ایچ اے خان
معطل
امریکہ تو جان ایف کینڈی کو بھی شہید کہتا ہے
یہ کونسی منطق ہے بھئی؟اسلام آباد میں حقانی کے بیٹے کا مارا جانا اور پھر اس کی لاش کو فوری طور پر وزیرستان منتقل کر دینا یہی ظاہر کر رہا ہے کہ اب آرمی خود سامنے آئے بناء قبائلیوں کو ان طالبان کے خلاف اٹھانا چاہ رہی ہے
منطق کو سمجھنے کے لئے اس سے اگلا مراسلہ بھی پڑھ لیںیہ کونسی منطق ہے بھئی؟
لاش کو اسلئے وزیرستان منتقل کردیا کہ جمگھٹا یہاں جمع نہ ہو،اور پاکستان کو پھر اسامہ کی طرح وضاحتیں نہ دینی پڑھیں۔ ویسے حقانی کو پاکستان نے نہیں بلکہ افغان خفیہ اداروں نے ماراہے،میری چڑیا یہی کہتی ہے۔
اور اس طرح کے واقعات کوئیٹہ میں بھی کئی بار ہوچکے ہیں کہ جس میں افغان خفیہ ادارے ملوث ہوں ۔
فواد صاحب،فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
لفظ شہيد کے حوالے سے جاری مذہبی بحث سے قطع نظر کچھ رائے دہندگان کی آراء خاصی افسوس ناک اور حيران کن ہيں جو درحقيقت پاکستانی فوجيوں کی بے مثال قربانيوں کو کمتر ثابت کرنے کی سعی کرتے ہوئے ان بہادروں کی نيت کے حوالے سے سوالات اٹھا رہے ہيں۔
بھانت بھانت کے دلائل اور جذبات کو "استعمال" کرنے کی کوئ بھی کوشش اس حقيقت کو پنہاں نہيں کر سکتی کہ دانستہ بے گناہ شہريوں کو نشانہ بنانا اور انھيں ہلاک کرنا کسی بھی زاويے سے کوئ مقدس يا قابل فخر عمل قرار نہيں ديا جا سکتا ہے، اور يہی ٹی ٹی پی اور اس کے قائدين کی سوچ ہے۔ انھوں نے بارہا اپنے الفاظ اور اعمال سے اسے ثابت بھی کيا ہے۔ جو کسی بھی اخلاقی اقدار سے عاری اپنی محدود سياسی سوچ کی ترويج کے ليے کھوکھلے دلائل کا سہارا لے رہے ہيں، وہ دراصل عوام کی عدالت ميں خود اپنی اصليت سب کے سامنے لا رہے ہيں۔ ان کی متضاد اور غير متوازی سوچ تاريخ کے کوڑے دان ميں غرق ہو جائے گی اور ان غير انسانی کاروائيوں کی حمايت کرنے والے اپنی عوامی حيثيت کھو بيٹھيں گے۔
پاکستان کی سرحدوں کے اندر افواج پاکستان کی کاروائيوں کا مقصد "امريکی آقاؤں" کو خوش کرنا ہرگز نہيں ہے۔ دنيا کی کوئ بھی فوج اپنے وسائل اور اپنے فوجيوں کی جان کی قربانی صرف اپنے عوام کے بہترين مفاد میں ہی صرف کرتی ہے۔ يہی اصول کسی بھی ملک کی منتخب حکومت پر بھی لاگو ہوتا ہے۔
ميں آپ کو يہ بھی ياد دلا دوں کہ پاکستان کی تمام فوجی اور سول قيادت اور عمومی طور پر سول سوسائٹی بھی اس بات پر متفق ہے کہ دہشت گردی کا خاتمہ پاکستان کے بہترين مفاد ميں ہے۔
پاکستان کی عسکری قيادت کی کاروائ پر تنقيد پاکستان کی افواج کی بے مثال قربانيوں اور ان ہزاروں بے گناہ شہريوں کی اموات کو نظرانداز کرنے کے مترادف ہے جو گزشتہ چند سالوں کے دوران دہشت گردی کا نشانہ بن چکے ہیں۔
اس بارے ميں کوئ ابہام نہيں رہنا چاہيے کہ دہشت گردی کے عفريت کے خلاف عالمی کوششوں کا مرکز ومحور صرف امريکی شہريوں کی حفاظت تک محدود نہيں ہے۔ ٹی ٹی پی اور ديگر دہشت گرد تنظيموں کی ناگزير شکست اور ٹوٹ پھوٹ سے جن ہزاروں شہریوں کی جانوں کو محفوظ کرنا ممکن ہو سکا ہے، ان ميں پاکستانی شہری بھی شامل ہيں۔ يقینی طور پر پاکستان فوج کے بہادر جوان، جنھوں نے اس عظيم مقصد کے حصول کے ليے اپنی جانوں کی قربانی دی ہے ان کو خراج تحسين پيش کيا جانا چاہيے۔
کيا آپ واقعی يہ سمجھتے ہیں کہ ان لوگوں کے خلاف کوئ کاروائ نہيں کرنی چاہیے جو بلاتفريق پورے ملک ميں پاکستانيوں کو قتل کر رہے ہیں؟ کيا حکومت پاکستان کو ان مسلح گروپوں کو نظرانداز کر دينا چاہيے جو پاکستان کے قوانين اور اداروں کے وجود سے انکار کرتے ہیں؟
ميں يہ واضح کر دوں کہ پاکستانی فوجی اپنی جانوں کی قربانی اپنے ملک کے تحفظ اور اپنی عوام کی سلامتی کو يقينی بنانے کے لیے دے رہے ہيں، نہ کہ واشنگٹن ميں بيٹھے ہوئے امريکی افسران کی خوشنودی کے ليے۔
امريکی حکومت پاکستان ميں سياسی اور فوجی قيادت کے ساتھ مل کر اس عفريت کے خاتمے کے ليے جاری کوششوں ميں معاونت فراہم کر رہی ہے جس کی دہشت گردی کی بدولت بے شمار پاکستانی شہری اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بيٹھے ہيں۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu