ابو ہاشم صاحب آ پ نے ایک دلچسپ مسئلے پر قلم اٹھایا ہے ۔ لیکن آپ کی یہ بات درست نہیں کہ ’’منھ‘‘ کا ایک نیا املا سامنے آرہا ہے ۔ منہ ہندی کا لفظ ہے اور اردو میں شروع ہی سے اس کے تین املا ملتے ہیں ۔ منہ ، منھ اور مونھ ۔ چونکہ اردو کا رسم الخط بنیادی طور پر عربی ہے اس لئے ابتدائی دور کی اردو میں ہندی الفاظ کی ٹرانسلٹریشن کی گئی اور ہندی اصوات کے لئے ٹ، ڈ ، ڑ اور مرکب حروف (بھ، پھ، تھ وغیرہ) ایجاد کئے گئے ۔ چنانچہ یہ بات سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ اردو میں ایک ہی لفظ کے لئے ایک سے زیادہ املا کیوں ہیں ۔ منہ کے یہ تینوں املا پرانی کتب اور مستند و مقبول لغات میں موجود ہین ۔
ہندی پہلے وجود میں آئی یا اردو؟
 

ابو ہاشم

محفلین
ہندی پہلے وجود میں آئی یا اردو؟
اس پر اختلاف ہے دونوں زبانوں والوں کا یہی دعویٰ ہے کہ پہلے ہمارے والی زبان وجود میں آئی پھر دوسرے لوگوں نے اس میں گڑبڑ کر کے اپنی زبان بنا لی۔
ان کا مقصد یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستانی الفاظ کی ٹرانسلٹریشن کی گئی۔
لیکن یہ بات محلِ نظر ہے ہماری معلومات کے مطابق مسلمانوں کے اہلِ علم نے ہندوستانی الفاظ کو اپنی سمجھ کے مطابق لکھنا شروع کیا اور ان میں سے اکثر صرف الف بے کے ساتھ ہی لکھنا جانتے تھے۔
پھر یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ ہندی میں بھی املا کے اسی طرح کے مسائل تھے۔ آزادی کے بعد انھوں نے بھی اپنے رسم الخط اور املا کی معیار بندی کی۔ لفظ 'ہندی' کے آج بھی دو املا ہیں۔
 

ابو ہاشم

محفلین
املا 'منھ' ہمارے لیے نیا ہے ہم نے نصابی کتابوں اور دیگر معیاری کتب میں 'منہ' ہی دیکھا ہے ہاں بہت کم 'مونہہ' بھی دیکھا اور بہت ہی کم 'منہہ' جنھیں ہم کاتبوں، پینٹروں کی کم علمی سمجھتے رہے ہیں
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ہندی پہلے وجود میں آئی یا اردو؟

اس پر اختلاف ہے دونوں زبانوں والوں کا یہی دعویٰ ہے کہ پہلے ہمارے والی زبان وجود میں آئی پھر دوسرے لوگوں نے اس میں گڑبڑ کر کے اپنی زبان بنا لی۔
ان کا مقصد یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستانی الفاظ کی ٹرانسلٹریشن کی گئی۔
لیکن یہ بات محلِ نظر ہے ہماری معلومات کے مطابق مسلمانوں کے اہلِ علم نے ہندوستانی الفاظ کو اپنی سمجھ کے مطابق لکھنا شروع کیا اور ان میں سے اکثر صرف الف بے کے ساتھ ہی لکھنا جانتے تھے۔
پھر یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ ہندی میں بھی املا کے اسی طرح کے مسائل تھے۔ آزادی کے بعد انھوں نے بھی اپنے رسم الخط اور املا کی معیار بندی کی۔ لفظ 'ہندی' کے آج بھی دو املا ہیں۔
ناصر محمود صاحب، معاملہ مذکورہ پر اس بات سے کوئی اثر نہیں پڑتا کہ کون سی زبان زیادہ قدیم ہے ۔ مسئلہ یہ ہے کہ جب ہندی الفاظ کو عربی؍فارسی حروفِ تہجی میں لکھا جائے گا تو ایک سے زیادہ املا کا پیدا ہوجانا عین ممکن ہے ۔ اپنی سمجھ (یعنی سماعت) کے مطابق ہندی اصوات کو عربی؍فارسی رسم الخط میں ڈھالنے ہی کو ٹرانسلٹریشن کہا جاتا ہے ۔ چونکہ اردو زبان برصغیر میں ایک سے زیادہ مراکز پر پروان چڑھی اس لئے ایک ہی ہندی لفظ (اور بعض اوقات عربی اور فارسی لفظ) کا ایک سے زیادہ املا پیدا ہوجانا قرینِ قیاس ہے ۔ لیکن سن ۲۰۱۸ میں املا کے ان مسائل کو حل ہوجانا چاہئے اور ایک اسٹینڈرڈ یا معیاری املا کو ترویج دینی چاہئے ۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
دراصل بنیادی بات یہ ہے کہ ہندی یا سنسکرت الفاظ کے ساتھ دو چشمی ھ لگتی ہے جبکہ عربی اور فارسی ہ کے ساتھ دو چشمی ھ لگانا درست نہیں اسی طرح ہندی الفاظ کے ساتھ عربی فارسی کی ہ لگانا درست نہیں۔ پرانی کتب میں املا کی ان باتوں کا خیال نہیں رکھا جاتا تھا لٰہذا "چھری" بھی آپ کو "چہری" لکھی ملے گی اور بھی بہت سے الفاظ جس میں اب دو چشمی ھ استعمال ہوتی ہے وہ آپ عربی فارسی والی ہ کے ساتھ ہی ملیں گے۔ میرا خیال ہے کہ باقی الفاظ پر تو توجہ دی گئی مثلاً "جنھیں" "سبھی" وغیرہ کیونکہ ان الفاظ میں اگر عربی فارسی "ہ" استعمال کی جائے تو ان کا تلفظ اور ادائیگی بدل جاتی ہے جبکہ شاید "منھ" میں ادائیگی یا تلفظ اس حد تک نہیں بدلتا۔ بہرحال میرے خیال میں "منھ" دو چشمی ھ کے ساتھ ہی درست ہے۔
 

منیب الف

محفلین
بات یہ ہے کہ پہلے فیصلہ کیا جائے منہ کس کا ہے؟ کیسا ہے؟ لمبوترا ہے تو مونہہ جچے گا۔ گول مٹول ہے تو منھ کام دے گا۔ درمیانہ سا ہے تو منہ ہی رہنے دیں، کیا فرق پڑتا ہے؟ لیکن یہ میرے منہ پر آئی بات ہے۔ سن کر منھ نہ بنائیے گا۔ کہتے ہیں نا جتنے مونہہ اتنی باتیں۔ پھر بھی مجھے اپنی کم علمی کا احساس ہے۔ منہ اٹھائے تبصرہ کرنے چلا آیا۔ اصل میں لسانی اور شعری مسائل پر منہ کھولنا میرے منہ کو لگا ہے۔ آخر میرے بھی منہ میں زبان ہے۔ ایسی بحثیں دیکھتا ہوں تو منہ میں پانی بھر آتا ہے۔
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
دراصل بنیادی بات یہ ہے کہ ہندی یا سنسکرت الفاظ کے ساتھ دو چشمی ھ لگتی ہے جبکہ عربی اور فارسی ہ کے ساتھ دو چشمی ھ لگانا درست نہیں اسی طرح ہندی الفاظ کے ساتھ عربی فارسی کی ہ لگانا درست نہیں۔ پرانی کتب میں املا کی ان باتوں کا خیال نہیں رکھا جاتا تھا لٰہذا "چھری" بھی آپ کو "چہری" لکھی ملے گی اور بھی بہت سے الفاظ جس میں اب دو چشمی ھ استعمال ہوتی ہے وہ آپ عربی فارسی والی ہ کے ساتھ ہی ملیں گے۔ میرا خیال ہے کہ باقی الفاظ پر تو توجہ دی گئی مثلاً "جنھیں" "سبھی" وغیرہ کیونکہ ان الفاظ میں اگر عربی فارسی "ہ" استعمال کی جائے تو ان کا تلفظ اور ادائیگی بدل جاتی ہے جبکہ شاید "منھ" میں ادائیگی یا تلفظ اس حد تک نہیں بدلتا۔ بہرحال میرے خیال میں "منھ" دو چشمی ھ کے ساتھ ہی درست ہے۔
فرخ بھائی اصولی طور پر آپ کی بات درست ہے ۔ لیکن املا کے معاملے میں چلن یا رواج کو بالکل ہی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ املا کمیٹی نے اپنی سفارشات میں ان الفاظ کے غلط املا کو برقرار رکھا ہے کہ جو نسلوں سے یونہی لکھے جارہے ہیں ۔ اب ان کا تبدیل کرنا تقریبا امر محال ہے ۔ یعنی اس معاملے میں غلط العوام اصحح من الصحیح والی مثال فٹ آتی ہے ۔ املاکمیٹی کی سفارش بھی میرا خیال ہے کہ منھ کے بجائے منہ کے حق میں ہے ۔ میرا اپنا ذاتی خیال یہ ہے کہ اردو کی ترقی کے خیال سے ہمیں بھی جہاں تک ممکن ہو ان اختلافات کو مٹا کر ایک معیاری املا پر متفق ہوجانا چاہئے ۔
 
Top