بن جائے۔
میرے ساتھ لاہور ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس خواجہ محمد شریف، چوہدری غلام مصطفٰی صاحب، محمد طاہر سلطان کھوکھر،عامر لطیف سبحانی، چوہدری خالد محمود،سید حبیب الحق،راجہ نوید عارف، ملک خالد اکمل اور چوہدری رمضان شامل تھے۔ ان سب دوستوں نے اپنے انداز میں خوب محنت اور اِخلاص کے ساتھ کام کیا۔یہ میرے لیے اور میرے ساتھی وکلاء کے لیے بہت بڑا اعزاز ہے۔ یہ اس پہلو سے بھی میرے لیے خوشی کی بات تھی کہ اللہ مجھ سے وہ کام لے رہا جو اس سے پہلے قائد اعظم بھی کر چکے ہیں۔ قائداعظم نے اپنے موکل غازی علم دین شہید کی تحسین ہی نہیں کی تھی بلکہ ان پر رشک کا اظہار کیاتھا۔ میں نے تو اپنے لیے یہ معاملہ آسان سمجھاتھا کہ قائداعظم کو تو غیر مسلم ججوں کا سامنا تھا جبکہ میرے سامنے مسلمان ججوں کا بنچ تھا۔ چنانچہ مجھے بڑی اچھی توقعات تھیں کہ اس مقدمے کا فیصلہ ملکی قانون اور قرآن وسنت کے مطابق ممتاز قادری کے حق میں آئے گا۔ ہم نے یہی بات عدالت سےبھی کہی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے تو جزوی طور پر درست فیصلہ دیا اور ممتاز قادری پر دہشت گردی کی دفعہ ختم کردی۔ لیکن دفعہ تین سو دو "بی" کے تحت ممتاز قادری کو سزائے موت سنادی۔ بعد ازاں جب معاملہ سپریم کورٹ کے سامنے گیا تو سلمان تاثیر کے اہل خانہ نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں دہشت گردی کی دفعہ ختم کیے جانے کو چیلنج نہیں کیا، تاہم حکومت نے اسے چیلنج کردیا۔ جس کی بنیاد پر سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو منسوخ کردیا اور دہشت گردی کی دفعہ کے تحت سزائے موت سنادی۔ جبکہ مقدمے کے ریکارڈ میں دہشت گردی کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے۔
منقول از فوزیہ
 
صرف ان نبیوں کو جہنیں مسلمان نبی مانتے ہیں۔ کیا دوسرے ادیان کی مقدس ہستیوں کی گستاخی کے بھی آپ اتنا ہی خلاف ہیں؟
زیک صاحب اللہ کے تمام سچے نبیوں کو تمام مسالک کے مسلمان اپنا نبی مانتے ہیں اور اپنے ایمان کا حصہ سمجھ کر ان کا احترام کرتے ہیں۔ بدھ مت جیسے دوسرے ادیان کے پیشوا گو کہ اللہ کے نبی نہیں لیکن پھر مسلمان ان کا بھی بیحد احترام کرتے ہیں۔ برما کے واقعات پر مسلمانوں نے قتل عام کرنے والے شدت پسند بدھوؤں کو تو برا بھلا کہا لیکن کسی مسلمان نے مہاتما بدھ کی توہین نہیں کی۔ مسلمان دوسرے ادیان کے پیشواؤں کا احترام کرتے ہیں، ماسوائے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جعلی نبوت کے دعویداروں کے۔ میں ان جعلی نبیوں کا کوئی ذکر کرنا بھی باعث فتنہ فساد سمجھتا ہوں۔ لہذا کوئی ان ٹاپک پر بحث کرے تو لکم دین کم ولی دین کہہ کر سلاما کہنا بہتر ہے۔ بات پھر وہیں آ کر ختم ہوتی ہے کہ شدت پسندی مذہبی قوتوں کی طرف سے ہو یا اینٹی مذہب قوتوں کی طرف سے۔ دونوں کا نتیجہ فتنہ فساد اور شدت پسندی کا فروغ ہے۔
 

زیک

مسافر
جسٹس (ر) میاں نذیر اختر ایک عشرے سے زیادہ تک لاہور ہائی کورٹ کے جج رہے ۔ اس سے پہلے پچیس سال تک وکالت سے وابستہ رہنے کے ساتھ ساتھ سولہ سال تک قانون کے استاد کے طور پر یونیورسٹی لاء کالج میں پڑھاتے رہے۔ ملک کے بڑے نامور وکلا اور جج حضرات ان کے شاگرد رہ چکے ہیں۔ جسٹس ریٹائرڈ میاں نذیر اختر ممتاز قادری کیس میں پہلے دن سے بطور وکیل منسلک رہے ۔ کچھ عرصہ پہلے ممتاز قادری کیس کے حوالے سے روزنامہ امت کراچی نے ان سے انٹرویو لیا تھا، اس میں ان کی گئی گفتگو نذرِ قارئین ہے۔
قانون کی بالادستی کا معاملہ
ممتاز قادری کیس کے حوالے سے عمومی تاثر یہ بنا ہے کہ یہ قانون کی بالادستی کا معاملہ ہے۔ میری رائے میں اگر ملک میں واقعی قانون کی بالادستی ہوتی تو ممتاز قادری آج جیل میں ہوتا نہ اسے عدالتوں سے سزا ملتی۔ بلکہ وہ بری ہوچکا ہوتا۔ قانون کی حکمرانی کی بات کرنے والوں کو یہ سمجھ نہیں ہے کہ پاکستانی قانون میں اسلامی قانون بدرجہ اولیٰ شامل ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس بات کو درست طور پر سمجھا ہی نہیں گیا۔ عدالت میں جب ہم سے یہ سوال کیا گیا تو میں نے عرض کیاتھا کہ تمام جرائم کی بنیاد قانون کو اپنے ہاتھ میں لیناہوتاہے۔ ہر جرم کی بنیاد یہی چیز بنتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود ہر طرح کے جرائم میں ملوث ملزمان کو کم سے کم سزا دینے کی کوشش کی جاتی ہے یا انہیں بری کردیا جاتا ہے۔ کسی کیس میں اس انداز فکر کی بنیاد پر فیصلہ کم ہی ہوتا ہے کہ یہ قانون کی بالادستی کا معاملہ ہے۔ عدالتوں کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ جہاں سے بھی ملزم کو ریلیف مل سکتا ہو،اسے دیاجائے۔ لیکن اس خاص مقدمے میں یہ معاملہ بالکل الٹ نظر آیا۔ اگر بطور ایک قانون دان میری رائے آپ جاننا چاہیں تو میں تو یہ کہوں گا کہ پاکستان کے قوانین کے مطابق سلمان تاثیر کو قتل کرنے کا قانونی اور شرعی جواز موجود تھا۔
قتل کے حوالے سے موجودہ دفعہ کو اسلامی قانون قصاص ودیت کی صورت میں ڈھالا گیا ہے۔ یہ دفعہ تعزیرات پاکستان کے باب سولہ میں موجود ہے۔ اس میں دفعہ 338 ایف ت پ، میں واضح طور پر کہاگیاہے کہ اس باب کے تحت تمام مقدمات میں قانون کے اطلاق اور اس کی تعبیر کے حوالے سے عدالتیں لازمی طور پر اسلامی قانون سے رہنمائی حاصل کریں گی۔ یعنی قرآن وسنت کے احکامات کے مطابق پاکستانی عدالتیں فیصلے کریں گی۔
عدالت نے عملاً اس دفعہ کو نظر انداز کیاہے۔ اسی طرح دفعہ 89 ت پ کو بھی نظر انداز کیاگیا۔ دفعہ اناسی کے تحت ایسا کوئی فعل جرم کے زمرے میں نہیں آتا،جو کوئی واقعاتی غلطی کرنے والا دیانتداری سے سمجھتاہو کہ وہ قانوناً ایسا کرنے کا حق رکھتاتھا۔اس لیے میں ایک قانون دان کے طور پر سمجھتاہوں کہ قانون ناموس رسالت پر حملہ آور ہونے والے کو قتل کرنے کا قانون حق دیتاہے۔ اس ناطے ممتاز قادری نے اپنی قانونی ذمہ داری انجام دی ہے۔ اگر عدالت ان دونوں دفعات کی روح کے مطابق فیصلہ کرتی تو ممتاز قادری کو مجرم قرار نہ دیتی۔ خطا فی القصد دفعہ نواسی کی روح کے مطابق ہے۔
غازی علم دین کیس - مماثلت اور فرق
غازی علم دین شہید کے حوالے سے کیس کا فیصلہ برطانوی قانون کے تحت غیرمسلم ججوں نے دیاتھا۔ جبکہ ممتاز قادری کیس کا فیصلہ پاکستان میں رائج اسلامی قانون کے تحت مسلمان ججوں نے کرناتھا۔ توقع تھی کہ ہمارے محترم جج صاحبان ملک میں نافذ العمل اسلامی قوانین اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں فیصلہ کریں گے ۔ کیوں کہ اسلام میں شاتم رسول کو ختم کردینا جائز ہے۔ میں نے عدالت کے سامنے اس مفہوم کی کم وبیش پندرہ احادیث پیش کیں۔ ان میں سے پہلی یہ تھی کہ" جوکوئی تعزیر میں حد کی مثل سزا دے وہ ظالموں میں سے ہے۔"(ممتاز قادری کو قانون کو میں ہاتھ میں لینے کی وجہ سے تعزیری سزا ہی دی جاسکتی تھی ) جج صاحبان نے جب یہ حدیث سنی تو مجھے کہا " آپ ہمیں ظالم قرار دے رہے ہیں؟" میں نے کہا کہ یہ حدیث مبارکہ کے الفاظ ہیں۔ میں ان میں تبدیلی نہیں کرسکتا ہوں۔ لیکن بعد ازاں جب عدالت نے فیصلہ لکھا تو اس حدیث یا کسی دوسری پیش کردہ حدیث کا فیصلے میں ذکر تک نہیں کیا۔
ایک قانونی اور عدالتی اصطلاح ہے " فیورٹ چائلڈ"۔ میں اس کا ترجمہ طفل پسندیدہ کے طور پر کرتا ہوں۔ اس کی روح یہ ہے کہ جرم سے نفرت تو جائز ہے ، جرم کرنے والے سے نفرت مناسب نہیں۔ اسی وجہ سے کسی بھی مقدمے کو ملزم سے نفرت ، تعصب یا بغض کی بنیاد پر آگے نہیں بڑھایا جاتا۔یہ بھی عام عدالتی روایت ہے کہ جب کسی مقدمے میں موجود حقیقت کے دومفاہیم نکلتے ہوں تو جو تعبیر یا مفہوم ملزم کے حق میں جاتاہو، اسی کو اختیار کیا جاتاہے۔ لیکن ممتاز قادری کے مقدمے میں پاکستان کی 65 سالہ عدالتی تاریخ اور روایت کے برعکس انداز اختیار کیا گیاہے۔ ایسا محسوس ہوتاہے کہ عدالت کو ہروہ بات زیادہ اپیل کرتی تھی ، جو استغاثے کے حق میں جاتی ہو۔ قانونی اور عدالتی مشاہدے یاتجربے میں اس طرح کی مثال اس سے پہلے کبھی نہیں آئی۔ عدالت نے اس کیس میں استغاثہ (سلمان تاثیر اینڈ کمپنی) کو اپنے " فیورٹ چائلڈ" کے طور پر رکھا۔ اگر میرے اس نکتہ نظر پر کسی کو شبہ ہو تو وہ عدالتی فیصلے اور اس کیس کی پروسیڈنگ کے ریکارڈ پر نظر ڈال لے۔ ممتاز قادری کے خلاف سامنے آنے والا فیصلہ صاف طور پر " پرو پراسیکیوشن" فیصلہ ہے۔ اس طرح کے فیصلے کی پہلے شاید کوئی نظیر نہیں ہو۔
ایک مسلمہ ضرورت ہوتی ہے کہ استغاثہ اپنے مقدمے کو ہر قسم کے شک وشبہے سے بالاتر ثابت کرے۔ استغاثہ کا فرض ہوتاہے کہ وہ گواہوں خصوصاً عینی شاہدین کو پیش کرے۔ لیکن اس مقدمے میں عجیب بات ہوئی کہ ایک طرف ایلیٹ فورس کے انتیس گواہوں کو پیش نہیں کیاگیا اور دوسری طرف سلمان تاثیر کے دوست وقاص شیخ ، جو ان کے ساتھ کھانا کھانے کے لیے ہوٹل گئے تھے اور آخری وقت تک ساتھ رہے، کو بھی بطور گواہ پیش نہیں کیاگیا۔ اس کے باوجود فیصلہ ممتاز قادری کے خلاف آگیا ہے۔ واضح رہے کہ وقاص شیخ کو استغاثہ کی طرف سے پیش کیے گئے ابتدائی نقشے میں سلمان تاثیر کو گولی لگتے وقت صرف پانچ فٹ کے فاصلے پر پوائنٹ نمبر تین پر دکھایا گیاتھا۔ اِس قدر اہم گواہ، سلمان تاثیر کا انتہائی قریبی دوست اور موقع کا عینی شاہد بھی گواہ کے طور پر پیش نہیں کیاجاسکا۔
اسے اِس لیے استغاثے نے پیش کرنے سے گریز کیا کہ اسے پیش کیا گیا تو وہ سلمان تاثیر کے اس آخری مکالمے کے بارے میں سب کچھ اگلنے پر مجبور ہوسکتاہے ، جو سلمان تاثیر اور ممتاز قادری کے درمیان ہوا، اور جس میں سلمان تاثیر نے تحفظ ناموس رسالت قانون کے بارے میں انتہائی اشتعال انگیز زبان استعمال کی تھی۔ شاید استغاثہ کو خطرہ تھا کہ وقاص شیخ کی گواہی ممتاز قادری کے حق میں چلی جائے گی۔
عدالت نے ہر بوجھ ملزم پر ڈالا اور استغاثہ کو اپنا کیس ثابت کرنے کے بوجھ سے آزاد کردیا۔29 گواہوں کی گواہی کو غیر ضروری قرار دیتے ہوئے ترک کردیا اور وقاص شیخ کے بارے میں کوئی وجہ نہیں بتائی گئی کہ ان کا نام گواہوں سے کیوں خارج کیاگیا۔
اشتعال اور غیرت کی بنیاد پر ہونے والے قتل کے مقدمات:
عمومی طور پر غیرت اور اشتعال کی بنیاد پر ہونے والے جرائم میں ملزمان کو انتہائی سزا نہیں دی جاتی۔ اس بات کو سمجھانے کے لیے میں آپ کو دو مقدمات قتل کی مثال دیتا ہوں۔ ایک عورت نے اپنے داماد کو کسی بات پر سرزنش کی تو داماد نے اسے اپنی توہین سمجھا اور اس توہین کا بدلہ لینے کے لیے وہ بازار گیا اور چھری لاکر اپنی ساس کو قتل کردیا۔ لیکن سپریم کورٹ نے اسے اشتعال میں آکر قتل کرنے کا مجرم مان کر پھانسی کے بجائے عمر قید کی سزا دی۔ ایک اور مقدمہ قتل جس میں ایک صاحب نے ایک شخص کو صرف اس بنیاد پر قتل کردیا کہ مقتول نے پشتو زبان میں کچھ ایسا کہا جسے وہ سمجھ نہیں سکتاتھا۔ لیکن اسے محسوس ہوا کہ اس نے اسے برا بھلا کہاہے۔ عدالت نے اس قاتل کو بھی سزائے موت نہیں دی کہ ہوسکتاہے کہ مقتول نے کوئی ایسی بات کہی ہوگی،جس سے اسے اشتعال آیا، لہٰذا عدالت نے قاتل کو سزائے قید سنائی۔
موکل ممتاز قادری ناموس رسالت قانون کے بارے میں سلمان تاثیر کے موقف سے مشتعل ہوا تھا۔ ہمارا تو پورا کیس ہی یہ تھا۔ عدالت کو بھی خوب علم تھا۔ یہ بھی عدالت کےسامنے عرض کیاگیا کہ رسول اکرمؐ کی شان میں توہین کسی مسلمان کو سب زیادہ مشتعل کرنے کا باعث بن سکتی ہے۔ یہ ایک مسلمان کے لیے غیرت کے حوالے سے بھی سب سے زیادہ اہم بات ہے ۔ جبکہ عام طور پر اشتعال اور غیرت کی بنیاد پر ہونے والے قتل کے واقعات میں عدالتیں سزائے موت نہیں دیتی ہیں۔لیکن یہاں الٹ ہوا ذاتی توہین اور نجی غیرت کے معاملے میں انتہائی اقدام کی سزا کم ،جبکہ ناموس رسالت کے تحفظ کے لیے بنائے گئے قانون کی توہین پر سزائے موت سنادی گئی۔
ہم نے اسلامی قانون کی مثالیں اور عدالتی فیصلوں کے حوالے دیے اور یہ ثابت کیا اسلامی قانون ہی ملک کا قانون ہے، جسے آئین نے تحفظ دے رکھا ہے۔ نفاذ شریعت ایکٹ 1991ء کا حوالہ بھی دیا، جس کے تحت اسلامی قانون ہی ملک کا حقیقی اور موثر قانون ہے اور دیگر تمام ملکی قوانین اس کے تابع ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم نے دیگر قوانین اور عدالتی فیصلوں کے بھی ہرممکن حوالے پیش کیے۔ لیکن عدالت نے ہر پہلو سے بلا جواز طور پر استغاثہ کے حق میں بات کرنے کی کوشش کی۔ عدالت نے ممتاز قادری کو غیرت اور اشتعال کے حوالے سے ریلیف نہ دینے کا جواز یہ بنایا کہ مقتول کا توہین رسالت سے متعلق قانون کو " کالا قانون" کہنا ثابت نہیں ہوتاہے۔ اس سلسلے میں عدالت کے سامنے ایکسپریس ٹربیون اور ایکسپریس کو مارک"اے " اور "بی" کے طور پر پیش کیاگیا۔ لیکن عدالت نے کہہ دیا کہ یہ صرف بیانات ہیں۔ یہ کافی نہیں ، اور یہ کہ اخبار نویسوں کو عدالت نہیں لایا گیا۔ ہم نے عدالت کے سامنے کئی عدالتی فیصلوں کے حوالے پیش کیے۔ ولی خان کیس، بے نظیر کیس اور نواز شریف سمیت کئی کیسز میں عدالتی فیصلوں کی مثال دیتے ہوئے بتایا کہ ماضی میں عدالتیں یہ فیصلہ دے چکی ہیں کہ جس بیان یا خبر کی متعلقہ شخص تردید نہ کرے ، تو ان اخباری بیانات کو درست سمجھا جائے گا۔ لیکن عدالت نے ان فیصلوں کو بھی قبول کرنے سے انکار کردیا اور کہا وہ سیاسی نوعیت کے کیس تھے۔ حالانکہ اصول یہ ہے کہ قانون سب کے لیے یکساں ہوتا ہے، سیاسی لوگوں اور عوام کے علیحدہ لاگو نہیں کیاجاسکتا۔ عدالت کی جانب سے اس بنیادی اصول کی بھی فیصلے میں خلاف ورزی ہوئی ہے۔ اسی مقدمے میں اخبارات کو استغاثہ کے حق میں استعمال کیاگیا۔
عدالت کی طرف سے ریمارکس دیے گئے کہ سلمان تاثیر نے ضیاءالحق کے بنائے ہوئے قانون کو کالا قانون کہاتھا اور اس تنقید کا حق موجود ہے۔ جب عدالت کے توجہ اس جانب دلائی گئی کہ یہ قانون ضیاءالحق کی ذہنی اختراع نہیں تھا، بلکہ یہ قانون قرآن وسنت سے لیا گیاتھا، اس لیے اسے تنقید کا نشانہ بنانا جائز نہیں ہوسکتا ہے۔ نیز یہ بھی دیکھا جانا چاہیے تھا کہ سلمان تاثیر کی طرف سے اس قانون پر تنقید نہیں بلکہ اس کی مذمت کی جارہی تھی۔ لیکن قابل احترام عدالت کے ججوں نے اس پر توجہ نہ کی اور عدالت کے سامنے پیش کردہ احادیث کو بھی فیصلہ لکھتے وقت نظر انداز کیا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ میں پوچھا گیا کہ خلفائے راشدین کے دور میں اس طرح کے معاملات کو کیسے ڈیل کیاجاتاتھا؟ اس پر عدالت کو بتایاگیا کہ خلفائے راشدین کے دور میں بھی توہین رسالت کرنے والوں کا انجام برا ہوتارہا۔ بحرین کے ایک گستاخ پادری کی طرف سے توہین رسالت کرنے پر نوعمر لڑکوں کے ہاتھوں اس کے قتل کا معاملہ حضرت عمر فاروقؓ کے سامنے پیش ہوا تو آپؓ نے اس قتل کو درست قرار دیا۔ اس حوالے سے عدالت کے سامنے کئی تاریخی حوالے بھی پیش کیے گئے۔
سلمان تاثیر کے بیٹے نے ایف آئی آر میں درج کرائی تھی کہ اس کے والد کو مخصوص خیالات کی وجہ سے مارا گیا اور ملزم نے مذہبی گروہوں کے ایما،انگیخت،معاونت اور سازش سے بہیمانہ طور پر قتل کیا۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ اس حوالے سے صرف دو علماء کو شامل تفتیش کیاگیا۔ ان میں سے ایک علامہ امتیاز تھے اور دوسرے علامہ محمد حنیف قریشی۔ ان دونوں کا جو بیان تفتیشی افسر نے عدالت میں " پی ڈبلیو14" کے طور پر پیش کیا، اس کے مطابق ممتاز قادری نے سلمان تاثیر کا قتل کسی کے کہنے پر نہیں بلکہ اپنے طور پر کیاہے۔ یعنی یہ اس کا ذاتی فعل تھا۔ لیکن اس کے باوجود قابل احترام عدالت کے ججوں نے لکھ دیا کہ وجہ عناد ثابت ہوگئی ہے۔ صرف یہی نہیں ، سپریم کورٹ کے سامنے میں نے موقف پیش کیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے پیرا 28 اور 29 میں حضوراکرمؐ کے فیصلوں کو سنت نبوی نہیں مانا۔ یہ نکتہ نظر سراسر غیر شرعی ہے۔ اس پر سپریم کورٹ نے کہا کہ ہم ان پیرا جات کو حذف کردیں گے۔ لیکن اسے بعد ازاں وعدے کےمطابق حذف نہیں کیاگیا۔ صرف یہی نہیں، عدالت نے تو اس کیس میں ہمارا موقف سننے کے لیے مناسب وقت بھی نہیں دیا۔ حد یہ ہوئی کہ کہاگیا کہ اپنا بیان تحریری طور پر دے دیں، بعد میں پڑھ لیں گے۔ لیکن بیان جمع کرانے کے بعد سماعت کے اختتام کو صرف بیس منٹ گزرے تھے کہ عدالت نے اپنا مختصر فیصلہ سنادیا اور تین پیپر بکس کمرہ عدالت میں پڑے رہ گئے۔ یوں ہمارے دلائل کو سُنے اور پڑھے بغیر مختصر فیصلہ دے دیاگیا۔ اس مختصر فیصلے میں تفصیلی فیصلے کا سرے سے ذکر ہی نہیں کیاگیا۔ حکومتی پراسیکیوٹر کا معاملہ یہ تھا کہ ایک روز اسلام آباد ہائی کورٹ میں جب اسے بولنا تھا تو اس کی حالت دیدنی ہوگئی، اس سے بات نہیں ہوپارہی تھی۔ اس پر عدالت کے فاضل جج صاحبان نے پوچھا کیا ہواہے آج آپ کو؟ تو پراسیکیوٹر کا جواب تھا کہ ڈر رہاہوں کہیں کوئی ایسی بات زبان سے نہ نکل جائے جو نبیؐ کی شفاعت سے محرومی کا سبب بن جائے۔
میرے ساتھ لاہور ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس خواجہ محمد شریف، چوہدری غلام مصطفٰی صاحب، محمد طاہر سلطان کھوکھر،عامر لطیف سبحانی، چوہدری خالد محمود،سید حبیب الحق،راجہ نوید عارف، ملک خالد اکمل اور چوہدری رمضان شامل تھے۔ ان سب دوستوں نے اپنے انداز میں خوب محنت اور اِخلاص کے ساتھ کام کیا۔یہ میرے لیے اور میرے ساتھی وکلاء کے لیے بہت بڑا اعزاز ہے۔ یہ اس پہلو سے بھی میرے لیے خوشی کی بات تھی کہ اللہ مجھ سے وہ کام لے رہا جو اس سے پہلے قائد اعظم بھی کر چکے ہیں۔ قائداعظم نے اپنے موکل غازی علم دین شہید کی تحسین ہی نہیں کی تھی بلکہ ان پر رشک کا اظہار کیاتھا۔ میں نے تو اپنے لیے یہ معاملہ آسان سمجھاتھا کہ قائداعظم کو تو غیر مسلم ججوں کا سامنا تھا جبکہ میرے سامنے مسلمان ججوں کا بنچ تھا۔ چنانچہ مجھے بڑی اچھی توقعات تھیں کہ اس مقدمے کا فیصلہ ملکی قانون اور قرآن وسنت کے مطابق ممتاز قادری کے حق میں آئے گا۔ ہم نے یہی بات عدالت سےبھی کہی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے تو جزوی طور پر درست فیصلہ دیا اور ممتاز قادری پر دہشت گردی کی دفعہ ختم کردی۔ لیکن دفعہ تین سو دو "بی" کے تحت ممتاز قادری کو سزائے موت سنادی۔ بعد ازاں جب معاملہ سپریم کورٹ کے سامنے گیا تو سلمان تاثیر کے اہل خانہ نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں دہشت گردی کی دفعہ ختم کیے جانے کو چیلنج نہیں کیا، تاہم حکومت نے اسے چیلنج کردیا۔ جس کی بنیاد پر سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو منسوخ کردیا اور دہشت گردی کی دفعہ کے تحت سزائے موت سنادی۔ جبکہ مقدمے کے ریکارڈ میں دہشت گردی کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے۔
منقول از فوزیہ
یہ وہی شخص ہے جس نے توری ٹینڈے کو برا کہنے کو توہین رسول قرار دیا تھا؟
 

زیک

مسافر
زیک صاحب اللہ کے تمام سچے نبیوں کو تمام مسالک کے مسلمان اپنا نبی مانتے ہیں اور اپنے ایمان کا حصہ سمجھ کر ان کا احترام کرتے ہیں۔ بدھ مت جیسے دوسرے ادیان کے پیشوا گو کہ اللہ کے نبی نہیں لیکن پھر مسلمان ان کا بھی بیحد احترام کرتے ہیں۔ برما کے واقعات پر مسلمانوں نے قتل عام کرنے والے شدت پسند بدھوؤں کو تو برا بھلا کہا لیکن کسی مسلمان نے مہاتما بدھ کی توہین نہیں کی۔ مسلمان دوسرے ادیان کے پیشواؤں کا احترام کرتے ہیں، ماسوائے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جعلی نبوت کے دعویداروں کے۔ میں ان جعلی نبیوں کا کوئی ذکر کرنا بھی باعث فتنہ فساد سمجھتا ہوں۔ لہذا کوئی ان ٹاپک پر بحث کرے تو لکم دین کم ولی دین کہہ کر سلاما کہنا بہتر ہے۔ بات پھر وہیں آ کر ختم ہوتی ہے کہ شدت پسندی مذہبی قوتوں کی طرف سے ہو یا اینٹی مذہب قوتوں کی طرف سے۔ دونوں کا نتیجہ فتنہ فساد اور شدت پسندی کا فروغ ہے۔
یعنی آپ جوزف سمتھ کا احترام نہیں کرتے؟
 

طالب سحر

محفلین
قائداعظم نے اپنے موکل غازی علم دین شہید کی تحسین ہی نہیں کی تھی بلکہ ان پر رشک کا اظہار کیاتھا۔

اس بات کا کوئی تاریخی ثبوت نہیں ہے کیونکہ قائداعظم نے اپنے موکل غازی علم دین کے اس موقف کی وکالت کی تھی کہ موکل پر لگایا جانے والا قتل کا الزام غلط ہے- تفصیل کے لئے دیکھیے ظفر اقبال نگینہ کی کتاب "غازی علم دین شہید" میں شامل ضمیمے-

اس مقدمے AIR 1930 Lahore 157 کا چھپا ہوا فیصلہ بھی پڑھا جاسکتا ہے، جس کا عکس اس مراسلے میں شامل کرنے کی کوشش کروں گا-
IMG_0228.jpg
IMG_0229.jpg
 
قطع نظر اس کے کہ اس مسئلے کے مذہبی پہلوؤں پر سیر حاصل بحث رہی، اس کا ایک سیاسی پہلو بھی ہوسکتا ہے۔ ملاحظہ فرمائیے پاکستان پیپلز پاٹی کے محمد ایوب جپہ کی تحریر۔


یہ کہانی شروع ہوتی ہے شیخوپورہ کے نواحی گاوں ''اٹاں والی'' سے جہاں کی آسیہ بی بی نامی ایک عیسائی عورت جس کا شوہر عاشق حسین بھٹہ پر کام کرتا ہے جبکہ آسیہ کھیتوں میں مزدوری کرتی ہے. ...آسیہ اور عاشق کے پانچ بچے ہیں. ..ایک دن آسیہ دیگر مسلمان عورتوں کے ساتھ فالسے کی فصل کی چنائی کر رہی ہوتی ہے کہ دوپہر کو دیگر عورتیں اسے پاس کے ٹیوب ویل سے گھڑا بھر کے لانے کا کہتی ہیں ...وہ ٹیوب ویل سے گھڑا بھرنے کے لیے جاتی ہے ٹیوب ویل پر اس کی ہمسائی جس کے ساتھ آسیہ کا زمین کا جھگڑا چل رہا تھا بھی موجود ہوتی ہے. .آسیہ گھڑا بھر کر واپس کھیت میں آ جاتی ہے پیچھے سے اس کی وہ ہمسائی بھی کھیتوں میں آ جاتی ہے اور دیگر مسلمان عورتوں کو بتاتی ہے کہ آسیہ نے گھڑے سے بندھے گلاس کے ساتھ پانی پیا ہے یہ گلاس پلید کرکے اب اس پلید اور جوٹھے گلاس سے تمہیں پانی پلائے گی . .یہ بات سنتے ہی وہ کام کرنے والی مسلمان خواتین شدید بھڑک کر آسیہ کو برا بھلا کہنے لگ گئیں. .آسیہ اور ان مسلمان عورتیں میں شروع ہونے والی لڑائی گالم گلوچ سے بڑھ کر مزہبی بیان بازی کا رنگ اختیار کر جاتی ہے. حالات کو ناموافق گردانتے ہوئے آسیہ دوپہر کو ہی کھیت چھوڑ کر گھر چلی جاتی ہے .. پیچھے سے آسیہ کی ہمسائی آبادی کے امام مسجد کے پاس چلی جاتی ہے اور اسے بھڑکاتی ہے . .امام مسجد گاوں کے لوگوں کو اکٹھا کر کے رات کو آسیہ کے گھر پر دھاوا بول دیتا ہے. ..آسیہ کے تمام اہل خانہ کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور اس کے بعد آسیہ کو پولیس کے حوالے کر دیتے ہیں اور یوں آسیہ کے خلاف متعلقہ تھانے میں 295 c تعزیرات پاکستان کے تحت توہین رسالت کا مقدمہ قائم کر دیا جاتا ہے. ..آسیہ کو ایک سال جیل میں رکھا جاتا ہے اور سال بعد اس پر مقدمہ چلایا جاتا ہے. ..آسیہ اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کی صحت سے انکار کرتی ہے لیکن کیونکہ گاوں کے لوگ اس کے خلاف گواہی دیتے ہیں اس لیے شیخوپورہ کی عدالت کے ایڈیشنل سیشن جج محمد نوید اقبال اس کو توہین رسالت کا مجرم قرار دے کر سزائے موت دے دیتے ہیں. .آسیہ کا خاوند سزا کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں اپیل کرتا ہے جہاں پر اس کیس کو مقامی اخبارات میں خوب پبلسٹی ملتی. .. ہائی کورٹ بھی سیشن کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھتا ہے انگریزی اخبار کے کالم نگار رسول بخش رئیس اس پر انگریزی میں ایک کالم لکھ دیتے ہیں جسے پڑھنے کے بعد بیرون ملک آسیہ کی ہمدردی میں بہت زیادہ آوازیں بلند ہوتی ہیں یہاں تک کہ Pope Bendit 16 بھی آسیہ کے حق میں بیان دے دیتا ہے. ..پوپ کے بیان کے بعد ہمارے علما آسیہ کے خلاف بیان بازی اور مظاہرے شروع کر دیتے ہیں. .حالات کی نزاکت کے پیش نظر وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے شیریں رحمان کی ذمہ داری لگائی کہ وہ معاملات کی تہ تک پہنچیں. .شیریں رحمان آسیہ سے ملنے جیل گئیں اور آسیہ سے اس سے حقائق معلوم کیے. .ان حقائق کے مدنظر ایک خفیہ انکوائری کروائی جاتی ہے. .خفیہ انکوائری جو کہ کام کرنے والی عورتوں کے بیانات پر تھی کے مطابق آسیہ اور مسلمان خواتین کے درمیان تلخ کلامی ضرور ہوئی تھی لیکن بات توہین رسالت تک نہیں پہنچی تھی. .اس کے علاوہ ایک اور سنگین حقیقت سامنے آتی ہے کہ مسجد کے امام نے آسیہ سے ہم بستری کا تقاضا کیا تھا جسے پورا نہ کرنے پر امام نے اسے سنگین نتائج کی دھمکی دی تھی اور یوں آسیہ کے اس انجام میں آسیہ کی ہمسائی کے ساتھ ساتھ امام مسجد کا بھی برابر کا کردار تھا. ..اس انکوائری کی ایک کاپی سلمان تاثیر کی نظروں سے بھی گزرتی ہے اور وہ اتنی بڑی ناانصافی کا ازالہ کرنے کے لیے اپنی بیوی آمنہ تاثیر اور بیٹی شہر بانو کے ہمراہ آسیہ سے ملنے جیل میں چلا جاتا ہے اور اسے یقین دلاتا ہے کہ وہ صدر مملکت آصف علی زرداری سے اس کی سزائے موت معاف کروانے کی کوشش کرے گا ..جیل سے نکلتے وقت سلمان تاثیر اخبار نویسوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہتا ہے کہ آسیہ کے ساتھ سخت زیادتی ہوئی ہے. .کئی سال سے وہ اپنے ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت رہی ہے ...وہ آسیہ کے کیس کے سنگین حقائق منظر عام پر آنے کے بعد کوشش کریں گے کہ اس قانون میں ترمیم کر کے اس میں ایک شق یہ بھی ڈالی جائے کہ اگر کوئی شخص کسی شخص پر توہین رسالت کا جھوٹا الزام لگائے تو وہ بھی توہین رسالت کا مرتکب سمجھا جائے. . ...اگلی صبح ملک کے ایک بہت بڑے اخبار روزنامہ پاکستان پر یہ لیڈ لگ گئی کہ سلمان تاثیر نے ناموس رسالت کے قانون کو سیاہ قانون کہا ہے. ..خبر کا چھپنا تھا کہ جگہ جگہ سلمان تاثیر اور شیری رحمان کے خلاف مظاہرے شروع ہوگئے جمعہ کے خطابات میں ان کے قتل کے فتوے دیے گئے اور پھر پورے ملک نے دیکھا کہ ایک شخص جو کہ گورنر سلمان تاثیر کی حفاظت پر مامور تھا نے ہی گولیاں مار کر گورنر پنجاب کو شہید کر دیا.. سلمان تاثیر 4 جنوری 2011 کو اپنے ایک دوست کی دعوت پر اسلام آباد کی کہسار مارکیٹ کے ایک ہوٹل سے کھانا کھا کر جب باہر نکلے تو ممتاز قادری نامی ان کے ہی ایک الیٹ فورس کے گارڈ نے MP5 مشین گن سے لگاتار 27 فائر کر کے شہید کردیا. .. ممتاز قادری کا تعلق راولپنڈی کے علاقے صادق آباد سے ہے ..وہ پنجاب پولیس کی سپیشل برانچ میں ملازم تھا ..2005 میں جب پرویز مشرف پر حملے ہوئے تو اس کے بعد پولیس کی تمام برانچوں میں کانٹ چھانٹ کا عمل شروع ہوا اور تمام اہل کاروں کے بارے میں سخت چھان بین کی گئی. .سپیشل برانچ میں اس وقت کے ایس ایس پی ناصر درانی نے ممتاز قادری کے متشدد خیالات کے باعث اس کا تبادلہ سپیشل برانچ سے پولیس لائنز میں کر دیا ساتھ ہی ان کی سروس بک میں سرخ پنسل سے یہ نوٹ دیا کہ یہ شخص کسی بھی حساس نوعیت کے کام اور وی آئی پی سیکورٹی کے لئے غیر موزوں ہے لہذا اسے ایسا کوئی کام تفویض نہ کیا جائے..
1- سوال یہ ہے کہ جب اس وقت پورے ملک میں سلمان تاثیر کے خلاف شدید مظاہرے ہو رہے تھے تو اس کے باوجود محرر ڈیوٹی عمر فاروق نے آخر ایسے شخص کی ہی سلمان تاثیر کے ساتھ ہی ڈیوٹی کیوں لگائی؟ ؟؟؟؟؟
نمبر 2 یہ کہ وی آئی پی کی سیکورٹی پر مامور اہلکاروں کے سٹنڈرڈ آپریٹنگ پروسیجرز SOP کے مطابق کوئی بھی اہلکار گاڑی میں سوار نہیں ہو سکتے جب تک کہ وی آئی پی گاڑی میں سوار نہ ہو جائے لیکن سلمان تاثیر جب ہوٹل سے باہر آئے تو عینی گواہ کے مطابق صرف قادری سڑک پر کھڑا تھا باقی اہلکار گاڑی میں بیٹھے تھے وہ گاڑی سے باہر کیوں نہیں تھے اور جب قادری گورنر پر فائرنگ کر رہا تھا تو کسی نے بھی روکنے کی کوشش کیوں نہیں کی ؟ ؟؟؟؟؟؟؟؟
نمبر 3 ...اس سے پہلے سلمان تاثیر جب بھی اسلام آباد آتے تو ان کے ساتھ اسلام آباد میں بھی لاہور کا سکواڈ ہی رہتا لیکن اس روز لاہور کے سکواڈ کو موٹروے سے ہی واپس بلا لیا گیا اور آگے راولپنڈی کے سکوارڈ کی ذمہ داری لگائی گئی آخر اس کے پیچھے کیا منطق تھی. ...
نمبر 4- قادری کے بیان کے مطابق وہ 31 دسمبر کو اپنے محلے کی ایک مسجد کے خطیب محمد حنیف قریشی کے سلمان تاثیر کے خلاف خطاب سے متاثر ہوا اور اس سےعلیحدگی میں ملا اور سلمان تاثیر کے قتل کرنے کا ارادہ بھی ظاہر کیا اور خطیب کی ترغیب پر ہی یہ قتل کیا تو پھر وہ خطیب بھی اعانت جرم کا مرتکب تھا اسے آج تک نہ گرفتار کیا گیا اور نہ ہی شامل تفتیش کیا گیا
نمبر- 5. .اس کے علاوہ یہ بات بھی ہضم نہیں ہوتی کہ 31 دسمبر کو اس نے تقریر سنی پھر بقول قادری صاحب کے اس نے محرر ڈیوٹی کی منت سماجت کر کے گورنر کے سکوارڈ میں ڈیوٹی لگائی اور 4 جنوری کو گورنر صاحب کو شہید کر دیا حالانکہ یہ بات تو بچے بھی جانتے ہیں کہ ایسے وی آئی پی افراد جن کی جان کو خطرہ ہو ان کی نقل و حرکت کو آخری وقت تک خفیہ رکھا جاتا ہے تو پھر قادری کو کیسے چار دن پہلے پتہ چل گیا کہ گورنر سلمان تاثیر اسلام آباد آنے والے ہیں؟؟؟؟؟
ان سوالات کی وجہ سے اٹھنے والا میرا سب سے بڑا خدشہ یہ ہے کہ سلمان تاثیر کی شہادت کے پیچھے اس وقت کی صوبائی حکومت کے کسی بڑے کا ہاتھ ضرور ہے. ....آئیے آگے چلتے ہیں اتنے بڑے قتل کے مقدمہ میں اگرچہ شروع میں ممتاز قادری کے علاوہ اس کے خاندان اور دوستوں سمیت کئی افراد کو گرفتار کیا گیا لیکن چالان صرف اور قادری کو ہی کیا گیا. .ڈیوٹی محرر سے لے کر صادق آباد کے امام مسجد جن کا اس قتل میں قلیدی کردار تھا کو تھانے بلا کر پوچھ گچھ کرنے کی زحمت بھی نہ کی گئی اس کے علاوہ 8 جنوری 2011 کو سبزہ زار لاہور سے کسی اہم ملزم کو گرفتار کیا گیا تھا .اخبارات کے مطابق گرفتار ہونے والے اس شخص کے فون سے ممتاز قادری کو حساس نوعیت کے پیغام گئے تھے اور اس شخص کا سراغ قادری کے موبائل فون کے ڈیٹا سے ملا. .اس شخص کا بھی مقدمہ کے چالان میں کوئی ذکر نہ تھا ،،
پولیس کی تفتیش کی طرح مقدمہ کا ٹرائل بھی عام حالات سے ذرا ہٹ کر تھا. .11 جنوری کو ملک اکرم اعوان کی عدالت میں ہی قادری نے اپنے پہلے بیان میں ہی اعتراف جرم کر لیا تھا 15 فروری کو راجہ اخلاق احمد کی عدالت میں قادری پر فرد جرم لگائی گئی. ..اس مقدمے کی زیادہ تر کاروائی اڈیالہ جیل راولپنڈی میں ہی سنی گئی کیوں کہ جس ڈھٹائی کے ساتھ اور بغیر کسی خوف اور خطر کے سنی تحریک کے لوگ وکلا، ججوں اور مقتول کے اہل خانہ کو ڈرا دھمکا رہے تھے اس سے عدالت میں یہ کیس سننا نا ممکن ہو گیا تھا..
مثال کے طور پر 12 جنوری کو سنی تحریک کے سربراہ شاداب قادری نے ایک پریس کانفرنس کے ذریعے سلمان تاثیر کی بیٹی کو دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ وہ ممتاز قادری سے متعلق بیان بازی سے رک جائے نہیں تو اس کا انجام بھی وہی ہو گا جو اس کے باپ کا ہوا ہے اسی پریس کانفرنس میں شاداب قادری نے اقلیتی رہنما شہباز بھٹی کو بھی دھمکی دی کہ وہ آسیہ کی ہمدردی چھوڑ دے نہیں تو اس کے ساتھ بھی سختی سے نمٹا جائے گا اور ٹھیک 20 دن بعد شہباز بھٹی کو بھی قتل کر دیا جاتا ہے ..
ان بیانات کو ملک کے تمام اخبارات نے شائع کیا لیکن اس کے باوجود شاداب قادری کے خلاف کسی قسم کی کوئی کاروائی نہ ہوئی اس کے علاوہ ہر پیشی پر سیکڑوں لوگ جیل کے باہر بھی پہنچ جاتے تھے اور سلمان تاثیر کے خلاف نعرے بازی کرتے. .محض چار مہینوں میں چار ججوں نے کیس سننے سے انکار کیا تھا کیونکہ ان کے اہل خانہ کو مسلسل ہراساں کیا جا رہا تھا ...
26 اگست کو سلمان تاثیر کے بیٹے شہباز تاثیر کو لاہور کے دل اور سب سے زیادہ مصروف روڈ مین بلیوارڈ گلبرگ سے اغوا کر لیا جاتا ہے. .اس سے چند ماہ پہلے شہباز بھٹی کے قتل اور شہباز تاثیر کے اغوا کے بعد کوئی جج بھی یہ کیس سننے کو تیار نہ تھا. .ٹرائیل کے آخری مراحل میں پرویز علی شاہ جج تھے ان کو بھی مسلسل ہراساں کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ...بالآخر اکتوبر کے شروع میں ہی پرویز علی شاہ نے ایک بند کمرے کی عدالتی کاروائی میں ممتاز قادری کو پھانسی کی سزا سنا دی. ...
اس فیصلے کے بعد جگہ جگہ توڑ پھوڑ اور جلاو گھیراو شروع کر دیا گیا یہاں تک کہ وکلا کے ایک گروپ نے پرویز علی شاہ کی عدالت میں گھس کر توڑ پھوڑ کی. ..پرویز شاہ کا راولپنڈی سے تبادلہ کر دیا گیا اور وہ خود لمبی چھٹی پر بیرون ملک چلے گئے 6 اکتوبر 2011 کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں قادری کی سزائے موت کے خلاف اپیل دائر کر دی گئی جس کی سنوائی تقریبا تین سال کے بعد شروع ہوئی ،،
جسٹس شوکت عزیز اور جسٹس نورالحق پر مشتمل بنچ نے کیس سننا شروع کیا تو یہاں پر بھی قادری کے چاہنے والوں نے احتجاج ریلیوں اور نعروں سے عدالت کو مرعوب کرنا جاری رکھا. ..قادری کی پیروی کے لیے ہر تاریخ پر وکلا کا ایک جم غفیر عدالت میں پیش ہوتا جس میں لاہور ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس خواجہ شریف سمیت دو ریٹائرڈ جج بھی شامل ہوتے تھے. .خواجہ شریف سے اگر لوگ زیادہ واقف نہ ہوں تو بتا دیتا ہوں کہ یہ نواز شریف کے سب سے چہیتے جج رہے ہیں اور خواجہ صاحب کا سر بھی نواز شریف کے احسانات کی وجہ سے سدا ان کے سامنے جھکا رہا
اتنا کچھ کرنے کے باوجود اسلام آباد ہائی کورٹ نے 9 مارچ 2015 کو فیصلہ سناتے ہوئے قادری کی سزا کو برقرار رکھا. ..ایک بار پھر وہی احتجاج اور توڑ پھوڑ شروع ہو گئی ،،
اس کے بعد سپریم کورٹ میں اپیل کی گئی جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے بنچ نے بھی 6 اکتوبر 2015 کے اپنے فیصلہ میں ابتدائی دہشتگردی کی عدالت میں دی گئی سزا کو برقرار رکھا اس کے بعد سپریم کورٹ میں Review کی درخواست دائر کی گئی جب وہ بھی مسترد کر دی گئی تو پھر آخری plea کے طور پر صدر کے پاس رحم کی اپیل بھجوائی گئی جسے چند روز پہلے نامنظور کر دیا گیا تھا لیکن صدر کے فیصلے کو خفیہ رکھا گیا تھا اور پھر اچانک کل قادری کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا ،،
قادری کے پھانسی کے فیصلے سے میں سو فیصد اتفاق کرتا تھا ہوں اور رہوں گا لیکن میرے لیے سب سے حیرانی کی بات یہ ہے کہ جس قادری کو بچانے کے لیے حکومت پنجاب نے سارے جتن کیے. ..اپنی ذیلی جماعت سنی تحریک اور صاحبزادہ فضل کریم کے ذریعے جلوس نکلوائے جسٹس خواجہ شریف اور دیگر چہیتے وکلا کے ذریعے کیس کی پیروی کروائی شہباز تاثیر کے اغوا کو آسان اور ممکن بنایا ،نواز شریف کے داماد اور مریم صفدر کے خاوند کیپٹن صفدر کے ذریعے مساجد میں قادری کی حمایت میں تقاریر کروا کر مخصوص حلقہ کو مستقل یقین دلائے رکھا کہ حکومت قادری کے ساتھ ہے جن میں سے ایک تقریر میرے ٹویٹر اکاؤنٹ پر موجود ہے پھر اچانک ایسی کون سی مجبوری آ گئی کہ پھانسی کی سزا کے منتظر تقریبا 8000 قیدیوں... جی ہاں 8000 افراد میں سے صرف قادری کو ہی اتنی عجلت میں لٹکایا گیا ؟؟؟
کہیں یہ تو نہیں کہ قادری نے ایم کیو ایم کے صولت مرزا کی طرح کچھ راز افشا کرنے کی دھمکی دے دی تھی؟ ؟؟؟
سلمان تاثیر کے والد محمد دین کشمیری تھے اور محمڈن اینگلو اورینٹل میں پروفیسر تھے جبکہ ان کی والد بلقیس انگریز تھیں جنہوں نے شادی سے پہلے اسلام قبول کر لیا 1950 میں سلمان تاثیر کی عمر 6 سال تھی جب ان کے والد کا انتقال ہو گیا اس لیے سلمان تاثیر اور ان کے بہن بھائی کی پروش ان کی ماں نے کی سلمان تاثیر نے انگلینڈ سے اکاونٹیسی میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی اور پاکستان میں مختلف اکاونٹ کمپنیاں قائم کیں جو مختلف شعبوں میں اپنی خدمات پیش کر تی تھیں اس کے علاوہ World call نامی ٹیلیفون بوتھ کا کاروبار بھی انہیں کا تھا اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کا پہلا پرائیویٹ ٹی وی چینل STN بھی سلمان تاثیر کی ہی ملکیت تھا ،،
سیاسی طور پر وہ ذوالفقار علی بھٹو کے جیالے تھے اور پیپلزپارٹی کے قیام سے ہی وہ پارٹی سے وابستہ تھے. .ایوب خان کے خلاف چلنے والی تحریک میں بھی وہ شامل رہے. .مارشل لا کے دوران قید وبند کی صعوبتیں برداشت کیں مسلسل چھ ماہ تک شاہی قلعے میں قید تنہائی کاٹی کل 16 مرتبہ گرفتار ہوئے 1980 میں جب مارشل لا اپنے عروج پر تھا تاثیر صاحب نے ذوالفقار علی بھٹو پر کتاب لکھ ڈالی جب پاکستان کے پرنٹرز نے کتاب چھاپنے سے انکار کیا تو ہندوستان کے پرنٹرز سے چھپوا لی 1988 میں پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر لاہور سے ایم پی اے منتخب ہوئے. ..2008 میں جب زرداری صاحب صدر بنے تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ شہباز شریف کے اوپر کسی جیالے کو گورنر بنایا جائے تو سب سے بہترین انتخاب سلمان تاثیر قرار پائے. .سلمان تاثیر کے دور میں گورنر ہاؤس میں جیالوں کا رش لگا رہتا تھا. .تقریب حلف برداری سے لے کر ان کی شہادت تک گورنر ہاؤس جیئے بھٹو کے نعروں سے گونجتا رہا ،،،،
شہباز شریف سلمان تاثیر کے بیانات سے تو پہلے ہی تنگ تھے لیکن جب گورنر راج لگا تو شہباز شریف اور سلمان تاثیر میں اختلافات شدید نوعیت اختیار کر گئے اور میرے خیال میں اسی وقت سلمان تاثیر کو منظر نامے سے ہٹانے کا فیصلہ کر لیا گیا تھا اگر محض تحفظ ناموس رسالت کے قانون میں ترمیم کے باعث ہی ان کو شہید کیا گیا تو پھر اسی نوعیت کا بیان تو شیری رحمان نے بھی دیا تھا لیکن سلمان تاثیر کے خلاف ہی اتنی سخت تحریک چلائی گئی لاہور کے سیکورٹی سکوارڈ کو ہٹا کر راولپنڈی کے سکوارڈ کو لگانا.. ممتاز قادری جیسے شخص پر پابندی کے باوجود اس کو سکوارڈ میں شامل کرنا سکوارڈ میں شامل دیگر اہلکاروں کی بھی گورنر کو بچانے کی کوشش نہ کرنا..محرر ڈیوٹی کے خلاف کاروائی نہ کرنا ...قادری کو قتل کی ترغیب دینے والے عالم دین کو شامل تفتیش نہ کرنا. .خواجہ شریف اور کیپٹن صفدر کا قادری کے دفاع میں کردار ،،
پھانسی کے منتظر 8000 افراد میں سے محض قادری کو ہی عجلت میں سزا دینا اور سب سے بڑھ کر تاثیر صاحب اور پنجاب حکومت میں پائی جانے والی نفرت ہی میرے وہ دلائل ہیں جن کے بل بوتے پر میں یہ کہتا ہوں کہ قادری محض ایک مہرہ تھا اصل کھلاڑی کوئی اور ہے باقی ممکن ہے کہ آپ دوستوں کی رائے الگ ہو ،،
جیئے بھٹو. ..تحریر محمد ایوب جپہ ایڈوکیٹ

ربط https://m.facebook.com/notes/amjad-...g-sequence-of-facts-events/10153398252410267/
 
اس بیان کو پڑھنے کے بعد بہت سے سوالات ذہن میں آتے ہیں۔ امید ہے جسٹس نذیر اختر ریٹائرڈ ان سوالات کے تشفی بخش جواب دیں گے ۔ اگر یہ بزرگ صاحب یہاں محفل پر تشریف لے آئیں تو بہت سے لوگوں کا بھلا ہوگا۔ اردو محفل نے آج تک ہر فیلڈ کی ترقی میں بہترین کردار ادا کیا ہے۔ اگر جسٹس صاحب یہاں تشریف لاکر ہم معمولی طالب علموں کے سوالات کے جوابات مہیا کرسکیں تو بہت مہربانی ہوگی ورنہ وہ جہاں بھی ہمارے سوالات کے جوابات دیں ہم یہاں نقل کرلیں گے اور اس سے علم حاصل کریں گے۔
درج ذیل اقتباسات "روحانی بابا" کے پیغام سے لئے گئے ہیں لیکن یہ بیان ان کا نہیں بلکہ "جسٹس ریٹائرڈ نذیر اختر" کا ہے، یہاں میں صرف اور صرف ان کے اپنے بیانات پر سوالات اٹھا رہا ہوں۔


اس میں دفعہ 338 ایف ت پ، میں واضح طور پر کہاگیاہے کہ اس باب کے تحت تمام مقدمات میں قانون کے اطلاق اور اس کی تعبیر کے حوالے سے عدالتیں لازمی طور پر اسلامی قانون سے رہنمائی حاصل کریں گی۔ یعنی قرآن وسنت کے احکامات کے مطابق پاکستانی عدالتیں فیصلے کریں گی۔

اسلامی قانون سے ہی رہنمائی حاصل کرنی ہے تو پھر آسیہ بی بی کے مقدمے میں چار گواہ کیوں نہیں لائے گئے؟ کیا صرف دو عورتوں کی گواہی پر آسیہ نورین بی بی کو سزائے موت جائز ہے ؟ تو کس طرح جائز ہے ؟ قرآن حکیم کی کس آیت سے یہ ثابت ہے کہ دو عورتوں کی گواہی کسی بھی جرم میں آسیہ نورین بی بی کو قتل کرنے کے لئے کافی ہے ؟

جبکہ مقدمے کے ریکارڈ میں دہشت گردی کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے۔

آپ جانتے ہیں کہ دہشت گردی یہ ہے کہ اختلاف کی سزا موت کا قانون اپنایا جائے اور اس کو جائز بھی قرار دیا جائے ۔ تاکہ لوگوں کی زبان بند کی جاسکے ۔ ممتاز قادری نے سلمان تاثیر کے بیانات یا خیالات کی بناء پر اس کو قتل کیا ۔ کیا یہ سراسر دہشت گردی نہیں ہے؟؟۔ کہ معاشرے میں لوگوں کو خوف و ہراس میں مبتلا کیا جائے کہ اگر انہوں نے اپنے خیالات ، نظریات کا آزادنہ اظہار کیا تو وہ بناء کسی مقدمے اور بناء کسی وارننگ کے قتل کئے جاسکتے ہیں۔ ؟؟؟؟ یہ جبری زبان بندی اور کسی قانون پر بحث کرنے پر قتل دہشت گردی نہیں تو کیا ہے ؟ اگر کسی قانون پر بحث کرنا جرم ہے تو پھر ہم کو اسمبلی اور سینیٹ کی ضرورت کیا ہے؟؟

اس لیے میں ایک قانون دان کے طور پر سمجھتاہوں کہ قانون ناموس رسالت پر حملہ آور ہونے والے کو قتل کرنے کا قانون حق دیتاہے۔ اس ناطے ممتاز قادری نے اپنی قانونی ذمہ داری انجام دی ہے۔ اگر عدالت ان دونوں دفعات کی روح کے مطابق فیصلہ کرتی تو ممتاز قادری کو مجرم قرار نہ دیتی۔ خطا فی القصد دفعہ نواسی کی روح کے مطابق ہے۔

آپ ایک قانون دان ثابت کررہے ہیں کہ "قانون ناموس رسالت " کے بارے میں کچھ کہنا "قابل قتل " جرم ہے۔ یعنی انسانوں نے یہ قانون بنایا ہے اور انسان اس قانون کو بہتر نہیں بنا سکتے۔ اس قانون میں سب سے بڑی کمی تو یہ ہے کہ یہ لکھا نہیں گیا کہ کسی ملزم کے خلاف کتنے گواہ چاہئے ہیں۔ ؟؟؟ جبکہ قرآن حکیم ہر گناہ و جرم کے لئے گواہوں کی تعداد کا تعین بھی کرتا ہے ؟؟؟ تو پھر اس قانون میں کیوں یہ اہتمام خصوصی طور پر کیا گیا ہے کہ اس قانون میں خاص طور پر گواہوں کی تعداد شامل نہیں ؟؟ کیا اس نکتے پر بات کرنا قابل قتل جرم ہے ؟؟

کیا ایسا سمجھنا قانونی طور پر دہشت گردی کی واضح مثال نہیں ہے کہ کسی کو اس قانون کے بارے میں بات کرنے پر قابل قتل قرار دیا جائے۔ ؟؟؟

جسٹس (ر) میاں نذیر اختر، ایسا سمجھتے ہیں کہ جو بھی اس قانون کو بہتر بنانے کے لئے بحث کرے وہ اس قانون پر حملہ کررہا ہے تو وہ شخص قابل قتل ہے اور اس کو بناء کسی مقدمے اور بناء کسی وارننگ کے قتل کیا جاسکتا ہے۔ کیا ایسا سمجھنا درست ہے ؟
اس طرح کے فیصلے کی پہلے شاید کوئی نظیر نہیں ہو۔

جناب قاتل کو قتل کرنے کے فیصلے کی آپ کو کتنی مثالیں درکار ہیں؟ قاتل کو قتل کرنے کے لئے آپ کو قانون اولی قرآن حکیم سے حوالہ درکار ہے ؟؟؟ مجھے یقین نہیں آتا کہ ایک سابق جسٹس ایسے جرم کی سزا کے لئے مثال مانگے گا؟

انصاف یہ ہے کہ جو فیصلہ کسی دوسرے کے لئے درست ہو وہی فیصلہ آپ کے لئے بھی درست ہو۔
سلمان تاثیر سمجھتا تھا کہ آسیہ بی بی کے خلاف مقدمے کا لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ غلط ہوا - اس لئے آپ ، جسٹس میاں نذیر اختر، سلمان ٹاثیر کے قتل کو درست قرار دیتے ہیں ،
اب معاملہ یہ ہے کہ آج جسٹس میاں نذیر اختر ممتاز قادری کے جرم کے معاملے میں اسلام آباد ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کو غلط قرار دے رہے ہیں ۔ کیا اس صورت میں آپ یعنی جسٹس نذیر اختر کا یہی فیصلہ خود آپ پر لاگو نہیں ہوتا ہے ؟؟؟ کہ اگر کوئی نذیر اختر کو بناء کسی مقدمے یا بناء کسی وارننگ کے قتل کردے تو کیا ایسا قتل جائز ہوگا؟؟؟ کیا مجرم کو معاف کردیا جائے؟؟ کیا بطور جسٹس آپ اس وجہ سے اپنے قتل کو جائز قرار دیں گے؟؟ اور خود اپنے قاتل کو معاف کرنے کی سفارش اور فیصلہ کرکے قلم کی نب توڑ دیں گے؟؟؟؟

دنیا کو کوئی بھی انصاف پسند شخص عدالت سے باہر کسی بھی قتل کو جائز نہیں سمجھتا ۔ میں بھی ماورائے عدالت قتل کو جائز نہیں سمجھتا۔
اگر بطور ایک قانون دان میری رائے آپ جاننا چاہیں تو میں تو یہ کہوں گا کہ پاکستان کے قوانین کے مطابق سلمان تاثیر کو قتل کرنے کا قانونی اور شرعی جواز موجود تھا۔

سلمان تاثیر گورنر پنجاب تھا، بحیثیت گورنر اس کے سب بیانات ریکارڈ کئے گئے۔ آج تک کوئی شخص ایک بھی ریکارڈنگ ایسی پیش نہیں کرسکا جس میں سلمان تاثیر نے کسی قانون کو "کالا قانون" کہا ہو۔ اسلام آباد ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کی تحقیق سامنے ہے اور دونوں عدالتوں نے اس بات کو مانا کہ سلمان تاثیر نے ایسا کبھی نہیں کہا۔ یہ افواہ تھی ۔ آپ کے پاس کوئی ویڈیو ایسا ہے جس میں سلمان تاثیر نے پاکستان کے کسی قانون کو "کالا قانون " کہا ہو؟ اگر ہے تو پیش کریں۔ مجھے تلاش کے باوجود ایسا کوئی ویڈیو نہیں ملا۔ نا اس کے ٹی وی انٹرویوز اور نا ہی شیخوپورہ جیل کی پریس کانفرنس میں ایسا کوئی بیان موجود ہے۔

اگر سلمان تاثیر کو قتل کرنے کا قانونی جواز موجود تھا تو پھر سلمان تاثیر پر مقدمہ کیوں نہیں دائر کیا گیا ؟ کس نے اپنے خیالات اور نظریات کی بنیاد پر یہ "فیصلہ" سنایا کہ سلمان تاثیر قابل قتل مجرم ہے؟ وہ کونسا جسٹس تھا جس کے فیصلے کی تعمیل ممتاز قادری نے کی؟؟ ۔۔۔ اس قتل کے پیچھے کن لوگوں کے خیالات و نظریات تھے اور کس کا فیصلہ تھا؟؟

امید ہے کہ جسٹس نذیر اختر ان سوالات کے جوابات سے ہم معمولی طالب علموں کی تربیت فرمائیں گے۔


 
آخری تدوین:

bilal260

محفلین
کوئی ایسا ریفرنس فراہم کرسکتا ہے جس میں آسیہ بی بی کا اور اس کے خلاف چشم دید گواہوں کا بیان موجود ہو؟

مجھے یہ ڈاکومینٹ ملا ہے۔
https://assets.documentcloud.org/documents/2104047/lhc-verdict.pdf
شاید کہ آپ کو آپ کے سوال کا جواب اس میں سے مل جائے ۔اس میں مولانا صاحب نے تمام واقعہ بیان کیا ہے مختصرا۔
 

bilal260

محفلین
کسی صوبے کے گورنر کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ کسی شخص کو، جسے عدالت نے سزائے موت سنائی ہو، جیل سے رہا کروا سکے۔ یہ فیصلہ صرف عدالت ہی سنا سکتی ہے۔
میں سلمان تاثیر کی ویڈیو دیکھ رہا تھا وہ کہہ رہا تھا میں نے اس کی سزا معاف کر دی۔
پھر ایک رپورٹر نے کہا جی آپ نے یہ الفاظ کہے تو سلمان تاثیر بولا یہ بات میں نے کی ہی نہیں بلکہ میں تو کہہ رہا تھا یہ بات صدر صاحب کے پاس لے کر جائے گے اور وہ ہی حق رکھتے ہیں کہ اس کو معاف کر سکے۔
سلمان کے ان جملوں سے پتہ چلتا ہے کہ نہ تو یہ عدالت پھر یقین رکھتے ہیں اور نہ جج پر۔
 

زیک

مسافر
مسلمان دوسرے ادیان کے پیشواؤں کا احترام کرتے ہیں، ماسوائے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جعلی نبوت کے دعویداروں کے۔ میں ان جعلی نبیوں کا کوئی ذکر کرنا بھی باعث فتنہ فساد سمجھتا ہوں۔
یہی اصول عیسائیوں اور یہودیوں کی نظر سے بھی دیکھیں۔
 

فاتح

لائبریرین
میں سلمان تاثیر کی ویڈیو دیکھ رہا تھا وہ کہہ رہا تھا میں نے اس کی سزا معاف کر دی۔
پھر ایک رپورٹر نے کہا جی آپ نے یہ الفاظ کہے تو سلمان تاثیر بولا یہ بات میں نے کی ہی نہیں بلکہ میں تو کہہ رہا تھا یہ بات صدر صاحب کے پاس لے کر جائے گے اور وہ ہی حق رکھتے ہیں کہ اس کو معاف کر سکے۔
سلمان کے ان جملوں سے پتہ چلتا ہے کہ نہ تو یہ عدالت پھر یقین رکھتے ہیں اور نہ جج پر۔
کیا یہ واقعی اس بات کا جواب تھا کہ۔۔۔
کسی صوبے کے گورنر کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ کسی شخص کو، جسے عدالت نے سزائے موت سنائی ہو، جیل سے رہا کروا سکے۔ یہ فیصلہ صرف عدالت ہی سنا سکتی ہے۔
 
یہی اصول عیسائیوں اور یہودیوں کی نظر سے بھی دیکھیں۔
زیک صاحب !!! میں کوئی ملا شلا نہیں لیکن یہ ضرور جانتا ہوں کہ صرف اپنے مذہب اسلام کا پابند ہوں، اپنی زندگی اور عقائد کو جس قدر ممکن ہو قرآن و حدیث کے مطابق اپنانا میرا دین ہے۔ مجھے اس سے کوئی غرض نہیں کہ عیسائیوں اور یہودی ہم کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔ میں سارے زمانے کا ٹھیکیدار بننے کی بجائے صرف خود کو ہی درست کر لوں تو بہتر ہے۔۔ مختصر یہی کہوں گا سب لوگ دین اسلام اور پیغمبر اسلام کا احترام کریں اور مسلمان دوسرے مذاہب کا احترام کریں تو دنیا امن کا گہوارہ بنے۔ نہ چارلی ایبڈو ہو نہ رد عمل میں قتل عام ہو۔ شدت پسندی دونوں اطراف سے باعثِ غدر ہے۔ شکریہ
 
آخری تدوین:
ممتاز قادری کے مسلہ پر ایک بہترین کالم
یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے
(خالد مسعود خان)
میڈیا متحد اور یکسو ہے اور قوم تقسیم ہے۔ بول والے معاملے کے بعد میڈیا دوسری بار ممتاز قادری کے مسئلے پر اس طرح اکٹھا ہوا ہے جیسے اسمبلی میں تنخواہ اور مراعات میں اضافے کے بل پر حکومتی اور اپوزیشن ارکان اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ دوسری طرف قوم تقسیم ہے اور اس شدت سے کہ حیرانی ہوتی ہے، آیا یہ وہی قوم ہے جس کے لیے اعتدال کی نوید سنائی گئی تھی؟ جھوٹ اور تاویلات ‘دلائل کی جگہ صرف اور صرف فتوے؟ اللہ کی کتاب کہتی ہے کہ ''جو ہلاک ہوا وہ دلیل سے ہلاک ہوا‘ اور جو زندہ رہا وہ بھی دلیل سے۔‘‘ ہم میں کتنے ہیں جو کتاب اللہ کی پیروی کرتے ہیں؟ ادھر حال یہ ہے کہ سب کچھ ہے مگر ایک دلیل ہی درمیان میں نہیں۔
سوشل میڈیا کی بھی پوچھیں۔ جنت اور دوزخ کی پرچیاں تقسیم ہو رہی ہیں۔ کفر و شہادت سے کم پر بات نہیں ہو رہی۔ جنازے کی تکبیروں کی تعداد پر بحث ہو رہی ہے۔ جنازے کے شرکاء کی تعداد کو معیار حق بنانے والوں سے پوچھیں کہ جناب عثمان غنیؓ کے جنازے کے شرکاء کی تعداد کیا تھی تو نوے پچانوے فیصد کو تو یہ بھی پتہ نہیں ہو گا کہ یہ تعداد ہزاروں یا سینکڑوں چھوڑ، درجنوں میں بھی نہیں تھی۔ محض ایک درجن کے لگ بھگ۔ اندھیرے میں جنازہ اٹھایا گیا اور جنت البقیع کے راستے میں جنازے کے پیچھے پیچھے حضرت بی بی نائلہؓ لالٹین اٹھائے ہوئے اس طرح چل رہی تھیں کہ لالٹین کی روشنی دور سے نظر آتی تھی اس لیے بجھا دی گئی۔ ہمراہ ام المومنین حضرت بی بی عائشہؓ،غلام مروان‘ زید ابن ثابت‘ ابن جبیر حکیم بن حزام اور ابن مکرم کے علاوہ چھ سات دیگر صحابہؓ۔ فلک نے اس کسمپرسی کا سا جنازہ کب دیکھا ہو گا؟ دفن کے وقت ایک اور تنازع۔ شرپسندوں کا اصرار کہ تدفین جنت البقیع میں نہیں ہو سکتی؛ چنانچہ جنت البقیع کے باہر یہودیوں کے قبرستان میں دفن کیا گیا۔ عشروں بعد یہ قبرستان اموی حکمرانوں نے درمیانی دیوار ہٹا کر جنت البقیع میں شامل کیا۔ کون بدبخت ہو گا جو سیدنا حسین کی شہادت پر سوال اٹھائے؟ جنت میں نوجوانوں کے سردار‘ نواسہ رسولؐ کی نمازہ جنازہ اسد قبیلے والوں نے پڑھائی اور دیگر شہدائے کربلا کے ہمراہ دفن کر دیا۔ سیدالشہدا حضرت حسینؓ کی قبر کی نشانی کے لیے سرہانے ایک پودا لگا دیا گیا اور بس۔ جنت میں ایسا مرتبہ کس کا ہو گا؟ اور ایسا شہید کون ہو گا؟
ممتاز قادری کا عمل اور سنت‘ کم از کم اس عاجز کے نزدیک تو قابل فخر ہے کہ اگر میں یہ بھی نہ کروں تو خود کو ایمان کے نچلے ترین درجے سے بھی خارج سمجھوں گا۔ ہاں طریقہ کار پر اختلاف ہو سکتا ہے کہ فرد کو عدالت اپنے ہاتھ میں نہیں لینی چاہیے تھی۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ ممتاز قادری کا موازنہ غازی علم دین شہید سے کرنا بھی درست نہیں لیکن دوسری طرف یہ عالم ہے کہ مجھے ایک پوسٹ ملی ہے جس میں راقم نے سلمان تاثیر کو ان لوگوں میں شامل کر دیا جن کی موت دراصل ان کے ہمیشہ زندہ رہنے کا سبب بن گئی‘ اور ان کے قاتلوں کو تاریخ نے حرف غلط کی طرح مٹا دیا۔ اس نے اپنے مضمون میں سلمان تاثیر کی ''شہادت‘‘ کا موازنہ سب سے پہلے 400 سال قبل مسیح میں زہر کا پیالہ پینے والے سقراط سے کیا‘ پھر 1600 عیسوی میں جلا کر مار دیے جانے والے Giordano Bruno سے کیا‘ پھر 1886ء میں قتل ہونے والے امریکی صدر ابراہام لنکن سے کرتے ہوئے مان ولکنربوتھ نامی قاتل کے گمنامی میں مرنے کا ذکر کیا‘ اور آخر میں گاندھی کے قاتل گوڈسے کا تذکرہ کرتے ہوئے نتیجہ یہ نکالا کہ تاریخ نے قاتلوں کو نہیں بلکہ ان عظیم شخصیات کو یاد رکھا۔ اسی طرح پاکستان کی لبرل اور اعتدال پسندی پر مبنی تاریخ سلمان تاثیر کو یاد رکھے گی۔
ایمانداری کی بات ہے کہ سلمان تاثیر کے قتل کی ذمہ داری جہاں خود سلمان تاثیر پر عائد ہوتی ہے، وہیں ان نام نہاد لبرلز اور اعتدال پسندوں پر بھی عائد ہوتی ہے جو آزادی اور لبرلزم کا مطلب یہ سمجھتے ہیں کہ اکثریت کے تہذیبی اور مذہبی جذبات کا مذاق اڑانا‘ ان کو کچوکے لگانا‘ نازک معاملات پر باقاعدہ اشتعال انگیز جملے کسنا اور پھر لوگوں کو تحمل کی تلقین کرنا اور عدم برداشت بارے گوہر افشائی کرنا۔
کسی کو ماں یا بہن کی گالی دینے کے بعد اس سے تحمل والے ردعمل کی امید رکھنے والے انسانی جذبات کی الف بے سے ناواقف ہیں۔ منطق کی رو سے گالی کے جواب میں گالی کی امید رکھنے والے احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ ایسے میں ردعمل ہر شخص اپنی طبیعت اور طاقت کے مطابق دے گا۔ عام آدمی اپنی محرمات کے بارے میں ریمارکس برداشت نہیں کرتا کجا کہ آپ (ہماری ماں باپ کی جانیں ان پر قربان ہوں) ہمارے آقائے دو جہاںﷺکے بارے میں گستاخی پر مبنی بیان دیں اور پھر اس پر شرمندگی کے بجائے ڈھٹائی دکھائیں اور ردعمل کی صورت میں لوگوں کو جاہل‘ دیوانے‘ پاگل اور مذہبی سر پھرے کہیں؟ دیوانگی یہ ہے کہ ملک کی اکثریتی مذہبی آبادی کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی جائے‘ ان کے عقائد کا مذاق اڑایا جائے‘ ان کی محترم شخصیات کے بارے میں گستاخی کی جائے اور انہیں اشتعال دلایا جائے۔
میں شروع دن سے شہادتوں کی نوید کی تقسیم کے خلاف ہوں کہ شہادت اللہ اور اس کے بندے کا معاملہ ہے۔ یہی کام طالبان کر رہے ہیں‘ یہی کام داعش والے کر رہے ہیں۔ یہی دعویٰ خود کش حملہ آور کر رہے ہیں اور یہی دعویٰ انتخابی سیاست میں مرنے والے کر رہے ہیں۔ خود کش بمبار بھی ''شہید‘‘ ہے اور اس حملے میں جاں بحق ہونے والے بھی۔ ہمارے ہاں شہادت ایسا اعلیٰ و ارفع اعزاز ہے جو ارزاں نرخوں پر دستیاب ہے!! وگرنہ یہاں ماش کی دال بھی دو سو روپے کلو سے زیادہ مہنگی ہے۔ عجب ملک ہے کہ ایک طرف مذہبی رہنما شہادت کی اسناد تقسیم کر رہے ہیں تو دوسری طرف شہادت کے مفہوم کے منکر اور شہید کے درجے کا مذاق اڑانے والے روشن خیال اور لبرل فاشسٹ بھی وقت پڑنے پر شہادت کا تمغہ تقسیم کرنے پر آ جاتے ہیں۔
غلام رسول نے بیٹی کے اغوا پر تھانے جا کر پرچہ درج کروانے کی کوشش کی مگر اغوا کنندہ کا نام سن کر تھانیدار نے پہلے تو پرچہ درج کرنے سے انکار کر دیا لیکن زیادہ شور مچانے پر یہ کیا کہ فون کر کے ملزم کو بتایا کہ غلام رسول باقاعدہ گستاخی پر اتر آیا ہے اور تھانے میں پرچے کے لیے شور مچا رہا ہے۔ پھر تھانیدار نے بااثر ملزم کے کہنے پر غلام رسول کو پولیس کی زبان میں ڈنڈے سے سمجھایا۔ اسی دوران ملزم کے کارندے تھانے آ گئے‘ انہوں نے غلام رسول کو اٹھایا اور ڈیرے پر لے گئے۔ وہاں غلام رسول کی بیوی اور دو بیٹیاں بیٹھی ہوئی تھیں۔ غلام رسول کے دونوں بیٹے ان کے ہاتھ نہیں لگے تھے۔ ڈیرے پر غلام رسول کے سامنے اس کی بیوی اور بیٹیوں کی بے حرمتی کی گئی۔ غلام رسول اگلے روز مع اہل و عیال گائوں سے کہیں چلا گیا۔ تیسرے دن اس کے بیٹوں نے ملزم کو کاربین کا فائر مار کر قتل کر دیا اور خود تھانے پیش ہو گئے۔
میرے پاس ایسی ایک دو نہیں ستر سٹوریاں ہیں۔ ایسی کہانیوں کے ہوتے ہوئے لوگ پوچھتے ہیں کہ آخر لوگوں کو قانون ہاتھ میں لینے کی کیا ضرورت ہے؟ لوگ خود ہی مدعی‘ گواہ اور جج کیوں بن جاتے ہیں؟ لوگ اپنی عدالت کس لیے لگاتے ہیں؟ لوگ اپنی عدالتیں تب لگاتے ہیں جب ان کو ریاستی عدالتوں پر اعتماد نہیں رہتا‘ جب ریاستی عدالتیں بے مصرف ہو جاتی ہیں‘ اُن سے انصاف کی امید ختم ہو جاتی ہے اور جب ریاستی عدالتوں میں عدل و انصاف کی فراہمی کے بجائے عدلت و انصاف کا قتل عام ہوتا ہے۔
اگر ریاست اپنے گورنر کو لگام ڈالتی‘ اگر وفاق اپنے نمائندے کو شٹ اپ کال دیتا۔ اگر عدالتیں صوبے کے آئینی سربراہ کو ملکی قانون کو کالا قانون کہنے پر عدالت میں طلب کرتیں۔ قانون ساز اسمبلی اسے یاد دلاتی کہ اس نے بحیثیت گورنر آئین پاکستان کے تھرڈ شیڈول بمطابق آرٹیکل 102خدا کو حاضر ناظر جان کر یہ حلف اٹھایا ہے کہ وہ ملک کے آئین اور قانون کا پابند رہے گا اور اسلامی اقدار اور نظریے کی پابندی کرے گا جو قیام پاکستان کی بنیاد ہے۔ اگر یہ سب ہوتا تو سلمان تاثیر بھی زندہ ہوتا اور ممتاز قادری بھی وردی میں ڈیوٹی دے رہا ہوتا۔ میرا ایک دوست کہتا ہے کہ ممتاز قادری نے اپنے حلف کی پاسداری نہیںکی۔ عجب دانشور ہیں۔ کانسٹیبل ممتاز قادری سے ایسے خود ساختہ حلف کی پاسداری کے طالب ہیں جو اس نے اٹھایا ہی نہیں کہ کانسٹیبل کا کوئی حلف کم از کم میرے علم میں تو ہرگز نہیں۔ اور گورنر کے حلف کی صریح خلاف ورزی پر بغلیں جھانکتے ہیں۔ رہ گئی یہ بات کہ محافظ کو اپنی ڈیوٹی سرانجام دینی چاہیے تھی کہ وہ حفاظت کرتا نہ کہ قتل۔ بہاولپور میں ڈی آئی جی کو گالیاں نکالنے پر حفاظت پر مامور محافظ نے اسے قتل کر دیا تو بہت سے لبرل فرماتے تھے کہ ڈی آئی جی صاحب کو انسانیت کی توہین نہیں کرنی چاہیے۔ اب محسن انسانیتؐ کی توہین پر لبرل فاشسٹوں کا سارا موقف ہی بدل گیا ہے۔ میں ذاتی طور پر قانون کو ہاتھ میں لینے کا شدید ترین مخالف ہوں مگر عملی طور پر آپ افراد کو عدالت لگانے سے تب تک روک ہی نہیں سکتے جب تک ریاستی عدالتیں اپنا فریضہ سرانجام نہیں دیتیں۔ آپ فوری انصاف کے نظریے کو تب تک ختم نہیں کر سکتے جب تک لوگوں کا ریاستی انصاف پر اعتماد بحال نہیں ہوتا۔ پہلے ریاست اپنی ذمہ داریاں پوری کرے پھر عوام کو ان کی ذمہ داریاں یاد دلائے بصورت دیگر عاشقان رسولؐ اپنی عدالتیں لگاتے رہیں گے۔ کوئی مائی کا لال ان عدالتوں کو لگنے سے نہیں روک سکتا۔ حضور یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے ‘جیسا بھی ہے اور یہاں مسلمان بستے ہیں جیسے بھی ہیں۔

 
زیک صاحب !!! میں کوئی ملا شلا نہیں لیکن یہ ضرور جانتا ہوں کہ صرف اپنے مذہب اسلام کا پابند ہوں، اپنی زندگی اور عقائد کو جس قدر ممکن ہو قرآن و حدیث کے مطابق اپنانا میرا دین ہے۔ مجھے اس سے کوئی غرض نہیں کہ عیسائیوں اور یہودی ہم کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔ میں سارے زمانے کا ٹھیکیدار بننے کی بجائے صرف خود کو ہی درست کر لوں تو بہتر ہے۔۔ مختصر یہی کہوں گا سب لوگ دین اسلام اور پیغمبر اسلام کا احترام کریں اور مسلمان دوسرے مذاہب کا احترام کریں تو دنیا امن کا گہوارہ بنے۔ نہ چارلی ایبڈو ہو نہ رد عمل میں قتل عام ہو۔ شدت پسندی دونوں اطراف سے باعثِ غدر ہے۔ شکریہ
مسلمان کبھی بھی دوسرے مذاہب کا احترام نہیں کرتے اور انھیں گمراہ ، واجب القتل اور تمام دنیا پر اسلامی نظام نافظ کرنا مسلمانوں کا مذہبی فریضہ ہے۔
 
مدیر کی آخری تدوین:
کیا وجہ ہے کہ گستاخ رسول کے لئے چار گواہوں کی ضرورت نہیں ؟ کیا اس قانون کو مزید بہتر نہیں بنایا جاسکتا کہ کم از کم چار گواہ لائے جائیں؟

ہر اس صورت حال میں جس میں اللہ تعالی حد لگاتے ہیں ، تو گواہوں کی تعداد کا تعین بھی کرتے ہیں۔ قتل میں قتل شدہ جسم ہوتا ہے، زنا میں دو افراد اور حمل ہوتا ہے ۔ پراپرٹی یا وراثت کے معاملے میں مال ہوتا ہے ۔ کہ ہر صورت حال میں کوئی نا کوئی نا کوئی شے ہوتی ہے۔

گستاخی رسول کے واقعے میں صرف دو افراد کے بیانات ہوتے ہیں۔ اگر زنا کے ثبوت کے لئے چار گواہوں کی ضرورت ہے تو کیا وجہ ہے کہ گستاخی رسول کے لئے چار گواہوں کی ضرورت نا ہو؟ چار گواہوں کی صورت میں کوئی گستاخ یہ نہیں کہہ سکے گا کہ ایسا نہیں ہوا۔

اس قانوں کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔
 
آخری تدوین:
Top