منیر نیازی منیر نیازی

عرفان سرور

محفلین
شب وصال میں دُوری کا خواب کیوں آیا
کمال فتح میں یہ ڈر کا باب کیوں آیا
دلوں میں اب کے برس اتنے وہم کیوں جاگے
بلاد صبر میں اب اضطراب کیوں آیا
ہے آب گل پہ عجیب اس بہار گزراں میں
چمن میں اب کے گل بے حساب کیوں آیا
اگر وہی تھا تو رخ پہ وہ بے رخی کیا تھی
ذرا سے ہجر میں یہ انقلاب کیوں آیا
بس ایک ہو کا تماشا تمام سمتوں پر
میری صدا کے سفر میں سراب کیوں آیا
میں خوش نہیں ہوں بہت دور اس سے ہونے پر
جو میں نہیں تھا تو اس پر شباب کیوں آیا
اڑا ہے شعلہ برق ابر کی فصیلوں پر
یہ اس بلا کے مقابل سحاب کیوں آیا
یقین کس لیے اس پر سے اٹھ گیا ہے منیر
تمہارے سرپہ یہ شک کا عذاب کیوں آیا​
 

عرفان سرور

محفلین
دل خوف میں ہے عالم فانی کو دیکھ کر
آتی ہے یاد موت کی پانیکو دیکھ کر
ہے باب شہر مردہ گزر گاہ باد شام
میں چپ ہوں اس جگہ کی گرانی کو دیکھ کر
ہل سی رہی ہے حد سفر فرط شوق سے
دھندلا رہے ہیں حرف معانی کو دیکھ کر
آزردہ ہے مکان میں، میں خاک زمیں بھی
چیزوں میں شوق نقل مکانی کو دیکھ کر
ہے آنکھ سرخ اس لب لعلیں کے عکس سے
دل خوں ہے اس کی شعلہ بیانی کو دیکھ کر
پردہ اٹھا تو جیسے یقیں بھی اٹھا منیر
گھبرا اٹھا ہوں سامنے ثانی کو دیکھ کر​
 

عرفان سرور

محفلین
اس شہر کو جلا دینا چاہیے
پھر اس کی خاک کو بھی اڑا دینا چاہیے
ملتی نہیں پناہ ہمیں جس زمیں پر
اک حشر اس زمیں پہ اٹھا دینا چاہیے
حد سے گزر گئی ہے یہاں رسم قاہری
اس دہر کو اب اس کی سزا دینا چاہیے
اک تیز رعد جیسی صدا ہر مکان میں
لوگوں کو ان کے گھر میں ڈرا دینا چاہیے
گم ہو چلے ہو تم تو بہت خود میں اے منیر
دنیا کو کچھ تو اپنا پتہ دینا چاہیے​
 

عرفان سرور

محفلین
صحن کو چمکا گئی بیلوں کو گیلا کر گئی
رات بارش کی فلک کو نیلا کر گئی
دھوپ ہے اور زرد پھولوں کے شجر ہر راہ پر
اک ضیائے زہر سب سڑکوں کو پیلا کر گئی
کچھ تو اس کے اپنے دل کا درد بھی شامل ہی تھا
کچھ نشے کی لہر بھی اس کو سریلا کر گئی
بیٹھ کر میں لکھ گیا ہوں درد دل کا ماجرا
خون کی اک بوند کاغذ کو رنگیلا کر گئی​
 

عرفان سرور

محفلین
اک تیز تھا کہ لگا اور نکل گیا
ماری جو چیخ ریل نے جنگل دہل گیا
سویا ہوا تھا شہر کسی سانپ کی طرح
میں دیکھتا ہی رہ گیا اور چاند ڈھل گیا
خواہش کی گرمیاں تھیں عجب ان کے جسم میں
خوباں کی صحبتوں میں میرا خون جل گیا
تھی شام زہر رنگ میں ڈوبی ہوئی کھڑی
پھر اک ذرا سی دیر میں منظر بدل گیا
مدت کے بعد آج اسے دیکھ کر منیر
اک بار دل تو دھڑکا مگر پھر سنبھل گیا​
 

عرفان سرور

محفلین
یہ بے صدا سنگ دور اکیلے
اجاڑ سنسان گھر اکیلے
چلے جو جی کی مستیوں میں
گئے کہنا بے خبر اکیلے
مہیب بن تھا چہار جانب
کٹا تھا سارا سفر اکیلے
ہوا سی رنگوں میں چل رہی ہے
کھڑے ہیں وہ بام پر اکیلے
ہے شام کی زرد دھوپ سر پر
ہوں جیسے دن میں نگر اکیلے
منیر گھر سے نکل کے ہم بھی
پھرے بہت در بدر اکیلے​
 

عرفان سرور

محفلین
ابر میں برق کے گلزار دکھاتے اس کو
کاش اس رات کبھی جا کے جگاتے اس کو
شہ نشینوں پہ ہوا پھرتی ہے کھوئی کھوئی
اب کہاں ہے وہ مکیں یہ تو بتاتے اس کو
وہ جو پاس آ کے یونہی چپ سا کھڑا رہتا تھا
اس کی تو خُو تھی یہی تم ہی بلاتے اس کو
غمگساری کی طلب تھی یہ محبت تو نہ تھی
درد جب دل میں اٹھا تھا تو چھپاتے اس کو
فائدہ کیا ہے اگر اب وہ ملے بھی تو منیر
عمر تو بیت گئی راہ پہ لاتے اس کو​
 

عرفان سرور

محفلین
دیتی نہیں اماں جو زمیں آسماں تو ہے
کہنے کو اپنے دل میں کوئی داستاں تو ہے
یوں تو ہے رنگ زرد مگر ہونٹ لال ہیں
صحرا کی وسعتوں میں کہیں گلستاں تو ہے
اک چیل ایک ممٹی پہ بیٹھی ہے دھوپ میں
گلیاں اجڑ گئی ہیں مگر پاسباں تو ہے
آواز دے کے دیکھ لو شاید وہ مل ہی جائے
ورنہ یہ عمر بھر کا سفر رائیگاں تو ہے
مجھ سے بہت قریب ہے تو پھر بھی اے منیر
پردہ سا کوئی میرے تیرے درمیان تو ہے​
 

عرفان سرور

محفلین
وہ اک خیال جو اس شوخ کی نگاہ میں تھا
اسی کا عکس میرے دل کی سرد آہ میں تھا
اسی طرح وہ پرانی بہار باقی تھی
عجیب حسن سا اس حزنِ بارگاہ میں تھا
شفق کا رنگ جھلکتا تھا لال شیشوں میں
تمام اجڑا مکاں شام کی پناہ میں تھا
میں اُس کو دیکھ کے چپ تھا اسی کی شادی میں
مزا تو سارا اسی رسم کے نباہ میں تھا
سواد شہر پہ رک گیا تھا میں تو منیر
اور ایک دشت بلا میرے گھر کی راہ میں تھا​
 

عرفان سرور

محفلین
جمالِ یار کا دفتر رقم نہیں ہوتا
کسی جتن سے بھی یہ کام کم نہیں ہوتا
تمام اجڑے خرابے حسیں نہیں ہوتے
ہر اک پرانا مکاں قصرِ جم نہیں ہوتا
تمام عمر راہِ رفتگاں کو تکتی رہے
کسی نگاہ میں اتنا تو دم نہیں ہوتا
یہی سزا ہے میری اب جو میں اکیلا ہوں
کہ میرا سر تیرے آگے بھی خم نہیں ہوتا
وہ بے حسی ہے مسلسل شکستِ دل سے منیر
کوئی بچھڑ کے چلا جائے غم نہیں ہوتا​
 

عرفان سرور

محفلین
بے سُود سفر کے بعد آرام کا پل
.
پھر ہری بیلوں کے نیچے بیٹھنا شام و سحر
پھر وہی خواب تمنا پھر وہی دیوار و در
بلبلیں، اشجار، گھر، شمس و قمر
خوف میں لذت کے مسکن، جسم پر ان کا اثر
موسموں کے آنے جانے کے وہی پر نشاں
سات رنگوں کے نیلے فلک تک پرفشاں
صبح دم سونے محلے پھیکی پھیکی سہ پہر
پھول گرتے دیکھنا شاخوں سے فرش شام پر
خواب اس کے دیکھنا موجود تھا جو بام پر
خواب اس بیلوں کے نیچے بیٹھنا شام و سحر​
 

عرفان سرور

محفلین
حرف سادہ و رنگیں
.
اک کلی گلاب کی
کوچہ چمن میں بھی ہے
یاد ایک خواب کی
شام کے گگن میں ہے
اسم سبز باب کا
پر فریب بن میں ہے
نقش اک شباب کا
سایہ کہن میں ہے
اک پکارتی صدا
جبر کے گہن میں ہے
دور دور تک ہوا
کوہ اور دمن میں ہے​
 

عرفان سرور

محفلین
کس انوکھے دشت میں ہو اے غزالان ختن
یاد آتا ہے تمہیں بھی اب کبھی اپنا وطن
خوں رلاتی ہے مجھے اک اجنبی چہرے کی یاد
رات دن رہتا ہے آنکھوں میں وہی لعلِ یمن
عطر میں ڈوبی ہوئی ہے کوئے جاناں کی ہوا
آہ اس کا پیرہن اور اس کا صندل سا بدن
رات اب ڈھلنے لگی ہے بستیاں خاموش ہیں
تو مجھے سونے نہیں دیتی میرے جی کی جلن
یہ بھبھوکا لال مکھ ہے اس پری وش کا منیر
یا شعاعِ ماہ سے روشن گلابوں کا چمن​
 

عرفان سرور

محفلین
ایک دوزخی شہر پر بادلوں کے لیے دُعا
.
گرم رنگ پھولوں کا
گرم تھی مہک ان کی
گرم خون آنکھوں میں
تیز تھی چمک ان کی
سوچتا میں کیا اس کو
اس حسیں کی باتوں کو
دیکھتا میں کیا اس کے
خاک رنگ ہاتھوں کو
خوف تھا تمازت میں
عیش شب کی شدت کا
در کھلا تھا دوزخ کا
لمس لب کی حدت کا
میں جواب کیا دیتا
اس کی ان اداؤں کا
ایک شہر مردہ میں
دور کی نداؤں کا
سحر زرد باطن میں
پانچ بند اسموں کا
بن گیا تھا جسموں میں
زہر پانچ قسموں کا​
 

عرفان سرور

محفلین
سیرِ سحر آب زار بنگال
.
رخصت سرما کی صبح سرد، نم، سنگین سی
خواب خاموشی کی تہ میں اک جھلک رنگین سی
بانس کا جنگل، ہوا، پانی، پرانی جھیل کا
سبز در پر رنگ جیسے آسماں کے نیل کا
گرتے جاتے شہر دونوں سمت اک انبار میں
کھنچتی جاتی خاک میداں ایک ہی رفتار میں
ہلتے جاتے نقش سے کچھ پھیلتی دیوار پر
بجھ کے گرتے حرف سے حد سفر آثار پر
ہر طرف خوشبو ہوا میں بن میں اقرب آب کی
ایک پر اسرار خواہش دل میں مرگِ آب کی​
 

عرفان سرور

محفلین
آدھی رات میں ایک نیم وا دریچہ
.
آدھا چہرہ روشنی میں ہے آدھا کالے پردے میں
ایک آنکھ ہے سورج جیسی ایک ہے کالے پردے میں
بھید نہ اب تک باہر آیا آدھے گرے نقابوں سے
آنکھ ہمیشہ گھری رہی ظاہر اور چھپے سرابوں سے​
 

عرفان سرور

محفلین
ایک شہر میں شام
.
چلی ہوائیں باغوں میں
اڑے ہیں رنگ چراغوں میں
چھپا ہے غم آوازوں میں
کھلے ہوئے دروازوں میں​
 

عرفان سرور

محفلین
ایک بہادر کی موت
.
زخمی دشمن حیرت میں ہے
ایسا بھی ہو سکتا ہے
اس کو شاید خبر نہیں تھی
اب وہ گہری حیرت میں ہے
آسمان پر رب ہے اس کا اور صدائیں یاروں کی
آس پاس شکلیں میں اس کے لہولہان سواروں کی
دل میں اس کے خلش ہے کوئی، شاید گئی بہاروں کی
کھیل ذرا انہونی کے دیکھو اور جفا غداروں کی
فتح کے موت ملی اسے گھر سے دور دیاروں کی​
 

عرفان سرور

محفلین
ایک لمحہ تیز سفر کا
.
اک ربن کسی کی زلفوں کا
بیمار مہک کسی جنگل کی
رنگین جھلک کسی بادل کی
دروازے بڑے مکانوں کے
کچھ پھول کھلے دالانوں کے
کچھ رنگ چھپے ویرانوں کے
فانوس کھلی دکانوں کے
اک لڑی میں اڑتے آتے ہیں
اور واپس مرتے جاتے ہیں​
 
Top